سپرا ۵۰۰

سپرا ۵۰۰ پراید85 سفارشی - شیپور | پراید مدل 85 اسپرت - شیپور - sheypoor.com | تاریخ۔۔۔History of Kishtwar | Urdusfhaat | تاریخ احمدیت ۔ جلد 14 ۔ یونی کوڈ | فیضان ختم نبوت [ Faizan ... | 206 Photos & Videos on Instagram - gramview |

سپرا ۵۰۰

پراید85 سفارشی - شیپور

درحال بارگذاری...

بازگشت بـه لیست استان‌ها بازگشت بـه لیست شـهرها

موردی یـافت نشد.
لطفا عبارت جستجو را تغییر دهید یـا مکان خود را از لیست انتخاب کنید.

در بهبود لیست محله ها با ما مشارکت کنید.
تماس با پشتیبانی

. سپرا ۵۰۰ . سپرا ۵۰۰ ، سپرا ۵۰۰




[سپرا ۵۰۰]

نویسنده و منبع |



سپرا ۵۰۰

پراید مدل 85 اسپرت - شیپور - sheypoor.com

درحال بارگذاری...

بازگشت بـه لیست استان‌ها بازگشت بـه لیست شـهرها

موردی یـافت نشد.
لطفا عبارت جستجو را تغییر دهید یـا مکان خود را از لیست انتخاب کنید.

در بهبود لیست محله ها با ما مشارکت کنید.
تماس با پشتیبانی

. سپرا ۵۰۰ . سپرا ۵۰۰ ، سپرا ۵۰۰




[سپرا ۵۰۰]

نویسنده و منبع |



سپرا ۵۰۰

تاریخ۔۔۔History of Kishtwar | Urdusfhaat

]]>

تاریخ۔۔

تاریخ کشتواڑ

خلاصۂ تاریخِ کشتواڑ


(ایک تقابلی مطالعہ)

مُرتبہ عشرتؔ کاشمری

تصحیح وتوسیع فداؔ کشتواڑی
بار دوئم 
تعداد پانچ صد
قیمت ۲۰۰ روپے

ناشر

تقسیم کار: سپرا ۵۰۰ ۱۔اجیت نیوز ای نزد، سپرا ۵۰۰ ڈی۔سی۔ آفس کشتواڑ۔ ۱۸۲۲۰۴
۲۔شمع نیوز ای کشتواڑ۔۱۸۲۲۰۴۔نزد ڈسٹرکٹ ہسپتال کشتواڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کتاب کی طباعت کیلئے جموں وکشمـیر اکیڈیمـی آف آرٹ ، کلچر اینڈ لینگویجز سے مالی امداد حاصل کی گئی ہے ۔اس کتاب مـیں ظاہر کی گئی آراء سے کلچرل اکیڈیمـی کابالواسطہ یـا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ اس ضمن مـیں کلچرل اکیڈیمـی پر کوئی ذمہ داری عاید ہوگی۔

(ایک ضروری نوٹ)
تاریخِ کشتواڑ کا پہلا ایڈیشن سال ۱۹۷۳ ؁ء مـیں اشاعت پذیر ہوا ہے ،اب تقریباً ستائیس (۲۷) سال کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آرہاہے ۔ ستائیس(۲۷) سال کے طویل عرصے مـیں یہاں تاریخی اور جغرافیـائی تبدیلیـاں وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔اس لئے اس کی تصحیح اور توسیع کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ جو اس اشاعت مـیں شامل کی گئی ہیں ، یہ کام ناممکن تھا اگرمجھے عشرت کاشمـیری کے خاندان اور ان کے پسران نیک بخت کا تعاون حاصل نہ ہوتا جن کا خاندانی شجرہ نسب مـیں ذکر کیـاجاچکاہے۔

(فدا کشتواڑی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعارف
نام: غلام مصطفےٰ والد :عبدالمجید
قلمـی نام: عشرتؔ کاشمـیری تاریخ ولادت: ۱۲مئی ۱۹۱۶
وفات:۲۴؍اپریل۱۹۷۸( بمقام جموں حرکت قلب بند ہوجانے سے)
تعلیم:ایف ۔اے(ادیب فاضل) آبائی وطن: کاس گنج ( یو۔ پی)
پیشہ:ملازمت ادبی زندگی کاآغاز:زمانہ طالب علمـی سے
غلام مصطفےٰ عشرتؔ کاشمـیری کی ولادت کاس گنج اُتر پردیش مـیں ہوئی ۔ عشرتؔ کاشمـیری کے چچا عبداﷲ جُو شیخ جو کشمـیر سے کاروبار کے سلسلہ مـیں کشتواڑ آئے تھے ۔ان کا کاروبار یہاں خوب چلانکلا۔ انہوں نے یہاں ہی شادی کرکے ساختیـار کرلی ۔ عبداﷲ جو شیخ جن کی کوئی اپنی اولاد نہیں تھی، اپنے بڑے بھائی عبدالمجید جو عالم شباب مـیں ہی اترپردیش بمقام کاش گنج چلے گئے تھے اوری مسجد مـیں امامت کے فرائض انجان دیتے تھے ۔اُن کے ہاں عشرتؔ کاشمـیری پیدا ہوئے اور جب وہ سات آٹھ سال کو پہنچے تو اُسے عبدالمجید سے مانگ لیـا ۔
ملازمت:۱۹۴۷ ؁ء سے ۱۹۵۰ ؁ء بحیثیت مدرس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ۱۹۵۶ ؁ء مـیں محکمہ دیہات سدھار مـیں بحیثیت بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر تعلینات ہوئے ۔۱۹۴۰ ؁ء مـیں جموں سے جاری ہونے والے ماہنامہ دیہات سُدھار کے مدیر بنے ، اس کے بعد ۱۹۶۷ء مـیں ملازمت سے سبکدوش ہوکر ریـاستی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ ۱۹۷۱ ؁ء سے لیکر ۱۹۷۸ ؁ء تک کانگریس کمـیٹی کے آفیشل آرگن ’’قومـی آواز جموں‘‘ اور اخبار’’سچ‘‘ کی ادارت سے وابستہ ہوگئے۔
تصنیفات: تاریخ کشتواڑ ایک تقابلی مطالعہ اس کے علاوہ ملک کے دیگر اخبارات و جرائد مـیں آپ کے کئی تحقیقی مقالات اور آپ کا شعری کلام چھپتا رہا۔
طبع آزمائی:غزل، نظم ،رباعی، قطعات ،نعت گوئی ،افسانہ نگاری، نیز تحقیقی مقالات
فدا ؔ کشتواڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کشتواڑ کا مختصر جائزہ
_________فدا ؔ کشتواڑی
’’تاریخ کشتواڑ‘‘ عشرتؔ کاشمـیری کا وہ کارنامہ ہے جسے رہتی دُنیـا تک یـاد رکھاجائے گا ۔تاریخ کشتواڑ عشرتؔ صاحب کی عمر بھر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس پر وہ عمر بھر کام کرتے رہے بہت سی اُردو انگریزی تاریخی کتابوں کو پڑھابلکہ کھنگالا تب جاکر تاریخ کشتواڑ مرتب ہوسکی ۔ اگرچہ یہاں نجم الدین کی تاریخ کشتواڑ اور گلشن اسرار جیسی کتابیں بھی پہلے سے موجود تھیں جو تضادات اور اغلاط سے بھری ہوئی تھیں ۔ لیکن عشرتؔ کاشمـیری کی تاریخ کشتواڑ(ایک تقابلی مقابلہ) کی بات ہی کچھ اور ہے ۔جو اول که تا آخر تاریخی واقعات اور حالات سے بھری ہوئی ہے ۔ جس مـیں کشتواڑ سے متعلق تمام قسم کی تواریخی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔تاریخ جو ایک مسلسل عمل ہے ۔اس موضوع پر لکھنا ہر ایرے گیرے کا کام نہیں ہے لیکن عشرتؔ کاشمـیری نے اس کو ایک منجھے ہوئے تاریخدان کی طرح برتاہے ۔
تاریخ کشتواڑ سال ۱۹۷۳ ؁ء مـیں قومـی آواز پرنٹنگ پریس جموں سے پہلی بار کلچراکادمـی کے مالی تعاون سے پانچ صد کی تعداد مـیں چھاپی گئیں اور اس کی قیمت مبلغ چار روپے مقرر ہوئی ۔ جواب بالکل نایـاب ہے ۔ جس مـیں راجے راجاؤں اور مشاہیر کا تذکرہ شامل ہے ۔ یہ تاریخ اب وارثان کے پاس بھی موجود نہیں ہے ۔ راقم کے پاس دو کتابیں تھیں ایک محترم محمد یوسف ٹینگ صاحب کے اصرار پر صاحب موصوف کی خدمت مـیں پیش کی گئی اور دوسری مـیرے پاس بطورِ امانت موجود ہے یہ تاریخ ۱۴۲ صفحات پر مشتمل ہے جو لیتھو مـیں چھپی ہے ۔اور مجلد ہے اگر کلچرل اکادمـی اس نادر تاریخ کو دوبارہ چھاپ لیتی تو یہ انمول تاریخ محفوظ رہ سکتی ہے ۔اس کتاب مـیں تمام تاریخی موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور قصبہ کشتواڑ کے تمام خطوں کا تاریخی ، جغرافیـائی اور معاشی خصوصیـات کو اُجاگر کیـاگیـا ہے ۔
تاریخ نویسی بلاشبہ ایک اہم ذمہ دار ی ہت تصنیف و تالیف کے نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ علم تاریخ کے تقاضوں کے لحاظ سے بھیی بھی ملک و قوم کے ماضی اور حال کے واقعات ، حالات و کیفیـات کو منصبی ایمانداری کے ساتھ قلم بند کرنا دیدہ وری ہی کا نہیں بلہکہ اعلیٰ ظرفی کا بھی امتحان ہوتا ہے ۔اسکے لئے بصیرت درکار ہوتی ہے اور جسارت بھی پھر اس کی باز گوئی یـا بازیـافت کے ذریعے نئی نسلوں تک تاریخی حقیقتوں اور شواہد کو معتبر ماخذوں اور حوالوں کے ساتھ بلا کم و کاست پیش کرنا بھی کچھ کم اہم کام نہیں ہے ۔ جس مـیں ہوسکتا ہے عظمتوں کے مـینارے بھی ہوں اور کہیں کہیں پستیوں کے غار بھی ۔مگر کئی ملک و قوم کو اپنے ارتقا کے سفر مـیں کن معرکوں اور انقلابوں سے دوچار ہوناپڑا ہے ۔اس کی سیـاسی ،سماجی ،ثقافتی او رمعاشی زندگی کے مدوجزر کا رُخ کیـا تھا؟ افراد یـا جماعتوں اور اُن کے رویے کیـا اور کیسے رہتے ہیں پروہ محرکات کیـا رہے ہیں انجام کار ، نتائج و عواقب نے طرح کروٹیں لیں اور آج تازہ صورت حال کیـا ہے ۔ان سب باتوں پر نظر رکھنا اور قلم اُٹھانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں لیکن عشرتؔ صاحب نے اس عمل کو بخوبی نبھایـا ہے ۔

مضامـین کی نوعیت کے اعتبار سے انہیں مندرجہ ذیل حصوں مـیں مرتب کیـا گیـا ہے ۔
ا۔ب۔ج۔د۔ھ۔و۔ز۔ح۔ط۔ی۔ک۔ل۔م۔ن۔س۔ع۔ف۔ص۔ق۔ر۔ش۔ت۔ث ۔ خ۔ ذ۔ض۔
ان صفحات مـیں مورخ عشرتؔ کاشمـیری نے اپنی پیش لفظ مـیں تاریخ کشتواڑ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جس مـیں کشتواڑ کی خوبصورت وادی کو سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فُٹ بلند بتایـا ہے ۔ طول بلد مرشقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلبد۱۸ء۳۳ درجے شمالی دکھایـا ہے ۔اس طرح یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ رقبے کے لحاظ سے تحصیل کشتواڑ جواب ضلع بن گیـا ہے ماسوائے ضلع لداخ ،ڈوڈہ سب سے بڑی تحصیل ہے ،پھر حرف (ث) کے بعد پیغام کے عنوان سے ایک نظم درج ہے جس کو عشرتؔ کاشمـیری نے اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم لکھا ہے ۔ چند اشعار حسب ذیل ہیں۔
(نظم) 
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیو عزیز کشتواڑیو وطن کے نام پر اُٹھو
نقاب شب ہے چہرۂ جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نور کے کُھلے وہ صبح مسکرا اٹھی
جو بے خبر ہیں سورہے پیـام انقلاب دو عزیز کشتواڑیو وطن کے نام پر اُٹھو

اس نظم کے بعد نہر نئے گڈھ اور پاور پروجیکٹ کاذکر ہے پھر حرف آخر مـیں یوں رقم طراز ہیں۔
حرفِ آخر: تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو مـیں پچھلے دس برس سے اُتارنے کی کوشش کررہاتھا۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیشکش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ،تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمـیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخ تالیف پر اس کے مولف کے ذاتی ،اعتقادات و خیـالات کی ہلکی یـا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہے ہیں نہ معلوم اس چمن مـیں ابھی کتنے بلبل نغمہ سرا ہوں گے ۔
حرفِ آخر کے بعد اعتراف کے عنوان سے مہتہ اوم پرکاش مرکزی وزیر اور ریـاست کی اکادمـی کا شکریہ ان الفاظ مـیں ادا کیـا ہے ۔
اعتراف: شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخ کشتواڑ کے تعلق مـیں مـیری ہمـیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصہ شہود پر جلوہ نما نہ ہوئی ہوتی۔ ریـاست کی اکادمـی برائے کلچر اور زبان کا شکریہ گزار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزما کام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطا فرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیـا۔
کثیر خرچ کے مقابلے مـیں حقیر امدادی رقم کی اہمـیت اس لئے ہے کہ اکادمـی کے ارباب اختیـار چند برس تک مـیعادِ اشاعت مـیں توسیع دیتے رہے ۔ ان تمام حضرات کا بھی شکر گذار ہوں جنہوں نےی نہی صورت مـیں اس کتاب کی تالیف مـیں مـیری رہنما ئی فرمائی۔
تاریخ کے شروع مـیں فیض احمد فیضؔ کے شعر مـیں ترمـیم کرکے یوں لکھا گیـا ہے 
نثار مـیں تیرے گلیوں کے اے وطن کہ جہاں 
چلے وہ رسم کہ سب سر اُٹھاکے چلیں
اس شعر کے بعد موٹے حروف مـیں تاریخ کشتواڑ(ایک تقابلی مقابلہ)درج ہے پھر 
’’مرتبہ ‘‘ عشرت کاشمـیری ملنے کاپتہ ،مکتہ چاند جموں
عشرتؔ کاشمـیری کشتواڑ( جموں)سابق ممبر اسمبلی
قیمت ۳ روپے۔ مارچ ۱۹۷۳ ؁ء کتبہ سید نور الدین
لیکن کتاب کے کور پر چار روپے درج ہے ۔
دوسرے صفحے پر انتساب سے پہلے یہ شعر درج ہے ۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سو کِھلے گلاب رہے
انتساب : مـیں یہ عبارت درج ہے۔
ماضی مـیں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایـا بلکہ لداخ مـیں وہ کارہائے نمایـاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یـاد مـیں سر عقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلند مرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیـار کے لئے عظیم اور تعمـیری خدمات بجا لارہاہے ۔
اہل لداخ نے مہتہ منگل کے حضور مـیں سر جھکایـا اور مـیں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بار گاہ مـیں یہ قلمـی نذارانہ پیش کرتاہوں۔
اگلے صفحے پر اوم مہتہ کی رنگین تصویر ہے جس کے نیچے انگریزی مـیں یہ حروف ہیں۔
Hon'ble Mehata,State Minister for Parliamentary Affairs and Housing Govt. سپرا ۵۰۰ of India
پیشِ لفظ جو حرف’’ض‘‘ پر ختم ہوتا ہے کُل اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے بعد تاریخ کشتواڑشروع ہوتی ہے جو باب اول سے شروع ہوکر باب ہفتم صفحہ ۱۴۲ ؁ء پر ختم ہوتی ہے ۔ صفحہ نمبر۱۴۳ پر کتب نما کے عنوان سے تاریخ کشتواڑ کی تیـاری مـیں جن کتب سے مدد لی گئی اُس کا ذکر حسب ذیل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کشتواڑ
پروفیسر فداؔ حسنین کی نظر مـیں
پروفیسر فدا محمد حسنین نے عشرت کاشمـیری کی تاریخ کشتواڑ کااس طرح جائزہ پیش کیـا ہے ۔ عشرتؔ کشتواڑ کے رہنے والے تھے اور انہیں اس علاقے کے ساتھ انتہائی محبت تھی ۔وہ ادیب اور شاعر بھی تھے ۔ انھیں تمنا تھی کہ کشتواڑ کی تاریخ لکھی جاسکے۔ ظاہر ہے مصنف نے یہ تاریخ ٹھوس بنیـادوں پر قلمبند کی ہے اور اس پر ان کے دلی جذبات کا گہرا اثر رہاہے ۔ کشتواڑ کے ساتھ جو مصنف کو لگاؤ پیدا ہوگیـا تھا ،اسی نے انہیں کشتواڑ سے متعلق تحقیق کرنے کی تحریک دی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کچھ ایسے معلومات بہم پہنچائے جو سنگ مـیل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ مشہور بدھ عالم ناگسین کے بارے مـین اس کی رائے یہ ہے کہ وہ کشتواڑ کا رہنے والا تھا ۔ بطورِ ثبوت وہ کہتا ہے کہ آج بھی کشتواڑ مـیں ایک ایساعلاقہ ہے جس کانام ’’ناگسون ‘‘ یـا ناگ سین ہے۔
مذکورہ علاقے کی وجہ تسمـیہ مشہور بدھ عالم ناگسین ہے ۔ کشمـیر کی طرح کشتواڑ مـیں بھی بدھ مت عروج پر رہاہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کشمـیر مـیں بدھ مت کے ماننے والوں پر ظلم و ستم بڑھنے لگے تو وہ شیو مت کے پیرو کاروں سے دور بھاگ کر پہاڑوں کی طرف چلے گئے ۔ کشتواڑ،لولاب ،اور دیگر ملحقہعلاقے بدھ مت کے پیروکاروں کی پناہ گاہ بنے ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قحط اور دوسرے آفات کے دوران کشمـیری کشتواڑ مـیں پناہ لیتے تھے ۔’’ملہندہ پنہ‘‘ کے کشمـیری مـیں لکھے جانے کی روایت موجود ہے اور منیندر کی حکومت مـیں قندہار کا سارا علاقہ پنجاب ، سنگھ اور کاٹھیـاواڑ بھی اس کے ساتھ شامل تھے ۔اس طرح ناگسین کے بارے مـیں یہ روایت بھی موجود ہے کہ وہ کشمـیر ی تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کشتواڑی باشندہ ہو ۔ کیونکہ کشتواڑی زبان کشمـیری زبان کا قدیم روپ ہے ۔ عشرتؔ کاشمـیری نے کشتواڑ کے ساتھ محبت مـیں اور بھی دریـافت کی ہے ۔ یعنی آگ پر کرنا ۔ اٹھارہ بھوجہ والی دیوی کے استھان پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب کے موقع پر آگ کے انگاروں پر ناچنا ۔ایسا یونان کے رقاص بھی کرتے تھے ۔ ممکن ہے سکندر اعظم کے واپس جانے کے بعد جب کشمـیر اور کشتواڑ مـیں یونانی شہزادوں کی حکومت قائم ہوئی تو اُسی زمانے مـیں شاید اس ناچ کا رواج ہوا ہوگا۔مگر عشرتؔ کاشمـیری کی کاوش قابل داد ہے جس نے تاریخی معلومات ہم تک پہنچائیں ۔اسی طرح اس نے کشتواڑ کے جنرل مہتہ منگل اور مہتہ بستی رام کابھی ذکر کیـا ہے ۔ چونکہ مرحوم عشرتؔ کو ادب اور شاعری سے بھی کافی رغبت تھی ۔اس لئے ان کی تاریخ مـیں تاریخ کے علاوہ ادبیت کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ عشرتؔ صاحب نے تاریخی واقعات پر اپنا اثر ڈالا ہے ۔ جس سے اس مـیں او ر بھی چاشنی پیدا ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے یہ کتاب لکھنے کے لئے دلچسپ کتابوں کی مدد حاصل کرکے تاریخ کشتواڑ کو ایک مستند تاریخ بنانے کی کوشش فرمائی ہے ۔ جس مـیں کچھ حد تک کامـیاب بھی رہے ہیں ۔ کشتواڑ کی تاریخ پریہ اہم کوشش ہے ۔ لہذا اس کی تعریف بھی ضروری محسوس ہوتی ہے ۔ خاص کر یہ کتاب ایک ادیب نے تحریر کی ہے ۔ی تاریخ دان نے نہیں ۔ پھر بھی عشرت نے کوشش کی ہے کہ یہ تاریخ مکمل بن جائے ۔
’’بحوالہ‘‘ سون ادب ۱۹۸۷ ؁ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری ذات سے وابستہ اپنے خواب رہے
تمہارے فیض سے ہر سوکھلے گلاب رہے

( انتساب )

ماضی مـیں عظیم کشتواڑی مہتہ منگل نے نہ صرف کشتواڑ کے رِستے زخموں پر ہمدردی اور عنایت کا مرہم لگایـا بلکہ لداخ مـیں وہ کارہائے نمایـاں انجام دئے کہ اب تک اہل لداخ اس کی یـاد مـیں سرِعقیدت خم کرتے ہیں اور آج اسی مہتہ منگل کا پڑپوتا اور بلندمرتبت کشتواڑی اوم مہتہ اس پسماندہ ، دور افتادہ اور فلاکت زدہ دیـار کے لئے عظیم اور تعمـیری خدمات بجالارہاہے ۔ اہلِ لداخ نے مہتہ منگل کے حضور مـیں سرجھکایـا اور مـیں اہل کشتواڑ کی جانب سے جناب اوم مہتہ کی بارگاہ مـیں یہ قلمـی نذرانہ پیش کرتاہوں ۔

عقیدت کیش
عشرتؔ کاشمـیری 


پیش لفظ
کشتواڑکی خوبصورت وادی سطح سمندر سے ۵۳۰۰ فٹ بلند ہے ۔اس کا طول بلد مرقی ۴۶ء۷۵ درجے اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے شمالی ہے ۔ آب و ہوا گرمـیوں مـیں خوشگوار اور سرما مـیں سرد ہے۔ خاص کشتوار مـیں تیز اور تند ہوا چلتی ہے ۔ جو سردیوں مـیں ناقابل برداشت اور گرمـیوں مـیں دھوپ کی حدّت کو اعتدال پر لاتی ہے ۔ مجموعی طور پر آب و ہوا صحت افزا ہے ۔
بحالتِ موجودہ تحصیل کشتواڑ ریـاست کے تمام ضلعوں مـیں ماسوائے اضلاع لداخ ڈوڈہ بلحاظ رقبہ سب سے بڑہی تحصیل ہے ۔ ضلع ڈوڈہ کا کل رقبہ ۲ء۴۳۸۰ مربع مـیل ہے اور کشتواڑ تحصیل کا رقبہ ۹ء۳۰۱۶ مربع مـیل ہے ،تحصیل کشتواڑ شمال مشرق مـیں ہماچل پردیش ، شمال مـیں کشمـیر ، مغرب مـیں ڈوڈہ اور جنوب مـیں تحصیل بھدرواہ سے ملتی ہے ۔ کل آبادی ۹۲۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے۔قدیم ریـاست کشتواڑ مـیں تحصیلات ڈوڈہ ماسوائے مرمت اور رام بن کے علاقے شامل تھے ۔ضلع ڈوڈہ کی اس وقت کل آبادی ۲۶۸۴۰۳ ہے جبکہ قدیم ریـاست کشتواڑ کی آبادی حسب ذیل ہے:
تحصیل کشتواڑ ۹۲۰۰۰ 
تحصیل ڈوڈہ ۵۴۱۸۰( تحصیل ڈوڈہ بشمول مرمت ۵۸۳۸۶ آبادی رکھتی ہے)
تحصیل رام بن ۷۱۲۲۶(تحصیل رام بن کی بشمول بٹوت ۷۳۶۴۸ آبادی ہے)
مـیزان کل ۲۱۷۴۰۶
گویـا آج اگر ریـاست کشتواڑ برقرار ہوتی تو دو لاکھ آبادی کا ایک راجواڑہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر نے اپنی تزک مـیں راجۂ کشتواڑ کو زمـیندار پٹہ کشتواڑ لکھاہے ۔ 
معدنی لحاظ سے تحصیل کشتواڑ کے سینے مـیں بیش قیمت خزانے دفن ہیں ۔ ابرق، سیسہ، جپسم اور نیلم منظر عام پر آچکے ہیں اور دوسری پوشیدہ دولت کا سراغ ابھی تک نہیں لگایـاگیـا ہے ۔ پہاڑوں کی
ھلانوں مـیں چیل، پرتل ، دیودار او ردیگر عمارتی لکڑی کے جنگلات لہلہاتے ہیں ۔ ان جنگلوں مـیں ہر قسم کا چھوٹا بڑا شکار پایـاجاتا ہے ۔ چنانچہ آج سے پچاس سال اوپر بھی انگریز شکاری دشوار گزار راستوں کو طے کرکے اندرونی علاقوں مـیں شکار کھیلنے آیـا کرتے تھے ۔ ایک بدقسمت فرنگی شکاریی حادثہ کا شکار ہوکر خاص کشتواڑ مـیں دفن کیـاگیـا تھا ۔ قدیم زمانہ مـیں کشتواڑ کی طرف مغلوں اور کشمـیری تاجداروں کو جو خراج دیـاجاتا تھا ۔اس مـیں بازاور جرہ پرندے بھی شامل ہوتے۔ ایسے علاقے بہت کم ہیں جہاں آبپاشی کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہو۔اس لئے زیـادہ تر پیداوار مکئی،جو گندم اور دالوں کی ہے ۔
کشتواڑی۔ کشمـیر کی ہمسایگی نے نہ صرف تاریخ کے دھارے موڑے ہیں اور کشتواڑ کی ملکی سیـاست کو زیر و زبر رکھا ہے بلکہ روایتوں مـیں بھی یکسانی پیدا کی ہے۔مثلاً کشمـیر کے متعلق مہاراجہ گلاب سنگھ کے مصنف پنڈت سالگرام کول لکھتے ہیں ’’روایت ہے کہ جس وقت کشمـیر کی سر زمـین ایک جھیل کی حالت مـیں بلند کوہستان کی چوٹیوں تک پانی اور برف سے پُر ہوکر ’’ستی سر‘‘ کے نام سے ملقب تھی اُس وقت کیشب جی کشتواڑ مـیں بھی رہتے تھے اور یہاں ہی سے کشمـیر کی طرف بڑھ کر اور کوثر ناگ کے پہاڑ پر بیٹھکر جھیل مذکور کاپانی نکالنے کے واسطے انہوں نے تپسیـا کرنا شروع کی ۔ کیشب جی کا گذر چوں کہ پہلے کشتواڑ مـیں ہوا،اس واسطے اس سر زمـین کانام کیشب وار یعنی کیشب جی کے رہنے کی جگہ پڑا۔‘‘
روایتوں نے کشمـیر کی طرح کشتواڑ کو بھی جھیل کے شکم سے جنم دیـاہے ۔ کشمـیر مـیں وتستہ( جہلم) اور کشتواڑ مـیں چندربھاگا،وہاں ستی سر اور یہاں وسیع جھیل۔ ایک ہی کہانی کے دو روپ ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمـیر مـیں جب ناگا برسر اقتدار آئے تو اُن کی ایک جماعت نے کشتواڑ کو بھی اپنے زیر نگین کیـا ۔ چنانچہ ایسے متعداد مقامات ہیں جن کے ساتھ ناگ وابستہ ہے ۔ مثلاً ناگ ایشور ، گودرش ناگ ، کانی ناگ، گمانی ناگ ، ڈامر ناگ اور ناگ سین ، ناگاؤں کی تہذیب و تمدن کے دیئے ایسے بجھے کہ روشنی کی ایک کرن بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ صرف بیشمار صدیوں کے چکر مـیں ناگ نام رہ گیـا ہے ۔
ناگاؤں کے بعد آریـائی نسل کے قبیلے ان پہاڑوں مـیںآئے اور انہوں نے حکمران ناگ قبیلوں کو
شکست دے کر دور افتادہ پہاڑی وادیوں مـیں بھگا دیـا اور بچی کھچی آبادی کو مطیع کرلیـا۔ رفتہ رفتہ دونوں قوموں کو وقت نے ایک رنگ مـیں رنگ دیـا ۔ چنانچہ صدیـاں بیت جانے پر بھی رنگ ونسل کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ اکثر خالص آریـائی نقش سرخ و سپید چہروں پر دکھائی دیتے ہیں اور کہیں کہیں خاص طور پر دیہات مـیں گندمـی رنگ کرخت چہرے ، چھوٹی آنکھیں ،موٹی ناک غیر آریـائی نسل کی طرف ذہن کو منتقل کردیتے ہیں ۔ ’’کشتواڑ مـیں قلم اور بندوق کے ساتھ کے مصنف مسٹر آٹودوتھ فیلڈ نے صفحہ ۱۷ پر سنتھن بنگلہ کے چوکیدار کا تعارف کرانے کے بعد لکھا ہے ۔’’ مـیرے لئے شاید اس خوش باش اور وحشی شخص کی عجیب تر چیز یہ تھی کہ وہ درجہ خلافِ امـید ہندوستانی دکھائی دیتا تھا اور یہی حیرت مجھے دوسرے کشتواڑیوں کو دیکھ کر ہوئی ۔‘‘مصنف مذکور نے چوکیدار کا جو قلمـی چہرہ بیـان کیـا ہے ۔وہ ایک مخلوط نسل کے فرد کا ہے ورنہ وہ اگری سو فیصد کشتواڑی کو دیکھتے تو عش عش کر اُٹھتے اور اُنہیں اس کے چہرے پر سیـاہی اور عجیب و غریب ناک نقشہ دکھائی نہ دیتا۔
جنگجو کشتواڑی:کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا جو راج ترنگنی مـیں اُن کے کارنامے محفوظ کرتا اور اپنے شاعرانہ بیـان سے روایتوں مـیں رنگینی پیدا کرتا اور اگر کوئی ہوا بھی ہو تو اُس کاکارنامہ دستبرد زمانہ سے نہیں بچا ہے ۔لیکن ایک حقیقت ظاہر ہے کہ شمالی اور وسطی ہند مـیں جو ں جوں انقلاب آتے گئے ۔وہاں کے جنگجو قبیلے امن و امان کی تلاش مـیں ان پہاڑوں مـیں وارد ہوتے گئے ۔آٹھویں دسویں صدی تک یہ سلسلہ جاری رہا،گوکشمـیر سے سیـاست وقت کے شکار ،جاگیرداریت کے مظلوم او رقحط سالی کے فاقہ کش مجبور اُنیسویں صدی تک کشتواڑ کی پناہ گاہ مـیں سکھ کا سانس لینے کے لئے آتے رہے۔
جو لوگ باہر سے آئے وہ زیـادہ تر راجپوت اور ٹھکر تھے ،ان کے بعد ہریجنوں کی تعداد ہے اور سب سے کم براہمن فرقہ ہے ۔اس تعلق مـیں پاڈر کو مثال کے طور پیش کیـاجاتاہے جہاں ٹھکرا ور ہریجن بیشتر تعداد مـیں ہیں اور براہمن بہت قلیل ہیں ۔یہ وہ خطہ ہے جو انقلابوں کی کم سے کم آماجگاہ رہاہے ۔
بہر حال ان جنگجو قبیلوں نے آزادی کی مشعل کو عرصۂ دراز تک روشن رکھا۔ اکبرِ اعظم نے کشمـیر کو تو فتح کرلیـاتھا لیکن کشتواڑ کو تابعِ فرمان بنانے کی حسرت اُسے بھی رہی۔درحالے کہ کشمـیر کاآخری حکمران
اکبر کے جرنیلوں سے شکست کھا کر کشتواڑ مـیں پناہگزین ہواتھا اور یہاں سے بار بار کشمـیر پر حملہ آور ہوتا تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے نامور جرنیل وزیر زور آور سنگھ کلہوریہ نے جو کشتواڑ کے گورنر تھے۔اپنی مہم لداخ کی داغ بیل کشتواڑ مـیں ڈالی تھی ۔اُن کی فوج کے سرکردہ کمانداروں مـیں سابقہ مملکت کشتواڑ کے مہتہ بستی رام ،اوتم پڈیـار ، وزیر کھوجہ بھونچہ،قطب شاہ ولد نور شاہ، دائم ملک اور ظفر لون ساکنان مڑواہ رانا ظالم سنگھ ساکن اڑنورہ (گھٹ ڈوڈہ) مرزارسول بیگ ساکن اُودیـانپور(ڈوڈہ)وغیرہ شامل تھے۔ یہ جیـالے فوجی نہ صرف جنگجو اور آزمودہ کار سپاہی تھے بلکہ ایک ایسے خطّے سے تعلق رکھتے تھے جوکامل فرقہ وارانہ اتحاد اور سیکولر فلسف�ۂ حیـات رکھتاتھا ۔ یہاں یہ عرض کرنابھی بیجا نہ ہوگا کہ وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ اچھے حکمران کی طرح جہاں شجاعت مـیں شیر تھا اور جنگی تدابیر مـیں بے نظیر تھا وہاں ملکی انتظام او رعام انتظامـیہ مـیں سیکولر نظریہ رکھتاتھا ۔اُس نے اپنی فوج کے جہاں ہندو کمانداروں کو ان کی بہادری پر خصوصی انعامات سے نوازااور مہاراجہ گلاب سنگھ سے جاگیریں دلوائیں وہاں مسلم کمانداروں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا۔
خصوصی روایـات: کشمـیر کی طرح کشتواڑ بھی روادار اور اتحاد پر ور روایـات کا علمبردار رہا۔ کشمـیر مـیں تو مہر گل نے جوہن قوم سے تعلق رکھتا تھا بدھوں کو بے پناہ ظلم وستم کانشانہ بنایـا ۔ چکوں کے عہدِ حکومت مـیں شیعوں اور سنیوں کے خوفناک فسادوں کی آگ بھڑکتی رہی ۔ لیکن کشتواڑ اس قسم کے مذہبی جنون سے آزاد رہا اور آج تک فرقہ وارانہ مـیل ملاپ کے جذبے سے کشتواڑ ی سرشار ہیں ۔رواداری اور احترام باہمـی سے اُن کا ضمـیر اٹھا ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ کشتواڑ کی سرحدوں پر خاص طور پر شمالی سرحدوں پر کھاسلیہ کے راجپوت آباد تھے ۔ آج کھاسلیہ مـیں مسلمانوں کی آبادی اکثریت مـیں ہے ۔ کشمـیر سے جابر و ظالم حکومتوں کے ستائے ہوئے ،قحط اور افلاس کے مارے ہوئے ان علاقوں مـیں جو ق درون جوق آتے رہے اور فراخ دل راجپوت وقت کے ان مظلوموں کو آباد کرتے رہے اور پناہ دیتے رہے حتیٰ کہ مہمانوں کی تعدادمـیزبانوں سے بڑھ گئی ۔ پاڈر مـیں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ علاقہ انتہائی دشوار گذار اور دور دراز تھا ۔ کشمـیرسے آنے والے وہاں تک نہ پہنچ سکے ۔ کشتواڑی راجے مسلمان ہونے کے باوجود مسلم و غیر مسلم رعایـا سے یکساں سلوک کرتے تھے ۔ بلکہ راج دربار کے طور طریقے وہی تھے جو ہندو راجاؤں کے وقت مـیں رائج تھے ۔ مسلم راجے ہندووانہ اور اسلامـی دونوں نام رکھتے تھے ۔مثلاً املوک سنگھ سعادتمند خان ، مہر سنگھ سعادتمند خان ، محمد تیغ سنگھ سیف اﷲ خان وغیرہ ، باقاعدہ پروہت مقرر تھے ۔ راجہ کی شادی کی تقریب یـای اور تقریب پر براہمنوں کو انعامات او رجاگیریں ملا کرتی تھیں ۔ ہندوؤں کے مذہبی مقامات کیلئے بھی جاگیریں وقف کی جاتی تھیں ۔ ایسے بیس پٹے ( فرمان) راقم کی نگاہ سے گذرے ہیں ۔جن مـیں براہمنوں کو مسلم راجاؤں نے اراضی بطور جاگیر عطا کی ہے ۔آخری تاجدارِ کشتواڑ راجہ محمد تیغ سنگھ نے اپنی حکومت کی طرف سے اپنی ریـاست کے سرکردہ شہریوں ، حکومت کے ممتاز حاکموں اور مقدس مقامات کے لئے تیل اور تمباکو کا کوٹہ مقرر کیـاتھا ۔ مقدس مقامات مـیں ہندو اور مسلمانوں کے متبرک آستانے اور ٹھاکر دوارے شامل تھے ۔
تیغ سنگھ کی حکومت کو ختم کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ نے ریـاستِ کشتواڑ کومہاراجہ رنجیت سنگھ کے نام پر جموں مـیں شامل کیـا ۔اس وقت بھی اس روایت پرستی نے ایک او رمثال قائم کی تھی ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے خلاف سراج مـیں ایک زبردست بغاوت ہوئی یہ بغاوت راجہ محمد تیغ سنگھ کی حمایت مـیں تھی اور اس کا سرغنہ ایک ہندو راجپوت بھکم تھا۔ بھکم یـا بکرم کے ساتھ سید محی الدین شاہ بھی علمِ بغاوت بلند کرنے مـیں شریک تھا۔مذہب:ضابطۂ اخلاق اور فلسفۂ حیـات کانام مذہب ہے ۔وہ ہمدردی ، رحم ،عفو وکرم اور خدمت کے جذبات کو تحریک دیتاہے ۔ اہلِ کشتواڑ اس حقیقت پر عمل کرتے رہے کہ مذہب انسانیت کا معمار ہے ۔ قاتل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ مـیں مختلف مذہبی دور گزرے اورانقلاب آئے لیکن کشتواڑ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگا اور اس سر زمـین نے خاموشی سے وقت کی رفتارکو قبول کیـا ۔ایک وقت تھا کہ ناگایـاناگ قبیلے کشتواڑ مـیں آباد تھے ۔ پھر بدھ درھ م نے اپنی ہر دلعزیزی کے پرچم لہرائے ۔ کشتواڑ مـیںآج بھی موضع پوچھال کی طرح پتھر کے ستونMegalith پائے جاتے ہیں۔ پاڈر جہاں نیلم کی کانیں ہیں وہاں ابھی موضع کبن اور دیگر مقامات پر بدھ مت کے پیرو آباد ہیں ۔ مذہبی مقامات کی ساخت Stupa طرز کی ہے ۔پروفیسر غلام محی الدین حاجنی نے اپنی کتاب’’ ک�أشری شاعری‘‘ کے تعارف مـیں لکھا ہے کہ مشہور بدھ عالم ناگسین نے اپنی تصنیف ’’ملندہ پنہ‘‘ Malinda Panha کشتواڑ ی زبان مـیں سوال و جواب کے پیرایہ مـیں لکھی تھی جس کا ترجمہ پالی اور سنہالی مـیں بھی ہواتھا۔ پروفیسر صاحب کا قیـاس ہے کہ ناگسین کشمـیری تھا۔ اگر یہ قیـاس درست ہے تو یہ بدھ عالم یقیناًکشتواڑی تھا او ل تو اس نے کشتواڑی مـیں اپنی کتاب لکھی اور دوسرے یہ کہ آج بھی کشتواڑ کے علاقے کانام ناگسون یـا ناگسین ہے ۔ جناب S.Radhakrishnan بدھ مت کے ۲۵۰۰ سال مـیں لکھتے ہیں۔ہندی یونانی بادشاہ مـیناڈر بدھ مت کا بڑا سرپرست اور حامـی تھا۔ مـیناڈرManader پالی کتاب مالندہ پنہ Malanda panha کے سوالات کے کرداروں مـیں سے ایک ہے ۔ اس کے (یونانی بادشاہ مـیناڈر) کے شکوک قابل احترام ناگسین نے دور کردئے تھے ۔مـیناڈر کی حکومت مـیں پشاور، کابل، کی بالائی وادی ،پنجاب ، سندھ ، کاٹھیـاواڑ ،ایسا دور دراز علاقہ اس کی مملکت مـیں شامل تھے ۔ تو کشتواڑ نسبتاً ہمسائیگی مـیں تھا۔ ناگسین اور بادشاہ کی ملاقات کے تعلق مـیں S.Radhakrishna ایس رادھا کرشنا صاحب (۱)بیـان فرماتے ہیں یہ ایک خوش کُن اتفاق تھا کہ ایک دن بدھ بادشاہ بدھ بکشو ناگسین نام کو دیکھا ۔ جو بکھشا مانگنے جارہاتھا ۔ اس کامـیاب مقالمہ پر جو بادشاہ اور بکھشو کے درمـیان ہوا ۔ ملندہ پنہ کی بنیـاد رکھی گئی ہے ۔ جو ابتدائی بدھ مت کے پالی ادب کی بے حد قابل ذکر کتاب ہے اور جسے بدھ گوشاپانچویں صدی عیسوی مـیں پالی سکالر تھااس نے وسو دی مارگ کتاب لکھی ہے جسے بدھ گوش نے سند ماناہے اور تسلیم کیـا ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جب کشمـیر مـیں بدھوں کا ستارہ اقبال غروب ہوگیـا اور مہایـان فرقہ بھی اپنی کوششوں کے باوجود بدھ مت کے زوال کو نہ روک سکا ۔تو کشتواڑ مـیں بھی ہندو دھرم کا سکہ پھر سے جاری ہوگیـا بلکہ کشمـیر سے شیو فلسفہ کے عالم اس ریـاست مـیں بھی آکر آباد ہوگئے اور انہوں نے علم و دانش کے چراغ روشن کئے۔ حکمرانوں کی طرف سے ،علماء و فضلاء کی قدر دانی بھی ہوتی رہی اور علم و ادب کے پرستاروں نے گوشۂ امن و عافیت مـیں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کا شغل اختیـار کیـا ماضی کے یہ انمول خزانے بھی پورے طور پر دریـافت نہیں ہوئے ہیں ورنہ کشتواڑ کے براہمنوں نے علم کے چمن مـیں جو پھول کھلائے تھے اُن کی خوشبو سے اہلِ نظر شادکام ہوتے۔سنگیت سنگرہ: کشتواڑ کے راجہ نریندر سین(۷۵۱۔۷۴۶ء) کے عہد مـیں یہ کتاب لکھی گئی ہے جو علم موسیقی سے تعلق رکھتی ہے ۔ کتاب کے مصنف شری وک ہیں ۔پورانام معلوم نہیں ہوسکا۔ قابل مصنف آغازِ کتاب مـیں بیـان کرتا ہے ۔’’اورجوبھی علم موسیقی کے ماہر ہیں اُن سب کو پہلے نمسکار کرتاہوں اور کشتواڑ کے راجہ نریندر سین کی اجازت سے شغل کے لئے شری وک دلچسپ عنوانات سے اسی دلکش کتاب کو مزین کرتاہے ۔۔۔۔ اس مـیں ایسے نغمے ہیں جو رسیلے اور فطری ہیں اور اصلی راگوں سے ڈھالے گئے ہیں ۔اس کتاب مـیں تشبیہات و استعارات ہیں ۔۔۔کشتواڑ کی دھرتی کابڑا اندر جو نریندر سین نام کا ہے ۔اس کی جے جے کارہو۔‘‘امرکوش کی تشریحات:۔راج ترنگنی کے مترجم مسٹر ایم ۔اے سٹین جلد اول کے صفحہ ۴۷ پر لکھتے ہیں۔’’ راجنک رتن کنٹھ کی یـاد ابھی تک کشمـیری پنڈتوں کی روایـات مـیں زندہ ہے ۔ ایک بڑے عالم اور بہت تیز لکھنے والے کے طور پر ۔ مـیں نے خود سرینگر مـیں مندرجہ ذیل مسودّوں کی نقلیں جو اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں حاصل کی ہیں ۔۱۔ امر کوش پر رائے مکت کی تشریحات ۔یہ کتاب کشتواڑ یـا کشتواڑ مـیں ساکاس ۱۵۷۷ ؁ء یـا ۵۶۔۱۶۵۵ ؁بکرمـی مـیں لکھی گئی تھی۔۲۔ سری کنٹھ کرت پر جون راجہ کی تشریحات ۔مـیرے رائے مکت کے مسودہّ سے جو کشتواڑ مـیں ۱۶۵۵ ؁ء مـیں لکھا گیـا ۔اندازہ لگاتے ہوئے عیـاں ہوتا ہے کہ رتن کنٹھ باہر سفر کرتے ہوئے بھی مسودّوں کی نقلیں کرناجاری رکھتا تھا۔‘‘ علاوہ ازیں کتاب بھون کوش جوٹاپو گرافی پرمعلومات فراہم کرتی ہے کشتواڑ کے اُس علمـی خزانے مـیں پائی گئی جو منظرِ عام پر آکرمحفوظ ہوچکاہے ۔ ایک اور کتاب بھوگل پران کا سراغ پلماڑ مـیں ملا ہے ۔آج سے تین سو سال پہلے امرکوش کی تشریحات کا کشتواڑ مـیں لکھا جانا اُسی صورت مـیں ممکن ہوسکتا ہے جبکہ یہاں مسندِ علم پر سنسکرت کے عالم مبتحر جلوہ افروز تھے اور ایسے ہی علم کے شیدائیوں کی کاوشوں کی تلاش مـیں رتن کنٹھ کو سرینگر سے کشتواڑ آنا پڑا تھا ۔ رتن کنٹھ کو بھان کی ہرش چرت کا مسودہ بھی کشتواڑ مـیں دستیـاب ہوا تھا ۔ علم جوتش پر کشتواڑ مـیں متعدد بلندپایہ کتابیں لکھی گئی تھیں اور اُن مـیں سے چند ایک آج بھی باقی ہیں ۔اس علم مـیں کشتواڑی براہمنوں کو بڑا بلند مقام حاصل تھا کیونکہ کشتواڑی حکمران اکثر اُن سے اپنے مستقبل کے بارہ مـیں رائے لیـا کرتے تھے ۔ جوتش کے علاوہ علمِ کیمـیا مـیں راج پروہت کمال رکھتے تھے ۔ چنانچہ ایک بار تاریخ غلط بتانے کے سبب اور اپنی بات منوانے کے لئے ایک سرکردہ پروہت نے ایران کے ماہِ نخشب کی طرح آسمان پر ایک مصنوعی چاند کو اپنے علم سے زمـین پر اتار لیـا تھا ۔ سنسکرت کے علوم کا زوال ریـاستِ کشتواڑ کے کشمـیر اور دہلی کے مسلم حکمرانوں کے زیر اثر آنے سے شروع ہوا۔ خود کشتواڑ کے راجے بھی سترھویں صدی کے وسط مـیں دائرہ اسلام مـیں آگئے اور رفتہ رفتہ نیـا مذہب کشتواڑ کے اطراف مـیں پھیل گیـا ۔ اسلام کی اشاعت کی حسبِ ذیل وجوہات تھیں:۔۱۔ کشمـیر حلقہ بگوش اسلام ہوچکاتھا۔وہآں جب جب قحط سالی نے عوام کو لقمۂ اجل بنانا شروع کیـا ۔ تحصیل اننت ناگ کی آبادی کا کچھ حصہ سنگپورہ چھاترو اور واڑون منتقل ہوتا رہا۔ یہ مہاجران سرحدی علاقوں مـیں مستقل طور پر آباد ہوگئے اور کشتواڑ خاص کی طرف بڑھتے گئے ۔واڑون سے دچھن کی طرف مسلم مہاجروں کے قدم تیز تیز نہ بڑھ سکے اس لئے کہ کشمـیر سے جہاں وہ کلچرل لحاظ سے وابستہ تھے۔دُور ہوجاتے تھے اور دچھن مـیں نئی آبادیـاں قائم کرنے کی گنجائش کم تھی۔۔ غیر مسلم اہلِ کشتواڑ نے رواداری اور بھائی چارہ کا ثبوت دیـا۔ بونجواہ آخر وقت تک ایک ہندو جاگیررہا لیکن آبادی کا بیشتر حصہ مسلمان ہے ۔ سنگپور کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ قدیم کھاسلیہ کاموضع ہے جہاں راجپوت رہتے تھے۔ لیکن آج وہاں بھی مسلمان اکثریت مـیں ہیں ۔ سنگپور کا ذکر جہانگیر نے بھی اپنی سوانح عمری تزک جہانگیر مـیں کیـا ہے ۔۳۔ مسلم صوفیـاء نے اپنے اخلاقِ حسنہ، انسان نوازی اور خدا دوستی کے سبب خاموش انقلاب پیدا کیـا ۔ کشمـیر کے سرخیلِ طائفہِ ریشیـاں حضرت شیخ نو ر الدین ولی قدس سرہ کاخاندان سرتھل کشتواڑ سے ہجرت کرکے کشمـیر گیـاتھا ۔ ان کے بلند مرتبہ مردی حضرت زین الدین ؒ جو عیش مقام مـیں مدفون ہیں بھنڈارکوٹ کے رہنے والے نومسلم راجپوت تھے۔پھر جنوب کی طرف سے حضرت سید شاہ محمد فریدالدین قادری قدس سرہٗ العزیز کشتواڑ مـیں تشریف فرماہوئے ۔اُن کی اور ان کے چاروں خلفاء کی پاکیزگی نفس انسان دوستی اور کشف و کرامات سے اہل کشتواڑ متاثر ہوئے اور آج تک اُن کا آستانہ مرجع خاص و عام ہے ۔ حضرت شاہ صاحب ؒ کے عالی مقام صاحبزادوں یعنی حضرت سید شاہ محمد اسرار الدین قدس سرہٗ ،حضرت سید اخیـار الدین قدس سرہٗ نے بھی اپنے روحانی تصرفات سے کشتواڑ کو متاثر کیـاتھا۔
۴۔ آخری دور کے راجاؤں کے اسلام قبول کرنے سے اُن کے حلقۂ اثر کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔فارسی ادب: ریـاست کشتواڑ مـیں مسلمانوں کے اثرو رسوخ کے بڑھ جانے سے نیز کشمـیر اور مغلیہ سلطنت کے ساتھ تعلقات کے سبب اسلامـی علوم فنون کو فروغ حاصل ہوا فارسی زبان کا دائرہ اثر بڑھتا گیـا حتیٰ کہ غیر مسلم راجے بھی فارسی مـیں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ اس زبان مـیں شعر گوئی کرتے تھے ۔ راجہ بہادر سنگھ (۱۵۷۰ء لغایت ۱۶۰۵ء) کے عہد سے فارسی نے راج دربار مـیں اپنے قدم جمانے شروع کئے تھے۔ بہادر سنگھ کے کشمـیر کے چک حکمرانوں سے قرابت کے تعلقات تھے ۔یعقوب شاہ کی بیوہ شنکر خاتون نے اپنی زندگی کا آخری حصہ اپنے وطن مالوف کشتواڑ مـیں بسر کیـاتھا ۔ وہ علماء و فضلاء کی بڑی قدر دان تھی اور اس کے ذاتی ملازموں مـیں شاعر،حافظ اور عالمِ دین شامل تھے ۔ چک خاندان کے بہت سے افراد کشتواڑ مـیں رہتے تھے اور یہ سب کشمـیری اور فارسی بولتے تھے ۔تاریخ مـیں جس راجہ کے سر پر فارسی علم و ادب مـیں کمال حاصل کرنے کا تاج رکھاگیـا ہے وہ راجہ مہاسنگھ عرف مہاجان (۷۴۔۱۶۶۱ء) ہے ۔ کشتواڑ کی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ وہ نہایت عادل اور سخی تھا۔ سنسکرت اور فارسی کے فن شاعری مـیںمہارتِ کامل رکھتاتھا۔حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قادری بغدادی علیہ الرحمہ نے اپنے خلیفہ شاہ محمد درویش کو تبرکات اپنی کلاہ دی تھی ۔اس کے بارہ مـیں حضرت شاہ صاحب کے اپنے دست مبارک کی تحریر خاکسار عشرت کے پاس موجود ہے جو فارسی مـیں ہے مضمون حسبِ ذیل ہے:
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
امابعد
بنابریـاد آاوری بااعتماد ووثوقِ اہل اسلام این چند حروف تحریر مے شوند۔کہ یک عدد کلاہ برنگ سرنگ خط دار سفید بطور تبرک بہ خلیفۂ خاص خود شاہ محمد درویش دارم۔ خلیفۂ مذکورہ تبرکاَّ وتیمنا نزدِ خود موجود نہادن خواہد۔والسلام۔
سید شاہ فرید الدین قادری بغدادی
مہر 
سید فرید الدین قادری
یہاں شاہ صاحب کا شجر�ۂ نسب بھی درج کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔یہ فارسی مـیں حضرت شاہ صاحب کے بارہ مـیں تصنیف ’’روضۃ العارفین‘‘ سے لیـاگیـا ہے:فرید الدین بن سید مصطفےٰ بن سید عبداﷲ بن شیخ یحیٰ طاہر بن سید عبدالرزاق بن سید عبدالقادر ثانی بن سید حسین بن سید علی بن سید محمد بن سید یحیٰ بن سید احمد بن شیخ محمد بن شیخ نصیر بن سید تاج الدین بن سید ابوبکر بن سید عبدالرزاق بن محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ علیہ ۔گویـا حضرت شاہ صاحب چودہ واسطوں سے حضرت پیرانِ پیر عبدالقادر جیلانی سے وابستہ ہوجاتے ہیں ۔اس شجرۂ نسب سے بھی شاہ صاحب کا عہد معلوم کیـاجاتاہے۔قاضی نیـاز اﷲ اپنے وقت کے فقیہ اور عالم دین تھے۔ انہوں نے وقایہ کی شرح منظوم لکھی تھی ۔راجہ عنایت اﷲ کے قتل کی تاریخ ان سے یـاد گار ہے ۔ قاضی نیـاز اﷲ کشمـیر کے مشہور عالم و صوفی حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفی قدس سرہٗ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑ مـیں عہدہ ، قضا ان کے خاندان مـیں آج تک چلا رہا ہے ۔مولوی عبدالرسول پال راجہ عنایت اﷲ سنگھ کے عہد کے سر برآوردہ عالم اور جامع کمالات تھے ۔شعر و شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے ۔حضرت نصر الدین ناصر خاندانِ قاسمـیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کے مورثِ اعلےٰ حافظ ابوالقاسم تھے جو راجہ کیرت سنگھ کے عہد مـیں (۱۷۶۴ ؁ء) بقیدِ حیـات تھے ۔ اس خاندان نے کشتواڑ مـیں مشعلِ علم و ادب کو فروزاں رکھا۔ یکے بعد دیگرے بہت سے حافظ عالم دین اور شاعر و ادیب ہوئے ۔آستانۂ حضرت سید محمد اسرار الدین رحمۃ اﷲ علیہ کی سجادہ نشینی اس خاندان مـیں ابھی تک برقرار ہے ۔ حضرت نصر الدین نے تاریخِ کشتواڑ(قلمـی) کا ترجمہ سنسکرت سے پہلی بار فارسی مـیں کیـاتھا۔
مصنف نے آگے صفحہ(م) پر ایک فارسی غزل کے چند اشعار بہ عنوان 
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر 
گویـایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر 
تحریر کی ہے جو نصر الدین ناصر کی تخلیق نہیں بلکہ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی تخلیق ہے ۔جو خاندان چشتیہ کے روشن چراغ بزرگ تھے اور حضرت نظام الدین اولیـاء کے جانشین ہیں بمقام اودھ بے پیدا ہوئے ۔اپنے پیرو مرشد کے تیس سال بعد 18 رمضان ۷۵۷ ؁ء کو رحلت فرما گئے ۔ یہ غزل ماھنامہ شبستان دہلی شمارہ 22 جون مـیں بھی چھپی ہے جو حسب ذیل ہے ۔
بے کارم و باکرم چوں مد بحساب اندر 
گویـایم و خاموشم چوں خط بکتاب اندر 
اے زاہدِ ظاہر بیں از قُرب چہ مـی پُرسی 
اودرمن ومن دروے چوں بوبہ گلاب اندر
دریـااست پُر از چشممترنہ شود ہرگز
ایں طرفہ عجائب بیں تشنہ هست بآب اندر
گہہ شادم و گہہ غم غین از حال خودم غافل
مـی گریم ومـی خندم چوں طفل بخواب اندر 
درسینہ نصیر الدین جز عشق نمـی گنجد
ایں طرفہ عجائب بیں دریـا بحباب اندر 
________ تصحیح کار: فداؔ کشتواڑی
حضرت ناصر کے دونوں صاحبزادوں مولانا ضیـاء الدین ضیـاء اور مولانا سعد الدین نے بھی گلشنِ علم و ادب کی آبیـاری کی ہے ۔ ضیـاء صاحب کی روضۃ العارفین مـیں زیـادہ تر حضرت سید شاہ محمد فرید الدین قدس سرہ العزیز اور اُن کے فلک مقام صاحبزادوں کے حالات اور اُن کے اقوال بیـان کئے گئے ہیں ۔ کشتواڑ مـیں جو محفلِ شعر و سخن آراستہ تھی وہ راجہ تیغ سنگھ کی حکومت کا تختہ الٹ جانے پر درہم برہم ہوگئی۔ اہلِ فن سرپرست نہ ہونے کے سبب کہیں سے کہیں پہنچ گئے ۔ بعض گوشہ نشیں ہوکر گمنامـی کی زندگی گذارنے لگے اور بعض نے ہند کی دوسری ریـاستوں کا رُخ کیـا ۔ جہاں جو ہر فن کی قدردانی ہوتی تھی ۔حاجی عطاء اﷲ عطا اور مولانا حمایت اﷲ نے دیـار کشتواڑ کو خیر باد کہا۔ حاجی عطاء اﷲ عطا ہند کے مختلف شہروں کی سیـاحت کرتے ہوئے حجاز تشریف لے گئے او رمدینہ منورہ مـیں مدفون ہیں ۔ مولانا حمایت اﷲ نواب بھوپال کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں وہ شاہی خاندان کے اتالیق مقرر ہوئے ۔ ان دو بھائیوں کے علاوہ مولوی کلیم اﷲ عالم و فاضل اور بُلند پایہ شاعر تھے لیکن اُن کے مزید حالات دریـافت نہیں ہوسکے۔زبان: کشتواڑی زبان کے متعلق عام خیـال یہی ہے کہ وہ قدیم کشمـیری کا رُوپ ہے ۔ سنسکرت نے اس زبان کے دامن کو مالا مال کیـا ہے ۔اس کو لہجہ (Dialect) نہیں کہاجاسکتا ۔ کیونکہ قدیم حالت مـیں برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زبان کو راج دربار کی سرپرستی حاصل نہیں ہوسکی اور اس طرح ادیبوں اور شاعروں نے اس طرف کم توجہ دی کیونکہ اُنہیں حکمرانِ وقت سے صلہ مـیںی انعام یـا جاگیر کے ملنے کیاُمـید نہ تھی ۔جب فارسی چار سو سال تک درباری زبان رہی اس کے اثر سے یہ زبان پاک رہی کیونکہ ایسے شاعروں نے اس مـیں طبع آزمائی نہیں کی جو فارسی مـیں بھی شعر کہتے تھے اور عوام سے فارسی مـیں بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ اس طرح اس مـیں فارسی کا ملاپ قابلِ ذکر حد تک نہیں ہوا ۔اس کے برعمـیری پر فارسی کااثر غالب رہا اور سنسکرت کااثر کم ہوتاگیـا ۔دربار کی سرپرستی سے محروم ہونے کے باوجود یہ زبان زندہ ہے کیونکہ اسے عوام کی سرپرستی ملتی رہی ۔
پروفیسر محی الدین صاحب حاجنی نے ’’کاشری شاعری‘‘ کے تعارف مـیں متعدد بار کشتوار کا ذکر کیـا ہے ۔ صفحہ چار پرفرماتے ہیں ۔’’آج یہ بات بھی چلی ہے کہ بدُھوں کا بہت بڑا مذہبی علم ناگ سین بھی شاید کشمـیری تھا۔ جس نے اپنی کتاب’’ملندہ پاہنہ‘‘ اُس زمانے کی کشتواڑی کشمـیری مـیں سوال و جواب کی صورت مـیں کہی تھی جس کا پالی اور سنہالی مـیں ترجمہ ہو ا۔اصل گُم ہوگیـا اور ترجمہ باقی رہا۔‘‘’’مہانے پرکاش‘‘ واحد کشمـیری کتاب ہے جو اپنی صحیح حالت مـیں زمانے کے دستبرد سے محفوظ رہی ہے ۔اس کا مصنف شتی کنٹھ ہے کشمـیری زبان کے محقق جارج گریسن کا خیـال ہے کہ مصنف نے یہ کتاب پندرھویں صدی مـیں تحریر کی تھی لیکن پروفیسر حاجنی صاحب اسے تیرھویں صدی کی تصنیف سمجھتے ہیں۔اس کتاب مـیں شیو مت فلسفہ بیـان کیـاگیـا ہے اور شاردارسم الخط مـیں اسے لکھاگیـا ہے ۔اس کتاب کا آخری شعریہ ہے ۔
؂ پأوِت یہ کموَ پیوس پساوے شِتہ کنٹھس گتہ زمہ کِتاتھو
تینہ مہ مہجن کھلہ تمہ سادے تے مارادے ۔مہتے پرماتھو
کشمـیری مـیں ،فعلِ حال کے لئے چُھوبا اس کے مشتق استعمال کئے جاتے ہیں لیکن کشتواڑی کشمـیری تُھو۔ شتی کنٹھ نے بھی تھو استعمال کیـا ہے ۔اس سے کشتواڑی اور قدیم کشمـیری جس پر سنسکرت سایہ فگن تھی ،کارشتہ ثابت ہوتاہے۔حاجنی صاحب صفحہ۱۳ پر لکھتے ہیں۔’’ لیکن کشتواڑ پر فارسی زبان کا اثر کم پڑا، اس لئے بہت سے وہ کشمـیر ی الفاظ وہاں موجود رہےجنہیں یہاں (کشمـیری )فارسی نے اپنے نیچے کچل دیـا۔ علاو ہ ازیں بہت سے کشمـیری الفاظ نے وقت کے ساتھ ساتھ دوسرا چہرہ بدل لیـا ۔ مگر کشتواڑیوں نے پُرانا چہرہ ہی برقرار رکھا۔ مثلاً ہم کہتے ہیں۔’’وُنی پھاٹہ وَے کلہ‘‘ کشتواڑی اس جملے کو کہیں گے۔’’اُنئی ٹھانےَ شِیر‘‘غیر کشتواڑی کشمـیری جب کشتواڑی زبان کو سُنے گا تو اُسے پورا مفہوم سمجھ مـیں نہیں آئے گا ۔وہ کشتواڑی کو کشمـیری سے ملتی جلتی زبان تو سمجھ لے گا لیکن ایک ایسی زبان جس پر اُسے عبور نہ ہو ۔حاجنی صاحب فرماتے ہیں:۔’’کشمـیری مـیں بلاضرورت سنسکرت یـافارسی استعمال کرنے کے علاوہ ہمار ی زبان نے لہجہ اور اسلوب مـیں بھی کچھ کچھ مقامـی طور طریقوں کو اپنا لیـا ہے ۔اس لئے کشتواڑ کی اورکشمـیروالوں کی کشمـیری سرینگر کی کشمـیری سے سوفیصد نہیں ملتی۔‘‘ یہ خیـال حقیقت پر مبنی ہے کشتواڑی سرینگر کی کشمـیری آسانی کے ساتھ بول سکتے ہیں لیکن سرینگر کےی باشندے کے لئے کشتواڑی کشمـیری کا بولنا مشکل ہے کیونکہ کشتواڑی مـیں ایسے الفاظ ہیں جنہیں اُس نے پہلے کبھی نہ سُنا ہوگا اور جن کا تلفظ اتنا دُرشت ہے کہ اس کی زبان اُس کا ساتھ نہ دے سکےجب تک مہینوں ریـاضت نہ کرے ۔
ذیل مـیں کشتواڑی کے چند ایسے الفاظ پیش کئے جاتے ہیں جو کشمـیری سے مختلف ہیں ۔ یہ نمونہ مشتے از خراوارے ہے اور انتخاب مـیں باقاعدگی نہیں ہے ۔تحقیق کے لئے یہ مـیدان کھلا ہوا ہے ۔
کشتواڑی کشمـیری کشتواڑی کشمـیری
دپُن ونُن تھُو چھُو
کیـاہو ہتہ سأ کتہِ گیـاکھ کوت گِیـاکھ
شُنڈ بُتھ پنہ ادہ
شیرہ تھِم ہُلن کلس چھوم دوٗد ہیگری صبحن
کیـا بھئے کیـابنی زہن مِژ
ژوڑے زِیون باأھِ پتر
پائیں آب منج ژوچ
ککڑی منج مکائی ژوچی وہرسُن بٹھور وُشکی بٹھور
گوں بٹھور کنک بٹھور ژاہ لسی
ژھیل ساوج گبؤ گبؤ
گبڑ کٹھ ہنٹھو پکِیو
کاکرِ لآر وومنگل پیشن چائے
ناہری ناشتہ زونڈ کنن
مکوئی مکژ ڈال کدالی
چھوڑ اخروٹ ،ڈون کوژک آنچہ
انکار ژوئین بسان بستر
لُٹ کلہ تھونس اَینگٹ
مازن لسُل مندری پتج
تئکالن شامک دخ
اگرچہ کشتواڑی پر فارسی زبان اثر نہ ڈال سکی ۔ لیکن ڈوگری کاکچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑا ہے ککڑی۔ کاکر مکوئی، بسان ،ترکالن وغیرہ الفاظ ہمارے خیـال کی تائید کرتے ہیں ۔ مہاراجہ رنجیت دیو (۱۷۲۵ ؁ء ) کے عہد مـیں کشتواڑ جموں کے تخت سے براہ راست وابستہ ہوگیـاتھا اور کچھ عرصہ وہاں کے کار دار یہاں حکومت کرتے تھے ۔اس تعلق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈوگری زبان نے اتنا اثرو رسوخ حاصل کرلیـاتھا کہ آخری کشتواڑی راجوں کے بہت سے فرمان اور پٹے ڈوگری مـیں لکھے ہوئے ہیں ۔ ناگر پنڈت ، جلا پروہت جو راجہ امولک سنگھ اور راجہ مہر سنگھ کے وزیر تھے۔ منگل سین جوراجہ سبحان سنگھ کا وزیر تھا۔ راجہ تیغ سنگھ کے وزیر جٹوگور ، کھوجہ بھونچہ وغیرہ نے جو پٹے لکھے ہیں وہ سب ڈوگری مـیں ہیں ۔ڈوگرہ حکومت کے قیـام کے بعد یہ اثر و رسوخ اور بھی بڑھا ۔مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد مـیں دفتری زبان ڈوگرہ رہی ۔ڈوگری مـیں تاجرانہ حسابوکتاب رکھنا قدرے آسان ہے ۔ مسلمان فارسی مـیں خط و کتابت کرتے تھے لیکن حساب وکتاب ڈوگری اعداد مـیں رکھتے تھے ۔رفتہ رفتہ عام کشتواڑی اور اپنی علاقائی زبانوں کے علاوہ ڈوگری بھی بولنے لگے۔ہر ماحول اپنے باشندوں پر اثر ڈالتا ہے اور اپنے مخصوص رنگ مـیں انہیں رنگ لیتا ہے ۔ یہی مخصوص رنگی خطے کی تہذیب و تمدن کی نشاندہی کرتاہے کشمـیر مـیں کشمـیری پھرن یـا پیراہن پہنتے ہیں، گول ٹوپی سر کی زینت بناتے ہیں اور چاول خور ہیں ۔ان کے مکان سلامـی دار اور کئی منزلہ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہی کشمـیری جب ہجرت کرکے کشتواڑ مـیں آباد ہوئے تو پھرن کی جگہ کرتے یـاانگرکھے نے لے لی ۔ گول ٹوپی سروں سے غائب ہوگئی اور اُس کے بجائے لداخیوں کی وضع کی کنٹوپ سروں پر دکھائی دینے لگی ۔ چاول صرف تہواروں اور بیـاہ شادی کی تقریبوں مـیں استعمال ہونے لگے ۔ مکئی کی روٹی یـا جو کے خمـیرے دو وقت استعمال کئے جانے لگے اور سلامـی دار کئی منزلہ مکان غائب ہوکر صرف چوڑی چھتوں کے کوٹھے رہ گئے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی زبان کشمـیری رہی لیکن اس کےو لہجہ مـیں بھی فرق آگیـا ۔ بوڈ ہیو لڑکہ کے بجائے بوڈہیوبوکت(بڑالڑکا) کہنے لگے ۔رہنے سہنے اور کھانے پینے کے معاملے مـیں کشتواڑی کشمـیر کی بہ نسبت اپنے جنوب کے خطوں سے متاثر رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر کو راجہ کشتواڑ کا لباس اہلِ ہند کی طرح معلوم ہوا۔کشتواڑیوں کے ذہن کی تشکیل مـیں مختلف اور متضاد عناصر نے کام کیـا ہے ۔زبان کشمـیری ہے ،مقامـی تہوار جنہیں جاترہ کہاجاتا تھا ۔عام طور پرموسمـی تہوار تھے ۔ بہادون سے اسوج تک جگہ جگہ یہ مـیلے لگے تھے ۔ ہٹہ کے گاؤں مـیں جہاں دیوی اشٹ بھوجہ کامندر ہے سب سے پہلی جاترہ منعقد ہوتی تھی ۔یـاترہ مـیں پروگرام پیش کرنے والے نقال اور بھانڈ مسلمان ہوتے تھے ۔ ممکن ہے مسلمانوں کی آمد سے پہلے کوئی دوسرا فرقہ یہ کام کرتاہو ۔ جاترہ مندر سری نیل کنٹھ کے سامنے ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ حضرت اسرار الدین اور حضرت فرید الدین رحمۃ اﷲ علیہم کے مزاروں پر بھی منعقد ہوتی تھیں۔چوگان کے وسط مـیں کٹک جاترہ کامـیلہ ہوتا تھا ۔ جس مـیں ہاتھی کی شکل بنائی جاتی تھی ۔یہ جاترہ بسوہلی کے راجہ کی شکست کی یـاد گار کے طور پرمنائی جاتی تھی ۔علاوہ ناچ او رگانے کے اس جاترہ مـیں بھیڈووں کا مقابلہ ہوتا تھا اور جوبھیڈوزبردست ٹکر مار کر اپنے حریف کو بھگا دیتاتھا ۔ وہ جیت جاتا تھا اور مالک کی تعریف ہوتی تھی ۔ پھاگن کے مہینے مـیں سدھان ، ساتن، کاکل اور نکاس نام کے نو تہوار مقرر تھے ۔ پہلے نکاس تک عورتیں گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی تھیں ۔ یہ تہوار دوسدھان ، ایک ساتھن ،تین کاکل اور تین نکاس کے دنوں پر مشتمل تھے ۔ ایک رسم بھوم جہوائی تھی۔ اس رسم کے مطابق اپنے اپنے کھیتوں مـیں کوئی چیز بڑے تھال مـیں پکا کرلے جاتے تھے اور بچوں مـیں تقسیم کردیتے تھے اور ایک نوکدار لکڑی کو جس پر اون ، کمول ، نرگس کے پھول اور پھلدار درختوں کے پتے لپیٹے ہوتے تھے ۔کھیت مـیں گاڑ دیتے تھے۔ یہ تہوار بھی موسمـی تھے جو موسم سرما کے خاتمہ پر اور زمـین کونئی فصل کے لئے تیـار کرنے کے موقع پر منائے جاتے تھے ۔ یہ سب تہوار مقامـی روایتوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ کشتواڑیوں کاقدیم لباس اونی ہوتا تھا۔ عورتیں اون کی ایک لمبی چادر جسم پر اوڑھتی تھیں جسے لمبی لمبی سوئیوں سے اٹکا لیـاجاتاتھا۔ یہ لباس بڑی حد تک وادی کانگڑہ کے لوگوں سے ملتا جلتا تھا ۔ یہ عوام کے لباس کی بات ہے ورنہ خواص وقت کے فیشن سے مُتاثر رہتے تھے جو کشمـیر اور جموں سے درآمد ہوتاتھا۔دراصل اہل کشتواڑ کی نمایـاں خصوصیـات مذہبی رواداری، انسانی بھائی چارہ ،صداقت شعاری اور حق پرستی رہی ہیں ۔اُن مـیں کشمـیریوں کی فہم وزکاء ، ڈوگروں کی بے خوفی اور دلیری اور پہاڑی باشندوں کی جفاکشی اور قناعت پسندی پائی جاتی ہے ۔ مجموعی حیثیت مـیں وہ امن پسند ہیں بشرطیکہ اُن کی غیرت اور خودداری کو للکارا نہ جائے ۔وہ کشتواڑ پرستی اور مقامـی حب الوطنی کے جذبہ سے سر شار رہے ہیں ۔وطن کے نام پر انہوں نے مغل شہنشاہیت سے ٹکر لی اور مغلوب ہوجانے پر جب بھی موقع ملا ،علم بغاوت بلند کیـا۔چونکہ انیسویں صدی تک کشتواڑ کی اپنی ریـاست قائم رہی ، اس لئے اُن کے کردار مـیں دوہری شخصیت ،منافقت ،مکاری اور شخصی مفاد پرستی کی وہ برائیـاں پیدا نہیں ہوئیں جو ایسی قوم اور افراد مـیں پیداہوجاتی ہیں جو صدیوں تک غلامـی استبداد اور مظلومـیت کاشکار رہی ہوں اور جہاں ذاتی تحفظ و اقتدار ہی فلسفہ حیـات بن چکاہو ۔ کشتواڑیوں نے اپنی تاریخ مـیں دو ہی راستے اپنائے ہیں ۔ مخالفت کی ہے تو اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور حمایت مـیں کمر باندھی ہے تو پورے اخلاص اور وفا کے ساتھ ۔ ایک زبردستبغاوت کے بعد جب مہاراجہ گلاب سنگھ کا حلقہ اطاعت قبول کیـا تو پھر مہاراجہ کے وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ کے جھنڈے تلے لداخ،اسکردو او رپوریگ تک اپنی شجاعت ،سرفروشی اور نمک حلالی کا ڈنکہ بجاآئے۔کشتواڑ کی تاریخ مـیں جاگیرداریت کا دورہ دورہ رہاہے ،اس لئے حکمران خاندان اور اُس سے وابستہ سردار خوشحال رہے اور زندگی کی آسائشوں کا لطف اُٹھاتے رہے لیکن عوام پسماندہ ، مفلوک الحال اور ضعیف الاعتقاد رہے ،یہ ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کا نتیجہ ہے کہ کشتواڑ خاص اور علاقہ جات مـیں ڈینوں witches اور اُن کا تدارک کرنے والے’’ باروالوں‘‘ کا طوطی بولتارہا۔ کشتواڑ تو کشتواڑ وائن نے اپنے سفر نامہ مـیں جبکہ جنوری۱۹۳۹ ؁ء مـیں وہ بھدرواہ پہنچا تھا ، بھدرواہ مـیں ایک ڈین کی گرفتاری کاحال درج کیـا ہے ۔ انگلستان مـیں ولیم شکسپئر کے عہد مـیں ڈینوں کا جوزور و شور تھا وہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقوں مـیں انیسویں صدی تک جاری رہا۔اقتصادی حالت:۔جاگیر داریت اور راج شاہی مـیں عوام کی معاشی بہبودی اور خوشحالی کے امکانات تاریک رہے ہیں۔ظلم و ستم کے اس دور مـیں زندہ رہنا بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا ۔ اگر راجہ انصاف پسند اور رعایـا نواز ہوا تو عوام آرام کا سانس لیتے تھے اور ان کی زندگی کے ٹمٹماتے دئے جلتے رہتے تھے ورنہ خانہ جنگیوں اور لوٹ کھسوٹ کی قیـامتیں ان پر اکثر ٹوٹتی رہتی تھیں۔اقتصادی لحاظ سے اہلِ کشتواڑ کادرجہ زیـادہ بلند نہیں تھالیکن غذائی لحاظ سے وہ خود کفیل تھے ۔دراصل ماضی مـیں موجود تحصیل کشتواڑ چراگاہوں سے بھر پور اور مال مویشی سے معمور تھی ۔ آبادی کم تھی ، مزروعہ رقبہ کافی تھا۔ اراضی زرخیز تھی خشک سالی کی موجودہ تباہی نہیں تھی ۔ جنگلوں کی شادابی سے بارشیں خوب ہوتی تھیں ۔ اس لئے زرعی پیداوار کی افراط تھی۔ تاریخِ کشمـیر مـیں درج ہے کہ کشتواڑ سے اکثر غلہ درآمد کیـاگیـا ۔ جب کبھی کشمـیرمـیں تباہ کن قحط پڑتا تھا توضلع اننت ناگ کے سرحدی دیہات کے باشندے کشتواڑمـیں پناہ لیتے تھے ۔ چھاترو، دربیل اور مڑواہ کے باشندوں کی بیشتر آبادی ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جو قحط سالی مـیں کشمـیر سے بھاگ کر کشتواڑ کے ان علاقوں مـیں آباد ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ کشتواڑ کی غذائی حالت اطمـینان بخش نہ ہوتی تو کشمـیر کے مہاجر یہاں آخر مستقل طور پر آباد نہ ہوتے لیکن جوں جوں آبادیبڑھتی گئی اور زمـین اپنی زرخیزی کم کرتی گئی ۔ کشتواڑ ،خوراک کی کمـی کا علاقہ بنتا گیـا۔تحصیل ۱۸۰۶۷۲۰ ایکڑ یـا ۲۸۲۳ مربع مـیلوں پر مشتمل ہے ۔ بندوبست نے ۴۱۴۲۰۱ ایکڑ یـا ۶۴۷ مربع مـیلوں کی پیمائش کی تھی۔ اس تحصیل مـیں قابل کاشت رقبہ ۵۰ مربع مـیل ہے ۔ دیہات کی موجودہ تعداد ۱۵۶ ہے۔اس وقت زیر کاشت رقبہ تخمـیناً ڈیوڑھا ہوگیـا ہے ۔خصوصاً زیـادہ خوراک پیدا کرو‘‘ اسکیم کے تحت نہ صرف قابل کاشت بلکہ آبادی سے ملحقہ چراگاہوں کا بیشتر رقبہ بھی آبادکرلیـاگیـاہے۔جس قدر بھی بندوبست عمل مـیں لائے گئے ، اگرچہ اُن سے شرحِ لگان مـیں تدریجاً اضافہ ہوتاگیـالیکن ان تبدیلیوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکار اور زمـینداروں کے حقوق متعین ہوگئے ،زمـینوں کا مالیہ اور اُن کی حدود مقر ر ہوگئیں او راس قسم کاامکان کم ہوگیـا کہ لاٹھی والا بھینس کامالک ہوگا۔ راجاؤں کے وقت مـیں راجہ کی خوشنودی پر زمـین کی ملکیت برقرار رہتی تھی او رشاہانہ مزاج مـیں تلون کے ساتھ ساتھ ملکیت بھی بدلتی رہتی تھی ۔ امـیروں اور جاگیرداروں کی جاگیریں اکثر تبدیلی اور کم و بیش ہوتی رہتی تھیں ۔ غریب کاشتکار توی شمار و قطار ہی مـیں نہ تھا ۔ آخری بندوبست کے بعد عامان کم از کم یہ محسوس کرنے لگا کہ جس کھیت پر وہ اپنا خون پسینہ بہاتا ہے اُسے کوئی جابر و ظالم محض اپنا ہاتھ طاقتور ہونے کے سبب نہیں چھین سکتا ۔اس کی اقتصادی حالت مـیں بھی قدرے بہتر ی پیدا ہوئی او رکہیں کہیں اس کے بچے مولوی صاحبان ، مکتبوں ، پاٹھ شالوں اور سرکاری اسکولوں مـیں پڑھنے لگے دراصل تحفظِ ذات ہی ایک ایسی نعمت ہے جو شخصی حکومتوں اور جاگیدارانہ نظام مـیں عام نہ تھی ۔ راجگانِ کشتواڑ کے عہدمـیں صرف دو ہی طبقے اس وقت کےء سماج مـیں پائے جاتے تھے ۔ یعنی طبقۂ اعلیٰ اور طبقۂ ادنےٰ ۔درمـیانہ طبقہ بالکل نہ تھا۔خاص و عام کی ترکیب اُسی وقت کی یـاد گار ہے ۔خاص مـیں جاگیردار،مصاحب ،منصبدار اورفوجی سردار تھے ، عام مـیںان ،مزدور ،کاریگر اور تاجر وغیرہ تھے ۔
اگرچہ ڈوگرہ حکومت بھی شخصی حکومت تھی لیکن مہاراجہ گلاب سنگھ کے ابتدائی قبضۂ کشتواڑ کے ایـام کو چھوڑ کر نسبتاً باقی عرصہ عوام کے لئے بہتر تھاکیونکہ شعبہ جات مال ،پولیس ، جنگلات ، تعلیم تعمـیراتِعامہ وغیرہ منظم ہوچکے تھے اور مقامـی حاکم وقت تک ایک عام آدمـی کی رسائی ممکن ہوچکی تھی ۔ صرف ایک نمایـاں تبدیلی محسوس کی گئی اور وہ تھی غلے کی پیداوار مـیں کمـی ، دراصل امن و امان کے مستقل ہوجانے سے عام آبادی مـیں اضافہ ہوا ۔ جنگلات کاکچھ حصہ ختم ہوجانے سے سالانہ بارش کی اوسط کم ہوگئی ۔دو ایک خوفناک قسم کے قحط پڑے ۔ مال مویشی کی کمـی کے سبب زمـین مـیں مناسب تعداد مـیں کھادکااستعمال نہ ہونے سے غلے کی عام پیداوار مـیں کمـی واقع ہوئی اور کشتواڑ غلے کاخسارہ رکھنے والا علاقہ بن گیـا۔عام آدمـی کی عادتیں بھی بڑی حد تک بدل گئیں ۔ پرانے زمانے مـیں عام لوگ موٹاجھوٹا اناج خود کھاتے تھے اور اچھی قسم کاغلہ مثلاً چاول گندم فروخت کردیـاکرتے تھے ۔چائے بالکل نہیں پیتے تھے ۔صرف دو وقت کھانا کھاتے تھے ۔ پہننے کے لئے گھروں مـیں لگی ہوئی کھڈیوں پر پٹو اور ادنیٰ کپڑے خود تیـار کرلیـاکرتے تھے اور بارہ مہینے گرم کپڑے پہنے رہتیے تھے ۔ آہستہ آہستہ پرانا طرزِ رہائش بدلتاگیـا۔خاص تو خاص دور افتادہ دیہات مـیں رہنے والے عوام بھی دو وقت چائے پینے لگے۔ گرمـیوں مـیں پٹو کے کپڑوں کی جگہ سوتی کپڑے پہننے لگے، گھروں مـیں چوب چراغ کی جگہ مٹی کاتیل جلنے لگا، چاول زیـادہ کھائے جانے لگے جبکہ و ہ خاص خاص تہواروں ہی پر کھائے جاتے تھے ۔ ان بدلتی ہوئی عادتوں نے نئی نسل کو اس قدر محنتی اور دقت پسند رہنے نہیں دیـا جس قدر پڑانی نسل کے لوگ تھے۔راجاؤں کے وقت مـیں جو مقامـی صنعتیں تھیں وہ سرپرست نہ ہونے کے سبب ختم ہوگئیں ۔ کشتواڑ جموں سے ۱۴۰ مـیل کے فاصلے پر ہے۔ ذرایع آمد ورفت مشکل تھے ۔یہ بھی ممکن نہ تھا کہ مقامـی صنعتیں جموں کی صنعتوں سے مقابلہ کرکے بازی لے جاتیں کیونکہ بار برداری کے اخراجات ہی اس قدر زیـادہ ہوتے تھے کہ وہ مارکیٹ مـیں مہنگی پڑتی تھیں۔ ۱۹۵۶ ؁ء سے پہلے بس سروس جموں سے ٹھاٹھری تک شروع ہوچکی تھی۔ ٹھاٹھری سے کشتواڑ صرف پندرہ مـیل ہے جبکہ جموں سے ٹھاٹھری ۱۲۵ مـیل کی مسافت پر ہے ۔ ۱۲۵ مـیل کا لاری کا فی من کرایہ اڑھائی روپے من تھا او رٹھاٹھری سے کشتواڑ تک ۱۵ مـیل کا پانچ روپے من
سڑکوں کا جال:۱۹۶۲ ؁ء سے باقاعدہ جموں کشتواڑ بس سروس شرو ع ہوئی ۔اس وقت حسب ذیل موٹر روڈز زیر تعمـیر ہیں اور جن کی تکمـیل سے یقیناًعام آبادی کوفائدہ پہنچے گا۔
کشتواڑ پاڈر روڈ۔کشتواڑ سے اٹھولی (نیـابت پاڈر کا صدر مقام) ۴۰ مـیل کی دور ی پر ہے ۔ گلہار تک جو کشتواڑ سے ۲۰ مـیل کی مسافت پر واقع ہے ۔سڑک بن چکی ہے ۔ پڈیـارنہ تک ۱۹۶۸ ؁ء سے بس سروس جارہی ہے ۔ کشتواڑ پاڈر روڈ کو ہماچل سے ملانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ مرکزی سرکار چاہتی ہے کہ اس کے جو ملازم پانگی اور پاڈر کی سرحد پر کام کرتے ہیں وہ سردیوں مـیں کشتواڑ سے شملہ پہنچیں اس سڑک کے مکمل ہونے سے پاڈر کی معدنی دولت بالخصوص نیلم کو زمـین کے سینے سے نکالا جاسکے گا اور ایک خوبصورت علاقہ سارے ملک کے ساتھ براہ راست رابطہ پیدا کرے گا ۔یہ سڑک اب مکمل ہوچکی ہے ۔اور ٹریفک رواں دواں ہے۔
کشتواڑ سنتھن ڈکسم روڈ: یہ سڑک چھاترو تک جو کشتواڑ سے ۱۶ مـیل دور ہے قریب قریب مکمل ہوچکی ہے ۔اسے سنتھن درہ کی راہ سے مشہور صحت افزاء مقام ڈکسم (دیسو،کشمـیر) سے ملانے کامنصوبہ ہے ۔ اصل منصوبہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ سے بسوہلی ، بسوہلی سے بنی ، سرتھل سے بھدرواہ یـاچمبہ سے بھدرواہ اور وہاں سے ڈوڈہ کشتواڑ ہوتے ہوئے سیـاح چھاترو دیکھتا ہوا۔ڈکسم پہنچے ، گویـا پٹھانکوٹ سے کشمـیر جانے کی یہ دوسری شاہراہ ہوگی ۔ نئے نئے مقامات منظر عام پر آئیں گے بلکہ کشتواڑ اور اننت ناگ کا بیشتر دیہی حصہ مستفید ہوگا کشتواڑ سے سرینگر کا فاصلہ سو مـیل سے بھی کم ہوگاجبکہ بحالتِ موجودہ براہ بٹوت ۱۶۵ مـیل ہے ۔اس سڑک پر آج چھوٹی بڑی گاڑیـاں چلتی ہیں۔
کشتواڑ سرتھل روڈ: سرتھل کشتواڑ خاص سے ۱۲ مـیل کے فاصلے پر بجانب جنوب مشرق واقع ہے ۔یہاں دیوی اٹھارہ بھوجہ کامقدس استھان ہے ۔ ویشنو دیوی کی طرح یہاں بھی سارا سال یـاتریوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ موٹر روڈ سے سرتھل کی وابستگی یـاتریوں کو مزید آسانیـاں بہم پہنچائے گی۔
کشتواڑکیشوان روڈ: یہ پندہ بیس مـیل کے قریب لمبی سڑک ہوگی۔ کیشوان اُدھر کے علاوہ یہ ناگین بال تک جائے۔ اُدہر ڈوڈہ کی جانب سے ڈوڈہ بھرت روڈ بن رہی ہے او راس طرح کشتواڑ سے ڈوڈہ جانے کا ایک دوسرا متبادل راستہ تیـار ہوجائے گا اور ان علاقوں کے گھنے جنگلات سے فائدہ اٹھایـاجاسکے گا اور صحت افزا مقامات منظر عام پر آئیں گے ۔یہ روڈ بھی اب قابل استعمال ہے۔بونجواہ دوندی روڈ: بونجواہ تحصیل کشتواڑ کاعلاقہ ہے جوبھلیسہ کے متصل ہے ۔آباد اور زرخیز ہے۔ دودھ ، گھی ،شہد ،راجماش ،اخروٹ وغیرہ کی منڈی ہے ۔دوندی جوٹھاٹھری کلوتراں روڈ پر واقع ہے ۔ وہاں سے بونجواہ کے لئے اتصالی سڑک Approach Road بن رہی ہے جو کہ مکمل ہوچکی ہے۔
کوڑیہ پلماڑ روڈ:۔مڑواہ دچھن تحصیل کشتواڑ کی دورافتادہ نیـابت ہے ۔ بھنڈار کوٹ کوڑیہ سے پلماڑ کے لئے موٹر روڈ زیر تعمـیر ہے ۔ توقع یہی ہے کہ یہ سڑک دچھن مڑواہ تک وسیع ہوگی اور وہاں سے کشمـیر کے اننت ناگ ضلع کی اُس سڑک کے ساتھ وابستہ ہوجائےجومرگن ٹاپ(واڑون) کی دوسری جانب دور تک مکمل ہوچکی ہے ۔ کشتواڑ مڑواہ روڈ یـااننت ناگ مڑوہ روڈ انتہائی ضروری روڈ ہے ۔ اس روڈ کی تکمـیل سے تحصیل کشتواڑ کاانتہائی غریب اور پسماندہ علاقہ کشتواڑ اور اننت ناگ سے وابستہ ہوجائے گا ۔ مڑوہ دچھن کی تجارت کو چار چاند لگیں گے ۔مڑوہ کے گرم پانی کے چشمے مشہور ہیں ۔ اخروٹ کے جنگل ہیں، صحت افزا مقامات ہیں ۔شکار گاہیں ہیں ، نون خون پہاڑ ہے ۔ اسی طرح دچھن مـیں قابل دید علاقے ہیں نتھ نالہ کی خوبصورتی اور سبزہ زار ہیں۔
پیغام
(اپنے عہد شباب کی ایک مختصر نظم)
_________عشرت ؔ کاشمـیری
اُٹھو وطن کے نام پر عزیز کشتواڑیوں عزیز کشتواڑیوں وطن کے نام پراُٹھو
نقابِ شب ہے چہرہء جہاں سے برملا اُٹھی دریچے نورکے کُھلے وہ صبح مسکرا اُٹھی
جو بے خبر ہیں سو رہے پیـام انقلاب دو
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پر اُٹھو
وہ دوسروں کے منزلوں پہ جالگے ہیں کارواں

