یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ چرکین کے یہاں فحاشی بہت کم ہے، پشواز غزل عنایت اور اگر کلام کے ذریعہ لذت پیدا کرنے یـا حاصل کرنے کی شرط کو سب سے اہم قرار دیں تو چرکین کا کلام ایسا کلام نہیں ہے کہ اسے بچوں یـا بہو بیٹیوں کو پڑھایـا جاسکے یـا اسے ان کے سامنے پڑھا جاسکے-اس شرط کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں۔لیکن یہ شرط چرکین کے لیے انوکھی نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے پہلے کا کوئی اردو شاعر شاید ایسا نہیں کہ اس کے کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ خلاف تہڈیب نہ کہا جاسکے۔ لیکن خلاف تہذیب بھی اضافی اصطلاح ہے۔ آخر دنیـا مـیں ایسی فلمـیں روزانہ بنتی ہیں جنہیں اے یعنی اڈلٹ سرٹیفکیٹ دیـا جاتا ہے۔۔ یعنی وہ صرف بالغوں کے لیے ہوتی ہیں لیکن وہ بے کھٹکے تمام سنیما گھروں مـیں دکھائی اور دیکھی جاتی ہیں۔ بہت چھوٹا بچہ تو خیرلیکن عام حالات مـیں ٹکٹ گھر کا بابو ٹکٹ خے والے سے بلوغت کا ثبوت تو نہیں مانگتا۔ اور پھر اب تو سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا زمانہ ہے کہ جو فلم چاہیں گھر بیٹھے، دیکھ لیں۔ لہذا خلاف تہذیب کا تصور بھی اضافی اور موضوعی ہے۔شمس الرحمن فاروقی
1عشق ہے چرکیںؔ کو خوش چشم سے اغلام کا ہے منی مـیں اس کی عالم روغن بادام کا مـیل ہے اس کے بدن کا غیرت مشک ختن
عنبر سارا سے گو بہتر ہے اس گل فام کا
خود بخود بانکوں کے ڈر سے دپدپاتی ہے جو گانڑ
نے غمزے کو دیـا ہے حکم قتل عام کا
غیر سے چھپا ہرگز نہ اس کا عشق خام
ہضم ہونا غیر ممکن تھا غذائے خام کا
موت دے دہشت کے مارے ہگ دے جلاد فلک
دیکھے عالم یـار کی گر تیغ خوں آشام کا
شیخ جی کو پھر طبیبوں نے بتایـا ہے عمل
ہوگیـا پھر آج کل ان کو خلل سرسام کا
سامنے اس کے نہ کیجیے گفتگو ہر ایک سے
گو اچھالے گا بہت چرکیںؔ ہے اپنے نام کا
***
2
معطر ہوگیـا اک گو زمـیں سارا مکاں اپنا
ترا سفرہ یہ اے گل پیرہن ہے عطر داں اپنا
طلب پر ایک بوسے کی چھپا کر گانڑ بھاگو گے
یقیں تو کیـا نہ نہ تھا اس بات پر ہرگز گماں اپنا
سنے گر رستم دستاں تو ہگ دے مارے خطرے کے
غرض اظہار کے قابل نہیں درد نہاں اپنا
شب فرقت کے صدمے سے پھٹی جاتی ہے بلبل کی
بس اب اڑپاد منہ کالا کر اے باد خزاں اپنا
اٹھا سکتا نہیں اب نازک انداموں کے کنڑ غمزے
یہاں تک پادا پونی ہے یہ جسم ناتواں اپنا
چلیں گے دیکھنے جس روز گو گا پیر کا مـیلا
بنے گا مہتروں کا ٹوکرا تخت رواں اپنا
اگر نفخ شکم سے دد کچھ محسوس ہوتا ہے
ہمارا بن جاتا ہے فوراً نوحہ خواں اپنا
سخن گوئی کو کرکے ترک ادن پدن اب کیجئے
نہیں دنیـا مـیں اے چرکینؔ کوی قدرداں اپنا
***
3
موت دے دیکھے اگر خنجر مژگاں تیرا
سامنا کر نہ سکے رستم دستاں تیرا
تیرے دیوانے کے گھس جانے سے یہ خطرہ ہے
موتنے بھی کبھی جاتا نہیں درباں تیرا
کوئے جاناں کے جو باشندے ہیں ان کے آگے
باغباں گھورے سے بدتر ہے گلستاں تیرا
سن کے نالوں کو مرے چوں نہ کرے گلشن مـیں
یہ بند ہو اے مرغ خوش الحال تیرا
دیکھ اس گوہر نایـاب کے پیشاب کی بوند
جوہری نام نہ لے او درون غلطاں تیرا
قمریـاں موتنے جائیں نہ کبھی سرو کے پاس
گر چلن دیکھیں وہ اے سرو خراماں تیرا
کیـا کہیں تجھ سے کہ کیـا کیـا ہوئی چرکیںؔ کو ہوس
پائخانے مـیں بدن دیکھ کے عریـاں تیرا
***
4
مہرباں چرکیںؔ جو وہ مہتر پسر ہوجائے گا
اپنا بھی بیت الخلا مـیں اس کے گھر ہوجائے گا
نکہت گل پر گماں ہووے گا بوئے کا
یـار بن گلشن مـیں گر اپنا گزر ہوجائے گا
آگے اس کے گانڑ چرخ پیر رگڑے گا مدام
دیکھ لینا گر جواں مہتر پسر ہوجائے گا
موتنے مـیں آیـا گر دندان جاناں کا خیـال
جو گرے گا موت کا قطرہ گہر ہوجائے گا
گانڑ تک کی بھی نہ حیرت سے رہےکچھ خبر
سامنے گر شیخ کے مہتر پسر ہوجائے گا
جلوہ فرما ہوگا گھورے پہ جو وہ خورشید رو
چھوت گو کا غیرت قرص قمر ہوجائے گا
واسطے ہگنے کے آوے گا جو وہ خورشید رو
عسے بیت الخلا برج قمر ہوجائے گا
وصل کا طالب مـیں پھر چرکیںؔ نہ ہوں گا یـار سے
گھورا گھاری مـیں مرا مطلب اگر ہوجائے گا
***
5
مجھ سے جو چرکیںؔ وہ خفا ہوگیـا
رعب سے پیشاب خطا ہوگیـا
تونے نہ اس حال مـیں پوچھی خبر
دستوں سے یہ حال مرا ہوگیـا
ہگ دیـا دہشت سے شب ہجر کی
دم مرا جینے سے خفا ہوگیـا
کانچ جو اس گل نے دکھائی مجھے
شیشۂ دل چور مرا ہوگیـا
توڑتے ہو سے اپنا وضو
شیخ جی صاحب تمہیں کیـا ہوگیـا
شیخ جی اب اسکو بدل ڈالئے
آپ کا عمامہ سڑا ہوگیـا
ملتا ہوں کپڑوں مـیں اے رشک گل
عطر مجھے موت ترا ہوگیـا
حیض کے لتوں سے ترے اے صنم
گل کا گریباں قبا ہوگیـا
طائر رنگ رخ اغیـار بھی
کے ہمراہ ہوا ہوگیـا
شوخی مـیں اے شوخ ترا خون حیض
رشک وہ رنگ حنا ہوگیـا
سبزۂ خط آیـا جو چرکینؔ کو یـاد
زخم دل اور ہرا ہوگیـا
***
6
غیر کا دھک سے ہوا دل کوں سے جاری خوں ہوا
کوچۂ گیسو مـیں مجھ کو دیکھ موئی جوں ہوا
غیر جس دم پادتا ہے سن کے ہنستا ہے وہ طفل
اس کے آگے اس کا سفر دمڑی کی چوں چوں ہوا
چرک دینا سے نہ ہو کچھ پاک طینت کو خطر
گو کے پڑنے سے بھلا ناپاک کب جیحوں ہوا
چھوکرے تھے مـیرے آگے کے یہ دونوں دشت مـیں
گانڑ کھولے پھرتے تھے وامق ہوا مجنوں ہوا
ایسے افیونی کی کھجلائے ہوئی جو گانڑ لال
مغ بچے بولے کہ شیخ تیرہ رو مـیموں ہوا
غیر نے پادا جو کو کا اس کبوتر باز نے
گوزکا نالہ کبوتر کا سا بس غٹ غوں ہوا
آئی ہ رنگیں بیـانی پر اگر چرکینؔ کی طبع
تازہ مضموں ہے گل آدم گل مضموں ہوا
***
7
بے_یـار سیر کو جو مـیں گلزار تک گیـا
دامن پہ گل کے حیض کے لتے کا شک گیـا
کیـا گانڑ پھاڑ منزل صحرائے نجد تھی
دو چار بھی نہ چلا قیس تھک گیـا
ہگتا تھا غیر کوئے صنم مـیں گیـا جو مـیں
بن گانڑ دھوئے خوف سے مـیرے کھسک گیـا
فضلے کی جا نکلتی ہے اب پیپ گانڑ سے
دل غیر کا یہ ہاتھ سے جاناں کے پک گیـا
ہگتے مـیں اس کی گانڑ سے نکلا جو کیچوا
نامرد غیر سانپ سمجھ کر جھجھک گیـا
پی مـیں نے جا کے ہمرہ جاناں جو کل
ہگ مارا پائجامے مـیں ایسا بہک گیـا
نشو و نمائے باغ ہے چرکیںؔ کے فیض سے
دی کھاد جس درخت کی جڑ مـیں پھپک گیـا
***
8
گو جدا اچھلے گا خوش ہوئیں گے اغیـار جدا
سر چرکیںؔ نہ کراو قاتل خوں خوار جدا
ہے پرستارئی بیمار محبت مشکل
گانڑ پھٹ جاتی ہے ہوجاتے ہیں غم خوار جدا
ناک گھسنے کے عوض گانڑ گھسی ہے یـاں تک
پٹ جدا خوں سے ہے ترسنگ درون یـار جدا
شیخ نے خوف سے رندوں کے یہ ہگ ہگ مارا
جبہ آلودہ جدا گو سے ہے دستار جدا
دسترس پاؤں تلک بھی نہیں سفرا کیسا
پہلوئے یـار سے ہوتے نہیں اغیـار جدا
گو نہ کھا دعویٰ بیجا ہے یہ او کبک دری
تیر رفتار الگ یـار کی رفتار جدا
جب چرکینؔ نہانے کو گیـا دریـا پر
گو اچھلتا ہے پڑا وار جدا پار جدا
***
9
شب کو پوشیدہ جو آنکھوں سے وہ مہ پارا ہوا
پھٹکیـاں گو کی مرے آگے ہر اک تارا ہوا
کھانے سے افیون کے پہنچی یہ نوبت شیخ جی
اس قدر پیٹ آپ کا پھولا کہ نقارا ہوا
تھے مقید اے جنوں بیت الخلائے یـار مـیں
کے مانند نکلے اپنا چھٹکارا ہوا
جا نہ اہل آبرو کو دے کبھی کندہ مزاج
حوض پاخانے مـیں کب تعمـیر فوارا ہوا
گانڑ پھٹتی ہے ہمارے ساتھ چلتے چرخ کی
خلق دنیـا مـیں نہ ہم سا کوئی آوارا ہوا
کتنی ہی رگڑی توے پر گانڑ افلاطون نے
عشق کے بیمار کا ہرگز نہ کچھ چارا ہوا
گھورنے گھورنے پہ اک مہتر پسر کو جائے گا
گر کبھی چرکین کو منظور نظارا ہوا
***
10
رند ہر اک مارے خطر کے مودب ہوگیـا
محتسب کے آتے ہی مـیخانہ مکتب ہوگیـا
لب بلب چرکینؔ سے مہتر پسر جب ہوگیـا
ہوگئی حاجت روا مقصود دل سب ہوگیـا
پڑ گیـا مہتر پسر کے چاند سے منہ کا جو عکس
چاہ مبرز بے_تکلف چاہ نخشب ہوگیـا
رفع حاجت کے لئے آیـا جو پاخانے مـیں یـار
گھورا گھاری ہی مـیں حاصل اپنا مطلب ہوگیـا
باغ باغ عاشق ہوئے ،لینڈی خوشی سے تر ہوئی
خرمن گل پر تمہارے دسترس جب ہوگیـا
خدمت بیت الخلا غیر نجس سے چھٹ گئی
چھن گئی جاگیر اس کی ضبط منصب ہوگیـا
بیٹھنا بیت الخلا مـیں غیر کو کب تھا نصیب
دستگیری سے تمہاری وہ مقرب ہوگیـا
چوں نہ کی گو اس کے آگے ہم نے رعب حسن سے
اپنا خاموشی ہی مـیں سب عرض مطلب ہوگیـا
چھوڑ دی مکھڑے پہ جس دم زلف شب گوں یـار نے
وصل کا بھی روز چرکیںؔ ہجر کی شب ہوگیـا
***
11
وصف گیسو پر دل چرکینؔ پھر مائل ہوا
پھر یہ گو عنبر بنا سب کا پسند دل ہوا
گوہا چھی چھی پر مزاج یـار پھر مائل ہوا
غیر سگ سیرت کی پھر صحبت مـیں وہ داخل ہوا
گو اٹھانے پر دل اغیـار پھر مائل ہوا
یـار کے بیت الخلا مـیں آ کے پھر داخل ہوا
پھر وہی موجیں عشق کی ہیں گانڑ پھاڑ
پھر وہی بھسمنت جل جل کر کباب دل ہوا
غیر پھر دوڑا ہوا آتا تھا ہگتا پادتا
پھر غبار کوئے جاناں موت گو سے گل ہوا
قیس کا نالہ اسے شتر پھر ہوگیـا
باد پر پھر اب مزاج صاحب محمل ہوا
پر ہوا گندا گرا دل غیر سگ سیرت کا پھر
چاہ نخشب وہ ذقن تھا پھر چہ بابل ہوا
محتسب کی گانڑ پھر پھاریں نہ کیوں کر مغ بچے
مـیکشی پر آج پھر وہ بوالہوس مائل ہوا
مـیکشوں سے شیخ پھر لگا کرنے سکیڑ
خواب مـیں شیطاں پھر اس کی گانڑ مـیں منزل ہوا
شستہ و رفتہ ہے مصرع پھر پڑھو چرکیںؔ اسے
پھر یہ گو عنبر بنا سب کا پسند دل ہوا
***
12
کی طرح منہ بھی مرے سامنے ڈھانکا
یہ آپ نے گنڑ غمزہ نکالا ہے کہاں کا
دنیـا کی نجاست سے بری گوشہ نشیں ہے
رغبت نہ کرے گو پہ کبھی زاغ کماں کا
ہیں گو کے جہاں ڈھیر وہاں خرمن گل تھے
کیـا سبز قدم باغ مـیں آیـا تھا خزاں کا
اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت
چکھا نہ متنجن کی نواب کے خواں کا
گو لرکا مگر پھول ہے اس کا رخ رنگیں
پایـا نہ پتہ ہم نے کبھی اس کے نشاں کا
سدوں کو کبابوں سے اگر دیجئے تشبیہ
پاخانے پہ عالم ہو کبابی کی دکاں کا
چرکیںؔ مرے کوچے مـیں کہیں رہنے نہ پاوے
مہتر پہ یہی حکم ہے اس آفت جاں کا
***
13
مہر وفا کے بدلے ستم یـار نے کیـا
چرکیںؔ اثر یہ آہ شرر بار نے کیـا
پڑتے ہی سر پہ گانڑ کے نیچے اتر گئی
کیـا کاٹ اے صنم تری تلوار نے کیـا
پھر ہم سے آج کل وہ لگا کرنے گنڑ اچھال
پھر ربط غیر سے دلدار نے کیـا
پھر گفتگوئے پوچھ لگی آنے بیچ مـیں
پھر بند یـار کی گفتار نے کیـا
چلتے ہی گانڑ پھٹ گئی اٹھنا محال ہے
ایسا نحیف عشق کے آزار نے کیـا
گو مـیں نہائے خوب سے جھاڑے گئے کمال
بوسہ طلب جو یـار سے اغیـار نے کیـا
اک تونے جو اے غنچہ دہن چھوڑ دیـا
بوسہ طلب جو یـار سے اغیـار نے کیـا
گودا بھی ہڈیوں کا جلا کر کیـا ہے خاک
چرکیںؔ سے یہ سلوک تپ حار نے کیـا
***
14
تونے آنا جو وہاں غنچہ دہن چھوڑ دیـا
گل پہ پیشاب کیـا ہم نے چمن چھوڑ دیـا
عطر بو سے معطر ہوا بلبل کا دماغ
اک تونے جو اے غنچہ دہن چھوڑ دیـا
کانچ اس شوخ کی جس روز سے دیکھی ہم نے
نام لینا ترا اے لعل یمن چھوڑ دیـا
صدمۂ عشق کا بوجھ اس سے اٹھایـا نہ گیـا
یہ پھٹی گانڑ کہ بس روح نے تن چھوڑ دیـا
روز و شب ہگنے سے تم اس کے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو چرکیںؔ نے وطن چھوڑ دیـا
***
15
تھا گرفتاری مـیں جو خطرہ مجھے بے_داد کا
کردیـا بیت الخلا ہگ ہگ کے گھر صیـاد کا
یـار کے قد کا جو آتا ہے مجھے ہگنے مـیں دھیـا
لینڈی استادہ پہ ہوتا ہے گماں شمشاد کا
مجھ سے رہتا تھا خفا مہتر پسر ملوا دیـا
کیـا کروں مـیں شکر گوگا پیر کی امداد کا
روبرو اعلی کے اسفل سرکشی کرتا نہیں
سامنا پھسکی سے ہوسکتا نہیں ہے پاد کا
شدت درد جدائی سے مـیں گوہوں جاں بلب
دھیـان ہے اس حال مـیں بھی اس ستم ایجاد کا
گانڑ پٹ کر حوض ہوگی رستم و سہراب کی
خنجر براں ارگ دیکھا مرے جلاد کا
ایک دن بھی دل نہ اس بت کا پسیجا قہر ہے
تھا مگر شتر نالہ دل ناشاد کا
بھر دیئے ہیں کھیت ہضمـی سے ہگ کر شیخ نے
کوئی خواہش مند اب دہقاں نہیں ہے کھاد کا
پاد نے مـیں شیخ کیـا مجھ سے کرے گا سامنا
مجھ مـیں اس مـیں فرق ہے شاگرد اور استاد کا
یہ دعا ہے روز و شب چرکیںؔ کی گوگا پیر سے
مـیں بھی اب مہتر بنوں جاکر الہ آباد کا
***
16
خطرہ ہر ایک ترک کو شمشیر سے ہوا
نو ذر کا بند ترے تیرے سے ہوا
رویـا جو اس کے دست حنائی کی یـاد مـیں
ہر اشک سرخ خون بواسیر سے ہوا
پیچس کبھی شکم مـیں کبھی سدے پڑے گئے
جس دن سے عشق زلف گرہ گیر سے ہوا
قطرہ گرا زمـین پہ جو رشک گل بنا
پاخانہ باغ خون بواسیر سے ہوا
گوگل جلا کے سیکڑوں سفلی عمل پڑھے
اس تک نہ دست رسی تدبیر سے ہوا
لبدی کو روز بھنگ کی رکھتے ہیں گانڑپر
یہ حال شیخ جی کا بواسیر سے ہوا
تاعمر دسترس نہ ہوا اس پہ ایک دن
چرکیںؔ کو عشق اس بت بے_پیر سے ہوا
***
17
کاش گھورے سے ہوئے قسمت کا تیری زر پیدا
تو بھی چرکینؔ چلن نیـاریوں کا کر پیدا
رفع حاجت کو گئے شہر سے جنگل کو جو ہم
اپنا گو کھانے کو واں بھی ہوئے سور پیدا
گردن شیخ پہ رندوں نے رکھا بار گناہ
کھاد اٹھوانے کو اچھا یہ کیـا خر پیدا
گاؤ دی غیر ہے تھپوائیے اپلے اس سے
گاؤ خانے مـیں جو ہر روز ہو گوبر پیدا
گو نہ کھا پوچ نہ رندوں کو سمجھ جھوٹ نہ بول
صوفیـا ہوش مـیں آ عقل و خرد کر پیدا
کوچۂ یـار مـی پھولا ہے جو کو کرمتا
بلبلو ہوگا پھر ایسا نہ گل تر پیدا