جنہیں وطن کی لاج ہے ،عزیز تر ہے اس کی شان
مگر ہیں حال مست ہم، اسیرِخوفِ جسم و جان

پِسے ہیں اور بعد رہے ہیں زیرِ دور آسمان
یہ ضعف ،ضعفِ مرگ ہی ہے نعرۂ شباب دو

عزیزکشتواڑیو، وطن کے نام پر اُٹھو
ابھی ہیں فاقہ مستیـاں ،ابھی ہیں آہ و زاریـاں

ابھی ہیں سوگواریـاں ،دکھوں کی زخم کاریـاں
ابھی ہیں سینہ چاکیـاں ، ابھی ہیں دل فگاریـاں

عذاب ہی عذاب ہیں،غموں کی شعلہ باریـاں
مسرتوں کی زندگی کو بڑھکے آب و تاب دو

عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
یہ رشوتوں پر رشوتیں، یہ آفتوں پہ آفتیں

کہیں پہ چیرہ دستیـاں ،کہیں ذلیل حرکتیں
ہزارہا ہی سن چکے ہیں، ظلم کی روایتیں

وطن کے گوشہ گوشہ سے مٹاہی دینگے ظلمتیں
لوظالموں سے پوچھ لیں کہ آج تک جواب دو 

عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
اٹھو کہ اب وطن مـیں ہم ، بہار تازہ لائیں گے 

ارادۂ جوان ہے عمل کے گیت گائیں گے 
رکاوٹیں مٹائیں گے ، رکاوٹیں ہٹائیں گے 

ہم آگے بڑھتے جائیں گے ،ہم آگے بڑھتے جائیں گے 
پیـامِ انقلاب دو ، پیـامِ انقلاب دو

عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو
ہمارا اپنا راج ہے ، ہمـیں ہیں آج حکمران

نیـا جہاں بنائیں گے نئے زمـین و آسمان
ترقیوں کے چار سو لگے ہیں کھلنے گلستان

ہیں اپنے مـیرِکارواں ہی پاسبانِ مہرباں
عمل کو اپنے اب جِلا برنگِ آفتاب دو 
عزیز کشتواڑیو،وطن کے نام پہ اُٹھو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں دن مـیں تین بار بہنے والا اور نیچے سے اُوپر کی جانب خشک ہونے والا چشمہ ہے جو ایک عجوبہ ہے ۔ پتھر کی گائے ہے جس کے تھنوں سے خاص وقت پر پانی بہتا ہے۔ جنگلات کی بے پایـاں دولت ہے ۔ دیکھاجائے تو پاڈر روڈ اور دچھن مڑوہ روڈ کی تعمـیر انتہائی ضروری ہے ۔ پاڈر روڈ مکمل ہوچکی ہے اور مڑواہ کشتواڑ روڈ ابھی نامکمل ہے جس پر کام جاری ہے ۔نہر نَے گڈھ: موٹر روڈ کی تعمـیر سے کشتواڑ کی اقتصادی حالت یقیناًبہتر ہوگی لیکن اگری کشتواڑ ی سے پوچھا جائے کہ اس کی تعمـیر و ترقی کے بارہ مـیں تمنا کیـا ہے تو اَن پڑھ سے ان پڑھ کشتواڑی سے لیکر بڑے سے بڑے سربراہ تک ایک ہی جواب ہوگا۔’’نہرنے گڈ‘‘ دراصل کشتواڑ بارانی علاقہ ہے ۔ مون سون فیل ہونے سے اکثر قحط سالی کاشکار رہتا ہے۔نہر کے بن جانے سے فصلوں کی کامـیابی یقینی بن جائے۔ دودھ ، گھی عام ہونگے ، سبزی ترکاری کاشت ہونگی اورانوں کی مالی حالت بہتر ہوگی ۔ نہر نے گڈ عامان اپنی فصلوں کی کامـیابی کے لئے چاہتا ہے ۔نے گڈ ھ ایک نالہ ہے جو کشتواڑ سے ۱۵ مـیل کی دور ی پر ہے ۔ اس نہر کی تعمـیر پر۳۲ لاکھ روپے صرف ہوئے تھے لیکن بعد مـیں منصوبہ ترک کردیـاگیـا ۔ اس تعمـیر کے تعلق مـیں ٹھیکیداروں اور افسروں نے کافی گول مال کیـاتھا ۔اب اس نہر کا پانی قصبہ کشتواڑ اور منڈل کے لوگوں کو پینے کے لئے فراہم کیـاجاتا ہے۔پاور پروجیکٹ: ہند کی وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کشتواڑ ۱۹۷۱ ؁ء مـیں بذریعہ ہیلی کاپٹر تشریف فرما ہوئیں ۔ریـاست کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ جناب قاسم صاحب ہمراہ تھے ۔ وزیراعلےٰ سے قبل مرکزی وزیر آبپاشی او ربجلی ڈاکٹر کے ایل راؤ اور وزیرمملکت برائے تعمـیرات اور مکانات جناب او م مہتہ کشتواڑ تشریف آور ہوئے تھے ۔ڈاکٹر راؤ نے کشتواڑ پاور پروجیکٹ کے بارہ مـین ایک جلسۂ عام مـیں اعلان کیـا تھا ،ان کی انگریزی تقریر کا ترجمہ کرنے کا شرف خاکسار عشرتؔ کو حاصل ہواتھا ۔ ڈاکٹر راؤ نے کہاتھا۔’’ یہ پاور پراجیکٹ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہوگا ۔اس کے مکمل ہونے پر جو بجلی پیداہوگی وہ سلال پروجیکٹ سے کئی گنا زیـادہ ہوگی ۔اس پراجیکٹ پر لاگت کم آئےاور مکمل بھی جلد ہوگا ۔ علاو ہ ازیںکشتواڑ مـیں گرینائٹ کی جو چٹان پائی جاتی ہے ۔ویسی پختہ چٹان صرف جنوبی ہند مـیں پائی جاتی ہے ۔ڈول سے دریـائے چناب کا پانی ایک سرنگ کے ذریعے قصبہ کشتواڑ کے نیچے نیچے سے جائے گا اور ہستی کے بالمقابل اُسے بلندی سے گرایـا جائے گا اور بجلی کی ٹربائن چلائی جائے۔‘‘ڈاکٹر راؤ نے مزید کہا۔’’کشتواڑ کانقشہ بدل جائے گا۔ یہ بجلی تمام شمالی ہند کو فراہم کی جاسکے۔ ‘‘پانچویں پانسالہ پلان مـیں اس پراجیکٹ کو شامل کیـاجارہاہے اور فی الواقعہ اس سے نہ صرف کشتواڑ اور ضلع ڈوڈہ کانقشہ بدل جائے گا بلکہ ریـاست کو بھی بہت فائدہ پہنچے گا ۔اب یہ پروجیکٹ 2007 ؁ء مـیں مکمل ہوچکاہے جس پر ابھی تک ۵۲۲۸ کروڑ روپے خرچ ہوگئے ہیں ۔وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس پراجیکٹ کو 26 اپریل2008 ؁ء کو قوم کے نام منسوب کیـا ۔یہ پروجیکٹ 130 مـیگاواٹ بجلی پیدا کررہاہے۔
حرف آخر
تاریخ کشتواڑ ایک قرض تھا جو مـیں پچھلے دس برس سے اتارنے کی کوشش کررہاتھا ۔ مجھے مسرت ہے کہ اپنی زندگی کی بہترین پیش کش یہی کام ہے جسے کچھ حد تک مکمل کرسکاہوں ۔ تاریخ ایک عمل ہے جو جاری رہتا ہے اور جس کی تکمـیل کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور ہر تاریخی تالیف پر اس کے مؤلف کے ذاتی اعتقادات و خیـالات کی ہلکی یـا گہری چھاپ پڑتی ہے ۔ تاریخ کشتواڑ کے اس لئے بہت سے گوشے دعوتِ تحقیق دیتے رہیں گے ۔ نہ معلوم اس چمن مـیں ابھی کتنے اور بلبل نغمۂ سرا ہوں گے۔عتراف:شکر گزار ہوں جناب مہتہ اوم پرکاش کا جنہوں نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود تاریخِ کشتواڑ کے تعلق مـیں مـیری ہمـیشہ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اگر ان کی عنایت شاملِ حال نہ ہوتی تو یہ تالیف منصۂ شہودپر جلوہ نما نہ ہوتی۔ریـاست کی اکیڈیمـی برائے کلچراو رزبان کا شکر گذار ہوں کہ اس نے تاریخ کشتواڑ کے اس صبر آزماکام کے لئے مجھے پونے دو صد روپے کی نقد امداد عطافرماکر تاریخ نوازی کا ثبوت دیـا ۔ کثیر خرچ کے مقابلہ مـیں حقیر امداد رقم کی اہمـیت اس لئے ہے کہ اکیڈیمـی کے اربابِ اختیـار چند برس تک مـیعاد اشاعتمـیں توسیع دیتے رہے۔
ان تمام حضرات کابھی شکر گذار ہوں جنہوں نےی نہی صور ت مـیں اس کتاب کی تالیف مـیں مـیری رہنمائی فرمائی ہے ۔
عشرت کاشمـیری
سابق ایم ۔ایل ۔اے
کشتواڑ
جموں۱۰ مارچ ۱۹۷۳ ؁ء
خوشنویس: سید نورالدین کاملیؔ 
مول:سرینگر
کمپیوٹرکتابت:عبدالجباربٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
با ب اول

کھاسل:کھش ہمالیہ کے دامن اور اس کی وادیوں مـیں آباد تھے ۔یہ لوگ زراعت پیشہ تھے ۔ تنگ نظری اور خود غرضی سے دُور تھے ۔ چنانچہ جہاں جہاں یہ لوگ آباد تھے وہاں باہر سے آئے ہوئے مصیبت زدہ اور دکھی انسان آباد ہوتے گئے ۔ انہیں کھشوں کی طرف سے زمـینیں ملیں اور جو ممکن سہولیتیں آبادکاری کے لئے ضروری تھیں وہ مہیـا کی گئیں ۔آج بھی بلاک عسر تحصیل ڈوڈہ مـیں کڈگراں کے متصل ایک موہڑہ کانام کھاسلؔ ہے اورجولوگ وہاں آباد ہیں وہ اپنے آپ کو راجپوت کہتے ہیں ۔وقت کی رفتار کے ساتھ پہاڑی علاقوں مـین رہنے والے کھشؔ ،راجپوت اور ٹھکر سلسلوں سے منسوب ہوگئے ۔کشتواڑ کے فلک بوس پہاڑوں مـیں بسنے والوں کے بارہ مـیں پنڈت شیوہ جی درون اپنی فارسی تاریخ ’’احوال ملک کشتواڑ‘‘ مـیں جو ۱۸۸۱ ؁ء مـیں مرتب کی گئی ۔رقمطراز ہیں:۔’’اس سر زمـین مـیں حکام سلف کے عہد سے پہلے جگہ جگہ راٹھی یعنی چھوٹے رانا حکومت کا جھنڈا لہراتے تھے اور ایک دوسرے سے تعاون نہ کرتے تھے ۔اس جگہ کے باشندوں کی بڑی تعداد ٹھکروں اور تھوڑی سی براہمنوں اور مـیگھوں(ہریجنوں) پرمشتمل تھی۔‘‘اسی ضمن مـیں تاریخ ریـاست کشتواڑ کے پادری مؤلفین جے ہچی سن اور پی ۔ایچ دو گل لکھتے ہیں۔’’عام روایـات اور لوک گیتوں مـیں زمانۂ قدیم کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں کے باب مـیں بے شمار اشارے پائے جاتے ہیں جو دوسرے مقامات کی طرح رانا یـاٹھاکر کہلاتے تھے ۔خاص چندر بھاگا کی وادی مـیں راناؔ کاخطاب بہت کم مشہور ہے لیکن ناگسین ، کونتواڑہ ،سروڑ اور بونجواہ مـیں اُن کی حکمرانی کے آثار پائے جاتے ہیں ۔راج ترنگنی مـیں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق متعدد بار ذکر آتاہے ۔ گیـارھویں اور بارھویں صدی مـیں یہ طبقہ علاقہ مـیں غالب دکھائی دیتا ہے جبکہ موجودہ وقت مـیں راناؤں کاکوئی سلسلہ باقینہیں ہے ۔ ان ٹھاکروں مـیں سے دونے ہرش کے پوتے بھکتاچرکی ۱۱۰۳ ؁ء مـیں مدد کی تھی جبکہ اس نے کشمـیر کے تخت کو واپس لینے کی جدوجہد کی ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاڈر،بونجواہ اورکونتواڑہ وغیرہ علاقہ جات مـیں مقامـی راناؔ خاندان حکمران تھے ۔ رانا رتناپاسرچمبہ کی طرف سے پاڈر کاکاردار یـاگورنر تھا ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ کے عہد مـیں جب پاڈر فتح ہوکر مملکتِ جموں کاحصہ بنا، تورتنا پاسر کو ناگسین اور کشتواڑ مـیں جاگیر دی گئی ۔آج بھی سرتھل ،کونتواڑہ ،پوہی وغیرہ مـیں رانا خاندان آباد ہیں۔تاریخ ریـاست کشتواڑ کے پادری صاحبان کا یہ قیـاس درست معلوم نہیں ہوتا کہ کشتواڑ جس سطح مرتفع پر واقع ہے وہ غالباً اپنے گردوپیش کی پہاڑی وادیوں کے مقابلہ مـیں دیر سے آباد ہوئی ۔ کشتواڑ خاص کا محل وقوع اس کی مرکزیت ،مزروعۂ اراضی کازرخیر اور ہموار ہونااور دریـا کے سبب قدرتی دفاع کاموجود ہونا ایسے امکانات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سطح مرتفع اگر پوری کی پوری نہیں تو بھی اس کا بڑا حصہ زمانۂ قدیم سے آباد چلاآتا ہے ۔پھر راج ترنگنی مـیں کشتواڑکاذکر ایک بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار کیـاجانا ایک او رواضح ثبوت ہے ۔مملکت کشتواڑ: کشتواڑخاص مـیں مرکزی حکومت قائم ہونے کے بعد جب طوائف الملوکی ختم ہوئی اور علاقے علاقے کے راناؤں کا راج ختم ہوا ۔تب اس ریـاست مـیں حسب ذیل علاقے شامل تھے۔۱۔ ناگسین: کشتواڑ خاص کی مشرقی پہاڑی سے لیکر لدراری نالہ تک یہ علاقہ واقع ہے ۔ اس زمان�ۂ سلف مـیں لدراری نالہ حد فاضل تھا۔دوسری طرف چنبہ کے باج گذارپاڈر کے راناؤں کا علاقہ تھا ۔ ناگسین بدھ مت کا مشہور پرچارک ہوا ہے ۔جسکی کتاب ملندہ پنہہ بدھ ازم کی تفسیر ہے ۔کہتے ہیں وہ اسی علاقے کا باشندہ تھا۔۲۔ دچھن:۔ زبان اور طرزِ معاشرت کے لحاظ سے یہ علاقہ کشتواڑ کے ساتھ وابستہ رہاہے ۔ ہنزل اس کی آخری سرحدی چوکی تھی ۔ یہاں جو ٹھکر آباد تھے ۔ان کی ذات راتھر تھی او ران کی بعض مستورات مہاراجہ رنبیر سنگھ کی حرم سرا مـیں داخل تھیں چنانچہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے عطا کردہحسب ذیل پٹہ آنند ولد بھگوان ٹھکر راتھر ساکن ہنزل کے خاندان مـیں موجود ہے:

صحیح خاصارادت نشان لعلو شاہ تحصیلدار کشتواڑچوں مسماۃ بھوانی ٹھکرانی ،ساکن موضع ہنزل پرگنہ دچھن علاقہ کشتواڑ درکنیز گان سرکار والا داخل شدہ است، لازم هست کہ بقدر ہفت ہنہ روپیہ ضرب چلکی دروجہ مسماۃ مذکورہ تمام ازجمـیع حساب نسلاً درون نسلاً معاف وواگذار دارند، ایشاں قرار نوید مجرائی خواہدشد۔پروانہ بطور پٹہ نزدِ مذکورہ ماندن تاکید دانند۔ تحریر بتاریخ ۲۵ چیت ۱۹۲۸ ؁ء بکرمـیراجہ تیغ سنگھ کے عہد مـیں متا کے اوتم پڈیـار پرگنۂ دچھن کے کاردار تھے 
۳۔ پرگنہ اوڈیل: کشمـیر کی سرحد سے لیکر کشتواڑ کے مغل مـیدان کے پل سنگمـی تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔اس مـیں دو مشہور درّے ہیں ایک مربل جس کا دوسرانام سنگپور پہاڑ ہے ۔یہ ۱۱۵۷۰ فٹ بلند ہے اور کشتواڑ خاص سے ۳۰ مـیل کی مسافت پر واقع ہے ۔بڑا تاریخی درّہ ہے ۔کشتواڑ مـیں نہ صرف کشمـیر سے آنے الے مہاجروں ،سیـاسی پناہ گزینوں اور وقت کے ستم رسیدوں کے قافلے آتے رہے ۔بلکہ جب بھی کوئی حملہ ہوا تو اس راستے سے حملہ آوروں نے یلغاریں کیں ۔چنانچہ دلاور خان صوبیدار کشمـیر نے جہانگیر کے عہد مـیں اسی پہاڑ کو عبور کرکے کشتواڑ کے راجہ پر حملہ کیـاتھا اور چار ماہ دس دن تک بھنڈارکوٹ مـیں رُکے رہنے کے بعد کشتواڑ کو فتح کرلیـاتھا۔ کشتواڑ کی متعدد تاریخوں مـیں خاص طور پر تاریخ حسن حصہ اول کے صفحات ۴۹ اور ۷۷ پر کتل مربل کا ذکر ہے ۔دوسرا درہ سنتھن ہے جو چنگام سے نومـیل کے فاصلے پر ہے ۔ یہ درّہ نسبتاً کم مشہور اور کم بلند ہے ۔قدرے طویل ہونے کے سبب اس راہ سے زیـادہ آمد و رفت نہیں ہوتی ہے ۔پرگنہ اوڈیل مـیں مربل کے علاوہ کوشر کوہل یـاد ریـائے چھاترو کا ذکر تاریخ فرشتہ اور دوسری تواریخ مـیں آیـاہے ۔مربل عبور کرتے ہی اس کوہل کے کنارے اکثر لڑائیـاں ہوئی ہیں ۔مرزا حیدر کاشغری کے بارہ مـیں تاریخ فرشتہ جلد چہارم (۱) مـیں درج ہے کہ کوشر کوہل کے کنارے وہ کشتواڑیوں سےنبرد آزما ہوا ۔ جہاز پور یعنی چھاترو ، ڈڈپیٹھ کی جگہ کوئی دوسرا نام فرشتہ نے تحریر کیـا ہے ۔
قلعہ دہار: قلعہ دہار کا ذکر صاف ہے ۔جہاں لڑائی ہوتی تھی ۔جہانگیر نے اپنی تزک مـیں نرکوٹ کا ذکر کیـا ہے ۔جہاں مغلیہ فوج اور راجۂ کشتواڑ کے لشکر کامقابلہ ہواتھا۔مـیرے خیـال مـیں یہ جگہ چھاترو اور مغل مـیدان کے درمـیان کہیں واقع تھی۔ موجودہ پاسر کوٹ اس لئے قرین قیـاس نہیں ہیکہ اس جگہ سے صرف سنگپور کی طرف سے حملہ آور فوج کا مقابلہ کیـاجاسکتاتھا۔سنتھن کی جانب سے جنگ آزمالشکر کو روکنا مشکل ہوجاتا۔ممکن ہے کہ کوٹ مغلمـیدان کا پہلا نام ہو ۔کیونکہ یہ نام مغل فوج کی تباہی کے بعد پڑا ہے او ریہ مغل فوج وہ فوج نہیں تھی جو دلاور خان کی قیـادت مـیں حملہ آور ہوئی تھی۔
۴۔پرگنہ کنتواڑہ: اس مـیں فلر ،پکالن ،دہڑبدان،سیرگواڑ،نار،سرانواں ،ہوڑنہ ،دھار ،کیشوان اورکونتواڑہ کے مواضعات شامل تھے ۔برشالہ جو آج تحصیل ڈوڈہ مـیں ہے وہ کونتواڑہ کا حصہ تھا ۔
۵۔پرگنہ سروڑ سرتھل: اس مـیں اگلے پچھلے سرور اور سرتھل کے دیہات شامل تھے۔
۶۔پرگنہ ڈوڈہ سراج: ڈوڈہ ریـاست کشتواڑ کی سرمائی راجدھانی تھا ۔راجگان کشتواڑ موسم سرما ڈوڈہ کی کم سرد اور غیر برفانی آب و ہوا مـیں بسر کرتے تھے ۔ڈوڈہ سراج مـیں بانہال تک کاعلاقہ شامل تھا۔ بانہال کا پُرانا تاریخی نام مہابل تھا۔ ایک انگریز سیـاح مسٹر فارسٹر ۱۷۸۳ ؁ء مـیں جموں سے سرینگر درۂ بانہال عبور کرکے گئے تھے ۔ انہوں نے اپنے سفر نامہ مـیں تحریر کیـاہے کہ وہ چناب عبور کرنے کے بعد (غالباً رام بن کے مقام پر ) راجۂ کشتواڑ کی عملداری سے گذرے ۔کریم بخش حاکم بانہال نے سرکشی کااظہار کیـاتھا کہ راجہ سوجان سنگھ ۱۷۸۶ ؁ء نے حملہ کرکے دوبارہ قبضہ کرلیـا۔ سراج اور کنڈی کے کوتوالوں کااکثر ذکر آیـاہے کہ انہوں نے مشکل وقت مـیں کشتواڑ کے حکمرانوں کی وفاداری کا ثبوت دیـاتھا ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ کو قلعۂ باہو سے جہاں جموں کے راجہ رنجیت دیو نے اُسے قید کرکے رکھاتھا ۔ انہی کوتوالوں نے آزاد کرایـا اور گدینشین کروایـاتھا۔
۷۔پرگنہ خاص:۔ اس مـیں کشتواڑ خاص اور منڈل کے قر�ؤ شامل تھے ۔منڈل تھا،پوچھال، پلماڑ ،ڈول او رترگام کے مواضعات پر مشتمل تھا او رکشتواڑ خاص مـیں پچھلی لچھ گوہا، پچھلی لچھ غفار، اور بھنڈار کوٹ کے موضعے ۔معلوم ہوتاہے کہ لچھ خزانہ اور لچھ دیـارام بعد مـیں بندوبست کے قریب نئے نام لکھے گئے ہوں گے ۔لچھ خزانہ کاپُرانا نام لچھ گوہا اور دیـارام کالچھ غفار تھا۔
مندرجہ بالا پرگنہ جات کے علاوہ کچھ اور پرگنے بھی تھے جو ریـاست کشتواڑ مـیں شامل تھے ۔یـاباج گزار تھے ۔اُن کا ذکر حسب ذیل ہے :
پرگنہ جسکار: بقول شیوہ جی درون ۔پرگنہ جسکاریـازانسکار کے ۵۱ قر�أ ریـاست کشتواڑ مـیں شامل تھے ۔درصاحب نے اپنی تاریخ مـیں قریوں کے نام بھی درج کئے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ جسکار پاڈر اور لداخ کی فتح کے بعد کشتواڑ سے وابستہ کیـاگیـاتھا ۔ ریـاست کشتواڑ کے خاتمہ کے بعد بھی کشتواڑ حاکم نشین شہر تھا اور یہ علاحدہ وزارت تھی جس مـیں بھدرواہ بھی شامل تھا ۔ چنانچہ کشتواڑ کے ایک وزیر وزارت شیوہ جی درون کے نام مہاراجہ رنبیر سنگھ کی جانب سے تاریخ کشتواڑ مرتب کئے جانے کے متعلقہ مندرجہ ذیل خط موصول ہوا۔
’’نقل ارشادصحیح خاص ۱۴۸؂
از مہاراجہ صاحب بہادروالی جموں وکشمـیر مشیر خاص قیصرہ ہند ، جنرل عساکر انگلشیہ ،اندر مہند سپر سلطنت انگلشیہ مہاراجہ صاحب رنبیر سنگھ جی بہادر ارشاد بنام پنڈت شیوجی وزیر وزارت کشتواڑ چوں درینوقت ارشاد والا بتاکیدتمام بنام شماصادر مـیگر دوکہ کاغذات راجگان پیشین قرار فہرست مشمولہ ارشاد ہذا معرفت واقفان تلاش کنانیدہ درمـیعاددو ہفتہ تیـار کردہ ارسالِ حضور انور سازند ،دریں باب تاکید مزید شناختہ حسب السطور بعمل آرندوتاپانزدہ یوم کاغذتمام ارسال داشتہ رسید بگیرند ،بنابراں اردلی ماموراست رسید دادہ باشند،تاکید هست فقط ۔بتاریخ ۲۹ مگھر ۱۹۴۰ ؁بپنڈت شیوہ جی درون جو ہماری ریـاست کی مشہور شخصیت جناب ڈی پی دھر کے جد ہیں اپنی وزارت کے بارہ مـیں خود رقم طراز ہیں۔
’’ من مسمـی بہ پنڈت شیوہ جی دربن مہانند پنڈت درون بن گنیش پنڈت درسکن�ۂ خطۂ کشمـیر جنت نظیر از حضور سرکار نگردفوں اقتدار درسال ۱۹۳۸ ؁ بکرمـی بخطاب وزیرری برحکمرانی ملک کشتواڑ و بھدرواہ مقررو مفخر شدم۔‘‘
۲۔ پرگنہ مڑوہ واڑون: اس پرگنہ کے بارہ مـیں تاریخ حسن حصہ اول کے صفحہ۲۴۰ پر حسب ذیل عبارت درج ہے :۔
’’ یک پرگنہ هست درمـیان دودرہ از کشمـیر بطرف گوشۂ جنوب و مشرق بہ مسافت ۹۶مـیل، ہمـیشہ شامل کشمـیر بودہ است۔مردمانِ آنجا مسلمان و بزبان کشمـیر تلفظ مـیسازند۔ 
لیکن پادر ی صاحبان نے مڑوہ واڑون کو ریـاست کشتواڑ کی قلمرو مـیں دکھایـاہے چوں کہ ان کا تاریخی مضمون’’ تاریخ ریـاست کشتواڑ ‘‘ لاہور کی ’دی پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے رسالے مـیں ۱۹۱۶ ؁ء مـیں شایع ہوا ہے ۔اس لئے یہ امر قرین قیـاس ہے کہ انہوں نے وقت کے حالات کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ ہمارا خیـال یہ ہے کہ مڑوہ واڑون کا علاقہ بفر سٹیٹ کے طور پر کشمـیر اور کشتواڑ کے درمـیان رہاہے ۔ وہاں کے مقامـی زمـیندار یعنی لون ملک وغیرہ وقت کے طاقت ور حاکم کے سامنے سراطاعت خم کرتے رہے ہیں ۔اس لئے کبھی کشتواڑ کے باج گزار رہے ہیں اور کبھی کشمـیر کے جہاں تک زبان اورکلچر کے اثرات کاتعلق ہے ۔ظاہر ہے کہ کشمـیر کے قریب ہے اور کشتواڑ دور،نیز واڑون کی چراگاہوں مـیں آج بھی موسم گرما مـیں اننت ناگ کے مشرقی اطراف کے مال مویشی وہاں کے باشندے بھیجتے ہیں۔
۳۔پاڈر: اسے مشہورڈوگرہ جنرل وزیر زورآور سنگھ کلہوریہ نے ۱۸۳۶ ؁ء مـیں فتح کرکے مہاراجہ گلاب سنگھ کی مملکت مـیں شامل کیـاتھا ۔اس سے پہلے یہ چنبہ کے زیرِنگین تھا اور راجگان چنبہ کی جانب سے مقامـی رانے کا روبار حکومت چلایـاکرتے تھے ۔راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے ۱۷۸۳ ؁ء پاڈر پر حملہ کیـا او رمال و دولت لیکر قبضہ برقرار رکھے بغیر واپس کشتواڑ گیـا ۔ اگر اس کا قبضہ پاڈر پر ہوتا تو وزیر زور آورسنگھ کو دوبارہپاڈر فتح کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی؟
۴۔ بونجواہ: راجہ عنایت اﷲ سنگھ نے بھدرواہ کو بھی پاڈر کی طرح تاخت و تاراج کیـاتھا ۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی راجہ کے عہد مـیں بونجواہ کشتواڑ کی ریـاست مـیں شامل ہواتھا۔ بھدرواہ پر راجہ محمد تیغ سنگھ کے وزیر لکھپت پڈیـار نے بھی حملہ کیـاتھا ۔اور چنبہ کے وزیر نتھو کے لشکر کو بسنوتہ اور گالو گڑھ کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی اور بھدرواہ کو فتح کرکے جلادیـاگیـاتھا ۔اسی کارنامہ کی بنا پر وزیر لکھپت کو بونجواہ کا علاقہ جاگیر مـیں دیـاگیـاتھا ۔ورنہ اس سے پیشتر وہاں مقامـی رانے راجہ بھدرواہ کی اطاعت کا جو اگلے مـیں ڈالے حکومت کیـاکرتے تھے ۔
روایـات کے گرداب: کشتواڑ کو کوئی کلہن نہیں ملا ۔اگر ملا بھی ہو تو اس کا کرنامہ محفوظ نہیں رہا۔ راج ترنگنی بھی شاعرانہ پروازِخیـال ،مبالغہ آرائی اور روایـات پرستی سے خالی نہیں ہے لیکن کشتواڑ کی تاریخ راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ؁ء تک روایـات کے گرداب مـیں پھنسی رہی ۔ کہاوتوں ،قصوں اور بے سر و پاقصیدوں کے جھاڑ جھنکار مـیں چھپے ہوئے چنبیلی کے پھول مشکل سے ملتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق سنسکرت اور شاردا رسم الخط مـیںی کہنہ چوبی صندوق مـیں کاغذی کیڑوں کی نذ ر ہورہے ہیں ۔دھوئیں سے اٹے ہوئے ان چوبی صندوقوں یـاالماریوں کے مالکوں کو اس قدر علم کی بصیرت نہیں ہے کہ وہ اپنے خزانے کو دیکھیں کہ وہ اینٹوں اور پتھروں پر مشتمل ہیں یـا لعل و جواہرات سے مزین ہیں اور نہ ہی ظرف اتنا عالی ہے کہ اہل علم کو اُن سے راشناس کرائیں ۔بعض مخطوطے نظر سے گذرے جو مخصوص زاویہ نگاہ سے لکھے گئے ہیں ۔ جس راجہ نے مصنف یـا اس کے بزرگوں کو اپنی فیـاضی سے مطمئن اور مسرور کیـا ہے ۔اس کی مدح مـیں زمـین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں ۔اُسے کرن کی طرح دانی کہاگیـا ہے ۔ پنڈت دینا ناتھ جوتشی کے پاس ایک مخطوطہ شاردا رسم الخط مـیں ہے ۔اس مـیں مندرجہ ذیل عبارت مرقوم ہے:
’’وجے کا بیٹا بلبھدر ہوا ہے ، جس بلبھدر کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے بارہ ہاتھی دان مـیں دئے۔‘‘ کشتواڑ مـیں ہاتھی ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ آتاہی نہیں ہے ۔ آج سے صدیـاں پہلے راستے بے حد دشوار گذار تھے ، ان ایـام مـیںی ہاتھی کاآنا او ربھی ممکن نہ تھا ۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود تاریخ کشتواڑ مـیںتھی کا ذکر آتا ہے ۔ایک روایت ہے کہ راجہ سنگرام سنگھ کے عہد مـیں متا اور کلید کے درمـیان ایک دیو پیداہوا تھا جو ہاتھی کی شکل مـیں ظاہر ہوتا تھا اور ارد گرد کے دیہات مـیں جب موقع ملتای نہی انسان کو اپنا شکار بنا لیتا ۔ کہاجاتا ہے کہ چوگان (کشتواڑ کامرغ زار) مـیں اگر گیـارہ آدمـی چل رہے ہوتے تو ایک آدمـی خودبخود غائب ہوجاتا۔آخر راجہ نے ناگسین سے ایک بوڑھے ،تجربہ کار اور ماہر روحانیـات براہمن کو بلایـا جس نے اپنے علم کے زور سے دیو کو زندہ جلادیـااور انعام مـیں سنگرام بھاٹا کے مقام پر جاگیر حاصل کی ۔ سنگرام بھٹا اُسی براہمن کا آباد کیـاہوا موضع ہے ۔ دیو کے مار ے جانے کی خوشی مـیں بہادون یـااسوج مـیں چوگان مـیں کٹک یـاترا منعقد ہوتی تھی ۔ جس مـیں مقامـی بھانڈاپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے او رہاتھی کی شکل (Effigy) بناتے تھے ۔چوگان مـیں ایک پتھر بھی تھاجوزمـین مـیں گڑا ہوا تھا اور جو حصہ باہر تھا ،اس مـیں تھا ،اسے ہستی گنڈ یعنی ہاتھی باندھنے کی جگہ کہتے تھے ۔
بابِ دوم

گوردھن سر: کہاجاتا ہے کہ پُرانے وقتوں مـیں سنگھ پور سے ٹھاٹھری تک ایک لمبی چوڑی جھیل تھی ۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ دریـائے چناب۔دریـائے مڑوہ اور کأشأ کوہل(چھاترونالہ) کی سطح اس قدر بلند ہوکہ ان سب کا پانی کشتواڑ کے اوپر سے ہوکر گذرتاہو۔ کشتواڑ کی سطح مرتفع کی موجودہ شکل نہ ہو بلکہ پانی کے نیچے ایک مـیدان ہو جب ہزاروں سال کے مسلسل عمل نے دریـاؤں کی گذرگاہوں کو گہرا کردیـاہو،کشتواڑ کی جھیل کے کنارے پانی کے زور سے یـاکسی زلزلہ کے سبب گر کرٹوٹ چکے ہوں اور تمام پانی نشیب مـیں چیرہاڑ ،آرسی ،تیل مچھی ،سونہ درمن، ہڑیـال اور شالہ مار کی طرف بہہ گیـا ہو اور خشکی برآمد ہوگئی ہو جس پر دیودار کے درختوں کا جنگل اُگ آیـاہو۔ جھیل کی جگہ رہتے رہتے صرف برائے نام پانی باقی رہ گیـاہے۔ جسے بعد مـیں گودن سر کہاگیـا اور آج تک کہاجاتاہے ۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جھیل کی روایـات کشمـیر کی تاریخ کی دیکھا دیکھی بنائی گئی ہو ۔وہاں جھیل کے پانی کو کشپ رشی نے نکالا اور کشمـیر کو آباد کیـا یہاں ہنگیت براہمن نے سب سے پہلی بستی بسائی۔ اصل مـیں علم تاریخ براہمنوں کے ہاتھ مـیں تھا۔وہ کشمـیر سے آئے تھے ورنہ آثار وقرائنی جھیل کا پتہ نہیں دیتے ہیں۔
مہاکالی کنڈ یـا مہاکال گڈھ: جب جھیل کاپانی خارج ہوگیـا اور صرف گودن سر کا چھوٹاسا تالاب رہ گیـا ۔تو عرصۂ دراز کے بعد کہیں سے ایک سادھو شری پال نامـی آنکلا۔ اس نے پُر سکون جگہ دیکھ کر تالاب کے پاس ہی اپنی دھونی رمائی اور یـاد الٰہی مـیں مصروف ہوگیـا۔ رفتہ رفتہ سادھو کے روحانی کمالات کا شہر ہ عام ہوا ۔اور لوگ اس سے مستفید ہونے کے لئے آنے لگے ۔ کچھ معتقد ایسے بھی تھے جو وہیں آباد ہوگئے اور اس نئی آبادی کانام ’’مہاکالی کنڈ‘‘ پڑا۔غالباً شری پال کالی کاپُجاری تھا۔اس کانام بھی معلوم نہ ہوسکا۔ شری پال لقب ہے کیونکہ چیتے اس کے پاس دیکھے گئے تھے ۔ پادری ہچی سن اور درگل نےشری پال کی آبادی یـا بستی کانام مہاکالی کندر رکھا ہے ۔ ہمارے خیـال مـیں یہ مہاکالی کنڈ ہے کیونکہ یہ تالاب کے کنارے واقعہ تھی اور تالاب کو کنڈ کہاجاتا ہے ۔ نئی بستی مـیں دس پندرہ سال کے بعد ہی اخلاقی بُرائیـاں پیدا ہوگئیں ۔ سادھو نے ناراض ہوکر بد دعا دی اور مہاکالی کنڈ تباہ ہوگیـا۔ خیـال یہی ہے کہ آبادیی وباکاشکار ہوکر مرکھپ گئی اور باقی ڈر کر بھاگ گئی ۔ سادھو جیسے پردۂ گمنامـی سے نکلا تھا اسی طرح لاپتہ ہوگیـا۔پوہی: پھر زمانہ نے ایک اور کروٹ لی۔ کشمـیر سے ہنگپت نام کاایک براہمن چرواہا بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لیکر آیـا اور مڑپنیـار کے مـیٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے اور قریب کے سرسبز و شاداب جنگل اور جھاڑیوں کو دیکھ کر اپنے تینوں لڑکوں رام داس روگھناتھ داس اور سری داس کے ساتھ وہیں رہ پڑا۔اس کا خاندان بڑھا اور پوہی کاگاؤں آباد ہوا۔ژیر ہاڑ اور زیور: پوہی کی آبادی کے بعد کشمـیر سے یہاں چرواہے اور مسافر آتے جاتے رہے ۔ آہنگپت کے خاندان کی خوشحالی کے قصے کچھ قبیلوں نے جو کشمـیر کی سرحد پر آباد تھے اور راتھر اور گنائی کہلاتے تھے ۔سُنے اور ان کے مُنہ مـیں پانی بھر آیـا ۔ چنانچہ اُن دونوں قبیلوں نے مِل کر پوہی پر حملہ کیـا اور غالب آنے کے بعد آہنگپت کے خاندان سے ان کی زرخیز چراگاہیں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چھین لئے ۔نئے حملہ آوروں نے پوہی کی ڈھلانوں پر رہنا پسند نہیں کیـا کیونکہ وہ وادئ کشمـیر کے مـیدانوں سے آئے تھے ۔اس لئے پہلے پہل وہ سب ڈانبرناگ مـیں آباد ہوئے کیونکہ وہاں پانی بھی زیـادہ تھا اور کاشت کے لئے نسبتاً بہتراراضی دستیـاب ہوسکتی تھی ۔ راتھر اور گنائیوں نے اُس نئی بستی مـیں خوبانی کے بے شمار درخت کاشت کئے اور کچھ عرصہ بعد وہاں بہتات سے خوبانیـاں پیدا ہونے لگیں ۔ اس طرح اُس نئی بستی نام ژیر ہاڑ پڑا۔معلوم ہوتاہے کہ جب ان کی تعداد بڑھ گئی اور کشمـیر سے اور بھی قافلے آتے گئے نیز دونوں قبیلوں مـیں پہلی سی محبت اور دوستی برقرار نہ رہی تو اُنہوں نے نئی بستیـاں بسانے پر اتفاق کیـا ۔روتریـاراتھروں نے زیور کاگاؤں آباد کیـا اور گنائی موجودہ قصبۂ کشتواڑ کی جگہ جہاں جنگل تھا اُسے صاف کرنے کے بعد بس گئے۔روتر یـاراتھر،گنائی:یہ راٹھو اور گنائی قبیلے کشمـیر کے جنگجو قبیلے تھے ۔ راٹھور بگڑتے بگڑتے روتر یـا راتھر بن گیـا اور گُن وانی ،گنائی ہوگئے ۔حضرت شیخ یعقوب صرفیؔ ؒ جنہوں نے اکبر اعظم کو کشمـیر پر حملہ آور ہونے اور شعیہ چکوں کے ظلم و ستم سے اہل کشمـیر کو بچانے کی دعوت دی تھی ۔اسی گنائی قبیلے کے فرد تھے ۔چھوٹے موٹے حکمران: راتھر اور گنائی سطح مرتفئ کشتواڑِ خاص کے حکمران تھے ۔ موجودہ تحصیل کشتواڑ کے باقی علاقوں مـیں دوسرے لوگ حکمران تھے ۔عام طور پر ایک ایک گاؤں کا راجہ ہوتاتھا اور کہیں کہیں علاقے کا بھی ۔ یہ حکمران رانے کہلاتے تھے ۔پاڈر ، بونجواہ ، کنتواڑہ ، ناگسین اور سروڑ مـیں ’’رانا‘‘ خاندان کے لوگ حکومت کرتے تھے ۔ جن کا دائرہ اختیـار ان کی طاقت ، ہر دلعزیزی اور ذاتی شجاعت کی بنا پر گھٹتا بڑھتا رہتاتھا ۔ راناؤں کے علاوہ راٹھی لفظ بھی حکمرانی کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ یہ راٹھی بھی راٹھو ر یـا ٹھاکر ہوں گے ۔ ہرش کا پوتا بھکشا چرجب تخت و تاج کے لئے ۱۱۴۲ ؁ء مـیں کوشش کررہاتھا تو اس کی مدد کشتواڑ کے دو ٹھاکرکررہے تھے ۔ راج ترنگنی مـیں چندر بھاگا کے ٹھاکروں کے متعلق کئی بار ذکر ہوا ہے ۔ درون اصل کشتواڑ مـیں مرکزی حکومت بہت بعد مـیں قائم ہوئی جس نے کشتواڑ کی ریـاست کو جنم دیـا۔بھوٹ نگر: ژیر ہاڑ، پوہی ،زیور اور کشتواڑ خاص کی خوشحالی اور اقتصادی اطمـینان کے قصے دو ردور تک پھیلے ہوں گے تبھی تو سورو (لداخ ، زانسکار) کا حکمران کھری سلطان حملہ آور ہوا اور ٹھاٹھری تک تمام علاقے پر قابض ہوگیـا ۔ کشتواڑ کانام بھوٹ نگر پڑا۔لداخیوں کو بھوٹ کہاجاتا ہے ۔اُس نسبت سے مقامـی آبادی نے کشتوار کی راجدھانی کو بھوٹوں کی کثرت کے سبب بھوٹ نگر پکارنا شروع کیـا ہو ورنہ ظاہر ہے کہ کھری سلطان اس نام کو خود کیسے تجویز کرتا ۔کھری سلطان ایک رعایـا پر ور اور انصاف پسند ، حکمران تھا ۔ کشتواڑ او راس کے علاقہ جات سے فائدہ اٹھانے کے بعد وہ پھر اپنے آبائی وطن واپس چلاگیـا ۔ کھری سلطان یـاتری سلطان بقول کے ۔ایم ،پانیکر لداخ کے صوبہ پورگ کے حکمران تھے ، جن کی راجدھانی کھرسی تھی ۔ یہ علاقہ تحصیل کشتواڑ کے مڑوہ واڑون کے متصل ہے ۔ لفظ سلطان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھا جبکہ سورو اور کھرسی کے سردار پندرھویں صدی مـیں مسلمان ہوئے تھے ۔دائر�ۂ اسلام مـیں آنےسے پہلے کھرسی کے سردار اپنے تئیں کھری گیـالپو کہلاتے تھے ۔دراصل جب بہت عرصہ بعد تاریخ کشتواڑی شخص نے مرتب کی تو اس نے اس وقت کے کھر سی حکمرانوں کو جو کھری سلطان کہلاتے تھے ، مدِ نظر رکھ کر آٹھویں یـا نویں صدی کے حکمران کو بھی کھری سلطان کے لقب سے موسوم کیـاہے ۔ تاریخ حشمت مـیں صفحہ ۶۹۸ پر درج ہے ۔ ٹھی محمد سلطان ۱۷۴۶ ؁ء اپنے باپ کی وفات پر راجہ ہوا۔ وہ بڑا مدبر اور بہادر راجہ تھا ۔ اس نے اپنے ملک سے باہر نکل کر کشتوار کو فتح کیـا ۔ جہاں ٹھی سلطان کے نام کا شغرن آج تک موجود ہے۔‘‘ یہ بھی غلط ہے ۔ اٹھارھویں صدی مـیں کشتواڑ مـیں جو واقعات رونماہوئے وہ تاریخ مـیں درج ہیں ،ی سلطان کے حملہ کاذکر نہیں ہے اور خود حشمت اﷲ نے کشتواڑ کی تاریخ مـیں اٹھارھویں صدی مـیں ایسا کوئی حملہ بیـان نہیں کیـا ہے ۔پنج ساسی: کشتواڑ کی تجارت کشمـیر کے ساتھ بھی ہوئی تھی اورجنوب کے علاقہ جات جموں ، بسوہلی ، نورپور کانگڑہ وغیرہ کے ساتھ بھی ۔ذرایع آمدورفت مشکل تھے ۔ چوروں ، لٹیروں اور جنگلی درندوں کا خطرہ قدم قدم پر مسافروں کو پریشاں کرتاتھا ۔اُن ایـام مـیں سفر قافلے کی صورت مـیں دلیر، جنگجو اور باہمت لوگ ہی کرسکتے تھے ۔اس لئے وہی لوگ تجارت مـیں پیش پیش تھے جو اپنی حفاظت خود بھی کرلیتے تھے ۔ ایسا ہی تجارت پیشہ فرقہ پنج ساسی تھا۔ یہ پنجاب سے آکر کشتواڑ مـیں کاروبار کے تعلق مـیں آبادہوگیـا۔ وہ باہر سے کپڑے ، نمک ، گڑ ،آرائشی سامان وغیرہ کشتواڑ لاتے تھے اور یہاں سے ادویـات ، گھی ،زیرہ ، گچھیـاں ، راجماش، زعفران ،کمبل ،پٹو برآمد کرتے تھے چونکہ جنگجو تھے اس لئے ہتھیـار جسم پر سجا کر رکھتے تھے ۔ شروع شروع مـیں مقامـی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ اور برادرانہ تھے لیکن جب وہ ہدری کے قریب آباد ہوگئے اور کھیتی باڑی کرنے لگے تو رفتہ رفتہ اُن کے تعلقات مقامـی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں کے ساتھ کشیدہ ہوگئے ۔راتھر اور گنائی اپنے آپ کو کشتواڑ کاحکمران طبقہ سمجھتے تھے اور غریب ہونے کے باوجود پنج ساسیوں پر رعب جماتے تھے ۔ پنج ساسی ترکی بہ ترکی جواب دیتے تھے اور اُن سے مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔ چونکہ وہ شہ زور اور فنونِ سپاہگری سے واقف تھے اس لئے راتھر اور گنائی ان کا کھلے مقابلے مـیں کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے ۔ ہاں اُنہوں نے کشتواڑ کے نام پر رشتہ داری اور دوستیکے ناطے مقامـی آبادی کا بڑا حصہ پنج ساسیوں کے خلاف ابھار دیـاتھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنج ساسی کھیتی باڑی کی طرف زیـادہ توجہ دینے لگے اور تجارت کشتواڑ سے باہر کے علاقوں سے کرتے رہے۔ کشتواڑ کے لوگوں کاایک حصہ ان کا دوست تھا۔ان سے بھی اور ان کے ذریعے دوسروں سے تجارت کرتے رہے ۔ آج پنج ساسی تند اور پلماڑ مـیں آباد ہیں ۔صدیـاں گذرنے کے باوجود اور مقامـی آبادی سے رشتہ ناطہ کرنے کے باوصف ان کا مخصوص رنگ اور ناک نقشہ کہہ رہاہے ۔

ع اپنے اجداد کی مـیراث کے باقی ہیں نشان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب سوم

کشتواٹ: گنائیوں نے موجودہ قصبہ کو آباد کیـا تھا ۔ راج ترنگنی مـیں جب بھی ذکر آیـا ہے ۔ کشتواٹ نام دیـاگیـا ہے ۔ہچی سن نے اس کا مطلب باغِ دشت بتایـا ہے اور اسے سنسکرت کامرکب قرار دیـاہے جو بجا ہے ۔ تاریخ بہارستان شاہی مـیں جو چک عہد کی تاریخ ہے کشتواڑکو کاٹھوار کہاگیـا ہے ۔ کشتواڑ کے معانی بھی مختلف بیـان کئے گئے ہیں ۔ بقول سید نجم الدین مؤلفّ تاریخ کشتواڑ ، کشٹہ خوبانی کے چھلکے کو کہتے ہیں اور واڑ جگہ کو ۔دوسرے معنی ہیں دُکھ کی جگہ ۔ یہی معنی زیـادہ مستعمل ہیں۔
؂
کشٹ رنج آمدبہ ہندی جائے وار
جائے رنج آمد بمعنے کشٹوار
ہرکہ ساکن مے شود رر کشتوار
کردباید ایں دوچیزش اختیـار
روزداردنفس رادرسوزِ جوع
شب ز سرما با پدش ترک ہجوع
یعنی ہندی مـیں کشٹ کے معنی رنج ہیں اور دار ،جگہ کو کہتے ہیں ۔اس لئے کشتواڑ کے معنی ہوئے دُکھ کی جگہ ۔جوکوئی کشتواڑ مـیں رہ جاتا ہے وہ دوباتیں اختیـار کرتاہے ۔ دن کے وقت بھوک کی آگ مـیں جلتا ہے اور رات کو سردی اُسے سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اسی مفہوم کو ایسے بھی بیـان کیـاگیـا ہے۔ ؂ 
کشتواڑ ، کشٹ کا بھانڈا دن کو بھوکا رات کو ٹھانڈا
جوکوئی آئے ،جب وہ جائے وہ ہے گوڑ گاؤں کا جھانڈا۔اج ترنگنی کا مترجم سٹائن جلد دو م کے صفحہ ۴۳۱ پر لکھتا ہے ۔
’’( کشمـیر) کے جنوب مشرق مـیں سب سے پہلے کشتواٹ کی وادی ہے، موجودہ کشتواڑ جو چناب بالا پر واقع ہے اسے کلہن نے راجہ کلش کے عہد حکومت مـیں ایک جداگانہ پہاڑی ریـاست کے طور پر بیـان کیـا ہے ۔اس کے راجہ جو اورنگ زیب کے زمانہ تک ہندو تھے ۔ عملی طور پر خود مختیـار رہے جب تک ان کی مملکت کو مہاراجہ گلاب سنگھ نے فتح نہیں کرلیـا۔‘‘
تاریخ حسن کے جلد اول کے صفحہ ۲۴۳ پر یہ عبارت کشتواڑ کے بارہ مـیں درج ہے ۔
’’کشتواڑ ایک درہ کے درمـیان ہے ۔ کشمـیر سے جنوب کی طرف مڑوہ کے راستے ۱۲۰ مـیل کی مسافت پر ہے ۔سطح سمندر سے اس کی بلندی ۵۴۵۰ فٹ ہے ۔ وہاں کی آب وہوا اچھی ہے ۔وہاں کے درخت اور پھل مرغوب ہیں ۔ برف قلیل پڑتی ہے ۔فوراً پگھل جاتی ہے ۔ وہاں کے اصلی باشندے ٹھکر اور گدی قوم سے ہیں ۔اُس جگہ بہت سے کشمـیری بھی شال بافی کاکام کرتے ہیں ۔اس سے پہلے وہاں کی عورتیں سحر اور جادوگری مـیں مشہور تھیں ۔انہیں’’ڈین‘‘ کہتے تھے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ نے ان کا مناسب تدارک کیـا اور ان کا عمل معدوم ہوگیـا ۔اُس جگہ کے راجہ راجپوت قوم سے تھے اور خودمختیـارانہ حکومت کرتے تھے ۔۹۰۰ ؁ ہجری مـیں سید شاہ فرید ؒ نے جو روشن دل درویش تھے ۔راج�ۂ کشتواڑ کو مسلمان کرکے مرید بنالیـا۔اور عالمگیر کے عہد مـیں وہ راجہ سعادت یـار خاں کے لقب سے ملقب ہوا۔آخری راجہ تیغ سنگھ جو سیف خان کے نام سے بھی مشہور تھا وہاں کی حکومت کی مسند پر بیٹھا۔وزیر لکھپت رائے جو راجہ کامقرب اور خاص الخاص محرم تھاکسی وجہ سے اُس سے ناراض ہوگیـا۔مہاراجہ گلاب سنگھ کو تسخیر کشتواڑ کی ترغیب و تحریص دی ۔حتےٰ کہ مہاراجہ نے ۱۸۷۷ ؁ بکرمـی مـیں اس کی تسخیر کے لئے فوجِ جرار متعین کی ۔وہاں کے راجہ نے تاب مقابلہ نہ پاکر لاہور کی طرف فرار اختیـار کیـا اور مہاراجہ گلاب سنگھ نے علاقۂ کشتواڑ اور بھدرواہ پر قبضہ و اقتدار حاصل کیـا۔‘‘
مندرجہ بالا بیـان مـیں شالبافی کاذکر کیـاگیـا ہے ۔اس بارہ مـیں ایک انگریز سیـاح جی ٹی وائن(G.T.Vigne) کابیـان دلچسپی سے خالی نہ رہے گا۔ جس نے ۱۸۳۹ ؁ء مـیں یعنی راجہ تیغ سنگھ کی حکومت کے خاتمہ کے صرف انیس ۱۹ سال بعد اس خطہ کی سیـاحت کی تھی ۔وہ اپنے سفر نامہ کے صفحہ ۲۰۵ پر لکھتاہے ۔
’’اب قصبہ مـیں سو کے قریب چھوٹے گھر یـاجھونپڑے ہیں ۔ان کی چھتیں اس طرح کی نہیں جس طرح کشمـیر مـیں ہوتی ہیں بلکہ چوڑی اور عام طور پر ایک منزلہ ۔ان کے صحنوں مـیں مـیوہ دار درخت لگے ہوئے ہیں ۔بازار مـیں پندرہ سے بیس تک دوکانیں شال تیـار کرنے کی ہیں۔یہاں موٹے کمبل بھی تیـار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دریـائے چناب ، کشمـیر جاتے ہوئے بڑا گہرا دکھائی دیتا ہے ۔اس پر جھُولا پل ہے جو صرف ۲۵ گز لمباہے ۔
پُرانے زمانے مـیں جب راجوں کی حکومت تھی ۔ کشتواڑ ہر لحاظ سے خود کفیل تھا ۔شالبافی کی کھڈیوں کا ہونا تعجب خیز نہیں ہے کیونکہ یہ صنعت بسوہلی اور بھدرواہ مـیں بھی پائی جاتی تھی ۔ رفتہ رفتہ قدردان اور گاہک نہ ملنے پر اور کشمـیر کے مقابلہ مـیں سستے نہ ہونے کے سبب شالوں کا کاروبار بند ہوگیـا اور ان کی جگہ باریک، نفیس اور دلکش کمبلوں کی صنعت نے لے لی ۔رہا ڈینوں کا معاملہ وہ عہدِ جہالت کی یـاد گار ہے اور خود شکسپئیر کے عہد مـیں انگلستان بھی اس بیماری کاشکار تھا ۔اس کا ڈرامہ ’’ تین ڈینیں اور بادشاہ لایر‘‘ مشہور ہے ۔ عام تعلیم اور نور تہذیب پھیلنے کے سبب اب کشتواڑ مـیں بھی کالے جادو کے اثرات بڑی حد تک کم ہوچکے ہیں ۔ ایک تحقیق کی رو سے کشتواڑ کی سطح سمندر سے بلندی ۵۳۰۰ فٹ ہے ۔
کشتواڑ کاطولِ بلد شری ۴۶ء۷۵ درجہ ہے ۔اور عرض بلد۱۸ء۳۳ درجے ہے ۔مجموعی حیثیت مـیں کشتواڑ کی آبو ہوا سرد ہے ۔ مون سون ہوائیں یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنی نمـی بڑی حد تک کھو بیٹھتی ہیں ۔دوسرے سطح مرتفع کے ساتھ جانب شمال کوئی اونچی پہاڑی نہیں ۔اس لئے ہوائیں آکر اوپر سے گذر جاتی ہیں ۔ بارش اسی وقت برستی ہے جبکہ وہ عالمگیر ہو ۔ مقامـی بارش بہت کم ہوتی ہے ۔پیداوار مـیں بیشتر مکی پھر جو اور گندم ،دالیں ،کودرا ، کنگنی وغیرہ شامل ہیں ۔چاول بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔بیشتر علاقہ بارانی ہے ۔کشتواڑی اقتصادی لحاظ سے غریب ہیں کیونکہ کاشتکاری اور جنگلاتی فرموں مـیں چرائی ،ڈھلائی اور بہائی(مہان) کے علاوہ کوئی قابل ذکر صنعت نہیں ہے ۔ ویسے حسبِ ضرورت دیہاتی اپنا موٹا چھوٹا کپڑا خود سی لیتے ہیں ۔ کمبل کشتواڑ اور پاڈر مـیں اعلےٰ درجے کے بنتے ہیں ۔ کشتواڑمـیں مختلف فرقوں کے مابین بھائی چارہ ، باہمـی احترام او ردوستی قائم ہے ۔غریبی کے باوجود محبت اور اتفاق فراواں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب چہارم

راجگان کی آمد
کشتواڑ مـیں جب ایک طرف راتھر اور گنائی فرقوں کا گٹھ جوڑتھااور دوسری طرف پنج ساسی مقابلے پر ڈٹے ہوئے تھے اور کشتواڑ ملکی اور غیر ملکی کے سوال پر بٹا ہواتھا ۔ کوئی طاقتور مرکزی حکومت نہ تھی ۔ہر علاقے کا طاقتور خاندان یـا شخص وہاں کا حکمران تھا۔حتےٰ کہ کشتواڑہ کابھی ایک علاحدہ راجہ تھا ۔ ایسے طوائف الملوکی کے عالم مـیں جنوب کی طرف سے ایک قافلہ آیـا جوکہیں سے امرناتھ جانے کے لئے آیـاتھااور کاندنی کے مقام پر سفر کی تھکاوٹ دور کررہاتھا۔کاہن پال: مسافروں کے اس قافلے مـیں کاہن پال نام کاشخص بھی تھا جو دراصل مـیرِ کارواں تھا ۔اس کے ساتھ جنگجو اور بہادر جیـالوں کی مٹھی بھر تعداد ، چند براہمن اور چند بروالے ہریجن تھے ۔ اگرچہ مشہور یہی تھا کہ یـاتریوں کی یہ جماعت امرناتھ کے پوتر تیرتھ کے درشن کے لئے جارہی تھی لیکن یہ فقط ایک چال تھی تاکہ کشتواڑ کے لوگ قبل از وقت خبردار نہ ہوجائیں ۔راتھر گنائی اور پنج سانسی بیرونی خطرے سے ڈر کر متحدہوکر حملہ آوروں کا مقابلہ نہ کریں ۔ایسامعلوم ہوتاہے کہ کاہن پال نے کشتواڑ کے حالات اچھی طرح دریـافت کرلئے تھے او رحملہ کرکے فتح کرنے کا منصوبہ بناچکاتھا ۔وہ صرف موزون وقت کامنتظر تھا اور کاندنی مـیں ٹھہر کروقت گذار رہاتھا۔بکرما جیت:کاہن پال کے بارہ مـیں کہاجاتا ہے کہ وہ راجہ بکرماجیت کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔مجھے جو نسب نامہ ملا ہے وہ یوں ہے :’’نسب نامہ راجہ ہائے کشتواڑ آمدہ ملک اوجین کہ معروف گوربنگال هست در علاقۂ کوہستال کشتواڑ آمدہ تسخیرحکمران خاندان کو (۱۲۰۰ ؁ء کے قریب ) مسلمانوں نے ملک بدر کردیـا، وہ پنجاب بھاگ گئے اور تیسرے پشت مـیں ستلج کے مشرق مـیں واقع پہاڑیوں مـیں پناہ ڈھونڈنے مـیں کامـیاب ہوگئے ۔تین بھائیوں مـیں سے جن پر خاندان مشتمل تھا ایک نے سکیت کی ، دوسرے نے کھتل کی اور تیسرے نے کشتواڑ راج کی بنیـاد ڈالی۔ کشتواڑ کے سلسلے مـیں بانی سلسلہ کانام سکیت کے نسب نامہ کے ساتھ نہیں ملتا ہے لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیـاگیـاہے کہ خاندان کا یہ دعوے ٰکہ وہ راجگان گوڑ کے جانشین مـیں واضح طور پر کیـاگیـا ہے ۔ یہ غالباً بہت سے وجوہات کی بناپر ہے کہ بنگال مـیں اصل شاخ سے خاندان کی علاحدگی مفروضہ وقت سے بہت عرصہ پہلے ہوئی ۔غالباً آٹھویں اور نویں صدی مـیں۔شیوہ جی درون نے ’’ واقعات کشتواڑ‘‘ مـیں صفحہ ۲۳ پر ہری پال کا بیٹا دیـانک پال اور پھر اس کا بیٹا مانک پال بیـان کیـا ہے ۔ لیکن اس تعلق مـیں حشمت اﷲ خان اور سید نجم الدین نے ایک بات یکساں طور پر بیـان کیـا ہے کہ راجہ کاہنپال گور بنگال سے تعلق رکھتاتھا ۔ چنانچہ حشمت اﷲ خان اپنی تاریخ جموں کے صفحہ ۱۴۰ پر لکھتاہے ۔’’راجگانِ گوڑ بنگال تعلقۂ اوجین مـیں سے ایک سورج بنی، راجہ اسمـی، کاہن پال ،جو مہاراجہ بکر ما جیت کی نسل سے تھا۔۔۔۔ یہ شخص کچھ فوج لیکر اور بقول بعض امرناتھ کی جاترا کے قصد سے اوجین سے روانہ ہوا۔گوڑ بنگال اور اجین: انگریز پادری صاحبان ہچی سن اور دوگل نے پھر بھیی ڈھنگ سے بات کی ہے ، کاہن پال کو راجگان گوڑ بنگال کی نسل سے بیـان کیـا ہے لیکن حشمت اﷲ خان نے جو وزیر وزارت اودھمپور یعنی ڈپٹی کمشنر بھی تھے، بالکل بے سر و پا بات کہی ہے ،یعنی گوربنگال کو جین کاتعلق بیـان کیـا ہے ۔دراصل انہوں نے شیوہ جی درون کی نقل کی ہے اور جغرافیہ کو بھلا دیـا ہے کہ گوڑ اور اجین مـیں زمـین اور آسمان کا فرق ہے ۔ ایک بنگال مـیں ہے تو دوسرا مالوہ مـیں ۔یہ غلطی اس لئے ہوئی کہ کشتواڑ کی تاریخ کا علم بھی دیگر علوم کی طرح براہمنوں کی تحویل مـیں تھا۔اُن مـیں جو لوگ راجہ اوّل کے ساتھ کشتواڑ آئے تھے وہ گوڑ براہمن کہلاتے تھے ۔اور آج بھی ان کی نسل پائی جاتی ہے ۔ان مـیں سے جٹو جو راجہ تیغ سنگھ کاوزیر تھا ، گوڑ یہ براہمن تھا۔یہ گوڑ براہمن ممکن ہے کہ گوڑ سے آئے ہوں ۔ لیکن وہ اجین مـیں آباد تھے جو راجہ کاہنپال او راس کے بزرگوں کا اصلی وطن ہے ۔ براہمن چونکہ گوڑ بنگال سے اپنے آپ کو وابستہ سمجھتے تھے ۔اس لئے بعد مـیں عرصہ دراز کے بعدی نے غلطی سے راجو کوبھی گوڑبنگال کا باشندہ سمجھ لیـاتھا اور تاریخ مـیں لکھدیـاکہ وہ گوڑ بنگال پر گنۂ اوجین سے تعلق رکھتاتھا ۔
اوجین: مالوہ کا مشہور تاریخی شہر ہے اس کے بارہ مـیں آج بھی کشتواڑ کے گوڑیے براہمنوں مـیں مشہور ہے ۔ ؂
اوجین نگری سپرا تیرۃ، ارس پڑس کے گھاتا
کاتیـانی سوتر،متندنی شاکھا، جانکادیوی ماتا
تاریخ ہندوستان مولفۂ مولوی زکاء اﷲ کی جلد پنجم کے صفحہ ۱۰۱۱ پر تحریر ہے ۔
’’اوجین ایک بزرگ شہر ، ساحل سپرا پر ہے ۔ہندوؤں کی بڑی پرستش گاہ ہے۔‘‘
بکرم بھوج ؂
بکرم بھوج دُج تھے بھاری امـیر بڑے بڑے مایـادھاری
تمرناشک مـیں لکھاہے کہ بکرم آٹھ ہوئے ہیں ۔ان مـیں سے بیشتر کے ساتھ افسانے منسوب ہیں اور خود اُن کا وجود بھی افسانوی حیثیت رکھتاہے جس بکرم یـابکرما جیت نے بکرمـی سموات جاری کیـا ہے ، تاریخ مـیں اس کی حیثیت بھی واضح نہیں ہے ،عام طور پر چندر گپت بکرما جیت جس کا عہد حکومت ۴۱۴۔۳۷۵ ؁ء ہے اور جو گپتا خاندان کا نامور حکمران ہوا ہے وہ چند گپت کہاجاتا ہے جس کے نورتنوں مـیں کالیداس بھی شامل تھا۔
آر۔سی ۔موزمدار ،’قدیم ہند‘‘ کے صفحہ ۲۹۸ پر لکھتے ہیں۔ ’’ بکرم سموات اور مہاراجہ بکرما دتیہ کے عہدِ حکومت کا تعین ہندوستان کی تاریخ کے ناقابل حل مسایل سمجھے جانے چاہئیں۔
دراصل بکرما جیت ایک لقب ہے جو تاریخ قدیم کے نامور حکمرانوں نے اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے اختیـار کیـاتھا۔ گپت خاندان مـیں چندر گپت بکرما جیت کے علاوہ اس کا پوتا پوروگپتا ۷۳۔۴۶۷ ؁ء بھی اپنے آپ کو وکرم دت کہلاتاتھا او رایسا اس کے عہد کے سکول سے ظاہر ہے ۔
کاہن پال کا جد: بعض موؤخین نے حکمران کااصلی نام بیـان نہیں کیـا ہے بلکہ اس کا لقب بکرما جیت یـا بکرم دت لکھاہے۔ اور آنے والے مورخوں نے بھی اصل نام دریـافت کرنے کے بجائے لقب ہی لکھنے پر اکتفا کیـاہے ۔ کاہن پال کے جدبکرماجیت کانام بھی معلوم ہوا ہے ۔وہ اجین کا ہرش بکرما دت ہے لیکن اجین کے راجوں کے سلسلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور کاہن پال کا جوممکن عہدِ حکومت ہوسکتاہے ۔اس کا قیـاس کرتے ہوئے یہ بکرما جیت وہی ہے جس کے بیٹے شلادتیہ پرتاپ شیل ۶۰۰۔۵۵۰ ؁ء کو سری نگر شہر کے بانی راجہ پرورسین نے اجین جاکر شکست دی تھی ۔ راج ترنگنی کے مترجم سٹائن اس تعلق مـیں لکھتے ہیں ۔اوجین کے ہرش بکرما دت کو کلہن خود راجہ سلادت پرتاپ شل کا والد بیـان کرتاہے ۔جس کیے بارہ مـیں چینی سیـاح ہیون سانگ کے بیـان سے ہم جانتے ہیں کہ وہ مالوہ کے حکمران کے طورپر۵۰ سال حکومت کرتارہا۔ اس کے باپ بکرمادت کی اصل تاریخ چھٹی صدی کے پہلے نصف حصے سے وابستہ ہوتی ہے ۔‘‘
پروفیسر ایم ، مُلر اپنی تاریخ ہند کے صفحہ ۲۸۹ پر سلادت یـا سلادتیہ کا عہدِ حکومت ۶۰۰۔۵۰۰ تک مقرر کرتے ہیں ۔تواریخ گلدستہ کشمـیر حصہ دوم کے صفحہ ۴۲ پر مرقوم ہے ۔’’ ایک بڑا بکرم ۵۰۰ اور ۶۰۰ ؁ء کے درمـیان مـیں ہوا ہے جس نے ماتر گپت کو کشمـیر بھیجا اور پرورسین نے اس کے بیٹے شیلا دت سے سنگھاسن ۳۳ پتلیوں والا چھین کر کشمـیر مـیں پہنچایـا۔‘‘
تاریخ کشتواڑ مـیں بکرما جیت کے والد کانام گندھرب سین دیـا ہوا ہے ۔ضمـیمہ تواریخ گلدستہ کشمـیر کے حصہ سویم کے صفحہ ۵۸ پر حسب ذیل عبارت درج ہے ۔
نمبر شمار نام فرمان روا ولدیت سال جلوس مقام سلطنت عہد حکومت
۷۱ بکرما جیت والی اوجین گندھرب سین ۳۸۶ ک اوجین ۹۳ سال
۳۱۱۰ بدھشٹری
۴۲ ب
اس سے طاہر ہوتاہے کہ کاہن پال کے بزرگ محض زیبِ داستان کے لئے نہیں بڑھائے گئےتھے بلکہ ان کی کچھ حقیقت بھی ہے۔
پرمار یـا پوار: تاریخ حسن حصہ دوم کے صفحہ ۴۷ پر تحریر ہے :۔
’’مؤرخان ہندمے نگارند کہ راجہ بکرما جیت از قوم پوعار بود ودر اوصافِ حمـیدہ واطوارِ پسندیدہ اوقصص وحکایـات بسیـار درتواریخ ہنود بطور افسانہ مذکور ومشہور است۔‘‘
یعنی ہند کے تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ راجہ بکرما جیت پوا ر قوم کا تھا ۔اس کے اخلاق بہت اچھے تھے ۔اس کے بارہ مـیں ہندوؤں کی تواریخ مـیں بہت سے قصے کہانیـاں مشہور ہیں ۔ پوار کے بارہ مـیں ہند قدیم(Ancient India) کے صفحات ۱۲۔۳۱۱مـیں آر سی موزمدار لکھتے ہیں۔
’’ اُن کے مغرب مـیں مولوہ کے حکمران پر مارتھے ۔ بعد مـیں پرماروں کو پوار راجپوت کہاجانے لگا اور ان کے بارہ مـیں اگنی کل راجپوتوں کی کہانی بیـان کی گئی ۔لیکن پرانے ریکارڈ کے مطابق پرمار حکمران راشٹرکوٹ خاندان سے پیداہوئے ۔اس کاامکان بھی ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ کرشنا راجہ ،پرمار خاندان کا بانی ، پہلے پہل مالوہ کا گورنر ، شہنشاہ (راشٹر کوٹ ) گوبند iiiکی جانب سے مقرر ہوا تھا جبکہ شہنشاہ نے اس صوبہ کو ناگ بھٹ دوم سے فتح کیـاتھا۔
کاہن پال کا عہد: اب دیکھنا یہ ہے کہ کاہن پال صدی مـیں کشتواڑ پر قابض ہوا۔ کاہن پال بکرما جیت کی پانچویں پشت مـیں ہوا ہے ۔اب اگر ہر شخص کی اوسط عمر ۴۰ برس قرار دے دی جائے تو بھی بکرما جیت اور کاہن پال مـیں دو سو برس کا فرق ہونا چاہئیے ۔اس طرح کاہن پال کا زمانہ آٹھویں کااختتام یـا نویں صدی کاآغاز قرارپاتاہے ۔ بکرما جیت ۵۵۰ ؁ء سے قریب اوجین پر حکومت کرتاتھا ۔دو سو برس ملاکر ۷۵۰ ؁ء کاہن پال کا عہد ہوسکتا ہے چونکہ ہر نسل کے لئے صرف ۴۰ سال فرض کئے گئے ہیں ۔اس لئے اوسط بڑھ بھی سکتی ہے بجائے ۷۵۰ ؁ء کے کاہن پال کا دور ۸۰۰ یـا ۸۱۰ ء ہوسکتا  ہے۔
پنڈت دینا ناتھ:جس کی تاریخ کشتواڑ غیر مطبوعہ ہے اور جو مصنف نے بھادون ۹۴۳ ؁بکرمـی مطابق اگست ۱۸۸۵ ؁ء مـیں مکمل کی تھی ۔اس کا ترجمہ ۱۹۱۸ ؁ء مـیں حشمت اﷲ خان نے اپنی تاریخ جموں کے لئے کروایـاتھا ۔ لیکن اس تاریخ مـیں جہاں بہت سے واقعات خلاف قیـاس او رافسانوی رنگ لئے ہوئے ہیں ۔وہاں بعض اچھوتے معاملات پر روشنی بھی پڑتی ہے ۔مثلاً اس دینا ناتھ براہمن ولد شتاولد رام کرشن نے راجاؤں کے بارہ مـیں لکھاہے ۔
’’پہلے اکثر اُن دنوں مـیں اوجین ہی مـیں رہاکرتے تھے اور اوجین ہی سے آکر ادھر آباد ہوگئے۔‘‘
راجہ کاہن پال اوربکرما جیت کے درمـیان دو سو سال کا فاصلہ ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس درمـیانی عرصے کا بڑا حصہ راجاؤں کے خاندان نے اوجین ہی مـیں گذارا جب خانہ جنگی ، باہمـی آویزش اور پھوٹ کے سبب خاندان کاایک حصہ قسمت آزمانے کے لئے پنجاب اور کشمـیر کے پہاڑوں کی طرف نکل پڑا ۔ اوجین سے نکلنے والا راجہ حشمت اﷲ خان نے کاہن پال ہی کو ظاہر کیـا ہے ۔’’ مانک پال کا راج پہلے کاہن پال کو تکالیف و مصائب مـیں مبتلا ہوناپڑا۔ ان سے اپنی جان بچانے کی خاطر کاہن پال کو اپنے باپ دادا کا ملک چھوڑنا پڑا۔‘‘ تاریخ حشمت صفحہ ۱۴۰ کاہن پال کے خاندان مـیں۔
اکتیسواں راجہ رائے سنگھ ۱۵۴۷ ؁ء مـیں کشتواڑ کی گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ کے بعد واقعات سال اور تاریخ و سن کے ساتھ بیـان ہوئے ہیں ۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ کاہن پال ۸۱۰ ؁ء مـیں کشتواڑ پر قابض ہو ا او راس کے بعد کے راجاؤں کو رائے سنگھ کی مسند نشینی تک ۲۴ سال اوسطاً ہر راجہ کو ایـام راجگی کے طور پر تفویض کریں تو کاہن پال کا عہد حکومت ۸۱۰ ؁ء متعین ہوجاتا ہے ۔علاوہ ازیں کشمـیر کے حکمران راجہ کلشدیو ۸۸۔۱۰۸۷ ؁ء نے پہاڑی راجاؤں کاجو دربار منعقد کیـاتھا اور جس مـیں کشتواڑ کا اوتم راجہ بھی شامل ہوا تھا ۔کاہن پال سے کلش دیو تک کے عہد مـیں آٹھ راجے گدی نشین ہوئے تھے اور اس وقت کشتواڑ کا فرنا روا’’اودت راجہ‘‘ تھا جسے اوتم راجہ کہاگیـا ہے ۔اوتم راجہ درون اصل لقب ہے ۔اس لقب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشتواڑ مـیں اور بھی چھوٹے چھوٹے راجہ تھے لیکن کشتواڑ خاص کا راجہ بڑا راجہ تھا اور اُسے ہی کلشدیو کے دربار مـیں شرکت کی دعوت دی گئی تھی او راس طرح ان آٹھ راجاؤں کا عہدِ حکومت اوسطاً ۳۵ سال بنتا ہے۔ جو مناسب ہے ۔بہر حال نویں صد ی مـیں دس بیس سال ادھر یـا اودھر کاہن پال کی درآمد کاعہد مقرر کیـاجاسکتا ہے ۔
کاہن پال کے حملے کے وقت کشتواڑ کی حالت: قبل ازیں بیـان کیـا جا چکاہے کہ کشتواڑ خاص دو حصوں مـیں بٹا ہواتھا ۔ایک طرف راتھر اور گنائی تھے جو تعداد مـیں زیـادہ تھے اور دوسری طرف پنج ساسی تھے جن کے ہاتھ مـیں فوجی قوت تھی اور چونکہ لاٹھی ان کے پاس تھی ۔اس لئے بظاہر کشتواڑ کاکنٹرول ان کے قبضے مـیں تھا ۔ انہیں شکست دینا کشتواڑ کے مالکوں کو شکست دینے کے مترادف تھا ۔اس لئے کاہن پال نے کاندنی مـیں بیٹھ کر صرف پنج ساسیوں سے سیـاسی قوت لینے کا منصوبہ تیـار کیـا ۔کیونکہ کشتواڑ خاص پر قابض ہونے کامطلب ریـاست کشتواڑ کی مملکت پر قبضہ کرنے کے برابر تھا۔
کاہن پال کا منصوبہ: کاہن پال ایک ہوشیـار اور معاملہ فہم حملہ آور کی طرح کاندنی سے کشتواڑ پر کھلم کھلا حملہ نہیں کرسکتاتھا کیونکہ نئے ملک کے جغرافیـائی حالات ، فوجی طاقت او ررعایـا کی راج پرستی کے جذبہ کی پختگی یـا کمزوری سے واقف نہ تھا ۔علاوہ ازیں اس کی اپنی فوجی قوت محدود تھی ۔اگر وہ کمزور نہ ہوتا تو امرناتھ جی کی یـاترا پر جانے کاپروپیگنڈ ا نہ کرتااو رچُھپ کر حملہ کرنے کا منصوبہ نہ بناتا۔
اس نےی پنج ساسی عورت کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ گانٹھ لیـا اور اس نے پنج ساسیوں کے سب حالات معلوم کرلئے۔ راجہ کو بتایـاگیـا کہ پنج ساسی ہر وقت مسلح رہتے ہیں ۔صرف بھاگن کے مہینے کی خاص تاریخ کو وہ چشمہ ھُدری پر جشن منانے اور پوجا پاٹ کرنے کے لئے ہتھیـاروں کے بغیر جمع ہوتے ہیں ۔ کاہن پال خفیہ تیـاریـاں کرتارہا اور مقررہ تاریخ سے پہلے شام کو اندھیرے مـیں کاندنی سے روانہ ہو ا۔شالہ مار سے رات کو دیر سے چلا اور چشمہ ھُدری کے پاس چُھپ کر بیٹھ گیـا ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس وقت ہدری چشمے کے جنوب مـیں خرشوکاجنگل ہوگا اور وہ بھی گھنا جنگل جس کے تاریک سائے مـیں راجہ او راس کے ہمراہی چھپ کر بیٹھے ہوں گے اور پھر اُس رات برف باری بھی ہوئی اس لئے درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ مـیں حملہ آور چھپ گئے ہوں گے ۔اس زمانے مـیں لوگ توہم پرست تھے اس لئے شام کے بعد ہی مکانوں کے دروازے بند کرکے خانہ نشین ہوجاتے تھے او راس سبب سے راجہ اور اس کے ہمراہیوںکی آمد کاکسی کو پتہ نہ چلاہوگا۔
کشتواڑ کی فتح:۔ صبح کے وقت پنج ساسی عورتیں ، مرد ، بچے سب ہی چشمے پر آئے اور بغیر ہتھیـار لگائے باری باری نہانے لگے۔ کاہن پال موقعہ کی تاک مـیں تھا ۔ان سب کے وہاں جمع ہوتے ہی وہ اپنی فوج لیکر پنج ساسیوں پر ٹوٹ پڑا۔ راستے پہلے ہی روک لئے تھے ۔ پنج ساسیوں پر نفسیـاتی اثر بھی تھا ، انہیں روتر اور گنائیوں کے حملے کاخوف بھی دامن گیر رہتاتھا ۔اس لئے وہ بدحواس ہوگئے اور اپنی اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ سب کے سب مارے گئے ۔ماسوائے چند ایک کے جو باہر گئے ہوئے تھے ۔عورتیں او ربچے کچھ مار ے گئے کچھ غلام بنا لئے گئے اور اوجین مـیں جو ستارۂ اقبال ڈوبا تھا وہ چشمہ ھُدری کے قریب پھر جگمگانے لگا ۔ تُند پر قابض ہونے کے بعد کاہن پال نے کشتواڑ اور منڈل کے لوگوں کو اپنا مطیع اور باج گذار بنالیـااور اس طرح کشتواڑ کاپہلا راجہ راجگی کے تخت پر بیٹھا۔
کاہن پال کی فتوحات اور حکمت عملی: ۔ اس نے کشتواڑاور منڈل مـیں اپنی حکومت مضبوط کی ۔ راجگی کاخٰون اس کی رگوں مـیں دوڑ رہاتھا ۔ حکومت کے طور طریقے جانتاتھا ۔مقامـی آبادی بالخصوص راتھر اور گنائیوں سے حُسن سلوک سے پیش آیـا۔وہ لوگ پنج ساسیوں کے ستائے ہوئے تھے ۔ راجہ کی مہربانی اور عنایت سے خوش ہوئے اور اس کے مطیع بن گئے ۔راجہ نے اپنے ساتھیوں کو انعام و اکرام اور جاگیرات سے نوازااور انہیں مقامـی آبادی سے گھل مل جانے اور قرابت داری کرنے کی ہدایت کی ۔جب کاہن پال نے دیکھا کہ کشتواڑ مـیں اس کے قدم مضبوطی سے جم گئے ہیں او راس کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔اس نے اپنی مملکت کی حدود کو وسیع کرنے کی طرف دھیـان دیـا ۔وہ ایک مضبوط فوج لیکر نکلا اور کاندنی سے سی گھٹ کے راستے کونتواڑہ کے راٹھیوں پر حملہ آور ہوا ۔وہاں کے راناؤں نے مقابلہ کیـا ۔لیکن کاہن پال کی چالوں اور زبردست طاقت کے سامنے انھیں جھکنا پڑا اور طوقِ اطاعت گلے مـیں ڈالنا پڑا۔ کونتواڑہ سے ٹھاکرائی جاکر وہاں کے زمـینداروں کو اپنا مطیع بنایـا اور ٹھاکرائی سے اوڈیل کے تمام علاقے پر اپنا پرچم لہراتا ہوا بھنڈار کوٹ کے راستے کشتواڑ واپس آیـا ۔ فتوحات کے سبب راجہ کیجاگیر کے ایک مقام پر اپنے نام پر ایک گاؤں آباد کیـا اور خود بھی وہاں رہنے لگا ۔اُس گاؤں کو آج کل متا کہتے ہیں ۔دوسرے بیٹے دیو سین نے دیکھا کہ وہ کیوں پیچھے رہے ۔چنانچہ وہ کچھ فوج لیکر دچھن اور مڑوہ گیـا اور ان علاقوں پر قابض ہوگیـا ۔اس طرح تینوں بھائی اپنی اپنی جگہ مطمئن ہوکر رہنے لگے اور جس خانہ جنگی کا نمونہ ان کے بزرگ اوجین مـیں دیکھ چکے تھے اس سے بچ گئے ۔دیو سین کے بارے مـیں بھی مشہور ہے کہ ایک بار بھائی سے ملنے مڑواہ سے آیـا ۔یہاں بڑے بھائی مہمان نوازی کالطف اٹھارہاتھا کہ دھندراٹھ اور ہدار مـیں بعض زمـینداروں نے سرکاری کارندوں کے ساتھ کچھ زیـادتی کی ۔دیو سین خود فوج لیکر گیـا اور ان علاقوں کو فتح کرکے اور اپنے بھائی کا جھنڈا لہر ا کر واپس آگیـا ۔ پھر مڑوہ اپنی جاگیر پر چلاگیـا۔مہاسین: گندھرب سین کے بعد اس کا بیٹا مہاسین گدی نشین ہوا ۔ اس کے عہد حکومت مـیں امن و امان رہا۔کشتواڑ خوشحال او رآباد تھا ۔راجہ مہاسین نے عیش وعشرت کی زندگی گذاری اور لمبے عرصے تک حکومت کرنے کے بعد ۸۰ برس کی عمر مـیں عدم کو سُدھارا۔مہاسین کے بعد رام سین ، کام سین ، مدن سین ، برہم سین راجے ہوئے لیکن ان کے دور کاکوئی خاص واقعہ قابل ذکر نہیں ہے ۔ صرف برہم سین بڑاعالم و فاضل اور شاعر تھا ۔ سنسکر ت مـیں مہارت کامل رکھتا تھااور دربار کے علما کو علمـی بحث مـیں عاجز کردیـاکرتاتھا۔اودت دیو: یہ وہی راجہ ہے جسے راجہ کلش دیونے پہاڑی راجاؤں کے ساتھ اپنے دربار مـیں کشمـیر بلایـاتھا اور جس کاذکر راج ترنگنی مـیں اوتم راجہ کے لقب سے کیـاگیـا ہے ۔یہ دربار ۸۸۔۱۰۸۷ ؁ء مـیں منعقد ہواتھا۔اس راجہ کے بعد کشتواڑ کی گدی پر چودہ راجے ایسے بیٹھے جن کے نام کے ساتھ دیو لاحقہ لگاہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجاؤں نے اپنے نام کے ساتھ لاحقے وقت کے فیشن کے طور پر لگالئے تھے ۔ مثلاً کاہن پال سے پہلے چار راجے ایسے ہوئے ہیں جو اپنے نام کے ساتھ پال لاحقہ رکھتے تھے ۔ جیسے ہری پال ،دمانگ پال ، مانک پال وغیرہ ،کاہن پال کے بعد جس قدرے راجے اودت دیو تک گدی نشین ہوئے وہ اپنے نام کے ساتھ سین لکھتے تھے ۔ تیسواں راجہ سنگرام سنگھ ہوا ہے جس نے سب سے پہلے اپنےنام کے ساتھ سنگھ کا لاحقہ چسپان کیـا او راس کے بعد آنے والے تمام راجاؤں نے سنگھ ہی کو اپنے نام کاآخری جزو بنایـا۔راجہ اودت دیو کے بعد پیتادیو یـا پرتھی دیو راجہ ہوا ۔اس کاایک نام پرتھو دیو بھی ہے ۔اس کے عہد مـیں ناگسین او رڈول کے مابین پہاڑ پر(ڈول دھار) ایک دیو ظاہر ہوا ۔جس نے مسافروں کے لئے چلنا دوبھر کردیـاتھا۔ راجہ نے اُسے حکمت عملی سے مروادیـا۔خیـال یہی ہے کہ کوئی ڈاکو یـا جابرشخص ہوگا جو عوام کو لوٹتا ہوگا ۔اس کے بعد گنگا دیو راج گدی پر بیٹھا۔ اس راجہ نے کشتواڑ کے مشرق کی جانب اپنی توجہ مبذول کی ۔اس نے پُلر اور ناگسین کے علاقوں کو فتح کرکے سب سے پہلی بار کشتواڑ کی مرکزی حکومت کے ساتھ انہیں وابستہ کیـا۔گنگا دیو کے بعد یکے بعد دیگر ے گوڑ دیو ، سنگھدیو ، رگھودیو، آنند دیو ، اوتار دیو اور بھاگ دیو نے مسند راجگی کو زینت بخشی لیکن ان کے خاص کارنامے نہیں ہیں ۔اس لئے تاریخ مـیں ان کے صرف نام محفوظ ہیں ۔رائے دیو: اس راجہ کا وزیر منگل رائے تھا ۔اس راجہ نے پاڈر پر حملہ کیـا او رجاڑ کدیل تک کا علاقہ فتح کر لیـا ۔ راجہ پاڈر سے چوبیس ہزار روپے نقب اور ہزاروں کی تعداد مـیں بھیڑ بکری ، چنور (سُراگائے) اور گائیں لایـا۔ پاڈر پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ اس سے پہلے مہا سین کے ایک بیٹے نے پیـاس تک کا علاقہ پاڈر کے راناؤں سے چھین کر ریـاست کشتواڑ مـیں شامل کرلیـاتھا ۔راجہ رائے دیو بڑا لالچی اور جابر حکمران تھا ۔اس کی زبان درازی اور ستمگری سے تنگ آکر راتھر، گنائی اور پنج ساسی جن کی اب کچھ تعداد ہوگئی تھی ۔آپس مـیں مل گئے تینوں فرقوں نے ملکر سازش کی اور ایک اندھیری رات مـیں بغاوت کردی ۔ راجہ رائے دیو بڑی مشکل سے اپنی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کی جان بچا کر بھاگا۔ بھنڈار کوٹ اور سی گھٹ پر باغیوں نے پہلے ہی پہرے بٹھارکھے تھے تاکہ جونہی راجہ اُس راہ سے گذرنے لگے تو اُسے پکڑ کر کشتواڑ لایـاجائے ۔راجہ کو اس سکیم کا بھی علم ہوگیـاتھا ۔اس لئے شمال اور جنوب کی طرگ بھاگنے کے بجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


. سپرا ۵۰۰




[سپرا ۵۰۰]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Sat, 26 Jan 2019 03:25:00 +0000



سپرا ۵۰۰

تاریخ احمدیت ۔ جلد 14 ۔ یونی کوڈ | فیضان ختم نبوت [ Faizan ...