اس کے رتھ خانے کے دیوار پہ کہگل کیجیے
لید گر ثور فلک کی ہو زمـیں پر پیدا
کیچوے دست مـیں ااتے نہیں پیچس سے مجھے
عشق گیسو کے سبب ہوتے ہیں اژدر پیدا
وصف گیسوئے معنبر مـیں غضب چرکیںؔ نے
گو کے مضموں کئے عنبر سے بھی بہتر پیدا
***
18
آ کے جو وہ غنچہ دہن ہوگیـا
مزبلہ چرکیںؔ کا چمن ہوگیـا
دانت گرے بوڑھے ہوئے شیخ جی
گانڑ کی مانند دہن ہوگیـا
لال کیـا حیض نے سدوں کا رنگ
یـار کا پاخانہ یمن ہوگیـا
یـار نے اک دن نہ سنی غیر کی
شتر اس کا سخن ہوگیـا
گھورے پہ لاشہ ترے مقتول کا
رزق سگ و زاغ و زغن ہوگیـا
شیخ کی مـیں نہیں لینڈیـاں
بند یہ ناسور کہن ہو گیـا
ہجر مـیں او گل ترے چرکینؔ کا
سوکھ کے کانٹا سا بدن ہوگیـا
***
19
اگر اے شیخ جی چھوڑو گے پینا ساغر مل کا
پھٹےگانڑ ہوگا زور ہر مل اور خرمل کا
چمن مـیں پھینکا اس گل نے جو استنجے کے ڈھیلے کو
گلیلا بن کے توڑا سنگ دانہ اس نے بلبل کا
قلم اپنا نہ کیوں کر مشک موتے وصف لکھنے مـیں
ختن ہے چین گیسو مشک نافہ حلقہ کا کل کا
ٹپکتا رنگ گل ہر عضو سے ہے بل بے_رنگینی
گلاب قسم اول کیوں نہ ہو پیشاب اس گل کا
سر محفل بٹھاؤ مـیخ پر ہے غیر ہرجائی
علاج اس سے نہیں بہتر اس کی گانڑ کی چل کا
لگا ہے گو تری ایڑی مـیں بولا بدگمانی سے
کہا جب مـیں نے کیـا ہی حسن ہے شان و تحمل کا
مثل مشہور ہے پڑتا ہے گو گانڑ مـیں چرکیںؔ
لب شیریں کا بوسہ لو نہیں موقع تامل کا
***
20
سرو ہی کھینچ کے قاتل جدھر کو جا نکلا
ہگا ہگا دیـا سب کو پدا پدا نکلا
نظر پڑے جسے وہ ہاتھ اس کو دست چھٹے
کبھی جو باغ سے مل کر وہ گل حنا نکلا
حقیقتاً ہے عجب گانڑ پھاڑ منزل عشق
ادھر سے جو کوئی نکلا وہ پادتا نکلا
یہاں تلک تو رہا ضبط راز عشق مجھے
نہ انجمن مـیں کبھی بھی مرا نکلا
پڑا ہے صورت مردار جس جگہ چرکیںؔ
کبھی نہ لید اٹھانے بھی کوئی آ نکلا
***
21
اس گل عذار کا جو گزر ناگہاں ہوا
فیض قدم سے گھورا ہر اک گلستاں ہوا
مرغ چمن کا نالہ اڑا دوں گا پاد سا
گو کھانے کو عبث وہ مرا ہم زباں ہوا
مـیرے نا کان پھوڑئے ب گو نہ کھائیے
بولا وہ ناز سے جو مـیں گرم فغاں ہوا
پیشاب آ کے جو بعد دیوار کر چلے
بیت الخلا تمہارا ہمارا مکاں ہوا
گو کھانے پھر نہ آئیں گے اغیـار سگ سرشت
بیت الخلا کا بند اگر نابداں ہوا
پوری تو گانڑ دھونی نہیں آتی شیخ کو
پھر پاد کر وضو جو کیـا رائگاں ہوا
گو مـیں نہائے غیر نہانے کو جب وہ شوخ
چرکیںؔ کے ساتھ جانب دریـا رواں ہوا
***
22
اگر بیت الخلائے یـار چرکیںؔ کا مکاں ہوگا
وہیں تسکین دل ہوگی وہیں آرام جاں ہوگا
سمند نکلے گا تو جاں خفت سے جائے گی
یہ گھوڑا تو سن روح رواں کے ہم عناں ہوگا
مریض سلسل البول اک جہاں ہے تیری دہشت سے
یقیں ہے دل کو قارورے کا شیشہ آسماں ہوگا
بہت اغیـار دم بھرتے ہیں ہردم جاں نثاری کا
چھپا کر گانڑ بھاگیں گے جو وقت امتحاں ہوگا
کہا اہل زمـیں نے دیکھ طفل اشک کو مـیرے
پھٹےپیر گردوں کی جو یہ لڑکا جواں ہوگا
اگر تعریف بھی کیجیے تو ہوجاتے ہو کھسیـانے
چرک پدنانہ تم سا بھی کوئی اے مہرباں ہوگا
ہگے دیتے ہیں مرغان چمن صیـاد کے ڈر سے
یقیں ہے گو سے لت پت اے صبا ہر آشیـاں ہوگا
وبا نے مار ڈالا کیسے کیسے ہگنے والوں کو
مقرر اس برس کچھ کھاد کا سودا گراں ہوگا
شب فرقت یہ گو اچھلے گا چرکیںؔ کے تڑپنے سے
ستارے پھٹکیـاں مہ چھوت گھورا آسماں ہوگا
***
23
کون یـاں وارفتہ ہے خوباں کے مشکیں خال کا
دل ہمارا شیفتہ ہے زاغ کے پیخال کا
گو م اک ایسا لگیـا ہے پرانی چال کا
دل شگفتہ ہو گیـا ہے اس سے مجھ بے_حال کا
یـار کی دعوت کریں کیـا گانڑ مـیں گو بھی نہیں
یہ مثل سچ کہتے ہیں کیـا حوصلہ کنگال کا
بیٹ ہاتھ آتی نہیں خواجہ سرائے کہنہ کی
وقر ہے دنیـا مـیں کتنا اس پرانے مال کا
فتنۂ محشر وہیں ہگ دیوے مارے خوف کے
گر سنے وہ شور پائے یـار کی خلخال کا
کانچ اس کی دیکھ کر چرکیںؔ نہ ہو کیوں باغ باغ
خوش نما ہوتا ہے ایسا پھول کب کچنال کا
***
24
غیر واں جا کے مار آیـا
بزم جاناں سے شرمسار آیـا
صورت بوئے یـار آیـا
باؤ کے گھوڑ پر سوار آیـا
گرگ و شیر و پلنگ کو و ترک
لینڈی کتے کی موت مار آیـا
جب بڑھا اپنے موت کا دریـا
وار آیـا نظر نہ پار آیـا
اک نہ اک عارضہ رہا ہم کو
تھم گئے دست تو بخار آیـا
ہگ دیـا ڈر کے سوچ کر انجام
زیر پا جب کوئی مزار آیـا
نہ ہوا صاف گانڑ تک رگڑی
یـار کے دل مـیں جب غبار آیـا
کھاد پڑنے لگی چمن مـیں پھر
بلبلو موسم بہار آیـا
شیخ صاحب تھے فرط نفخ سے تنگ
نکلا تو پھر قرار آیـا
طفل مہتر کو دل دیـا چرکیںؔ
کیسے گہیل پہ تجھ کو پیـار آیـا
***
25
لگا کر غیر کے اتنا بھی چرکا
بھرا سب ہگ کے پاجامہ ادھر کا
ہگوڑاگزرا ہے ادھر سے
پٹا ہے گو سے رستہ بحر و بر کا
ترے اٹھتے ہی او رشک گلستاں
ہوا گھورے سے بدتر حال گھر کا
نمک بھوسی کو تم خصیوں مـیں باندھو
خلل ہے شیخ جی گر درد سر کا
جو آنکھوں نے نہ دیکھا تھا سو دیکھا
اٹھا پردہ جو پاخانے کے درون کا
کسی دن غیر کی پھٹ جائیگی گانڑ
یہی ہگنا ہے گر دو دو پہر کا
پڑا ہوگای گھورے پہ چرکیںؔ
پتا کیـا پوچھتے ہو اس کے گھر کا
***
26
چرکیںؔ رہا نہ پاس تجھے نام و نننگ کا
پائل ہوں اپنے نشۂ مے کی ترنگ کا
چلتی ہے گانڑ پھرنے کی طاقت نہیں رہی
لت پت ہے گو سے سارا بچھونا پلنگ کا
سدوں پہ سدے نکلے ہی آتے ہیں متصل
ہےشیخ یـا کہ ہے مہرا سرنگ کا
قبض الوصول لے کے بھی دیتا نہیں ہے گو
ممسک مزاج ایسا ہے اس شوم و شنگ کا
یـاں تک ہیں چرخ سفلہ سے زوباہ بازیـاں
لینڈی سے بند ہے شیر و پلنگ کا
گو مـیں جلے ہیں ہڈیـاں نادر سے شخص کی
انجام ہے یہ ظالم پرریوں رنگ کا
سر سیکھنا نہ تو کبھی گندھار کے سوا
چرکیںؔ اگر ہو شوق تجھے راگ و رنگ کا
***
27
بھلا کیوں کر نہ آئے دست اے چرکیںؔ مجھے خوں کا
تصور جب بندھے ہگنے مـیں اس کے روئے گلگوں کا
دکھائے گا اگر وہ بحر خوبی چشم کی گردش
یقیں ہے حوض ہو جائے گا سفرا پیر گردوں کا
دلائی کیچوؤں نے یـاد اس زلف معنبر کی
کھڑی لینڈی کو دیکھا دھیـان آیـا قد موزوں کا
یہ گو کھانا ہے جو دولت کما کر جمع کرتے ہیں
سنا تم نے نہیں کیـا غافلو افسانہ قاروں کا
مبس بار ریـاضت سے وہ پر پر پادے دیتے ہیں
گماں ہے شیخ جی کی گانڑ پر لڑکوں کی چوں چوں کا
ہزاروں پیچ اٹھیں پیٹ مـیں دہشت سے ہگ مارے
سنے گر سانپ افسانہ بتوں کی زلف شب گوں کا
نہ کرنا عشق اس کے خال مشکیں سے کبھی چرکیںؔ
نہایت گانڑ پھاڑے گا تری یہ نشہ افیون کا
***
28
پاخانہ وہیں ہوگیـا گلزار تمہارا
کھڈی مـیں گرا ٹوٹ کے جب ہار تمہارا
وہہے جس سے نہیں قارورہ ملا ہے
بندے ہی پہ موقوف نہیں پیـار تمہارا
منہ گانڑ ہے جو بات ہے وہ شتر ہے
انکار سے بدتر ہے یہ اقرار تمہارا
ہگتا ہے بچھونوں پہ نہیں گانڑ کا بھی ہوش
اس حال کو اب پہنچا ہے بیمار تمہارا
ہگ مارا ہے پہچان کے مرقد کو ہماری
گزرا ہے جو اس سمت سے رہوار تمہارا
ناپاک ہیں اغیـار تم ان کو نہ کرو قتل
ہوئے گا نجس خنجر خوں خوار تمہارا
پیدا ہوں ہر اک دانے کی جا سیکڑوں خرمن
گو مول لے چرکیں جو زمـیندار تمہارا
***
29
دیکھیں جو کاٹ خنجر ابروئے یـار کا
چر جائے سفرا رستم و اسفند یـار کا
کنول کا پھول ہے اس بحر حسن کی
جھانٹوں مـیں اس کے صاف ہے عالم سوار کا
بیت الخلائے یـار مـیں کیـا غیر جاسکے
دہشت سے بند ہے اس نابکار کا
پیشاب سے منڈائیں نہ کیوں داڑھی شیخ جی
رندوں کو دھوکا ہوتا ہے موئے زہار کا
ہوجائے حوض ماہئ بے_ااب کی بھی گانڑ
عالم بیـاں کروں جو دل بے_قرار کا
پھولے پھلے ہر اک شجر خشک باغباں
تھالوں مـیں گو پڑے جو مرے گل عذار کا
ناوک کا تیر ہے اور گانڑ ہے تفنگ
ہو کیوں نہ شوق یـار کو چرکیںؔ شکار کا
***
30
نہ غیر سے اے یـار ربط کر پیدا
نہیں زمانے مـیں اس سا کوئی لچر پیدا
جو ایک دست بھی آوے تو جان جاتی ہے
ہوا نے آج کل ایسا کیـا اثر پیدا
چمن مـیں جاتا ہوں تجھ بن تو بوئے گل سے مرا
دماغ سڑتا ہے ہوتا ہے درد سر پیدا
قلق کے مارے گھسی گانڑ رات بھر مـیں نے
ہوئی نہ اس پہ شب ہجر کی سحر پیدا
جو حال دل کہوں کہتا ہے گو نہ کھا چرکیںؔ
زیـادہ ے سے ہوتا ہے درد سر پیدا
***
31
اب کے چرکیںؔ جو زر کماؤں گا
پائخانے مـیں سب لگاؤں گا
موتنے پر کبھی جو آؤں گا
سیر دریـا اسے دکھاؤں گا
تیرے گھر سے جو اب کے جاؤں گا
موتنے بھی کبھی نہ آؤں گا
پائخانے مـیں گر لگےآگ
موت موت اس کو مـیں بجھاؤں گا
ہوں وہ منصف کہ گو گا پیر کا مـیں
شہد پر فاتحہ دلاؤں گا
صدمۂ عشق سے ہے غیر کا قول
پھر کبھی ایسا گو نہ کھاؤں گا
فخر ہوگا مرا مـیں عاشق ہوں
گو بھی گر آپ کا اٹھاؤں گا
غیر جو چڑھ گیـا ہتھے
دیکھنا کیسا انگلیـاؤں گا
طرفہ یہ چہل ہے رقیبوں کو
گانڑ گھسواؤں گا پداؤں گا
سامنے اپنی راحت جاں کے
خوب گنڑ چتڑیـاں لڑاؤں گا
سر فرہاد کی قسم چرکیںؔ
لب شیریں پہ زہر کھاؤں گا
***
32
غیر تب بولائیگا جب وہ خفا ہوجائے گا
دست پاجامے مـیں دہشت سے خطا ہوجائے گا
نوجوانو ضعف پیری پر مرے ہنستے ہوکیـا
آگے آئے گا یہ دریـا کاہگا ہوجائے گا
بند انگیـا کے نہ بندھوا غیر سے ہے ڈوریـا
پاک دامن ہے نجس جوڑا ترا ہوجائے گا
گانڑ مـیں گھس جائےساری مشیخت شیخ جی
جب یہ عمامہ پرانا اور سڑا ہوجائے گا
شافہ لے لے قبض کے مارے جو بولا یـا ہے غیر
دست جوآئے گا وہ دست شفا ہوجائے گا
اے سگ لیلیٰ وہ مجنوں اور سودائی ہوں مـیں
جو مجھے کاٹے گا کتا باؤلا ہوجائے گا
جانہ دے بیت الخلا مـیں غیر سگ سیرت کو جان
خوب گو اچھلے گا رسوا جا بجا ہوجائے گا
باؤ پر اب خاکروب کوئے جاناں جو ہے غیر
پاد سا اڑ جائے گا جب وہ خفا ہوجائے گا
ناز سے بولا دم رخصت نہ آنا پھر کبھی
ورنہ اے چرکیںؔ یہ گھر بیت الخلا ہوجائے گا
***
33
قبض سے اب یہ حال ہے صاحب
پادنا بھی محال ہے صاحب
روتے انسان کو ہنساتا ہے
پاد مـیں وہ کمال ہے صاحب
پاس سے دور اچک کے جا بیٹھے
یہ کوئی گنڑ اچھال ہے صاحب
گانڑ کی طرح منہ چھپاتے ہو
شرم تم کو کمال ہے صاحب
غیر نے پادا پادا خوب کیـا
تم کو کیوں انفعال ہے صاحب
ہے بواسیر غیر کو شاید
زرد منہ گانڑ لال ہے صاحب
شیخ صاحب سر مبارک پر
یہ سڑی سی جو شال ہے صاحب
رند کہتے ہیں پھبتیـاں اس پر
لینڈی کتے کی کھال ہے صاحب
ضعف سے جھانٹ اکھڑ نہیں سکتی
زیست بھی اب وبال ہے صاحب
چوں کرے سامنے ہمارے غیر
کب یہ اس کی مجال ہے صاحب
پیو چرکیںؔ کھاؤ کباب
اک حرام اک حلال ہے صاحب
***
34
یـار بن کو خوش آتی ہے نوائے عندلیب
چپ رہے گلشن مـیں اتنا گو نہ کھائے عندلیب
بس کہ یک رنگی ہے حسن و عشق مـیں اے دوستو
سے اس گل کے آتی ہے صدائے عندلیب
درد کا شربت اسے دیوے اگر تو باغباں
گو کے نالے باغ مـیں ہگ ہگ بہائے عندلیب
اتحاد عاشق و معشوق سے کیـا ہے عجب
طفل غنچہ کو جو پاؤں پر ہگائے عندلیب
ڈھیر ہگ ہگ کر کیـا ہے اس نے چرکیںؔ ہر طرف
اب تو ہے کنج چمن بیت الخلائے عندلیب
***
35
نہ آئی ہجر مـیں کروایـا انتظار بہت
اجل نے بھی کئے گنڑ غمزے مثل یـار بہت
نہ موڑا کھانے سے منہ کو تو پھر چلےگانڑ
وبا ہے شہر مـیں ہیضے کی ہے پکار بہت
مثل ہے کافی ہے چیونٹی کو موت کاریلا
ضعیف ہوں مجھے ہے جسم آشکار بہت
خود آپ گانڑ مراتے ہو صید گہہ سے تم
شکار آپ کیـا چاہیں تو (ہیں) شکار بہت
قبائے گل کی وہ بو جانتے ہیں گو کی بو
جنہیں پسند ہے بوئے لباس یـار بہت
جہاں تھے خرمن گل واں پڑے ہیں گو کے ڈھیر
کیـا ہے باد خزاں نے چمن کو خوار بہت
نہ اپنی لاش کے اٹھنے کی فکر کر چرکیںؔ
حلال خور بہت شہر مـیں چمار بہت
***
36
بے_قراری ہے تیری اے دل ناشاد عبث
بے_اثر کے مانند ہے فریـاد عبث
تو سہی مزبلہ گھر اس کا ہو ہگتے ہگتے
قید کرتا ہے قفس مـیں ہمـیں صیـاد عبث
چوں نہ کی شیخ نے محفل مـیں کبھی رندوں کی
کانا پھوسی مـیں ہے یہ تہمت الحاد عبث
پادا پونی ہوں کفایت ہے مجھے موت کی دھار
قتل کرنے کو بلاتے ہیں وہ جلاد عبث
کھڈیـاں بن گئیںریٰ کے جلو خانے مـیں
غافلو قصر و عمارت مـیں ہیں ایجاد عبث
پیٹ مـیں فضلۂ ناپاک بھرا رہتا ہے
کیـا طہارت مـیں یہ شک کرتے ہیں زہاد عبث
کچھ بھی دایـا کو نہ شیریں نے سزا دی چرکیںؔ
بہہ گیـا نہر مـیں خون سر فرہاد عبث
***
37
شعلۂ رخسار جاناں ہے چراغ خانہ آج
شمع ہوگی گانڑ مـیں آیـا اگر پروانہ آج
محتسب آیـا تو ہوگی شمع مـینا گانڑ مـیں
مغ بچوں کا دور ہے گردش مـیں ہے پیمانہ آج
کل جو تیرے قید گیسو سے چھٹا تھا اے پری
کو بہ کو گو تھا پتا پھرتا ہے وہ دیوانہ آج
مانو کہنے کو ہمارے آپ کی چر جائے گی
ہے چیـاں سی گانڑ ہاتھی کا نہ لو بیعانہ آج
غیر کو بیت الخلائے یـار کی خدمت ملی
دیتے ہیں مہتر گل آدم اسے نذرانہ آج
نعمتیں دنیـا کی سب کل تک مـیسر تھیں جنہیں
لید مـیں کا بھی نہیں ملتا ہے ان کو دانہ آج
خوب سوجھی ہگ ہی دیتے گو اچھلتا فرش پر
بھاگتے گر شیخ محفل سے نہ بے_تابانہ آج
وصل کا وعدہ کیـا بیت الخلا مـیں یـار نے
پنجۂ مژگاں سے جھاڑاچاہئے پاخانہ آج
خواہش آرائش گیسو ہے چرکیںؔ یـار کو
چاہئے پنجے کی ہڈی کا بنادیں شانہ آج
***
38
بے_ڈول ہے کچھ آپ کے بیمار کی طرح
گھورے پہ اس کا حال ہے مردار کی طرح
کاشیخ جی کی یہ دستوں سے حال ہے
ہر دم کھلی ہے روزن دیوار کی طرح
بھاگے ہیں دم دبا کے یہ خطرہ ہے آپ کا
گو درز و سام گوم سے رہوار کی طرح