عدالتی کاروائی کے دوران حضرت مصلح موعود کے سفر ہائے لاہور
سیدنا حضرت مصلح موعود نے عدالتی کاروائی کے دوران پانچ بار لاہور کا سفر اختیـار فرمایـا جس مـیں سے ایک سفر تو وہ تھا جو حضور نے اپنے عدالتی بیـان کے لئے کیـا۔ اور جو ۱۲ که تا ۱۷ جنوری ۱۹۵۴ء مـیں ہوا۔ دیگر سفر مندرجہ ذیل ایـام مـیں تھے:۔
۱۔ ۲۰ نومبر که تا ۲۶ نومبر ۱۹۵۳ء
۲۔ ۲۹ جنوری که تا ۴ فروی ۱۹۵۴ء
۳۔ ۱۵ فروری که تا ۲۳ فروری ۱۹۵۴ء
۴۔ ۲۶ فروری که تا یکممارچ ۱۹۵۴ء~ف۱۴~
یہ جملہ سفر حضور نے محض اس لئے اختیـار فرمائے کہ وکلائے احمدیت اور علماء سلسلہ کو ضروری ہدایـات سے نوازیں اور ہر ضروری مرحلے پر براہ راست راہنمائی اور نگرانی فرماتے رہیں۔ جس سے حضور کی کاروائی سے متعلق ذاتی دلچسپی ظاہر ہے۔
حوالہ جات
~ف۱~
حال فیصل آباد
~ف۲~
صاف صاف اور دیـانتدارانہ
~ف۳~
غیر مسلح
‏h1] ga~[tف۴~
اصطلاحات
~ف۵~
عقل سے ہم آہنگ
~ف۶~
انتظار کی پریشانی
~ف۷~
حال ساہیوال
~ف۸~
سکھ مذہب کے محقق` سابق مـینجر روزنامہ >الفضل< ربوہ۔ گیـانی صاحب موصوف ان دنوں مکان نمبر ۴۵۳ نزد اڈہ قلعہ مـیہاں منگھ گوجرانوالہ مـیں بطور مبلغ مقیم تھے۔
~ف۹~
حال فیصل آباد
~ف۱۰~
اس جگہ اصل خط مـیں >مقامات< لکھا ہے جو سہو قلم ہی ہوسکتا ہے۔
~ف۱۱~
یہ لفظ اصل مکتوب مـیں نہیں ہیں۔ بغرض وضاحت اضافہ کئے گئے ہیں )ناقل(
~ف۱۲~
بعدازاں مدیر روزنامہ >الفضل< ربوہ
~ف۱۳~
معقول
~ف۱۴~
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ بابت سال ۵۴۔ ۱۹۵۳ء صفحہ ۸
‏tav.14.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
تحقیقاتی عدالت مـیں صدر انجمن احمدیہ کا تبصرے
چوتھا باب
تحقیقاتی عدالت مـیں صدر انجمن احمدیہ سے داخل کردہ تبصرے
تحقیقاتی عدالت مـیں صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے تحریری بیـان پر تبصرہ۔~ف۱~تحقیقاتی عدالت کے دس۱۰ سوالات کے جوابات اور مولانا مودودی صاحب کے جوابات پر تبصرہ` نیز مجلس احرار کے تحریری بیـان پر تبصرہ بھی شامل ریکارڈ کیـا گیـا۔~ف۲~یہ ہر سہ۳ تبصرے مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تحریر فرمائے تھے۔ جن کو بعد مـیں >الشرکہ الاسلامـیہ لمـیٹڈ ربوہ< نے شائع کر دیـا۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بیـان پر تبصرہ ایسا شاندار اور مدلل و مسکت تھا کہ غیر احمدی حلقوں مـیں بھی اس کو بہت پسند کیـا گیـا۔ جس کے ثبوت مـیں بطور نمونہ ایک خط درج ذیل کیـا جاتا ہے جو سید محمد احمد صاحب جیلانی نے حضرت مصلح موعود کی خدمت مـیں لاہور سے ۲۴/ اکتوبر ۱۹۵۳ء کو لکھا تھا۔
مکرمـی و محترمـی جناب مـیاں صاحب
السلام علیکم و رحمہ اللہ
بعد ادائے آداب کے عرض ہے کہ ویسے تو مـیں بہت عرصہ سے آپ کی جماعت سے واقف ہوں لیکن عملی کوئی وابستگی نہیں ہے گو مـیرا خیـال ہمـیشہ آپ کی جماعت کے لوگوں کے متعلق اچھا ہی رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مـیں نے ان کو اچھا ہی پایـا ہے لیکن یہ راز مری سمجھ مـیں نہیں آیـا کہ ایسا کیوں ہے اور نہ ہی مـیں نے پورے طور سے سمجھنے کی کوشش کی ایک سرسری خیـال مـیں تھا کہ یہ لوگ اچھے ہیں۔
پچھلے فسادات مـیں جو کچھ پنجاب مـیں ہوا اس سے مـیں خوب واقف ہوں اور غالباً پنجاب کے ہر طبقہ کو اس کا علم ہے جو کچھ بھی ہو اس کے متعلق ذکر کرنا مـیں مناسب نہیں سمجھتا لیکن مـیں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ہونے مـیں خداتعالیٰ کا کچھ راز ہے اور اس راز کا افشا ہونا بھی ضروری تھا جو اس رنگ مـیں ہوا۔ اس کے بعد مـیں نے یہ محسوس کیـا کہ ہر طبقہ کے ذی علم اور ذی عقل بمع علمائے کرام دنیـا کے سامنے اپنی اپنی قابلیت کے ساتھ نمایـاں ہونے لگے اور بعض تو اس حد تک نمایـاں ہوئے کہ ان کا اندرونی بھانڈا پھوٹ گیـا۔ مـیں تحقیقاتی کمـیشن کی تمام رپورٹوں کا بغور مطالعہ کر رہا ہوں اور اس کے ایک ایک لفظ کو پڑھتا ہوں ایک خاص قسم کی دلچسپی سی پیدا ہوگئی ہے۔ روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھ کر دوسرے دن کے لئے پھر بے تاب ہو جاتا ہوں اس دوران مـیں مجھ پر ہر ایک کی پوزیشن اپنی عقل کے بموجب واضح ہوگئی اور مـیں نے تعصب کو بالائے طاق رکھ کر یہ ضرور سمجھ لیـا ہے کہ حق پرہے۔ یہ مـیرے لئے ایک عجوبہ بات ہوئی ہے اگر تحقیقاتی کمـیشن نہ ہوتا تو شاید مـیری معلومات مـیں اتنا اضافہ نہ ہوتا اور نہ ہی مـیں بہت سی باتوں کو سمجھ سکتا تھا۔
مـیں نے مولانا مودودی صاحب کا بیـان اخباروں مـیں پڑھا جو کہ انہوں نے عدالت مـیں داخل کیـا ہے اور اس کے پڑھنے کے بعد مـیں نے محسوس کیـا کہ مـین اس سے متاثر ہوا ہوں لیکن کچھ دن کے وقفہ کے بعد اخبار ملت مـیں مـیری نظر سے وہ تبصرہ بھی گزرا جو کہ احمدیہ جماعت کی طرف سے عدالت مـیں داخل ہوا ہے۔ ابھی اس سلسلہ کی قسطیں باقی ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ بیـان فرمایـا ہے وہ اس کے سامنے ماند ہے اور اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا ہے مـیں نے جو تبصرہ پڑھا ہے اس مـیں دلائل اور براہین سے باتیں کی گئی ہیں نہ کہ یوں ہی۔ اس تبصرے کے پڑھنے کے بعد مـیرے مطالعہ مـیں بے انتہا اضافہ ہوا۔ بہت سے شکوک رفع ہوئے اور اب مـیں کم از کم اس مقام پر نہ رہا۔ جس پر مـیں تحقیقات سے پہلے تھا۔ اس کے علاوہ مـیں نے آپ کے عقیدہ کے متعلق سوالات کے جوابات بھی غور سے پڑھے ہیں جن سے مرے بہت سے شکوک رفع ہوئے ہیں۔ مـیں یہ سمجھتا ہوں اور انصاف کا بھی یہ ہی تقاضا ہے کہ جس طرح سے اسلامـی جماعت کے لوگ مولانا مودودی صاحب کے بیـان کو پمفلٹ کی شکل مـیں تقسیم کر رہے ہیں اس طرح مری خواہش بھی یہ ہے کہ آپ کی جماعت کی طرف سے تبصرے کو پمفلٹ کی شکل مـیں تقسیم کیـا جاوے۔ مـیرا اس لکھنے کا منشاء صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ راستی اور امن کی طرف آجائیں اوران کو کم از کم یہ پتہ چل جائے کہ جس جماعت کے خلاف یہ ہنگامہ برپا ہوا تھا وہ کم از کم امن اور صلح پسند ہے اور اس کے عقائد کم از کم` کم از کم اتنے اشتعال انگیزی سے بھرے ہوئے نہیں ہیں جتنا ان کو سمجھا جا رہا ہے مجھے امـید ہے کہ آپ ضرور اس سلسلہ مـیں بہتر سے بہتر جدوجہد فرمائیں گے اور جس طرح مرا دل و دماغ صاف ہوگیـا۔
مـیں سمجھتا ہوں جو لوگ کہ فطرت صحیحہ کے مالک ہیں وہ بھی حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے۔ مـیں ایک غیر احمد ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں اور آپ کے عقیدے کے مطابق مـیں آپ سے دعا کے لئے جر¶ات کر رہا ہوں کہ اللہ تالیٰ کے نزدیک اگر آپ کی جماعت کا قدم سچائی پر ہے تو وہ مجھ پر بھی آشکار کر دے۔ فقط۔ والسلام۔ طالب دعا
)سید محمد احمد جیلانی۔ سابقہ انسپکٹر سنٹرل ایکسائز و لینڈٹم مکان نمبر۵ گلی نمبر۱۰ نہرو پارک۔ سنت نگر۔ لاہور(
کتاب >تحقیقاتی عدالت کے دس سوالوں کا جواب اور مولانا مودودی کے جوابات پر تبصرہ< کے مندرجات کا اندازہ کرنے کے لئے بطور چند عنوانات ملاحظہ ہوں:
ظہور مسیحؑ و مہدیؑ کا ذکر قرآن اور حدیث مـیں` ظہور مہدیؑ کے متعلق احادیث` وفات مسیحؑ توف کے معنے` اجماع کی حقیقت` مسلہ بروز` قائد امتہوگا؟ دجال کے خانہ کعبہ کے طواف سے مراد` مسیح موعودؑ کے نبی ہونے کا ثبوت` آنحضرت~صل۱~ کو خاتم النبیین ماننا کیوں ضروری ہے؟ تفسیر >خاتم النبیین<۔ خاتم النبیین< اور احادیث` قران مجید کی رو سے ڈائریکٹ ایکشن ناجائز ہے` احادیث کی رو سے بھی ڈائریکٹ` ایکشن جائز نہیں۔
ان سطور سے واضح ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے نتیجہ مـیں جماعت احمدیہ کے لٹریچر مـیں کتنا شاندار اضافہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ قیـام پاکستان کے بعد اگرچہ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر مـیں کتنا شاندار اضافہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ قیـام پاکستان کے بعد اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے متعدد کتابیں اور رسائل فسادات پنجاب کے زمانہ تک اشاعت پذیر ہو چکے تھے مگر تحقیقاتی عدالت کی کارروائی کے نتیجہ مـیں چند ماہ کے اندر اندر جس قدر گیر معمولی محنت اور تحقیق و تفحص کے ساتھ بنیـادی اور اہم مضامـین پر مشتمل مبسوط لٹریچر مرتب اور شائع کیـا گیـا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
تفسیر قرآن او دیباچہ )انگریزی( کا فاضل جج صاحبان کو تحفہ
حضرت صاحبزادہ` مرزا بشیر احمد صاحب نے ۲۱ فتح ۱۳۳۲ ہش ۲۱/ دسمبر ۱۹۵۳ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت بابرت مـیں حسب ذیل مکتوب لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
سیدنا!
السلالم علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
شیخ بشیر احمد صاحب کی تجویز ہے کہ جماعت کی خدمات دینی کا اثر پیدا کرنے کے لئے تفسیر قرآن مجید انگریزی کی دو جلدیں اور دیباچہ قرآن مجید انگریزی مطبوعہ امریکہ کے دو نسخے جج صاحبان کو تحفہ پیش کر دئیے جائیں اور ترجمہ قرآن مجید بزبان سواحیلی اور ترجمہ بزبان ڈچ دکھا دیـا جائے۔
سو حضور اس کی اجازت فرماویں۔ نیز ڈچ ترجمہ جو حضور کے پاس ہے وہ چند دن کے لئے عنایت فرماویں۔
خاکسار مرزا بشیر احمد ۵۳/۱۲/۱۲
سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے یہ الفاظ لکھے۔
>مناسب ہوگا` مرے دل مـیں خود بھی یہ خیـال آیـا تھا<۔
چنانچہ حضرت امام ہمام کی اجازت سے جماعت احمدیہ کی طرف سے تفسیر قرآن اور دیباچہ قرآن )انگریزی( کا روحانی تحفہ فاضل جج صاحبان کو پیش کر دیـا گیـا اور سواحیلی اور ڈچ تراجم قرآن دکھا دئیے گئے۔
جناب مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر >المنبر< نے اس اہم واقعہ کا ذکر نہایت اثر انگیز الفاظ مـیں کیـا ہے لکھتے ہیں:
)الف( >پہلا ضابطئہ قیـام و ارتقاء یہ ہے و اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض۔ ہر وہ چیز جو انسانیت کے لئے نفع رساں ہو اسے زمـین پر قیـام و بقاء عطا ہوتا ہے۔۔۔۔
قادیـانیت مـیں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان مـیں اولین اہمـیت اس جدوجہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک مـیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں مـیں پیش کرتے ہیں۔ تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک مـیں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن اور سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں<۔
>غیر مسلم ممالک مـیں قرآنی تراجم اور اسلامـی تبلیغ کا کام صرف اسی اصول >نفع رسانی< کی وجہ سے قادیـانیت کے بقا اور وجود کا باعث ہی نہیں ہے۔ ظاہری حیثیت سے بھی اس کی وجہ سے قادیـانیوں کی ساکھ قائم ہے۔ ایک عبرت انگیز واقعہ خود ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوا۔ ۱۹۵۴ء مـیں جب جسٹس منیر انکوائری کورٹ مـین علما ور اسلامـی مسائل سے دل بہلا رہے تھے اور تمام مسلم جماعتیں قادیـانیوں کو غیر مسلم ثابت کرنے کی جدوجہد مـیں مصروف تھیں قادیـانی عین انہی دنوں ڈچ اور بعض دوسری غیر ملکی زبانوں مـیں ترجمئہ قرآن کو مکمل کر چکے تھے اور انہوں نے انڈونیشیـا کے صدر حکومت کے علاوہ گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد اور جسٹس منیر کی خدمت مـیں یہ تراجم پیش کئے گویـا وہ بزبان حال و قال یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ہیں وہ غیر مسلم اور خارج از ملت اسلامـیہ جماعت جو اس وقت جبکہ ہمـیں آپ لوگ >کافر< قرار دینے کے لئے پر تول رہے ہیں` ہم غیر مسلموں کے سامنے قرآن ان کی مادری زبان مـیں پیش کر رہے ہیں<۔~ف۳~
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا اہم بیـان
تحقیقاتی عدالت مـیں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا بیـان ۱۹۔ جنوری ۱۹۵۴ء کو ہوا جس سے ملک مـیں جماعت احمدیہ اور آپ کی ذات کی نسبت پھیلائی ہوئی متعدد غلط فہمـیوں کا ازالہ ہوا۔ اور نہایت برجستہ` پرحکمت اور قانونی زبان مـیں پہلی بار عدالت اور عوام کے سامنے بعض بنیـادی ملکی اور دینی مسائل صحیح صورت مـیں سامنے آئے۔ ذیل مـیں حضرت چوہدری صاحب کے اس فاضلانہ بیـان کے ضروری حصے اخبار >ملت< سے درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ >لاہور۔ ۱۹۔ جنوری پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خاں نے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت مـیں کہا ہے کہ قادیـانیوں کے خلاف پوری تحریک کے دوران مـیں مـیں نے اس وقت کے وزیراعظم سے یہ بات مکمل طور پر واضح کر دی تھی کہ مـیں ایک لمحہ کا نوٹس ملنے پر بھی استعفیٰ دینے کے لئے تیـار ہوں۔ مجلس احرار کی جانب سے جرح کے دوران مـیں چوہدری ظفر اللہ خاں نے کہا کہ مـیں نے یہ پیشکش اس لئے کی تھی کہ اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اگر یہ سمجھیں کہ مـیں ایک بوجھ ہوں یـای اور وجہ سے مجھے مستعفی ہو جانا اور حکومت کو چھوڑ دینا چاہئے تو مـیں ایک لمحے کے نوٹس پر بھی علیحدہ ہونے کے لئے تیـار تھا۔
چوہدری ظفر اللہ خان کو جماعت اسلامـی نے گواہی کے لئے نامزد کیـا تھا انہوں نے کہا کہ متعدد لوگوں نے تحریک کے زمانے مـیں مجھے یہ رائے دی تھی کہ مجھے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ملک کے باہر سے یہ تجویز نہیں موصول ہوئی تھی کہ مـیں چلا آئوں۔۔۔۔ چودھری محمد ظفر اللہ خاں سے سب سے پہلے جماعت اسلامـی کی جانب سے چودھری نذیر احمد خان نے سوالات کئے۔
انہوں نے سوال کیـا کہ وہ پاکستانی کابینہ کے علم مـیں یہ سوال لائے ہیں کہ پاکستان مـیں ان کے فرقے سے طرح کا سلوک کیـا جا رہا ہے اور اس سوال کا جواب اگر اثبات مـیں ہے تو یہ بتلائیے کہ آپ یہ بات کابینہ کے علم مـیں کب لائے تھے؟
چودھری ظفر اللہ خان نے جواب دیـا کہ جس وقت تحریک جاری تھی ممکن ہے مـیں نے اس سوال کے بعض پہلوئوں کا کابینہ مـیں ذکر کیـا ہو۔ لیکن مـیں نے کابینہ سے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ اس پر ایک معینہ معاملہ کی حیثیت سے بحث کرے۔
سوال:کیـا اپ کابینہ کےی اجلاس مـیں مرحوم لیـاقت علی خاں کے علم مـیں یہ بات لائے تھے کہ آپ کے فرقے سے جس طرح کا سلوک کیـا جا رہا ہے اس کے خلاف آپ کو بعض شکایتیں ہیں؟
جواب:مجھے کوئی بات قطعی طور پر یـاد نہیں ہے۔
سوال:خواجہ ناظم الدین نے کہا ہے کہ ایسا مرحوم قائد ملت کے زمانے مـیں ہوا تھا کہ آپ کابینہ کے علم مـیں یہ بات لائے تھے کہ تین احمدیوں کو قتل کر دیـا گیـا ہے کیـا یہ درست ہے؟
جواب:مجھے یـاد ہے کہی معاملے کے سلسلے مـیں مـیں نے اس معاملہ کا زکر موجودہ گورنر جنرل سے کیـا تھا جو اس زمانے مـیں وزیر مالیـات تھے۔ مـیرا خیـال ہے کہ اس وقت ہم ملک سے باہر تھے۔ اپنی واپسی پر انہوں نے اس معاملہ کا ذکر اس وقت کے وزیراعظم سے کیـا تھا اور ممکن ہے کہ اس کے پیش نظر کوئی تحقیقات کی گئی ہو۔
سوال:کیـا آپ کے علم مـیں پاکستانی کابینہ نے ۷ یـا ۸/اگست ۱۹۵۳ء کو یـا اس کے لگ بھگ تحریک پر بحث کی تھی؟
جواب:مـیں اگر کراچی مـیں ہوتا اور مجھے کابینہ کے اجلاس کی اطلاع نہ دی تو کابینہ کا کوئی باقاعدہ اجلاس نہیں ہو سکتا تھا لیکن مـیرا خیـال ہے کہ بعض مواقع پر خواجہ ناظم الدین نے اپنے بعض رفقاء کو تحریک کے سلسلہ مـیں مشورے کے لئے بلایـا تھا۔ ان مواقع پر مجھے نہیں بلایـا گیـا۔۔۔۔
سوال:جہانگیر پارک مـیں یہ تقریر کرنے سے پہلے کیـا اپ نے خواجہ ناظم الدین سے کوئی گفتگو کی تھی؟
جواب:خواجہ صاحب نے مج سے اس بات کا ذکر کیـا تھا کہ متعدد لوگوں نے اس جلسے مـیں مـیری شرکت پر اعتراض کیـا تھا۔
سوال:کیـا انہوں نے آپ کی متوقع تقریر کے متعلق کچھ کہا تھا؟
جواب:انہوں نے تجویز کیـا تھا کہ مـیں اگر جلسے )مـیں( تقریر نہ کروں تو بہتر ہوگا۔
سوال:آپ نے کیـا کہا؟
جواب:مـیں نے کہا کہ اب مـیرا تقریر نہ کرنا مـیرے لئے الجھن کا باعث ہوگا کیونکہ مقرر کی حیثیت سے مـیرے نام کا پہلے ہی اعلان کیـا جا چکا ہے لیکن مـیں اگر اس پوزیشن مـیں نہ ہوتا تو ضرور ان کی تجویز منظور کرلیتا اور وہاں نہ جاتا۔ عدالت کے ایک سوال پر گواہ نے کہا کہ وہ ایک جلسہ عام تھا۔ مسٹر نذیر احمد کے سوالات دوبارہ شروع ہونے پر انہوں نے کہا کہ یہ پہلا جلسہ عام نہیں تھا جو ان کے فرقے نے کیـا تھا۔ ربوہ اور دوسرے مقامات پر متعدد عام جلسے ہوئے تھے۔۔۔۔
سوال:خواجہ ناظم الدین نے عدالت مـیں اپنی گواہی مـیں حسب ذیل الفاظ کہے ہیں:
>مجھے قطعی طور پر یـاد ہے کہ ان سے ایک تبادلئہ خیـال کے دوران مـیں چوہدری ظفر اللہ خان نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیـا تھا کہ ان کے عقیدے کے مطابق مـیں کافر ہوں لیکن سیـاسی معاشرتی اور دوسرے مقاصد کے پیش نظر وہ مجھے مسلمان سمجھ سکتے ہیں<۔
کیـا آپ نے یہ کہا تھا؟
جواب:عقیدے سے متعلق پوزیشن کی تشریح سے ممکن ہے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیـا ہو۔
عدالت نے گواہ سے کہا کہ یہ بیـان کیـا گیـا ہے کہ جیکب آباد کی ایک مسجد کے خطیب مولوی محمد اسحاق سے اگست ۱۹۴۹ء مـیں ایک گفتگو کے دوران مـین انہوں )گواہ( نے اس رائے کا اظہار کیـا تھا کہ انہیں )گواہ کو( ایک کافر حکومت کا ایک مسلمان ملازم یـا ایک مسلمان حکومت کا ایک کافر ملازم سمجھا جا سکتا ہے یہ دریـافت کرنے پر کہ یہ بیـان کیـا درست ہے؟
چوہدری ظفر اللہ خاں نے کہا کہ مجھے اس پر بہت زیـادہ شک ہے۔۔۔۔
سوال:کیـا خواجہ نذیر احمد نے آپ سے مارچ ۱۹۵۳ء مـیں ملاقات کی تھی؟
جواب:ممکن ہے انہوں نے ملاقات کی ہو۔
سوال:کیـا تینوں مطالبات کے متعلق فرقے کے امـیر کی پوزیشن کی تشریح کے سلسلہ مـیں آپ دونوں مـیں گفتگو ہوئی تھی؟
جواب:انہون نے مجھ سے کہا تھا کہ بعض تشریحات کے متعلق فرقے کے امـیر سے ملاقات کی تھی یـا ان کا ملاقات کرنے کا ارادہ تھا۔
گواہ نے کہا کہ انہوں نے بعض تشریحات تجویز کی تھیں اور مـیری رائے دریـافت کی تھی۔ مـیں نے ان سے کہا کہ مـیں اپنی رائے ظاہر نہیں کر سکتا اس لئے انہیں اس معاملہ پر فرقے کے امـیر سے گفتگو کرنی چاہئے۔
سوال:فرقے کے سلسلے مـیں آپ کی پوزیشن کیـا ہے؟ خواجہ نذیر احمد آپ سے ملنے کیوں گئے تھے؟
جواب:مـیں ایک معمولی رکن ہوں اور فرقے مـیں مـیری کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ خواجہ نذیر احمد اس معاملہ مـیں مجھ سے مشورہ کرنے کیوں آئے تھے؟
سوال:کیـا انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ امـیر جماعت اگر عام مسلمانوں کو آئندہ کافر نہ کہیں تو ممکن ہے مزید تبادلئہ خیـال کے لئے بنیـاد پیدا ہو جائے۔
جواب:مجھے یہ یـاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ وہ اور ان کے ایک رفیق پہلے ہی ربوہ جا چکے تھے اور امـیر جماعت سے ملاقات کر چکے تھے اور انہوں نے اس موضوع پر ایک بیـان جاری کر دیـا تھا۔ مـیرا خیـال ہے کہ انہوں نے مجھ سے یہ تجویز پیش نہیں کی تھیں۔ انہوں نے خیـال ظاہر کیـا کہ امـیر جماعت نے جو بیـان جاری کیـا تھا اس سے پہلو کے متعلق پوزیشن واضح ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
سوال:یہ کہا گیـا ہے کہ لاہور جلد اور بار بار آکر اور اپنے فرقہ کو اس کے رویہ کے متعلق مشورہ دے کر اپ نے اس تحقیقات سے متعلق معاملات مـیں بڑی سرگرمـی سے حصہ لیـا ہے۔ کیـا یہ درست ہے؟
جواب:مـیں تحقیقات کے زیـادہ تر حصے مـین ملک کے باہر رہا ہوں۔ ملک سے باہر جانے سے قبل مـیرے لاہور آنے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ تحقیقاتی عدالت کے متعلق فرقے کو کیـا رویہ اختیـار کرنا اور کیـا رویہ اختیـار نہیں کرنا چاہئے نہ اس کا مقصد اپنے فرقے کے اراکین کو مشورہ دینا تھا۔
سوال:کیـا مذہبی امور مـیں آپ کو عام طور پر اپنے فرقے کے امـیر سے اتفاق ہے؟
جواب:جی ہاں۔ ان امور پر جن کا سختی کے ساتھ عقیدے سے تعلق ہے۔
سوال:امـیر جماعت کی کیـا پوزیشن ہے؟
جواب:عقائد کے متعلق وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ فرقے کے لئے قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔
سوال:کیـا یہ حقیقت ہے کہ آپ نے قائداعظم کی نماز جنازہ مـیں شرکت نہیں کی؟
جواب:مـیں اصل نماز جنازہ مـیں شریک نہیں ہوا لیکن مـیں جنازے کے جلوس کے ساتھ تھا۔ یہ بات یـاد رکھنی چاہئے کہ نماز جنازہ مرحوم مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی جن کے خیـال کے مطابق مـیں کافر اور مرتد تھا۔ اور مجھے سزائے موت دے دینی چاہئے تھی۔
سوال:اس زمـین کو حاصل کرنے کے لئے جس پر ربوہ واقع ہے کیـا آپ کوی شکل مـیں ذریعہ بنایـا گیـا تھا یـا آپ نے فرقے کی کوئی مدد کی تھی؟
جواب:مـیرا خیـال ہے کہ اراضی کے حصول کی اصل گفت و شنید مـیںی موقع پر مـیں نے کوئی حصہ نہیں لیـا تھا۔ اراضی کے حصول کے بعد بعض دشواریـاں پیدا ہوگئی تھیں اور مجھے یـاد ہے کہ مـیں نے ان کے متعلق مسٹر دولتانہ اور مسٹر دستی سے بھی بات کی تھی۔
سوال:کیـا آپ تقسیم سے پہلے مسلم لیگ کے رکن تھے؟
جواب:۱۹۴۱ء مـیں فیڈرل کورٹ کا جج بننے سے پہلے مـیں مسلم لیگ کا رکن تھا مگر مرکزی کابینہ کی رکنیت کے دوران مـیں مـیں نے مسلم لیگ کی کارروائیوں مـیں سرگرمـی سے حصہ نہیں لیـا تھا۔
سوال:۱۹۴۶ء مـیں مسلم لیگ کی ہدایـات کے مطابق کیـا آپ نے اپنا خطاب واپس کیـا تھا؟
جواب:مجھے اس طرح کیی ہدایت کا کوئی علم نہیں ہے لیکن مـیں نے تقسیم کے بعد عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا خطاب استعمال نہیں کیـا ہے۔
سوال:ایک شکایت یہ ہے کہ سرکاری دفاتر مـیں خواہ وہ آپ کی اپنی وزارت کے ہوں یـای دوسرے محکمے کے آپ اپنے فرقے کے اراکین کو ترجیح دیتے رہے ہیں؟
جواب:جہاں تک مـیری اپنی وزارت کا تعلق ہے پوزیشن یہ ہے کہ فارن سروس کے لئے مـیں خود کوئی تقرر نہیں کرتا۔ فارن سروس کے لئے تمام تقرریـاں پبلک سروس کمـیشن کی سفارش پر کی جاتی ہیں اس لئے مـیرے علم کے مطابق فارن سروس کے اسی یـا سو افراد مـیں سے احمدیہ فرقے کے صرف ۴ ارکان ہیں۔ ان مـیں سے ایک پہلے ہی سے وزارت مـیں تھا اور مـیرے خیـال مـیں وہ بھارت سے~ف۴~آپٹ~ف۵~ کر کے آیـا تھا۔ وہ تقسیم سے پہلے ہی سے سرکاری ملازم تھا۔ مـیرے وزیر خارجہ ہونے سے پہلے وہ وزارت مـیں تھا۔ ان مـین سے ایک تقسیم سے پہلے ہونے والے مقابلے کے امتحان کے ذریعہ منتخب ہوا تھا۔ وہ بعد مـیں پبلک سروس کمـیشن کے ذریعے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن اپنے انتخاب کے ووقت وہ دونوں سرکاری ملازم تھے۔ تقسیم کے بعد ملازم ہونے والے تین افراد مـیں سے دو کے متعلق مجھے ان کی ملازمت کے بعد تک یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ احمدی ہیں۔
صرف ان دو اسامـیوں پر مجھے خودی آدمـی کو مقرر کرنے کا اختیـار ہے۔ یعنی مـیرا پرائیویٹ سیکرٹری اور مـیرا پرسنل اسسٹنٹ اور ان دونوں اسامـیوں مـیں سے ایک پر کبھی کوئی احمدی مامور نہیں ہوا۔ وزارت مـیں یـا دوسرے ملکوں کی منٹیریل~ف۶~ اسامـیوں کے لئے بھرتی سے مجھے کوئی تعلق نہیں ہے اور جہاں تک مجھے علم ہے ممالک غیر مـیں ہمارے مشن کی منٹیریل اسامـیوں پر صرف تین احمدی ہیں ان مـین سےی ایک کی بھرتی سے مجھے کوئی مطلب نہیں تھا۔ ان مـیں سے دو تقسیم سے پہلے منٹیریل اسامـیوں پر ملازم تھے اور مـیرا خیـال ہے کہ تیسرے کو ملک کے باہر ہی بھرتی کیـا گیـا تھا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے اس کے سرکاری ملازم ہونے کے کافی دیر بعد تک مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ احمدی ہیں۔
جہاں تک دوسری تمام وزارتوں مـیں سرکاری ملازمتوں پر افسروں کے گریڈ کی بھرتی کا تعلق ہے مـیرا خیـال ہے کہ یہ بھی پبلک سروس کمـیشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور مـیں نےی شخص کی ملازمت کے لئے خواہ وہ احمدی ہو یـا غیر احمدی براہ راست یـا بالواسطہ طور پر پبلک سروس کمـیشن کےی رکن پر اثر ڈالنے کی کوشس نہیں کی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے مرکز یـا صوبوں مـیں تقسیم سے قبل یـا اس کے بعد پبلک سروس کمـیشن کا چیئرمـین یـا اس کا رکن احمدی نہیں ہوا۔
سوال:کیـا وزارت صنعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل چوہدری بشیر احمد اور محکمہ خوراک کے جائنٹ سیکرٹری شیخ اعجاز احمد آپ کے دوست اور احمدی ہیں؟
جواب:جی ہاں! وہ مـیرے دوست اور احمدی ہیں۔ شیخ اعجاز احمد صاحب اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔
سوال:کیـا اپ نے انہیں پہلے سرکاری ملازمت دلائی تھی؟
جواب:جی نہیں۔~ف۷~][۲۔ >فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت مـیں وزیر خارجہ پاکستان چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے مارشل لاء کے ایـام مـیں مرزا ناصر احمد )صاحب( اور مرزا شریف احمد )صاحب( کی سزایـابی کے اسباب کے متعلق عدالت کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے علم ہے ان پر یہ الزام تھے۔
مرزا ناصر احمد )صاحب( نے مارشل لاء کے ایک حکم پر عمل نہ کیـا تھا اور اپنے اسلحہ کا اعلان نہ کیـا تھا چونکہ ان کے پاس باقاعدہ اجازت نامہ موجود تھا لیکن ان کے مکان کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیگم کے صندوق سے ایک مرصع خنجر برآمد کرلیـا گیـا۔ جو کہ ایک خاندانی نشانی کے طور پر موجود تھا کیونکہ ان کی بیوی کے والد کا تعلق مالیر کوٹلہ خوانین سے تھا۔ وہ نواب سر ذوالفقار علی مرحوم کے بڑے بھائی تھے اور نواب آف مالیر کوٹلہ سے ان کی قریبی رشتہ داری تھی۔ یہ خنجر شادی پر باپ نے اپنی بیٹی کو دیـا تھا اس بناء پر ان کی بیوی نے دوسرے جواہرات کے ساتھ یہ مرصع خنجر بھی اپنے صندوق مـیں رکھ چھوڑا تھا۔ مرزا ناصر احمد ایم اے )اوکسن( پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کو ۵ سالقید بامشقت اور دس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی گئی۔ مرزا شریف احمد کی سزا کا بعد منظر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ انہوں نے اپنے اسلحہ کی اطلاع دے دی تھی اور اس کا پرمٹ حاصل کر لیـا تھا۔ ان کے مکان کی تلاش لی گئی و پریشر ان مـینوفیکچرنگ کمپنی کے مـینجنگ ڈائریکٹر تھے۔ کمپنی کے پاس مـینوفیکچرنگ کے لئے لائسنس موجود تھا۔ اس رجسٹرڈ مپنی کا دفتر ان کے مکان کے ایک کمرے مـیں تھا۔ پچھلے سال فوجی حکام کی طرف سے سنگینوں کا نمونہ پیش کرنے کے لئے کہا گیـا تھا۔ انہوں نے حکم کی تعمـیلکی لیکن بعدازاں یہ نمونہ اس رپورٹ کے ہمراہ واپس کر دیـا گیـا کہ جس قسم کی خصوصیـات درکار تھیں یہ اس کے مطابق نہیں۔ اس رپورٹ مـیں نمونہ کی خامـیوں کی طرف بھی اشارہ کیـا گیـا تھا اور یہ نمونہ کے ساتھ منسلک تھی چنانچہ اس حالت مـیں المار سے جو کمپنی کے رجسٹرڈ دفتر مـیں موجود تھی یہ نمونہ برآمد کرلیـا گیـا اس نمونہ کی بناء پر مرزا شریف احمد کو ایک سال قید بامشقت اور دس ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دی گئی۔۔۔۔۔ مجلس احرار کی طرف سے مسٹر مظہر علی اظہر نے جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ کیـا انہوں نے احمدی ہال کراچی مـیں )دستاویز ڈی۔ ای۔ ۱۱۹( تقریر کی تھی۔
چوہدری ظفر اللہ خان نے جواب دیـا مـیں نے کئی موقعوں پر جمعہ کا خطبہ دیـا ہے بعض اوقات مـیں نے اپنی جماعت کے اجتماعات کو بھی خطاب کیـا ہے۔ یہ رپورٹ امکانی طور پر صحیح نہیں کیونکہ اس مـیں دو ایک واقعات کو جن کا مـیں نے ذکر کیـا غلط رنگ مـیں پیش کیـا گیـا اور جہاں تک اپنے عہدہ کے متعلق مـیرے رویہ کا تعلق ہے مـیں اسے ایک بہت بڑا اعزاز سمھجتا ہوں جو خداوند تعالیٰ نے مجھے عطا کیـا ہے یہ چیز قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر نہیں مـیں اسے ایک امانت تصور کرتا ہوں اور ذمہ داری بھی۔ جسے مـین معمول نہیں سمجھتا اور دوسری طرف یہ بالکل واضح ہے کہ وزیراعظم اپنےی ساتھی سے استعفیٰ طلب کر سکتے ہیں جب یہ تحریک شروع ہوئی تو مـیں نے نہایت واضح لفظوں مـین اس وقت )کے( وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو یہ بتایـا تھا کہا گر وہ بار سمجھیں تو مـیں علیحدہ ہونے کے لئے ہر وقت تیـار ہوں جہاں تک اس رپورٹ کا تعلق ہے اتنا حصہ بالکل صحیح ہے اور مـیری پوزیشن کو واضح کرتا ہے<۔~ف۸~
>مولانا مرتضیٰ احمد خان مـیکش نے مجلس عمل کی طرف سے جرح کی۔
سوال:۱۹۴۷ء مـیں جب آپ اقوام متحدہ کے اجلاس مـیں شرکت کے جنیوا گئے تھے کہا جاتا ہے کہ عرب ڈیلی گیٹوں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ اپنے قیـام مـیں چند دن کی توسیع کر دیں تو آپ نے انہیں کیـا جواب دیـا تھا؟
جواب:اس سوال کا اصطلاحی جواب یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اسمبلی کا کوئی اجلاس ۱۹۴۷ء مـیں جنیوا مـین منعقد نہ ہوا تھا۔ اجلاس نیویـارک سے باہر منعقد ہوا تھا لیک اور فلشنگ مـیڈوز ہیں۔ اس سوال مـیں جس واقعہ کا ذکر کیـا گیـا ہے وہ حسب ذیل ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اجلاس مـیں پیش ہوا۔ اس پر خوب بحث ہوئی اور کمـیٹیوں مـیں اس پر آراء شماری بھی ہوئی۔ ان مـین سے ایک سب کمـیٹی کا مـیں صدر تھا۔ اجلاس کے خاتمہ پر عرب ریـاستوں کے نمائندوں کو معلوم ہوا کہ مـیں اجلاس کے خاتمہ سے پہلے واپس جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے درخواست کی کہ مـیں اجلاس کے خاتمہ تک وہاں رہوں مـیں اس وقت نواب بھوپال کا آئینی مشیر تھا۔ پاکستان کی حکومت کا مـیں رکن نہ تھا۔ درحقیقت بہت سا کام ختم ہو چکا تھا۔ پاکستانی ڈیلی گیشن کے دو ممبروں کو خود مـیں نے واپس پاکستان جانے کی اجازت دے دی تھی اگر مـیں اس وقت آجاتا تو بھی ہمارے ڈیلی گیشن کے دو تین ارکان وہاں تھے جو اس قسم کی رسمـی کارروائی کی نمائندگی کر سکتے تھے جب مـیں وہاں تھا۔
مشرقی پنجاب مـیں ہولناک قسم کے فسادات شروع ہوئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم توڑے گئے۔ قادیـان کئی سال سے مـیرا گھر تھا۔ اس پر بھی حملہ کیـا گیـا۔ مـیرا گھر لوٹ لیـا گیـا۔ مـیری عدم موجودگی مـیں مـیری ایک ہی بہن کا انتقال ہوگیـا۔ مجھ سے چھوٹا بھائی تپ دق کا شکار ہو رہا تھا۔ یہ سب باتیں تھیں جن کی بناء پر مجھے جلد آنا تھا۔
جب سے مـیں نواب بھوپال کا ملازم ہوا تھا مـیں نے اپنے وقت کا کافی حصہ پاکستان کے مفاد کے لئے وقف کیـا۔ پہلے سرحدی کمـیشن مـیں کام کیـا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی اسمبلی مـیں مـیں پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا۔ بھوپال مـیں مـیں نے بہت کم وقت صرف کیـا۔
جب عرب ڈیلی گیٹوں نے مجھ سے یہ کہا کہ مـیں کچھ دیر اور قیـام کروں تو مـیں نے نواب بھوپال اور قادیـان کی صورت حالات پر پوری روشنی ڈالی۔ انہوں نے یہ تجویز کی کہ وہ نواب بھوپال اور صدر انجمن احمدیہ سے درخواست کریں۔ وہ مجھے وہاں رہنے کی ہدایت کریں چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر انہوں نے ان دو اصحاب سے اجازت حاصل کرلی تو کیـا مـیں ٹھہروں گا؟ مـیں نے کہا مـیں غور کروں گا چنانچہ انہوں نے نواب بھوپال اور صدر انجمن احمدیہ کو تار ارسال کئے۔ ان دونوں نے یہ ہدایت کی کہ مـیں جلسہ کے اختتام تک وہاں رہوں چنانچہ مـیں وہاں رہا۔ جب مـیں واپس پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ مـیرا بھائی موت کے دروازے پر ہے مـیں کچھ کر سکا تو اتنا کہ اس کا ہاتھ دبا کر اسے ہمـیشہ کے لئے الوداع کہی۔۔۔۔۔ مـیرے نزدیک سوال یہ ہے کہ مـیں نے نواب بھوپال اور صدر انجمن امدیہ کی بجائے کیوں نہ پاکستان گورمنٹ سے مشورہ لینے کے لئے کہا اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا مـیں پہلے کہہ چکا ہوں مـیں نواب بھوپال کا ملازم تھا اور مـیری سرکاری ڈیوٹی وہاں لگائی گئی تھی۔ مـیرا خاندانی مفاد قادیـان مـیں تھا اور اسے شدید نقصان پہنچا۔۔۔۔۔۔۔
سوال:کیـا آپ نے عرب ڈیلی گیٹوں کو کہا تھا کہ جب وہ صدر انجمن احمدیہ کو تار دیں تو لفظ >امـیر المومنین< لکھیں؟
جواب:جی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مـیں نے گفتگو کے دوران مـیں اپنے طور پر یہ الفاظ استعمال کئے ہوں۔
سوال:کیـا آپ انہیں بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان جیسے اسلامـی ملک مـیں واقعی ایک >امـیر المومنین<؟
جواب:جی نہیں۔
سوال:۱۹۵۱ء مـیں جب آپ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے امریکہ گئے تھے تو کیـا آپ نے احمدیہ جماعت کی شائع کردہ تفسیر قرآن مجید کا ایک نسخہ صدر ٹرومـین کو پیش کی تھی۔
جواب:مـیں ان دنوں واشنگٹن مـیں تھا۔ جب صدر ٹرومـین نے قوم کے نام ایک پیـام دیـا تھا۔ اس کے دوسرے دن ٹرومـین سے مـیری مالقات ہونے والی تھی چنانچہ اس مالقات مـیں`مـیں نے ان کی تقریر پر کچھ تبصرہ کیـا اور ایک دو اصول کے بارے مـیں جن کی انہوں نے وکالت کی تھی مـیں نے کہا کہ اس سلسلے مـیں قرآن مجید کی کچھ آیتیں یـاد آگئی ہیں مـیں نے انگریزی مـیں انہیں دو آیتیں سنا بھی دیں۔ صدر ٹرومـین نے کہا کہ انہیں اس سے بڑی دلچسپی ہے اور وہ قرآن مجید مـیں یہ آیتیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ مـیں نے دوسرے دن قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کی ایک جلد انہیں بھجوا دی۔ یہ جلد جو جماعت )احمدیہ( کی شائع کردہ تھی مـیں نے واشنگٹن ہی سے حاصل کی تھی۔
سوال:روزنامہ >زمـیندار< مـیں جو چٹھیـاں شائع ہوئی ہیں ان پر اپنے پتہ مـیں آپ نے اپنے نام کے ساتھ >سر< کے خطاب کا استعمال کیـا ہے؟
جواب:ڈاک کی تقسیم مـیں سہولت کے لئے ایسا کیـا گیـا تھا۔
سوال:کیـا سردار عبدالرب نشتر نے کابینہ کے ایک اجلاس مـیں جو اگست ۱۹۵۲ء مـیں منعقد ہوا اور جس کی صدارت آپ نے کی۔ آپ کو یہ کہا تھا کہ آپ کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کے متعلق مذہبی تبلیغ کی شکایـات موصول ہو رہی ہیں؟
جواب:جب مـیں کابینہ کے اجلاس مـیں پہنچا تو ایک سیکرٹری نے مجھے بتایـا کہ خواجہ ناظم الدین علیل ہیں اور وہ اجلاس مـیں شرکت نہ کر سکیں گے۔ انہوں نے مجھے ایک مشورہ دیـا اور کہا خواجہ صاحب چاہتے ہیں کہ اسے کابینہ کے اجلاس مـیں مسودہ پیش کر کے منظور کرایـا جائے مـیں نے اسے پڑھا اس مـیں صرف ایک فرقہ کا ذکر تھا اور وہ احمدی فرقہ تھا۔ یہ اس لحاظ سے غیر منصفانہ تھا کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس پر سردار عبدالرب نشتر نے فرمایـا کہ اعلان مـیں یہ درج نہیں لیکن اس قسم کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ مـیں نے اس پر جواب دیـا کہ جہاں تک شکایت کا تعلق ہے یہ صرف ایک فرقہ کے خلاف ہے انہوں نے فرمایـا کہ اگری اور فرقہ کے متعلق اس قسم کی شکایت ہو تو ہم اس مـیں ترمـیم کرتے ہیں۔ مـیں نے اس پر انہیں کہا کہ جماعت اسلامـی ایک سیـاسی جماعت ہے جس کے متعلق حکومت کی پالیسی واضح ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم اس جماعت کارکن بنے گا وہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تو صرف پیش لفظ ہے ورنہ اعلان کا جو ہدایتی حصہ ہے وہ سب فرقوں کے متعلق ہے۔۔۔۔۔
سوال:اپ کو بائونڈری کمـیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے نے مقرر کیـا تھا؟
جواب:مجھے قائداعظم نے بھوپال سے بلایـا تھا اور کہا تھا کہ مـیں بائونڈری کمـیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کروں۔
سوال:کیـا آپ نے بائونڈری کمـیشن کے سامنے اپنے دلائل مـیں یہ کہا تھا کہ احمدی مسلمانوں سے الگ ایک فرقہ ہیں؟
جواب:جی نہیں جہاں تک مجھے یـاد ہے بائونڈری کمـیشن سے خطاب کے دوران مـیں اگر مـیں نے قادیـان` احمدیہ تحریک یـا احمدیہ فرقے کے متعلق کوئی ذکر کیـا ہو تو وہ اس دلیل کو وزنی بنانے کے لئے تھا کہ ضلع گورداسپور کو مغربی پنجاب کا ایک حصہ ہونا چاہئے اور اسے پاکستان مـیں ہی ہونا ¶چاہئے۔
سوال:جہانگیر پارک مـیں آپ کی تقریر کے لئے >زندہ مذہب< کا موضوع نے منتخب کیـا؟
جواب:مـیں نے خود۔
سوال:آپ نے یہ موضوع کیوں چنا؟
جواب:مـیں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو دوسرے مذاہب سے نمایـاں کرنے والی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام مـیں بنیـادی تعلیمات کو تازہ رکھنے کے ذرائع اور قرآن سے اس قسم کے فلسفے کو جس کی ضرورت وقتاً فوقتاً ہو پیش کرتا ہےی اور مذہب مـیں یہ خصوصیت نہیں دوسرے مذاہب تو صرف انسانی تاریخ کی وقتی ضرورت کے لئے تھے۔
سوال:مولانا مـیکش نے اپنی جرح مـین اس امر کی طرف اشارہ کیـا ہے کہ اقوام متحدہ کے سامنے آپ عربوں کا مقدمہ پیس کرنا نہیں چاہتے تھے کیـا پاکستان کے نمائندے کی یثیت سے آپ نے اقوام متحدہ مـین اب تک کبھی ایسے معاملات مـیں کوئی دلچسپی لی ہے۔ جو دنیـائے اسلام کے لئے کوئی اہمـیت رکھتے ہوں؟
جواب:جس دن سے پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا ہے مـیں جنرل اسمبلی مـیں پاکستانی وفد کی قیـادت کرتا آ رہا ہوں۔ جب کبھی وہاں مسلمانوں کے عام مفاد کا مسئلہ آیـا ہے مثلاً مسئلہ فلسطین۔ مسئلہ لیبیـا۔ اربڑیـا۔ سمالی لینڈ۔ مراکش اور تیونس ان تمام مسائل مـیں مـیں نے ذاتی دلچسپی لی اور مـیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی طرف سے ان ممالک کے مقدمات کی پیروی کو نہ صرف ان ممالک نے بلکہ دیگر تمام مسلم ممالک نے بھی سراہا ور اس کی تعریف بھی کی۔
سوال:سان فرانسسکو مـیں آپ نے جو تقریر کی تھی وہ آپ کو یـاد ہے؟
جواب:جی ہاں۔
سوال:کیـا آپ نے اس تقریر مـیں اسلام کے متعلق کچھ کہا تھا؟ اگر کچھ کہا تھا تو کیـا اس تقریر مـیں ایک فرقہ واری رجحان کی جھلک نہ تھی؟
جواب:جاپانی معاہدے کا ایک پہلو جو ان ممالک مـیں بھی بحث و تمحیص کا موضوع بن گیـا تھا۔ جو اس معاہدے کے حق مـیں تھے` وہ یہ تھا کہ جاپان سے بہت فیـاضانہ سلوک کیـا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک یہ رجحان تھا کہ انسانی تاریخ مـیں ایک مفتوح دشمن سے امریکہ کے فیـاضانہ سلوک انسانی تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ قرار دیـا جائے۔ اس پر مـیں نے اپنی تقریر مـیں بتایـا کہ ایک مفتوح دشمن کے ساتھ ایک فیـاضانہ معاہدے کی سب سے درخشاں مثال وہ حسن سلوک ہے جو پیغمبر اسلام نے مفتوح قریش کے ساتھ معاہدہ مکہ کے موقع پر کیـا تھا۔ مـیری اس تقریر کا نہ صرف ان مدبروں پر جو وہاں جمع تھے بلکہ سارے امریکہ پر گہرا اثر ہوا۔ کیونکہ یہ تقریر سارے امریکہ پر نہ صرف نشر کی جا رہی تھ بلکہ ٹیلی ویژن پر اس کارروائی کا منظر بھی دکھایـا جا رہا تھا۔ اس صدا کی ایک بازگشت جو مجھ تک پہنچی اور جس کا احداث نعمت کے طور پر مـیں ذکر کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب اس معاملے پر آسٹریلیـا کی پارلیمنٹ مـیں بحث ہوئی تو اپوزیشن پارٹی نے اس معاہدے پر دکھای ہوئی فیـاضی کی طرف حکومت کو متوجہ کیـا۔ جس کے جواب مـیں برسراقتدار پارٹی کے ایک رکن نے اپنی تقریر مـیں کہا کہ اس موقعہ پر انہیں اس سپرٹ پر عمل کرنا چاہئے۔ جس پر پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے موقعہ پر عمل کیـا تھ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حوالہ مـیری تقریر ہی سے دیـا گیـا تھا۔
۱۹۵۱ء مـیں جنرل اسمبلی کے اجلاس پیرس مـیں مـیں نے جو تقریر کی تھی اس پر جماعت اسلامـی کی نکتہ چینی کا مـیں جواب دینا چاہتا ہوں جس مـیں مـیں نے ایک برطانوی نو آبادی مـیں ایک احمدی کے ساتھ بدسلوکی کا شکوہ کیـا تھا۔ مـیں نے مسلمانوں کے اس مفاد کا کوئی ذکر نہیں کیـا جس مـیں مسلمانوں کے مفادات مغربی ممالک کے خلاف تھے۔ مـیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ مـیری اس تقریر کا زیـادہ تر حصہ نو آبادیـاتی نظام کے دونوں سیـاسی اور اقتصادی پہلوئوں کی مذمت سے متعلق تھا۔ وہ مذمت بہت پرزور تھی اور اسے بڑے جوش سے ظاہر کیـا گیـا تھا اس مذمت کے سلسلے مـیں نو آبادیـاتی نظام کی دفتریت کے تکبر کی مثال دیتے ہوئے مـیں نے ایک برطانوی نو آبادی مـیں ایک پاکستانی کے ساتھ بدسلوکی کی مثال دی۔
مـیں حلفیہ تو نہیں کہہ سکتا کیونکہ مـیں اس وقت اپنے حافظے کو تازہ نہیں کر سکتا لیکن مـیرا خیـال ہے کہ اس مـین اس کا ذکر نہیں کیـا گیـا تھا۔ کہ وہ شخص احمدی تھا۔ بہرحال اس واقع کا ذکر صرف نو آبادیـاتی نظام کی برائیوں کے اظہار کے لئے کیـا گیـا تھا<۔
>اسی اجلاس کے دوران مـیں مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈا مـیں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا۔ اس موقع پر مـیری ہی تقریر سب سے نمایـاں تھی جس مـیں مـیں نے امریکہ اور دیگر ان ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی تھی جو ان مسائل کو ایجنڈا مـیں شامل کرنے کے خلاف تھے۔
مجھے خاص طور پر یہ بات بھی یـاد ہے کہ مـیں نے جب سے یہ کہا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیـا گیـا تو مراکش مـیں قتل و خون ہوگا۔ اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی مندوب پر ہوگی جس نے مجھ سے پہلے تقریر کی تھی۔ جس شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی تھی اس کے باعث امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیـا تھا۔ ان حالات مـیں یہ کہنا بڑی نا انصافی کی بات ہے کہ مـیں نے ای احمدی کی وکالت کی جس کے ساتھ بدسلوکی ہوئی تھی مگر عام مسلمانوں کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی<۔
وکلائے احمدیت کے زوردار بیـانات
سیدنا حضرت المصلح الموعود کے ایمان افروز عدالتی بیـان کے بعد جس سے کمرئہ عدالت ہی مـیں نہیں پریس مـیں بھی احمدیت کا ملک گیر چرچا ہوا` علمـی اعتبار سے سب سے زیـادہ اہمـیت وکلائے احمدیت کے زوردار بیـانات کو حاصل ہے۔
اس معزز عدالت مـیں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے نمائندگی کی سعادت جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ )سابق امـیر جماعت احمدیہ لاہور( اور خالد احمدیت ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی پلیڈر امـیر جماعت احمدیہ گجرات کو نصیب ہوئی۔
جناب شیخ بشیر احمد صاحب نے ۲۲/۲۳/۲۴ فروری ۱۹۵۴ء کو مفصل بیـان دیـا جس مـیں اخبار >ملت< لاہور کے نامہ نگار کے مطابق( آپ نے نہایت واشگاف الفاظ مـیں اپنے اس دعویٰ کے دلائل پیش کئے کہ یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ فسادات احرار نے کرائے تھے۔ نیز یہ کہ مطالبات مقصد کی دیـانتداری پر مبنی نہیں تھے اور پاکستان کو ختم کرنے کے لئے مذہب کو آلہ کار بنایـا گیـا تھا اور جماعت اسلامـی نے ایسا طریق کار اختیـار کیـا کہ اس کے اراکین اس بات کے قائل ہو جائیں کہ حکومت کا تختہ الٹ دینا ان کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے واضح کیـا کہ مولانا مودودی اور ان کے پیرو پوری طرح سے محسوس کرتے تھے کہ تحریک جس نے۔۔۔۔۔۔۔ حکومت کی تساہلی اور بے عملی کی وجہ سے شدت اختیـار کرلی تھی ریـاست کے وجود کو خطرے مـیں ڈال دے گی۔ اور ملک مـیں وسیع پیمانے پر ایسے ہولناک فسادات ہوں گے جو تقسیم سے پہلے کے ہندو مسلم فسادات سے بھی زیـادہ سنگین ہوں گے۔ انہوں نے دولتانہ حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ نے تحریک کے خطرناک رخ کے امکانات کی طرف حکومت کی توجہ وقتاً فوقتاً مبذول کرائی۔ لیکن پہلے سے منصوبہ تیـار کر کے چلائی جانے اور مذہب کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک کے محرکین کے خلاف کوئی مئوثر اقدام نہ کیـا یـا۔ نہ اشتعال انگیز پراپیگنڈے کے روکنے کے لئے کوئی کارروائی کی گئی۔ اور تحریک کے خطرناک مضمراتسے واقف ہونے کے باوجود شورش کو بڑھ جانے کا موقع دیـا گیـا۔ اور سزا پانے والے لیڈروں کی رہائی اور دفعہ ۱۴۴ ہٹا لینے کے باعث صورت حال بد سے بدتر ہوگئی۔ انہوں نے کہا مجھے نیک نیتی کے ساتھ یقین ہے کہ عام لوگ دلائل کے ساتھ قائل کئے جا سکتے تھے اور انہیں ان افسوسناک واقعات کا ذمہ دار قرار نہیں دیـا جا سکتا جن کا منتہیٰ لاہور مـیں مارشل لاء کا نفاذ تھا۔ دراصل عوام کے مذہبی شعور کے محافظ ہونے کے دعویداروں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے اس تحریک کو ہوا دی جس کی وجہ سے جان و مال کا نقصان ہوا بعد احمدیوں پر الزام لگانا دراصل اپنے احساس گناہ کو معقول بنانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ آپ نے فرمایـا احمدی جماعت کے ہر رکن کی تن من دھن سے یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری دنیـا کو اپنے مذہبی نظریـات پر لے آئے۔ احمدی سچے اسلام کو پیش کرتے ہیں اور قرآن مجید نے ہر مومن کو حکم دیـا ہے کہ وہ اس حق و صداقت کا مشعل بردار بن جائے جس کی تبلیغ حضرت رسول عربی~صل۱~ نے فرمائی اور جسے آنحضرتﷺ~ ہی نے دنیـا مـیں پھیلایـا تھا۔ اس مقصد کا حصول روحانی فتح کے سوا کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایـا کہ جماعت احمدیہ کا اصل مقصد عیسائیوں کو مشرف بہ اسلام کرنا ہے۔~ف۹~
تحریک احمدیت کے علم کلام کی حقانیت ثابت کرنے اور اعتراضات کے جوابات کی حقیقت واضح کرنے کا فریضہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم کے سپرد تھا جسے انہوں نے نہایت عمدگی اور پرشوکت اور پر اثر رنگ مـیں ادا کیـا۔ >خالد احمدیت< کا بیـان اپنے اندر اس درجہ گہری تحقیق اور غیر معمولی تفحص کا رنگ لئے ہوئے تھا کہ فاضل جج صاحبان ان کی قابلیت اور لیـاقت پر عش عش کر اٹھے اور اپنی رپورٹ مـیں آپ کا نام لے کر آپ کا شکریہ ادا کیـا بلکہ آپ کی نسبت لکھا کہ آپ نے >کتب قدیمہ کی تلاش و تجسس مـیں بڑے محنت کی ہے<۔~ف۱۰~خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس آپ کی خدمات جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
>تحقیقاتی عدالت کے سلسلہ مـیں بھی انہوں نے ہمارے ساتھ چھ سات ماہ کام کیـا۔ روزانہ گجرات سے لاہور آیـا کئے اور آخری بحث مـیں بھی حصہ لیـا۔ بحث کے لئے تحقیقاتی عدالت نے دوسروں کی نسبت سے ہمـیں تھوڑا وقت دیـا تھا۔ لیکن خادم صاحب مرحوم نے تھوڑے سے وقت مـیں نہایت قابلیت کے ساتھ دوسری پارٹیوں کے اعتراضات کے ایسے دندان جواب دئیے کہ تحقیقاتی عدالت کے جج صاحبان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ تحقیقاتی عدالت کے صدر نے اس امر کا اظہار کیـا کہ خادم صاحب نے بہت اچھی بحث کی ہے۔ تحقیقاتی عدالت کی مطبوعہ رپورٹ مـیں زیر عنوان >اسلامـی اصطلاحات کا استعمال< ان کا ذکر کیـا ہے<۔~ف۱۱~
جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیرسٹر ایٹ لاء امـیر جماعت احمدیہ لاہور جنہوں نے خود بھی اس طویل تحقیقات کے دوران مـیں اول سے آخر تک جماعت احمدیہ کے مقدمہ کی پیروی کرنے مـیں اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کر دیں اور جن کی بیش بہا امداد و اعانت کا اعتراف فاضل جج صاحبان نے اپنی مطبوعہ رپورٹ~ف۱۲~ مـیں بھی کیـا۔ آپ اپنی چشم دید شہادت کی بناء پر تحریر فرماتے ہیں:
>اپنا نقطئہ نظر پیش کرنے مـیں مکرم ملک صاحب مرحوم نہایت نڈر تھے اور ان کی زبان اور نطق مـیں اللہ تعالیٰ نے بے اندازہ برکت رکھی تھی۔ فسادات پنجاب )۱۹۵۳ء( کے تحقیقاتی کمـیشن کے روبرو دینی حصہ کو پیش کرنے مـیں جس بے لوث اور جر¶ات مندانہ انداز مـیں آپ نے جماعت احمدیہ کی وکالت کی وہ فاضل ججان سے بھی خراج عقیدت حاصل کر گئی جس کا انہوں نے اپنی رپورٹ مـیں نہایت زوردار الفاظ مـیں ذکر کیـا یہ۔ جتنی دیر ملک صاحب تقریر کرتے رہے تمام سامعین گویـا مسحور ہی رہے<۔~ف۱۳~
اسی طرح جناب ثاقب صاحب زیروی مدیر ہفت روزہ >لاہور< نے خادم۔ >مجاہد احمدیت< کے زیر عنوان ایک مضمون مـیں لکھا:
>ایک متعصب غیر احمدی نے بھری بزم مـیں کہا تھا کہ >اسلام پر اعتراض کا جواب دے کر خادم کا چہرہ یوں کھل اٹھتا ہے جیسے گلاب کا پھول<۔
۔۔۔۔ پھر یـاد آئے اینٹی احمدیہ فسادات کی انکوائری کے وہ دن جب اس شیر کی دھاڑ سن کر مخالف سر نیو ڈھائے بیٹھے تھے اور شہباز احمدیت بات بات پر ان کے فرسودہ دلائل کے تانے بانے کو توڑ مروڑ کر پرے پھینک رہا تھا۔ ماحول دم بخود تھا اور جج صاحبان اس کے علم کی وسعتوں پر حیران تھے<۔~ف۱۴~
ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی کے بیـان کا ایک مجمل سا خلاصہ اخبار >ملت< لاہور نے اپنی ۲۸/ فروری اور یکم مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعتوں مـیں سپرد قلم کیـا جو حسب ذیل ہے:
۱۔ >مولانا مـیکش کے بعد صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے اپنے دلائل دینا شروع کئے۔ اور خدا کی قسم کھاتے ہوئے کہا کہ ان کا فرقہ اور اس کے بانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ محمد عربی سے برابری کرنے کا دعویٰ کرنے والا کوئی بھی آدمـی کافر ہے۔
احمدیوں کا عقیدہ
انہوں نے اس بات پر زور دیـا کہ احمدی مرزا غلام احمد کو اور اپنے آپ کو آنحضرتﷺ~ کا جو خاتم النبیین ہیں غلام سمجھتے ہیں انہوں نے کہا احمدی ختم نبوت کے عقیدے مـیں یقین رکھتے ہیں اگرچہ انہوں نے یہ اعتراف کیـا کہ وہ اس کی ترجمانی مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔
ربوہ کے وکیل نے عدالت کے سامنے اس امر کا اظہار کیـا کہ فسادات کی وجہ سے مذہب قرار نہیں دیـا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس سے انکار نہیں ہے کہ احمدیوں اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں مـیں عقیدہ کے اختلافات موجود ہیں انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا حقیقت کا ثبوت یہی ہے کہ احمدی ایک الگ فرقہ بتاتے ہیں۔
مسٹر خادم نے کہا یہ حقیقت کہ بعض لوگ عقیدہ کے معاملہ مـیں احمدیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے اور قتل کرنے کا جواز مہیـا نہیں کرتی انہوں نے کہا اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ نہ ہی کوئی مذہب یـا ضمـیر اس کی اجازت دیتا ہے۔ انہوں نے یہ تھیوری پیش کی کہ جب تک بعض دلچسپی رکھنے والے۔۔۔۔۔۔ مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے مذہبی اختلافات کو استعمال نہ کریں اس وقت تک خطہ مـیں امن و امان کو نقصان نہیں پہنچ سکتا اور فسادات نہیں ہو سکتے۔
مسٹر خادم نے کہا کہ گزشتہ ستر برس مـیں ہندوستان اور پاکستان مـیںی غیر احمدی کی طرف سےی ایک احمدی کو نہیں مارا گیـا۔ یـا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمـیان کوئی جھگڑا اور تنازعہ نہیں ہوا جبکہ دوسرے فرقوں مـیں جو اب احمدیوں کی مخالفت مـیں متحد ہیں کئی بار فساد ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت اس لئے اور بھی زیـادہ واضح ہوتی ہے اور اس کی طرف زیـادہ نظر جاتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ عدالت کے سامنے شکایـات مـیں اشتعال انگیز تحریری چیزیں پیش کی گئی ہیں وہ دسیوں برس پرانی ہیں۔
وکیل نے کہا یہ بات انسانی فہم سے بالا ہے کہ فروری اور مارچ ۱۹۵۳ء کو یکایک تمام دوسرے فرقوں پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ احمدیوں کا پراپیگنڈا اور تبلیغ اور خود احمدی اس قدر اشتعال انگیزی کر رہے ہیں کہ ان کو برداشت نہیں کیـا جا سکتا۔ مسٹر خادم نے کہا کہ یہ خیـال صحیح ہے کہ اسلامـی تصورات کے مطابق مملکت پاکستان کے قیـام نے تمام نظریہ بدل ڈالا ہے اور یہ کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کے دوسرے فرقے دوسرے معاملات مـیں اس قدر مصروف تھے کہ وہ اس مسئلے پر جسے احمدیہ فتنہ کہا اجتا ہے زیـادہ توجہ صرف نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا تقسیم کے فوراً بعد جب حکومت اور عوام کے سر پر مسئلہ کشمـیر اور مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل کا بوجھ پڑا ہوا تھا اس وقت شیعوں اور سنیوں مـیں کم از کم چار بار فسادات ہوئے۔
وکیل نے کہا کہ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی مـیں یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ خیـال نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی اس کی بنیـاد حقائق پر ہے کہ احمدی اور دوسرے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امن سے نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے یہ خیـال پیش کیـا کہ حالیہ ہنگاموں کی وجوہات کچھ اور ہی ہوں گی۔
مسٹر خادم نے کہا کہ شروع مـیں جب احرار کو اپنی طاقت کے متعلق شک تھا وہ یہ خیـال ظاہر کر رہے تھے کہ ان کو اور احمدیوں کو اپنے اپنے جلسے کرنے کی اجازت دی جائے لیکن جونہی ان کو کافی امداد حاصل ہوگئی۔ انہوں نے اپنا مئوقف تبدیل کرلیـا۔
انہوں نے کہا جہاں تک ختم نبوت کے عقیدہ کا تعلق ہے احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں مـیں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف صرف اس عقیدہ کی تشریح کے سلسلے مـیں ہے۔
وکیل نے کہا:عقیدے کے سلسلے مـیں احمدیوں کا نقطئہ نظر دوسرے مسلمانوں کے لئے نیـا نہیں۔ اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے مسلمان عالموں کی بہت سی تحریریں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان تحریروں کے متعلق چاہے کچھ بھی کہا جائے بہرحال یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ان کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھا جاتا رہا۔ اور یہ کہ برسوں سے ان کے خیـالات کو برداشت کیـا جاتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا احمدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک امتی نبی بن جائے گا جبکہ دوسرے فرقوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک نبی کا دوبارہ ظہور ہوگا جو امتی ہوگا۔ ابھی انہوں نے اپنے دلائل ختم نہیں کئے تھے کہ عدالت کا اجلاس ختم ہوگیـا۔~۱۵~]ybod [tag
۲۔ >لاہور ۲۶/ فروری۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے آج یہاں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت مـین کہا کہ متعدد مسلمان علماء نے ماضی مـیں ختم نبوت کی وہی تشریح کی تھی جو احمدیوں نے پیش کی ہے۔
اپنے دعویٰ کے ثبوت مـیں انہوں نے رسول اکرم~صل۱~ کے عہد سے دور حال تک علماء کی تحریروں کا حوالہ دیـا۔
انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ جن علماء نے یہ رائے ظاہر کی تھی وہ احمدی نہیں ان کی رائے کے اظہار پر انہیں کافر نہیں قرار دیـا گیـا۔
مسٹر خادم نے کہا کہ مسیلمہ پر حملہ اس لئے نہیں کیـا گیـا تھا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیـا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اسلامـی ریـاست مـیں اس نے دوسری باتوں کے علاوہ ۴۰ ہزار افراد کی ایک فوج تیـار کی تھی اور کئی مسلمانوں کو ہلاک کر دیـا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ جن لوگوں نے ختم نبوت کی مختلف تشریح پیش کی ان کے پاس اس کے اسباب موجود تھے اور قرآن مجید مـین ایسی آیتیں موجود ہیں جو ایسی تشریح کی بنیـاد بن سکتی ہیں<۔~ف۱۶~
>لاہور۔ ۲۷/فروری۔ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل مسٹر عبدالرحمن خادم نے آج یہاں فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت مـیں اس الزام کی تردید کی کہ مرزا غلام احمد صاحب نے قرآن` اسلام اور رسول کریم~صل۱~ کے فرمان کے خلاف جہاد کو منسوخ قرار دیـا ہے۔
مسٹر خادم کے دلائل کے بعد فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کارروائی ختم ہوگئی۔
انہوں نے کہا یہ خیـال کرنا بالکل غلط ہوگا کہ مـیرے فرقے نے یہ پوزشن فسادات کے بعد اختیـار کی ہے۔ اس سلسلہ مـیں مـیرا فرقہ عام مسلمانوں کے ساتھ مکمل اتفاق رکھتا ہے کہی کو قرآن مجید اور رسول کریم~صل۱~ کا کوئی فرمان منسوخ کرنے کا اختیـار نہیں ہے۔
مسٹر خادم نے کہا کہ احمدیہ فرقہ گذشتہ تیس چالیس برس سے اس سلسلہ مـیں اپنی پوزیشن واضح کر رہا ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب اور انکے پیروکار اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت خود اختیـاری کے لئے جنگ کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جماعت کے خلاف پروپیگنڈا جاری رہا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل نے کہا کہ جہاد کے تصور کو بڑی کثرت سے غلط طور پر پیش کیـا جاتا رہا ہے اور اس کا مطلب یہ لیـا جاتا رہا ہے کہ مسلمان مذہبی اختلافات کو جہاد شروع کرنے اور ان لوگوں کو ہلاک کرنے کے لئے جو مسلمانوں کے عقائد سے اتفاقاً متفق نہیں ہیں کافی وجہ سمجھتے ہیں۔
>نزول مسیحؑ< کے عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر خادم نے کہا کہ قرآن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ )علیہ السلام( ابن مریم ایک طبعی موت مرے تھے اور یہودیوں کے عقیدے کے برعان کی موت صلیب پر واقع نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہودی مانتے ہیں کہ عیسیٰ )علیہ السلام( ابن مریم کی موت صلیب پر واقع ہوئی کیونکہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر خدا کا قہر نازل ہوا تھا۔ اور وہ صلیب پر ایک ذلت آمـیز موت مرے۔ انہوں نے کہا کہ یہودی نظریہ بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن مجید اور حدیث نبوی مـیں نبی کے دوبارہ ظہور کی طرف اشارہ کیـا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مـیرا فرقہ مانتا ہے کہ ایک امتی نبی بن جائے گا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل نے کہا کہ احمدیوں کے خلاف یہ الزام ہے کہ انہوں نے )بعض اسلامـی( اصطلاحیں استعمال کر کے اسلام کی پیروڈی کی ہے۔~ف۱۷~بالکل غلط ہے یہ اصطلاحات بعض مسلمان اولیـاء کے لئے استعمال کی جاتی رہیں ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں نے اسے کبھی اشتعال انگیز خیـال نہیں کیـا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ۱۹۴۷ء کے فسادات کے دوران مـیں عام مسلمانوں کا سلوک بہت شاندار رہا۔ اور انہوں نے جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنے احمدی ہمسایوں کی مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ جماعت کے خلاف جھوٹے اور معاندانہ پراپیگنڈے کے ذریعے یہ فسادات معدودے چند لوگوں نے کرائے۔ احمدیوں کے خلاف دوسرے )الزامات مـیں کہا گیـا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے اس کے برعمسلمانوں کے بعض فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے رہے ہیں۔
مسٹر خادم نے کہا کہ جماعت اسلامـی اور مولانا مودودی نے جن کا موقف یہ تھا کہ احمدیوں کے بارے مـیں مطالبات پر تمام علماء متفق تھے۔ احمدیوں کے نظرئیے کی نقل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن فرق صرف یہ تھا کہ جماعت اسلامـی تشدد کے ذریعے سیـاسی اقتدار حاصل کرنے مـیں یقین رکھتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کو اتنا عزیز تھا کہ وہ اس کی تشریح کے اختلاف تک برداشت نہیں کر سکتے تھے تو اس سلسلہ مـیں گزشتہ کئی صدیوں سے بعض مشہور مسلمان علماء کا اختلاف کیوں برداشت کیـا جاتا رہا تھا؟
وکیل نے کہا کہ مسلمانوں کا ہر فرقہی نہی اصول پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہے لیکن انہیں اقلیت قرار دینا کبھی خیـال نہیں کیـا گیـا تھا۔ یہاں تک کہ گزشتہ ستر برس سے احمدیوں کو بھی مسلمانوں کا ایک فرق سمجھا جاتا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی تعجب خیز ہے کہ یکدم یہ کہا جانے لگا کہ احمدیوں کو بالکل ہی برداشت نہیں کیـا جا سکتا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل نے یہ بتانے کے لئے کہ مرزا غلام احمد صاحب کو وفات پر انہیں شاندار خراج تحسین پیش کیـا گیـا` بعض مسلم اخبارات پڑھ کر سنائے<۔~ف۱۸~
‏]bus [tagتحقیقاتی عدالت مـیں بعض دوسرے بیـانات
تحقیقاتی عدالت مـیں جن اصحاب نے بیـانات دئیے ان مـیں صوبائی و مرکزی حکام` سرکاری و غیر سرکاری وکلاء صحافی` علماء سیـاسی لیڈر اور عوام غرضیکہ ملک کے ہر طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان بیـانات کا ایک حصہ جہاں عدالت اور ملک کے سامنے بہت سی نئی معلومات و اکتشافات کا موجب بنا وہاں بعض بیـانات سے کئی اہم اور دلچسپ امور بھی منظرعام پر آئے۔ مثلاً:
۱۔ حکومت پنجاب کے وکیل جناب چوہدری فضل الٰہی صاحب~ف۱۹2]~ f[rt نے اشارٰہ بتایـا کہ:
>مسٹر دولتانہ کی اس سیـاست بازی کا مقصد صرف داخلی نہ تھا بلکہ بین الاقوامـی سیـاسیـات سے بھی متعلق تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ خواجہ ناظم الدین کو اقتدار کی کرسی سے اتار پھینکیں خود اپنی قیـادت مـیں ایک مرکزی حکومت قائم کریں اور پاکستان کو ایک کمـیونسٹ مملکت بنادیں<۔~ف۲۰~
۲۔ اخبار >زمـیندار، سپرا ۵۰۰ لاہور کے ایڈیٹر مولانا اختر علی صاحب کا بیـان
>انہوں نے اپنے بیـان مـیں بتایـا کہ مسلم پارٹیز کنونشن کا اجلاس مجلس احرار نے طلب کیـا تھا۔ اور کنویننگ کمـیٹی مـیں بھی احرار کی غالب اکثریت تھی۔ مولانا نے یہ بھی بیـان کیـا کہ تحریک ختم نبوت مـیں احرار پیش پیش تھے کیونکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی شہرت بحال کرنا چاہتے تھے<۔~ف۲۱~