دل لے گئے وہ گانڑ مـیں سرڈال کے مدام
بیٹھا رہوں مـیں گھر مـیں عزادار کی طرح
کی شکل منہ بھی چھپانا ضرور ہے
بے_پردہ ہو نہ مردم بازار کی طرح
بیمار غم کی گانڑ کے ڈھب پر چلیں جو آپ
کبک دری اڑائےرفتار کی طرح
شتر سے کم نہیں تقریر آپ کی
اب ہے کچھ اور ڈول پہ اقرار کی طرح
منہ پر ہمارے چھوڑ دیں آ آ کے پھسکیـاں
طرفہ نکالی آپ نے یہ پیـار کی طرح
چرکیںؔ دل اس کے نذر کروں اس ادا کے ساتھ
ہگ دے جو مـیرے یـار طرحدار کی طرح
***
39
دانت مہتر کے ہیں پانوں سے ہوئے سارے سرخ
یـا شفق مـیں نظر آتے ہیں ہمـیں تارے سرخ
کون سے کونئی حیضی کو اجی قتل کیـا
پاؤں تک سر سے نظر آتے ہو تم پیـارے سرخ
جیسی کرتا ہے کوئی ویسی ہی پیش آتی ہے
کھائے جو آگ ہگے گا وہی انگارے سرخ
شیخ جی گانڑ سے سدوں کا نکلنا ہے محال
کونتھتے کو نتھتے ہوجائیں گے رخسارے سرخ
ذبح فرما کے جو دریـامـیں اسے پھینک دیـا
خون چرکیںؔ سے نظر آنے لگے دھارے سرخ
پادنے کی بھی خبر لے گئی وہ چوری سے
بن گئی حق مـیں مرے آپ کی ہرکاری سرخ
شیخ کی گانڑ سے نکلا جو بواسیر کا خون
سینکتے سینکتے سب بن گئی پچکاری سرخ
***
40
مارے خطرے کے ہوا وہ بت بے_پیر سفید
دست بد ہضمـی سے بیٹھا جو مـیں دل گیر سفید
گانڑ سے غیر کی یہ خون بواسیر بہا
شدت ضعف سے ہے جسم کی تعمـیر سفید
وصف لکھنا ہے تری کانچ کا اوسیم اندام
کیوں نہ ہو رنگ محترر دم تحریر سفید
چھوت سے تیرے جو اے مہر اسے دی تشبیہ
ہوگئی اور بھی مہتاب کی تنویر سفید
یـاد مـیں افعی گیسو کی بنی اے چرکیںؔ
چشم ہر ایک مثال قدح شیر سفید
***
41
اپنے نوخط کو جو چرکینؔ نے لکھا کاغذ
عطر نایـاب ہے گو گل سے بسایـا کاغذ
اب تلون نے سکھائے ہیں انہیں گنڑ غمزے
کبھی نیلا ہمـیں بھیجا کبھی اودا کاغذ
اس نے لکھی ہے لفافے پہ جو ادن پدن
یہ کنایـا ہےی کو نہ سنانا کاغذ
سلسل البول کی مانند رہے ڈاک رواں
اتنے خط لکھوں زمانے سے ہو عنقا کاغذ
گوہا چھی چھی کے جو مضمون تھے تحریر اس مـیں
یـار نے موت کے دریـا مـیں بہایـا کاغذ
نین متنے ہو مرے رمز کو پہچانو گے
لکھ کے چونے سے ہے اس واسطے بھیجا کاغذ
قاصدو غم سے یہاں گانڑ کا بھی ہوش نہیں
کا لکھناے خط کہتے ہیں کیسا کاغذ
***
42
جو شیفتہ رہے رخسار و قد دل بر پر
کبھی نہ موتے وہ جاکر گل و صنوبر پر
یہ سیتلا سے ہے غیر نجس کے منہ کا حال
وہ جانتے ہیں کہ اولے پڑے ہیں گوبر پر
پھنسی ہے قبض سے مـیں شیخ کی لینڈی
ہزار طرح کے صدمے ہیں جان مضطر پر
نہ حرف چوں و چرا ان سے درمـیاں آئیں
جو رگڑیں گانڑ بھی اغیـار آپ کے درون پر
نہ روئیو کبھی چرکینؔ جا کے گلے مـیں
گمان ہوگا بدر رو کا دیدۂ تر پر
***
43
لینڈیـاں گو کی مـیں سمجھا مار پیچاں دیکھ کر
شبہ گھورے کا کیـا مـیں نے بیـاباں دیکھ کر
ہوگیـا انزال اے جاں مجھ کو گریـاں دیکھ کر
جل گئیں جھانٹیں تری زلف پریشاں دیکھ کر
گڈیوں کے کپڑوں کا مجھ کو کفن دو ہمدمو
مرگیـا ہوں سرخ مـیں پوشاک جاناں دیکھ کر
اس کو پیچش کا خل بتلاتے ہیں سارے طبیب
جو ہوا بیمار وہ گیسوئے پیچاں دیکھ کر
جمع رکھو ہوش مـیں دشمن نہیں ہوں گانڑ کا
مجھ کو شہوت ہے جو پاخانے مـیں عریـاں دیکھ کر
اے گل ترجانتا ہوں اس کھڑی لینڈی سے کم
باغ مـیں استادہ وہ سرد خراماں دیکھ کر
***
44
چر نہیں جانے کی قاتل تری تلوار کی گانڑ
کھینچ کر اس کو اگر پھاڑ دے اغیـار کی گاڑ
صحت اک دن نہ مریض غم فرقت کو ہوئی
باندھتے باندھتے نسخے پھٹی عطار کی گانڑ
سر بازار ترے حسن کی قیمت سن کر
دپد پانے لگی ہر ایک خریدار کی گانڑ
سن کے نالوں کو مرے کہتا ہے گل چیں چپ رہ
بس بہت پھاڑ چکا بلبل گلزار کی گانڑ
ہوں وہ سفلہ کبھی چوموں کبھی چاٹوں اس کو
گو بھری بھی جو مـیسر ہو طرحدار کی گانڑ
طاقت اٹھنے کی نہیں ضعف سے پھرنا کیسا
آج کل چلتی ہے ایسی ترے بیمار کی گانڑ
مرے آلت پہ وہ دوڑاتا ہے ہاتھ اے چرکیںؔ
چل چلاتی ہے مگر آج کل اس یـار کی گانڑ
***
45
بلند ہو جو کبھی یـار کی آواز
نہ نکلے سامنے اس کے ستار کی آواز
جو گوش زد ہےی گل عذار کی آواز
صدائے شتر ہے ہزار کی آواز
چمن مـیں پاد کے اس رشک گل نے ہگ مارا
صبا نے بھی نہ سنی اس بہار کی آواز
عجب ہے کیـا جو پھٹے گانڑ شیخ صاحب کی
سنیں جو نشہ مـیں مجھ بادہ خوار کی آواز
یقیں ہے خوف سے اس کی بھی دپدپائے گانڑ
سنے جو قیس دل بے_قرار کی آواز
***
46
جو دیکھے چرکیں کی یہ چشم خوں فشاں نرگس
تو سمجھے نالے سے کم نہر بوستاں نرگس
بعینہ اس کو خیـابان گل نظر آئے
نگاہ غور سے جو دیکھے کھڈیـاں نرگس
نظیر باغ ہے پاخانہ اس گل تر کا
جو ہے بدر رو تو ناہداں نرگس
چمن مـیں دھویـا جو اس گل نے چیپٹر آنکھوں کا
ہوئی یہ دیکھ کے بیمار و ناتواں نرگس
نہیں ہے قطرۂ شبنم گوہا نجنی نکلی
پھٹی ہے گانڑ ہے اس غم سے خوں فشاں نرگس
ہے لال پیک ہر اک طفل غنچہ آنکھوں مـیں
سمجھتی ہے گل تر گو کی پھٹکیـاں نرگس
بہار باغ گیـا دیکھنے جو مـیں چرکیںؔ
ہوئی ہے دیکھ کے درجہ بدگماں نرگس
***
47
انہیں سکتا ہے گو چرکیںؔ ہمارے درون کے پاس
موت کا دریـا بھرا رہتا ہے اپنے گھر کے پاس
ہٹ کے سڑئے ہگ نہ دینا مجھ سے کہتا ہے کہیں
بیٹھ جاتا ہوں اگر مـیں اس پری پیکر کے پاس
کھینچ لو گے مـیان سے جب غیر کے آگے اسے
سر تو کیـا ہے گانڑ تک رکھ دے گا وہ خنجر کے پاس
پائخانے کی مجھے ہوتی جس دم احتیـاج
کون جائے دور ہگ دیتا ہوں مـیں بستر کے پاس
جو کہ اس مـیں ہے کہاں ایسی ہے اس مـیں آب و تاب
موت کے قطرے کو رکھ دیکھو مرے گوہر کے پاس
مجھ کو گنڑ غمزے تمہارے ایسے خوش آتے نہیں
پاؤں پھیلائے ہوئے بیٹھے ہو مـیرے سر کے پاس
گلشن ہستی مـیں مـیں بھی قدر مشہور ہوں
کھاد لینے باغباں آتے ہیں مجھ مہتر کے پاس
دل مـیں جب آئے گا چرکیںؔ پڑ رہیں گے جا کے ہم
کچھ نہیں ہے دور گھورا ہے ہمارے گھر کے پاس
***
48
عبث کھاد اے باغباں کی تلاش
گئی فصل گل رائگاں کی تلاش
وہ ہیں ہم نجس لینڈی کتوں کو بھی
ہمارے ہی ہے استخواں کی تلاش
لیـا شیخ صاحب نے بول الملک
کریں خاک پیر مغاں کی تلاش
یقیں ہےی دن ہگائےہینگ
ہمـیں یـار نا مہرباں کی تلاش
جو ہو ان کے سفرے کی خوشبو نصیب
نہ پھر کیجئے عطرداں کی تلاش
کسی کے بھی روکے سے رکتا ہے گوز
عبث مجھ کو ہے پاسباں کی تلاش
نہ کھڈی نہ پاخانے مـیں وہ ملے
پھرے جا کے خالی جہاں کی تلاش
بھری گو سے فرقت مـیں چلتی ہے گانڑ
کہاں کی تجسس کہاں کی تلاش
محلے مـیں چرکیںؔ کے موجود ہیں
اگر آپ کو ہے مکاں کی تلاش
***
49
شتر بنا مری فریـاد کا خواص
بدلا کبھی نہ اس ستم ایجاد کا خواص
پاخانہ اس کے دور مـیں مقتل سے کم نہیں
سیکھا ہے صاف حیض نے جلاد کا خواص
چورن کے بدلے شیخ اسے کھا کے دیکھ لے
معلوم ابھی نہیں ہے تجھے کھاد کے خواص
بیت الخلا مـیں بیٹھ کے خوش ہے وہ شرمگیں
روتے کو بھی ہنسائے یہ ہے پاد کا خواص
ایسا نہ ہو کہ گانڑ کی سدھ بدھ نہ پھر رہے
دیکھیں گے آپ نالہ و فریـاد کا خواص
بندر کی گانڑ کیوں نہ کھجانے سے منہ بنے
مشہور ہے جہان مـیں یہ داد کا خواص
سدوں مـیں خرمـیوں کی ہے لذت بھری ہوئی
مـیں اس صنم کے ہے قناد کا خواص
اے ترک خانہ جنگ تری دھار موت کی
رکھتی ہے صاف خنجر فولاد کا خواص
پاخانہ شیخ جی کا بواسیر سے ہے سرخ
رنگت مـیں اس کے حون کی ہے گاد کا خواص
گلیوں مـیں مثل قیس نہ گو تھاپتا پھرے
چرکیں بنے جو یـار پری ماد کا خواص
***
50
پیٹ بھرتا نہیں ہے آج بہت پیـاری حرص
گانڑ کی راہ نکل جائےکل ساری حرص
گانڑ کے گو کو بھی کہتے ہیں نہ لے جانے دو
واہ کیـا گھر مـیں امـیروں کے ہے اب جاری حرص
دعوت موت ہے جوع البقروں کا ہگنا
نقد جاں ان سے دلائےگنہگاری حرص
طرح لاد کے ممسک اسے پہچائیں گے
پادا پونی سا بدن اور بہت بھاری حرص
گرم کھانوں سے جو نکلے گا بواسیر کا خون
پائخانے مـیں دکھائےیہ گل کاری حرص
کھاد کو بیچ کے تابوت کے ہوں گے ساماں
بعد مرنے کی کرے گئی یہ پرستاری حرص
جاکے محلوں سے امـیروں کے پڑے گھورے پر
معرکہ جیت کے چرکینؔ گئے ہاری حرص
***
51
خس و خاشاک دیـا چرخ نے بستر کے عوض
مزبلے کی یہ زمـیں ملک مـیں ہہے گھر کے عوض
او پری رو تیری کا وہ دیوانہ ہوں
خشت پاخانہ لگے قبر مـیں پتھر کے عوض
کون سے غیرت مہتاب کا پاخانہ ہے
پھٹکیـاں گو کی نظر آتی ہیں اختر کے عوض
گوہا چھی چھی سے نہ مطلب نہ الجھنے سے غرض
خیز کے ان سے چلن چلتے ہیں ہم شر کے عوض
شیخ صاحب کو نہیں پاس حلال اور حرام
سدے پاخانے مـیں کھا جاتے ہیں کولر کے عوض
پائخانے کاجو فضلہ ہے اٹھانا منظور
شیخ صاحب کو بلا لیجئے اب خر کے عوض
گرمئ نزع مـیں چرکیںؔ جو مجھے حاصل ہو
موت اس گل کا پیوں شربت شکر کے عوض
***
52
چھوڑ او پردہ نشیں مردم بازار سے ربط
گو مـیں نہلائے گا اک روز یہ اغیـار سے ربط
غنچۂ رشک گل تر جب دیکھے
نہ رہے بلبل ناشاد کو گلزار سے ربط
گانڑ پھاڑےیہ اغلام کی صحبت اک دن
دل کو رہتا ہے بہت دلدار سے ربط
گو سے بدتر ہے مجھے ذائقہ قند و نبات
جب سے رہتا ہے ترے لعل شکر بار سے ربط
مـیکدے سے نہ غرض مجھ کو نہ مـیخانے سے
مجھ کو چرکیں ہے شب و روز دریـار سے ربط
***
53
اتنا بھی چھوڑ دیں گے جو ہم بے_حیـا لحاظ
پھر پادتا پھرے گا یہ سب آپ کا لحاظ
ہگنے مـیں ان کے پاس گئے ہم تو یہ کہا
باقی رہا نہ تجھ مـیں کچھ او بے_حیـا لحاظ
سدے پھنسے ہیں قبض کی شدت ہے گانڑ پھاڑ
اے شیخ جی عمل کے ہے لینے مـیں کیـا لحاظ
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے کیـا جو حسن
کھودیں گے ایک روز یہ ناز و ادا لحاظ
کچھ گانڑ کی خبر نہ بدن کا رہا ہے ہوش
کپڑے اتارے پھرتے ہو کیـا یہ کیـا لحاظ
پاخانہ وہ جگہ ہے کہ ہیں ایک حال پر
اس مـیں ہو بے_لحاظ کوئی یـا کہ با لحاظ
چرکیںؔ سے منہ چھپاؤ گے بیت الخلا مـیں کیـا
بے_پردہ ہوگئے تو کہاں پھر رہا لحاظ
***
54
ساغر چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
تیرے رخ کے سامنے پروانہ بن جاتی ہے شمع
اس پری نے واہ نام حسن کیـا روشن کیـا
دیوانۂ عریـاں مـیں جلواتی ہے شمع
ہے غیر نجس کا یـا کہ آندھی روگ ہے
محفل رشک چمن مـیں گل جو جاتی ہے شمع
آئی مہتر پسر کے ساعد سیمـیں کی یـاد
بزم گھورا لینڈ کی صورت نظر آتی ہے شمع
دیکھ کر وہ ساق سیمـیں گانڑ مـیں گھس جائے گی
کیـا صباحت کی حقیقت ہے جو اتراتی ہے شمع
گانڑ دھونے نہر پر جاتا ہے جب وہ شعلہ رو
موج ہر اک اس کے جلوے سے نظر آتی ہے شمع
اس قدر وحشت فزا اپنا سیہ خانہ ہوا
جان کے خطرے سے اے چرکینؔ گھبراتی ہے شمع
***
55
عمر چرکیںؔ کا ہوا گل او بت پر فن چراغ
کھڈیوں مـیں مہتروں کی گھی کے ہیں روشن چراغ
کیـا کریں چوں و چرا کوئے دیـار حسن مـیں
اے پری رو ہے ترے پیشاب سے رشن چراغ
شب کو ہگنے کے لئے آیـا جو وہ رشک قمر
پائخانے کا نظر آیـا ہر اک روزن چراغ
جب اندھیرے مـیں وہ آئے پھٹ گئی دہشت سے گانڑ
مفلسی کے ہاتھ سے رہتا ہے بے_روغن چراغ
وہ نجس ہوں پھول کے بدلے گل آدم چڑھے
چاہئے گوبر کا اے چرکیںؔ سر مدفن چراغ
***
56
جب سے گئے ہیں کوچۂ دلدار کی طرف
چرکیں نہ جا پھرے کبھی گلزار کی طرف
مہتر پسر کے گوہر دنداں جو ہاتھ آئیں
دیکھوں کبھی نہ موتیوں کے ہار کی طرف
مـیلا ہے گوگا پیر کا چھڑیوں کی سیر ہے
چلئے نواز گنج کے بازار کی طرف
جوش جنوں مـیں ہم کو یہ پاس ادب رہا
موتے نہ او پری تری دیوار کی طرف
غیروں سے اور یـار سے گہرا ہے آب دست
اس حال مـیں وہ کیـا ہو گنہگار کی طرف
دہشت سے پھٹ کے حوض ہو ترک فلک کی گانڑ
دیکھے جو تیرے خنجر خونخوار کی طرف
چرکیںؔ کو مزبلے سے وہ ہمراہ لے چلے
جائے صبا جو محفل دلدار کی طرف
***
57
مژدۂ وصل آئے جائے فراق
ہینگ ہگتے ہیں مبتلائے فراق
ہگ چکے خون عاشق ناشاد
اب کوئی اور رنگ لائے فراق
پوتڑے ابتدا مـیں بچھتے ہیں
دیکھئے کیـا ہو انتہائے فراق
تیرے بیت الخلا مـیں رہنے دے
پا بگل وائے جو رضائے فراق
وصل سے گانڑ وہ چراتے ہیں
کیوں نہ بڑھ جائے اب جفائے فراق
غیر سے گانڑ بخیـا ہے
ان کو ہم سے نہ کیوں خوش آئے فراق
اس نے سیکھے اگھوریوں کے چلن
کیوں نہ چرکیںؔ کو آ کے کھائے فراق
***
58
دیکھتا ہوں خال سے رخسار جاناں کا تپاک
بڑھ گیـا ہندو سے اے چرکیںؔ مسلماں کا تپاک
گوہا چھی چھی ہوگی اک دن گو ہے گہرا آبدست
مدعی کو گو مـیں نہلائے گا جاناں کا تپاک
فاتحہ گو گل جلا کے دیں گے گوگا پیر کا
کم ہو غیروں سے اگر اس آفت جاں کا تپاک
دشت وحشت خیز سے کوسوں کے پلے ہوگئے
اب کہاں باقی رہا وہ جیب و داماں کا تپاک
آ کے پاخانے مـیں کیسے بے_حیـا بنتے ہیں لوگ
پائجامے سے رہے کیـا جسم عریـاں کا تپاک
گھیرے ہی رہتے ہیں اغیـار نجس اس ترک کو
لینڈیوں سے بڑھ گیـا شیر نیستاں کا تپاک
موتنے مـیں تم جلی پھسکی جو کوئی چھوڑ دو
برق سوزاں سے نہ چھوٹے ابر باراں کا تپاک
***
59
جم جائے جب کہ پاد مـیں اس دل ربا کا رنگ
اڑ جائے صاف بلبل رنگیں نوا کا رنگ
سمجھوں عروس باغ کے ہی حیض کا لہو
جس دم دکھائے ہاتھ مـیں وہ گل حنا کا رنگ
جب سے بڑھا ہے شیخ کا مہتر پسر سے ربط
بدلا ہے گوہا چھی چھی سے ان کی قبا کا رنگ
پاخانہ اس کے فیض سے رشگ چمن بنا
گندہ بہار مـیں بھی نہ بدلا ہوا کا رنگ
اس زعفراں لباس کے ہگنے مـیں یـاد ہے
سدوں مـیں کیـا عجب ہوا گر کہربا کا رنگ
ہر دست مـیں خلال کی صورت نظر پڑے
جم جائے گنجئے مـیں جو اس بے_وفا کا رنگ
اس گل بدن کے عشق مـیں چرکیںؔ بھروں وہ آہ
اڑ جائے مثل چمن کی ہوا کا رنگ
***
60
نیم بسمل نہ اسے چھوڑ کے گھر جا قاتل
چرکیںؔ کا ذرا دیکھ تماشا قاتل
موت کی دھار سے بدتر مـیں سمجھتا ہوں اسے
کو دھمکاتا ہے چمکاکے دودھارا قاتل
سہمگیں ہوگئی ایسی مری صورت دم نزع
ہگ دے دہشت سے جو دیکھے مرا لاشا قاتل
نین متنا کہیں مشہور نہ ہوجائے تو
مـیرے لاشے پہ نہ رو بیٹھ کے اتنا قاتل
قتل کی غیر نجس کے ہے اگر دل مـیں امنگ
زہر قاتل مـیں بجھا اپنا تو تیغا قاتل
سست پر دست چلے آتے ہیں لے جلد خبر
تیرے بیمار کا اب حال ہے پتلا قاتل
نزع کے وقت تو یہ گانڑ چرانا ہے عبث
ایک دم اور ٹھہر اتنا نہ گھبرا قاتل
دست بردار ہو ان باتوں سے آ جانے دے
قتل چرکیںؔ کو نہ کر گو نہ اچھلوا قاتل
***
61
ہگے یہ دیتے ہیں ہر آن کے عتاب سے ہم
کہ چوں بھی کر نہیں سکتے کبھی جناب سے ہم
عمل ہو اپنا جو اخباریوں کے مذہب پر
تو دھوکے گانڑ کریں خشک آفتاب سے ہم
بتنگ آئے ہیں دنیـا کی گو ہا چھی چھی سے
ہو قبض روح نجس چھوٹیں اس عذاب سے ہم
فلک ہو طشت ستارے ہوں پھٹکیـاں گو کی
جو گو کے چھوت کو نسبت دیں ماہتاب سے ہم
ہو اس کی کھڈی مـیں صرف اپنے کالبد کی خاک
یہ چاہتے ہیں زمانے کے انقلاب سے ہم
ہر اک کے سامنے تم گانڑ کھولے پھرتے ہو
تمہیں حیـا نہیں مرتے ہیں اس حجاب سے ہم
لگے کا دل کبھی چرکیں تو صف جاناں مـیں
کہیں گے شعر کئی اور آب و تاب سے ہم
***
62
ہے دل کو الفت زلف بتاں معلوم
مروڑے اٹھتے ہیں کیوں ہر زماں نہیں معلوم
کیـا ہے گو بھرے سفرے کا وصف نے بیـاں
غلیظ کیوں ہے ہماری زباں نہیں معلوم
بنا ہے چرخ بریں طشت کہکشاں کھڈی
ہگے گاسا شوکت نشاں نہیں معلوم
ہر ایک آؤ کی پھٹکی ہے ریزۂ الماس
تمہاری گانڑ ہے ہیرے کی کاں نہیں معلوم
پئیں گے شیخ جی عمامہ بیچ کر مئے ناب
اسی مـیں خیر ہے مغ کی دکاں نہیں معلوم
ہوئی ہے زلف کے سودے مـیں اس قدر پیچش
امـید زیست مجھے مہرباں نہیں معلوم
اچک کے گانڑ مـیں کردے جو شیخ کی انگلی
یہ شوخیـاں تجھے اے جان جاں نہیں معلوم
ہمارے پاس بناتا ہے گھر جو اے منعم
ہمارے ہگنے کی کیـا داستاں نہیں معلوم
ہمـیشہ رہتے ہو بیت الخلا مـیں تم چرکیںؔ
جہاں مـیں کو تمہارا مکاں نہیں معلوم
***
63
تمہارے ہجر نے صالح کیـا جناب ہمـیں
عمل کے دست سے بدتر ہے اب ہمـیں
نہ پایـا اس سے کبھی اپنی گفتگو کا جواب
دہان یـار نظر آیـا لا جواب ہمـیں
دماغ کو یہ خوش آئی ہے اس کے موت کی بو
کبھی نہ سونگھیں اگر دے کوئی گلاب ہمـیں
سڑی کی طرح گو تھا پتے پھریں کب تک
جمال اپنا دکھا او پری شتاب ہمـیں
کبھی پلید کبھی گہیل اور کبھی بھڑمل
ہر ایک آن نئے ملتے ہیں خطاب ہمـیں
ہوئے ہیں محو کچھ ایسے نہیں ہے گانڑ کا ہوش
دکھا کے آپ نے کیـا خراب ہمـیں
مروڑے پیٹ مـیں اٹھیں نہ طرح چرکیںؔ
کسی کی زلف کا یـاد آیـا پیچ و تاب ہمـیں
***
64
کپڑے چرکینؔ جب بدلتے ہیں
عطر کے بدلے موت ملتے ہیں
کون کرتا ہے گانڑ مـیں انگلی
آپ جو ہر گھڑی اچھلتے ہیں
نہیں کہتے ہیں غیر ہم کو برا
اپنے منہ سے یہ گو اگلتے ہیں
شجر کے ثمر ہیں سیب ذقن
نہ تو سڑتے ہیں یہ نہ گلتے ہیں
جب وہ کرتے ہیں غیر سے گرمـی
اس گھڑی اپنے خصئے جلتے ہیں
چلتی ہے قیس و کوہکن کی گانڑ
جب ہمارے وہ ساتھ چلتے ہیں
بزم جاناں مـیں پادتا ہے جو غیر
ہر طرف سے اشارے چلتے ہیں
تیرے بیمار کے تلے غم خوار
پوتڑے دم بدم بدلتے ہیں
طبع چرکیںؔ بھی طرفہ سانچہ ہے
گو کے مضمون جس مـیں ڈھلتے ہیں
***
65
سگ دنیـا جو ہیں کب جود و سخا رکھتے ہیں
گو بھی بلی کی طرح سے یہ چھپا رکھتے ہیں
کوچۂ زلف مـیں جو بیٹھ کے پیشاب کریں
ایسے ہم لوگ کہاں بخت رسا رکھتے ہیں
غیر گو کھاتے ہیں جو کرتے ہیں غیبت مـیری
منہ وہ سنڈ اس سے وہ چند سڑا رکھتے ہیں
ہم پدا دیں گے تجھے چو و چرا چھوڑ دے غیر
سن پدوڑے تجھے یہ بات سنا رکھتے ہیں
نیچے کے سر سے نوا سنج ہیں مرغان چمن
پاد پاد اس گل خنداں کو رجھا رکھتے ہیں
گوہا چھی چھی کے سوا کچھ نہیں حاصل اس سے
گو وہ کھاتے ہیں جو امـید وفا رکھتے ہیں
شیخ جی کھاتے ہیں افیون کی گولی پیچھے
پہلے صابون کے شافوں کو بنا رکھتے ہیں
دے کے دل ان کو پڑا گانڑ کلیجے جھگڑا
یہ بت ہند عجب ناز ادا رکھتے ہیں
اور بھی خوبئ تدبیر سے ہوتا ہے قبض
کوں مـیں دست آنے کی جب غیر دوا رکھتے ہیں
کی بو سے معطر رہے چرکیںؔ کا دماغ
تجھ سے امـید یہ اے باد صبا رکھتے ہیں
***
66
دم گریہ بدر رو یـار کی جب یـاد کرتے ہیں
مرے اشکوں کے ریلے نالوں کی امداد کرتے ہیں
سمجھتا ہے اسے شتربے درد محل مـیں
پس جمازہ گر مثل فریـاد کرتے ہیں
رقیبوں سے تو قار ورہ ملا ہے اس قدر ان کا
مصاحب جان کر بیت الخلا مـیں یـاد کرتے ہیں
نجس ہے بیٹ مرغان حرم کی یـا کہ پاکیزہ
سنیں اے شیخ صاحب آپ کیـا ارشاد کرتے ہیں
اٹھائے گو مرا کیوں کر نہ مجنوں دشت وحشت مـیں
سعادت منڈلڑ کے خدمت استاد کرتے ہیں
طلب بیجا نے ان کو کردیـا مجبوریوں ہم کو
چلے جاتے ہیں ہگتے پادتے جب یـاد کرتے ہیں
بدل ڈورو کے چرکیںؔ بیٹھ کر چوتڑ بجاتا ہے
چھڑی جس وقت گوگا پیر کے استاد کرتے ہیں
***
67
بھری جو ساقی نے چرکیںؔ شیشے مـیں
دکھائی کیفیت آفتاب شیشے مـیں
نہیں ہے لینڈی کا اس بت کی مـیرے دل مـیں خیـال
پری اتاری ہے یہ لاجواب شیشے مـیں
طبیب دیکھ کے اس رشک گل کا قار ورہ
سمجھتے ہیں کہ بھرا ہے گلاب شیشے مـیں
ملایـا ساقی نے شاید ہے اس مـیں پادا لون
ہوئی ہے موت سے بدتر شیشے مـیں
جو چشم مست کو اس بت کی دیکھے اے چرکیںؔ
تو دل ہو رز کا کباب شیشے مـیں
***
68
یـار کا بیت الخلا ہے ہفت باب آسماں
طشت ہے مہ آفتاب آفتاب آسماں
جس زمـیں پر دھار مارے طفل اشک اپنا کبھی
موت کے ریلے مـیں بہ جائے سحاب آسماں
جلوہ فرما ہو اگر وہ ماہ تو پرویں ہو کھاد
ہو زمـیں گھورے کی بھی گردوں جواب آسماں
طفل گردوں کو چھٹے ہیں دست دیکھ اس ماہ کو
پوتڑا گو کا ہے یہ نیلی نقاب آسماں
شیخ جی اس پر جو موتیں رند پی کر آفتاب
ریش حضرت ہو شعاع آفتاب آسماں
گو کا کیڑا نسر طائر ہے ہمـیں اے ماہ رو
چھوت گو کا ہے بعینہ ماہتاب آسماں
وصف اے چرکیںؔ لکھا ماہ کے پاخانے کا
سات بیتیں ہیں جواب ہف باب آسماں
***
69
باغ مـیں جاوے تو شیخ اب رند ہیں اس تاک مـیں
گانڑ پھاڑیں گے گر آیـا دار بست تاک مـیں
پیشتر گو کھاتا ہے کوا سیـانا ہے مثل
غیر اغلامـی پڑا سڑتا ہے اب گو زاک مـیں
گانڑ کے بدلے عبث دیتا ہے جی اے پاسباں
سد رہ مـیرا نہ ہو کوئے بت سفاک مـیں
خوب سا پتلا ہگے گا شیخ رندو چہل ہے
دو ملا حب السلاطیں حبۂ تریـاک مـیں
یـار بن ہر گل گل آدم ہے اور گھورا چمن
گو کی بو آتی ہے اے بلبل ہماری ناک مـیں
ہے متوڑا طفل اشک غیر دامن مـیں نہ لے
موت بھر جائے گا پاکیزہ تری پوشاک مـیں
خوب سا گو تاکہ اچھلے شہر مـیں ہولی کے دن
چہل یہ آئی خیـال کافر بے_باک مـیں
غیر کی جو گانڑ مـیں لکڑی گئی بھس مـیں گئی
گو کی ہانڈی پھینکی قصر عاشق غم ناک مـیں
پادا پونی سا ہے چرکیںؔ ناز سے بولا وہ شوخ
دب گیـا ہوگا وہ گھورے کے خس و خاشاک مـیں
***
70
کام تیرا غیر بزم جاناں مـیں نہیں
لوطئ نامرد کی جا باغ رضواں مـیں نہیں
موت کے کہتا ہے ہم سے اپنے کوچے مـیں وہ گل
اس روش کی آپ جو کوئی گلستاں مـیں نہیں
غرہ کرنا گو ہی کھانا ہے برابر جان تو
ہے سگ ناپاک گر اخلاق انساں مـیں نہیں
تیرے دیوانے کے ڈر سے قیس کی پھٹتی ہے گانڑ
بھول کر بھی پاؤں رکھتا وہ بیـاباں مـیں نہیں
یـار بن گھورا نظر آتا ہے سب صحن چمن
مـیرے آگے جھانٹیں ہیں سنبل گلستاں مـیں نہیں
اس رخ روشن کے آگے صاف گوبر کا ہے چھوت
نام کو بھی نور باقی مہر تاباں مـیں نہیں
کوچے مـیں اس برق وش کے تجھ کو لے جائے بہا
اتنی بھی توفیق چرکیںؔ آب باراں مـیں نہیں
***
71
چرکیںؔ غرض نہیں گل و گلزار سے ہمـیں
مطلب ہے پائخانۂ دلدار سے ہمـیں
بھر مل کبھی پلید کبھی اور لر کبھی
لاکھوں خطاب ملتے ہیں سرکار سے ہمـیں
کرتا ہوں عرض حال تو کہتا ہے گو نہ کھا
ہوتا ہے درد سر تری گفتار سے ہمـیں
گو دے سمـیت جل کے ہو چونا ہر استخوان
امـید ہے یہ آہ شرر بار سے ہمـیں
جل جل کے گو ہو خاک تو کھانا حلال ہے
فتویٰ ملا ہے شیخ سے ابرار سے ہمـیں
محفل مـیں اس کی جو بھڑ سے نکل گیـا
درجہ انفعال ہوا یـار سے ہمـیں
چرکیںؔ بندھیں گے گو کے جو مضمون اس قدر
آنے لگےقے ترے اشعار سے ہمـیں
***
72
بوسہ عزیز ان کا جو یہ خوب رو کریں
سیب ذقن دھرے دھرے سڑجائیں بو کریں
دیوانے اس کے چاک گریباں کو سی چکے
پھٹ جائے گانڑ بھی تو نہ ہرگز رفو کریں
اک پشم خایہ اس کو سمجھتے ہیں یہ صنم
کیـا وصف ان کے بالوں کا ہم مو بمو کریں
لائی ہے رنگ گردش ایـام سے بہار
لبریز خون حیض سے ساقی سبو کریں
ہگ ہگ دے پاد پاد دے وہ مارے بوجھ کے
مـیرا جو طوق قیس کے زیب گلو کریں
جو لوگ شیفتہ ہیں ترے سر وقد کے یـار
پیشاب بھی نہ جا کے کریں
سائل کو شہدکے وہ کہتا ہے گو نہ کھا
منہ سے بوسہ لینے کی ہم آرزو کریں
عاشق جو ہے تو ناصحو کے منہ کو گانڑ جان
شتر سمجھ جو یہ کچھ گفتگو کریں
پانی جو آپ دست کا اس بت کے ہاتھ آئے
چرکیںؔ سڑی ہوں شیخ جی اس سے وضو کریں
***
73
موت کی تھالی سے کچھ کم ساقیـا ساغر نہیں
خون سور کا ہے تجھ بن بادہ احمر نہیں
کھانا پینا موتنا ہگنا نہ کیوں کر بند ہو
زیست کا جس سے مزہ تھا پاس وہ دلبر نہیں
غیر کو لے تو نہ ہمراہ رکاب اے شہسوار
لید اٹھوانے کے قابل بھی یہ گیدی خر نہیں
گو مـیں جو ڈالے گا ڈھیلا چھینٹے کھائے گا ضرور
شیخ صاحب بحثنا رندوں سے کچھ بہتر نہیں
جس سے پوجا کے لئے دیتا ہے وہ چوکا صنم
ہم سمجھتے ہیں اسے چندن ہے وہ گوبر نہیں
گومتی مـیں غیر کو نہلانہ ساتھ اے بحر حسن
کم نجس ہے وہ سگ ناپاک جب تک تر نہیں
کیـا خطا چرکیںؔ کی ثابت کی جو کہتے ہو برا
ہر گھڑی کی گوہا چھی چھی جان من بہتر نہیں
***
74
گلستان دہر مـیں تجھ سا کوئی گل رو نہیں
تو وہ غنچہہے جس کے پاد مـیں بدبو نہیں
مـیں وہ مجنون زخود رفتہ ہو نظروں مـیں مری
خال رخسار پری ہے پشکل آہو نہیں
بزم جاناں مـیں نکل جاتا ہے رک سکتا نہیں
کیـا کروں ناچار ہوں کچھ پر قابو نہیں
خانقہ مـیں پادتا پھرتا ہے بدہضمـی سے شیخ
اور کہتا ہے بہت کھانے کی مجھ کو خو نہیں
جانتا ہے آپ کو گھورے سے بھی ناچیز تر
سچ تو ہے چرکینؔ سا کوئی بھی گو درون گو نہیں
***
75
پڑا رہ تو بھی اے چرکینؔ جاکر پائخانے مـیں
وہ بت آئے گا ہگنے کو مقرر پائخانے مـیں
چلی آتی ہے بو عنبر کی ہر اک گو کی لینڈی سے
کھلی گل کی ہے زلف معنبر پائخانے مـیں
نصیب دشمناں انسان کو ہوتی ہے بیماری
نہ جایـا کیجئے صاحب کھلے سر پائخانے مـیں
ترے پیشاب کی ہے دھار یـا کہ ابر نیساں ہے
نظر آتی ہیں بوندیں مثل گوہر پائخانے مـیں
ہوا ہے پائخانہ فیض خون حیض سے گلشن
بنی ہیں لینڈیـاں رشک گل تر پائخانے مـیں
حیـا کو کرکے رخصت کھول دیتے ہیں وہ پاجامہ
عنایـات و کرم ہوتے ہیں ہم پر پائخانے مـیں
کریں نظارہ اس کے حسن کا ہر لحظہ اے چرکیںؔ
اگر رہنے دے چرخ سفلہ پرور پائخانے مـیں
***
76
ہگ دے اگرچہ وہ بت بے_پیر ہاتھ مـیں
لے گو کا بوسہ عاشق دلگیر ہاتھ مـیں
اس دھج سے شیخ پھرتے ہیں گلیوں مـیں شہر کی
بوتل بغل مـیں مے کی ہے خنزیر ہاتھ مـیں
ازبسکہ اس کی زلف کا ہگنے مـیں بھی ہے دھیـان
پاخانہ مـیں ہے پاؤں کی زنجیر ہاتھ مـیں
کیـا حال مجھ ہگوڑے کا ہمدم ہو پوچھتے
گہیل پری کی رہتی ہے تصویر ہاتھ مـیں
رستم کا خوف سے وہیں پیشاب ہو خطا
عریـاں جو دیکھے یـار کی شمشیر ہاتھ مـیں
خوف صنم سے جو یہ زمـیندار ہگتے ہیں
دیتے ہیں پیشگی زر جاگیر ہاتھ مـیں
رکھتا ہوں گو کی طرح سے اس واسطے چھپا
دیکھے نہ غیر که تا تری تصویر ہاتھ مـیں
چرکینؔ شوق زیب ہے پاخانے مـیں اسے
ہگتے مـیں لی ہے زلف گرہ گیر ہاتھ مـیں
***
77
رندو نہ لاؤ شیخ کی شیخی خیـال مـیں
خصلت ہے گو کے کھانے کی اس سگ خصال مـیں
پادے اگر وہ غنچہ دہن تو ملہار ہو
کیـا لائے بلبلوں کا ترانہ خیـال مـیں
بیت الخلا مـیں یـار نے کی دعوت رقیب
یہ جانو کچھ ضرور ہی کالا ہے دال مـیں
بلبل تو جانتی ہی نہی پیر کی بھی گانڑ
بو سیب کی ہے یـار کے پھولوں سے گال مـیں
داڑھی کو اپنی شیخ تو پیشاب سے منڈا
آزاد رند پھنستے ہیں کب ایسے جال مـیں
ان دھوئی دھائی آنکھوں کے آگے غلیظ ہے
چیپڑ بھرا تمام ہے چشم غزال مـیں
کھلواؤ تارقیب پدوڑا نہال ہو
کوئل کے پادے آم پڑے ہوں جو پال مـیں
چرکیںؔ نے جب سے سونگھی ہے وہ زلف مشک بیز
عنبر کو تب سے باندھا ہے گو کی مثال مـیں
***
78
کالک لگے نہ ریش سفید جناب مـیں
اے شیخ جی ملائیے نورا خصاب مـیں
ہے محتسب حرام کا تکال حلال خور
دو موت کو ملا کے و کباب مـیں
افسانہ مـیرے دیدۂ گریـاں کا سنتے ہیں
ڈر ڈر کے موت دیتے ہیں اغیـار خواب مـیں
رندو خراب فرش کرے گا ہگوڑا شیخ
اچھلے گا گو بلاؤ نہ بزم مـیں
بولا گیـا ہے قبض کے مارے رقیب اگر
حقنہ کریں ملا کے دھتورا گلاب مـیں
پیشاب کرکے ٹھیکرے مـیں دیکھے اپنا منہ
اس رخ سا ہے فروغ کہاں آفتاب مـیں
چرکیںؔ عدم کی راہ لے کب تک لڑے گا یـاں
عالم ہے مزبلے کا جہان خراب مـیں
***
79