س:
کیـا آپ کے دعویٰ اسلام سے یہ بات مطابقت رکھتی ہے کہ پروپیگنڈا کی خاطر موقع بہ موقع جھوٹ بولا جائے؟
ج:
ہر سیـاست دان جھوٹ بولتا ہے۔
س:
کیـا آپ نے یہ جھوٹ سیـاست دان کی حیثیت سے بولا تھا یـا ایک مسلمان کی حیثیت سے؟
ج:
ایک مسلمان کے نزدیک مذہب اور سیـاست دو مختلف چیز نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔
س:
کیـا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ایک مسلمان سیـاست دان جھوٹ بولے تو وہ مسلمان کی حیثیت سے جھوٹ بولتا ہے؟
ج:
جب آپ سیـاستدانوں کو جھوٹ بولنے کا حق دیتے ہیں تو علماء کو اس حق سے محروم کیوں رکھتے ہیں؟~<ف۲۲~
۳۔ جماعت اسلامـی کے سابق لیڈر مولانا امـین احسن اصلاحی کا بیـان
>انہوں نے مسلمانوں کو دو زمروں مـیں تقسیم کیـا۔ سیـاسی مسلمان اور حقیقی مسلمان۔ اس کے بعد انہوں نے ان دس عناصر کی تفصیل بیـان کی جوی کو سیـاسی مسلمان بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ اور کہا کہ وہ اگر ان تمام شرائط کو پورا کرے تو وہ اسلامـی ریـاست کے تمام شہری حقوق کا مستحق ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیـاسی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا عقیدہ خدا کی وحدانیت پر ہو۔ رسول اللہﷺ~ کو خاتم النبیین مانتا ہو اور وہ زندگی کے تمام مسائل کے متعلق ان کے حکم کو آخری سمجھتا ہو۔ یہ اصول مانتا ہو کہ ہر خیر اور ہر شر کو خدا پیدا کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ قیـامت پر )ہو( اور قرآن کو خدا کا آخری صحیفہ سمجھتا ہو۔
انہوں نے کہا کہ سیـاسی مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہئے۔ زکٰوٰہ ادا کرنی چاہئے۔ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھنی چاہئے۔ اسلامـی معاشرے کے تمام قواعد ظاہرہ پر عمل کرنا اور روزہ رکھنا چاہئے۔
گواہ نے کہا کہ مذکورہ بالا شرائط مـیں سے کوئی ایک بھی شرط پوری نہ کی جائے تو متعلقہ شخص سیـاسی مسلمان نہیں رہ جاتا۔
بعد مـیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی شخص ان دس اصولوں پر عقیدہ رکھتا )ہو( تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے قطع نظر اس حقیقت کے کہ وہ ان پر عمل کرتا ہے یـا نہیں<۔~ف۲۳~
>حکومت پنجاب کی طرف کی طرف سے مسٹر فضل الٰہی کی جرح کے جواب مـیں گواہ نے کہا کہ جون اور جولائی کے مہینے مـیں تحریک کے سلسلے مـیں کچھ بدنظمـیاں ہوئی تھیں۔ لیکن جماعت کو اس پر بہت زیـادہ تشویش ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ خیـال کیـا گیـا تھا کہ ایک دفعہ عوام اگر دھمکی یـا تشدد سے اپنے مطالبات منوانے مـیں کامـیاب ہو گئے تو اس ملک مـیں پھر کوئی چیز پرامن طریقے پر کرنی ناممکن ہو جائے گی۔ یہ بھی محسوس کیـا گیـا کہ یہاں تشدد پر اترنے کا رجحان موجود ہے۔ ہم نے مجلس عمل مـیں اس لئے شمولیت کی تھی کیونکہ ہمارا خیـال تھا کہ چونکہ مجلس مـیں شورش پسند عنصر موجود ہے۔ اور ہماری جماعت کے لئے یہ ضروری تھا کہ اس عنصر کو تشدد کے ذرائع استعمال کرنے سے باز رکھا جائے<۔~ف۲۴~
۴۔ چیف ایڈیٹر >زمـیندار< مسٹر اے آر شبلی
شبلی صاحب نے یہ چشم دید واقعہ بیـان کیـا: سپرا ۵۰۰ >احرار اور مـیاں ممتاز محمد خاں کے درمـیان ایک >شریفانہ< معاہدہ کرنے کے سوال پر مـیری موجودگی مـیں بحث کی گئی تھی۔ احرار کی طرف سے صاحبزادہ فیض الحسن اور سید عطاء اللہ اللہ شاہ بخاری اور دوسری طرف سے مولانا اختر علی خاں نے باتیں کی تھیں۔ سمجھوتہ یہ ہوا تھا کہ احرار احمدیوں کے خلاف تحریک جاری رکھیں گے۔ اور مسٹر دولتانہ صوبے مـیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ اس کے بدلے مـیں احرار کو انتخابات اور دوسرے معاملات مـیں مسٹر دولتانہ کی حمایت کرنی تھی۔ یہ معاہدہ غالباً جولائی ۱۹۵۲ء مـیں مسٹر دولتانہ کی مری سے واپسی کے بعد ہوا تھا<۔~ف۲۵~
۵۔ جناب حمدی نظامـی صاحب مدیر روزنامہ نوائے وقت لاہور کا بیـان
ملک کے نامور صحافی جناب حمـید نظامـی صاحب کے بیـان کا ایک حصہ:
سوال: کیـا آپ مطالبات کے حق مـیں تھے؟
جواب: جی نہیں۔ ہرگز نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ان مطالبات کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔
مسٹر حمـید نظامـی نے کہا مـیرا جواب وہی ہے جو مـیں نے مسٹر غیـاث الدین احمد ہوم سیکرٹری اور خان قربانی علی خان انسپکٹر جنرل پولیس کو دیـا تھا کہ اگر مـیں نے صاف اور واضح لفظوں مـیں ان مطالبات کے خلاف لکھا ہوتا تو مجھےی تحفظ کی توقع نہ تھی۔ اور مـیرا دفتر محکمہ تعلقات عامہ کے اشارہ پر جلا کر راکھ کر دیـا ہوتا۔ جو اس تحریک کو ہوا دے رہا تھا۔
سوال: اگر آپ نے ان مطالبات کی مخالفت کی ہوتی تو کیـا آپ کے اخبار کی اشاعت کم نہ ہوتی؟
جواب: مـیں نے کبھی اخبار کی فروخت کو اپنی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونے دیـا۔
سوال: کیـا آپ کوی ذاتی نقصان کا خدشہ تھا؟
جواب: جی ہاں مجھے کئی خط ملے جن مـیں مجھے قتل کی دھمکی دی گئی تھی۔
سوال: کیـا آپ نے اس دھمکی کای سے ذکر کیـا۔ مثال کے طور پر وزیراعظم۔ مسٹر گورمانی اور ڈاکٹر اشتیـاق حسین قریشی سے؟
جواب: جی ہاں مـیں نے اس کا ذکر مسٹر گورمانی اور ڈاکٹر اشتیـاق حسین قریشی سے کیـا۔
سوال: اپ ان مطالبات کے خلاف کیوں تھے؟
جواب: مـیں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ مطالبات بعض سیـاسی طالع آزمائوں نے سیـاسی مقاصد کے حصول کے لئے کئے تھے۔
سوال: کیـا آپ مطالبات سے متفق ہیں؟
جواب: اب کوئی مطالبہ ہی نہیں۔
سوال: کیـا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیـا جائے؟
جواب: اب کوئی مطالبہ ہی نہیں۔
سوال: کیـا آپ سمجھتے ہیں کہ احدی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں اقلیت قرار دیـا جائے؟
جواب: ہرگز نہیں۔
سوال: کیـا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ وزیر خارجہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیـا جائے؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیـا آپ سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کو کلیدی ملازمتوں سے علیحدہ کر دیـا جائے؟
جواب: ایسی تجویز تو ہندو شہریوں کے متعلق بھی پیش نہیں کرنی چاہئے<۔~ف۲۶~
‏tav.14.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب کا بیـان
مسٹر غیـاث الدین احمد صاحب ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب نے کہا:
>اس بات مـیںی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قادیـانیوں کے خلاف تحریک کے مبلغ و محرک احرار تھے۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ عوام کے مذہبی جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے اس سیـاسی غرض سے کام لے رہے تھے تاکہ وہ سیـاسی طور پر دوبارہ زندہ ہوجائیں۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ختم رسالت پر مسلمان کا بنیـادی عقیدہ ہے۔ لیکن احرار تحریک پھیلانا اور یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ تحریک صرف انہیں کی تخلیق نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان اس کے پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی مـیں انہوں نے اس موضوع کو اپنی واحد سیـاسی اجارہ داری بنا رکھا تھا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ وہ سیـاسی طور پر مٹ جائیں گے تو انہوں نے اس مسئلہ کو عوام کی دلچسپی کا سوال بنا دیـا۔ گواہ کے بیـان کے مطابق ان کا خیـال یہ تھا کہ اگر مطالبات منظور کر لئے گئے تو وہ اپنی ذاتی فتح کا دعویٰ کریں کیونکہ وہ اس مسئلہ کے بانی تھے لیکن کوئی نقصان پہنچا تو ہر شخص اس مـیں شرک ہوگا<۔~ف۲۷~
پانچواں باب
تحقیقاتی عدالت کی کارروائی یکم جولائی ۱۹۵۳ء سے شروع ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۵۴ء تک جاری رہی۔ کل ۱۱۷ اجلاس ہوئے۔ جن مـیں ۹۲ اجلاس شہادتوں کی سماعت اور اندراج کے لئے مخصوص رہے۔ شہادت ۲۳۔ جنوری ۱۹۵۴ء کو ختم ہوئی اور اس مقدمے پر بحث کا آغاز یکم فروری کو اور اختتام ۲۸/ فروری ۱۹۵۴ء کو ہوا۔ اس تحقیقات کا ریکارڈ تحریری بیـانات ۳۶۰۰ صفحات اور شہادت اور بحث کے دوران مـیں کثیر التعداد چٹھیـاں بھی وصول ہوئیں جو کئی کئی صفحوں پر لکھی ہوئی تھیں۔ اور چند کی ضخامت تو سو صفحے سے بھی زیـادہ تھی۔ عدالت نے ایک ایک چٹھی کو نہایت احتیـاط سے پڑھا~ف۲۸~ اور پانچ ہفتوں مـین اپنے نتائج فکر مرتب کئے اور رپورٹ قلمبند کی جو انگریزی مـیں ۲۱/ اپریل ۱۹۵۴ء کو شائع کر دی گئی۔ یہ رپورٹ بڑی تقطیع کے ۲۸۷ صفحات اور تقریباً ایک لاکھ الفاظ پر مشتمل تھی۔ بعد مـین اس کا اردو ایڈیشن بھی شائع کیـا گیـا۔
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اور جماعت احمدیہ کی بریت و مظلومـیت
اگرہ حالات سراسر ناموافق تھے اور ماحول انتہائی مخالف تھا مگر خداتعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کے تحریری و تقریری بیـانات کے نتیجہ مـیں معزز عدالت کے سامنے صداقت بہت حد تک آشکار ہوگئی۔ حق کا بول بالا ہوا۔ جماعت احمدیہ کی بریت اور مظلومـیت ثابت ہوئی اور اس کے مخالفین کے مظالم اور خفیہ منصوبے پوری طرح بے نقاب ہوگئے۔ اور ہوئے بھی حکومت پنجاب کے ذریعے جس نے سرکاری سطح پر آٹھ ماہ تک فسادات پنجاب کی تحقیقات پر لاکھوں روپیہ اپنے بجٹ سے صرف کیـا اور پھر فاضل جج صاحبان کی مستند رپورٹ کے اردو اور انگریزی ایڈیشن زرکثیر سے چھپوا کر ملک بھر مـیں شائع کئے۔
یہ رپورٹ درحقیقت ۱۹۵۳ء کے فسادات کی مفصل تاریخ ہے۔ جس پر اس دور کے پاکستانی پریس نے فاضل ججوں کو زبردست خراج تحسین ادا کیـا۔ ملک کے صحافیوں اور دانشوروں نے بالاتفاق اس کو ایک تاریخی دستاویز تسلیم کیـا۔~ف۲۹~
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ جماعت احمدیہ کی مظلومـیت اور اس کے خلاف الزامات کی بریت سے پر ہے مثلاً فاضل ججوں نے احمدیوں کے خلاف صوبائی حکومت کے افسوس ناک طرز عمل کا نقشہ کھینچتے ہوئے اپنی رائے حسب ذیل الفاظ مـیں دی:
>احراریوں سے تو ایسا برتائو کیـا گیـا گویـا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیـا۔ احراریوں کا رویہ اس بچے کا سا تھا جس کو اس کا باپی اجنبی کو پیٹنے پر سزا کی دھمکی دیتا ہے اور وہ بچہ یہ جان کر کہ اسے سزا نہ دی جائےاجنبی کو پھر پیٹنے لگتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے باپ محض پریشان ہو کر بیٹے کو مارتا ہے لیکن نرمـی سے تاکہ اسے چوٹ نہ لگے<۔~ف۳۰~
ایک افواہ اور اس کی تردید
فاضل ججوں نے ان چالوں کا بھی ذکر کیـا ہے جو شورش پسندوں نے حکام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے اختیـار کر رکھی تھی مثلاً ایک یہ حال بیـان کی کہ:
>یہ افواہ پھیلائی گئی کہ احمدی موٹر کاروں مـیں سوار ہوکر اندھا دھند لوگوں پر گولیـاں چلا رہے ہیں<۔
فاضل جج اس افواہ سے متعلق لکھتے ہیں:
>یہ بیـان کہ بعض احمدی فوجی وردیـاں پہنے ایک جیپ مـیں سوار ہو کر لوگوں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہمارے سامنے موضوع ثبوت بنایـا گیـا اور اس کی تائید مـیں متعدد گواہ پیش کئے گئے۔ اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک پراسرار گاڑی مـیں بعض نامعلوم آدمـی اس دن شہر مـیں گھومتے رہے لیکن ہمارے سامنے اس امر کی کوئی شہادت نہیں کہ اس گاڑی مـیں احمدی سوار تھے یـا وہ گاڑیی احمدی کی ملکیت تھی<۔~ف۳۱~
جماعت احمدیہ کے امام اور دوسرے بزرگوں کو احراری لیڈروں نے فحش اور اخلاق سوز گالیـاں دیں۔ اس کا ذکر فاضل جج صاحبان نے درج ذیل الفاظ مـیں کیـا ہے:
>ایک اردو اخبار مزدور ملتان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹر سید ابو ذر بخاری ہے جو مشہور احراری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے۔ اس اخبار کی غالب توجہ صرف احمدیوں کے خلاف تحریک پر مرتکز رہی ہے۔ اس نے اپنی اشاعت مئورخہ ۱۳/ جون ۱۹۵۲ء مـیں ایک مضمون شائع کیـا جس مـیں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط مـیں ایک ایسی پست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمـیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کےی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہی کی کھوپڑی توڑ دی جاتی تو ہمـیں اس پر ذرا بھی تعجب نہ ہوتا۔ جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ پرلے درجے کے مکروہ اور مبتذل ذوق کا ثبوت ہیں۔ اور ان مـین اس مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریم~صل۱~ کی زبان ہے<۔~ف۳۲~
اس زمانہ مـیں >آزاد< احراریوں کا ترجمان تھا۔ فاضل جج صاحبان اس اخبار کی شرمناک اشتعال انگیزیوں کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:
>آزاد< احراریوں کا اخبار ہے جس کے ایڈیٹر ماسٹر تاج الدین انصاری ہیں۔ اس اخبار نے اپنے آغاز ہی سے اپنے کالموں مـیں احمدیوں اور ان کے عقائد اور ان کے لیڈروں کے خلاف نہایت بازاری` ناشائستہ اور زہریلی مہم جاری کر رکھی تھی۔ چونکہ حکومت پنجاب نے اس کی سرگرمـیوں کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہ اٹھایـا تھا اس لئے مرکزی حکومت نے اپنی چٹھی نمبری 1۔Poll ۵۱/۱/۴۴ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۵۲ء مـیں اس اخبار کے بعض مضامـین کے تراشے منسلک کر کے ان کی طرف حکومت پنجاب کی توجہ مبذول کرائی۔۔۔۔ لیکن اس اخبار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اور حکومت پنجاب نے اپنی چٹھی ڈی۔ او نمبری ۵۲ PR ۷۸۸ مورخہ ۳۰/ اگست ۱۹۵۲ء مـیں مرکزی حکومت کو صرف یہ اطلاع دے دی کہ اخبار مذکور کو شدید تنبیہہ کر دی گئی ہے<۔~ف۳۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت کا ایک اہم انکشاف
فاضل جج صاحبان نے اپنی رپورٹ مـیں گوجرانوالہ کے حالات بیـان کرتے ہوئے یہ اہم انکشاف کیـا کہ جولائی ۱۹۵۲ء کی ایک کانفرنس مـیں ایک مقرر نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے قتل پر اکسایـا اور احمدی کو قتل کرنا موجب رضائے الٰہی قرار دیـا۔ رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:
>جولائی ۱۹۵۲ء مـیں ایک اور کانفرنس ہوئی جس مـیں صاحبزادہ فیض الحسن نے یہ اعلان کیـا کہ احمدی کو قتل کرنا رضائے الٰہی کا موجب ہے جب کانفرنس ختم ہوئی تو مولانا اختر علی خان کے اعزاز مـین ایک دعوت چائے دی گئی جس مـین ڈپٹی کمشنر اور مسلم لیگی لیڈر بھی شامل ہوئے بعد مـیں احمدیوں نے ڈپٹی کمشنر سے شکایت کی کہ اس کانفرنس مـیں ایک مقرر نے حاضرین کو امام جماعت احمدیہ کے قتل پر اکسایـا تھا<۔~ف۳۴~
یہ اشتعال انگیزیـاں جو معلوم نہیں شورش کے ایـام مـیں شکل مـیں اور مقام پر کی گئیں پنجاب کی مسلم لیگ حکومت نے ان کو ذرہ برابر کوئی حیثیت نہ دی` بببالاخر رنگ لائیں اور ۱۰/ مارچ ۱۹۵۴ء کو یعنی تحقیـاتی عدالت مـیں بیـان کے صرف دو ماہ کے اندر حضرت مصلح موعود پر ایک بدبخت نے بیت مبارک ربوہ مـیں نماز عصر کے بعد چاقو سے حملہ کر دیـا۔ اس دردناک حادثہ کی تفصیل تاریخ احمدیت کی ۱۵ ویں جلد مـیں آ رہی ہے۔
مارسل لاء پر منتج ہونے والے کوائف
وہ کوائف کیـا تھے جو ۶/ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور مـیں مارشل لاء کے نفاذ کا موجب ہوئے؟؟ فاضل جج صاحبان نے اس ضمن مـیں لکھا:
>یہ امر تمام جماعتوں کے نزدیک مسلم ہے کہ ۶/ مارچ کو جو کوائف موجود تھے ان مـیں حالات کو فوج کے حوالے اور سول اقتدار کو فوج کے ماتحت کر دینا بالکل ناگزیر ہو چکا تھا۔ سول کے حکام جو عام حالات مـیں قانون و انتظام کے قیـام کے ذمہ دار ہوتے ہیں کاملاً بے بس ہو چکے تھے اور ان مـیں ۶/ مارچ کو پیدا ہونے والی صورت حالات کا مقابلہ کرنے کی کوئی خواہش اور اہلیت باقی نہ رہی تھی۔ نظم حکومت کی مشینری بالکل بگڑ چکی تھی اور کوئی شخص مجرموں کو گرفتار کر کے یـا ارتکاب جرم کو روک کر قانون کو نافذالعمل کرنے کی ذمہ داری لینے پر آمادہ یـا خواہاں نہ تھا۔ انسانوں کے بڑے بڑے مجمعوں نے جو معمولی حالات مـیں معقول اور سنجیدہ شہریوں پر مشتمل تھے ایسے سرکش اور جنوں زدہ ہجوموں کی شکل اختیـار کرلی تھی جن کا واحد جذبہ یہ تھا کہ قانون کی نافرمانی کریں اور حکومت وقت کو جھکنے پر مجبور کردیں۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے کے ادنیٰ اور ذلیل عناصر موجودہ بدنظمـی اور ابتری سے فائدہ اٹھا کر جنگل کے درندوں کی طرح لوگوں قتل کر رہے تھے۔ ان کی املاک کو لوٹ رہے تھے اور قیمتی جائیداد کو نذر آتش کر رہے تھے محض اس لئے کہ یہ ایک دلچسپ تماشا تھا۔ یـای خیـالی دشمن سے بدلہ لیـا جا رہا تھا۔ پوری مشینری جو معاشرے کو زندہ رکھتی ہے پرزہ پرزہ ہو چکی تھی۔ اور مجنون انسانوں کو دوبارہ ہوش مـیں لانے اور بے بس شہریوں کی حفاظت کرنے کے لئے ضروری ہوگیـا تھا کہ سخت سے سخت تدابیر اختیـار کی جائیں گویـا مارشل لاء کے نفاذ کی براہ راست ذمہ دار فسادات تھے<۔~ف۳۵~
صوبائی حکومت اور سیـاسی لیڈروں کا طرز عمل
اس کھلی بغاوت کے دوران صوبائی حکومت اور لاہور کے سیـاسی لیڈروں کا طرزعمل کیـا تھا؟ اس پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ حسب ذیل روشنی ڈالتی ہے:
>۵/ مارچ کی سہ پہر کو گورنمنٹ ہائوس مـیں شہریوں کا جو اجلاس ہوا اس مـیں کوئی لیڈر کوئی سیـاسی آدمـی اور کوئی شہری اس پر آمادہ نہ ہوا کہ شہریوں سے عقل و ہوش اختیـار کرنے کی اپیل پر دستخط کرے۔ سب خوفزدہ تھے کہ ایسا کرنے سے وہ عوام مـیں نامقبول ہو جائیں گے۔ بلوائی ہجوم نے کوتوالی کا محاصرہ کر رکھا تھا اور ۵/ مارچ کی شام کو وزراء و حکام کے اجلاس مـین جو فیصلے کئے گئے ان کا مطلب پولیس نے یہ سمجھا کہ گولی چلانا بالکل بند کر دیـا جائے۔ لہذا بلوائی ہجوم نے کوتوالی کا محاصرہ جاری رکھا۔ اور ۶/ مارچ کی صبح کو حکومت کی مشینری مـیں پورے سقوط کے آثار نظر آنے لگے۔ یہاں تک کہ حکومت نے طوائف الملوکی کے آگے کھلم کھلا ہتھیـار ڈال دینے کا اعلان کر دیـا۔ اس دن صبح کو چیف منسٹر کا >بیـان< محض >مـیکیـاولیت< کا ایک نمونہ تھا۔ لیکن یہ چال کامـیاب نہ ہو سکی۔ صورت حالات بالکل قابو سے باہر ہوگئی اور شہریوں نے محسوس کیـا کہ ان کے جان و مال کو سخت خطرہ درپیش ہے الخ<۔~ف۳۶~
>سہ پہر کے جلسہ مـیں گورنر اور چیف منسٹر کے ایماء پر انسپکٹر جنرل پولیس نے صورت حالات کی مفصل کیفیت بیـان کی۔ ان کے بعد دو اور مقررین یعنی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مسٹر احمد سعید کرمانی ایم ایل اے نے تقریریں کیں۔ مولانا نے صورت حالات کو حکومت اور عوام کے درمـیان خانہ جنگی سے تعبیر کیـا اور بتایـا کہ جب تک حکومت عوام کے مطالبات کے متعلق غور کرنے پر آمادگی ظاہر کرےمـیںی اپیل مـیں شریک نہیں ہو سکتا<۔~ف۳۷~
انہی کے متعلق ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ:
>جماعت اسلامـی کے لیڈر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حکومت ان کی سرتوڑ کوششوں مـیں جو وہ ۵/ مارچ کو فسادات کے روکنے کے لئے کر رہی تھیی قسم کا تعاون پیش نہ کیـا۔۔۔۔ اس کے برعمولانا نے سرکشانہ رویہ اختیـار کیـا تمام واقعات کا الزام حکومت پر عائد کیـا اور فسادی عناصر کو >تشدد کا شکار< کہہ کر ان سے عام ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گورنمنٹ ہائوس مـیں انہوں نے جو رویہ اختیـار اس کے متعلق جو شہادت پیش ہوئی ہے اس سے ہم یہی اثر قبول کر سکتے ہیں کہ وہ پورے نظام حکومت کے انہدام کی توقع کر رہے تھے اور حکومت کی متوقع پریشانی پر بغلیں بجا رہے تھے<۔~۳۸~
>اس نے ان فسادات کو فرو کرنے کے لئے جو نہایت سرعت سے نہایت تشویش انگیز صورت اختیـار کر رہے تھے قوت کا استعمال کیـا۔ سید فردوس شاہ کو ۴ کی شام کو ایک غضب ناک ہجوم نے مسجد وزیر خاں کے اندر یـا باہر قتل کر دیـا۔ یہ بعد مـیں ہونے والے واقعات کا محض اک پیش خیمہ تھا لیکن اس حادثے کے بعد بھی جماعت اسلامـی نے نہ اظہار تاسف کیـا نہ اس وحشیـانہ قتل کی مذمت مـیں ایک لفظ کہا بلکہ اس کے برعاس جماعت کے بانی نے آگ اور خون کے اس ہولناک ہنگامے کے درمـیان >قادیـانی مسئلہ< کا بم پھینک دیـا<۔~ف۳۹~
فسادات کی ذمہ داری
تحقیقاتی عدالت کے بنیـادی فرائض مـیں یہ شامل تھا کہ وہ تحقیق و تفتیش کے بعد رائے قائم کرے کہ فسادات کی ذمہ داری جماعت یـا فرد پر عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے فاضل جج صاحبان نے اگرچہ بعض واقعات کی طرف اشارہ کر کے یہ لکھا کہ:
>ان کے خلاف عام شورش کا موقع خود انہیں کے طرزعمل نے بہم پہنچایـا<۔iq] ¶~[tagف۴۰~
مگربایں ہمہ انہوں نے واضح لفظوں مـیں یہ فیصلہ دیـا:
>احمدی براہ راست فسادات کے لئے ذمہ دار نہ تھے کیونکہ فسادات حکومت کے اس اقدام کا نتیجہ تھے جو حکومت نے اس پروگرام کے خلاف کیـا تھا جو ڈائریکٹ ایکشن کی قرارداد کے ماتحت آل مسلم پارٹیز کنونشن نے اختیـار کرنے کا فیصلہ کیـا تھا<۔~ف۴۱~
اس کے مقابل فاضل ججوں نے اپنی تحقیقات کی بناء پر مندرجہ ذیل جماعتوں یـا اداروں کو فسادات پنجاب کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایـا:
)۱( مجلس اہرار )۲( جماعت اسلامـی )۳( آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کراچی )۴( آل مسلم پارٹیز کنونشن لاہور )۵( تعلیمات اسلامـی بورڈ کراچی کے ممبر )۶( صوبائی مسلم لیگ )۷( مرکزی حکومت )۸( محکمئہ اسلامـیات )۹( اخبارات
مطالبات کا بچہ
فاضل جج صاحبان نے اپنی رپورٹ مـیں یہ بھی لکھا:
>خواجہ ناظم الدین نے اپنی شہادت مـیں ایک نہایت موزوں تشبیہہ استعمال کی ہے۔ اور شکایت کی ہے کہ مسٹر دولتانہ چاہتے تھے کہ مـیں >ننھے کو لئے رہوں< اگر مطالبات کو ایک ننھے بچے سے تشبیہہ دی جائے۔ تو ذمہ داری کے پورے موضوع کو ایک فقرے مـیں بیـان کیـا جا سکتا ہے۔ مثلاً احرار نے ایک بچہ جنا جسے انہوں نے متبنیٰ بنانے کے لئے علماء کی خدمت مـیں پیش کیـا۔ علماء نے اس کا باپ بننا منظور کرلیـا۔ لیکن مسٹر دولتانہ نے سمجھ لیـا کہ یہ بچہ بڑا ہوکر پنجاب مـیں شرارت کرے گا لہذا انہوں نے اس کو ایک نہر مـیں بہا دیـا۔ جو مـیر نور احمد کی مدد سے کھو دی گئی تھی۔ اور جس کو پانی اخباروں نے اور خود سٹر دولتانہ نے مہیـا کیـا تھا۔ جب یہ بچہ حضرت موسیٰ کی طرح بہتا ہوا خواجہ ناظم الدین تک پہنچا تو انہوں نے دیکھا۔ کہ بچہ خوبصورت تو ہے۔ لیکن اس کے چہرے پر ایک چین جبین اور ایک غیر معلوم سی ناگواری نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کو گود مـیں لینے سے انکار کیـا۔ اور پرے پھینک دیـا۔ اس پر بچے نے ایڑیـاں رگڑنا اور شور مچانا شروع کر دیـا۔ اس شور نے اس کی پیدائش کے صوبے کو اپنی لپیٹ مـیں لے لیـا۔ اور خواجہ ناظم الدین اور مسٹر دولتانہ دونوں کو موقوف کرا دیـا۔ یہ بچہ ابھی زندہ ہے اور راہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی آئے اور اسے اٹھا کر گود مـیں لے لے۔ اس مملکت خداداد پاکستان مـین سیـاسی ڈاکوئوں۔ طالع آزمائوں اور گمنام اور بے حیثیت آدمـیوں۔ غرض سب کے لئے کوئی نہ کوئی روزگار موجود ہے۔ ہمارے سامنے صرف دو ایسے آدمـی ہیں` جنہوں نے اس قسم کا روزگار قبول کرنے سے انکار کیـا ہے۔ یعنی سردار بہادر خاں وزیر مواصلات اور مسٹر حمـید نظامـی ایڈیٹر >نوائے وقت< انہوں نے اس بچے کو اور اس کے تمام نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیـا<۔~ف۴۲~
رپورٹ کے اختتامـی الفاظ
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ مندرجہ زیل فقرات پر ختم ہوتی ہے ہمارا خیـال ہے کہ یہ مطالبات بغیری مذہبی احتیـاط کے بغیر امن عامہ کو خطرے مـیں ڈالے اور بغیر حسیـات عامہ کو صدمہ پہنچائے مسترد کئے جا سکتے تھے۔ لیکن ہمارے نزدیک قانون و انتظام کی صورت حالات کے مقاصد کے لئے ان کا جواب دینا بالکل ضروری نہ تھا۔ وہ صورت حالات تو ایک سادہ کم امتناعی کے نفاذ ہی سے بہت بہتر ہوگئی تھی )گو وہ حکم بہت ناکافی تھا( لیکن جب جولائی ۱۹۵۲ء کے بعد احرار اور علماء کے ہر قول و فعل کی طرف سے کامل بے پروائی کا رویہ اختیـار کرلیـا گیـا` تو وہ صورت حالات پھر بگڑتی چلی گئی۔ بلکہ اس کے برعچیف منسٹر کی ان تقریروں کی وجہ سے یہ بگاڑ اور بھی زیـادہ ہوگیـا۔ جن مـیں انہوں نے علی الاعلان یہ خیـال ظاہر کیـا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔
اخبارات نے یقیناً ڈائریکٹر تعلقات عامہ کی حوصلہ افزائی سے شورش کی آگ کو ہوا دی اور ہم ڈاکٹر قریشی کے اس خیـال سے متفق ہیں کہ مسٹر دولتانہ ہرگز اس امر سے بے خبر نہ ہو سکتے تھے۔ کہ اخبارات کیـا کر رہے ہیں۔ اردو کے چار اخباروں کو ان کے ہزاروں پرچوں کے عوض بڑی بڑی رقمـیں دی گئیں اور وہ پرچے بھی شاید خریدے نہ گئے۔ اور یہ سب کچھ ایک پرانی پالیسی کی تعمـیل مـیں کیـا گیـا۔ کہ حکومت کی حمایت کرنے والے اخباروں کی سرپرستی کی جائے اور اگرچہ یہی اخبارات سب سے زیـادہ شورش انگیزی کر رہے تھے۔ لیکن جولائی ۱۹۵۲ء مـیں ان کے معاہدوں کی تجدید کر دی گئی اور مسٹر دولتانہ کو اس کا علم تھا دو لاکھ روپے کی رقم جو اسمبلی نے ناخواندہ بالغوں کی تعلیم کے لئے منظور کی تھی۔ مسٹر دولتانہ کے احکام کے ماتحت ان چار اخباروں کی خریداری کیلئے منتقل کر لی گئی۔ اور کہا گیـا کہ اس سکیم کو خفیہ رکھا جائے۔ ڈائریکٹر نے نہایت خیرہ چشمـی سے ہمارے سامنے بیـان کیـا کہ یہ سکیم خواندگی کو ترقی دینے کے لئے نہیں بلکہ خاص قسم کے اخباروں کی امداد کے لئے وضع کی گئی تھی۔ >زمـیندار< باوجود اس امر کے کہ وہ جولائی ۱۹۵۲ء کے بعد بھی جب ڈاکٹر قریشی نے مسٹر دولتانہ سے شکایت کی تھی` برابر نفرت کی تلقین و اشاعت کرتا رہا۔ گویـا مامور من اللہ سمجھا جاتا رہا اور اس کے خلاف اقدام اس وقت تک ملتوی ہوتا رہا۔ جب آخر اس التواء کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ کیونکہ مرکز نے سخت شکایت کی تھی۔ احراریوں کے آرگن >آزاد< کی طرف مرکز نے بار بار صوبائی حکومت کو توجہ دلائی اور صوبائی حکومت نے ہر دفعہ محض تنبیہہ پر اکتفا کیـا۔
مجلس عمل کے چیلنج کو دونوں مـیں سےی حکومت نے بھی سنجیدگی سے قابل توجہ نہ سمجھا۔ خواجہ ناظم الدین آخری لمحے تک اسی امـید مـیں رہے کہ غیب سے کوئی اچھا سامان ہو جائے گا۔ اور صوبائی حکومت مطمئن رہی کہ شورش کا آغاز کراچی مـیں ہوگا۔
آخرکار جب الٹی مـیٹم رد کر دیـا گیـا۔ تو پوری صورت حالات کو بالکل تھیٹر کے ایک پرامن تماشے کی طرح سمجھا گیـا۔ جس مـین مطمئن سامعین کی دلچسپی کے لئے سٹیج پر جلوس نکالے اور نعرے لگائے جا رہے ہوں۔ لاہور مـین جلوس قریب قریب روزانہ نکلتے ہیں۔ اور کوئی شخص ان کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ جرگے بہت ہو رہے تھے۔اور کارروائی بالکل مفقود تھی` پولیس بھی موجود تھی اور فوج بھی موجود تھی۔ اور جیسا کہ آفیسر نے کہا ہر شخص صورت حالات کے متعلق گہرے غور و خوض مـیں مصروف تھا اور ہر شخص کو معلوم تھا۔ کہ کیـا کرنا چاہئے۔ ہر شخص محسوس کر رہا تھا۔ کہ فوج خاصا کام انجام دے سکتی تھی۔ لیکنی کو یہ معلوم نہ تھا: کہ ایسا کیوں نہ ہوا<۔
>بعض کہتے ہیں کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ دوسرے کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ لوگ یونہی قیـاسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔ تو کہہ دے کہ مـیرا خدا بہتر جانتا ہے )کہف(
ہمـیں یقین واثق ہے کہ اگر احرار کے مسئلے کو سیـاسی مصالح سے الگ ہوکر محض قانون و انتظام کا مسئلہ قرار دیـا جاتا تو صرف ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس ان کے تدارک کے لئے کافی تھے۔ چنانچہ وہ طاقت جسے انسانی ضمـیر کہتے ہیں۔ ہمـیں یہ سوال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ کہ آیـا ہمارے سیـاسی ارتقاء کے موجودہ مرحلے پر قانون و انتظام کا مسئلہ اس جمہوری >ہم بستر< سے علیحدہ نہیں کیـا جا سکتا جسے وزارتی حکومت کہتے ہیں۔ اور جس کے سینے پر ہر وقت کا بوس سوار رہتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ قانون و انتظام کو سیـاسی اغراض کے ماتحت کر دیـا جائے تو اللہ تعالیٰ ہی علیم و خبیر ہے کہ کیـا ہوگا اور یہاں ہم رپورٹ کو ختم کرتے ہیں<۔~ف۴۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اور احراری الزامات کا جائزہ
احرار لیڈر ملک مـیں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کے لئے جو الزامات جماعت احمدیہ پر مسلسل عائد کر رہے تھے۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ مـیں ان کا جائزہ بھی لیـا گیـا۔ مثلاً رپورٹ مـیں لکھا ہے:
>احراری مقررین کئی دفعہ اپنی تقریروں مـیں کہہ چکے ہیں کہ مرزا محمود احمد اور چوہدری ظفر اللہ خاں کی غداری ہی کی وجہ سے ضلع گورداسپور بھارت مـیں شامل ہوگیـا اور پاکستان کو نہ مل سکا<۔~ف۴۴~
فاضل ججوں نے اس الزام کو سراسر جھوٹا قرار دیـا اور اپنی رپورٹ مـیں لکھا:
>احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیـاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ بونڈری کمـیشن کے فیصلے مـیں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان مـیں شامل کر دیـا گیـا کہ احمدیوں نے ایک خاص رویہ اختیـار کیـا اور چوہدری ظفراللہ خاں نے جنہیں قائداعظم نے اس کمـیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیـا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمـیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خاں نے گورداسپور کے معاملے مـیں کی تھی۔
یہ حقیقت بائونڈری کمـیشن کے کاغذات مـیں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلے سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات مـیں ان کا ذکر جس انداز مـیں کیـا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے<۔~ف۴۵~
۱۹۵۳ء کی ساری شورش >تحفظ ختم نبوت< کے نام پر اٹھائی گئی تھی۔ فاضل ججوں نے اپنی رپورٹ مـیں جماعت احمدیہ کا ذکر کر کے لکھا:
>ہمارے سامنے جو مئوقف اختیـار کیـا گیـا ہے وہ واضح طور پر یہ ہے کہ مرزا غلام احمد اپنے آپ کو محض اس لئے نبی کہتے تھے کہ ان کو ایک الہام مـیں اللہ تعالیٰ نے نبی کر کے مخاطب کیـا تھا۔ وہ کوئی نیـا قانون یـا ضابطہ نہیں لائے۔ انہوں نے اصلی اور پرانی شریعت مـیں نہ کوئی تنسیخ کی ہے نہ اضافہ کیـا ہے۔ اور مرزا صاحب کی وحی پر ایمان نہ لانے سے کوئی شخص خارج از اسلام قرار نہین دیـا جا سکتا<۔~ف۴۶~
فاضل ججوں نے مسئلئہ وفات و حیـات مسیحؑ کے سلسلہ مـیں جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ درج کیـا ہے کہ:
>مسیحؑ صلیب پر نہیں` بلکہ عام حالات مـیں طبعی موت مرے تھے۔ ان کے خصائل رکھنے والا ایک اور آدمـی موعود تھا۔ چنانچہ وہ مرزا غلام احمد کی شخصیت مـیں ظہور کر چکا ہے۔ وہ نامور علماء و ائمہ کی کئی تحریرات اپنے اس عقیدہ کی تائید مـیں پیش کرتے ہیں کہ روز قیـامت سے پیشتر جو مسیح موعود ظاہر ہونے والا تھا خود مسیح نہیں بلکہ مثیل مسیح ہوگا<۔~ف۴۷~
مدت سے یہ مکروہ پراپیگنڈا بھی کیـا جا رہا تھا کہ معاذ اللہ احمدی جہاد اسلامـی کے منکر ہیں۔ اور یہ کہ بانئی جماعت احمدیہ نے اس جہاد کو جو قران و حدیث سے ثابت ہے اور اسلام کی روح رواں ہے منسوخ کر دیـا ہے۔ فاضل جج صاحبان نے اس بارے مـیں بالوضاحت لکھا کہ:
>جہاں تک عقیدہ جھاد کا تعلق ہے احمدیوں کا خیـال یہ ہے کہ جس جہاد کو جھاد بالسیف کہتے ہیں وہ صرف اپنے دفاع مـیں جائز ہے اور مرزا غلام احمد )صاحب( نے اس مسئلہ پر اپنا خیـال پیش کرتے ہوئے محض ایک عقیدہ مرتب کرلیـا ہے جو قرآن مجید ہی کی متعدد آیـات پر مبنی اور براہ راست اسی سے ماخوذ ہے )فاضل ججوں نے وہ آیـات بھی اس سے قبل نقل کر دیں۔ ناقل( اور مرزا صاحب قرآن مجید کےی قاعدے یـای ہدایت کو منسوخ و موقوف کرنے کے مدعی نہیں ہیں<۔~ف۴۸~
غیر احمدی علماء نے عدالت مـیں جہاد کے متعلق حضرت بانئی جماعت احمدیہ کے بعض اقوال و اقتباسات پیش کئے تھے۔ فاضل ججوں نے ان کا ذکر کر کے لکھا:
>احمدیوں کی طرف سے اس کا جواب یہ دیـا گیـا ہے کہ جو الفاظ و تصریحات استعمال کی گئی ہیں ان مـیں تنسیخ کا مفہوم نہیں بلکہ قرآن مجید کے ایک عقیدے کی تعبیر و توجیہہ ہے جو صدیوں سے غلط فہمـی کا شکار بنا رہا ہے اور بہرکیف ان الفاظ کی تعبیر دوسرے لوگ کچھ بھی کریں احمدیوں نے اس کا مطلب ہمـیشہ یہی سمجھا ہے کہ ان مـیں کوئی نیـا عقیدہ رائج نہیں کیـا گیـا۔ بلکہ اسی اصلی اور ابتدائی عقیدے کا اعادہ ہے جو قرآن مجید مـیں موجود ہے اور مرزا غلام احمد )صاحب( نے صرف پرانے عقیدے کی پاکیزگی کو مـیل کچیل سے پاک کر دیـا۔ جماعت احمدیہ نے اس سلسلہ مـیں >یضع الحرب< کی حدیث بھی پیش کی ہے اور کہا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی تحریرات مـیںی قانون کو منسوخ نہیں کیـا۔ بلکہ اس حدیث کے مطابق صرف قتال کو معطل کر دیـا ہے۔ یہ نکتہ بے حد اہم ہے<۔~ف۴۹~
جماعت احمدیہ اپنے قیـام کے آغاز ہی سے یہ عقیدہ پیش کرتی آ رہی ہے کہ اسلام آزادئی فکر کا علمبردار ہے اور اس مـیں محض ارتداد کی سزا ہرگز قتل نہیں۔ عدالت مـیں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیـا اور مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کے رسالہ >الشہاب< کو بڑی اہمـیت دی گئی جس مـیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام مـیں ارتداد کی سزا قتل ہے۔ فاضل ججوں نے جماعت احمدیہ کے نظریہ کی پرزور تائید کرتے ہوئے لکھا:
>ارتداد کے لئے سزائے موت بہت دور رس متعلقات کی حامل ہے۔ اور اس سے اسلام مذہبی جنونیوں کا دین ظاہر ہوتا ہے جس مـیں حریت فکر مستوجب سزا ہے۔ قرآن تو بار بار عقل و فکر پر زور دیتا ہے۔ رواداری کی تلقین کرتا ہے اور مذہبی امور مـیں جبر و اکراہ کے خلاف تعلیم دیتا ہے لیکن ارتداد کے متعلق جو عقیدہ اس کتابچے مـیں پیش کیـا گیـا ہے۔ وہ آزادئی فکر کی جڑ پر ضرب لگا رہا ہے۔ کیونکہ اس مـیں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ جو شخص پیدائشی مسلمان ہو یـا خود اسلام قبول کر چکا ہو وہ اگر اس خیـال سے مذہب کے موضوع پر فکر کرے کہ جو مذہب اسے پسند آئے اس کو اختیـار کرے تو وہ سزائے موت کا مستوجب ہوگا۔ اس اعتبار سے اسلام کامل ذہنی فالج کا پیکر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس کتابچہ کا یہ بیـان صحیح ہے کہ عرب کے وسیع رقبے بارہا انسانی خون سے رنگین ہوئے تھے تو اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ عین اس زمانے مـیں بھی جب اسلام عظمت و شوکت کے نقطئہ عروج پر تھا اور پورا عرب اس کے زیرنگیں تھا اس ملک مـیں بے شمار ایسے لوگ موجود تھے جو اس مذہب سے منحرف ہوگئے تھے اور انہوں نے اس کے نظام کے ماتحت رہنے پر موت کو ترجیح دی تھی<۔~ف۵۰~
وزیر داخلہ کا جنہوں نے حکومت پنجاب کو اس کتابچہ کی ضبطی کا مشورہ دیـا تھا اور جو خود بھی دینی امور مـیں خاص مہارت رکھتے ہیں ذکر کر کے فاضل جج لکھتے ہیں کہ:
‏iq] gat[انہوںنے >ضرور یہ سوچا ہوگا کہ اس کتابچے کے مصنف نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ اس نظیر پر مبنی ہے جو عہد نامہ عتیق کے فقرات ۲۶`۲۸ مـیں مذکور ہے اور جس کے متعلق قرآن کی دوسری سورٰہ کی چونویں۵۴ آیت مـیں جزوی سا اشارہ کیـا گیـا ہے۔ اس نتیجے کا اطلاق اسلام سے ارتداد پر نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ قرآن مجید مـیں ارتداد پر سزائے موت کی کوئی واضح آیت موجود نہین اس لئے کتابچے کے مصنف کی رائے بالکل غلط ہے بلکہ اس کے برعایک تو سورئہ کافرون کی چھ۶ مختصر آیـات مـیں اور دوسری سورٰہ کی آیت لا اکراہکی تہہ مـیں جو مفہوم ہے اس سے وہ نظریہ بالکل غلط ثابت ہوتا ہے جو >الشھاب< مـیں قائم کیـا گیـا ہے<۔
نیز لکھا:
>سورئہ کافرون صرف تیس۳۰ الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کی کوئی آیت چھ۶ الفاظ سے زیـادہ کی نہیں۔ اس سورت مـیں وہ بنیـادی خصوصیت واضح کی گئی ہے جو کردار انسانی مـیں ابتدائے آفرینش سے موجود ہے۔ اور >لا اکراہ< والی آیت مـین جس کا متعلقہ صرف نو الفاظ پر مشتمل ہے ذہن انسانی کی ذمہ واری کا قاعدہ ایسی صحت کے ساتھ بیـان کیـا گیـا ہے کہ اس سے بہتر صحت ممکن نہیں۔ یہ دونوں متن جو الہام الٰہی کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں` انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اس اصول کی بنیـاد و اساس ہیں جس کو معاشرئہ انسانی نے صدیوں کی جنگ و پیکار اور نفرت و خونریزی کے بعد اختیـار کیـا ہے اور قرار دیـا ہے کہ یہ انسان کے اہم ترین بنیـادی حقوق مـیں سے ہے لیکن ہمارے علماء و محققین اسلام کو جنگجوئی سے کبھی الگ نہیں کریں گے<۔~ف۵۱~
اسلامـی مملکت مـیں غیر مسلموں کے حقوق اور علماء
مخالف علماء چونکہ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے کر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو وزارت خارجہ سے اور دوسرے احمدیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایـا جائے اس لئے فاضل عدالت کے سامنے یہ اہم نکتہ بھی زیر غور آیـا کہ اسلامـی مملکت مـیں غیر مسلموں کو کیـا حیثیت حاصل ہوگی؟ آیـا انہیں وہی حقوق شہریت حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو ہوں گے؟ اور انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق ہوگا یـا نہیں؟ فاضل جج لکھتے ہیں:
اگر ہم اسلامـی دستور نافذ کریں گے تو پاکستان مـیں غیر مسلموں کا مئوقف کیـا ہوگا؟ ممتاز علماء کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کی اسلامـی مملکت مـیں غیر مسلموں کی حیثیت ذمـیوں کی سی ہوگی اور وہ پاکستان کے پورے شہری نہ ہوں گے کیونکہ ان کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ وضع قوانین مـیں ان کی کوئی آواز نہ ہوگی۔ قانون کے نفاذ مـیں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور انہیں سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہوگا<۔~ف۵۲~
فاضل جج مولانا عبدالحامد صاحب بدایونی کی شہادت سے متعلقہ فقرات درج کر کے لکھتے ہیں:
>پس اس عالم دین کی شہادت کی رو سے پاکستان کے غیر مسلم نہ تو شہری ہوں گے نہ انہیں ذمـیوں یـا معاہدوں کی حیثیت حاصل ہوگی<۔~ف۵۳~
امـیر شریعت احرار جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے عدالت مـیں بیـان دیـا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی مسلمانی غیر مسلم حکومت کا وفادار ہو۔ اسی طرح چار کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی مملکت کے وفادار شہری ہوں<۔~ف۵۴~
اس بیـان پر فاضل جج لکھتے ہیں:
>یہ جواب اس نظرئیے کے بالکل مطابق ہے جو ہمارے سامنے پرزور طریق پر پیش کیـا گیـا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دستور کی بنیـاد مذہب پر رکھے تو یہی حق ان ملکوںکو بھی دینا ہوگا۔ جن مـیں مسلمان کافی بڑی اقلیتوں پر مشتمل ہیں یـا جوی ایسے ملک مـیں غالب اکثریت رکھتے ہیں جن مـیں حاکمـیتی غیر مسلم قوم کو حاصل ہے<۔~ف۵۵~
پس جب پاکستان کی اسلامـی حکومت مـیں غیر مسلموں کا یہ مئوقف ہوگا تو ردعمل کے طور پر اس کے بعض نتائج ان مسلمانوں پر ضرور اثر انداز ہون گے جو غیر مسلم مملکتوں مـیں آباد ہیں۔ اس لئے عدالت نے علماء سے یہ سوال کیـا کہ اگر پاکستان مـیں غیر مسلموں کے ساتھ شہریت کے معاملات مـیں مسلموں سے مختلف سلوک کیـا جائے۔ تو کیـا علماء کو اس امر پر اعتراض ہوگا؟
مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیتہ العلماء پاکستان نے نے یہ جواب دیـا کہ ہندوئوں کو جو ہندوستان مـیں اکثریت رکھتے ہیں۔ ہندو دھرم کے ماتحت مملکت قائم کرنے کا حق ہے اور اگر اس نظام حکومت مـیں منوشاستر کے ماتحت مسلمانوں سے ملیچھوں یـا شودروں کا سا سلوک کریں تو ان پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
اسی طرح مولانا مودودی صاحب نے کہا:
>یقیناً مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ حکومت کے اس نظام مـیں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیـا جائے ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیـا جائے اور انہیں حکومت مـیں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دئیے جائیں<۔~ف۵۶~
۲۔ مـیاں طفیل محمد قیم جمات اسلامـی کے متعلق رپورٹ کہتی ہے کہ:
>اس گواہ نے تو یہاں تک کہہ دیـا ہے۔ کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے ملک کی سرکاری ملازمتوں مـیں مسلمانوں کو آسامـیاں پیش بھی کرے۔ تو ان کا فرض ہوگا کہ ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیں<۔~ف۵۷~
۳۔ غازی سراج الدین صاحب منیر نے جب یہ جواب دیـا کہ ہمسایہ ملک اپنے سیـاسی نظام کو اپنے مذہب پر مبنی قرار دے سکتا ہے۔ تو عدالت نے اس سے سوال کیـا۔
سوال:کیـا آپ ان کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں۔ کہ وہ تمام مسلمانان ہند کو شودر اور ملیچھ قرار دے دیں اور انہیںی قسم کا شہری حق نہ دیں۔
جواب:ہم انتہائی کوشش کریں گے۔ کہ ایسی حرکت سے پہلے ہی ان کی سیـاسی حاکمـیت ختم کر دی جائے۔ ہم ہندوستان کے مقابلے مـیں بہت طاقتور ہیں۔ ہم ضرور اتنے مضبوط ہوں گے کہ ہندوستان کو ایسا کرنے سے روک دیں<۔
جب غازی صاحب نے عدالت کے سوال پر یہ جواب دیـا کہ تبلیغ اسلامـی مذہبی فرائض مـیں سے ہے اور مسلمانان ہند کا بھی فرض ہے کہ علی الاعلان اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ اور ان کو اس کا حق حاصل ہونا چاہئے تو عدالت نے سوال کیـا۔
سوال>:اگر ہندوستانی مملکت مذہبی بنیـاد پر قائم کر دی جائے اور وہ اپنے مسلم باشندوں کو تبلیغ مذہب کے حق سے محروم کر دے تو کیـا ہوگا؟
جواب:اگر ہندوستان کوئی ایسا قانون وضع کرے گا تو چونکہ مـیں تحریک توسیع پر ایمان رکھتا ہوں۔ اس لئے ہندوستان پر حملہ کر کے اس کو فتح کرلوں گا۔ اس پر عدالت نے یہ ریمارک لکھا ہے:
>گویـا مذہبی وجوہ کی بناء پر امتیـازی سلوک کی باہم مساوات کا یہ جواب ہے<۔ پھر فاضل ججوں نے اپنی رائے ان الفاظ مـیں ظاہر کی ہے۔
>ہمارے سامنے جس نظرئیے کی حمایت کی گئی ہے۔ اس کو اگر ہندوستان کے مسلمان اختایر کرلیں تو وہ مملکت کے سرکاری عہدوں سے کاملاً محروم ہو جائیں گے اور صرف ہندوستان ہی مـیں نہیں بلکہ دوسرے ملکوں مـیں بھی ان کا یہی حشر ہوگا جہاں غیر مسلم حکومتیں قائم ہیں۔ مسلمان ہر جگہ دائمـی طور پر مشتبہ ہو جائیں گے۔ اور فوج مـیں بھرتی نہ کئے جائیں گے۔ کیونکہ اس نظریہ کے مطابقی مسلم ملک اوری غیر مسلم ملک کے درمـیان جنگ ہونے کی صورت مـیں غیر مسلم ملک کے مسلم سپاہیوں کے لئے کوئی چارہ نہیں کہ یـا تو مسلم ملک کا ساتھ دیں یـا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں<۔~ف۵۸~
فاضل ججوں کو نہایت افسوس سے ان کے دائرہ نگاہ کی تنگی کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھنا پڑا:
>علماء نے ہم سے صاف صاف کہہ دیـا ہے کہ )اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے آنسو بہانا تو ایک طرف رہا آنکھ تک نہیں جھپکی کہ جب تک ہمارے خاص نمونے کا اسلام یہاں رائج ہے۔ ہم کو اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کا کیـا حشر ہوگا صرف ایک مثال سن لیجئے۔
>امـیر شریعت نے کہا >باقی ۶۴ کروڑ )یہ عدد ان کا اپنا ہے( کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا چاہئے۔۔۔۔ لہذا جن لوگوں کو صرف یہیں کی کھیتیوں کی نہیں بلکہ چین اور پیرو کی فصلوں کی دیکھ بھال کرنی ہے ان کے لئے اشد ضروری ہے کہ تمام اطراف کے مفادات کا خیـال رکھیں<۔~ف۵۹~]qi [tag
پھر فاضل ججوں نے اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
>آج مسلمان یـاد ماضی کا لبادہ اوڑھے۔ صدیوں کا بھاری بوجھ اپنی پشت پر لادے` مایوس و مبہوت ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور فیصلہ نہیں کر سکتا کہ دونوں مـین سےی موڑ کا رخ کرے۔ دین کی وہ تازگی اور سادگی جس نے ایک زمانے مـیں اس کے ذہن کو عزم مصمم اور اس کے عضلات کو لچک عطا کی تھی آج اس کو حاصل نہیں ہے اس کے پاس نہ فتوحات کرنے کے وسائل ہیں نہ اہلیت ہے اور نہ ایسے ممالک ہی موجود ہیں جن کو فتح کیـا جا سکے مسلمان بالکل نہیں سمجھتا کہ جو قومـیں آج اس کے خلاف صف آراء ہیں۔ وہ ان قوتوں سے بالکل مختلف ہیں جن سے اس کو ابتدائے اسلام مـیں جنگ کرنی پڑی تھی اور اس کے اپنے آباء و اجداد ہی کی راہ نمائی سے ذہن انسانی نے ایسے کارنامے انجام دئیے ہیں جن کے سمجھنے سے وہ قاصر ہے۔۔۔۔ صرف ایک ہی چیز ہے جو اسلام کو ایک عالمگیر تصور کی حیثیت سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور مسلمان کو جو آج ضد و قدامت کا پیکر بنا ہوا ہے۔ دنیـائے حال اور دنیـائے مستقبل کا شہری بنا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی نئی تاول و تشکیل دلیرانہ کی جائے جو زندہ حقائق کو مردہ تصورات سے الگ کر دے۔۔۔۔۔ اگر ہم جہاں ریتی کی ضرورت ہے وہاں ہتھوڑا استعمال کرنا چاہیں گے اور اسلام سے ان عقدوں کے حل کرنے کی توقع رکھیں گے جن کو حل کرنا اس کا کبھی مقصود نہ تھا مایوسی نامرادی اور دل شکستگی برابر ہمارے شامل حال رہے گی۔ وہ مقدس دین جس کا نام اسلام ہے برابر زندہ رہے گا۔ خواہ ہمارے لیڈر اس کو نافذ کرنے کے لئے موجود نہ بھی ہوں۔ دین اسلام فرد مـیں۔ اس کی روح اور اس کے نقطئہ نگاہ مـین اور مہد سے لحد تک خدا اور بندوں کے ساتھ تعلقات مـیں زندہ ہے اور زندہ رہے گا اور ہمارے ارباب سیـاست کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اگر احکام الٰہی ایک انسان کو مسلمان نہیں رکھ سکتے۔ تو ان کے قوانین یہ کام انجام نہیں دے سکتے<۔~ف۶۰~
>مسلم< کی تعریف اور تحقیقاتی عدالت
اب ہم >تحقیقاتی عدالت< کی رپورٹ اس حصہ کی طرف آتے ہیں جو ہمارے نزدیک آئینی و مذہبی اعتبار سے سب سے اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ اسلامـی ریـاست مـیں مسلم کی تعریف کیـا ہے؟ فاضل جج لکھتے ہیں:
>جمہوریہ اسلامـی کے دوران مـیں رئیس مملکت یعنی خلیفہ ایک ایسے نظام انتخاب کے ماتحت منتخب کیـا جاتا تھا جو زمانئہ حاضر کے انتخاب سے قطعاً مختلف تھا۔ اور اس کی بنیـاد نابالغوں کے حق رائے دہی پر اور نہ عمومـی نمائندگی کیی اور ہیئت پر تھی۔ اس کی جو بیعت کی جاتی تھی جسے حلف اطاعت کہنا چاہئے اسے ایک مقدس معاہدہ کی حیثیت حاصل تھی اور جب وہ اجماع الامت یعنی لوگوں کے اتفاق آراء سے منتخب ہو جاتا تھا تو جائز حکومت کے تمام شعبوں کا سرچشمہ بن جاتا تھا۔ اس کے بعد اس کو اور صرف اس کو حکومت کرنے کا حق ہوتا تھا وہ اپنے بعض اختیـارات اپنے نائبوں کو تفویض کر سکتا تھا۔ اور اپنے گرد ایسے اشخاص کے ایک گروہ کو جمع کر لیتا تھا جو علم و تقویٰ مـیں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس گروہ کو مجلس شوریٰ یـا اہل الحل والعقد کہتے تھے۔ اس نظام کا نمایـاں پہلو یہ تھا کہ کفار ان وجوہ کے ماتحت جو واضح تھے اور جن کے بیـان کی حاجت نہیں اس مجلس مـیں دخل حاصل نہیں کر سکتے تھے اور خلیفہ اپنے اختیـارات کا حامل ہوتا تھا اور زمانہ حاضر کیی جمہوری مملکت کے صدر کی طرح ایک بے اختیـار فرد نہ تھا جس کا فرض صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنے وزیراعظم اور کابینہ کے فیصلوں پر دستخط کر دے۔ وہ غیر مسلموں کو اہم عہدوں پر مقرر نہ کر سکتا تھا نہ قانون کی تعبیر یـا تنفیذ مـیں ان کو کوئی جگہ دے سکتا تھا۔ اور وضع قوانین کا کام ان کے سپرد کرنا تو قانونی اعتبار سے بالکل ہی ناممکن تھا۔ جب صورت حال یہ ہے تو مملکت کو لازماً کوئی ایسا انتظام کرنا ہوگا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمـیان فرق معین ہو سکے اور اس کے نتائج پر عمل درامد کیـا جا سکے لہذا یہ مسئلہ بنیـادی طور پر اہم ہے کہ فلاں شخص مسلم ہے یـا غیر مسلم؟<۔~ف۶۱~
فاضل جج صاحبان نے اس بعد منظر مـیں علماء سے کیـا کیـا سوالات کئے علماء نے ان کے کیـا جواب دئیے اور فاضل جج ان کے افکار و نظریـات کو سن کر نتیجے پر پہنچے؟ اس کی تفصیل ہمـیں مطبوعہ رپورٹ کے درج ذیل الفاظ مـیں ملتی ہے:
>ہم نے اکثر ممتاز علماء سے یہ سوال کیـا کہ وہ >مسلم< کی تعریف کریں۔ اس مـیں نکتہ یہ ہے کہ اگر مختلف فرقوں کے علماء احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں تو ان کے ذہن مـیں نہ صرف اس فیصلے کی وجوہ بالکل روشن ہوںبلکہ وہ >مسلم< کی تعریف بھی قطعی طور پر کر سکیں گے کیونکہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں شخص یـا جمات دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ تو اس سے لازم آتا ہے۔ کہ دعویٰ کرنے والے کے ذہن مـیں اس امر کا واضح تصور موجود ہو کہ >مسلم< کو کہتے ہیں؟ تحقیقات کے اس حصے کا نتیجہ بالکل اطمـینان بخش نہیں نکلا۔ اور اگر ایسے سادہ معاملے کے متعلق بھی ہمارے علماء کے دماغوں مـیں اس قدر ژولیدگی موجود ہے۔ تو آسانی سے تصور کیـا جا سکتا ہے۔ کہ زیـادہ پیچیدہ معاملات کے متعلق ان کے اختلافات کا کیـا حال ہوگا۔ ذیل مـیں ہم مسلم کی تعریف ہر عالم کے اپنے الفاظ مـیں درج کرتے ہیں۔ اس تعریف کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہر گواہ کو واضح طور پر سمجھا دیـا گیـا تھا۔ کہ آپ وہ قلیل سے قلیل شرائط بیـان کیجئے جن کی تکمـیل سےی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اور یہ تعریف اس اصول پر مبنی ہونی چاہئے جس کے مطابق گرائمر مـیںی اصطلاح کی تعریف کی جاتی ہے۔ نتیجہ ملاحطہ ہو۔
مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان
سوال:مسلم کی تعریف کیـا ہے؟
جواب:اول وہ توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو۔ دوم وہ پیغمبر اسلام کو اور تمام انبیـاء سابقین کو خدا کا سچا نبی مانتا ہو۔ اس کا ایمان ہو کہ پیغمبر اسلام صلعم انبیـاء مـیں آخری نبی ہیں )کاتم النبیین( چہارم اس کا ایمان ہو کہ قرآن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام پیغمبر اسلام صلعم پر نازل کیـا۔ پنجم وہ پیغمبر اسلام صلعم کی ہدایـات کے واجب الاطاعت ہونے پر ایمان رکھتا ہو۔ ششم۔ وہ قیـامت پر ایمان رکھتا ہو۔
سوال:کیـا تارک الصلٰوٰہ مسلم ہوتا ہے؟
جواب:جی ہاں۔ لیکن منکر صلٰوٰہ مسلم نہیں ہو سکتا۔
مولانا حمد علی صدر جمعیتہ العلماء اسلام مغربی پاکستان۔
سوال:ازراہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے۔
جواب:وہ شخص مسلم ہے۔ جو ۱( قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔ اور )۲( رسول اللہ صلعم کے ارشادات پر ایمان رکھتا ہو۔ ہر شخص جو ان دو شرطوں کو پورا کرتا ہے۔ مسلم کہلانے کا حقدار ہے۔ اور اس کے لئے اس سے زیـادہ عقیدے اور اس سے زیـادہ عمل کی ضرورت نہیں<۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی امـیر جماعت اسلامـی۔
سوال:ازراہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے؟
جواب:وہ شخص مسلم ہے جو )۱( توحید پر )۲( تمام انبیـاء پر )۳( تمام الہامـی کتابوں پر )۴( ملائکہ پر )۵( یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔
سوال: کیـا ان باتوں کے محص زبانی اقرار سےی شخص کو مسلم کہلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اور آیـا ایک مسلم مملکت مـیں اس سے وہ سلوک کیـا جائے گا جو مسلمان سے کیـا جاتا ہے۔
جواب: جی ہاں۔
سوال: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مـیں ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہوں تو کیـای شخص کو اس کے عقیدے کے وجود پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے؟
جواب: >جو پانچ شرائط مـیں نے بیـان کی ہیں وہ بنیـادی ہیں۔ جو شخص ان شرائط مـین سےی شرط مـیں تبدیلی کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا<۔
غازی سراج الدین منیر:
سوال: ازراہ کرم مسلم کی تعریف کیجئے؟
جواب: مـیں ہر اس شخص کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ جو کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے اور رسول پاک صلعم کے نقش قدم پر چل کر زندگی بسر کرتا ہے<۔
مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد۔ لاہور
سوال: ازراہ کرم مسلمان کی تعریف کیجئے؟
جواب: لفظ مسلمان فارسی کا لفظ ہے۔ مسلم کے لئے فارسی مـیں جو لفظ مسلمان بولا جاتا ہے اس مـین اور لفظ مومن مـیں فرق ہے۔ مـیرے لئے یہ ناممکن ہے کہ مـیں لفظ مومن کی مکمل تعریف کروں۔ کیونکہ اس امر کی وضاحت کے لئے بے شمار صفحات درکار ہیں۔ کہ مومن کیـا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے۔ وہ مسلم ہے۔ اس کو توحید الٰہی` رسالت انبیـاء اور یوم قیـامت پر ایمان رکھنا چاہئے جو شخص اذان یـا قربانی پر ایمان نہیں رکھتا۔ وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس طرح بیشمار دیگر امور بھی ہیں جو ہمارے نبی کریمﷺ~ سے ہم کو تواتر کے ساتھ پہنچے ہیں۔ مسلم ہونے کے لئے ان سب امور پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مـیرے لئے یہ قریب قریب ناممکن ہے۔ کہ ان تمام امور کی مکمل فہرست پیش کروں<۔
حافظ کفایت حسین۔ ادارہ تحفظ حقوق شیعہ:
سوال: مسلمانہے؟
جواب: جو شخص )۱( توحید ۲۰( نبوت اور )۳( قیـامت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ مسلمان کہلانے کا حقدار ہے۔ یہ تین بنیـادی عقائد ہیں۔ جن کا اقرار کرنے والا مسلمان کہلا سکتا ہے۔ ان تین بنیـادی عقائد کے معاملے مـیں شیعوں اور سنیوں کے درمـیان کوئی اختلاف نہیں۔ ان تین عقیدوں پر ایمان رکھنے کے علاوہ بعض اور امور ہیں۔ جن کو ضروریـات دین` کہتے ہیں۔ مسلمان کہلانے کا حقدار بننے کے لئے ان کی تکمـیل ضروری ہے۔ ان ضروریـات کے تعین اور شمار کے لئے مجھے دو دن چاہئیں۔ لیکن مثال کے طور پر مـیں یہ بیـان کر دینا چاہتا ہوں۔ کہ احترام کلام اللہ۔ وجوب نماز۔ وجوب روزہ۔ وجوب حج مع الشرائط اور دوسرے بے شمار امور ضروریـات دین مـیں شامل ہیں<۔
مولانا عبدالحامد بدایونی۔ صدر جمعیت العلمائے پاکستان۔
سوال: آپ کے نزدیک مسلمانہے؟
جواب: جو شخص ضروریـات دین پر ایمان رکھتا ہے وہ مومن ہے اور ہر مومن مسلمان کہلانے کا حقدار ہے۔
سوال: ضروریـات دینکون سی ہیں؟
جواب: جو شخص پنج ارکان اسلام پر اور ہمارے رسول پاک صلعم پر ایمان رکھتا ہے وہ ضروریـات کو پورا کرتا ہے۔
سوال: آیـا ان پنج ارکان اسلام کے علاوہ دوسرے اعمال کا بھی اس امر سے کوئی تعلق ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہے۔ یـا دائرہ اسلام سے خارج ہے؟ )نوٹ:گواہ کو سمجھا دیـا گیـا تھا کہ دوسرے اعمال سے وہ ضوابط اخلاقی مراد ہیں جو زمانہ حاضر کے معاشرے مـیں صحیح سمجھے جاتے ہیں(۔
جواب: یقیناً تعلق ہے۔
سوال: پھر آپ ایسے شخص کو مسلمان نہیں کہیں گے جو ارکان خمسہ اور رسالت پیغمبر اسلام پر تو ایمان رکھتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کی چیزیں چرا لیتا ہے` جو مال اس کے سپرد کیـا جائے اس کو غبن کر لیتا ہے اپنے ہمسائے کی بیوی کے متعلق نیت بد رکھتا ہے۔ اور اپنے محسن سے انتہائی ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے؟
جواب: ایسا شخص اگر ان عقیدوں پر ایمان رکھتا ہے۔ جو ابھی بیـان کئے گئے ہیں۔ تو ان تمام اعمال کے باوجود وہ مسلمان ہوگا<۔
مولانا محمد علی کاندھلوی دارالشہابیہ۔ سیـالکوٹ۔
سوال: ازراہ کرم مسلمان کی تعریف کیجئے؟
جواب: جو شخص نبی کریم صلعم کے احکام کی تعمـیل مـیں تمام ضروریـات دین کو بجا لاتا ہے وہ مسلمان ہے۔
سوال: کیـا آپ ضروریـات دین کی تعریف کر سکتے ہیں؟
جواب: ضروریـات دین ہر مسلمان کو معلوم ہیں خواہ دینی علم نہ رکھتا ہو۔
سوال: کیـا آپ ضروریـات دین کو شمار کر سکتے ہیں؟
جواب: وہ اتنی بے شمار ہیں کہ ان کا ذکر بے حد دشوار ہے` مـیں ان ضروریـات کو شمار نہیں کر سکتا بعض ضروریـات دین کا ذکر کیـا جا سکتا ہے مثلاً صوم و صلٰوٰہ وغیرہ<۔
مولانا امـین احسن اصلاحی:
سوال: مسلمانہے؟
جواب: مسلمانوں کی دو قسمـیں ہیں۔ ایک سیـاسی مسلمان` دوسرے حقیقی مسلمان۔ سیـاسی مسلمان کہالنے کی غرض سے ایک شخص کے لئے ضروری ہے کہ )۱( توحید الٰہی پر ایمان رکھتا ہو۔ )۲( ہمارے رسول پاک کو خاتم النبیین مانتا ہو۔ یعنی اپنی زندگی کے متعلق تمام معاملات مـیں ان کو آخری سند تسلیم کرتا ہو۔ )۳( ایمان رکھتا ہو کہ ہر خیروشر اللہ کی طرف سے ہے۔ )۴( روز قیـامت پر ایمان رکھتا ہو۔ )۵( قرآن مجید کو آخری الہام الٰہی یقین کرتا ہو۔ )۶( مکہ معظمہ کا حج کرتا ہو۔ )۷( زکٰوٰہ ادا کرتا ہو۔ )۸( مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتا ہو۔ )۹( اسلامـی معاشرے کے ظاہری قواعد کی تعمـیل کرتا ہو۔ )۱۰( روزہ رکھتا ہو۔ جو شخص ان تمام شرائط کو پورا کرتا ہو۔ وہ ایک اسلامـی مملکت کے پورے شہری کے حقوق کا مستحق ہے۔ جو شخض ان تمام شرائط کو پورا کرتا ہو۔ وہ ایک اسلامـی مملکت کے پورے شہری ہے حقوق کا مستحق ہے۔ اگر وہ ان مـیں سے کوئی شرط پوری نہ کرے گا۔ تو وہ سیـاسی مسلمان نہ ہوگا۔ )پھرکہا( اگر کوئی شخص ان دس امور پر ایمان کا محض اقرار ہی کرتا ہو۔ گو ان پر عمل کرتا ہو یـا نہ کرتا ہو۔ تو یہ اس کے مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کے تمام احکام پر عین اس طرح ایمان رکھتا ہو۔ اور عمل کرتا ہو جس طرح وہ احکام و ہدایـات پر عائد کئے گئے ہیں۔
سوال: کیـا آپ یہ کہیں گے کہ صرف حقیقی مسلمان ہی >مرد صالح< ہے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: اگر ہم آپ کے ارشاد سے یہ سمجھیں کہ آپ کے نزدیک سیـاسی مسلمان کہلانے کے لئے صرف عقیدہ کافی ہے۔ اور حقیقی مسلمان بننے کے لئے عقیدے کے علاوہ عمل بھی ضروری ہے۔ تو کیـا آپ کے نزدیک ہم نے آپ کا مفہوم صحیح طور سے سمجھا ہے؟
جواب: جی نہیں آپ مـیرا مطلب صحیح طور پر نہیں سمجھے۔ سیـاسی مـیدان کے معاملہ مـیں بھی عمل ضروری ہے۔ مـیرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان عقائد کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ جو ایک سیـاسی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔ تو وہ سیـاسی مسلمانوں کے دائرے سے خارج ہو جائے گا۔
سوال: اگر کوئی سیـاسی مسلمان ان باتوں پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ جن کو آپ نے ضروری بتایـا ہے تو کیـا آپ اس شخص کو >بے دین< کہیں گے؟
جواب: جی نہیں مـیں اسے محض >بے عمل< کہوں گا۔
صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے جو تحریری بیـان پیش کیـا گیـا۔ اس مـیں مسلم کی تعریف یہ کی گئی کہ مسلم وہ شخص ہے جو رسول پاک صلعم کی امت سے تعلق رکھتا ہے۔ اور کلمہ طیبہ پر ایمان کا اقرار کرتا ہے۔
ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں۔ پیش نظر رکھ کر کہا ہماری طرف سےی تبصرے کی ضرورت ہے؟
بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیـادی امر پر متفق نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی طرف سے >مسلم< کی کوئی تعریف کردیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے۔ اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں۔ تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیـا جائے گا۔ اور اگر ہم علماء مـیں سےی ایک کی تعریف کو اختیـار کرلیں۔ تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہو جائیں گے<۔
>اسلامـی مملکت مـیں ارتداد کی سزا موت ہے اس پر علماء عملاً متفق الرائے ہیں )ملاحظہ ہو مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صدر جمعیت العلمائے پاکستان پنجاب۔ مولانا احمد علی صدر جمعیت العلماء اسلام مغربی پاکستان۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی بانی و سابق امـیر جماعت اسلامـی پاکستان` مفتی محمد ادریس جامعہ اشرفیہ لاہور و رکن جمعیہ العلماء پاکستان۔ مولانا دائود غزنوی صدر جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان مولانا عبدالحکیم قاسمـی جمعیت العلماء اسلام پنجاب۔ اور مسٹر ابراہیم علی چشتی کی شہادتیں(
اس عقیدے کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خاں نے اگر اپنے موجودہ مذہبی عقائد ورثے مـیں حاصل نہیں کئے بلکہ وہ خود اپنی رضا مندی سے احمدی ہوئے تھے۔ تو ان کو ہلاک کر دینا چاہئے۔ اور اگر مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری یـا رضا احمد خاں بریلوی یـا ان بے شمار علماء مـیں سے کوئی صاحب جو )فتویٰ )۱۴ DE ۔(Ex کے خوبصورت درخت کے ہر پتے پر مرقوم دکھائے گئے ہیں( ایسی اسلامـی مملکت کے رئیس بن جائیں۔ تو یہی انجام دیوبندیوں اور وہابیوں کا ہوگا۔ جن مـیں مولانا محمد شفیع دیوبندی ممبر بورڈ تعلیمات اسلامـی ملحقہ دستور ساز اسمبلی پاکستان اور مولانا دائود غزنوی بھی شامل ہیں۔ اور اگر مولانا محمد شفیع دیوبندی رئیس مملکت مقرر ہو جائیں تو وہ ان لوگوں کو جنہوں نے دیوبندیوں کو کافر قرار دیـا ہے۔ دائرہ اسلام سے خارج قرار دیں گے اور اگر وہ لوگ مرتد کی تعریف مـیں آئیں گے یعنی انہوں نے اپنے مذہبی عقائد ورثہ مـیں حاصل نہ کئے ہوں گے` بلکہ خود اپنا عقیدہ بدل لیـا ہوگا۔ تو مفتی صاحب ان کو موت کی سزا دے دیں گے۔
جب دیوبندیوں کا ایک فتویٰ 13) DE۔(EE جس مـیں اثنا عشری شیعوں کو کافر و مرتد قرار دیـا گیـا ہے۔ عدالت مـیں پیش ہوا تو کہا گیـا کہ یہ اصل نہیں۔ بلکہ مصنوعی ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع نے اس امر کے متعلق دیوبند سے استفسار کیـا تو اس دارالعلوم کے دفتر سے اس فتویٰ کی ایک نقل موصول ہو گئی۔ جس پر دارالعلوم کے تمام اساتذہ کے دستخط ثبت تھے۔ اور ان مـیں مفتی محمد شفیع صاحب کے دستخط بھی شامل تھے۔ اس فتوے مـیں لکھا ہے۔ کہ جو لوگ حضرت صدیق اکبرؓ کی صاجیت پر ایمان نہیں رکھتے۔ جو لوگ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے قاذف ہیں اور جو لوگ قرآن مـیں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں وہ کافر ہیں۔
اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے۔ کہ شیعہ سنی۔ دیوبندی۔ اہل حدیث اور بریلوی لوگوں مـیں سے کوئی بھی مسلم نہیں اور اگر مملکت کی حکومت ایسی جماعت کے ہاتھ مـیں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیـار کرے گا اس کو اسلامـی مملکت مـیں لازماً موت کی سزا دی جائےاور جب یہ حقیقت مدنظر رکھی جائے کہ ہمارے سامنے مسلم کی تعریف کے معاملے مـیں کوئی دو عالم بھی متفق الرائے نہیں۔ اگر علماء کی پیش کی ہوئی تعریفوں مـیں سے ہر تعریف کو معتبر سمجھا جائے۔ پھر انہیں تحلیل و تحویل کے قاعدے کے ماتحت لایـا جائے اور نمونے کے طور پر الزام کی وہ شکل اختیـار کی جائے جو گلیلیو کے خلاف انکویزیشن کے فیصلے مـیں اختیـار کی گئی تھی تو ان وجوہ کی تعداد بے شمار ہو جائےجن کی بناء پری شخص کا ارتداد ثابت کیـا جا سکے<۔~ف۶۲~]body [tagعلماء کے تبصرے اور ان کا جواب
>تحقیقاتی عدالت< کی رپورٹ نے احمدیت اور پاکستان کے مخالف مذہبی لیڈروں کی کارروائیوں کو جس طرح طشت ازبام کیـا اس نے ان کے حامـیوں مـیں صف ماتم بچھا دی اور ان کی طرف سے محاسبہ اور تبصرہ کے نام سے دو کتابیں~ف۶۳~ شائع کیں جن مـیں نام نہاد علماء کی شکست اور بے آبروئی پر پردہ ڈالنے اور مظلوم احمدیوں کو ملزم گرداننے مـیں کوئیر اٹھا نہ رکھی۔ خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے >تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر< کے نام سے اپریل ۱۹۵۵ء مـیں ایک مبسوط کتاب شائع کی جس مـیں نہ صرف فرمایـا کہ ہر معاملہ مـیں تحقیقاتی عدالت کی رائے بلاکم و کاست درج کر دی جائے بلکہ مئولفین تبصرہ کی مغالطہ انگیزیوں کا پردہ چاک کر دیـا جائے۔
حواشی
~ف۱~
یہ تبصرہ پہلے روزنامہ >المصلح< کراچی )۲/دسمبر ۱۹۵۳ء/۲ فتح ۱۳۳۲ ہش کی ایک خاص اشاعت مـین چھپا۔
~ف۲~
>رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ بابت سال ۵۴۔۱۹۵۳ء صفحہ ۳۳
~ف۳~
ہفت روزہ >المنبر< لاہور )فیصل آباد( ۲/مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۱۔۲ )گورنر جنرل پاکستان کی خدمت مـیں دلپذیری ترجمہ کا ایک نسخہ جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے ۲۷/جنوری ۱۹۵۴ء کو پیش کیـا تھا وفد کی قیـادت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے کی )المصلح کراچی ۳۰/جنوری ۱۹۵۴ء ~ف۱(~
~ف۴~
سہواً >نے< لکھا ہے۔
~ف۵~
‏OPT )اختیـار۔ انتخاب۔ پسند(
~ف۶~
‏Ministerial وزارتی۔
~ف۷~
اخبار روزنامہ >ملت< لاہور مئورخہ ۲۱/جنوری ۱۹۵۴ء ص۱`۵
~ف۸~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۲/جنوری ۱۹۵۴ء ~ف۲~
~ف۹~
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ ۲۲/جنوری ۱۹۵۴ء ~ف۷~
~ف۱۰~
اخبار >ملت< لاہور ۲۴``۲۵`۲۶/فروری ۱۹۵۴ء
~ف۱۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< اردو صفحہ ۷`۲۱
~ف۱۲~
روزنامہ >الفضل< ربوہ ۵/صلح/جنوری ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء ہش ~ف۸~
~ف۱۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ~ف۷~
~ف۱۴~
روزنامہ >الفضل< ربوہ ۵/امان/مارچ ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء ~ف۳~
~ف۱۵~
روزنامہ >الفضل< ۳۰/صلح/جنوری ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء ~ف۳~
~ف۱۶~
روزنامہ >ملت< لاہور مئورخہ ۲۸/فروری ۱۹۵۴ء
~ف۱۷~
ایضاً ~ف۵~
~ف۱۸~
‏Parody مضحکہ خیز نقل
~ف۱۹~
روزنامہ >ملت< لاہور مورخہ یکم مارچ ۱۹۵۴ء ~ف۹~
~ف۲۰~
سابق صدر مملکت پاکستان
~ف۲۱~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو ص ۳۰۴
~ف۲۲~
آفاق ۳۰/اکتوبر ۱۹۵۳ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۱
~ف۲۳~
ایضاً` کالم نمبر ۴
~ف۲۴~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲/نومبر ۱۹۵۳ء ~ف۱~
~ف۲۵~
>ملت< ۶/نومبر ۱۹۵۳ء ~ف۷~ کالم ۵
~ف۲۶~
>ملت< ۱۳/نومبر ۱۹۵۳ء ~ف۵~ کالم ۳
~ف۲۷~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۵/دسمبر ۱۹۵۳ء ~ف۶~ کالم ۵
~ف۲۸~
روزنامہ >ملت< لاہور ۹ جنوری ۱۹۸۴ء ~ف۱~
~ف۲۹~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ نمبر ۲
~ف۳۰~
>نوائے وقت< لاہور )۲۴۔۲۵/اپریل ۱۹۵۴ء( >ملت< لاہور )۲۵۔۲۹/اپریل ۱۹۵۴ء( رسالہ >لاہور< لاہور )۲۶ اپریل ۱۹۵۴ء( زمـیندار سدھار ملتان۔ )۴/مئی ۱۹۵۴ء( رسالہ >اقدام< لاہور )۹/مئی ۱۹۵۴ء( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب Munir> Mohammed Justice <Chief ص۲۲۷ که تا ص۳۳۵
~ف۳۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< اردو ص۴۲۲
~ف۳۲~
>تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ< ص۱۵۹
~ف۳۳~
>تحقیقاتی عدالت< ص ۸۷`۸۸
~ف۳۴~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۸۷
~ف۳۵~
‏h2] ga[tرپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء ص۱۸۰ )اردو(
~ف۳۶~
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اردو ص۱۹۲`۱۹۳
~ف۳۷~
رپورٹ ص۲۵۳ رپورٹ ص۱۶۳
~ف۳۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۷۱
~ف۳۹~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۷۱
~ف۴۰~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۸۱
~ف۴۱~
ایضاً ص۲۷۹
~ف۴۲~
تحقیقاتی عدالت کی رپورت ص۳۰۷
~ف۴۳~
تحقیقاتی رپورٹ ص۴۲۴ که تا ۴۲۵۔
‏]1h ~[tagف۴۴~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۱۲۵۔۱۲۶
~ف۴۵~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۲۰۹
~ف۴۶~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۹۹
~ف۴۷~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۲۰۲
~ف۴۸~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص ۲۰۵
~ف۴۹~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ نمبر ۲۰۶
~ف۵۰~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۲۳۷
~ف۵۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۲۳۷`۲۳۸
~ف۵۲~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< صفحہ ۲۲۹
~ف۵۳~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۳۱
~ف۵۴~
ایضاً ص ۲۴۵
~ف۵۵~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۴۵
~ف۵۶~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۴۵
~ف۵۷~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۴۶
~ف۵۸~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۲۴۶`۲۴۷
~ف۵۹~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص۳۲۳
~ف۶۰~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۵۰`۲۵۱
~ف۶۱~
>رپورٹ تحقیقاتی عدالت< ص۲۳۱
~ف۶۲~
رپورٹ تحقیقاتی عدالت )اردو( ص۲۳۱ که تا ۲۳۷
~ف۶۳~
)ا( >تبصرہ< از نعیم صدیقی صاحب و سعید احمد ملک صاحب )ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامـی پاکستان( )۲( >محاسبہ< از مولانا مرتضیٰ احمد صاحب مـیکش۔
‏tav.14.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
چھٹا باب
نام نہاد >علمائے دین< کے افسوسناک بیـانات کا شدید ردعمل
خدا کی قدرت` وہ علماء جو تحقیقاتی عدالت کی کارروائی مـیں اس جوش خروش کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ وہ احمدیوں کو تحقیقاتی کمـیشن سے غیر مسلم اقلیت تسلیم کر اکے چھوڑیں گے عدالت مـیں مسلم کی تعریف کرنے سے قاصر رہے۔ جس کا پاکستان اور بیرونی ممالک مـیں شدید ردعمل رونما ہوا۔ جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس ردعمل کا اندازہ کرنے کے لئے صرف چند تاثرات کا مطالعہ کافی ہوگا:
۱۔ علماء اور فتنئہ تکفیر
جمعیہ العلمائے ہند کے ایک متوسل خصوصی کے قلم سے
حضرت مدیر >صدق جدید< دامت برکاتہم
پاکستان کو تو چھوڑئیے اینٹی احمدیہ تحریک نے علماء کرام کو اپنوں اور غیروں کی نظروں مـیں اس قدر ذلیل اور رسوا کیـا ہے کہ مجموعی حیثیت سے اس کی کوئی نظیر تاریخ مـیں نہیں مل سکتی۔ حق یہ ہے کہ پاکستان کے علماء نے اپنی گردنیں خود اپنے ہاتھوں سے کاٹی ہیں۔ اور اپنے وقار پر خود ہی خاک اڑائی ہے` لطف یہ ہے کہ اس حادثہ کا اعتراف دوسرے لوگ تو کرلیں گے خود علماء کرام ہرگز نہ کریں گے۔ حق کا ناحق سودا ان کے سر پر ہمـیشہ سوار رہا ہے انہوں نے اپنی غلطیوں سے سلطنتیں تباہ کر ڈالی ہیں۔۔۔۔۔ ان کی تکفیر بازی ان کی اور مسلمانوں کی قبر کھود چکی ہے۔۔۔۔ لاہور مـیں جو تحقیقاتی کمـیشن علماء کرام سے شہادتیں لے رہا ہے اس نے نہ صرف علماء کے وقار ہی کو بلکہ علم و فضل کو بھی بے نقاب کر ڈالا ہے۔ شہادت دینے گئے تھے اس بات کی کہ قادیـانی کافر ہیں اور بتا یہ آئے کہ خیریت سے وہ خود بھی دوسروں کی نظروں مـیں کافر ہی قرار پائے ہیں۔ اور وہ تکفیر بازی کی مشق آپس ہی مـیں ہمـیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ مثلاً مولانا محمد علی کاندھلوی نے شہادت لیتے ہوئے بعض سوالات کے جواب مـیں فرمایـا کہ:
>ابتدائے اسلام ہی سے علماء ایک دوسرے کو کافر کہتے آئے ہیں۔ مسلمانوں نے جبر و قدر کے مسئلہ پر ایک دوسرے کو کافر لکھا ہے۔ معتزلہ اور اہل قرآن دونوں کافر ہیں علماء نے امام ابن تیمـیہ اور عبدالوھاب کو بھی کافر قرار دیـا ہے۔ علماء نے دیوبندی علماء کی بھی تکفیر کی ہے<۔ )نوائے وقت ۲۳`۲۴/اکتوبر ۱۹۵۳ء(
سبحان اللہ سرکاری کمـیشن کو باور کرایـا جا رہا ہے کہ خود مکفر علماء بھی کفر سے نہیں بچے اور انہوں نے تکفیر کے تیروں سےی بڑے چھوٹے کو نہیں چھوڑا عدالت تو یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ جو علماء قادیـانیوں کو بڑھ چڑھ کر کافر کہہ رہے ہیں وہ خود بھی مسلمان ہیں یـا نہیں؟ خوش قسمتی سے علماء کرام نے عدالت کی یہ خواہش بھی پوری کی۔ اور باتوں ہی باتوں مـیں اگل گئے کہ خیریت سے وہ بھی دوسرے کی نظروں مـیں کافر ہی رہے۔ اور دوسرے ان کی نظروں مـیں خارج از ملت۔ خیر۱ یہ تو علماء کا بھولاپن تھا۔ کہ آپس کی باتیں ججوں کے سامنے کہہ بیٹھے اور یوں قادیـانیوں کا بوجھ ہلکا ہوا۔ افسوسناک چیز تو یہ ہے کہ علماء نے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کہیں اور ایک نے دوسرے کے نظریہ` فیصلہ اور فتویٰ کو جھٹلایـا اور مسٹروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دیـا۔۔۔۔۔
محترم! لل¶ہ علماء کو تکفیر بازی سے روکئے۔ ورنہ اس گروہ کا انجام بخیر نظر نہیں آتا۔ کچھ امـید تھی کہ جماعت اسلامـی کے امـیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنا >مسلک اعتدال< تکفیر کے مـیدان سے الگ رکھیں گے۔ اور اس بارہ مـیں علماء کی کچھ ایسی صلاح کر جائیں گے کہ یہ فتنہ ہمـیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ مگر افسوس ہے کہ اینٹی قادیـانی تحریک مـین وہ ایسے گرے کہ ان کی ریفارمـیشن کا سارا بھرم کھل گیـا۔ اگر رو مـیں روا باشد ہی ان کا مسلک تھا تو انہیں مسلمانوں پر الفاظ کا جادو تو نہ چلانا چاہئے تھا۔ یہیں آکر اقرار کرنا پڑنا ہے کہ قدرت نے مدیر >صدق جدید< کو بیکار پیدا نہیں کیـا ہے انہوں نے تکفیر بازی کے اس دور مـین جس دور رس نگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے فتنہ تکفیر پر ضرب لگائی ہے اس پر ہم تو کیـا شاید کوئی آنے والا مجدد ہی داد دے سکے گا۔ مدیر >صدق جدید< یہ جر¶ات تو اپنے مرشد رحمہ اللہ علیہ کے سامنے بھی ماند نہ پڑسکی۔ اس لئے تو موصوف سے درخواست ہے کہ اس فتنہ سے سختی کے ساتھ باز پرس کریں۔ اور مسلمان فرقوں کو اس امتحان سے ہمـیشہ کے لئے نجات دلاویں۔ تاکہ ایک طرف علماء کا وقار قائم رہے دوسری طرف خدا` رسول` کتاب اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے اور کلمئہ شہادت کے شریک زبردستی اسلام سے باہر نہ کئے جا سکیں۔ مدیر صدق کے بعد کوئی نظر نہیں اتا جو اس مـیدان مـیں اپنی جر¶ات کا ثبوت دے سکے۔ اگر موصوف نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کوئی مستقل منصوبہ نہیں بنایـا تو قدرت کی باتیں تو دوسری ہیں علماء کو اس کا احساس دلانے والا بھی ڈھونڈے سے نہ مل سکے گا۔
>صدق جدید< لکھنئو ۸/ جنوری ۱۹۵۲ء
بحوالہ رسالہ الفرقان ربوہ جنوری ۱۹۵۴ء ص۳`۴
۲۔ اخبار >ٹائمز< (Times) کراچی نے تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیـا:
‏Karachi of Times The
‏1954 April, 30th
‏ every on finger its put unerringly has Inquiry of Court <The moral and factual the indicating from Apart ۔spot weak dna persons of conduct the in involved responsibility the examine to necessary it felt has Court the organisations, ۔irresistible appeal Ahrar the made that foundations psychological searching to it before appeared who Ulmera subjectedthe Court the was Maulvi every Almost ۔matters doctrinal on questions necessary beliefs of minimum irreducible the state to asked ۔other the from differed reply each Almost ۔Muslim a one make to notice wanted even Jamaat-i-Islami of representative The replies s'amUl the of divergence The ۔question the answer to of fundamentals very the to relates it since regrettable is doctrinal irreconcilable their of spite in that But ۔Faith the against front united a forge to able were Ulema the differences and aims characteristic the to attention pointed calls Ahmadis ۔possible this made that themselves Ahmadis the of activities status the and <apostasy>, <Jehad> of subjects the on replies The plainest the of light the in stadies be to have ۔Muslims۔non of lanoiconstitut the on bearing their for and injunctions Quranic ۔State Pakistani the of responsibilities
‏ legislation, sovereignty, of of concepts the of elucidation The the invitationto stimulating a constitute ,۔etc interpretation the of part This ۔thought political Islamic of reconstruction ۔interest ephemeral or local than more much of Inquiryis of Court if Islam> of re-orientation <bold a for pleaded has Court The and incongruities> <archaic of rid be to is Faith sublime this to has dnim Muslim The ۔Idea> <world a as vitality its regain to ۔environment modern the with relationship proper into brought be can that ignorance of forces the against immunised be to is it if ۔religion of name holy the in it sway
‏ have not could community the of foundations mental weak The the that fact the by than painfully more demonstrated been conception very the opposed stubbornly had who people very new the up build to right the Pakistan State Islamic the of imposing in successful were dna patterns Islamic on State ۔destruction and bloodshed causing and people the upon
‏ the direct naturally Inquirywill of Court the of report The evidence The ۔directions various in people the of thoughts holding individuals, many implicates Court the by exxamined ۔charges serious in life of walks different in places important disturbances; the provoked who those exposed has Inquiry The administration, the demoralised who those them: plotted who those poinsoned and lawlessness, of forces eth before abdicated ask naturally will country The ۔life public corrupted and ۔matter the of end the be will exposure colossal this whether not is State God-given this if for called is action Determined and adventurers brigands, <political for haven a remain to not is report incisive and elaborate <This ۔non-entities ۔lost labour
‏by Munir> Muhammed Justice <Chief
‏Research 221-222۔p Chaudhri Hussain Nazir
۔1973 March ۔Lahore Pakistan, of Society
‏body] [tagتحقیقاتی عدالت نےی غلطی کے بغیر اپنی انگلی ہر ایک کمزور جگہ پر رکھی ہے۔ ایک طرف تو جج صاحبان نے واقعاتی اور اخلاقی ذمہ داری جو افراد اور تنظیموں پر عائد ہوتی تھی۔ اس کی طرف اشارہ کیـا ہے۔ تو دوسری طرف عدالت نے ضروری سمجھا ہے۔ کہ ان نفسیـاتی محرکات کا تجزیہ کرے۔ جس نے احرار کی اپیل کو ناقابل مزاحمت بنا دیـا تھا۔
عدالت نے ان علماء پر جو اس کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ ان کے مذہبی عقائد کے بارے مـیں کڑی جرح کی۔ قریباًہر ایک مولوی صاحب سے دریـافت کیـا گیـا کہ وہ ناقابل تخفیف فقرات اور اقل تریںالفاظ مـیں اپنے وہ عقائد بیـان کرے جو ایک شخص کو مسلمان بنانے کے لئے کافی ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کے جتنے بھی جواب دئیے گئے ان مـیں سے قریباً ہر ایک جواب دوسرے جوابوں سے مختلف تھا۔ جماعت اسلامـی کے نمائندے نے تو یہ کہا۔ کہ مجھے اس سوال کا جواب دینے کے لئے قبل از وقت نوٹس دیـا جانا چاہئے تھا علماء کے ان جوابوں کا اختلاف قابل افسوس ہے۔ کیونکہ یہ سوال ہمارے مذہب کی اصل بنیـاد سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن باوجود اپنے ناقابل اتفاق فرقہ وارانہ اختلافات کے علماء اس قابل ہوگئے تھے کہ وہ احمدیوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بروئے کار لاسکیں۔ اور یہ بات ہماری گہری توجہ کو اس طرف مبذول کراتی ہے۔ کہ احمدیوں کے خصوصی عزائم اور مشاغل خود محل اعتراض تھے۔ جنہوں نے یہ صورت حال پیدا کی۔
مسئلہ جہاد۔ ارتداد اور اسلام مـیں ایک غیر مسلم کا درجہ وغیرہ اس قسم کے سوالات کے جوابات کو قرآن شریف کے سادہ ترین احکامات کی روشنی مـیں مطالعہ کرنا ہوگا۔ اور نیز یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ کہ پاکستانی مملکت کی آئینی ذمہ داریوں پر ان کا کیـا اثر پڑتا ہے۔
حکومت` قانون سازی` ترجمانی وغیرہ کے تصورات اور ان کی تشریح و توضیح ایک سیـاسی مکتب فکر کی دوبارہ تعمـیر کے لئے کافی خوش کن دعوت ثابت ہوگی۔
تحقیقاتی عدالت کا یہ حصہ مقامـی یـا قلیل العمر دلچسپی کا موجب نہیں ہے۔ عدالت نے زور دیـا ہے کہ اسلام کی جر¶ات مندانہ تجدید کی جائے تاکہ ہم اس باجمال مذہب کو تمام فرسودہ اور بے معنی لغویـات سے پاک کرسیں۔ اور اس کی قوت حیـات کو ایک عالمگیر مثالی تخیل کے ساتھ دنیـا کے سامنے پیش کر سکیں۔
اگر تو ہم نے اس مذب کو جہالت کی تمام طاقتوں کے حملہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ جو اس کو مذہب کے مقدس نام پر متاثر کر سکتی ہیں تو ضروری ہے کہ دل مسلم کو جدید ماحول کے ساتھ ایک مناسب رشتہ مـیں منسلک کیـا جائے۔ اسلامـی برادری کی کمزور دماغی بنیـادیں اس سے زیـادہ واضح اور دردناک طور سے ظاہر نہیں کی جا سکتی تھیں جیسا کہ اس امر واقعہ سے ظاہر ہے` کہ وہی لوگ جنہوں نے اسلامـی ریـاست کے تصور و قیـام کی اس شدومد سے مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اس ریـاست کے وجود مـیں آنے کے فوراً بعد اپنا یہ حق جتایـا کہ ہم لوگ اس ریـاست کو اسلامـی نمونے پر قائم کریں گے اور پھر وہ لوگوں کو مرعوب کرنے مـیں کامـیاب ہوگئے۔ اور خون ریزی کی اور تباہی پیدا کی۔
اس تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ قدرتی طور پر لوگوں کے خیـالات کو مختلف سمتوں مـیں جانے کی ہدایت کرے گی۔ عدالت نے جس شہادت کو قلمبند کیـا ہے۔ اس مـیں بہت سے افراد ملوث ہیں جو کہ زندگی کے مختلف شعبوں مـیں ممتاز جگہوں پر فائز ہیں۔ یہ رپورٹ ان لوگوں پر بڑے خطرناک الزام عائد کرتی ہے۔
اس انکوائری نے ان لوگوں کو بے نقاب کیـا ہے جنہوں نے فسادات کو ہوا دی۔ ان کو بھی جنہوں نے سازشیں کیں۔ وہ لوگ بھی جنہوں نے انتظامـیہ کو بے اثر کیـا۔ اور لاقانونی طاقتوں کے آگے سر نگوں ہوئے۔ اور پبلک زندگی کو مسموم اور خراب کیـا۔ قدرتی طور پر ملک سوال کرے گا۔ کہ کیـا اتنا بڑا عظیم الشان انکشاف یہیں تک محدود رہے گا۔ )یـا اس پر کوئی کارروائی ہوگی( ایک پرعزم کارروائی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اس خداداد سلطنت کو سیـاسی مجرموں` ڈاکوئوں اور مہم انگیزوں اور ناکارہ لوگوں کی پشت پناہ نہیں بنانا ہے یہ مفصل اور کاٹ کرنے والی رپورٹ وقت ضائع کرنے والی چیز نہیں ہے۔
۴۔ اخبار الاعتصام لاہور ۷/اکتوبر ۱۹۵۵ء نے لکھا:
>ہم آج مسلمانوں کے سامنے ایک معمہ برائے حل پیش کرتے ہیں۔ جس کے حل پر کوئی فیس نہیں اور صحیح حل پر انعام ہم تو کیـا دیں گے۔ خود صحیح حل بصورت >حیـات طیبہ< انشاء اللہ دے گا۔ اچھا تو لیجئے۔
ختم نبوت ایجی ٹیشن کی تحقیقاتی کمـیٹی کے صدر مسٹر جسٹس منیر نے سنا ہے۔ کہ اپنی رپورٹ مـیں یہ انکشاف کیـا ہے۔ کیـا جتنے علماء اس تحقیقات مـیں شہادت دینے تشریف لائے۔ ہر ایک سے یہ سوال کیـا گیـا۔ کہ >مسلمان کی تعریف کیـا ہے<؟ اس کے جواب مـیں دو علماء بھی متفق نہ پائے گئے۔ حتی کہ مولوی امـین احسن اصلاحی صاحب بھی مسلمان کی تعریف مـیں اپنے امـیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب سے متفق نہ نکلے۔ مشاہدات یہ بتا رہے ہیں۔ کہ مسلمان جھوٹ بولے` دھوکہ کرے` فریب کرے` قتل کرے` چوری کرے` پئے` زنا کرے` غیبت کرے` بہتان اٹھائے` عیب لگائے` اغواء کرے` غداری کرے` نماز نہ پرھے` روزے نہ رکھے` زکٰوٰہ نہ دے` غیر اللہ کو سجدے کرے غرض یہ کہ جو جی چاہے۔ کرتا پھرے۔ >نہ ایمان بگڑے نہ اسلام جائے<۔
قرآن کریم مـیں اوامر ہیں` نواہی ہیں` حلال ہیں` حرام ہیں` رسول اللہ~صل۱~ کی اطاعت اور اتباع کے فران ہیں۔ اخوت اسلامـی کے لوازم ہیں` حقوق اور فرائض ہیں۔ مگر ان پر عمل کا ہے؟ یہ اتنی ضخیم کتاب ہدایت کیوں نازل ہوئی؟ جناب رسول اللہ~صل۱~ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اتنی تکالیف اور اتنے مصائب کیوں اٹھائے؟ جس مذہب کے ماننے والے مندرجہ بالا تمام امور کے ارتکاب پر بھی جنت کے مستحق رہیں۔ اس کی مخالفت کی ضرورت کیـا تھی؟
آج مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا معمہ یہ ہے۔ کہ >اسلام۔۔۔ کیـا ہے؟ اور >مسلمان<۔۔۔۔ کی صحیح تعریف کیـا ہے؟ بینوا۔ توجرو<!۔~ف۱~
۵۔ مولانا عبدالماجد صاحب دریـا آبادی مدیر >صدق جدید< نے >خارجیت< کی >جارحیت< کے زیر عنوان لکھا:
>انٹی احمدیہ بلووں کی تحقیقاتی کمـیٹی کے سامنے دو سوالوں کے دو جواب:
)۱( کیـا آپ ہندوئوں کا جن کی بھارت مـیں اکثریت ہے۔ یہ حق تسلیم کریں گے کہ وہ اپنے ملک کو ہندو دھارمک کی ریـاست بنائیں؟
جواب- جی ہاں۔ کیـا اس طرز حکومت مـیں منوسمرتی کے مطابق مسلمانوں سے ملیچھوں یـا شودروں کا سا سلوک ہونے پر آپ کو کچھ اعتراض تو نہیں ہوگا۔۔۔ جواب جی نہیں۔
)۲( اگر پاکستان مـیں اس قسم کی اسلامـی حکومت قائم ہو جائے تو کیـا آپ ہندوئوں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنا آئین اپنے مزہب کی بنیـاد پر بنائیں۔ جواب۔ یقیناً بھارت مـیں اس قسم کی حکومت مسلمانوں سے شودروں اور ملیچھوں کا سا سلوک بھی کرے اور ان پر منو کے قوانین نافذ کرکے انہیں حقوق سہرتی سے محروم اور حکومت مـیں حصہ لینے کے نااہل قرار دے ڈالے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
یہ دونو جوابات آپ کو یقین آئے گا کہ کن کی زبان سے عطا ہوئے ہیں۔ پہلا جواب صدر جمعیہ العلماء پاکستان ابوالحسنات مولانا محمد احمد قادری رضوی )بریلو( کا ہے اور دوسرا بانی امـیر جماعت اسلامـی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا۔ انا للہ ثم انا للہ ع
نائو یہ نے ڈبوئی؟ خضر نے
مسلمانان ہند کا بڑے سے بڑا دشمن بھی کیـا اس سے بڑھ کر کوئی جواب دے سکتا تھا۔ فریـاد بجز مالک حقیقی اور سے کیجئے:
شقاوت کے ساتھ ۴ کروڑ کلمہ گوئوں کو سیـاسی موت کا حکم سنایـا جا رہا ہے۔ اور ان مـیں سے ایک جمعیہ العلماء پاکستان کے صدر ہیں۔ اور دوسرے جماعت اسلامـی کے بانی و امـیر!۔ اور مولانا مودودی کا یہ پہلا کرم مسلمانان ہند پر نہیں۔ کئی سال ہوئے ایک اور فتویٰ بھی تو کچھ اسی قسم کا دے چکے ہیں۔ کہ ہندی مسلمانوں کے ساتھ رشتئہ ازدواج جائز نہیں!
وہی ہندوستان جس مـیں صرف رسمـی اور نسلی مسلمان ہی نہیں۔ ہزار ہا ہزار >صالحین< یعنی جماعت اسلامـی کے ارکان مـیں آباد ہیں!۔ جارحیت کی اس حد تک تو شاید خارجیت بھی اپنے دور اول مـیں نہیں پہنچی تھی )صدق جدید ۲۸/ مئی ۱۹۵۴ء~(ف۲~
۶۔ جماعت اسلامـی کے راہنما مولانا سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے ۱۱/ جون ۱۹۵۵ء کو شیخوپورہ مـیں ایک سپاسنامے کے جواب مـیں کہا کہ:
>فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت مـیں کھلم کھلا علماء کو خوار کرنے کا سامان ہو رہا تھا اور جب تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ شائع ہوئی تو ایک دنیـا نے دیکھ لیـا کہ اس مـیں علماء کی کیـا گت بنائی گئی اور رپورٹ کی اشاعت پر سب کو سانپ سونگھ گیـا۔~ف۳~
۷۔ بھارت کے ایک سنی عالم کا مندرجہ ذیل مقالہ لکھنئو کے رسالہ >صدق جدید< مـیں ۶ اور ۲۰/ دسمبر ۱۹۵۷ء کی اشاعتوں مـیں اشاعت پذیر ہوا:
>مسلمان کی تعریف<
ایک غیرجانبدار ہندی مبصر کے قلم سے(
>یـاد ہوگا کہ مغربی پاکستان مـیں جو ایجی ٹیشن قادیـانیوں کے خلاف ہوا۔ اس کا کیـا نتیجہ نکلا؟ مارشل لاء لگا۔ علماء جیل مـیں ڈالے گئے۔ ایک تحقیقاتی عدالت قائم ہوئی جس مـیں بہت سے علماء )اہل حدیث۔ دیوبندی۔ بریلوی۔ شیعہ( نے شہادتیں دیں۔ عدالت نے سب سے پوچھا کہ اسلام کی رو سے >مسلم< کی تعریف کیـا ہے۔ عمر بھر درس و تدریس اور فتویٰ دینے والے علماء اس سوال پر بہت چکرائے مشکل سے جواب دے سکے اور متضاد جوابات دے کر خود ایک دوسرے کی تکذیب کر بیٹھے۔ کوئی ضروریـات دین کی حد تک گیـا ہے جو شخص ضروریـات دین کو مانے وہ مسلمان ہے مگر دین کیـا ہیں؟ ان کی فہرست کوئی عالم پیش نہ کر سکا۔ چند علماء نے یہ کہہ کر پیچھا چھڑایـا کہ عدالت نے اس سوال پر غور کرنے کی مہلت نہیں دی۔ گویـا ساری عمر مسلمان کی تعریف سے بے نیـاز اور غافل رہے اور غفلت مـیں لاکھں بندگان خدا کو کافر بنا ڈالا۔ حال ہی مـیں سنی شیعہ جھگڑے چلے جن مـیں جانوں کا اتلاف ہوا۔ نہ معلوم آئندہ کیـا ہو۔ ہم ذیل مـیں لفظ >مسلم< کے سلسلہ مـیں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اس سے پاکستان کے علماء کوئی فائدہ اٹھا سکیں اور انہیں لفظ مسلم کی تعریف کیلئے کچھ مواد مل جائے۔
لاہور کے معاصر آزاد نے سوال اٹھایـا ہے کہ جب صدر مملکت کے لئے مسلمان ہنا شرط ہے تو لفظ مسلمان کی آئینی تعریف بھی قانون مـیں شامل ہونی چاہئے۔ اور جبکہ رائے دہندوں کو مسلمان اور نا مسلمان کے خانوں مـیں تقسیم کیـا جا رہا ہے۔۔۔۔ مسلمان کی تعریف اور بھی ضروری ہوگئی ہے۔ ورنہ رائے دہندوں کی تقسیم بالکل بیکار ہو جائےاور فلاں فرقہ کو بھی مسلمانوں مـیں شامل کرلیـا جائے گا۔
)روزنامہ آزاد ۱۸/ نومبر ۱۹۵۷ء(
بیشک لفظ >مسلمان< کی تعریف ضرور شائع ہونی چاہئے۔ مگر اس کی تعریف علماء کرام ہی فرمائیں گے تو ہوگی۔ اس کے صرف دو طریقے ہو سکتے ہیں اول یہ کہ جس فرقہ کو اسلام سے خارج کرنا یـا اسے کافر قرار دینا ہو اسے پہلے سے زہن مـیں محفوظ رکھیں اور پھر >مسلمان< کی کوئی ایسی تعریف نکالیں جس مـیں صرف وہی فرقے داخل ہو سکیں جن کو تعریف کرنے والے داخل کرنا چاہیں۔ مگر یہ طریقہ اختیـار کرنے سے علماء کو بڑا تکلف کرنا ہوگا۔ پہلے سے مسلمان کی تعریف کئے بغیر یہ فیصلہ کرلینا کہ فلاں فرقہ اسلام سے خارج ہے اور پھر اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتاب و سنت کے ساتھ زور آزمائی کرنا بڑی محنت اور اور ساتھ ہی بڑی بددیـانتی چاہتا ہے۔ اگر ہر فرقہ نے دوسرے فرقہ کو اسلام سے نکالنے کے لئے لفظ مسلمان کی کوئی من مانی تعریف کی توی ایک تعریف پر بھی اتفاق نہ ہو سکے گا اور نتیجہ مـیں کوئی فرقہ بھی مسلمان ثابت نہ ہوگا۔ لیجئے مـیدان صاف اور لفظ مسلمان کی تعریف معلق۔ روز روز کے جھگڑوں سے نجات اور مسلمان درگور و مسلمانی درکتاب۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کے الفاظ مـیں پہلے سے فیصلہ کئے بغیر ایمانداری سے مسلمان کی تعریف تلاش کرلی جائے۔ نہ تو ذہن مـیں یہ ہو کہ فلاں فرقہ کو ضرور مسلمان ثابت کرنا ہے۔ نہ یہ کہ فلاں فرقہ کو اسلام سے نکالنا ہے۔ کتاب اللہ اور اقوال پیغمبرﷺ~ سے انہی کے الفاظ مـیں مسلمان کی تعریف اخذ کرلی جائے۔ اور اس بات کی کوئی پروا نہ کی جائے کہ اس کی رو سےمسلمان اورکافر قرار پاتا ہے۔ جو فرقہ بھی اس تعریف مـیں آتا ہو اسے آنے دو اور جو اس سے نکلتا ہو اسے نکل جانے دو نہ توی کو زبردستی داخل کرو اور نہ زبردستی نکالو۔ اگر کوئی تعریف سب کو اسلام کی آغوش مـیں لیتی ہے تو تم بھی اسے گلے لگائو اور اسے دھکے دینے کی کوشش نہ کرو۔
)۲(
کتاب و سنت مـیں لفظ مسلم کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ کیـا ہے؟ علمائے کرام نے کتاب و سنت کا گہرا مطالعہ اور اس کا منشاء معلوم کر کے ایک عقیدہ مقرر کیـا ہے اور یہ ارشاد فرمایـا ہے کہ جو شخص اس عقیدے کو سچے دل سے مانتا ہے وہ مسلمان ہے خواہ اس کا تعلقی فرقہ سے ہو۔ وہ عقیدہ یہ ہے۔
>مـیں اللہ پر` اس کے فرشتوں پر` اس کی کتابوں پر` اس کے رسولوں پر` آخرت کے دن پر اور اس بات پر کہ خیر و شر کا وہی مالک ہے اور اس پر کہ مرنے کے بعد جینا برحق ہے ایمان لاتا ہوں<۔
اگر یہی عقیدہ ایک مسلم کیوٹی ہے تو ہر فرقہ سے پوچھو کہ وہ اس عقیدہ کی تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے یـا نہیں۔ اگر ایمان رکھتا ہے تو اسے مسلمان سمجھو` اور تفصیلات کو علام الغیوب کے حوالے کرو۔ی کو یہ حق نہیں کہ پھر ایسے فرقیہ کو اسلام سے خارج کر دے اور اس عقیدے کو بے نتیجہ اور بے اثر بنائے۔
اگر اس استدلالی اور استنباطی عقیدہ سے کام نہیں چل سکتا۔ تو پھر کتاب اللہ سے کتاب اللہ کے الفاظ مـیں پوچھو اور قرآن کریم سے لفظ مسلم کی تعریف نکالو۔ قرآن ہر زمانہ مـیں بولنے والی کتاب ہے۔ ناممکن ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ہمـیں لفظ مسلم کی تعریف سے آگاہ نہ کرے اور ہمـیں مسلمان کی تریف نہ بتائے۔ ہم نے جب اس مقصد کے لئے قرآن حکیم سے پوچا تو اس نے بتایـا~:ف۴~
انما المومنون الذین ازا ذکر اللہ وجلت قلوبھم و اذا تلیت علیھم ایـاتہ زادتھم ایمانا و علی ربھم یتوکلون الذین یقیمون الصلوہ و مما رزقنھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقا
)سورٰہ انفال ع۱(
مومن وہ ہیں کہ ذکر الٰہی کے وقت ان کے دلوں مـیں خوف پیدا ہوتا ہے اور جب آیـات تلاوت کی اجتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ اور وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور خدا کے بخشے ہوئے رزق کو خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں سچے ایمان والے۔ )قرآن پ۹ ع۱۵(
۲۔
‏]ksn [tagفاتم یستجیبوا لکم فاعلموا انما انزل بعلم اللہ و ان لا الہ الا ھو فھل انتم مسلمون )ھود ع۲(
اگر وہ تمہاری بات کا جواب نہد ے سکیں تو سمجھ لو کہ یہ قرآن خدا کے علم کے مطابق اترا ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بعد کیـا تم مسلمان ہو۔ )قرآن پ۱۲ ع۲(
۳۔
و اذا وہیت الی الحوا این ان امنوا بی وبرسولی قالوا امنا و اشھد باننا مسلمون )المائدہ ع۱۵(
اور ہم نے حواریوں کو وحی کی کہ وہ مجھ پر اور مـیرے رسول پر ایمان لائیں۔ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ )قرآن پ۷ ع۵(
۴۔
قل انما یوحی الی انما الھکم الہ واحد فھل انتم مسلمون )الانبیـاء ع۷(
کہہ دو کہ مجھ کو تو یہی حکم ملا ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے۔ بعد کیـا تم اسلام قبول کرتے ہو۔ )قرآن پ۱۷ ع۷(
۵۔
فان تابوا و اقاموا الصلوہ واتوا الزکوہ فاخوانکم فی الدین )توبہ ع۲(
اگر وہ تائب ہو کر نماز قائم کریں اور زکٰوٰہ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ )قرآن پ۱۰ ع۸(
۶۔
فامنوا باللہ و رسولہ النبی الامـی الذی یومن باللہ و کلماتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون ۰اعراف ع۲۰(
پس تم اللہ اور اس کے نبی امـی کی رسالت پر ایمان لائو جو خود بھی اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان لایـا ہے۔ اور تم اس کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پائو۔ )قرآن پ۹ ع۱۰(
اب خواہ آپی ایک آیت سے لفظ >مسلم< اور مومن کی تعریف اخذ کریں یـا تمام آیـات کو ملا کر کوئی نتیجہ نکالیں` خلاصہ یہی ہے کہ جو شخص خدا کی توحید اور صاحب قرآن کی رسالت کا قائل ہے نماز قائم کرتا اور زکٰوٰہ ادا کرتا ہے وہ مسلمان ہے` سچا مومن ہے` مسلمان کا بھائی ہے۔ ہدایت یـافتہ ہے اور حوار تو خدا اور اس کے رسولﷺ~ پر ایمان لا کر لوگوں کو گواہ بناتے ہیں کہ باننا مسلمون۔
)۳(
قرآن کے بعد صاحب قرآن کی طرف آئیے اور دیکھئے کہ حضور~صل۱~ نے کو مسلم قرار دیـا ہے:
)۱( حضرت جبرائیلؑ نے پوچھا ایمان کیـا ہے؟ فرمایـا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر` اللہ کے فرشتوں پر` اس کی ملاقات پر` اس کے رسولوں پر` دوسری ¶زندگی پر یقین کرو۔ فرشتے نے پوچھا اور اسلام؟ فرمایـا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھی کو شریک نہ کرو۔ نماز قائم کرو` زکٰوٰہ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ )بخاری کتاب الایمان(
۱۔
اسلام کی بنیـاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی شہادت کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ~)صل۱(~ اللہ کے رسول ہیں۔ نماز کا قیـام۔ زکٰوٰہ کی ادائیگی۔ بیت اللہ کا حج۔ رمضان کے روزے۔ )بخاری کتاب الایمان(
۳۔
جس شخص نے ہماری نماز پڑھی اور ہماری قبلہ کو مانا اور ہمارا ذبیحہ کھایـا تو وہ مسلمان ہے۔ )مشکٰوٰہ(
مسلم کی تعریف مـیں خدا نے جو کچھ بتایـا ہے کیـا صاحب قرآن~صل۱~ نے کوئی دوسری راہ اختیـار کی؟ ایمان کی تعریف مـیں اور مسلم کی تعریف مـیں اسلام کی بنیـادیں کیـا ہیں؟ اس کا اجمال قرآن مـیں اور تفصیل صاحب قرآن کے فرمان مـیں ہے۔ بعد جو شخص` جو فرقہ` ایمان و اسلام کی ان تمام باتوں کو مانتا ہے۔ وہ سچا مسلمان اور پکا ایماندار ہے۔ی کو حق نہیں کہ کچھ اپنی طرف سے بڑھا کری کو اسلام سے خارج کرے اور کتاب اللہ اور ارشادات رسولﷺ~ سے تجاوز کر کے صرف اپنے اسلام کا ڈھنڈورا پیٹے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ آیـات اور احادیث مسلم کی تعریف مـیں کارآمد نہیں ہو سکتیں۔ کچھ اور آیـات اور احادیث ہیں جو لفظ مسلم کی تعریف مـیں قول فیصل کا حکم رکھتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ آیـات اور احادیث پیش کرو اور ان مـیں اپنی طرف سے کچھ نہ ملائو۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام سے اس فرقہ کو خارج کرو جسے کتاب اللہ اور اقوال رسول اللہﷺ~ خارج کریں اور ان فرقوں کو مسلمان سمجھو جن کو خدا اور رسولﷺ~ خارج کریں اور ان فرقوں کو مسلمان سمجھو جن کو خدا اور رسولﷺ~ مسلمان قرار دیں۔ ایک حرف کی کمـی بیشی نہ کرو۔ الفاظ اور ان کا صحیح مفہوم جوں کا توں رہنے دو۔ اور پھر دیکھو کہ اسلام مـیںداخل ہوتا اور اس سےخارج ہوتا ہے۔
اس موقعہ پر علامہ سد سلیمان ندوی رحمہ اللہ علیہ کا یہ قول بی یـاد رکھنے کے قابل ہے:
>بخاری مـیں ہے کہ ایک دفعہ ایک صاحب کو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا تھا۔ وہ احمق سی کوئی حبشیہ آنحضرت~صل۱~ کی خدمت مـیں لے آئے اور دریـافت کیـا کہ کیـا یہ مسلمان ہے؟ آپ نے اس سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے؟ اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی آپ نے ان صاحب سے فرمایـا لے جائو یہ مسلمان ہے۔ اللہ اکبر! اسلام کی حقیقت پر کتنے پردے پڑ گئے ہیں آپ اسلام کے لئے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دینا کافی سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک آج کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ نسفی کے بندھے ہوئے عقائد پر حرفاًحرفاًآمنت نہ کہتا جائے<۔ )رسالہ اہلسنت والجماعت ~ف۲۴(~
)۴(
اسلام اور ایمان کے مقابلہ مـیں کفر اور انکار ہے۔ جو مسلمان نہیں وہ نا مسلمان ہے اور یہ معلوم ہو چکا ہے کہ مسلمانہے اور اس کے لئے کن باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ بعد جس شخص کو ان باتوں سے انکار ہے وہ نا مسلمان ہے۔ یہ بات اتنی واضح ہے جس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ تاہم وضاحت کے لئے یہ کہنا شاید نامناسب نہ ہوگا کہ کفر کی بنیـاد انکار و تکذیب ہے التاویل فزع القبول )تاول قبول و تسلیم ہی کی ایک شکل ہے(
امام غزالی~رح~ فرماتے ہیں:
اما الوصیہ فان تکف لسانک عن تکفیر اھل القلہ ما امکنک ما داموا قائلین لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ غیر منافقین لھا و المنافقہ تجویزھم الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعذر او بغیر عذر فان التکفیر فیہ خطر و السکوت لا خطر فیہ۔
)التفرقہ بین الاسلام والزندقہ ~ف۵۶(~
ترجمہ۔ مـیری نصیحت یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اہل قبلہ کی تکفیر سے اپنی زبان کو روکو جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل رہیں اور اس کے خلاف نہ کریں اور خلاف یہ کہ حضور صلعم کوی عذر یـا بغیر عذر کے کاذب قرار دیں۔ کیونکہی کو کافر کہنے مـیں بڑے خطرات ہیں اور سکوت مـیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
چونکہ امام صاحب نے مسئلہ تکفیر کی گہری ریسرچ کی ہے اور کتاب التفرقہ اسی موضوع پر لکھی ہے۔ اس لئے انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ مسلمانوں کے فرقے جب ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں تو اس کے لئے انکار و تکذیب ہی کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ مگر جب تک قائل خود انکار نہ کردے اور اپنی طرف سے تکذیب کا یقین نہ دلائے۔ اسے مکذب و مکفر قرار نہیں دیـا جا سکتا۔ امام صاحب فرماتے ہیں:
>ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا ہے۔ اور اس پر رسولﷺ~ کی تکذیب کی تہمت دھرتا ہے۔ حنبلی اشعری کو کافر لکھتا ہے اور یہ خیـال کرتا ہے کہ اس نے خدا کے لئے اوپر کی جہت اور عرش پر بیٹھنے کی تکذیب کی ہے اور اشعری حنبلی کو اس لئے کافر کہتا ہے کہ وہ خدا کی تشبیہہ کا قائل ہے۔ حالانکہ رسولﷺ~ نے توکمثلہ کہا ہے۔ اس لئے وہ رسول کی تکذیب کرتا ہے اور اشعری معتزلی کو اس بناء پر کافر بتاتا ہے کہ اس نے خدا کے دیدار ہونے اور خدا مـیں علم و قدرت اور دیگر صفات کے قائم بالذات ہونے سے انکار کرنے مـیں رسولﷺ~ کی تکذیب کی ہے<۔ اور معتزلی اس خیـال سے اشعری کو کافر بتاتا ہے کہ صفات کو عین ذات نہ ماننا تکثیر فی الذات ہے۔ اور توحید باری کی تکذیب رسولﷺ~ اللہ کی تکذیب ہے<۔ )التفرقہ بین الاسلام والزندقہ ~ف۲۳(~
یہ سطور اہل پاکستان کے ان علماء کے لئے لکھی گئی ہیں جو حکومت سے لفظ مسلم کی تعریف کرانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وہ تعریف سے پہلے بعض فرقوں کو خارج از اسلام قرار دینے کے لئے بے چین ہیں اور تعریف بھی ایسی من مانی کرانا چاہتے ہیں کہ جن کو وہ مسلمان کہنا نہیں چاہتے وہ مسلمان ثابت نہ ہوں۔ اس الجھن کو دور کرنے کے لئے یہ سطور پیش کی جا رہی ہیں۔
>ناظرین یقین فرمالیں کہ مضمون نگار صاحب نہ >قادیـانی< ہیں نہ >رافضی< نہ >وہابی< نہ >بدعتی< نہ >پرویزی< نہ >چکڑالوی< نہ >خارجی< نہ >مودودی<۔ بلکہ ٹھیٹھ اہل سنت ہیں۔
جمعیہ العلماء سے تعلق رکھنے والے ہیں<۔
۸۔ چیف جسٹس قدیر الدین صاحب نے لکھا:
>اسلامـی ایک دین کا نام ہے یـا طرح طرح کے بہت سے دین اور بہت سی شریعتوں کو ملا کر ان کا نام اسلام رکھ دیـا گیـا ہے؟
یہ سوال ان سب لوگوں کے لئے اہم ہے۔ جو اپنے آپ کو سچے دل سے مسلمان بھی کہتے یں۔ اور اسلام سے محبت بھی رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک مـیں یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا کہ مسلمان کن عقائد کے رکھنے والوں کو کہتے ہیں چنانچہ ہمارے دستور مـیں مسلمان کی تعریف (Defination) شامل نہیں ہو سکی۔ اس لئے شق نمبر ۲۶۰ کے جز نمبر ۳ مـیں غیر مسلم کی تعریف شامل کی گئی ہے۔ اس سلسلہ مـیں سب سے پہلے یہ سوال کہ مسلمان کو کہتے ہیں؟ کھل کر ۱۹۵۳ء مـیں اس وقت سامنے آیـا۔ جب قادیـانیوں کے خلاف پنجاب مـیں فسادات ہوئے اور ایک تحقیقی عدالت مقرر کی گئی کہ ان فسادات کے اسباب کی تفتیش کرے۔ اس عدالت کے صدر جناب محمد منیر تھے جو اس وقت چیف جسٹس تھے اور ایک رکن کیـانی صاحب مرحوم تھے۔ جو اس وقت پنجاب ہائی کورٹ کے جج تھے۔
اس عدالت نے ملک کے تقریباً تمام فرقوں کے سرکردہ علماء کو بطور گواہ کے بلایـا` جو فرقے اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ چنانچہ وہ سب پیش ہوئے اور سب سے یہ سوال کیـا گیـا کہ مسلمان کی تعریف کیـا ہے؟ ہر ایک کا جواب منیر رپورٹ مـیں درج ہے۔
ان جوابات کو غور سے دیکھا جائے۔ تو معلوم ہوگا کہ ان مـیں سے کوئی بھی یہ کہہ کر مطمئن نہیں ہوا کہ اللہ کو ایک ماننا اور محمدﷺ~ کو اس کا سچا پیغمبر ماننا ایک مسلمان کا عقیدہ ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ اور شرائط شامل کی گئیں وجہ یہ تھی کہ اگر وہ شرائط نہ لگاتے تو پھر فرقوں مـیں جو اختلاف ہے اس کی بنیـاد قائم نہ ہو سکتی۔ ہر فرقے کے عالم نے ان عقائد کا ذکری نہی طرح سے مسلمان کی تعریف مـیں کرنا ضروری سمجھا۔ جن کو وہ اپنے فرقے کی خصوصیت سمجھتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان کی تریف مـیں فرقوں کی تعریفیں شامل ہوتی رہیں۔ دوسرے الفاظ مـیں اسلام فرقوں کا ایک مجموعہ نظر آنے لگا اور خالص اسلام کی تعریف مسلمان کی تعریف کے ساتھ الجھ کر رہ گئی<۔
روزنامہ >جنگ< کراچی ۱۶/ مئی ۱۹۷۶ء بحوالہ ہفت روزہ لاہور
جلد نمبر ۲۵ شمارہ نمبر ۲۲`۳۱/ مئی ۱۹۷۶ء صفحہ نمبر ۵
ایک اہلحدیث عالم دین کا نعرئہ حق
۸۔ پنجاب کے مشہور اہلحدیث خاندان کے چشم و چراغ مولانا غلام محی الدین لکھوی نے )گوہڑ نمبر ۸ متصل پتوکی ضلع لاہور مـیں( ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایـا:
>ہر وہ شخص جو پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے مسلمان ہے خواہ وہ کوئی بھی عقیدہ رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔ تحقیقاتی عدالت مـینی عالم دین کو مسلمان کی تعریف کرنا نہیں آئی۔ حالانکہ حدیث کی رو سے مسلمان وہ جو حدیث من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا و اکل ذبیحتنا پر عامل ہے<۔
اخبار >الاعتصام< لکھتا ہے کہ:
>اس موقع پر انہوں نے تمام علماء کو جاہل قرار دیـا ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ قادیـانیوں کے بارہ مـیں جناب کا کیـا خیـال ہے؟ جبکہ وہ اس حدیث پر بھی عامل ہیں؟ مولانا نے فوراً جواب دیـا کہ وہ مسلمان ہیں<۔~ف۵~
برصغیر کے ممتاز ادیب اور سکالر کی رائے
۹۔ مـیاں محمد طفیل ایڈیٹر رسالہ نقوش و سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹرز گلڈ نے لکھا:]>[مجھے یـای کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہمـی کو کافر اوری کو مسلمان کہیں جبکہ آج تک یہی پتہ نہ چلا ہو کہ مسلمان کی تعریف کیـا ہے۔ ۱۹۵۳ء مـیں احمدی ایجی ٹیشن کے خلاف جو انکوائری کمـیٹی بیٹھی تھی اس نے تمام علماء سے سوال کیـا تھا کہ پہلے یہ بتائیے کہ مسلمان کی تعریف کیـا ہے وہاں مختلف عقائد کے علماء جمع تھے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئے اس لئے کہ مسلمانوں مـیں بھی تو کئی عقیدوں کے لوگ ہیں جیسے شیعی` خارجی` معتزلی` وہابی` احمدی` بہائی` نیچری وغیرہ۔ ہمارا مولوی تو دوسرے عقیدے والے کو پھت سے کافر کہہ دیتا ہے۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم مولویوں کی نظر مـیں مسلمان نہیں ہیں اس لئے کہ جو خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان رکھتا ہے وہ کافر کیسے ہو جاتا ہے<۔~ف۶~
غیر مسلم دنیـا مـیں اسلام اور پاکستان کی بدنامـی
تحقیقاتی عدالت مـیں علماء کے طرزعمل` تنگ نظری` تعصب اور علمـی کم مائیگی کے مظاہرہ نے جہاں برصغیر کے مسلمان حلقوں مـیں ان کے خلاف سخت نفرت و حقارت کے جذبات پیدا کئے وہاں اس کا یہ افسوسناک نتیجہ بھی برآمد ہوا کہ غیر مسلم دنیـا مـیں بھی اسلام اور پاکستان کی سخت بدنامـی ہوئی۔ اس حقیقت مـیں صرف چند تحریرات کا ذکر کافی ہوگا۔
۱۔ مشہور مستشرق پروفیسر ولفرڈ کانٹ ویل سمتھ
‏Smith) Cantwell (Wilfred
نے لکھا:
‏ was world, the subsequently and Inquiry, of Court <The no divines Muslim of spectacle sorry the with presented who and Muslim, a definitionof the on agreed whom of two should disagreed who all that unanimous practically were yet ۔death> to put be
‏ Cantwell Wiflred by History Modern in Islam
1957۔Smith
۔233 page, USA, Jersey, New Princeton, Press, University Princeton
تحقیقاتی عدالت اور بعد مـیں دنیـا کے سامنے یہ افسوسناک نظارہ پیش کیـا گیـا کہ کوئی سے دو علماء بھی مسلمان کی تعریف پر آپس مـیں متفق نہ ہو سکے اور اس کے باوجود وہ سب اس بات پر عملی طور پر متفق تھے اور یک آواز تھے کہ جو شخص بھی ان کے نکتہ نگاہ سے اختلاف کرے اسے قتل کر دیـا جائے۔
۲۔ مسٹر ایم اے کرانڈکر Karandikar)۔A۔(M نے لکھا:
‏ Council a into itself converted on later committee The turn ugly an took on later agitation The ۔Action of appointment and law martial of imposition the in resulting and Munir۔M Justice by headed enquiry of commission a of Munir the as famous is report Their ۔Kayani۔R۔M Justice <In Report: the in summarised is controversy The ۔Report fundamental a is there Islam in or state Islamic am non-Muslim and Muslim of rights the between distinction mentioned be once at ma which distinction one and subjects the htwi associated be cannot Muslims۔non the that is Therefore, ۔sphere higher the in administration of business not could they Kafirs, but Muslims not were Ahmadis the if a as and state the in offices high the of any occupy required demands the of two proposition the from deduction Ahmadis other and khan Zufrulla Choudhary of dismissal the the and State, the in positions key occupying were who non-Muslim a as Ahmadis of declaration the required third ۔minority
‏ that claimed ulama different evidence, their giving While voice no have would non-Muslims the state, Islamic the in no ۔law the administer to right no laws, of making the in in employed be to right no office, public hold to right the involving post any or ministry judiciary, army, the question the with confronted When ۔confidence of reposing same the in treated be should Muslims the whether to as categorically ulama other and Moududi ۔India in manner were Muslims the if objection no had the that stated the was This ۔India in shudras and mlechhas as treated forthright however, were, They ۔practice in theory Qurban understood they (as Mussalman true a that admit to enough non-Muslim any of citizen faithful a be not could term) the Islamic the that stated Ansari Tajuddin Maulana ۔government ۔minute a for India in remain them let not would ideology the of Qari, Ahmad Muhammad Sayyid Hasnat Abdul Maulana between war a of event the in that stated Pakistan I۔U۔J bound duty were Muslims Indian the Pakistan, dna India Maulana by corroborated was view This ۔Pakistan with side to an in enquirythat the during stated ulama Some ۔Moududi human of photographing painting, portrait State Islamic acting dancing, music, cards, of playing ۔sculpture beings, be to have will performance dramatic and cinema all and or policeman a that stated hasnat Abdul Maulana ۔banned command disobeyany to right the have would soldier a decide to free was soldier the or policeman the from to contrary was command particular a whether himself Pakistan between war a during only was It ۔not or religion not was soldier the that country non-Muslim another and he eventuality, an such in himself: for decide to free Maulana ۔ulama the of fatwa the on depend haveto would that considered others some and Badayuni Hanif Abdul college Medical the in bodies dead of dissection the ۔Islam to antithetical was postmortem for or
‏ differed materially shades different the of ulama The Report The ۔Muslim a define to asked when other each from several the view in <Keeping position: curious the summarizes except comment any make we need ulama, the by given definitions If ۔fundamental this on agreed are divines learned two no that done has divines learned each as definition own our attempt we we others, all by given that from differs definition that and the adopt we if And ۔Islam of fold the of out go unanimously Muslims remain we ۔ulama the of one any by given definition the to according Kafirs but alim that of weiv the to according ۔else one every of definition
‏ Modernity, to Transition India's in Islam
۔285۔pp:284 Karandikar, ۔A۔M by
‏ Mahr Society, Darakhshan 25/216 Publishers Eastern
7۔KARACHI
اس )احراری( کمـیٹی نے بعد مـیں جب اپنے آپ کو راست اقدام کرنے والی کمـیٹی مـیں بدل دیـا تو ایجی ٹیشن نے ایک انتہائی بدنما رخ اختیـار کرلیـا۔ تحقیقاتی کمـیشن جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیـانی کی سرکردگی مـیں مقرر کیـا گیـا۔ ان کی رپورٹ منیر رپورٹ کے نام سے مشہور ہے اس قضیہ کو اس رپورٹ مـیں مختصراً یوں بیـان کیـا گیـا ہے۔
>ایک اسلامـی ریـاست مـیں یـا یوں کہئے کہ اسلام مـیں مسلمانا ور غیر مسلمان رعایـا کے حقوق مـیں ایک بنیـادی امتیـاز ہے۔ جسے فوراً بیـان کیـا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ غیر مسلمان کو ریـاست کے اعلیٰ انتظامـی امور مـیں شامل نہیں کیـا جا سکتا۔ اس لئے اگر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ کافر ہیں۔ تو وہی بھ اعلیٰ ریـاستی منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ اور مطالبہ کی شرط نمبر۲ سے بطور استنباط یہ دو مطالبے کئے گئے۔ کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو برطرف کیـا جائے۔ اور دوسرے احمدی جو ریـاست کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ انہیں برخواست کیـا جائے۔ اور تیسرا مطالبہ یہ که تا کہ احمدیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیـا جائے۔
اپنی شہادت کے دوران مختلف علماء نے یہ دعویٰ کیـا۔ کہ اسلامـی ریـاست مـیں غیر مسلموں کی قانون سازی مـیں کوئی آواز نہ ہوگی۔ اور وہ قانون کی تنفیذ مـیں کوئی اختیـار نہ رکھیں گے۔ اوری پبلک عہدہ پر مقرر نہ کئے جا سکیں گے۔ فوج` عدالت` وزارت مـیں یـای ایسی اسامـی پر جہاں اعتماد کا سوال ہو ملازم نہیں رکھے جائیں گے۔ اور جب ان کے سامنے یہ سوال پیش کیـا گیـا۔ کہ آیـا مسلمانوں سے بھی ہندوستان مـیں ایسا ہی سلوک کیـا جائے۔ تو مودودی اور دوسرے علماء نے بے لاگ جواب دیـا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا اگر ہندوستان مـیں مسلمانوں سے ملیچھوں یـا شودروں والا سلوک کیـا جائے۔
یہ قرآنی نظرئیے کی عملی شکل تھی۔ انہوں نے اس بات مـیں بھی نہای بے باکی سے اعتراف کیـا۔ کہ ایک سچا مسلمان )جیسا کہ ان کے خیـال مـیں ایک سچا مسلمان ہونا اہئے(ی دوسری غیر مسلم ریـاست کا وفادار شہری بن کر نہیں رہ سکتا۔ مولانا تاج الدین انصاری نے بیـان کیـا۔ کہ اسلامـی نظرئیے کے تحت تو وہ ایک منٹ کے لئے بھی ہندوستان مـیں قیـام نہیں کر سکتے۔ جمعیت العلماء پاکستان کے مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادر نے بیـان کیـا۔ کہ پاک و ہند کے درمـیان جنگ کی صورت مـیں مسلمانان ہند کا لازمـی فرض ہوگا۔ کہ وہ پاکستان کی حمایت کریں۔ اس بیـان پر مولانا مودودی نے صاد فرمایـا۔ تحقیقات کے دوران بعض علماء نے بیـان کیـا کہ ایک اسلامـی ریـاست مـیں مصوری۔ انسانوں کی فوٹو اتارنا۔ مجسمہ سازی۔ تاش کھیلنا۔ موسیقی۔ ۔ ایکٹنگ اور ہر طرح کے سینما اور ڈرامائی کردار پر حکم امتناعی لگانا ہوگا۔ مولانا ابوالحسنات نے بیـان کیـا۔ کہ ایک پولیس مـین یـا فوجی ملازم کو اپنے مذہب کی بناء پر اختیـار ہوگا۔ کہ وہ اپنے اعلیٰ افسران کےی بھی حکم کو ماننے سے انکار کر دے انہوں نے مزید یہ فرمایـا۔ کہ ایک فوجی یـا پولیس مـین اس بات مـیں آزادہوگا کہ وہ خود فیصلہ کرے۔ کہ آیـا اس کے افسر کا کوئی خاص حکم شرع )محمدی( کے مخالف ہے یـا نہیں۔ سوائے اس کے کہ پاکستان کیی غیر مسلم ملک سے جنگ کی صورت مـیںی فوجی ملازم کو یہ اختیـار نہ ہوگا۔ کہ وہ ازخود فیصلہ کرے بلکہ ایسی صورت مـیں اس کو چاہئے کہ وہ علماء )اسلام( کے فتویٰ پر انحصار کرے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی اور کچھ دوسرے علماء کے خیـال مـیں مردوں کی چیڑ پھاڑ جو مـیڈیکل کالجوں مـیں ہوتی ہے یـا پوسٹ مارٹم وغیرہ خلاف اسلام ہیں۔ جب علماء سے یہ کہا گیـا کہ مسلمان کی تعریف بیـان کریں۔ تو اس مـیں بھی مختلف خیـالات کے علماء کا اپس مـیں مادی اختلاف تھا۔ رپورٹ اس کیفیت کو اختصاراً یوں بیـان کرتی ہے۔
>ان بہت سی تعریفوں کے پیش نظر جو کہ علماء نے پیش کی ہیں۔ کیـا ہمـیںی تبصرے کی ضرورت ہے سوائے اس کے کہ کوئی بھی دو مقدس عالم اس بنیـادی اصول پر متفق نہ تھے۔ اگر ہم خود اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ ہر فاضل عالم دین نے کی ہے اور ہماری تعریف ان سے مختلف موجود دوسروں کے کی ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج اور اگر ہمـی ایک عالم کی بتائی ہوئی تعریف کو قبول کرلیں۔ تو ہم صرف اس ایک عالم کی تعریف کے مطابق ہی مسلمان رہتے ہیں۔ لیکن باقی تمام علماء کی تعریفوں کے مطابق ہم کافر بن جاتے ہیں<۔
۳۔ ایک روسی مئولف ملایـا زنکن (Tayazinkin) نے اخبار مـیں لکھا کہ:
‏Guarian Manchester The
‏1955 January 8th
‏ Chief present The �Constitution Islamic an is what But has Munir, Justice۔Mr ۔truCo Federal the of Justice Lahore the on report his in problem the considered massaered where Ahmdis the where 1953 of disturbances State Islamic the then is <What ۔orthodoxy of name the in He >�tinks nobody and much so talks everybody which of corollaries and implications definition, the discuss to on goes the that fact the by handicapped somewhat though Islam, of gave who Scholars and Mullahs pundits, Moslem of scores man a makes what over even agree not could evidence ۔Islamic> State a ealon let Mussalman,
216۔p Munir Muhammad Justice Chief
۔Chaudhri Hussain Nazir by
‏ Lahore, Pakistan, of Society Research Publisher:
1973 ۔March ۔Edition First
اسلامـی آئین کیـا ہے؟ فیڈرل کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس۔ مسٹر جسٹس منیر نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ مـیں اس مسئلہ پر غور کیـا ہے۔ جو انہوں نے ۱۹۵۳ء مـیں لاہور کے فسادات کے بارے مـیں لکھی ہے۔ )ان فسادات مـیں( احمدیوں کا قدامت پسندی کے نام پر قتل عام کیـا گیـا تھا۔ اس نے دریـافت کیـا ہے >آخر وہ اسلامـی ریـاست کیـا ہے جس کے بارے مـیں ہر شخص اتنی باتیں کرتا ہے۔ اور کوئی سوچتا نہیں<۔ پھر وہ آگے چل کر اسلام کی تعریف اس کے مبادی۔ اور اس کے بدیہی نتائج پر بحث کرتا ہے۔ اگرچہ وہ اس امر سےی قدر مشکل مـیں پڑگیـا ہے کہ بیسوں مسلم پنڈت ملا اور عالم لوگ جنہوں نے )اس کی عدالت مـیں( گواہیـاں دی تھیں۔ وہ لوگ صرف اس بات پر آپس مـیں اتفاق نہ کر سکے۔ کہ ایک شخص کو مسلمان بنانے کے لئے کن باتوں کی ضرورت ہے۔ چہ جائیکے وہ یہ بیـان کر سکتے کہ اسلامـی ریـاست کیـا ہونی ہے۔
۴۔ ایک اور روسی مفکر مسٹر ایم ٹی سٹیپنینٹس Stepanynts) T۔(M نے علماء کے متشددانہ نظریـات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
‏ theorising, to themselves confined not have ulama The their of fourteen to over gone have have time from and Jamaat-i-Islami and Ahrar leading the including organisations, Playing ۔sect Ahmadiya the against campaign a launched parties, real the (whereas faith of questions on differences their up bourgeois different between struggle political the in lay reason for demands: following the raised ulama the groups), landlord and foreign of post the from removed be to Khan Zafrullah Chaudhury all for sect; the in membership his of grounds the on minister ۔offices government their from dismissed be to Ahmadis
‏ sympathetic a with meet not did ulama the by taken stand The undemocratic as denounced was It ۔circles official in reception blamed be not could which Islam; of spirit the to contradictory and stained are history Muhammadan of pages <the that fact the for cruel many of blood the ~withف۸~۔>snpersecutio
علماء نے اپنے آپ کو نظریـات قائم کرنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتاً عملی اقدام بھی کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۵۳ء مـیں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جبکہ ان کی چودہ تنظیموں بشمولیت احرار اور جماعت اسلامـی نے جو اس ایجی ٹیشن مـیں نمایـاں کردار ادا کر رہی تھیں فرقہ احمدیہ کے خلاف ایک زبردست مہم کا آغاز کیـا۔ اگرچہ حقیقی اختلاف اس سیـاسی کشمکش مـیں مضمر تھا جو شہری متوسط طبقہ اور جاگیردار طبقے مـیں جاری تھی مگر اس موقع پر علماء نے مذہبی مسائل پر اختلافات کو ہوا دی اور مندرجہ ذیل مطالبات پیش کر دئیے۔
ایک یہ کہ احمدیوں کو ایک غیر مسلم فرقہ قرار دیـا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس فرقے کا ایک رکن ہونے کی بناء پر چوہدری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ سے ہٹا دیـا جائے۔ تیسرے یہ کہ تمام احمدیوں کو سرکاری عہدوں سے برطرف کیـا جائے۔
علماء کے اس مئوقف کو سرکاری حلقوں مـیں پذیرائی حاصل نہ ہوئی بلکہ اس کو غیر جمہوری اور روح اسلام کے متضاد سمجھتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی۔ ویسے اس کی وجہ سے علماء کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایـا جا سکتا کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامـی تاریخ اس قسم کی بعض ظالمانہ ایذا رسانیوں کے خون سے داغ دار ہے۔
حواشی
~ف۱~
ہفت روزہ >الاعتصام< لاہور ۷/ اکتوبر ۱۹۵۵ء ص۵ کالم۱
~ف۲~
صدق جدید ۲۸/ مئی ۱۹۵۴ء بحوالہ الفرقان ربوہ جولائی ۱۹۵۴ء ص۴۸
~ف۳~
روزنامہ >ملت< لاہور ۲۱/ جون ۱۹۵۵ء ص۱
~ف۴~
مقالہ مـیں صرف ترجمہ آیـات درج ہے آیـات کا متن مقالہ کی افادیت مـیں اضافہ کے لئے بڑھایـا گیـا ہے۔
~ف۵~
مکتوب محمد یوسف ناظم جمعیہ اہلحدیث گوہڑ نمبر۸ متصل پتوکی ضلع لاہور ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۲۶/ نومبر ۱۹۵۴ء ص۵ کالم ۱
~ف۶~
)آپ ص۳۰`۳۱ دوسرا ایڈیشن مصنف محمد طفیل۔ ایڈیٹر >نقوش< سیکرٹری جنرل پاکستان رائٹرز گلڈ
~ف۷~
بحوالہ کتاب >چیف جسٹس محمد منیر مرتبہ ناظر حسین` چوہدری شائع کردہ سوسائٹی آف پاکستان پنجاب یونیورسٹی لاہور` ص۲۱۶ طبع اول ۱۹۷۴ء
~ف۸~
۔Stepanynts T۔M by 99۔p:98 ۔Philosophy PAKISTAN ~ف۸~ ۔Sciences of Academy R۔S۔S۔U by: Published
۔Philosophy of Institute
‏tav.14.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
حصہ چہارم