کیـا دور ہے کہ اسفل اعلی کو مارتے ہیں
شیروں کی طرح لینڈی کتے ڈکارتے ہیں
عمامہ چل کے سر سے زاہد کے مارتے ہیں
اس گو کے ٹوکرے کو سر سے اتارتے ہیں
پشموں سے بھی زیـادہ بے_قدر ہوں گے اک دن
گو کھاتے ہیں جو اپنی زلفیں سنوارتے ہیں
شدت یہ قبض کی ہے بے_تاب ہو کے ہردم
کھڈی پہ شیخ صاحب سردے دے مارتے ہیں
اس گل کی سوکھی لینڈی جب دیکھتی ہیں بلبل
گل برگ تر کو اس پر صدقے اتارتے ہیں
طرفہ یہ ماجرا ہے بیت الخلا کے اندر
لے لے کے نام مـیرا ہردم پکارتے ہیں
پریـاں ہیں کیـا بلائیں افسون پڑھ کے چرکیںؔ
شیشے مـیں دیو کو بھی انساں اتارتے ہیں
***
80
بولا کہ ملیدا مجھے کھلوائے گا کون
مرگیـا آج گانڑ کو مروائے گا کون
اٹھ گیـا گانڑ مرانے کا مزہ دنیـا سے
گانڈو اس طرح کا پھر ہاتھ مـیر آئے گا کون
ساتھ ہر دھکے کے ابکرے گا نخرے
جلد ہونا نہ کہیں یہ مجھے فرمائے گا کون
ہینجڑے جتنے ہیں وہ ہوویں گے اب کے مرید
پیر اب گانڈوؤں کا شہر مـیں کہلائے گا کون
ہوویں گے آن کے اب کے زنانے شاگرد
ہائے اب لینڈی لڑانا انہیں سکھلائے گا کون
کون اب چوسے گا آلت مرا منہ مـیں لے کر
کھول پاجامے کو آگے مرے پڑجائے گا کون
کانی کوڑی بھی نہیں گھر مـیں بڑی فکر ہے یہ
لاش اس بھڑوے کی یـاں آنکے اٹھواے گا کون
خارجی جتنے ہیں ان وں پہ لعنت ہے
کر نہ خطرہ ارے چرکیںؔ تجھے کھا جائے گا کون
***
81
قبلہ رو مـیخانہ ہے مـیں موتنے جاؤں کہاں
گر نہ موتوں شیخ کے منہ مـیں تو پھر موتوں کہاں
آگے ان آنکھوں کی گردش کے پھرےپادتی
ہمسری آئی ہے کرنے گردش گردوں کہاں
لیـاسے بھی گانڑ مـیں اپنے گھسیڑ اے سوز عشق
خانۂ دل جل گیـا ہے نقد دل رکھوں گا کہاں
باولی قمری ہے سوجھے موت کی کیـا دھار سے
سرو گندا سا کہاں اس کا قد موزوں کہاں
لب لگا کر غیر مـیں انگلی کروں چوتڑکو پھیر
قبض مـیں شافے کی خاطر ڈھونڈے گا صابوں کہاں
مار گیسوئے صنم کی ہے بجا ہم سے سکیڑ
گانڑ مـیں گو بھی نہیں ہے دولت قاروں کہاں
نیـاریـا بن کر نہیں آیـا چرکیںؔ تنگ ہوں
زر کمانے رفع حاجت کے لیے جاؤں کہاں
***
82
آجاتی ہے طاقت ترے بیمار کے تن مـیں
گو گھول کے تیرا جو چواتے ہیں دہن مـیں
ہگتا ہے گل اندام مرا جاکے چمن مـیں
گھورے پہ نہ کھڈی مـیں گڑھیـا مـیں نہ بن مـیں
کہتا ہے وہ گل گانڑ مـیں گل مـیخ چلادوں
بلبل کوئی ہگ دے مرے آگے جو چمن مـیں
جھوٹے تو کیـا کرتے ہو عشاق سے وعدے
بو گو کی نہ آنے لگے غنچے سے دہن مـیں
اسہال کی شدت سے موا تیرا جو بیمار
غسال کو خطرہ ہے کہ ہگ دے نہ کفن مـیں
اے زہرہ جبیں جھانٹوں مـیں تیری جو چمک ہے
یہ روشنی دیکھی نہیں سورج کی کرن مـیں
ہر بیت جو پر ہے مری مضمون سے گو کے
مہتر مجھے کہتا ہے ہر اک ملک سخن مـیں
لازم ہے کہ چرکینؔ اگر مائیو بیٹھے
بٹنے کے عوض گو کو ملیں اس کے بدن مـیں
***
83
دیکھتا مہتر پسر کی ہوں مـیں صورت خواب مـیں
گو اچھلنے کی رہا کرتی ہے صحبت خواب مـیں
کے سفرے کا رہا کرتا ہے بیداری مـیں دھیـان
تیز رہتا ہے مرا ہر شب کو آلت خواب مـیں
گانڑ ملنے مـیں چراتے ہو اگر ظاہر مـیں تم
منہ تو دکھلا ایک دن اوبے مروت خواب مـیں
کونسی گوہیل پری کے عشق مـیں دیوانہ ہوں
رات بھر مہتر دکھاتے ہیں نجاست حواب مـیں
سامنے ردوں کے چوں کرتا نہیں ظاہر مـیں شیخ
بن کے شیطاں اپنی دکھلاتا ہے صورت خواب مـیں
ہینگ ہگتا ہوں شب فرقت مـیں مـیں آٹھوں پہر
ایک شب تو آ صنم بہر عیـادت خواب مـیں
سر پہ مـیں چرکیںؔ اسے رکھوں گل تر کی طرح
خشک لینڈی بی کرے گر وہ عنایت خواب مـیں
***
84
دست آتے ہیں اگر مجھ کو تو اس کا غم نہیں
یعنی بدہضمـی مری جلاب سے کچھ کم نہیں
ہجر مـیں صحن چمن گھورے سے مجھ کو کم نہیں
پھٹکیـاں ہیں گل نہیں پیشاب ہے شبنم نہیں
بسکہ ضعف باہ سیرہتا ہے آستمنا مجھے
کون سا دن ہے جو پاجامہ ہمارا نم نہیں
وقت تنہائی صدا آتی ہے اس کی کان مـیں
سا دنیـا مـیں کوئی دوسرا ہمدم نہیں
بلبلو تم نے سنا ہوگا چغل بندہ وہ ہے
عشق دنیـا مـیں مجھے غیر از گل آدم نہیں
راہ ہوگئی ہے بند مارے قبض کے
کوئی سدوں کے سوا اس زخم کا مرہم نہیں
اصل کی جانب ہر اک شے کرتی ہے آخر رجوع
گر پڑا سنڈاس مـیں چرکیںؔ تو اس کا غم نہیں
***
85
پائخانے مـیں رہا کرتے ہیں
گو کے مضمون بندھا کرتے ہیں
اے پری جو ترے دیوانے ہیں
تنکے گھورے پہ چنا کرتے ہیں
کوں سے آتا ہے بواسیر کا خون
لعل و یـاقوت ہگا کرتے ہیں
سامنے جاتے ہی ہم قاتل کے
خوف سے پاد دیـا کرتے ہیں
قبض سے شیخ کی پھٹی ہ گانڑ
حقنے پر حقنے ہوا کرتے ہیں
چاہئے رکھ لیں وہ ہگنے کی بھی جا
جو کہ پاجامہ سیـا کرتے ہیں
ملتے ہیں پاؤں تلے چرکیںؔ کو
مہرباں آپ یہ کیـا کرتے ہیں
***
86
ہے وہ گلرو یـا سمـیں تو گلشن ایجاد مـیں
نکہت گل سے سوا خوشبو ہے جس کے پاد مـیں
شاخ گل پر باغ مـیں لاسا لگاتا ہے عبث
بیٹ بلبل کی نہ بھر جائے کف صیـاد مـیں
جلوہ فرماسا گلرو ہوا گھورے پہ آج
خرمن گل کا نظر آتا ہے عالم کھاد مـیں
جب سے کھجلی اس کے نکلی غیر بھی بولا گیـا
گانڑ کھجلاتا ہے جب ہوتی ہے خارش داد مـیں
شیخ کعبہ مـیں پھرا گر چڑھ کے خچر پر تو کیـا
کھاد اٹھانی اس گدھے کی ساری تھی بنیـاد مـیں
غیر کے تو زر کمانے پر جا اے جان جاں
نیـاریـا ہے خاکروبوں کی ہے وہ اولاد مـیں
دم مـیں بھردیتے ہیں وہ زخم دہان غار کو
مرہم زنگار کا چرکیںؔ اثر ہے کھاد مـیں
***
87
جو اختروں پہ ترے بن نگاہ کرتے ہیں
تو گو کی پھٹکیوں کا اشتباہ کرتے ہیں
منہ اپنا ٹھیکرے مـیں موت کے زرا دیکھیں
برابری تری کیـا مہر و ماہ کرتے ہیں
جو غیر پادتے ہیں گوش دل سے سنتے ہیں آپ
خیـال ادھر نہیں ہم آہ آہ کرتے ہیں
چمن مـیں اس کو املتاس کا سمجھتے ہیں دست
جو ہجر مـیں سوئے سو سن نگاہ کرتے ہیں
نہ بادہ خواری سے کر منع گو نہ کھا اے شیخ
تجھے ہے فکر عبث ہم گناہ کرتے ہیں
جو دھار موت کی اک مارتے ہیں ہم اے ابر
ابھی یہ کشتئ گردوں تباہ کرتے ہیں
نہیں پدوڑا کوئی تجھ سا دوسرا چرکیںؔ
پدوڑوں کا تجھے ہم بادشاہ کرتے ہیں
***
88
جاری رہتی ہے منی طاقت امساک نہیں
کون سے روز مـیانی مری ناپاک نہیں
سدے افیونیوں کے گھول کے چپکے پی لو
شیخ صاحب تمہیں گر نشۂ تریـاک نہیں
موت کے حوض مـیں طرح نہ ڈوبے چرکیںؔ
مـیر مچھلی کی طرح سے تو وہ پیراک نہیں
***
89
حیض کے خون مـیں چرکینؔ ڈبایـا مجھ کو
مری قسمت نے عجب رنگ دکھایـا مجھ کو
گل آدم مری قسمت نے بنایـا مجھ کو
ہاتھ کیـا پاؤںی نے نہ لگایـا مجھ کو
یـاد دریـا مـیں جو ہگنا ترا آیـا مجھ کو
موج نے لینڈیوں کی طرح بہایـا مجھ کو
گانڑ کے بوسہ کا جاناں سے ہوا تھا سائل
یہ دل آزردہ ہوا منھ نہ لگایـا مجھ کو
عشق سفرے کا نہیں یـار کے دل کو مـیرے
حوض مـیں گو کے نصیبوں نے گرایـا مجھ کو
گو مـیں لتھڑے ہوئے کتے کی ہو تم شکل اے شیخ
آپ کا خرقۂ پشمـینہ نہ بھایـا مجھ کو
اٹھ گئے رشک سے یہ گانڑ پھٹی غیروں کی
مہربانی سے جو اس مہ نے بٹھایـا مجھ کو
مہترانی کا اٹھانے مـیں ہوا ہے دم بند
ایک بھی دست جو کھل کر کبھی آیـا مجھ کو
کوچۂ یـار مـیں چرکینؔ پڑا کہتا ہے
گو سمجھ کر بھیی نے نہ اٹھایـا مجھ کو
***
90
کوئی اتنا بھی نہ جائے طعن خاص و عام ہو
بزم مـیں پادے کوئی چرکیںؔ ہمارا نام ہو
مـیکدے مـیں ہو گزر مجھ سے اگھوری کا اگر
موت سے شیشہ ہو پر لبریز گو سے جام ہو
اک بت پستہ دہن کی چشم کا بیمار ہوں
مـیرے حقنے مـیں طبیبوں روغن بادام ہو
ہجر مـیں ساقی کرے مجھ کو جو تکلیف
بول صفر اوی سے بدتر بادۂ گلفام ہو
پائخانے مـیں جو گزرے زفل شب گوں کا خیـال
صبح کو ہگنے جو بیٹھوں ہگتے ہگتے شام ہو
چشم کی گرش دکھائے تجھ کو وہ دریـائے حسن
حوض تیری گانڑ بھی اے گردش ایـام ہو
ضبط آہ نیم شب سے بے_قراری کیـا عجب
جب کہ ہو بند آدمـی کا بے_آرام ہو
چار دن چرکیںؔ کی ہو جس کے مکاں مـیں بود و باش
گو سے آلودہ درون و دیوار سقف و بام ہو
***
91
حیران ہگ کے شیخ جی تم اس قدر نہ ہو
ڈھیلے سے گانڑ پونچھ لو پانی اگر نہ ہو
گو کھانا خالی دینا ہے قاتل کے دار کا
سینہ ہی کر سپر جو مـیسر سپر نہ ہو
رسوا کیـا ہے نالے نے جس طرح غیر کو
بدنام پاد کر بھی کوئی اس قدر نہ ہو
حقنہ علاج آپ کا ٹھہرا ہے شیخ جی
یہ درد سر کرو تو کبھی درد سر نہ ہو
چرکیںؔ یہ اپنا قول ہے اسرارؔ کی طرح
ٹرٹر کرے وہ گانڑ کی جس کو خبر نہ ہو
***
92
قاتل اے شوخ نہ چرکیںؔ سے مردار کا ہو
گو سے آلودہ نہ پھلڑا تری تلوار کا ہو
ٹوکری گو کی ترازو کے لیے منگواؤں
تل بٹھانا مجھے منظور جو دلدار کا ہو
وقت پیشاب جو دھیـان آئے ترے دانوں کا
موت کی بوند مـیں عالم درون شہوار کا ہو
پادتے پادتے مرجائے وہ ہگ ہگ مارے
زخمـی رستم بھی اگر یـار کی تلوار کا ہو
آکے گھورے پہ کھڑا ہو جو مرا رشک بہار
گل آدم مـیں بھی نقشہ گل گلزار کا ہو
رنگ لائے جو بواسیر کا خوں سفرے پر
شیخ کی گانڑ نمونہ درون گلزار کا ہو
اس کو اے ترک بجھا لا کے گدھے کا پیشاب
نہ بچے وہ کہ جو زخمـی تری تلوار کا ہو
ہجر مـیں بستر غم پر ہے یہ اپنا احوال
جس طرح گھورے پہ عالمـی مردار کا ہو
موجیں لینڈی کی طرح اس کو بہا لے جائیں
عزم چرکیںؔ کو جو اس پار سے اس پار کا ہو
***
93
کانچ کا رنگ جو اے گل نظر آیـا مجھ کو
دیکھ کر جلنے لگی بلبل شیدا مجھ کو
بل بے_نامرادی مرا ہوگیـا پیشاب خطا
کل بنڈیلے نے جوں ہی گھورے پہ گھورا مجھ کو
چنچنے گانڑ مـیں شاید کہ لگے ہیں ان کی
شیخ جی چھیڑتے ہیں آج جو بیجا مجھ کو
اس کے درون ہی پہ ہگا مـیں نہ اٹھا پر نہ اٹھا
پائخانے کا ہوا رات جو خطرا مجھ کو
راہ سے مری خون بواسیر بہا
حیض کے خوں کا نظر آیـا جو دھبا مجھ کو
کی سن کے صدا گل کا ہے پیشاب خطا
ہگ دیـا بس وہیں بلبل نے جو دیکھا مجھ کو
ایسی باتوں پہ کیـا کرتا ہوں پیشاب اے شیخ
عشق چرکیںؔ کا نہ چھوٹے گا نہ بگوا مجھ کو
***
94
یوں نہ کرنا تھا فلک بے_سرو ساماں مجھ کو
گانڑ کھولے ہوئے پھروایـا جو عریـاں مجھ کو
دیکھ لوں گا چہ مبرز ہی کو پاخانے مـیں
یـاد جب آئے گا وہ چاہ زنخداں مجھ کو
اے پری زاد صنم وہ ترا دیوانہ ہوں
ڈر سے ہگ ہگ دے اگر دیکھے پری خواں مجھ کو
کی طرح درون کوں سے نکل جاؤں گا
روک سکتا ہے کوئی آپ کا درباں مجھ کو
اے گل اندام ترے دست حنا بستہ کا
دیوے دھوکا نہ کہیں پنجۂ مرجاں مجھ کو
پادا پونی یہ کیـا عشق کی بیماری نے
موت کی دھار ہوئی خنجر براں مجھ کو
بدتر از پشم سمجھتا ہوں مـیں اس کو چرکیںؔ
پیچ مـیں لائےکاکل پیچاں مجھ کو
***
95
اس کے پاخانے کا ملتا جو ٹھکانا مجھ کو
کرتا پامال نہ اس طرح زمانہ مجھ کو
خرچ کرتا اسے سنڈاسیوں کی دعوت مـیں
حوض پاخانے کا ملتا جو خزانہ مجھ کو
روندے دستوں کے پیـادوں کی پڑی پھرتی ہیں
شب کو اس کوچے مـیں دشوار ہے جانا مجھ کو
آنولے ڈال کے بالوں مـیں شب وصل صنم
موت کے حوض مـیں لازم ہے نہانا مجھ کو
عشق ہے دل کو مرے اس بت سنگین دل کا
ہو نہ جائے مرض سنگ مثانہ مجھ کو
مال نعمت سے زیـادہ اسے سمجھا مـیں نے
لید کا بھی جو مـیسر ہوا دانا مجھ کو
مـیں وہ مردود خلائق ہوں جہاں مـیں چرکیںؔ
نہ کیـا تیر قضا نے بھی نشانہ مجھ کو
***
96
بے_خطر لازم ہے جانا اس بت مغرور کو
دست آیـا آخری ہے عاشق رنجور کو
جب سے اس شیریں دہن کے گو پہ بیٹھیں مکھیـاں
شہد ہگنے کا مزہ تب سے پڑا زنبور کو
یوں اچھلتے شیخ جی ہیں چنچنے لگتے ہیں جب
جس طرح لڑکے اچھالیں کاھ کے لنگور کو
پھسکیوں نے شور محشر کا کیـا ہے بند
نے مـیرے اڑایـا ہے صدائے صور کو
چشم بیمار صنم مـیں نکلی ہے گو ہانجنی
ٹوکا ہگتے دیکھ کر کیـا عاشق رنجور کو
گو نہیں ہے گانڑ مـیں کووں کے کیـا ہوں مـیزباں
دست آنے کو نہ دیں جلاب مجھ رنجور کو
کھڈی بنواتا ہے چرکیںؔ اینٹ گارے کے بدل
ٹوکرا گو کا اٹھانا ہوگا اب مزدور کو
***
97
گرسنے چرکینؔ تیرے پاد کی آواز کو
منہ چھپائے لے کے مطرب پردہ ہائے ساز کو
کاٹی انگلی پر نہیں وہ موتتا کافر ذرا
زخم دل دکھلاؤں کیـا مـیں اس بت طناز کو
پیٹ کا ہلکا ہے اے جاں کہہ نہ دے ہر ایک سے
غیر سے نہ کہنا دل کے ہرگز راز کو
طائر بزدل وہ ہوں مـیں صید قاہ عشق مـیں
بیٹ سے اکثر بھرا ہے چنگل شہباز کو
رشک سے کبک دری نے ہگ دیـا گلشن کے بیچ
دیکھ کر اے گل تری رفتار کے انداز کو
موتنے تک کا مرے احوال جاناں سے کہا
گو مـیں نہلاؤں کہیں پاؤں اگر غماز کو
سر سوا گندھار کے اس مـیں نہ بولے پھر کبھی
بزم مـیں گر بیٹھ کر چرکیںؔ بجاؤں ساز کو
***
98
دیکھ کر بیت الخلا مـیں اس بت طناز کو
نالۂ ناقوس سمجھا کی آواز کو
فائدہ دنیـا مـیں گو کھانے سے کیـا اے قوم لوط
کیـا ملیں گے خلد مـیں غلمان لونڈے باز کو
سب سے کہہ دے گا یہ تیرے پادنے تک کا بھیحال
جا نہ دے بیت الخلا مـیں اے صنم غماز کو
پادتا ہے تال سر سے وہ بت مطرب پسر
تھاپ طبلے کی سمجھئے کی آواز کو
غیر ہے گندہ بغل کیوں ہم بغل ہوتا ہے تو
گو مـیں کیوں ملتا ہے اے گل چنپئی پشواز کو
رہ تو سفلی کی نجاست مـیں زیـادہ گو نہ کھا
شیخ تو کیـا عالم علوی کے سمجھے راز کو
کب تلک لتھڑا رہے گا اپنی طینت پاکھ رکھ
دل سے چرکیںؔ دور کر دنیـا کی حرص و آز کو
***
99
کیوں کیـا ناخوش سنا کر نالۂ جاں کاہ کو
پاد کر چرکیںؔ رجھایـا تھا بت دلخواہ کو
پاٹ دیتے چاہ بابل ہگ کے اے زہرہ جبیں
گر فرشتے دیکھتے تیرے ذقن کی چاہ کو
گانڑ مـیں کیـا نسر طائر کے پر سرخاب ہے
خط مرا لے جا کے دے آیـا نہ جو اس ماہ کو
کیجئے پیشاب اگر تو دھار جاتی ہے وہاں
دور سمجھے غیر ہے کوئے بت گمراہ کو
گانڑ مـیں بتی چراغ مے کی رکھ لو شیخ جی
تیرہ شب مـیں تانہ بھولو مـیکدے کی راہ کو
گھر مـیں اے چرکینؔ کب تک مارا کیجئے
دیکھئے اب جا کے گوگا پیر کی درگاہ کو
***
100
خوں حیض کا سمجھتے ہیں تجھ بن کو
سور کا گوشت جانتے ہیں ہم کباب کو
رندوں کے ساتھ پیجئے مے شیخ جی نہ آپ
جھگڑا پڑے گا گانڑ کلیجے جناب کو
گوبر کو پی کے قاضئ بے_دین ہو برہمن
گر دیکھ پائے اس بت مست کو
گویہ توے پہ گانڑ بھی رگڑے نہ کر یقیں
دیتا ہے نان خشک یہ روز آفتاب کو
چرکیںؔ نہ مانگ مطبخ چرخ دنی سے تو
ٹکڑا تو کیـا نہ پائے گا خالی جواب کو
***
101
گئے جب شہر سے ہگنے کی خاطر بیـاباں کو
صدائے سمجھے نالۂ شیر نیستاں کو
چمن مـیں جب قد موزوںی کا یـاد آتا ہے
کھڑی لینڈی سے بدتر جانتا ہوں سرد بستاں کو
لگائے گا نہ منہ گر غیر جاکر گانڑ بھی رگڑے
محبت ہوگئی ہے ان دنوں یہ ہم سے جاناں کو
ہمارے ساتھ چلتے چلتے مجنوں کو جو دست آئے
تو اس نے گانڑ پوچھی پھاڑ کر صحرا کے داماں کو
ہگایـا خون مدت تک خیـال روئے رنگیں نے
مروڑا پیٹ مـیں اٹھا جو دیکھا زلف پیچاں کو
تبرا بھیج دنیـا پر عدم کی راہ لے ناداں
نہ کر اس مزبلے مـیں بیٹھ کر آلودہ داماں کو
وہ بلبل ہوں کہ جس کے نالۂ موزوں نے اے چرکیںؔ
اڑایـا چٹکیوں مـیں زمزمہ سنجان بستاں کو
***
102
چرکیں سے مدعی کو اگر عزم جنگ ہو
ناوک صدائے ہو تفنگ ہو
ہتھیـار تو ہر ایک کے دستوں پہ چھن گئے
گنڑ چتڑی اب لڑے وہ جسے شوق جنگ ہو
بجھواؤ تیغ ناز کو لے کر گدھے کا موت
غیر نجس کے قتل کی جس دم امنگ ہو
مطرب نہ کر چغانہ و شہرود پر گھمنڈ
جس ٹھیکرے مـیں موت دوں وہ جل ترنگ ہو
چہرہ تمہارا ضعف سے ہے زرد شیخ جی
حیض سفید پی لو تو پھر سرخ رنگ ہو
اک پادری پسر کی محبت مـیں ہیں اسیر
دل اپنا کیوں نہ قائل قید فرنگ ہو
غم خانۂ جہاں مـیں ہوں چرکیںؔ وہ تلخ کام
جلاب گر پیوں تو وہ جام شرنگ ہو
***
103
ہیں مریض چشم واپنا اگر جلاب ہو
روغن بادام چرکیںؔ شربت عناب ہو
رونق افزا ہو جو پاخانہ مـیں وہ رشک بہار
گل ہو لینڈی گو کی شبنم قطرۂ پیشاب ہو
بھوک سے مرتی ہے خلقت کچھ عجب اس کا نہیں
کھاد بھی اکسیر کی مانند گر نایـاب ہو
کیجئے مضمون خون حیض مـیں رنگینیـاں
تا زمـین شعر رشک مسلخ قصاب ہو
گانڑ دھونے سے نہ تو بھی شیخ کی نیت بھرے
حوض تو کیـا پشم ہے خالی اگر تالاب ہو
اے صنم ہر اک برہمن دیکھ کر سجدہ کرے
تیرے پاخانے کی چوکی مـیں اگر محراب ہو
اب تو کیـا ہے دیکھنا اس وقت تم چرکیںؔ کی قدر
لکھنؤ مـیں مـیرزا مہتر اگر نواب ہو
آگے اس نو خط کے ہے اب سادہ رویوں کا یہ حال
جس طرے بے_قدر چرکیںؔ محمل کمخواب ہو
***
104
حیض کا سب رنگ ہے سو ہے برن مـیں آئنہ
موت کا ہے ٹھیکرا دولہہ دولہن مـیں آئنہ
کیوں نہ اس کی گانڑ کے نیچے بہے گنگا سدا
دیکھتا ہے منہ ترے چاہ ذقن مـیں آئنہ
شیخ کی داڑھی کو مونڈیں گے گدھے کے موت سے
کہہ دو ان سے مـیکشوں کی انجمن مـیں آئنہ
گانڑ گل کی پھٹ گئی رخسار جاناں دیکھ کر
دست بلبل کو بھلا کیوں کر چمن مـیں آئنہ
تردۂ آئنہ چوکی عرخ سے بن گئی
طشت ہے بیت الخلائے سیم تن مـیں آئنہ
اس کاہر جوہر نہیں ہے کرم سے کم آنکھ مـیں
چھوت گو کا ہے ترے بیت الحزن مـیں آئنہ
نام چرکیںؔ پوچھتے حیرت سے کیـا ہو شاعرو
ہے وہ پورب پچھم اور اتر دکن مـیں آئنہ
***
105
اگر ہوتے نہ وارفتہی زہرہ شمائل کے
تو سڑتے لئے زنداں مـیں قیدی چاہ بابل کے
ترے خالشیریں کے ہگنے مـیں جو یـاد آئی
جو نکلے پیٹ سے سدے وہ لڈو بن گئے تل کے
ہوا ہے شوق رنگیں ادا کو زیب و زینت کا
جو مشک وعود سے لوٹے بسائے جاتے ہیں گل کے
اٹھے گو دلیلیں استبرے کی سنت پر
عمل کرتے ہیں کب دانا سخن پر ایسے جاہل کے
کسی کی چربی سے مقرر اسکو ڈھالا ہے
ہمـیں بو کی آئی دھوئیں سے شمع محفل کے
مریدوں کی طرح دوں ان کو مـیں بھی دست بیعت کا
کریں حل شیخ جی عقدے اگر عقد انامل کے
بہت کی کنڈیـاں لیکن پڑے ہیں آج تک چرکیںؔ
ہمارے خوں کے دھبے پیلے پر تیغ قاتل کے
***
106
رقیب اور شیخ کو اے یـار گنڑ چتڑی لڑانیی ہے
سر محفل ہمـیں ان کو نیوں کی چل مٹانی ہے
بت سیمـیں کے پاخانے کی چوکی بھی ہے چاندی کی
پھر اس طشت مـیں قلعی کی جا سونے کا پانی ہے
نہ جا تو غیر کے گھگھیـانے پر مفسد ہ وہ
وہ قابو چی بڑا ہے اس کی یہ منت زبانی ہے
ابٹنا گو کا مل پہلے ہگوڑے غیر کے منہ پر
شب عید اے صنم گر پاؤں مـیں مہندی لگانی ہے
سدا کرتا ہے چلتے بیل کی وہ گانڑ مـیں انگلی
لرزتا نام سے اس مہ کے ثو آسمانی ہے
اگر ہو قبض افیوں سے پیو اے شیخ جی اس کو
تمہارے واسطے دار و سڑے حقے کا پانی ہے
مـیسر اس صنم کی گانڑ دھونے کا جو پانی ہے
ترے حق مـیں وہ اے چرکینؔ آب زندگانی ہے
***
107
چرکیںؔ اگلتی مجھ سے جو مردار کے لیے
اک نام ہوتا یـار کی تلوار کے لیے
دوبار راہ بول سے نکلے ہو شیخ جی
واجب ہے غسل آپ پر ابرار کے لیے
کا ہے نامہ بر یہ کبوتر کہ جس کی بیٹ
مرہم ہوئی ہے اس دل افگار کے لیے
او شاہ حسن منہ سے گو ہر گھڑی نکال
زیبا یہ گفتگو نہیں سردار کے لیے
درجہ گو کی بو سے معطر ہوا دماغ
بو سے جو ہم نے دلدار کے لیے
گو گل جلا کے آگ مـیں بیت الخلا کے بیچ
سفلی عمل پڑھیں گے کوئی یـار کے لیے
چرکیںؔ کو اپنے پاس سے اے گل جدا نہ کر
رہنے دے کھاد حسن کے گلزار کے لیے
***
108
زلف چھونے پہ جو دلدار خفا ہوتا ہے
پائجامے مـیں مرا دست خطا ہوتا ہے
دیکھ لیتا ہے مٹھولے جو لگاتے وہ مجھے
ہو کے حیران وہ کہتا ہے یہ کیـا ہوتا ہے
سرکشوں کو بھی ہگاتا ہے وہ نیلا تھوتھا
زلف خوباں کا بھی انداز برا ہوتا ہے
پائخانہ اسے ٹھہراتے ہیں سارے شاعر
وصف جس بیت مـیں ہگنے کا بندھا ہوتا ہے
شدت قبض سے پھر پادتا پھرتا ہے شیخ
نشہ افیون کا جس وقت سوا ہوتا ہے
پائخانے مـیںں وہ لے جاتے ہیں جو ساتھ مجے
پاد کی طرح سے پھر غیر ہوا ہوتا ہے
بھاگ کر چھپتا ہے پائخانہ مـیں چرکیںؔ اس دم
دست اندازی پہ جب یـار خفا ہوتا ہے
***
109
داغے گا پٹاخا نہ وہ دلدار ہوئی
چھوڑوں گا جو مـیں کی یکبار ہوائی
چر جائے کئی جا سے وہیں گانڑ فلک کی
ماروں جو خدنگ کی دوچار ہوائی
ہگتا تھا وہ بت ریتے مـیں اٹھا جو بگولا
دشمن ہوئی نظارے کی دیوار ہوائی
جب الشہیب آپ کی سے چھٹے گا
پکڑا نہیں جانے کا یہ رہوار ہوائی
سرد آہوں سے مـیں چیرتا ہوں گانڑ کو ان کی
جڑتا ہوں رقیبوں پہ یہ تلوار ہوائی
ہگتا ہے اگر ہینگیـار کا بیمار
پستے کی کھلاتے ہیں پرستار ہوائی
ال گل نے بلی اپنے کبوتر جو اڑائے
چرکینؔ یہ سمجھا کہ ہے گلزار ہوائی
***
110
گر آب دیکھ لیں تری تیغ خوش آب کی
چر جائے گانڑ رستم و افرا سیـاب کی
مـیخانے مـیں ہوا مجھے ادرار اس قدر
ریلے مـیں موت کے بہی بوتل کی
دن کو بچوں بچوں نہ بچوں کیـا ہو دیکھئے
دستوں سے رات کو نہ فرصت ہو خواب کی
منہ سڑ گیـا ہے شیخ کا آتی ہے گو کی بو
جس دن سے اس نے کی ہے مذمت کی
ہے گانڑ غنچہ کانچ ہے اس گل کی رشک گل
کیوں کر نہ بو ہو موت مـیں بوئے گلاب کی
ہگ ہگ کے مـیں نے یـار کے گھر مـیں کیـا ہے ڈھیر
پاداش ہوگی کیـا مرے فعل خراب کی
شوال مـیں تو گانڑ کو چرکینؔ اپنی دھو
ماہ صیـام مـیں بڑی قلت تھی آب کی
***
111
وفور شوق سے شافہ لیـا ہے انگلی ڈالی ہے
بڑے زوروں سے لینڈی شیخ نے باہر نکالی ہے
وہ خود گندہ ہے جو گندہ مزاجوں کو ستاتا ہے
نجاست کا سبب انساں کو گو کی پائمالی ہے
ترے بیمار کو اتنی نہیں طاقت ہگے اٹھ کر
تن کا ہیدہ اس کا رشک تصویر نہالی ہے
پلا مے آج وہ ساقی کہ پاجامے مـیں ہگ ماریں
چمن ہے ابر ہے چلتی ہوائے برشکالی ہے
ہمارے آگے بدتر گو بھرے سفرے سے بھی وہ ہے
دہن جو تیرے وصف پاک سے اے یـار خالی ہے
شب دیجور بھی دیکھے تو ہگ دے مارے خطرے کے
فراق یـار مـیں وہ رات ہم پر آج کالی ہے
کہے گا جو ہمـیں چرکیںؔ برا وہ بھی سنے گا کچھ
پڑی ہے چھینٹ اس پر جس نے گومـیں اینٹ ڈالی ہے
***
112
اہل ہنر سمجھتے ہیں اہل ہنر مجھے
چرکیںؔ وہ خود لچر ہے جو سمجھے لچر مجھے
لاکھوں ہی احتلام ہوئے که تا سحر مجھے
سفرے کا کے دھیـان رہا رات بھر مجھے
مضمون خون حیض کی دقت مـیں وقت فکر
کھانا پڑا کمال ہی خون جگر مجھے
سن رکھئے گو مـیں خوب سا نہلاؤں گا اسے
پھر غیر بزم یـار مـیں گھورا اگر مجھے
جس دن سے کاٹ کھایـا ہے اس مار زلف نے
گر دیکھوں کیچوا بھی تولگتا ہے ڈر مجھے
یہ زور پر ہے وحشت دل اب تو اے پری
پھٹ جائے گانڑ قیس کی ہے دیکھے اگر مجھے
اک روز پھٹ نہ جائے کہیں سقف آسماں
چرکیںؔ تمہارے سے لگتا ہ ڈر مجھے
***
113
پھسکی مـیں تری باد بہاری کا اثر ہے
سنبل اگر جھانٹیں تو سفر اگل تر ہے
بنتی نظر آتی نہیں اس سیم بدن سے
یـاں گانڑ مـیں گو بھی نہیں وہ طالب زر ہے
حاجت ہے ملاقات کی تو آئیے صاحب
پاخانہ جو مشہور ہے بندے ہی کا گھر ہے
اے رشک چمن بے_ترے نظروں مـیں ہماری
سوکھی ہوئی لینڈی سے بھی بدتر گل تر ہے
جس فرے مـیں آلت کا ہوا ہو نہ کبھی دخل
گویـا مرے نزدیک وہ ناسفتہ گہر ہے
ہر لحظہ ہر اک بات مـیں گو اچھلے نہ کیونکر
چاہت جسے کہتے ہیں ادھر ہے نہ ادھر ہے
چرکیںؔ کی خطا پر نہیں ہنسنے کی جگہ یـار
ہگتا نہ ہو دنیـا مـیں وہایسا بشر ہے
***
114
غیر نجس کی قبض سے حالت تباہ ہے
گردن جھکی ہے سفرے کی جانب نگاہ ہے
چرکیںؔ تمہارے ہگنے کو بھی واہ واہ ہے
مہتر چبوترے مـیں ہر اک داد خواہ ہے
ہگنے کے وقت ہے جو رخ و زلف کا خیـال ہے
کوئی ہے لینڈی سرخ تو کوئی سیـاہ ہے
رکھ دیں گے اس اس کو نوچ کے ہم طشت یـار مـیں
پولا سی داڑھی شیخ کی مثل گیـا ہے
نے گانڑ کی تمـیز ہے نے فرج کا ہی پاس
لوڑا کھڑا بھی اپنا عجب پادشاہ ہے
طرح کھائیں کوفتوں پر ہم کو ہجر مـیں
سدوں کا شک ہے لینڈیوں کا اشتباہ ہے
وحشت کو اس کی دیکھ کے کہنے لگا وہ شوخ
چرکیںؔ ہمارا قیس کا بھی قبلہ گاہ ہے
***
115
وہ مضمون گو کے پیدا کیجئے طبع گرامـی سے
جیبی انت یـا چرکیں کا غل ہو گور جامـی سے
طرح عنبر کی بو کا وصف ہے ہم مـیں تو کیـا حاصل
رہے پھر گو کے گو باز آئے ایسی نیک نامـی سے
سمند بھی کوئی عجب منہ زور گھوڑا ہے
پھٹی ہے شبہہ سواروں کی بھی جس کی بدلگامـی ہے
ہوا ہے شوق آرائش یہاں تک اس پر روکو
منڈھی جاتی ہے چوکی پائخانے کی تمامـی سے
جو اپنےپہ بیٹھے آ کے ہگنے ہگ دیـا اس نے
یہی حاصل ہوا ہم کو فقط شیریں کلامـی سے
کیـا کرتے ہیں اس سے دو بدو ہی گفتگو ہردم
نہ مطلب نامہ و پیغام سے ہے نے پیـامـی سے
لکھا رہنے دے چہرہ مہتروں مـیں زر کمائے گا
نہ اے چرکینؔ ہونا دست بردار اس اسامـی سے
***
116
کوئی مہتر ترے بیت الخلا مـیں جب کہ جاتا ہے
نصیبوں پر ہمـیں پھر اس کے کیـا کیـا رشک آتاہے
طلب کیجئے اگر بوستہ تو ہنس کر یہ سناتا ہے
زمانے مـیں کوئی چرکینؔ کو بھی منہ لگاتاہے
یہاں تک بدقماشی ہم سے ہے اس چرخ ابتر کی
جو کھیلیں گنجفہ بھی تو برا ہی دست آتا ہے
دل اپنا کاہ کی صورت اگرچہ پادہ پونی ہے
و لیکن اس پہ بھی کیـا کیـا یہ کوہ غم اٹھاتا ہے
ذرا اے بحر خوبی لے خبر تو اپنے چرکیںؔ کی
ترے بیت الخلا کے حوض مـیں غوطے لگاتا ہے
***
117
دید تیری گر نصیب اے مہ لقا ہو جائے گی
گھورا گھاری مـیں مری حاجت روا ہوجائے گی
مان کہنا کھا نہ تو مجھ سے نجس کی ہڈیـاں
گو سے لت پت چونچ تیری اے ہما ہوجائے گی
کوتھنے مـیں منہ بنائے گا جو وہ بت ناز سے
اک ادا ہگنے مـیں بھی اس سے ادا ہوجائے گی
تنکے گھورے پر چنے گا بن کے دیوانوں کی شکل
وہ پری عاشق سے اپنے گر حفا ہوجائے گا
شیخ جی صاحب کریں گے تجھ سے بے_خطرے نکاح
صوفی اگر تو پارسا ہوجائے گی
وصل کی شب بستر جاناں پہ مـیں نے ہگ دیـا
کیـا سمجھتا تھا کہ یہ مجھ سے خطا ہوجائے گی
قبض شدت اگر چرکیںؔ یہی عالم مـیں ہے
کھاد بھی نایـاب مثل کیمـیا ہوجائے گی
***
118
کہدو خبر لے حسن کے اس بادشاہ سے
چرکیںؔ پڑا ہے گھورے پہ حال تباہ سے
کھانہ عبث ہے منہ سے غذائے لذیذ کو
گو ہو کے ساری نکلے کی راہ سے
دہشت سے مـیکشوں کی ہوا ہے یہ بند
نکلا نہ شیخ بہر وضو خانقاہ سے
ڈر سے ہمارے غیر کا پیشاب ہے خطا
جریـاں نہیں ہوا ہے اسے ضعف باہ سے
شتر سمجھتا ہوں تحسین ناشناس
چرکیںؔ خوش اہل فہم کی ہوں واہ واہ سے
***
119
پدوڑی ہے نہ کر تو ہم زبانی
یہ گو کھانی کی بلبل ہے نشانی
لگوگے ہینگ ہگنے شیخ جی تم
مضر ہے ماش کی یہ دال کھانی
ہمارے آگے ہگ دیتا ہے دشمن
یہ اس کی شیخی ہے زبانی
جگت کی غیر کو گوگل کھلا کر
نکالے اس نے گو کے دو معانی
کرےقبض پادالون کھالو
یہ نسخہ سن لو چرکیںؔ کی زبانی
***
120
نمک بن پاد کر اغیـار بے_حیـائی سے
سوا ان کی سڑی کوں ہے گڑھیـا اور کھائی سے
جو پتلی دال کھاکر شیخ اپھرے پیٹ بائی سے
کرم تھوڑی سی کھا مرغی سوا ہے گرم رائی سے
ترے بیمار کو دو تین ایسے دست آئے ہیں
زمـیں پر گانڑ کا گو بہہ چلا ہے چار پائی سے
سر بازار کوڑی پاد پادو شیخ جی صاحب
زمانے مـیں کوئی بہتر نہیں ہے اس کمائی سے
نکالا غیر کو بیت الخلا سے یـار نے چرکیںؔ
کھڑا ہے گھر پہ گو کھانے کو وہ سور ڈھٹائی سے
***
121
اک بوسے پہ کیوں بگڑ کے اٹھے
گو کھایـا جو اس سے لڑ کے اٹھے
دیوانہ تیرا جو ہگنے بیٹھا
پتھر لے لے کے لڑکے اٹھے
اغیـار نے ہگ دیـا ہے ڈر سے
تلوار جو ہم پکڑ کے اٹھے
اس مہر کو گھر سے آتے دیکھا
ہگنے کے لیے جو تڑکے اٹھے
پایـا نہ عصا جو شیخ جی نے
آلت کو مرے پکڑ کے اٹھے
بٹھلایـا نہ اپنے پاس اس نے
ہم گانڑ تلک رگڑ کے اٹھے
قاتل کی گلی سے لاش چرکیںؔ
ارمان یہ ہے کہ سڑ کے اٹھے
***
122
چرکیںؔ چمن مـیں آ کے جو یکبار ہوگئے
ہر اک روش پہ کھاد کے انبار ہوگئے
دولت کمائی ہے ترے صدقے سے اس قدر
مہتر تمام شہر کے زردار ہوگئے
اس مزبلے مـیں بیٹھ کے سنڈاسیوں کی طرح
لاکھوں نجاستوں مـیں گرفتار ہوگئے
منہ گانڑ اور شتر ہے تمہاری بات
القصہ آپ جھوٹوں کے سردار ہوگئے
مجھ سخت جاں کی جھانٹ کے بھادیں ہوا نہ کچھ
عاری تمہارے خنجر خوں خوار ہوگئے
نے دست و پا کا ہوش ہے نے گانڑ کی خبر
درجہ محو صورت دلدار ہوگئے
بیت الخلائے یـار سے چرکیںؔ نکل کے ہم
گھوے پہ بیٹھنے کے سزاوار ہوگئے
***
123
مشابہ غنچۂ گل ہے ہر اک لیلیٰ کے محمل سے
صدائے مجنوں آتی ہے صوت عنادل سے
غم فرقت سے لیلیٰ کی ہوا ہے ناتواں ایسا
پھٹی جاتی ہے قیس کی بار سلاسل سے
جو ہیں ناپاک ناپاکوں سے رغبت ان کو ہوتی ہے
اگھوری موت اور گو کو ملاکر کھاتے ہیں دل سے
فلک پر رشک کھائے مہر تاباں اے ہلال ابرو
جو دیکھے طشت پاخانے مـیں تیرے ماہ کامل سے
عوض ہد ہد کے خوں کے حیض کے خوں سے وہ بھرتا ہے
کبھی گر نقش حب چرکیںؔ لکھواتا ہے عامل سے
***
124
کوئل کو گانڑ کی خبر اے باغباں نہ تھی
آموں پہ پادتی وہ پدوڑی کہاں نہ تھی
گو کھایـا قاضیوں نے جو رندوں پہ کی حرام
بنت العنت تو زوجۂ پیر مغاں نہ تھی
اغیـار کی جو گانڑ بھی تھوکا بجا کیـا
کچھ عزت اس پدوڑے کی اے جان جاں نہ تھی
گلشن خراب تو سن باد خزاں سے تھا
گھوڑے کی لید تھی سمن وارغواں نہ تھی
سڑتے تھے پھول جوش تھا گندہ بہار کا
کچھ کم موتالی سے روش بوستاں نہ تھی
منہ زور گویـا باؤ کا گھوڑا ہے اس کا گوز
اغیـار کے جو قبضے مـیں اس کی عناں نہ تھی
چرکیںؔ نے طرفہ شستہ و رفتہ غزل کہی
ایسی رواں طبیعت صاحبؔ قراں نہ تھی
***
125
تیغ اس نے لگائی جب کمر سے
مریخ نے ہگ دیـا ہے ڈر سے
کر بات نہ غیر فتنہ گر سے
گو اچھلے گا خوب ادھر ادھر سے
ٹل جائےناف آئیں گے دست
تلوار نہ تو لگا کمر سے
ہگنے مـیں بندھا جو زلف کا دھیـان
پیچس رہی شام تک سحر سے
ناداں اٹھا نہ بار عصیـاں
یہ ٹوکرا گو کا پھینک سر سے
اک موت کے ریلے مـیں بہادیں
رگ سامنے اپنے ابر برسے
کہنے لگے مجھ سے ہٹ کے سڑئے
بیٹھا جو مـیں لگ کے ان کے درون سے
کیـا دوں جواب مـیں شیخ بد کو
گو کھانا ہے بحثنا لچر سے
قسمت کی برائی دیکھوں چرکیںؔ
گھورے پہ سڑے نکل کے گھر سے
***
126
یہ قول ان کا ہے جن کا کوچۂ دلدار مسکن ہے
خیـابان چمن مـیں کھڈیـاں پاخانہ گلشن ہے
نکالے جاتے ہیں محفل اس کی پاد کے ہاتھوں
کسی کو دوش کیـا دیں گانڑ ہی یـاں اپنی دشمن ہے
وہ تیرا غمزۂ سرہنگ ہے او قاتل عالم
دو پارہ جس کے دم سے سفرۂ اسقند و بہمن ہے
خیـال آتا ہے اے بت جب ترا وہ پاد دیتا ہے
یہ سفرا غیر کا ہے یـا کہ ناقوس برہمن ہے
بجا ہے پادری مجھ کو کہیں گر سارے نصرانی
پدوڑا مـیں ہوں عاشق مـیری معشوقہ فرنگن ہے
نظر آتا ہے جب ہر اک فرنگی چھلکے دیتے ہیں
کہوں کیـا بول صاحب کے جو کچھ مکھڑے پہ جو بن ہے
رہ ہزاروں ہی کی ماری اس نے اے چرکیںؔ
ذکر اپنا بھی اپنے وقت کا اک مار رہزن ہے
***
127
لڑتی ہیں آنکھیں اپنی اب اس شوخ وشنگ سے
رستم کی گانڑ پھٹتی ہے جس خانہ جنگ سے
سفرے کا غیر کے ہے بواسیر سے یہ حال
بندر کی گانڑ سرخ نہیں جس کے رنگ سے
سدے نکل رہے ہیں زبس گولیوں کی طرح
کم گانڑ شیخ جی کی نہیں ہے تفنگ سے
افسوس آج ان کو نہیں گانڑ کی خبر
کل تک خراج لیتے تھے جور وم و زنگ سے
لبدی تم اس کی گانڑ پہ اب باندھو شیخ جی
بہتر نہیں دوائے بواسیر بنگ سے
منہ تک ہوئی نہ غیر کو اس بت کے دسترس
برسوں ہی گرچہ گانڑ گھسی درون کے سنگ سے
چرکیںؔ ہر ایک بیت مـیں اپنی ہزار بار
مضمون خون حیض بندھے لاکھ رنگ سے
***
128
حال یہ شیخ کا ہے قبض کی بیماری سے
پاد بھی گانڑ سے آتا ہے تو دشواری سے
تن بدن پھنکتا ہے سوز اک کی بیماری سے
بوند پیشاب کی کچھ کم نہیں چنگاری سے
غیر کو نہ دروازے تک آنے دے گا
اس کے دل مـیں ہے یہ گھر مـیری وفاداری سے
بات اچھی نہیں گو اچھلے گا اس مـیں صاحب
دستبردار ہو غیروں کی طرفداری سے
پاس باقی نہ رہا گانڑ کا پاجامے تک
حال اپنا یہ بہم پہنچا ہے بیکار سے
یـاں سیجو سوئے عدم گانڑ چھپا کر بھاگا
تھا عمر کو بھی مگر ڈر تری عیـاری سے
اہل عبرت کو ہو چرکیں نہ تعلق کا مزا
مرغ تصویر کو کیـا کام کرفتاری سے
***
129
پادے ہیں اطبا سبھی پوں پوں مرے آگے
گنڑ گھسنیـاں کرتا ہے فلاطوں مرے آگے
بولائی مجھے دیکھتے ہی جوشش باراں
اک قطرۂ پیشاب ہے جیحوں مرے آگے
وہ گرگ کہن سال ہوں مـیں دشت جنوں کا
کوں کھولے ہوئے پھرتا تھا مجنوں مرے آگے
وہ کانچ دکھاتا نہیں اپنی مجھے ہرگز
لیتا ہے چھپا سفرۂ گلگوں مرے آگے
اے مرغ چمن کیـا ہے خوش آوازی پہ نازاں
ہے ترا نالۂ موزوں مرے آگے
اس زور سے پادو کہ دہل جائے فلک بھی
اسرارؔ جو مجلس مـیں کرے چوں مرے آگے
وہ مـیں نہیں چرکینؔ جو دب جاؤںی سے
ہر ایک بنڈیلا ہے کم از جوں مرے آگے
***
130
صدائے اے چرکیںؔ یہاں دمڑی کی چوں چوں ہے
تری پھسکی کی یہ آواز نقارے کی دوں دوں ہے
اگر کوڑی گرے گو مـیں اٹھا لے غیر دانتوں سے
وہ مکھی چوس ہے کیـا مال جس کے آگے قاروں سے
لہو موتا کرے کب تک مریض غم ترا اوبت
خبر لے ہے خلل پتھری کا حال اس کا دگر گوں ہے
نہ رکھ اغیـار سگ سیرت سے گہرے ااب دست اے جاں
وہ گو کھاتا ہے اور ناشستہ اس ناپاک کی کوں ہے
اڑادیں پاد سا نالہ نہ کیونکر مرغ گلشن کا
ہماری آہ شور انگیز وہ دمڑی کی چوں چوں ہے
مقشر شیخ کی کرلو ملاکر اس مـیں نوسادر
ہگوگے نیلا تھوتھا ورنہ حضرت زہر افیوں ہے
نہ ملنا غیر سے اے جان گر وہ گانڑ بھی رگڑے
نہ کرنا دوستی زنہار وہ موذی ہے مـیموں ہے
مل ہے آگ جو کھاتا ہے انگارے وہ ہگتا ہے
غذایـاں خون دل اپنی ہے جاری گانڑ سے خوں ہے
زمـین شعر مـیں کیـا کھڈیـاں ہیں تونے بنوائیں
جو اے چرکیںؔ پسند طبع تیری گو کا مضموں ہے
***
131
آج دیکھئے چرکیںؔ کی موت آئی ہے
اس نے زہر قاتل مـیں تیغ کیں بجھائی ہے
خال روئے جاناں کی کیـا کروں ثنا اے دل
ہگ دیـا ہے رستم نے جب وہ گولی کھائی ہے
جھینپتی ہے آنکھ اس کی سامنے جب آتا ہے
گانڑ غیر نے شاید آپ سے مرائی ہے
زور ناتوانی ہے بسکہ ہجر کی شب مـیں
ہگتی پادتیتک اپنے آہ آئی ہے
مررہے ہیں آپہی ہم ہم سے نیم جانوں پر
گو کا کھانا او قاتل تیغ ازمائی ہے
گانڑ کیوں چراتا ہے ہم سے پنجہ کرنے مـیں
پادا پونی اے گل رو کیـا تری کلائی ہے
تھاپتا ہے گو ایسا ہو گیـا ہے دیوانہ
پری سے اے چرکیںؔ آج کل جدائی ہے
***
132
روکتے جو اپنا تو بڑی بات نہ تھی
شیح صاحب مـیں تو اتنی بھی کرامات نہ تھی
سو رہا گانڑ مرے منہ کی طرف کرکے وہ شوخ
ہجر کی رات سے کم وصل کی بھی رات نہ تھی
گھس گیـا پا کے مـیں تنہا اسے پاخانے مـیں
وصل کی اس کے سوا اور کوئی گھات نہ تھی
گانڑ کی طرح سے منہ اپنا چھپالیتے تھے
مـیری اور آپ کی جب تک کہ ملاقات نہ تھی
گو مـیں روز وہ غیروں کو نہ نہلاتا تھا
کب مرے حال پہ اس بت کی عنایـات نہ تھی
ایک ہی موت کے ریلے مـیں بہے سیکڑوں گھر
دیکھی اس طرح کی ہم نے کبھی برسات نہ تھی
مفت دم پر جو وہ چڑھتے تو بن آتی چرکیںؔ
خرچی بلوانے کے قابل مری اوقات نہ تھی
***
133
کوئی ثانی نہیں مہتر مری توقیر مـیں ہے
کا پاخانہ گل انداموں کی جاگیر مـیں ہے
ہگ دے مریخ فلک بھی جو چمکتی دیکھے
آبداری یہ مرے ترک کی شمشیر مـیں ہے
ہے یقیں گانڑ کے رستے سے نکل جائے گا دم
مبتلا شیخ اب اس درجہ بواسیر مـیں ہے
قصر قیصر مـیں بھی اے یـار نہ ہوگا ہرگز
جو کہ عالم ترے پاخانے کی تعمـیر مـیں ہے
ہگ دے مجنوں بھی یقیں ہے جو اٹھائے یک بار
بوجھ بھاری یہ مرے پاؤں کی زنجیر مـیں ہے
اس پری رو کے ہوا دل مـیں نہ اک بار اثر
عالم شتر نالۂ شب گیر مـیں ہے
جو کہ سنتا ہے وہ بے_ساختہ ہنس دیتا ہے
عالم اب کا چرکیںؔ تری تقریر مـیں ہے
***
134
جو وہ پاخانہ دیکھے قصر شیریں کو ہکن بٹھولے
گھسے گا گانڑ آ کے ہاں سر پھوڑتا سب تیشہ زن بھولے
ہگوڑا غیر سگ سیرت تھا ہگ ہگ کر موا آخر
دیـا اس کو نہ گو کے پوتڑے کا جو کفن بھولے
سے گر نام مجھ دیوانے کا دہشت سے ہگ مارے
لگے گو تھانپے قیس اپنا سب دیوانہ پن بھولے
چراغ غول سمجھے چھوت گو کا دشت وحشت مـیں
جو دیکھے کیچوئے صحرا مـیں مار راہ زن بھوے
پھٹی گانڑ ان کی مـیرے نالۂ رنگیں کو سنتے ہی
ہوئے رودم دبا کر نالے مرغان چمن بھولے
لگے گو تھانپے اے بت نہ دے گوبر کا وہ چوکا
جو دیکھے تیرا پاخانہ کلیسا برہمن بھولے
ہماری سی کرے گر سینہ کاوی اے بت شیریں
چرے گانڑ ایسی ساری تیشہ رانی تیشہ زن بھولے
ہگے کو اپنے بلی کی طرح ممسک چھپاتے ہیں
نہ ان کی صورت مسکیں پہ دزد نقب زن بھولے
رقیبوں کی لڑاتے آنکھ ہم سے دپدپاتی ہے
لگایـا تھوک ایسا گانڑ مـیں سب بانکپن بھولے
جو کھودے یـار کے سنڈاس مـیں تو قبر چرکیںؔ کی
قیـامت تک نہ وہ احساں ترا اے گورکن بھولے
***
135
چرکیںؔ اگلتی مجھ سے جو ناکام کے لیے
اک نام ہوتا یـار کی صمصام کے لیے
حاجت جو اس نگار کو استنجے کی ہوئی
آنکھوں کے ڈھیلے عاشق بدنام کے لیے
محتاج ہو کے گھر مـیں امـیروں کے تو نہ جا
دربار گانڑ پھاڑیں گے انعام کے لیے
اس بات پر عمل کرو کروالو شیخ جی
حقنہ بہت مفید ہے سرسام کے لیے
چرکیںؔ نے پائخانے مـیں کی اپنی بود و باش
گوشہ نہ جب ملا کوئی آرام کے لیے
***
136
طرح صاحب کو پھر اے بندہ پرور چاہئے
گانڑ مـیں یـاں گو نہیں ہے آپ کو زر چاہئے
غیر کہتے ہیں کہ جان و مال تو کیـا چیز ہے
گانڑ تک حاضر ہے لیجیے آپ کو گر چاہیے
دشمن بد گو کے منہ پر تو بڑا گو کا چڑھا
ایسے کو ایسی سزا اے ماہ پیکر چاہیے
جان دی ہے ہم نے اک مہتر پسر کے عشق مـیں
اپنی مرقد پر گل آدم کی چادر چاہیے
رکھ کے استنجے کا دھیلا سرتلے گھورے پہ لیٹ
تجھ کو اے چرکینؔ کیـا بالیں و بستر چاہیے
***
137
اس درجہ پائخانۂ جاناں بلند ہے
سنڈاس جس کا چرخ بریں سے دو چند ہے
کرتا نہیں ہے چوں کبھی رندوں کے روبرو
دہشت کے مارے شیخ کا یہ بند ہے
عاشق ہوں گو بھی اس بت شیریں کلامکا
نزدیک اپنے شہد ہے مصری ہے قند ہے
بیمار جو ہوای سفرے کے عشق مـیں
حقنہ کمال اس کے لیے سود مند ہے
جس نے سنی ہے اس بت خوش گپ کی گفتگو
شتر سمجھتا وہ ناصح کی پند ہے
چرکیںؔ کی قدر کچھ نہیں لیتے ہیں کھاد مول
ہے سچ مثل کہ خلق بھی مردہ پسند ہے
***
138
درد دل کی مرے چرکینؔ دوا لائے کوئی
پائخانے تلک اس بت کو لگا لائے کوئی
مرغ زریں ہے چغل یـار کے پاخانے کا
یـاں تک اس سونے کی چڑیـا کو اڑالائے کوئی
غیر بکتا ہے تو ے دو وہ گو کھاتا ہے
ایسے کا سخن دھیـان مـیں کیـا لائے کوئی
زر تو کیـا گانڑ تلک بھی نہ کرے گا وہ عزیز
شکل لیلیٰ کی جو مجنوں کو دکھلائے کوئی
آمد حیض ہے اس رشک چمن کی گدی
پھاڑ کر دامن گل جلد بنا لائے کوئی
زمزمے سن کے مرے بند ہیں مرغان چمن
ان کو تھوڑی سی کرم جا کے کھلا لائے کوئی
درد سر کایہی چرکینؔ کے بہتر ہے علاج
اس کا گو تھوڑا سا صندل مـیں ملا لائے کوئی
***
139
ترا مریض یہ گو مـیں خراب رہتا ہے
کہ جس سے مہتروں کو اجتناب رہتا ہے
مروڑے پیٹ مـیں مـیرے ہی کچھ نہیں اٹھتے
کمر کو آپ کی بھی پیچ و تاب رہتا ہے
فلک شکوہ ہے اے بت وہ تیرا پاخانہ
بجائے طشت جہاں آفتاب رہتا ہے
نظر پڑی تری اے یـار جب سے موت کی بوند
ذلیل آنکھوں مـیں درون خوش آب رہتا ہے
ملا ہے سارے زمانے سے تیرا قار ورہ
ہمـیں سے تجھ کو مگر اجتناب رہتا ہے
پڑا جو رہتا ہے چرکینؔ اس کے کوچے مـیں
حلال خوروں پہ اکثر عتاب رہتاہے
***
140
سوائے رنج کچھ حاصل نہیں اے دل ربا تجھ سے
وہ گو کھاتے ہیں جو رکھتے ہیں امـید وفا تجھ سے
نہ ہوتا وصل کی شب مـیں نہ کیونکر وہ حفا تجھ سے
ہگا بستر پہ اس گل کے ہوئی چرکیںؔ خطا تجھ سے
نہ پائی اک دن ہگنے کی اجازت تیرے کوچے مـیں
نہ اتنی بھی کبھی اپنی ہوئی حاجت روا تجھ سے
نہیں محفل مـیں بھی اے شوخ تجھ کو گانڑ پر قابو
نکل جاتی ہے رک سکتی نہیں اتنی ہوا تجھ سے
مثال پاخانے سے باہر نکلا پڑتا ہے
کہے چرکینؔ کیونکر اپنے دل کا مدعا تجھ سے
***
141
کچھ ان دنوں یہ یـار سے قار ورہ ملا ہے
پادا بھی اگر اس نے ہے تو ہم سے کہا ہے
برسوں ترے بیمار نے کہتے ہیں ہگی ہینگ
تپ موت گئی اب کوئی دو دن مـیں شفا ہے
نالوں سے مرے پادتے پھرتے ہیں چمن مـیں
سو مرتبہ گو بلبلوں کے منہ مـیں دیـا ہے
مے پیتا ہے پیشاب سے داڑھی بھی منڈائے
گو کھانے مـیں اب شیخ کے کیـا باقی رہا ہے
کوچہ ترا اے رشک چمن دیکھا ہے جب سے
سیر گل و گلزار پہ پیشاب کیـا ہے
جب غیر نے دیکھا ہے مجھے رعب سے مـیرے
ہگ مارا ہے پاجامے مـیں اور موت دیـا ہے
قار ورہ مرا دیکھ کے یہ بولے اطبا
غم کھایـا بہت بند اسے ہیضہ ہوا ہے
گو کھاتا ہے وہ گالیـاں کھاتا نہیں تیری
یہ غیر اگھوری نہیں اے جان تو کیـا ہے
سد رہ دیوار صنم جو ہوئی خندق
چرکینؔ نے ہگ ہگ کے اسے پاٹ دیـا ہے
***
142
ترشوا کر گل نسرین و سمن پتھر کے
اس نے پاخانے مـیں بنوائے چمن پتھر کے
اے فلک زیر زمـیں ان کی پھٹی جاتی ہے گانڑ
ڈھیر جن مردوں پہ ہیں سیکڑوں من پتھر کے
نسبت ان ہونٹوں سے دینا انہیں گو کھانا ہے
سب سمجھتے ہیں کہ ہیں لعل یمن پتھر کے
پرسش روم جزا سے نہیں خطرہ ان کو
دل مگر رکھتے ہیں دز دان کفن پتھر کے
کیـا کریں تجھ سے بھلا گفت و شنید اے چرکیںؔ
ان بتوں کے ہیںو گوش و دہن پتھر کے
***
143
دور بھاگیں اس ہوا سے کہدو قوم عاد سے
ہوگئے ہیں گھر کے گھر برباد اپنے پاد سے
اے فلک بیداد اتنی بھی غریبوں پر نہ کر
گانڑ کھجلایـا کرے که تا چند کوئی داد سے
وقت مشکل کے نکلتا ہے دلا ہمدم سے کام
آئے افیونی کو غایط حقے کی امداد سے
دامن کہسار کو ہگ ہگ کے آلودہ کرے
بیستوں پر سامنا کیجیے اگر فرہاد سے
سرخ پوشی کا اگر ہے شوق اے چرکینؔ تجھے
خون حیض رز کم نہیں ہے گاد سے
***
144
کریں گے بحث جو ہم شعر کے اصولوں کی
تو ہوگی گانڑ غلط سارے بوالفضولوں کی
نواز گنج مـیں مـیلا ہے آج گوگا کا
ہنڈولے گڑتے ہیں تیـاریـاں ہیں جھولوں کی
چمن مـیں جا کے جو یـاد آئی اس کے کی بو
ذرا دماغ کو بھائی نہ باس پھولوں کی
کیـا جو بوسہ طلب بولے گو نہ کھاؤ زیـاد
قبول بات نہیں ہم کو ناقبولوں کی
یہاں اگا نہںی چرکیںؔ ہمارا نخل مراد
وہاں ابھی سے ہیں تیـاریـاں بسولوں کی
***
145
کرتے ہیں بہت صحبت دلدار مـیں گرمـی
گھس جائیگی سب اغیـار مـیں گرمـی
گوگل تو نہ کھائے ہو بواسیر کی خاطر
رہتی ہے جو نبض بت عیـار مـیں گرمـی
ہگ دیتے ہیں سن سن کے زمانے کے جکت رنگ
کرتا ہوں زنانوں سے جو بازار مـیں گرمـی
اک کے آزار سے برسوں ہی ہگی ہینگ
کیـا قہر کی تھی اغیـار مـیں گرمـی
تو اچھلے گا اس درجہ کہ اٹھ جاؤ گے جل کر
کرتے ہو بہت بیٹھ کے دوچار مـیں گرمـی
چرکیںؔ نہ جلی پھسکیـاں مـیخانے مـیں مارو
چڑھ جائےمغز بت مـیخوار مـیں گرمـی
***
146
کچھ نہیںیہ نسخۂ معجون عنبر ہے
دہی اپلے ملاکر شیخ جی کھالو تو بہتر ہے
نہ کیونکر پادنے مـیں غیر حلقے گانڑ سے چھوڑے
نہیں گانڑ اس کی آتش بازی کی گویـا چھچھوندر ہے
سڑی شبیہہ ہے کیـا بوئے زلف یـار سے دوں مـیں
جسے کہتے ہیں سب عنبر حقیقت مـیں وہ گوبر ہے
بدی مـیری نہ کر تو دوست سے دشمن سمجھ جی مـیں
برا کہنای کو اور گو کھانا برابر ہے
رقیب مبتذل کی کھیلتی ہے گانڑ گنجیفہ
یہاں پچیسی آکر کھیلتا جب ہم سے دلبر ہے
پلاکر مـیگنی خرگوش کی حقے مـیں اے رندو
پداؤ شیخ افیونی کو وہ گیدی بڑا خر ہے
وہ بازی شہ کی سڑجاتی ہے چرکیںؔ کے نصیبوں سے
جو بازی بوسہ بازی کھیلتا جاناں سے چوسر ہے
***
147
بیت الخلائے یـار ہے روز سعید ہے
نظارۂ جمال ہے چرکیںؔ کو عید ہے
دستوں پہ دست آتے ہیں بچھتے ہیں پوتڑے
اس حال مـیں نہ آؤ یہ تم سے بعید ہے
دشمن کی گفتگو پہ عمل کیجئے نہ آپ
جھوٹا ہے مفتری ہے وہ پلید ہے
پھولے نہیں سماتے ہیں گلچیں و باغباں
آئی بہار کھاد کی ہوتی خرید ہے
دیکھا جو ماہ نو کو فلک پر تو یہ کھلا
بیت الخلا کے قفل کی اس کے کلید ہے
غیر نجس نہ آتش فرقت سے کیوں جلے
کچھ اس مـیں شک نہںی ہے کہ ناری یزید ہے
دیتا ہے گالیـاں کبھی کہتا ہے گو نہ کھا
اک بوسہ مانگنے پہ یہ گفت و شنید ہے
سوجی ہیں آنکھیں رو رو کے سفرے کے عشق مـیں
گو کا ضماد ایسے ورم کو مفید ہے
آمد ہے خون حیض کی بنتی ہیں گدیـاں
گودڑ کی لعل سے بھی زیـادہ خرید ہے
بیراگی اس کی پنجہ ہے کشتی ہے ٹوکرا
چرکینؔ گوگا پیر کے گھر کا مرید ہے
***
148
صاحب کی بے_وفائی سے خطرہ نہیں مجھے
تم پھر گئے تو پھر گئے پروا نہیں مجھے
ہاتھوں سے بے_زری کے ہواہوں یہ تنگ دست
اب قوت لا یموت بھی ملتا نہیں مجھے
ناصح یہ گفتگو تری بیجا ہے گو نہ کھا
اڑ پاد یـاں سے دور ہو بھڑکا نہیں مجھے
آلودہ ہوں نجاست دنیـا مـیں رات دن
کیـا قہر ہے کہ خطرۂ عقبیٰ نہیں مجھے
کڑوی لگے نہ آپ کو کیوں ترش گفتگو
مرغوب مـیٹھی بات ہے صفر انہیں مجھے
لوطی ہوں بچہ باز ہوں سے کام ہے
او بحر حسن خواہش دریـا نہیں مجھے
دل دے کے اس پری کو جو گو تھا پتا پھروں
چرکیںؔ تمہاری طرح سے سودا نہیں مجھے
***
149
جائے آرام ہے چرکیںؔ تو ہیں تھوڑی سی
کسی کھڈی مـیں جو مل جائے زمـیں تھوڑی سی
جوہری کہتے ہیں دیکھ اس کےلعلیں کو
ہینگ بگوائے گا ہم کو یہ نگیں تھوڑی سی
گو مـیں نہلائیے غیروں ہی کو غصہ ہو کے
ہے بہت اپنے لیے چین جبیں تھوڑی سی
روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پ کہا
لید کرنی ہو تو کرلے تو یہیں تھوڑی سی
ہاتھ لگ جائے تو پارے کی طرح سے ماریں
ہم کو دے ڈالے اگر کوئی حسیں تھوڑی سی
قبض ابنائے زمانہ کو ہواہے یـاں تک
گھس لگانے کو کہیں کھاد نہیں تھوڑی سی
کبھی چوموں کبھی چاٹوں کبھی آنکھوں سے لگاؤں
صاف سی گانڑ جو مل جائے کہیں تھوڑی سی
پھسکیـاں مارئیے ایسی کہ سڑا دیجے دماغ
دے جگہ ہم کو جو وہ اپنے قریں تھوڑی سی
کوئی دم مجھ سے بد اختر کی بھی لینڈی تر ہو
مہربانی کرے وہ ماہ جبیں تھوڑی سی
اچھلے طرح نہ گو زیر فلک اے چرکیںؔ
ہگنے والے ہیں بہت اور زمـیں تھوڑی سی
***
150
صحت جاں سے تری تن مـیں مرے جاں آئی
سے بوئے گل و سنبل و ریحاں آئی
قبر پر آ کے بھی اس بت نے ہوتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئی
نا گوارا ہوئی گلگشت چمن کی تکلیف
سر پھرانے تجھے اے سرد خراماں آئی
گانڑ کی راہ گئی قبض سے جاں شیخ کی پر
لینڈی سفرے سے نہ باہری عنواں آئی
نظر آنے لگا سنبل ہمـیں پادا پونی
یـاد گلشن مـیں جو وہ زلف پریشاں آئی
مارے دہشت کے نکل جائے گا دم گانڑ کی راہ
تو مرے سامنے گر اے شب ہجراں آئی
گو اچھالے گا سڑی ہوگا چنے گا تنکے
وہ پری گھر مـیں جو چرکینؔ کے مہماں آئی
***
151
جس نے بو سونگھی کبھی اس کے گل رخسار کی
پاد کی بو اس کے آگے بو ہے پھر گلزرا کی
مـیرے آگے چل نہ اے کبک دری بس گو نہ کھا
یـاں کبھی ہے دل مـیں چال اک سرو خوش رفتار کی
وصل کا کرتا ہے وعدہ مجھ سے جب وہ بحر حسن
گانڑ پھٹ کر حوض ہوجاتی ہے تب اغیـار کی
کیـا کہوں کیسی عشق ہے ساقی کڑی
جس کو پیتے گانڑ پھٹتی ہے ہر اک مـیخوار کی
خرمن گل باغ مـیں کہتا ہے جس کو باغباں
لید اس کو جانتا ہوں مـیں سمند یـار کی
عشق مـیں سفرے کے مرتا ہے ترے چل اس کو دیکھ
ہگتے ہگتے غیر حالت ہے ترے بیمار کی
موتتے اس قاتلہ کو دیکھ کر مـیں مرگیـا
موت کی بھی دھار گویـا دھار تھی تلوار کی
بزم رنداں مـیں جو آئے شیخ پھاڑیں اس کی گانڑ
دھجیـاں مـیکش اڑائیں جبہ و دستار کی
باغ گھورا سا نظر آتا ہے اس کی آنکھ مـیں
سیر جو کرتا ہے اے چرکینؔ کوئے یـار کی
***
152
مال و دولت نے مجھے کشور ستانی چاہئے
پائخانے کی صنم کے پاسبانی چاہئے
حیض کے خوں سیہے بدتر یہ فراق یـار مـیں
کو اب ساقی ارغوانی چاہئے
چل مئے کم ہو حرمل و خرمل کا دور
شیخ جی کو گانڑ مستوں سے مرانی چاہئے
دیکھے استادہ جو لینڈی تیری اے بالا بلند
خاک مـیں مل جائے سرو بوستانی چاہئے
گانڑ ملنے مـیں چرانا عاشق دل خستہ سے
یہ نہیں تجھ کو مرے محبوب جانی چاہئے
گر یہی رفع حدث ہے شیخ جی تو ایک دن
کے صدمے سے پھٹ جائے مـیانی چاہئے
صحبت ہم جنس باہم جنس ہوتی ہے برآر
تم کو معشوقہ بھی چرکیںؔ مہترانی چاہئے
***
153
شوق گلگشت کا چرکینؔ کو جس دم ہوجائے
گل ہر اک باغ مـیں رشک گل آدم ہوجائے
جاکے گھورے پہ کریں گو کے جو مضموں موزوں
اپنی ہر بیت مـیں پاخانے کا عالم ہوجائے
بے بہا اس مـیں جڑے جاتے ہیں نگ سدوں کے
شیخ کی گانڑ نہ کیوں غیر خاتم ہوجائے
اور بھی اس کو پڑے گا گانڑ کلیجے جھگڑا
جس سے خلطہ تجھے اے قاتل عالم ہوجائے
دیکھ لے اس گل خوبی کی جو پیشاب کی بوند
پانی پانی ہو گہر قطرۂ شبنم ہوجائے
چوڑیـاں کانچ کی ہاتھوں مـیں پہنتا ہے وہ شوخ
پھبتی نیچے کی نہ نیچے پہ مسلم ہوجائے
نام اگر چاہے تو مل جھک کے ہر اک سے چرکیںؔ
قدم خم گشتہ ترا حلقۂ خاتم ہو جائے
***
154
پیـا ہے موت جو چرکیںؔ کے بدلے
گڑک بھی لینڈیوں کی کھا کباب کے بدلے
ہر بسہ نکلے گا اس مہ کی دیگ فشری کا
طبق ہو مہر کا غوری کے قاب کے بدلے
ہمـیشہ شیخ سے یہ گفتگو ہے رندوں کی
لگاؤ داڑھی مـیں نورا خضاب کے بدلے
ہگے ہی دیتے ہیں عشاق مارے خطرے کے
نظر جب آتے ہیں تیور جناب کے بدلے
رہے گا موج پر گریوں ہی موت کا دریـا
ترےکشتی گردوں حباب کے بدلے
رہیں گے یوں ہی گراں مغ بچوں کے گنڑ غمزے
پویں گا گھونٹ کے سبزی کے بدلے
مریض عشق کا خط پڑھ کے اس نے اے چرکیںؔ
جواب نامہ لکھا ہے جواب کے بدلے
***
155
قول ہیں دام محبت کے گرفتاروں کے
گانڑ پھٹ جائے جو غمزے سہے دلداروں کے
ہجر مـیں نرگس بیمار کے آنکھوں مـیں مری
غنچۂ گل نہیں قارورے ہیں بیماروں کے
سر بازار چرا گانڑ کھسک جاتے ہیں
سور چڑھتے نہیں منہ پر تری تلواروں کے
ترے عشقا کو دکھلاتے ہیں عریـاں تجھ کو
کیـا ہیں روزن ترے پاخانے کی دیواروں کے
اس قدر خطرۂ سیـاد سے ہگ ہگ مارا
گو سے لتھڑے ہیں قفس سارے گرفتاروں کے
بلبلیں جمع ہیں گلزار سمجھ کر اس کو
پھول گھورے پہ پڑیہیں جو ترے ہاروں کے
جب سے رشک گل لالہ ترا سفرا دیکھا
داغ دل ہوتا ہے نظارے سے گلزاروں کے
شربت ورد جو پی کر وہ ہگیں پائیں شفا
جو ہیں بیمار ترے پھول سے رخساروں کے
شہر مـیں پھر نے سے چرکینؔ کے یہ خطرہ ہے
گو سے پٹ جائیں نہ رستے کہیں بازاروں کے
***
156
عجب تماشا ہو چرکینؔ بہار کے بدلے
جو پھسکی شیخ جی چھوڑیں انار کے بدلے
چمن مـیں گل کی جگہ پر پرے ہیں گو کے ڈھیر
دکھائی دیتے ہیں کوئے ہزار کے بدلے
پڑا ہے گو مـیں وہ لت پتی نے اے گلرو
نہ پوتڑے بھی ترے غمگسار کے بدلے
بڑھادو شوق سے پشموں کو شیخ جی صاحب
منڈاؤ داڑھی کو موئے مہار کے بدلے
ہماری ہگنے مـیں نکلی ہے جان گانڑ کی راہ
ضرور کھڈی مـیں رکھنا مزار کے بدلے
کہےدیکھ کے کیـا خلق شیخ جی صاحب
گلے مـیں جوتیـاں پہنو نہ ہار کے بدلے
اٹھاتے منہ سے ہو ناحق نقاب ہٹ کے سڑو
دکھاؤگو بھرا سفرا عذار کے بدلے
کرے گا سامنا کیـا پادنے مـیں شیخ اپنا
جو شرط چاہے تو وہ ہاتھ مار کے بدلے
جو ہم امـیروں کی ڈیوڑھی پہ جاتے ہیں چرکیںؔ
خواص روکتے ہیں چوبدار کے بدلے
***
157
نجسسا وارد لکھنؤ ہے
جدھر دیکھتا ہوں ادھر گو ہی گو ہے
پھٹی شیخ کی ڈر سے رندوں کے ایسی
نہ ٹانکوں کا موقع نہ جائے رفو ہے
ہزاروں ہیں مہتر پسر تک پری رو
پرستاں جسے کہتے ہیں لکھنؤ ہے
ترے ہجر مـیں مجھ کو اے سرو رعنا
بدر رو سے بدتر ہر اک ہے
گیـا ٹوٹ اک مـیں شیخ صاحب
عجب پادا پونی تمہارا وضو ہے
نہ کیوں کر ہو آپس مـیں پھر گوہا چھی چھی
مـیں نازک مزاج اور وہ تند خو ہے
عجب کیـا جو پیچش ہو موئے کمر مـیں
وہ مرغولہ رفتار و مرغولہ مو ہے
محبت کہاں ہے عزیزوں مـیں چرکیںؔ
منی سے سفید ان سبھوں کا لہو ہے
***
158
آئی بہار چھوٹے چمن بوم و زاغ سے
وہ بھی ہوں دن خزاں کہیں اڑپادے باغ سے
روشن کیـا ہے بزم مـیں یہ پدوڑے نے
آتی ہے بوئے جو دود چراغ سے
کیـا غنچہ ہو کے بلبلیں بیٹھیں گلوں کے پاس
ہگنے کو باغباں کبھی نکلا جو باغ سے
جراح کا یقین ہے سڑجائے گا دماغ
پھاہا اگر اٹھا مرے سینے کے داغ
شرم و حیـا کو چھوڑئے گھر اپنا جانئے
ہگ لیجے بندہ خانے مـیں صاحب فراغ سے
کیـا غیر تیرہ زو سے چھٹے جھوٹ بولنا
خصلت نہ گو کے کھانے کیچھوٹےزاغ سے
نمرود سا رقیب مـیں چرکیںؔ غرور تھا
دو جوتیوں مـیں جھڑ گیـا بھیجا دماغ سے
***
159
مجھ کو اب اس حال مـیں کیـا سیر گلشن چاہئے
مـیں ہوں چرکیںؔ مـیرا اک گھورے پہ مسکن چاہئے
قبض سے دھوبی کے سفرے مـیں یہ لینڈی اٹکی ہے
کہتا پھرتا ہے مجھے شافے کو صابن چاہئے
مـیں پدوڑا ہوں مری ہے صحت جاں پادنا
ہائے صاحب آپ کو اتنا نہ قدغن چاہئے
ہگتے ہگتے اس پری نے مجھ کو دیوانہ کیـا
گو بھرے دامن سے اب صحرا کا دامن چاہئے
پیٹ سے نکلے نہ کیونکر گانڑ کی ہے راہ تنگ
یہ وہ سدے ہیں کشادہ جن کو روزن چاہئے
ڈھیر اندھیری رات مـیں کر رکھتا ہوں مـیں لینڈیـاں
مہتروں مـیں نام مـیرا ہووے روشن چاہئے
مـیرے اس بت کی سنی ہگنے مـیں یہ غمزہ گری
شیخ پادے چوں سے ہگ دیوے برہمن چاہیے
گر یہی شدت رہی دستوں کی ہجر یـار مـیں
موت سا بہہ جائے سارا رنگ و روغن چاہئے
گو اٹھاتے ہی اٹھاتے موت آنی ہے مجھے
پائخانے مـیں مرا چرکینؔ مدفن چاہئے
***
160
ہووے اے چرکیںؔ اگر بارش مرے پیشاب سے
مہتروں کی مٹیـاں بہتی پھریں سیلاب سے
گانڑ کھولے سوتے ہیں وہ خاک پر زیر زمـیں
پوتڑے سلتے تھے جن کے قاقم و سنجاب سے
کانچ ہگتے مـیں جو اس گل کی نظر آئی مجھے
مـیں نے جاناں ہے بھرا شیشہ ناب سے
دیکھے ہگتے گر اسے پاخانے مـیں پیر فلک
گانڑ پوچھے پنجۂ خورشید عالم تاب سے
ہگتے مـیں بھی ہے جو آرائش اسے مد نظر
چوکی منڈھوائی ہے اس نے چادر مہتاب سے
خوش دماغی کا کروں اس گل کی کیـا تحریر وصف
گانڑ بھی ہگ کر نہیں دھوتا گلاب ناب سے
ناتوانی نے کیـا چرکیںؔ مجھے مور ضعیف
موت کا ریلا بھی مجھ کو کم نہیں سیلاب سے
***
مرتب: پشواز غزل عنایت ابرار الحق شاطر گورکھپوری
جعفر زٹلی کی کتاب زٹل نامہ پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔
http://rekhta.org/ebook/Zatal_Nama_
. پشواز غزل عنایت . پشواز غزل عنایت