۱۹۵۳ء کے جماعتی ابتلاء کی عظیم الشان برکات
پہلا باب
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے >الوصیت< مـیں مستقبل مـیں رونما ہونے والے تغیرات اور جماعتی ابتلائوں اور ان کے نتائج کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایـا تھا کہ:
>یہ مت خیـال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمـین مـیں بویـا گیـا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیںاور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ بعد مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمـیان مـیں آنے والے ابتلائوں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلائوں کا آنا بھی ضروری ہے که تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہاپنے دعویٰ بیعت مـیں صادق اورکاذب ہے۔۔۔۔۔ وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے ائیں گے اور حوادث کی آندھیـاں چلیںاور قومـیں ہنسی اور ٹھٹھا کریںاور دنیـا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئےوہ آخر فتحیـاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے<۔~ف۱~
اس پیشگوئی کے مطابق اللہ عالیٰ نے ۱۹۵۳ء کے جماعتی ابتلاء مـیں جن برکات سے اپنی پاک جماعت کو نوازا ان مـیں سے بعض کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔
اس باب مـیں چار۴ مزید برکات کا ذرا تفصیل اور شرح و بسط سے ذکر کیـا جاتا ہے۔
اوم:نشانات الٰہیہ کا ظہور۔
دوم:جماعت احمدیہ کی ترقی و استحکام۔
سوم:جماعت احمدیہ کی عالمـی شہرت مـیں اضافہ۔
چہارم:جماعت احمدیہ کی بے مثال اخلاقی قوت اور بلند کٹر کا اظہار
نشانات الٰہیہ کا ظہور
اول:سیدنا حضرت مہدئی معہود مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام نے ۳/ جنوری ۱۸۹۷ء کو حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کو لکھا:
>خداتعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہوا ہے انی مع الافواج اتیک بغتہ< ترجمہ:یعنی مـیں فوجوں کے ساتھ ناگاہ تیرے پاس آنے والا ہوں یہی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے<۔~ف۲~
اس کے بعد یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئی بار نازل ہوا۔ ۲۸/ اپریل ۱۹۰۵ء کو جب اس کا نزوال ہوا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ الہام اس کی خبر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین )خلیفہ المسیح الثانی( کو بھی دی گئی۔ چنانچہ بدر ۲۷/ اپریل ۱۹۰۵ء مـیں لکھا ہے۔
اسی شب صاحبزادہ مـیاں محمود احمد صاحب نے خواب دیکھا تھا کہ حضرت کو انی مع الافواج اتیک بغتہ< ]qi [tagالہام ہوا صبح اٹھ کر ذکر کیـا تو معلوم ہوا کہ بے شک یہ الام ہوا ہے<۔~ف۳~
اس تصرف الٰہی مـیں واضح حکمت یہی تھی کہ اس نوع کا ایک عظیم الشان نشان حضرت مصلح موعود کے دور خلافت مـیں مقدر تھا۔ چنانچہ جب اس کے ظہور کا وقت آن پہنچا تو حضور نے یہ پرشوکت پیشگوئی فرمائی کہ >خدا مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے< اس پیشگوئی کے تیسرے روز ۶/ مارچ ۱۹۵۳ء کو مارشل لاء نافذ ہوگیـا اور فوجیں لاہور مـیں داخل ہوگئیں۔
چھ مارچ کو جمعہ تھا۔ ادھر دن طلوع ہوا ادھر خدا کی مظلوم جماعت کو مٹا دینے کے منصوبے ہونے لگے۔ اس وقت کشتئی احمدیت خطرناک گرداب مـیں ہچکولے کھا رہی تھی اور اس کا بچ نکلنای معجزہ کے بغیر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ ایسے نازک وقت مـیں الہام >انی مع الافواج اتیک بغتہ< اور حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی کے عین مطابق خداتعالیٰ کی آسمانی تائید و نصرت کا یکایک نزول ہوا اور ٹھیک بارہ بجے کے قریب لاہور مـیں مارسل لاء نافذ کر دیـا گیـا اور پاکستان کی بہادر اور محب وطن فوج چند گھنٹے کے اندر اندر امن قائم کرنے مـیں کامـیاب ہوگئے۔ بصورت دیگر پاکستان اور جماعت احمدیہ کا جو حشر ہوتا اس کا تصور کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ناظم مارشل لاء مـیجر جنرل اعظم نے سچ کہا تھا کہ:
>۶/ مارچ کو فوج نے اور ڈیڑھ گھنٹہ انتظام نہ سنبھالا ہوتا تو وہاں مکمل تباہی` لوٹ مار قتل و غارت اور زنابالجبر کا دور دورہ ہوتا اوری کی عزت اور وقار محفوظ نہ تھا<۔~ف۴~
یہ مارشل لاء ۱۵/ مئی ۱۹۵۳ء کو صبح ۳ بجے اٹھایـا گیـا۔ ناظم مارشل لاء مـیجر جنرل اعظم نے ۱۴/ مئی کو اپنی نشری تقریر مـیں کہا:
>اہل پنجاب اور خاص کر اہل لاہور کو ان حالات کا اچھی طرح علم ہے جن مـیں فوج کو شہری حکام کی مدد کے لئے آنا پڑا۔ جبکہ ہر طرف بدامنی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ریلوں کی پٹریـاں اکھاڑے جانے` ٹیلیفون اور ٹیلی گراف کے تار کاٹے جانے اور عام ٹریفک مـیں مداخل کئے جانے کی خبریں برابر آ رہی تھیں۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیـا۔ غرض کہ ۶/مارچ کی اس صبح کو لاہور مـیںی بھی شہری کی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ چند خود غرض انسانوں نے اپنے مفاد کے لئے جھوٹی باتوں سے کام لے کر اور مذہب کی آڑ لیتے ہوئے نادان عوام کے جذبات کو پاگل پن کی حد تک ابھار دیـا تھا۔ انہون نے اپنی تحریک کو بظاہر مذہب کا رنگ اس لئے دیـا تھا کہ ناواقف لوگ ان کے جال مـیں پھنس سکیں۔ اب اس حقیقت مـیں کوئی شک نہیں رہا کہ ان کی یہ تحریک سارے ملک کے خلاف ایک مکمل سازش تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک مـیں بدامنی پھیلانے کے بعد حکومت کو بالکل بیکار کر دیـا جائے۔ یہ کام صرف ملک کے دشمنوں کا ہی ہو سکتا ہے<۔~ف۵~
تحریک پاکستان کے ایک عظیم رہنما جناب حمـید نظامـی نے اپنے اخبار نوائے وقت مـیں >فوج کا شکریہ< کے زیر عنوان لکھا:
>یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ۶/ مارچ ۱۹۵۳ء( کو لاہور شہر مـیں سول نظم و نسق پوری طرح تباہ ہو چکا تھا اور اگر چند گھنٹے اور مارشل لاء نافذ نہ کیـا جاتا تو پاکستان کے اس قدیم ترین تاریخی شہر مـیں بلاامتیـاز عقیدہی شہری کے جان و مال کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ ہمـیں یہ کہنے مـیں کوئی تامل نہیں کہ اگر لاہور کے حالات کو بہ وق )بلکہ یہ کہنا زیـادہ موزوں ہوگا کہ آخری وقت پر( سنبھال نہ لیـا جاتا تو لاقانونیت کی آگ سارے صوبہ کو اپنی لپیٹ مـیں لے لیتی۔ اس اعتبار سے فوج نے صرف لاہور کو ہی نہیں سارے صوبہ کو بچا لیـا ہے۔ ہم پاکستانی فوج کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں<۔~ف۶~
دوم:حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام کو ۱۸۹۲ء مـیں الہام ہوا کہ >انی مھین من اراد اھانتک~<ف۷~
جناب مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر المنبر لائل پور )فیصل آباد( تحریر فرماتے ہیں:
>قادیـانیوں کے ہاں یہ بات عقیدے کی شکل اختیـار کر چکی ہے کہ جو گروہ اور شخص مرزا غلام احمد کی نبوت کو چیلنج کرتا ہے یـا قادیـانی جماعت کی مخالفت کے درپے ہوتا ہے وہ انجام کار ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ اس پر مرزا غلام احمد صاحب کا یہ الہام ہر قادیـانی کے ورد زبان ہے۔
انی مھین من اراد اھاتنک مـیں ہر اس شخص کو ذلیل کروں گا۔ جو تیری تذلیل کے درپے ہوگا۔۔۔۔۔<
اس کے بعد لکھا:
>قادیـانی جماعت ان تمام مخالفتوں کے علی الرغم بڑھتی چلی گئی اور آج مخالفت کے جتنے طوفان اس کے خلاف اٹھے ان کی لہریں تو آہستہ آہستہ ابھرتی رہیں لیکن یہ گروہ پھیلتا چلا گیـا۔۔۔۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کام کا جواب نعروں سے` مسلسل جدوجہد کا توڑ اشتعال انگیزی سے علمـی سطح پر مساعی کو ناکام بنانے کا داعیہ صرف پھبتیوں` بے ہودہ جلوسوں اور ناکارہ ہنگاموں سے پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے جب تک وہ انداز اختیـار نہ کیـا جائے جس سے فکری اور عملی تقاضے پورے ہوں ہنگامہ خیزی کا نتیجہ وہی برآمد ہوگا۔ جو لوگ اس طرز پر مثبت کام نہیں کر سکتے وہ قادیـانی تحریک کے صحیح حامـی و مددگار ہیں وہ اس نہج پر جتنا کام کریں گے اس سے یہ تحریک تقویت حاصل کرے گی<۔~ف۸~
۱۹۵۳ء کی اینٹی احمدیہ تحریک مـیں شورش پسند علماء کی باطنی کیفیت جس طرح ملک ہر طبقہ کے سامنے آشکارا ہوئی اور ان کے اخلاق و ایمان کا سارا بھرم کھل گیـا۔ وہ بھی اس الہام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت تھا چنانچہ جامعہ رشیدیہ منٹگمری )ساہیوال( کے صدر تحریر فرماتے ہیں:
>ختم نبوت کے زمانہ مـین تمام علماء کا کھرا کھوٹ قوم نے دیکھ لیـا ہوا ہے<۔~ف۹~
اس اجمال کی تفصیل تو بہت طویل ہے بطور نمونہ صرف چند واقعات کا ذکر کافی ہوگا۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایم اے چوہدری کی یـادداشتوں مـیں لکھا ہے کہ:
>۱۹۵۳ء مـیں جب قادیـانیوں کے خلاف تحریک چلی تو مـیں لاہور مـیں تھا۔۔۔۔ ایک واقعہ یـاد ہے یونیورسٹی کے سامنے بدمعاش ننگے ناچے۔ تحریک کا ابھی آغاز تھا اس لئے تعلیمـی ادارے کھلے ہوئے تھے انہوں نے اچھل اچھل کر ختم نبوت کے نعرے لگائے اور لڑکیوں کے سامنے ننگے ناچے۔ سچی بات ہے مجھے بہت برا لگا اور بڑی غیرت آئی کہ نام لیں پاک رسولﷺ~ کا اور یوں ننگے ناچیں چنانچہ مـیں نے انہیں گھیرے مـیں لے لیـا اور ان کی خوب گوشمالی کی اس پر مـیرے خلاف افواہ پھیلا دی گئی کہ یہ قادیـانی ہے چنانچہ ایک روز آدھی رات کوی منچلے نے جنگلے سے آکر مـیرے خیمہ کو آگ لگا دی۔۔۔۔ تحریک کے دوران عام لوگوں کا جوش دیدنی تھا ناموس محمدﷺ~ پر کٹ مرنے کا ایسا بے پناہ جذبہ تھا کہ تمام تر سختیوں کے باوجودی مرحلے پر اس مـیں کوئی کمـی نہ آئی لیکن افسوس کہ ان کے لیڈر بودے نکلے اور انہیں ناکامـی و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تحریک کے دوران سیـاست دانوں اور علماء ضرات کا ایک عجیب اور افسوسناک رخ دیکھنے مـین آیـا وہی لوگ جو بڑھ چڑھا کر گرما گرم تقرریں کرتے اور نعرے لگاتے تھے کہ جو بھی ہوی کو گولی نہیں لگےلیکن حقیقتاً جب گولی چلی تو مـیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے راہ فرار اختیـار کی۔ دکانیں بند تھیں` انہوں نے دکانوں کے تھڑوں کے آگے لگے تختوں کے نیچے سے اور نالیوں مـین سے گزر کر اپنی جان بچائی۔ چند جذباتی نوجوان سینے تان کر سامنے آئے لیکن یہ بھاگ نکلے مارسل لاء لگا تو لیڈر غائب ہی ہوگئے جیسے ان کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو بہت سے چھپ گئے یـا ادھر ادھر بھاگ گئے۔۔۔۔ ایک اور لیڈر کا بتائوں جو آج بھی حیـات ہیں اور بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جب مارشل لاء لگا تو وہ مسجد وزیرخاں مـیں تھے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے اور ان کی تلاش ہونے لگی انہوں نے ڈاڑھی منڈوا دی اور چھپ گئے لیکن جلد ہی پکڑے گئے<۔~ف۱۰~
اس متن مـیں اخبار >نوائے وقت< ۲۵/ مارچ ۱۹۵۳ء صفحہ نمبر ۱ پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی تھی:
>پنجاب اسمبلی کے ایک رکن مولانا عبدالستار نیـازی آج قصور مـیں گرفتار کرلئے گئے۔
>پولیس قدیـانیوں کے خلاف حالیہ ایجی ٹیشن کے سلسلہ مـیں مولانا نیـازی کی تلاش مـیں تھی انہوں نے اس غرض سے کہ انہیں کوئی پہچان نہ سکے ڈاڑھی اور مونچھیں صاف کرا دی تھیں۔
یـاد رہے کہ پنجاب کے حالیہ واقعات سے مولانا نیـازی کو گہرا تعلق ہے وہ اپنے حامـیوں کو بے سہارا چھوڑ کر مسجد وزیر خاں سے بھاگ گئے تھے۔ اس کے بعد وہ ادھر ادھر پھرتے رہے اور آج گرفتار کر لئے گئے۔ گرفتار کے وقت وہ ایک مکان مـیں سو رہے تھے<۔
پھر جو >قائدین< جیل خانوں مـیں گئے انہوں نے وہاں جس طرزعمل یـا اخلاق کا مظاہرہ کیـا اس سے ان کے عقیدت مندوں کو سخت ٹھیس پہنچی چنانچہ >ابن انشاء< اپنے ایک مقالہ مـیں رقم طراز ہیں:
‏iq] gat>[ہمارے ایک دوست بیـان کرتے ہیں کہ جب مـیں جیل مـیں تھا تو بہت سے لوگ ختم نبوت کی تحریک کے سلسلہ مـیں جیل مـیں آگئے۔ ان مـیں کچھ بڑے ناموں والے مولوی بھی تھے۔ مـیں ان دنوں قرآن اور عربی زبان پڑھا کرتا تھا ایک روز ایک آیت کے معنوں مـیں اٹکا تو ایک لیڈر مولوی سے پوچھا کہ مولانا ذرا رہنمائی فرمائیے بہت دیر تک بیٹھے قرآن شریف کے اس صفحہ کو تکتے رہے آخر کہنے لگے >مـیاں سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں ہے کہی اور سے پوچھو< تبھی تو منیر کمـیشن کے سامنے اکثر کی بھد ہوئی۔ ان لیڈروں کے علاوہ جو کارکن اس تحریک کے سلسلے مـیں آئے تھے بہت مخلص اور نیک تھے۔ ان مـیں سے ایک خدا کا بندہ جو لاہور کا پہلوان ہے ایک روز ان دوست کے پاس آیـا اور بولا شاہ جی مـیرے جی مـیں آتی ہے کہ ان لیڈروں کو چھرا مار دوں۔ مـیں نے کہا ارے یہ کیـا کہہ رہے ہو؟ بولا یہاں پاس آکر ان کی حقیقت معلوم ہوئی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اور جلد رہائی کے لئے یـا اونچی کلاس کے لئے لڑتے ہیں کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ہم لوگوں کا حال احوال ہی پوچھ لیں کہ مـیاں تم لوگوں کو کھانے کو ٹھیک ملتا ہے<۔~ف۱۱~
پاکستان کے صحافی مجیب الرحمن صاحب شامـی نے رسالہ ہفت روزہ >زندگی< مـیں ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن مـیں حصہ لینے والے راولپنڈی کے ایک >عالم دین< اور >شیخ القرآن< کے ایک مکتوب کا عشائع کیـا جو وزیراعظم فیروز خان نون اور آئی جی سے رہائی کی سفارش کے لئے تھا۔ شامـی صاحب نے اس خط پر یہ تبصرہ کیـا کہ:
>یہ مولانا صاحب تحریک ختم نبوت کے زمانے مـیں قید ہوئے اور قید کے دوران۔۔۔۔ یہ خط تحریر کیـا۔ اس خط کو پڑھئیے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آج کل منبر رسول پر بیٹھنے والے بعض حضرات کے دل دین کی محبت سے قدر خالی ہیں اور انہیں اپنے کاروبار کا کتنا خوف لاحقہے۔ منبر پر کھڑے ہوکر ختم نبوت کے لئے جان دینے کے دعویٰ دار جیل مـیں پہنچے تو سارا دعویٰ علم و فضل دھرے کا دھرا رہ گیـا<۔~ف۱۲~
جیل خانوں مـیں ان لوگوں پر کیـا بیتی؟ اس سلسلہ مـیں جامعہ اشرفیہ کے صدر مدرس جناب مولوی محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے تحقیقاتی عدالت مـیں یہ بیـان دیـا کہ:
>ڈپٹی کمشنر مسلح پولیس کی گارد کے معیت مـیں جیل ائے۔ اس وقت علماء اور دوسرے ممتاز اصحاب بیرکوں مـیں نظر بند تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے انہیں بیرکوں سے باہر نکالا اور انہیں پانچ پانچ کے گروپ مـیں کوٹھڑیوں مـیں بند کر دیـا۔۔۔۔۔ ان کوٹھڑیوں مـیں علماء اور دوسرے ممتاز اصحاب کو بری طرح پیٹا گیـا<۔~ف۱۳~
شورش کاشمـیری صاحب مدیر >چٹان< لاہور لکھتے ہیں:
>انگریزوں کے زمانہ مـیں لاہور کا شاہی قلعہ سیـاسی اسیروں کے خلاف استعمال ہوتا تھا۔ اس تحریک مـیں بھی کئی علماء کو گرفتارکر کے قلعہ مـیں لے جایـا گیـا وہاں۔۔۔۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس۔۔۔۔۔ نے ان علماء کے خلاف اس قسم کی واہیـات زبان استعمال کی کہ ایک شریف آدمـی تخلیہ مـیں بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا الخ~<ف۱۴~
ایجی ٹیشن کے اصلمحرک اور بانی مبانی احراری زعماء تھے۔ جناب نعیم صدیقی صاحب نے ان کے رخ کردار پر روشنی ڈالتیہوئے لکھا:
>بدقسمتی سے اس مسئلے کو گزشتہ کئی سال سے ایسے عناصر لے کر چل رہے تھے جو ایک طرف اپنے سیـاسی کردار کے لحاظ سے تعلیم یـافتہ حلقوں مـیں کبھی وقار نہیں پا سکے۔ پھر ان کی ذہنی سطح ایسی تھی کہ وہ اس مسئلہ کی توضیح کے لئے ٹھوس اور~ف۱۵~استدلال ¶کرنے مـیں ناکام رہے۔ مزید برآں مصیبت یہ تھی کہ ان کی زبان اور ان کے انداز بیـان بسا اوقات رکاکت اور ابتدال` تمسخر اور استہزا کے حد کو چھو جانے کی وجہ سے کبھی اپیل نہیں کر سکا۔ یہ عناصر اس کو صحیح حل تک پہنچانے کے لئے اس سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔ لیکن اس سے مسئلہ کی اہمـیت` نزاکت اور سنجیدگی کی نفی نہیں ہو جاتی۔ ایک کیس کو پیش کرنے مـیں ایک وکیل اگر ناکام رہا ہے۔ تو ضروری نہیں خود کیس ہی کو بے جان اور بے وزن سمجھا جانے لگے۔
مزید مشکل یہ کہ یہ عناصر مسئلہ کے حل کے لئے عوام کو تربیت دے دے کر اور منظم کر کر کے کوی منصوبہ بند دستوری جدوجہد کرنے کی صلاحیتوں سے خالی تھے۔ اور ان کا طریقہ صرف اندھا جوش و خروش پھیلا دیتا رہا ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۱ء سے برابر آتشیں تقارر کے ذریعہ عوام کو جذباتی تحریک دلا رہے تھے۔ اس خطرے کو دیکھ کر ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ عوام کے جذبات کو دستوری جدوجہد کی رودگاہ مـیں سنبھالا جا سکے لیکن ہماری اصلاحی کوششوں کے علی الرغم طوفان پھوٹ پڑا۔ اور اس کی لہریں اس طرح امڈپڑیں کہ خود اس طوفان کے بپا کرنے والوں کے قابو سے بھی باہر ہوگئیں۔ جوشیلی تقریروں مـیں جو کچھ پیش آتا ہے وہ سب کچھ یہاں بھی پیش آیـا۔ ایک تو یہ کہ جب عوام جذبات کی لہروں مـیں بہنے لگے تو ان کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا۔ وہ رہنمائی کے لئے ادھر ادھر دیکھتے تھے لیکن رہنمائی کے لئے کوئی نظم سرے سے تھا ہی نہیں۔ تحریک کیمجاہدین جو ہار پہنے نعرے لگاتے جیل جانے کے لئے بے چین نظر آتے تھے وہ جیل پہنچنے کے فورا ہی بعد گھبرا گھبرا کر دریـافت کرنے لگتے کہ اب راہ نجات کیـا ہے اور پھر راہ نجات صرف معافی ناموں کے بل پر کھلتی نظر آتی تو جو کچھ کوئی لکھواتا لکھ کر پیش کر دیتے۔ ایک طرف گولیـاں کھانے کے لئے شجاعت کا اظہار تھا تو دوسری طرف رخساروں سے ڈھلکتے ہوئے آنسو تھے اور لبوں سے اٹھنے والی آہیں تھیں۔ جلوسوں مـیں ناموس رسول کے پروانے جس شان سے آگے بڑھتے تھے اس کا سارا بھرمجیل کے اندر جاکر کھل جاتا۔ جب ان کے سیرت و کردار کے گوشے بے نقاب ہونے لگتے۔ >ابتداء عشق< کے مرحلوں مـیں دنیـا کی دنیـا ساتھ ہوتی۔ لیکن جب فوجی عدالتوں کی طرف سے سینکڑوں افراد کولمبی لمبی سزائے قید دے دی گئی تو آگے کے ان مشکل مقامات مـیں ان کا اور ان کے بیوی بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ یہاں پہنچ کر نوبت یہ آجاتی کہ جن >ہستیوں< کے لئے زندہ باد کے نعرے لگاتے لگاتے گلے سوکھ جاتے` ان کے لئے موٹی موٹی گالیـاں گونجتی سنائی دیتیں۔ تحریک` اسلام کے ایک بنیـادی عقیدے کے تحفظ کے لئے اٹھائی گئی تھی۔ مگر اس کے دوران مـیں آتشزنی اور لوٹ مار کا وہ ہنگامہ ابل پڑا کہ جس پر جتنا افسوس بھی کیـا جائے کم ہے۔ شہر شہر مـیں بیش بہا رقمـیں چندہ کے طور پر جمع کی گئی تھیں لیکن رسید پرچے اور حساب کتاب کا سلسلہ ہی سرے سے نہ تھا۔ چنانچہ جسکے ہاتھ جو کچھ آگیـا غائب ہوگیـا۔ آج نہ کوئی حساب مانگنے والا ہے نہ بتانے والا۔
ان واقعات نے تحریک کو بدنام کیـا۔ مقصد کو بدنام کیـا۔ دین کو بدنام کیـا۔ ان واقعات نے پاکستان کے دینی عناصر کی قوت گھٹائی ہے اور ملحد عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ بلکہ بیچ مـیں تو خطرہ پیدا ہوگیـا تھا کہ خود اسلامـی دستور کے لئے جو جدوجہد نہایت اہم مراحل مـیں داخل ہوچکی ہے اسے بھی سخت نقصان پہنچے گا<۔~ف۱۶~
ممتاز سنی عالم دین مولانا غلام مہر علی صاحب گولڑوی نے اپنی کتاب >دیوبندی مذہب< مـیں احراری علماء اور ان کے ادعائے تحفظ ختم نبوت پر زبردست تنقید کی چنانچہ لکھا:
ایک مجلس عمل بنی۔ صدر مولانا ابوالحسنات مرحوم اور صدر رضاکاران حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب اور سیکرٹری مجلس عمل دائود غزنوی منتخب ہوئے۔ دیوبندی چندہ خوری کے لئے ازخود منتخب ہوگئے حضور خاتم النبیین~صل۱~ کی ختم نبوت کے تحفظ اور مطالبات مذکورہ سے تمام فرقوں کے علماء کو اتفاق تھا۔ مگر ایجی ٹیشن یعنی سول نافرمانی کر کے جیلوں مـیں جانے کے مسئلہ مـیں دیوبندی اور سنی اور غیر مقلد ہر فرقہ کے اکثر علماء کو اس کے شرعی جواز مـیں اختلاف تھا اور وہ کافر کی بیخ کنی کے لئے اپنے آپ کو محبوس کرانے کو ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ کا مصداق قرار دیتے تھے۔ جیسا کہ افاضات الیومـیہ مـیں مولوی اشرف علی تھانوی بھی اسے حرام قرار دے چکے تھے۔ اس لئے رضاکار تحریک مـیں امـید سے بہت کم لوگ شریک ہوئے مگر مارچ ۱۹۵۳ء کو تحریک شروع ہوگئی سب سے اول رئیس اہل سنتہ حضرت مولانا صاحبزادہ رضاکار لے کر کراچی روانہ ہوئے۔ اور گرفتار کر لئے گئے۔ بعدہ اکثر شہروں سے رضاکار مظاہرے کرتے اور روانہ ہوتے رہے اور راستوں مـیں گرفتار کر لئے جاتے رہے۔ پھر یکے بعد دیگرے مولانا ابوالحسنات مولوی عطاء اللہ شاہ` مولوی محمد علی جالندھری کو گرفتار کر کے بعمہ صاحب زادہ صاحب مدظلہ سب کو سکھر جیل مـیں محبوس کر دیـا گیـا۔ قاضی احسان احمد شجاع آبادی گرفتاری سے بچنے کے لئے پہلے شجاع آباد سے بھاگ کر کہیں روپوش ہوگئے۔ مبینہ طور پر سب سے پہلے مولوی محمد علی جالندھری جیل مـیں بدل گئے اور حکومت سے عرض معروض کر کے پیرول پر بالفاظ دیگر تحریک سے معافی ہو کر جیل سے نکل گئے` تحریک کمزور پڑگئی` نئے رضاکاروں کا سلسلہ بند ہوگیـا اور محبوس رضا کاروں نے حکومت سے مایوس ہوکر مختلف ذرائع سے جیلوں سے باہر آنا شروع کر دیـا مگر رضاکاروں کے اس انفرادی تقدم و تاخر سے مطالبات کی قائمـی پر کوئی اثر نہ پڑا۔ اور عوام کی نظریں مرکز کے قائدین پر مرکوز و حوصلے پختہ اور مولانا ابوالحسنات مرحوم و صاحب زادہ صاحب ابھی سکھر جیل مـیں عزم صمـیم لئے مطالبات پر قائم تھے کہ دیوبندی مولویوں عطاء اللہ شاہ بخاری محمد علی جالندھری دائود غزنوی نے ۱۰ مئی ۱۹۵۳ء مطابق ۲۵/ شعبان ۱۳۷۲ھ کو تحریک سے مکمل استعفا کا اعلان کر کے تمام تحریک اور مطالبات کا خاتمہ کر دیـا۔ ان کا یہ عجیب و غریب اور بے سروپا بیـان جنگ کراچی مـیں شائع ہوا۔ مولوی دائود کے بیـان کے چند الفاظ یہ ہیں۔
ہم سب بشمول عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا محمد جالندھری اس بات پر متفق ہیں کہ مرکز اور صوبہ مـیں وزارتی تبدیلی کے بعد ہم کو ہر قسم کی سول نافرمانی بند کر دینی چاہئے۔
)روزنامہ جنگ کراچی ۱۰/ مئی ۱۹۵۳ء(
دیوبندی مولویوں کا یہ بیـان فہمـیدہ لوگوں کو سمجھ مـیں نہیں آیـا` اور اس سے ان کےی مخفی دنیـاوی پروگرام کے خدشات پیدا ہوگئے۔ کیونکہ مطالبات مذکورہ واجبی اور دائمـی تھے` صرف وزارت کی تبدیلی پر مقصد برآری کا اظہار اور مطالبات سے دست برداری بعید از فہم تھی۔ کیـا تحریک سے مقصد وزارت کی تبدیلی تھی اور بس۔۔۔۔۔ حکومت نے تو مرزائیوں کو کافر قرار نہ دیـا۔ البتہ دیوبندیوں نے الٹا تحریک ختم نبوت کے رضاکاروں کو کافر ضرور بنا دیـا۔ چنانچہ مئورخہ ۲۳/ اکتوبر ۱۹۶۲۲ء مطابق ۲۲ جمادی الاول ۱۳۸۲ھ کو دیوبندیوں کی مسجد مدینہ چک ۱۴ منڈی چشتیـاں شریف کے جلسہ مـیں تقریر کرتے ہوئے انہیں مولوی محمد علی صاحب نے ایک جاہل نابکار کے اشارے پر یـا اجرت وعظ کے اضافہ کے لالچ مـیں یہ الفاظ کہہ ڈالے کہ جن لوگوں نے تحریک مـیں معافیـاں مانگی تھیں وہ مسلمان نہیں رہتے` ان کے پیچھے نماز نہ جائز ہے۔ الخ
مولوی صاحب کو شاید یہ الفاظ کہتے خیـال نہیں آیـا کہ وہ خود بھی اور ان کی ساری برادری اس کفر کی زد مـیں آگئی` کہ وہ خود پیرول )معافی( پر جیل سے نکلے اور اکثر دیوبندی بھی مختلف طریقوں سے قبل از مـیعاد سزا یـا فیصلہ تحریک جیلوں سے بھاگے۔ چنانچہ مولوی صاحب کے اس معاندانہ فتوے کے بعد بعض لوگوں نے دیوبندی فرقہ کے معتمد مفتیوں سے جو فتوے طلب کئے اور انہوں نے اصل جواب دے کر جالندھری صاحب اور دیوبندیوں کی مکاری کا بھانڈا پھوڑا وہ مختصراً بالفاظ ملاحظہ ہو۔
سوال:کیـا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ہمارے چک کے امام مسجد صاحب جو کہ عالم فاضل ہیں وہ تحریک خلاف مرزائیت ۱۹۵۳ء مـیں رضاکاروں کے ساتھ جیل مـیں گئے تھے۔ پھر وہ کافی مانگ کر باہر آگئے تھے )الیٰ قولہ( دریـافت طلب یہ امر ہے کہ جن لوگوں نے معافیـاں مانگی تھیں وہ مسلمان رہے یـا نہیں` اور ان کی امامت نماز شرعاً جائز ہے یـا نہیں۔ )مختصراً(
الجواب: ۲۸/۴۲۷ نمبر ۱ امام موصوف کی اقتداء مـیں نماز درست ہے )بندہ عبدالستار عفی عنہ نائب مفتی خیر المدارس ملتان نمبر۲ اس تحریک کے اختتام پر کافی حضرات نے معافی مانگ کر رہائی حاصل کی۔ لہذا اس وجہ سے ان پر ملامت نہیں کی جا سکتی۔ فقط والجواب صحیح۔
)مہر مدرسہ خیر المدارس ملتان(
عبداللہ عفااللہ عنہ مفتی خیر المدارس ملتان۔ ۸۲۔۶۔۱۵
سوال):مذکور(
الجواب:اگر امام مذکور مـیں اور کوئی خلاف شرع باتیں نہ ہوں تو اس کی اقتداء مـیں نماز پڑھنا درست ہے۔ فقط والسلام۔ بندہ احمد عفااللہ عنہ نائب مفتی مدرسہ قاسم العلوم ملتان۔
)مہر مدرسہ(
ان دونوں فتوئوں کو پڑھ لیجئے اور مولوی عبداللہ صاحب کے الفاظ کافی حضرات بھی بغور پڑھ لیجئے۔ یہ کافی حضراتتھے ظاہر ہے کہ یہ اسی حضرت فرقہ کے ہی تھے` ہم ان کی طویل فہرست یہاں دینا فضول سمجھتے ہیں کیونکہ وقت گزرگیـا` اور دفن شدہ مردے اکھیڑنا بے فائدہ کام ہے اور پھر یہ ذاتیـات پر اتر آنے کا معاملہ ویسے بھی اخلاقیـات سے باہر ہے یہ تو دیوبندیوں کا ہی شیوہ ہے کہ جب وہ علمائے اہل سنت پر کوئی اعتقادی گرفت نہیں کر سکتے تو ذاتیـات کو موضوع بحث بنا کر اپنی امت کو خوش کیـا کرتے ہیں۔ عرض صرف یہ کرنا تھا کہ مسلمان کو کافر کہنا خود کفر ہے اب مولوی محمد علی صاحبا ور ان کے مفتی آپس مـیں نپٹ لیں کہ ان مـیںمسلمان ہے اورنہیں اور انہیں سنیوں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے اپنے گھر کی پڑتال بھی کرلینا چاہئے۔ ~}~
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیک ذرا بند قبا دیکھ<
دیوبندیوں کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اغراض و مقاصد
حصول مربعہ جات زمـین ۔۔۔۔۔ آڑھت کی دکانیں
دیوبندی کہتے ہیں کہ ہم ہی تحفظ ختم نبوت کے ٹھیکیدار ہیں واقعی سنی بریلویوں نے اس کو پیٹ پرستی کا کاروبار بنا کر ختم نبوت کے روپیہ سے کاروبار کبھی نہیں چلایـا البتہ سنی علماء کی مخلصانہ تبلیغی سرگرمـیاں محتاج تعارف نہیں۔۔۔۔ دور نہ جائیے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء مـیں ہی عطاء اللہ شاہ بخاری و محمد علی جالندھری اہلسنت کے مقتدر علماء حضرات مجاہد اعظم مولانا ابوالحسنات رحمتہ اللہ علیہ خطیب مسجد وزیر خاں لاہور صدر مجلس عمل اور شیر بیشہ خطابت حضرت مولانا صاحبزادہ فیض الحسن شاہ مدظلہ کی جوتیـاں چاٹا کرتے تھے اور انہیں کے نام پر دیوبندی دو لاکھ روپیہ لوگوں سے بٹور کر ثواب دارین سے مشرف ہوئے تھے۔۔۔۔۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کی اسلامـی خدمات
دیوبندیوں کے ہر کام مـیں زر اندوزی کا ہی مقصد درپیش ہوتا ہے چنانچہ ختم نبوت کا صدر مشہور قصہ خوانی مولوی محمد علی جالندھری جس نے دو تین کاروباری حصہ دار مبلغ بھی اپنے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں لاکھوں روپیہ نبی کے ناموس کے نام پر جمع کر کے زمـین کے مربعے اور آڑھت کی دکانوں سے مشرف ہو کر نعیم دارین و اجر جمـیل سے ثواب عظیم حاصل فرما چکے ہیں چنانچہ دیوبندی فرقیہ کے مرشداعظم جناب عبدالکریم شورش کشمـیری اپنے رسالہ چٹان مـیں اپنے ہی مرید و مخلص مولوی محمد علی جالندھری کے متعلق لکھتا ہے:
>وہ )مولوی محمد علی جالندھری( ہمارے لئے اب بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح پہلے تھے۔ لیکن ایک چیز ہے مولانا محمد علی کی ذات دوسری چیز ہے مجلس تحفظ ختم نبوت تیسری چیز ہے اس مجلس کے نام پر جمع کردہ روپیہ الخ )اس کے چند سطور بعد پر شورش صاحب لکھتے ہیں( مولانا محمد علی جالندھری بہرحال اس مجلس اور اس روپیہ کے امـین بنے ہوئے ہیں اب اگر وہ اس مجلس کو اپنی ذات تک محدود کرلیں اور جس مقصد کے لئے یہ روپیہ جمع ہوا ہے یـا ہو رہا ہے اس مقصد پر صرف نہ ہو بلکہ اس کے برعان کے مشاہرہ مـیں صرف ہو یـا اس سے اراضی خرید لی جائے یـا ا سے آڑھت کی جائے اور جس عظیم مقصد کا روپیہ ہے وہ عظیم مقصد روزبروز مجروح ہو رہے تو ہمارے کرم فرما ہی ہمـیں بتائیں کہ اصلاح احوال اور احتساب جماعت کاسا طریقہ ان کے نزدیک مستحسن و مزوں ہے۔ مقصد روپیہ جمع کرنا۔ تنخواہیں بانٹنا اور آڑھت چلانا ہے یـا تحفظ ختم نبوت الخ
)ہفت روزہ رسالہ چٹان لاہور اشاعت ۲۳/ مارچ۱۹۶۶ء(
ناظرین غور فرمائیں کہ یہ سب رونا ان کے گھر سے رویـا جا رہا ہے اور اس سے واضح ہے کہ تحفظ ختم نبوت کا دیوبندی مقصد کیـا ہے اور روپیہ ان کے تقویٰ کا طرح دیوالہ نکال رہا ہے۔
ختم نبوت کے نام پر دو لاکھ روپیہ کی بندر بانٹ
حکومت سے مرزائیوں کو پاکستان مـیں غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لئے مارچ ۱۹۵۳ء مـیں عظیم عالم اہلسنت حضرت مولانا ابوالحسنات سید محمد شاہ صاحب خطیب جامع مسجد وزیر خاں لاہور کی صدارت مـیں ایک تحریک چلی دیوبندی مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری و محمد علی جالندھری نے بھی تحریک مـیں شمولیت حصال کر کے اسی تحریک کے نام پر ملک کے مختلف شہروں سے دو لاکھ روپیہ جمع کرلیـا کہ یہ روپیہ رضاکاروں اور تحریک کے ضروری مصارف پر خرچ کیـا جائے گا حکومت پاکستان اس تحریک کے خلاف تھی اس لئے اس نے اس تحریک کے مشہور افراد حضرت مولانا ابوالحسنات مرحوم و حضرت مولانا صاحبزادہ فیض الحسن شاہ صاحب مدظلہ اور مولوی عطاء اللہ شاہ` محمد علی کو گرفتار کر کے سکھر جیل بھیج دیـا مبینہ طور پر مولوی عطاء اللہ شاہ گرفتاری کے وقت یہ دو لاکھ روپیہ اپنے بیٹے کے سپرد کر گئے کہ اس ثواب دارین کی پوری نگرانی کرنا تمہاری پشتوں کے لئے کافی ہوگا مگر جب جیل مـیں محمد علی جالندھری کو پتہ چلا کہ اس روپیہ پر عطاء اللہ شاہ بخاری وحدہ لاشریک قابض ہو رہا ہے تو جالندھری صاحب کا ہارٹ فیل ہونے لگا بخاری صاحب سے کہنے لگے کہ تحریک کو گرم کرنے کے لئے مـیرا جیل سے باہر جانا ضروری ہے بخاری صاحب بھی معاملہ سمجھ گئے کہ یہ جر¶ات محض اس روپیہ سے پیٹ گرم کرنے کے لئے کی جا رہی ہے انہوں نے بہتیرا سمجھایـا مگر جالندھری صاحب بببالاخر )پیرول( ضمانت و معافی پر جیل سے نکل آئے عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے اپنے فرزند ارجمند کو پیغام بھیجا کہ محمد علی روپیہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے باہر آ چکا ہے۔ خبردار ہو جائو ممد علی روپیہ پر ہاتھ صاف کرنے کے لئے سکھر جل سے معافی لے کر آ رہا ہے۔ بخاری کا بیٹا یہ جانکاہ خبر سن کر روپیہ لے کر مظفرگڑھ بھاگ گیـا ادھر جالندھر صاحب کو دست پر دست آئے جا رہے تھے کہ تحریک ختم ہوگئی اور بخاری صاحب نے آئندہ خطرات سے بچنے کے لئے جالندھری کو برابر کا حصہ دے کر باہمـی بندربانٹ کر کے یہ تمام روپیہ ہضم کر گئے۔ صدر مجلس عمل مولانا ابوالحسنات نے بار بار اس روپیہ کا حساب مانگا۔ چنانچہ جمعیہ العلمائے پاکستان کے داعی رسالہ >سواداعظم< مجریہ ۷ نومبر مطابق ۸ جمادی الاخر ۱۳۸۲ھ` ۱۹۶۲ء مـیں دہرایـا گیـا۔ مگر دیوبندیوں کو ایسا سانپ سونگھ گیـا۔ آج تک صدائے بازگشت نہ اٹھی اور بقول شورش کشمـیری زمـینیں اور آڑھت کی دکانیں بنالی گئیں<۔~ف۱۷~
سوم:حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام ۲۹/ جولائی ۱۸۹۷ء کو مومنوں پر ابتلاء آنے اور آسمانی فوجوں سے ان کی نصرت کئے جانے کی خوشخبری دی گئی پھر بعد اس کے الہام ہوا >مخالفوں مـیں پھوٹ<۔~ف۱۸~
یہ پیشگوئی بھی اس زمانہ مـیں کمال وضاحت اور صفائی سے پوری ہوئی۔
۱۹۵۳ء کی شورش مـیں مجلس احرار اور جماعت اسلامـی دونوں ہی سب سے نمایـاں اور پیش پیش تھیں اور انہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیـا۔ لیکن ایجی ٹیشن بری طرح ناکام ہوگئی اور لیڈر گرفتار کر لئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب یہ اصحاب رہا ہوئے تو باہم برسرپیکار ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف قلمـی اور لسانی جنگ کا وسیع محاذ کھول دیـا۔
چنانچہ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی امـیر و بانی جماعت اسلامـی نے احراریوں کی >تحریک ختم نبوت< کی نسبت اپنی رائے یہ دی کہ:
>اس کارروائی سے دو باتیں مـیرے سامنے بالکل عیـاں ہوگئیں۔ ایک یہ کہ احرار کے سانے اصل سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں ہے۔ بلکہ نام اور سہرے کا ہے۔ اور یہ لوگ مسلمانوں کی جان و مال کو اپنی اغراض کے لئے جوئے کے دائوں پر لگا دینا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رات کو بالاتفاق ایک قرارداد طے کرنے کے بعد چند آدمـیوں نے الگ بیٹھ کر سازباز کیـا ہے اور ایک دوسرا ریزولیوشن بطور خود لکھ لائے ہیں جو بہرحال کنونشن کی مقرر کردہ سبجیکٹس کمـیٹی کا مرتب کیـا ہوا نہیں ہے۔ مـیں نے محسوس کیـا کہ جو کام اس نیت اور ان طریقوں سے کیـا جائے اس مـیں کبھی خیر نہیں ہو سکتی اور اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیلنے والے جو مسلمانوں کے سروں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کریں` اللہ کی تائید سے کبھی سرفراز نہیں ہو سکتے<۔~ف۱۹~
جماعت اسلامـی کے ہفت روزہ ترجمان >امنیر< نے )جس کے ایڈیٹر حکیم ملوی عبدالرحیم صاحب اشرف تھے( یہ لکھا:
>رہے احراری تو ہم سب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس بدنصیب گروہ نے تحفظ ختم نبوت کے نعرہ کو اپنے سیـاسی کردارکی طرح بکائو مال بنا رکھا ہے۔ ان لوگوں کی اکثریت کو نہ خدا کا خوف ہے نہ خلق کی شرم نہ یہ پیغمبر کی نگاہ خشمگیں سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں جلال کبریـائی سے کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ ان پاسبان ختم نبوت نے لائل پور کی اسی گرائونڈ مـیں لپک لپک کر یہ جملے کہے ہیں ۔الحاج ناظم الدین! تم نے حاجی کہلا کر اورنمازی بن کر اسلام اور ختم نبوت کا بیڑا غرق کیـا ہے تم سے ہزار بار وہ بے دین` بے نماز اور غیر حاجی دولتانہ اچھا جس نے اپنی وزارت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کا ساتھ دیـا ہے<۔ اور آج یہی گروہ ہے جو دولتانہ کو ختم نبوت کا غدار کہتے نہیں تھکتا۔۔۔۔۔ اور پھر احراری وہی حضرات ہیں جنہوں نے مارشل لاء کے دوران مخلص نوجوان مسلمانوں کو کرفیو اور دفعہ ۱۴۴ کی ¶مخالفت پر اکسا کر مسجدوں سے سر پر کفن بندھوا کر باہر نکالا اور ان کی لاشوں کو فوج کی گولیوں سے تڑپتا دیکھ کر یہ کہا کہ:
>جس تحریک کو خون سے نہ سینچا جائے وہ تحریک کبھی >عوامـی تحریک< بن ہی نہیں سکتی< لیکن جب ان >علمبرداران حریت< کو چند ہفتے کے لئے جیلوں مـیں )جہاں:نہیں >بی کلاس< مـیں تین چھٹانک گوشت ایک چھٹانگ گھی ۶ چھٹانک دودھ چھ چھٹانک آٹا اور تیسرے دن فروٹ کھانے کے لئے ملتے تھے( رہنا پڑا تو ان کی اکثریت نے سینکڑوں مرتبہ زبانی اور دسیوں دفعہ تحریری طور پر لکھ دیـا کہ >ہم کبھی بھی حکومت کے خلاف نہ تھے نہ ہم نے سول نافرمانی کو آج تک جائز سمجھا ہے اور نہ آئندہ کبھی بھی اسے جائز سمجھیں گے نیز کہ ہم حکومت کے سچے وفادار ہیں اور ہم عہد کرتے ہیں کہی تحریک مـیں کبھی حصہ نہیں لیں گے<۔
آج یہ غازی ہیں >جو ختم نبوت کا نعرہ< لگا کر پھر مـیدان سیـاست مـیں آنا چاہتے ہیں<۔~ف۲۰~
تحفظ ختم نبوت ہو یـا مجلس احرار۔ ان دونوں کے نام سے آج تک قادیـانیت کے خلاف جو کچھ کیـا گیـا ہے اس نے قادیـانی مسئلے کو الجھایـا ہے۔ ان حضرات کے اختیـار کردہ طرزعمل نے راہ حق سے بھٹکنے والے قادیـانیوں کو اپنے عقائد مـیں پختگی کا مواد فراہم کیـا ہے اور جو لوگ مذبذب تھے انہیں بدعقیدگی کی جانب مزید دھکیلا ہے۔
استہزا` اشتعال انگیزی` یـاوہ گوئی` بے سروپا تفاظی` اس مقدس نام کے ذریعہ مالی غبن لادینی سیـاست کیدائو پھیر` خلوص سے محروم اظہار جذبات` مثبت اخلاق فاضلہ سے تہی کردار ناخداترسی سے بھرپور مخالفتی بھی غلط تحریک کو ختم نہیں کر سکتی اور ملت اسلامـیہ پاکستان کی ایک اہم محرومـی یہ ہے کہ >مجلس احرار< اور >تحفظ ختم نبوت< کے نام سے جو کچھ کیـا گیـا ہے اس کا اکثر و بیشتر حصہ انہی عنوانات کی تفصیل ہے<۔~ف۲۱~
>تحفظ ختم نبوت< کے فنڈ اور اس کے فنڈ سے حاصل کئے گئے باتنخواہ >مبلغین< کو جماعت اسلامـی کے خلاف تقاریر کی ٹریننگ کا اہتمام کیـا گیـا جس کی زمام کار مولوی لال حسین ایسے >محتاط< اور >شیریں مقال< مناطر کے ہاتوں مـیں سونپی گئی۔ اور یہ کام بھی انہی کے سپرد کیـا گیـا کہ وہ ہر شہر مـیں سیـاسی کارکنوں کی مـیٹنگیں بلائیں اور ان مـیں مولانا مودودی اور جماعت اسلامـی کے خلاف نفرت و حقارت پھیلانے کا کام کریں۔ ان مجالس مـیں مسلم لیگ` آزاد پاکستان پارٹی جناح عوامـی لیگ کے کارکنوں کو بلایـا جاتا اور اہل حدیث` دیوبندی اور بریلوی حضرات کو دعوت دی جاتی۔ انہیں یکجا کر کے مذہبی اور سیـاسی اختلافات کے علاوہ یہ بات عام طور پر کہی جاتی رہی کہ جماعت اسلامـی کا کردار اس کے قائد ابوالاعلیٰ مودودی کے اس طرز عمل سے معلوم کیـا جا سکتا ہے کہ مودودی صاحب صبح مجلس عمل کے اجلاسوں مـیں شریک ہوتے اور رات کو ناظم الدین سے ملاقاتیں کرتے۔ اور آخری مرتبہ مودودی صاحب نے تحریک تحفظ ختم نبوت سے یہ عظیم غداری کی کہ ناظم الدین سے یہ جاکر کہا کہ جماعت اسلامـی تحریک سے الگ ہے۔ آپ جو چاہیں ان لوگوں سے سلوک کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اسی مشورہ پر ۲۶/ فروری کو مجلس عمل کے رہنمائوں کو گرفتار کیـا گیـا اور اس کے بعد نوبت مارشل لاء تک پہنچی جس مـیں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اگر مودودی صاحب تحریک سے غداری نہ کرتے تو نہ کوئی نوجوان قتل ہوتا الخ<۔~ف۲۲~
اسی اخبار نے سید عطاء اللہ شاہ صاحب کی ایک تقریر پر حسب ذیل نوٹ دیـا کہ:
>شاہ صاحب نے کہا کہ حضور خاتم النبیینﷺ~ نے مـیرے نام پیغام دیـا ہے کہ مـیں ختم نبوت کے مسئلہ کو کامـیابی سے چلائوں۔۔۔۔۔ شاہ صاحب کی جانب منسوب کردہ الفاظ اگر صحیح ہیں یـا انہوں نے اس مفہوم کو بیـان کیـا ہے کہ حضور سرور کائناتﷺ~ روحی و نفسی فداہ~صل۱~ نے انہیں منتخب فرمایـا کہ وہ ختم نبوت کی حفاظت کریں اور اب شاہ صاحب اسی ارشاد رسالت کی تعمـیل کے لئے شہر شہر گھوم پھر رہے ہیں تو ہم دکھ بھرے دل سے کہتے ہیں کہ شاہ صاحب نے حضور اقدس کی شان مـیں )نادانستہ( ایسی گستاخی کی ہے جس سے وہ جتنی جلدی توبہ کرلیں ان کے لئے بہتر ہے۔
شاہ صاحب کی اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ سید العرب والعجم~صل۱~ شاہ صاحب کی ان تقریروں کو جو تحفظ ختم نبوت کے نام پر آج تک کرتے رہے اور اب کر رہے ہیں منظوری و پسندیدگی حاصل ہے اور اسی وجہ سے انہیں دربار رسالت سے یہ امتیـاز عطا ہوا ہے کہ آٹھ کروڑ مسلمانوں مـیں سے انہیں اس عظیم کام کے لئے منتخب فرمایـا گیـا ہے اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر مولانا سید عطاء شاہ صاحب کی یہ تقریریں~ف۲۳~جو وہ قادیـانیت کے خلاف کر رہے ہیں )جن مـیں سے آیـاتکی تلاوت اور ان کے بعض مطالب کی تبلیغ کا حصہ جو فی الحقیقت ان کی تقریروں کا ۱۰۰۰۰/۱ ہوگا مستثنیٰ کر لیـا جائے( اگر انہیں دربار رسالتکی پسندیدگی حاصل ہے تو ہم اس اسلام کو جو کتاب و سنتمـیں پیش کیـا گیـا ہے اور جس مـیں ذہن` قلب` زبان اور اعضاء کو مسئولیت سے ڈرایـا گیـا ہے خیرباد کہنے کو تیـار ہیں۔
ہمارے نزدیک شاہ صاحب نے نہایت غلط سہارا لیـا ہے اور مسلمانوں مـیں جو عقیدت رحمہ اللعالمـین بابی ھو و امـی~صل۱~ کے ساتھ موجود ہے اس سے نہایت غلط قسم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اور پھر اس مـیں جب ہم مزید دکھتے ہیں کہ وہ اس خواب سے مراد یہ لیتے ہیں کہ >تحفظ ختم نبوت< کے نام پر جو نظم )؟( انہوں نے قائم کر رکھا ہے حضور خاتم النبیین روحی و نفسی فداہ اس نظم کی تائید فرما رہے ہیں تو ہماری روح لرز جاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ نظم اور اس کے تحت متعین کردہ مبلغین کا کام اور اس کے نام پر حاصل کئے گئے صدقات` زکٰواتیں۔ اور چندے اس بری طرح صرف ہونے کے باوجود انہیں پیغمبر امـین کی پسندیدگی حاصل ہے تو ناگزیر ہے کہ ان تمام احادیث رسالت ممماب کو خیرباد کہہ دیـا جائے جن مـیں آپ نے مسلمانوں کے مال کے احترام کی اہمـیت بیـان فرمائی ہے اور جن مـیں اموال المسلمـین مـیں خیـانت کو حرام اور موجب سزا بتلایـا گیـا ہے<۔2] f~[stف۲۳~
دوسری طرف احرار رہنمائوں نے جماعت اسلامـی کے امـیر و بانی پر >تحریک ختم نبوت< سے غداری اور منافقت کے الزامات لگائے چنانچہ تاجدین صاحب انصاری نے بیـان دیـا کہ:
>۱۸/جنوری سے لیکر ۲۶/ فروری تک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب تحریک کا بغور مطالعہ کرتے رہے۔ وہ یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ اگر حکومت مسلمانوں کے مطالبات آخری وقت بھی تسلیم کرلیتی ہے تو جماعت اسلامـی تحریک مـیں موجود ہے۔ کراچی مـیں مولانا سلطان احمد نائب امـیر جماعت اسلامـی یعنی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب قادیـانی مسئلہ لکھ کر تحریک مـیں شمولیت کا دستاویزی ثبوت لئے کھڑے ہیں۔ حتی کہ مارشل لاء کے نفاذ سے ایک روز پہلے گورنمنٹ ہائوس مـیں بیچ کی دیوار پر کھڑے گورنمنٹ کو اس امـید پر آنکھیں دکھا رہے ہیں کہ شاید مسلمانون کے متفقہ مطالبات دو ایک روز تک مانے جانے والے ہیں۔۔۔۔۔ مگر جب مارشل لاء کا اعلان ہونے لگا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دیوار کے اس پار کر دئیے گئے اور فرمانے لگے کہ مـیرا اس تحریک سے کیـا واسطہ؟ یہ تو چند خودغرض` بے ایمان اور غداروں کی تحریک ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دیوار سے کودتے وقت مولانا کا دامنی کیل مـیں پھنس کر چاک ہوگیـا جسے وہ دو سال تک جیل مـیں بیٹھ کر رفو کرتے رہے۔ آگیسے پھٹا ہوا دامن چیرہ دستیوں کی اب بھی غمازی کرتا ہے اور مولانا ہیں کہ اپنی صفائی مـیں زمـین اور آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اورکہے چلے جا رہے ہیں کہ مـیں پاکباز ہوں۔ مـیری جماعت صالحین کی جماعت ہے باقی سب چور ہیں` غدار ہیں` خودغرض ہیں<۔
پھر مولانا مودودی کو مخاطب کر کے لکھا:
>حضور والا! کنونشن مـیں شرکت کے بعد ہی مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آپ جو اسلام اسلام پکار کر اسلامـی دستور کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ آپ کیـا ہیں؟ آپ کی اصل خواہش کیـا ہے؟ پبلک نے آپ کو تحریک ختم نبوت مـیں اچھی طرح جان پہچان لیـا ہے۔ اب آپ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ پبلک آپ سے کیـا کچھ دریـافت کرتی ہے۔ آپ تو بڑے آدمـی ہیں۔ اپنی صفائی مـیں آپ نے کوئی معقول دلیل پیش نہیں فرمائی۔ی جیب تراش نے پکڑے جانے کے بعد کبھی یہ صفائی پیش نہیں کی کہ مستغیث نے مجھے قریب ہی کیوں آنے دیـا تھا۔ بہرحال آپ دلدل مـیں پھنس گئے ہیں۔ جتنا زور لگائیے گا۔ اسی قدر زیـادہ دھنستے چلے جائیے گا۔ مـیں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ اپنی غلطی یـا تحریک ختم نبوت سے غداری کا اقرار کرنے سے رہے بحث کے لئے آپ کے پاس وہ سب سامان موجود ہے جس سے آپ کافی عرصہ بحث جاری رکھ سکتے ہیں مگر ہمـیں اس بحث سے مطلب؟
جہاں تک پبلک کی معلومات کا تعلق ہے ہم نے پبلک سے یہی کہتے سنا ہے کہ آپ نے تحریک ختم نبوت سے غداری کی ہے اس وقت آپ اور آپ کی جماعت منافقت سے کام لے رہے تھے اور اب آپ صاف مکر رہے ہیں~<ف۲۴~
خود سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے کہا کہ:
>اس تحریک مـیں جو کچھ ہوا مـیں ذمہ دارہوں غلط ہوا یـا صحیح ذمہ داری مـیرے سر ہے ارے مـیں مودودی نہیں ہوں۔ بددیـانت نہیں ہوں۔۔۔۔۔ آج وہ کہتے ہیں مـیں تحریک مـیں شامل نہیں تھا مـیں کہتا ہوں شامل تھا اور اگر مودودی شامل نہیں ھا تو مـیں ان سے حلفیہ بیـان کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر اعلان کر دیں۔۔۔۔ یہ ہے دیـانت ہزاروں شہید ہوئے۔ سوئوں کے سہاگ لٹے` کئی یتیم ہوئے` کئی اجڑ گئے۔۔۔۔۔ ہزاروں کو مروا کر کہوں مـیں شامل نہیں تھا کیـا یہی دین ہے۔۔۔۔۔ ارے تم سے تو کافر گلیلو ہی اچھا تھا جس نے زہر کا پیـالہ پی لیـا<۔]2 ~[stfف۲۵~
اس پر بس نہیں شاہ جی نے لائلپور کی ایک کانفرنس مـیں جناب سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی کو غدار` دروغ گو اور مستحق سزا مجرم گرداننے کے بعد ان کو مباہلے کا کھلا چیلنج بھی دے دیـا۔~ف۲۶~
جماعت اسلامـی کو احرار اور ان کے ہم نوا علماء ہندو پاک نے کافر و ملحد بلکہ دجال تک قرار دے دیـا اس طرح تکفیر کے جس حربہ کو جناب مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے نہایت بے دردی سے جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کیـا تھا اس کا رخ پوری قوت و شدت سے ان کی طرف ہوگیـا اور دیکھتے ہی دیکھتے فتوئوں کے انبار لگ گئے۔
اس بیرونی یلغار کے علاوہ جماعت اسلامـی کی صفوں مـیں زبردست انتشار پیدا ہوگیـا اور کئی عمائدین مثلاً مولانا امـین احسن صاحب اصلاحی )معتمد امـیر جماعت اسلامـی( ملک سعید صاحب )ایڈیٹر تسنیم و امـیر جماعت اسلامـی صوبہ پنجاب( عبدالغفار صاحب اور مولانا عبدالرحیم اشرف مدیر >المنبر< نے علیحدگی اختیـار کرلی۔
مولانا امـین احسن اصلاحی نے اپنے سولہ سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر لکھا:
>جماعت اسلامـی کے متعلق تو ہماری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے لئے اس ملک مـیں اس سے زیـادہ مضر جماعت کوئی نہیں۔ متحدہ محاذ کی اسلام دشمن جماعتیں اسلام کی مخالفت بے دلیل کریںاور جماعت اسلامـی کے امـیر صاحب اور ان کے اتباع ان کے لئے اپنی نرالی فقاہت سے شرعی دلیلیں ایجاد کریں گے<۔
>دین اور عقل دونوں سے بعید تر جماعت اس ملک مـیں اگر کوئی ہے تو جماعت اسلامـی ہے یہ جماعت اب صحیح فکر اور صحیح عمل کی توفیق سے محروم ہو چکی ہے اس کی ہر بات الٹی ہوتی ہے اور جو قدم بھی یہ اٹاتی ہے اس سے اپنی بے راہ روی اور ضلالت کا ثبوت مہیـا کرتی ہے<۔~ف۲۷~
سعید ملک صاحب ایڈیٹر تسنیم نے اپنے بیـان مـیں کہا:
>جماعتی لٹریچر مـیں یہ بات واضح طور پر بیـان کی گئی ہے کہ اسلامـی تحریک کو چلانے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ مخاطب آبادی مـیں اسلام کے اصولوں کا شعور اور ان پر چلنے کا شدید داعیہ پیدا کر دیـا جائے که تا آنکہ ایک مرحلے پر پہنچ کر وہ آبادی فطری طور پر اسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے اپنالے۔ یہ بات کھل کر کہہ دی گئی تھی کہ یہ کام محض سیـاسی ہنگاموں سے ہوگا اور نہ صرف انتخابات کے ذریعے حصول اقتدار کی کوششوں سے۔ لیکن ابھی قوم مـیں اسلامـی اصولوں کا ابتدائی تصور بھی پیدا نہ ہوا تھا اور اس نے اسلامـی اصول اخلاق اور سیـاست کو اختیـار کرنے پر معمولی سی آمادگی کا اظہار بھی نہ کیـا تھا کہ آپ نے بنیـادی کام سے صرف نظر کر کے تحریک کو پوری طرح سیـاسی ہنگامہ آرائیوں مـیں الجھا دیـا حتیٰ کہ اسلامـی نظام کی حیثیت ہمارے ہاں محض ایک نعرے کی رہ گئی<۔~ف۲۸~
حکیم عبدالرحیم صاحب اشرف نے جماعت اسلامـی سے خروج کے بعد پے درون پے تنقیدی مضامـین لکھے جن مـیں واضح الفاظ مـیں بتایـا کہ >مولانا مودودی صاحب نے ¶اسلامـی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور قرآن کی چار بنیـادی اصطلاحیں< سے جس اسلام کی دعوت کا آغاز کیـا تھا وہ اب ایک ایسے اسلام کی شکل مـیں ہمارے سامنے ہے جس کی روح تعلق باللہ` اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید` ایمان بالغیب اللہ تعالیٰ کی عبادات مـیں انہماک` تقویٰ کی حقیقت کو پانے کے اساسات پر مبنی نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح اسلام کے سیـاسی نظام کو قائم کرنا ہے اور جماعت کے اندر اصل قیمت صرف اس چیز کی ہے کہ پروپیگنڈے` نشرواشاعت مخالفین کی سرکوبی` اخبارات مـیں نمایـاں ہونے` دوسرے سے گٹھ جوڑ کرنے کی صلاحیت کی مقدار قدر پائی جاتی ہے؟۔۔۔۔۔ رہا طریق کار اور وسائل تو وہ چونکہ مقصود بالذات نہیں ہیں اس لئے ان مـیں اگر کچھ اجزاء باطل` جھوٹ` فریب` فساد انگیزی اور اسلام کی عام تعلیمات کی رو سے ناجائز کردہ باتوں کے شامل ہو جائیں تو انہیں بوقت ضرورت اختیـار کیـا جا سکتا ہے بالفاظ دیگر جماعتجس فلسفہ مـیکاولی کے استیصال کے لئے اٹھی تھی۔ یہی اس کا محور فکر و عمل بن رہے ہیں۔ اسی پر اکتفا نہیں جو جماعت کے قائدین کا مئوقف یہ سمجھتا ہوں کہ وہ ان تمام باتوں کے جواز کے لئے قرآن اور حدیث سے استدلال کریں اور اپنی ہر غلطی کو اسوئہ رسالت سے سند جواز عطا کریں<۔~ف۲۹~
جماعت اسلامـی کے ایک سابق رکن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے احراری تحریک مـیں مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کی شرکت کو بے اصولے پن اور عوام پرستی کا شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھا:
>اس داستان کا المناک ترین باب< مسئلہ قادیـانیت مـیں جماعت اسلامـی کا طرز عمل ہے۔ اس کے دوران جماعت اور اس کے قائدین نے جس طرح اپنے اصولوں کی بجائے عوام کے چشم و ابرو کے اشاروں پر حرکت کی ہے اسے دیکھ کر انسان سوچ مـیں پڑ جاتا ہے کہ۔۔۔۔ اتنی قلیل مدت مـیں ایک جماعت کا مزاج اس درجہ بھی بدل سکتا ہے؟۔۔۔۔ مسئلہ کوئی آج کی پیداوار نہیں تھا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ اپنے تاسیس کے دن سے لے کر ۱۹۵۲ء تک پورے گیـارہ بارہ سال جماعت اسلامـی نے بحیثیت جماعت یـا اس کے اکابرین نے بحیثیت افراد اس پر کوئی علمـی اقدام کرنا تو کجا زبان سے ایک حرف تک نہ نکالا بلکہ ایک اصولی اسلامـی جماعت کی حیثیت سے اپنے دور اول مـیں اس نے ایسی باتیں کیں کہ جن سے قادیـانیوں کی تکفیر کی براہ راست نہ سہی بالواسطہ ضرور ہمت شکنی ہوتی ہے؟
)ملاحظہ ہو تکفیر بغیر اتمام حجت سے متعلق جماعت کا نقطئہ نظر ص۵۴(
لیکن جب ۱۹۵۲ء مـیں زعمائے احرار نے اسے واقعی ایک مسئلہ بنا لیـا اور عوام کے جذبات کو مشتعل کرلیـا تو اب جب کہ اصول پرستیـاور مردانگی کا تقاضا یہ تھا کہ۔۔۔۔۔ لوگوں کو بتایـا جاتا کہ تم خواہ مخواہ مشتعل کئے جا رہے ہو۔ نہ یہ مسئلہ اتنی اہمـیت رکھتا ہے اور نہ اس کے حل کی صورت وہ ہے کہ جو اختیـار کی جا رہی ہے۔۔۔۔۔ اور اگر عوام اسے رد کرتے تو کم از کم >انی بری< کہہ کر الگ ہو جاتا۔ جماعت اسلامـی نے اپنی اصول پسندی اور اصول پرستی کو ذبح کر کے >حق گوئی< سے جی کراتے اور >روباہی< کا ثبوت دیتے ہوئے جو طرزعمل اختیـار کیـا وہ >بے اصولے پن< اور >عوام خوفی کی عملی تصویر ہے چنانچہ قادیـانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ ہشت نکاتی مطالبے مـیں نویں نکتے کی حیثیت سے کرلیـا گیـا اور مجلس عمل کے ساتھ تعاون شروع کر دیـا گیـا اور ان لوگوں کی قیـادت قبول کرلی گئی کہ جن کے پاس بیٹھتے ہوئے بھی بقول >یکے از بزرگان جامعت< جماعت کے زعماء کو >گھن آتی تھی<۔ اور جن کے حقیقی ارادوں اور عزائم پر سے بعد مـیں مولانا مودودی نے >بیـان حقیقت< مـیں پردے اٹھائے!۔۔۔۔۔ صرف یہی نہیں کہ عوام کے >تقویٰ کی وجہ سے جماعت نے اس معاملہ مـیں حصہ لینا شروع کر دیـا بلکہ ان کی بارگاہ مـیں >احسان< کا درجہ حاصل کرنے کی سعی شروع ہوگئی اور >قادیـانی مسئلہ< تصنیف ہوا جس مـیں >عوام کے مطالبات کی وجوہات اور ان کے دلائل کو مولانا مودودی صاحب پرزور انداز مـیں پیش کیـا۔ اس کتاب کے آخری پیرے مـیں یہ >عوام پرستی< جس طرح چھلکی پڑتی ہے وہ قابل دید ہے۔۔۔۔۔
جذبئہ عوام پرستی کی انتہاء ہے کہ ان خامـیوں اور خرابیوں کو بھی خوشنما الفاظ کے پردے مـیں چھپا کر >پیٹھ< ٹھونکی جا رہی ہے کہ تم سے کچھ غلطیـاں تو ضرور سرزد ہو رہیہیں لیکن گھبرائو نہیں! اس مـیں تمہارا قصور تھوڑا ہی ہے!۔
اس کے بعد جب >احرار< کے ساتھ مزید چلنا ناممکن ہوگیـا اور مجلس عمل سے علیحدگی ناگزیر ہوگئی تو بھی اس احتیـاط کے ساتھ علیحدگی کا اعلان کیـا گیـا کہ عوام اسی بھرے مـیں رہیں کہ >ہم نے اپنے حصے کا کام اپنے ذمے لے لیـا ہے<! آخر عوام کی ناراضی مول لینا کوئی آسان کام نہ تھا۔
پھر جب معاملہ تحقیقاتی عدالت مـیں آیـا تو اس وقت مولانا مودودی صاحب نے حالات کو بگاڑنے کی ذمہ داری مـیں حکومت اور قادیـانیوں کے ساتھ ساتھ >احرار< کو بھی شریک کیـا! یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تینوں برابر کے ذمہ دار تھے تو آج سے قبل آپ ساری ذمہ داری حکومت اور قادیـانیوں پر کیوں ڈالتے رہے؟ کچھ تو آپ نے احرار کے بارے مـیں بھی فرمایـا ہوتا! اور جماعت اسلامـی کو من حیث الجماعت تو اس >قول ثقیل< کے کہہ گذرنے کی پھر بھی ہمت نہ ہوئی۔ جماعت نے اپنے بیـان مـیں ساری ذمہ داری صرف حکومت اور قادیـانیوں ہی پر ڈالی۔
تحقیقاتی عدالت مـیں مولانا اور جماعت نے اپنے آپ کو ان سارے معاملات مـیں بالکل بری الذمہ ٹھہرانے کی کوشش کی اور اس کے لئے سارا زور اس استدلال پر صرف کیـا کہ ہم نے مجلس عمل سے علیحدگی اختیـار کرلی تھی۔ لیکن مـیں اس معاملے مـیں تحقیقاتی عدالت کے اس فیصلے کو بالکل صحیح سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔ جماعت اسلامـی ذمہ داری مـیں احرار کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ اس کے بعد جب تک مقدمات چلتے رہے اور عوام کے جذبات مـیں اس مسئلہ پر حرارت باقی رہی جماعت کے رسائل و اخبارات اس مسئلہ پر مسلسل لکھتے رہے جب فضا ٹھنڈی ہوگئی جماعت نے بھی مسئلہ کا نام لینا بند کر دیـا اور آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہوا ہی نہیں تھا!
>یہ پوری داستان بے اصولے پن اور عوام پرستی کا شاہکار نہیں تو اور کیـا ہے؟~<ف۳۰~
مجلس احرار اور جماعت اسلامـی کی جنگ زرگر زورشور سے جاری تھی کہ دوسرے مکاتیب فکر کے علماء بھی مـیدان تکفیر و تفسیق مـیں اتر پڑے اور کفرسازی کی مہم یکایک زور پکڑ گئی جس پر مولانا حکیم عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر >المنبر< نے حسب ذیل حقیقت افروز نوٹ سپرد قلم فرمایـا:
>ختم نبوت کا ایک لازمـی تقاضا یہ تھا کہ امت محمدیہ بنیـان مرصوص کی حیثیت سے قائم علی الحق رہتی۔ اس کے جملہ مکاتیب فکر اور تمام فرقوں کے مابین دین کی اساسات پر اس نوع کا اتحاد ہوتا جس نوع کا اتحاد ایک صحیح الذہن امت مـیں ہونا ناگزیر تھا لیکن غور کیجئے کیـا ایسا ہوا؟ بلاشبہ ہم نے متعدد مراحل پر اتحاد امت کے تصور کو پیس کیـا اور سب سے زیـادہ قادیـانیوں کے خلاف مناظرہ کے سٹیج سے ڈائریکٹ ایکشن کے ویرانے تک ہم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے تمام فرقے >یکجان< ہیں لیکن کیـا حقیقتاً ایسا تھا۔ کیـا حالات کی شدید سے شدید تر نامساعدت کے باوجود ہماری تلوار تکفیر نیـام مـیں داخل ہوئی؟ کیـا ہولناک سے ہولناک تر واقعات نے ہمارے فتاویٰ کی جنگ کو ٹھنڈا کیـا۔ کیـای مرحلہ پر بھی >ہمارا فرقہ حق پر ہے اور باقی تمام جہنم کا ایندھن ہیں< کے نعرہ سے کان مانوس ہوئے؟ اگر ان مـیں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو بتائیے اس سوال کا کیـا جواب ہے کہ محمد~صل۱~ کی ختم نبوت پر ایمان رکھنے والی امت کے اگر تمام فرقے >کافر< ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمـی کہنا ہے تو لامحالہ ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سب کو اس کفر اور جہنم سے نکال کر اسلام اور جنت کا یقین دلا سکے<۔~ف۳۱~
چہارم:خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ۱۹۰۵ء مـیں اپنے الہام سے یہ خبر دی کہ:
>جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا مـیں اسی تیر سے اس کا کام تمام کروں گا<۔~ف۳۲~
۱۹۵۳ء مـیں یہ الہام جس عبرتناک رنگ مـیں ظہور پذیر ہو اس کای قدر اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے بخوبی لگ سکتا ہے۔
۱۔ ہفت روزہ >آثار< لاہور )۲۴ که تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء( نے لکھا:
>۱۹۵۳ء مـیں ختم نبوت کے نام پر جو سیـاسی کھیل کھیلا گیـا اس کی ہولناک یـادیں ابھی قومـی ذہن سے محو نہیں ہوئیں۔ جن سیـاسی لیڈروں اور شرعی جیب کتروں نے ختم نبوت کے عقیدے کو سیـاسی یـا مالی منفعت کا ذریعہ بنایـا ان کا وجود صفحئہ ہستی سے اس طرح مٹا کہ آج کوئی ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں۔ ان مـیں سے جو لوگ ابھی زندہ ہیں وہ بس زندگی کی سانسیں پوری کر رہے ہیں ان کا نہ کوئی حال ہے نہ مستقبل۔ ان کے سیـاسی اقتدار پر فائز رہنے کے تمام خواب چکناچور ہوگئے۔ ان کے مذہبی شیوخ بننے کے تمام امکانات معدوم ہوگئے۔ ختم نبوت کا عقیدہ بیچ کر انہوں نے جو ڈھیروں روپیہ اپنی تھیلیوں مـیں داخل کیـا تھا اس نے ان کے گھروں کو جہنم کے انگاروں سے بھر دیـا ہے اب یہ لوگ خود اپنے جنازے اٹھائے پھرتے ہیں لیکن ایسا کوئی قبرستان نہیں ملتا جہاں وہ اپنی لاشوں کو دفن کر سکیں<۔
۲۔ رسالہ >آثار< نے اس تمہید کے بعد نمونت¶ہ بعض نمایـاں شخصیـات کا بھی ذکر کیـا ہے۔ چنانچہ اس دور کے وزیراعلیٰ پنجاب جناب مـیاں ممتاز صاحب دولتانہ کی نسبت لکھا:
>ختم نبوت کی تحریک کو سیـاسی مقاصد کے لئے ایکسپلائٹ کرنے والوں کے سرخیل تھے انہوں نے بعض اخبارات اور شرعی جیب کتروں کو صوبائی حکومت کے خزانے سے جس کے وہ سربراہ تھے لاکھوں روپے اس مقصد کے لئے دئیے کہ وہ عقیدے کے نام پر ملک مـیں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکائیں جب یہ آگ بھڑکی تو خودمختار دولتانہ جل بجھے ان کا شاندار سیـاسی مستقبل برباد ہوگیـا وہ آج بھی زندہ رہیں مگر اس حال مـیں کہ جسے ایوان شہی کے اندر ہونا چاہئے تھا آج وہ اس کے دروازے پر پیٹی باندھے کھڑا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے ان کا انجام کیـا ہوگا؟~<ف۳۳~
۳۔ ہفت روزہ >آثار< )۲۴ که تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء ص ۸( مولانا ختر علی خاں صاحب )خلف مولانا ظفر علی صاحب( ایڈیٹر زمـیندار کی نسبت لکھا:
>مرحوم روزنامہ زمـیندار کے مالک تھے انہوں نے ختم نبوت کے نام پر حکومت سے بھی لاکھوں روپے لئے اور عوام سے بھی ڈھیروں روپے چندہ وصول کیـا۔ انہوں نے چندہ اکٹھاکرنے کے لئے ختم نبوت کے نام پر ایک ایک روپے کے نوٹ چھاپ لئے تھے۔ جنہیں لوگوں کو دے کر ان سے اصلی نوٹ بطور چندہ لئے جاتے تھے۔ جس زمانہ مـیں انہوں نے ختم نبوت کے عقیدے کو روپیہ کمانے کا ذریعہ بنایـا وہ مـیکلوڈ روڈ پر ایک عالیشان بلڈنگ کے مالک تھے ان کے پاس دو تین کاریں بھی تھیں۔ اور زمـیندار بھی اچھا خاصا چل رہا تھا مگر جونہی انہوں نے ختم نبوت کے نام پر روپیہ خوردبرد کیـا بہت ہی تھوڑے عرصہ کے اندر نہ ان کی بلڈنگ رہی` نہ اخبار رہا اور نہ وہ خود رہے ان کی بلڈنگ پک کر ایک ہوٹل بن گئی۔ زمـیندار صفحئہ ہستی سے یوں محو ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ اور مولانا اختر علی گمنامـی کی حالت مـیں اس طرح مرے کہ کرم آباد مـیں ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے بھی بیس تیس آدمـی مـیسر نہ آئے<۔
۴۔ ہفت روزہ >چٹان< لاہور نے ۱۳/ جولائی ۱۹۶۴ء )ص۵( کی اشاعت مـیں اخبار >زمـیندار< کی نیلام شدہ بلڈنگ کا فوٹو شائع کیـا اور اس کے نیچے ایک عبرت انگیز نوٹ لکھا جو یہ ہے:
>یہ کبھی روزنامہ زمـیندار کا دفتر تھا<۔
>یہاں وہ شخص رہتا تھا جس نے ربع صدی تک برطانوی سامراج کو للکارا۔ ہماری آزادی کے لئے گیـارہ سال قید فرنگ مـیں رہا۔ لاکھوں روپے ضبط کرائے۔ جس کا ضبط شدہ پریس آج بھی بورسٹل جیل کے سرکاری پریس مـیں موجود ہے اور جہاں اس کا پوتا مسعود علی خان ورمـینجر کی حیثیت سے ملازم ہے۔ یہ بلڈنگ اسی ظفر علی خاں کی ہے۔ ظفر علی خاں جس نے پنجاب یک سیـاسی ویرانوں کو رنگ و روغن بخشا جس نے ہمـیں حریت آشنا کیـا۔ جس نے بتکدوں مـیں آذان دی۔ لیکن جب آزادی کا آفتاب طلوع ہوا تو وہ صرف >وود چراغ محفل< تھا۔ قلم کی آبرو صنعت کاروں کو منتقل ہوگئی۔ اخبارات عظیم الشان عمارتوں کے استحصال خانوں مـیں بازار کی جنس ہوگئے اور یہ عمارت جو قومـی یـادگار ہونی چاہئے تھی قرض مـیں نیلام ہوگئی۔ اب ستم ظریفی حالات نے اس کو زمـیندار ہوٹل مـین بدل ڈالا ہے جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ جی ہاں انہی کمروں مـیں بیٹھ کر ظفر علی خاں نے بارگاہ رسالت ممماب مـیں ہدیہ ہائے عقیدت پیش کئے تھے اب ان کے درون و دیوار دیدہ ہائے عبرت سے رجل رشید کا انتظار کر رہے ہیں<۔
>۔۔۔ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امـیر شریعت احرار نے اس ایجی ٹیشن مـین سب سے نمایـاں حصہ لیـا ان کے جوش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے متعدد بار اور متعدد مقامات پر خواجہ ناظم الدین صاحب اور ملک غلام محمد صاحب مرحوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
>اگر تم۔۔۔۔۔ عقیدئہ ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھالو )یعنی احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو۔ ناقل( تو مـیں اپنی اس سفید ریش سے تمہارے پائوں صاف کروں گا<۔~ف۳۴~
زندگی کے آخری ایـام مـیں شاہ جی کے عقیدتمندوں نے ان کے ساتھ کیـا سلوک روا رکھا وہ ایک عبرت انگیز داستان ہے جس کا پتہ ان کے مذکورہ انٹرویو سے ملتا ہے جو انہوں نے اپنی وفات سے قریباً ڈیڑھ برس قبل روزنامہ >امروز< ملتان کے سٹاف رپورٹر کو دیـا۔ سٹاف رپورٹر نے سوا کیـا >ان دنوں جب کہ آپ اس قدر بیمار ہیں اور پبلک لائن سے بھی ریٹائر ہوچکے ہیں کبھی دیرینہ رفقاء مـیں سے کوئی ملنے آیـا<
آپ جواب مـیں مسکرا دیئے اور فرمایـا:۔
>جب تک یہ کتیـا )زبان( بھونکتی تھی۔ سارا برصغیر ہند و پاک ارادت مند تھا۔ اس نے بھونکنا چھوڑ دیـا ہے توی کو پتہ ہی نہیں رہا کہ مـیں کہا ہوں۔<]10 ~[pف۳۵~
۶۔ مجلس احرار جو ۱۹۵۳ء کی تحریک مـیں نفس ناطقہ اور رواں تھی اپنوں کی نگاہ مـیں بھی لاشہ بے جان بن کے رہ گئی۔ چنانچہ احرار کے سابق جنرل سیکرٹری شورش کاشمـیری صاحب کو لکھنا پڑا کہ:۔
>واقعہ یہ ہے کہ مجلس احرار بہ لحاظ جماعت تاریخ کے حالے ہوچکی ہے اب اس کا ذہنی وجود تو بعض روایتوں اور حکایتوں کی وجہ سے ملک کے عوامـی دماغوں مـیں موجود ہے لیکن )۱( نہ اس کی کوئی تنظیم ہے۔ )۲( نہ اس کا کوئی مربوط شیرازہ ہے )۳( نہ اس فضا مـیں اڑنے کے لئے اس کے بال و پر ہیں۔<
>ہماری ایمانداری سے رائے ہے کہ اب احرار کا زمانہ بیت چکا ہے اور مرحوم ماضی مـیں زندگی بسر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔~<ف۳۶~
حوالہ جات
~ف۱~
رسالہ >الوصیت< طبع سوم ص۱۰ مطبوعہ ۹/جولائی ۱۹۰۸ء
~ف۲~
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اول ص۷ مکتوب ۱۳ )مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب( ناشر دفتر الحکم دسمبر ۱۹۱۸ء طبع اول۔
~ف۳~
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر کبیر )الزلزال ص۴۴۷`۴۴۸ از حضرت مصلح موعود مطبوعہ ضیـاء الاسلام پریس قادیـان ۲۵/دسمبر ۱۹۴۶ء
~ف۴~
>ملت< ۲۱/دسمبر ۱۹۵۳ء ص۱ )اس پرچہ مـیں مارشل لاء کے نفاذ کی تاریخ ۴/مارچ چھپی تھی جو غلط ہے(
~ف۵~
نوائے وقت ۱۶/مئی ۱۹۵۳ء ص۱`
~ف۶~
نوائے وقت لاہور ۱۷/مئی ۱۹۵۳ء ص۳
~ف۷~
آئینہ کمالات اسلام ص۱۱ طبع اول
~ف۸~
المنیر ۱۰/اگست ۱۹۵۵ء ص۱۰۔۴۔۱۱
~ف۹~
رسالہ تعلیم القرآن )راولپنڈی( جولائی اگست ۱۹۶۰ء ص۱۲`۱۳ بحوالہ رسالہ >الفرقان< ربوہ اگست ۱۹۶۰ء ص۳۲
~ف۱۰~
نوائے وقت جمعہ مـیگزین یکم که تا ۷/فروری ۱۹۸۵ء ص۴
~ف۱۱~
جنگ کراچی ۱۰/نومبر ۱۹۶۷ء بحوالہ >الفرقان< ربوہ فروری ۱۹۶۸ء ص۴۶
~ف۱۲~
رسالہ >زندگی< لاہور- ۲۷/جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۲۹`۳۰
~ف۱۳~
اخبار نوائے وقت لاہور ۲۴/اکتوبر ۱۹۵۳ء ص۲ کالم ۳
~ف۱۴~
سید عطاء اللہ شاہ بخاری ص۲۴۶ طبع دوم نومبر ۱۹۷۳ء ناشر مکتبہ چٹان ۸۸ مـیکلوڈ روڈ لاہور )نوٹ( اس اقتباس کے اگلے فقرے عمداً چھوڑ دئیے گئے ہیں کیونکہ تاریخ احمدیت کے پاکیزہ اوراق اسے نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتے(
~ف۱۵~
نقل مطابق اصل
~ف۱۶~
>چراغ راہ< کراچی مارچ ۱۹۵۴ء ص۱۸`۱۹~(ف۱۷~
>دیوبندی مذہب< صفحہ ۴۴۴ که تا ۴۵۱ ناشر کتب خانہ مہریہ مہر منزل منڈی چشتیـاں شریف ضلع بہاولنگر ۱۳۷۵/۱۹۵۶ء
~ف۱۸~
>تریـاق القلوب< صفحہ ۹۱ طبع اول مطبوعہ قادیـان تذکرہ طبع چہارم ص۳۰۸` ۱۹۷۷ء مطبوعہ ضیـاء الاسلام پریس ربوہ۔
~ف۱۹~
ہفت روزہ المنبر ۱۰/جولائی ۱۹۵۵ء
~ف۲۰~
>نوائے وقت< )لاہور( نے حسب ذیل ادارتی نوٹ سپرد قلم کیـا۔
>آج ۲۷`۲۸ ماہ بعد اس انکشاف سے تو اک عام آدمـی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ آپ کے سامنے بھی سوال تحفظ ختم نبوت کا نہیں نام اور سہرے کا تھا اور آپ اپنی اغراض کے لئے خدا اور رسول کے نام سے کھیل رہے تھے اور آپ نے بھی مسلمانوں کے جان و مال کو اپنی اغراض کیلئے دائو پر لگا دیـا<۔
>دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ جو پوری ملت اسلامـیہ کی انقلابی قیـادت کے دعویدار اور امارت کے مدعی ہیں کیـا آپ ایسے ہی ڈھلمل یقین آدمـی ہیں کہ خود اپنے قول کے ماطبق آپ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ >۔۔۔ لیکن چند ہی منٹ بعد دوسرا خیـال مـیرے زہن مـیں آیـا۔۔۔۔ اور اپ نے اپنی رائے بدل دی اور اپ کنوینشن سے چمٹے رہے اور اب پورے سوا دو سال بعد آپ کو یہ خیـال آیـا کہ آپ کو مسلمانوں کو اس خطرہ سے خبردار کر دینا چاہئے۔ خود وہی فرمائیے۔ کہ ایسے ڈھلمل یقین اور مذبذب کٹر کے لیڈر کے متعلق اس امر کی کیـا ضمانت ہے کہ وہ آئندہی ایسے ہی کرائسس کے وقت قوم کی کشتی کو عین منجدھار مـیں نہ جا ڈبوئے گا<۔ )نوائے وقت ۶/جولائی ۱۹۵۵ء ص۳`۴(
~ف۲۱~
المنیر لائل پور۔ ۶/جولائی ۱۹۵۶ء ص۲ کالم ۲`۳
~ف۲۲~
المنیر لائل پور۔ ۶/جولائی ۱۹۵۶ء ص۷ کالم ۲
~ف۲۳~
المنیر ۱۷/جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۹۔ >ان تقریروں کا ایک نمونہ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فاضل عربی کے الفاظ مـیں درج زیل کیـا جاتا ہے موصوف شاہ جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں<۔ آپ نے متعدد بار متعدد مقامات پر اپنی تقریروں مـیں خواجہ ناظم الدین اور ملک غلام محمد مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایـا اے خواجہ صاحب اور اے ملک صاحبا گر تم مـیری یہ معمولی سی درخواست مان کر یعنی عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائو تو مـیں اپنی اس سفید ریش سے تمہارے پائوں صاف کروں گا<۔ )رسالہ تنظیم اہلحدیث لاہور ۲۹/ستمبر ۱۹۶۱ء ص۸(
~ف۲۴~
ہفت روزہ المنیر ۹/مارچ ۱۹۵۶ء ص۴ کالم ۱`۲
~ف۲۵~
>بیـان صادق< ص۳۴`۳۵ از تاج الدین صاحب انصاری لدھیـانوی ناشر مکتبہ مجلس احرار اسلام پاکستان کاشانہ معاویہ نمبر۷۳۲ کوٹ تغلق شاہ ملتان شہر طبع ثانی محرم ۱۳۸۸ھ اپریل ۱۹۶۹ء مطبع مکتبہ جدید پریس لاہور
~ف۲۶~
>خطبات امـیر شریعت< ص۱۲۸`۱۲۹ مرتبہ مرزا غلام نبی صاحب جانباز ناشر مکتبہ تبصرہ بیرون دہلی گیٹ لاہور۔
~ف۲۷~
المنیر لائلپور ۱۷/جولائی ۱۹۵۵ء ص۹
~ف۲۸~
>انتخابی کالج کے لئے لمحہ فکریہ< )از مولانا امـین احسن اصلاحی ص۴`۷`۸ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور۔
~ف۲۹~
روزنامہ تسنیم لاہور ۶/جنوری ۱۹۵۷ء ص۴ کالم نمبر۲
~ف۳۰~
المنیر ۴/اکتوبر ۱۹۵۸ء ص۶`۷
~ف۳۱~
>تحریک جماعت اسلامـی >از ڈاکٹر اسرار احمد ایم اے ایم بی بی ایس شائع کردہ دارالاشاعت الاسلامـیہ کرشن نگر لاہور ص۱۸۸ که تا ۱۹۳ طبع اول محرم الحرام ۱۳۸۶ھ اپریل ۱۹۶۶ء۔
~ف۳۲~
المنیر ۹/مارچ ۱۹۵۶ء ص۵
~ف۳۳~
المنیر ۹/مارچ ۱۹۵۶ء ص۵۔
~ف۳۴~
براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷۸ طبع اول۔
~ف۳۵~
ہفت روزہ آثار ۲۴ که تا ۳۰ جون ۱۹۷۴ء صفحہ ۸
~ف۳۶~
صفحہ ۵۴۶ طبع اول نومبر ۱۹۶۲ء مکتبہ تبصرہ ۴/۷ گلشن کالونی شاد باغ لاہور۔
~ف۳۷~
ہفت روزہ >تنظیم اہلحدیث< لاہور ص۸ کالم ۳
~ف۳۸~
امروز )ملتان ۱۵/اکتوبر ۱۹۶۱ء بحوالہ >حیـات امـیر شریعت< ص۵۴۶ مئولفہ جناب غلام نبی صاحب جانباز طبع اول نومبر ۱۹۶۲ء ناشر مکتبہ تبصرہ ۴/۷ گلشن کالونی شاد باغ لاہور۔
~ف۳۹~
اخبار >چٹان< لاہور ۲۵/مارچ ۱۹۶۳ء ص۸
‏tav.14.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
جماعت احمدیہی ترقی اور استحکام
دوسرا باب
جماعت احمدیہ کی ترقی اور استحکام
۱۹۵۳ء کے فسادات تو اس لئے رونما ہوئے تھے تاجماعت احمدیہ کو صفحہ روزگار سے حرف غلط کی طرح مٹا دیـا جائے مگر عملاً یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ نے صبر و رضا کا بہترین نمونہ پیش کرکے نہ صرف خدا کے کئی نشان اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیر قربانیوں کو نوازتے ہوئے تائید و نصرت کے ایسے سامان پیدا کئے کہ قائم شدہ جماعتیں پہلے سے زیـادہ مضبوط ہوگئیں اور بعض نئی جماعتوں کا قیـام بھی عمل مـیں آیـا خصوصاً ربوہ کے ماحول مـیں چک منگلہ کے مشہور پیر مور الدین صاحب کے خلیفہ مجاز الحاج حافظ مولانا عزیز الرحمن صاحب منگلا جیسے عالم ربانی نے حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی~ف۱~ اور پھر ان کے ذریعہ ہزاروں مرید حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اس علاقہ مـیں یدخلون فی دین اللہ افواجا کا روح پر درون نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیـا حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوٰہ والسلام کے زمانہ مـیں یہ علاقہ جس مـیں ہمارا مرکز ہے اس مـیں کوئی احمدی نہیں تھا۔ آپ کی وفات کے قریب عرصہ مـیں یہاں صرف ایک احمدی تھا لیکن اب ضلع جھنگ مـیں ہزاروں احمدی موجود ہیں۔ ۱۹۵۳ء مـیں جبکہ ہم ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے اس علاقہ کے صرف پانچ چھ احمدی تھے۔ لیکن دو تین ہزار احمدی ہوچکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت مـیں داخل ہونے والے ایسے آسودہ لوگ ہیں کہ حیرت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ے طرح ان مال داروں کو احمدیت کی طرف ہدایت دے دی۔ ملاقات کے وقت ہر شخص جو اس علاقہ کا آتا ہے اس سے دریـافت کیـا جائے کہ تمہاری کتنی زمـین ہے تو وہ کہتا کہ دس مربعے یـا بیس مربعے یـا چالیس مربعے اور اس وقت مربعے کی قیمت ۵۰` ۶۰ ہزار روپیہ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس آٹھ مربعے سے کم زمـین ہوتی ہے۔ اگر ٹوٹل کیـا جائے تو مـیرے خیـال مـیں یہاں ایک ہزار مربع جماعت کا ہوگیـا ہے گویـا پانچ کروڑ کی جائیداد صرف اس ضلع مـیں پیدا ہوگئی ہے۔ اور یہ انقلاب ایک تھوڑے سے عرصہ مـیں ہوا ہے۔ صرف تین سال کی بات ہے کہ جب یہ انقلاب ہوا۔ اب دیکھ لو یہ معجزہ ہے یـا نہیں۔ پہلے اس عالقہ مـیں جس مـیں احمدی ہیں ایک پیر منور الدین صاحب تھے وہ قادیـان بھی گئیتھے۔ واپس آکر انہوں نے اپنے مریدوں کو کہنا شروع کیـا کہ مرزا صاحب کی بات سچی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقیناً وفات پاگئے ہیں مگر جب ان کے مرید جماعت مـیں داخل ہونے لگے تو انہیں ہماری جماعت سے بغض پیدا ہوگیـا۔ کیونکہ ہماری وجہ سے ان کی آمدن کم ہوگئی۔ کجا تو ان کی یہ حالت تھی کہ علاقہ مـیں ان کی بڑی عزت اور قدر کی جاتی تھی اور کجا یہ کہ جب ان کے تمام مرید احمدی ہوگئے تو انہیں رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ آخر ایک دوست صالح محمد صاحب نے انہیں اپنے بنگلہ مـیں ٹھہرایـا اور پھر وہ اپنے وطن واپس چلے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ احمدیت کی تائید مـیں ہمـیشہ نشانات دکھلاتا چلا آیـا ہے۔~<ف۲~
۱۹۵۳ء کے بعد جماعت احمدیہ کو جو حیرت انگیز ترقیـات پاکستان اور بیرون ممالک مـیں ہوئی اس کا واضح اقرار غیر ازجماعت کے ممتاز ادیبوں` عالموں بلکہ جماعت اسلامـی اور احراری حلقوں کی طرف سے کیـا گیـا۔ بطور ثبوت چند تاثرات و آراء درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ شیخ محمد اکرام صاحب ایم اے مئورخ پاکستان نے >موج کوثر< مـیں لکھا:۔
>عام مسلمانوں نے جس انداز سے قادیـانیوں کی مخالفت کی ہے اس سے اس جماعت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا فائدہ۔ قران نے مسلمانوں بلکہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمـیان فوقیت پانے کے طریقہ یہ بتایـا تھا کہ نیک کاموں مـیں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں اور اللہ انہیں جزا دے گا۔ انسانی زندگی کا یہ اٹل قانون دور حاضر کے بعض مناظرین نے پوری طرح نہیں سمجھا۔ عیب جوئی` مخالفت اور تشدد سے دوسرے فرقوں اور جماعتوں کی ترقی بند نہیں ہوسکتی جو فرد اپنی جماعت کی ترقی چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیک کاموں مـیں دوسروں سے بڑھ جائے۔ ہمارے بزرگوں نے عام مسلمانوں کو نظم و نسق` مذہبی جوش اور تبلیغ اسلام مـیں مرزائیوں پر فوقیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھائی بلکہ بیشتر فتووں اور عام مخالفت سے فتنہ قادیـان کا سدباب کرنا چاہا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جبی قوم کے ساتھ بے جا سختی کی جائے تو اس مـیں ایثار اور قربانی کی خواہش بڑھ جاتی ہے چاننچہ جب کبھی عام مسلمانوں نے قادیـانیوں کی مخالفت مـیں معمولی اخلاق` اسلامـی تہذیب اور رواداری کو ترک کیـا ہے تو ان کی مخالفت سے قادیـانیوں کو فائدہ ہی پہنچا ہے۔ ان کی جماعت مـیں ایثار اور قربانی کی طاقت بڑھ گئی اور ان کے عقائد اور بھی مستحکم ہوگئے ہیں۔~ف۳~
۲۔ ایڈیٹر صاحب >اخبار صداقت< گوجرہ نے اعتراف کیـا:۔
>احرار کی تحریک ناکامـیوں سے پر ہے۔ دور جانے کی کیـا ضرورت` ختم نبوت کا تحفظ آپ کے سامنے ہے ~}~
تو کار زمـیں رانکو ساختی
کہ باآسماں نیز بر داختی
ربوہ موجود۔ اس کے کالج اور سکول موجود۔ پریس` اخبار اور مبلغ موجود۔۔۔۔ ان کا عقیدہ اجرائے نبوت موجود۔۔۔۔۔ حق کو متانے والے آپ کون؟~ف۴~
۳۔ مولانا عبدالرحیم صاحب اشرف مدیر >النبر< نے اپنے اخبار مـیں متعدد بار جماعت احمدیہ روز افزوں ترقی اور استحکام کا برملا اظہار فرمایـا چنانچہ لکھا:۔
المنبر ۲۳ فروری ۱۹۵۴ء
>ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیـانیت کا مقابلہ کیـا۔ لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیـانی جماعت پہلے سے زیـادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی۔ مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیـا ان مـیں سے اکثر تقویٰ` تعلق باللہ دیـانت` خلوص` علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے۔ سید نذیر حسین صاحب دہلوی` مولانا انور شاہ صاحب دیو بندی` مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری` مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی` مولانا عبدالجبار غزنوی` مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحمھم اللہ وغفرلہم کے بارے ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیـانیت کی مخالفت مـیں مخلص تھے اور ان کا اثر و رسوخ بھی اتنا زیـادہ تھا کہ مسلمانوں مـیں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں۔۔۔۔۔ اگرچہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے۔۔۔۔۔ لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر )نور اللہ مرقدھم وبرمضاجعہم( کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیـانی جماعت مـیں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ ہندوستان مـیں قادیـانی بڑھتے رہے۔ تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان مـیں نہ صرف پائوں جمائے بلکہ جہان ان کی تعداد مـیں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں )گزشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے دو سائنسدان ربوہ وارد ہوئے( اور دوسری جانب ۱۹۵۳ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیـانی جماعت اس کوشش مـیں ہے کہ اس ۵۷۔ ۱۹۵۶ء کا بجٹ لاکھ روپیہ کا ہو۔<
>۱۹۵۳ء کے وسیع ترین فسادات کے بعد جن لوگوں کو یہ وہم لاحق ہوگیـا ہے کہ قادیـانیت ختم ہوگئی یـا اس کی ترقی رک گئی۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان مـیں پہلی مرتبہ بلدیـاتی اداروں مـیں بلکہ )بعض اطلاعات کی بناء پر( مغربی پاکستان اسمبلی مـیں قادیـانی ممبر منتخب ہوگئے۔10] ~[pف۵~
ہفت روزہ المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء
)ب( >قادیـانیوں نے گزشتہ پچاس سال مـیں اندرون اور بیرون ملک اپنی قومـی زندگی کو قائم رکھنے اور قادیـانی تحریک کو عام کرنے کے لئے سلسلہ مـیں جو جدوجہد کی ہے اس کا یہ پہلو نمایـاں ہے کہ انہوں نے اس کے لئے ایثار و قربانی سے کام لیـا ہے۔ ملک مـیں ہزاروں اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اس نئے مذہب کی خاطر اپنی برادریوں سے علیحدگی اختیـار کی۔ دنیوی نقصانات برداشت کئے اور جان و مال کی قربانیـاں پیش کیں۔<
>ہم کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ قادیـانی عوام مـیں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے ساتھ اس سراب کو حقیقت سمجھ کر اس کے لئے جان و مال اور دنیوی وسائل و علائق کی قربانی پیش کرتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بعض افراد نے کابل مـیں سزائے موت کو لبیک کا۔ بیرون ملک دور دراز علاقوں مـیں غربت و افلاس کی زندگی اختیـار کی۔<
>تقسیم ملک کے وقت مشرقی پنجاب کی یہ واحد جماعت تھی جس کے سرکاری خزانہ مـیں اپنے معتقدین کے لاکھوں روپے جمع تھے اور جب یہاں مہاجرین کی اکثریت بے سہارا ہوکر آئی تو قادیـانیوں کا یہ سرمایـاں جوں کا توں محفوظ پہنچ چکا تھا اور اس سے ہزاروں قادیـانی بغیری کاوش کے ازسرنو بحال ہوگئے۔ پھر یہ موضوع بھی مستحق توجہ ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے ۳۱۳ افراد تقسیم کے بعد سے آج تک قادیـان مـیں موجود ہیں اور وہاں اپنے مشن کے لئے کوشاں بھی ہیں اور منظم بھی۔۔۔۔۔ قادیـانی تنظیم کا تیسرا پہلو وہ تبلیغی نظام ہے جس نے اس جماعت کو بین الاقوامـی جماعت بنا دیـا ہے۔ اس سلسلہ مـیں یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ بھارت` کشمـیر انڈونیشیـا۔ اسرائیل۔ جرمنی۔ ہالینڈ۔ سوئٹرز لینڈ۔ امریکہ۔ برطانیہ۔ دمشق۔ نائیجیریـا۔ افریقی علاقے اور پاکستان کی تمام قادیـانی جماعتیں مرزا محمود احمد صاحب کو اپنا امـیر اور خلیفہ تسلیم کرتی ہیں اور ان کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں >صدر انجمن احمدیہ ربوہ< اور >صدر انجمن احمدیہ قادیـان< کے نام وقف کر رکھی ہیں۔~<ف۶~
المنیر ۶ جولائی ۱۹۵۶ء
)ج( >اس وقت جو کوشش تحفظ ختم نبوت کے نام سے قادیـانیت کے خلاف جاری ہے فطع نظر اس سے کہ اس کوشش کا اصل محرک خلوص` خدا کے دین کی حفاظت کا جذبہ ہے یـا حقیقی وجہ معاسی اور منفی ذہن کے رجحانات کا مظاہرہ ہے ہماری رائے مـیں یہ کوشش نہ صرف یہ کہ اس مسئلہ کے حل کرنے کے لئے مفید نہیں ہے بلکہ علی وجہ البصیرت کامل یقین و اذعان کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ جدوجہد قادیـانی شجرہ کے بار آور ہونے کے لئے مفید کھاد کی حیثیت رکھتی ہے۔~<ف۷~
۱۹۵۳ء کے بعد احمدیت کی ترقی
>۱۹۵۳ء کے بعد` جو غلطیـاں` ہم سے سرزد ہوئیں` ان مـیں ایک فاش غلطی یہ تھی کہ ہم مـیں سے بہت سے حضرات نے اس غیر واقعاتی تاثر کو خوب خوب عام کیـا کہ ۵۳ء کی تحریک سے قادیـانیت ختم یـا کم از کم بے اثر ہوچکی ہے` درآنحالیکہ۔۔۔۔ قادیـانی
ملک کی بیشتر کلیدی آسامـیوں پر چھاتے چلے گئے۔
ہر قابل ذکر اور اہم محکمے مـیں` ان کے ممتاز افراد گھسے اور انہوں نے اپنے اپنے دائرہ کار مـیں قادیـانی کارکنوں کی ٹیمـیں جمع کرلیں۔
صدر ہائوس اور وزارت عظمـیٰ کے ایوان ہی مـیں نہیں` ان بڑے عہدہ داروں کے نجی عملے تک مـیں قادیـانیوں کو موثر قوت بننے کا موقعہ مـیسر آیـا۔
ملک کی معیشت پر قادیـانیوں کو فیصلہ کن پوزیشن حاصل ہوئی اور اس سے فائدہ اٹھا کر انوں نے اپنی جماعت کے بیشمار افراد کو مالا مال کردیـا۔
ملک کے اہم ترین مناصب پر فائز ہونے کے بعد` قادیـانیوں نے بیرون ملکوں` بالخصوص بری طاقتوں سے اپنے روابط مستحکم کئے اور بیشتر ممالک مـیں انہوں نے انتہائی منظم طریقے پر یہ پروپگیندہ کیـا کہ پاکستان کی حکومت` قادیـانی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔
سر ظفر اللہ سے ایم۔ ایم۔ احمد اور عبدالسلام تک` بڑے قادیـانیوں نے وزارت خارجہ اور دنیـا بھر کے پاکستانی سفارت خانوں کو اپنی سرگرمـیوں کا مرکز بنایـا۔۔۔۔ ان سفارت خانوں کے ذریعہ` دنیـا کے بیشتر ممالک ہیں۔
سرکاری وسائل و اثر و رسوخ کو قادیـانیت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بے محابا استعمال کیـا گیـا۔
قادیـانی اکابر نے ملک کے تمام مناصب کو اپنے عقائد کی تبلیغ` اپنے سیـاسی مشن کی تکمـیل اور مسلمانوں کے خلاف یہود اور دوسرے سامراجی عناصر کی سازشوں کی تکمـیل کے لئے استعمال کیـا۔
ایک اہم ترمقصد قادیـانیوں کے سامنے یہ تھا کہ سفارتی مناصب کو` تمام ملکوں سے براہ راست روابط کا ذریعہ بنایـا جائے اور انہیں اس مـیں اس حد تک کامـیابی ہوئی کہ وہ نہ صرف یہ کہ دنیـا کے بیشتر ممالک مـیں پاکستان کے نمائندوں کی حیثیت سے معروف ہوئے` بلکہ وہ پاکستان کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اسلام کی نمائندگی و ترجمانی کے منصب پر فائز بھی سمجھے جانے لگے اور ان کے عمل اور پروپیگنڈے سے یہ تاثر عام ہوگیـا ک اس وقت دنیـا مـیں صرف قادیـانی ہی تبلیغ و اشاعت اسلام کا علم تھامے ہوئے ہیں۔
اندرون ملک قادیـانیت کا فروغ!
اندرون ملک` قادیـانیوں کو اس حد تک فروغ حاصل ہوا کہ:۔
تقسیم ملک کے کچھ عرصہ بعد تک ان کا جو مرکزی بجٹ ایک ڈیڑھ لاکھ کا تھا` اب وہ اڑھائی کروڑ تک جا پہنچا اور انہوں نے اس سال کے آغاز مـیں` اپنی ۷۵ سالہ جوبلی منانے کے لئے ۱۰ کروڑ کی رقم کے وعدے اپنے خلیفے کے حضور پیش کئے۔
فوج مـیں ان کا اثر اس حد تک بڑھا کہ یہ خطرہ ہر ہوش مند کو محسوس ہونے لگا کہ اگر اب یہاں خدانخواستہ کوئی فوجی انقلاب آتا ہے تو کہیں` وہ >قادیـانی حکومت< کی صورت مـیں نہ ہو۔<
قادیـانیوں نے مسلم معاشرے مـیں اس حد تک نفوذ حاصل کیـا کہ علمائے دین کے متفقہ فتویٰ اور متعدد عدالوں کے قطعی فیصلوں کے برعکس` ہزاروں مسلم خاندانوں نے قادیـانیوں سے رشتے ناطے کے روابط قائم کئے اور ایک اہم تعداد ہمارے اہل سیـاست اور اصحاب مال و جاہ کی ایسی اس ملک مـیں موجود ہے` جو نیم قادیـانی یـا کم از کم قادیـانیوں کے خلاف ہر قسم کے جذبہ مغائرت سے تہی دامن ہے اور وہ یہ بات ان کے لئے اچنبھے کی ہے کہ قادیـانی غیر مسلم ہیں اور ان سے معاشرتی تعلقات شرعاً ممنوع ہیں۔
‏body] [tagقادیـانیوں کی یہ ترقی` اگرچہ مسلمانوں کی دین سے دوری کے باعث تھی مگر اس مـیں شبہ کی گنجائش نہیں کہ قادیـانی ایک گرمجوش جماعت کی حیثیت سے مسلسل اور پیہم مصروف تبلیغ و اشاعت تھے اور اس امت کے افراد نے فی الواقعہ` اپنے باطل مقصد سے لگن` اس کیلئے محنت اور ایثار سے بھی کام لیـا اور اس۔۔۔۔۔ گروہ کے بیشتر افراد۔۔۔۔۔ اپنے مشن مـیں >مخلص< تھے` اور یہی اخلاص انہیں ہر وقت عمل کے تسلسل پر مجبور کرتا رہا۔<
۴۔ ایک احراری لیڈر مولوی عبید اللہ صدر مجلس احرار اسلام پاکستان لائلپور نے جماعت احمدیہ کے اتحاد` تنظیم اور ایثار کو خراج تحشین ادا کرتے ہوئے لکھا:۔
>مجلس احرار کے علاوہ بعض دیگر دینی جماعتوں نے بھی مسئلہ ختم نبوت کی تبلیغ اور تعلیم مـیں سرگرم حصہ لیـا ہے اور لے رہی ہیں مگر ہم عملاً دیکھ رہے ہیں۔ کہ مسلمان ختم نبوت کے مسئلہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے بھی قران و سنت کو نظر انداز کرکے کمـیونزم اور سوشلزم کی راہ اختیـار کررہے ہیں۔ اکابرین مختلف حیلوں بہانوں سے سوشلز مـیں ملک کی فلاح اور نجات بیـان کررہے ہیں۔ اس طرح عملاً مسئلہ ختم نبوت کی نفی کی جارہی ہے۔ اور یہ حادثہ اس لئے رونما ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کہ مسئلہ ختم نبوت کے اکابرین کی تقریروں اور عمل کے درمـیان ایک طویل مسافت ہے۔ تضاد ہے۔ ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ حضور علیہ الصلٰوٰہ والسلام کا ارشاد ہے۔ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اتحاد اور تنظیم کو مستحکم کرو مگر ہم صوبائی` لسانی اور نسلی بتوں کی پرستش کرکے ایک دوسرے کے دشمن ہورہے ہیں۔ باہمـی اعتماد نہ ہو تو باہمـی اخوت طرح ہوسکتی ہے۔ مسئلہ ختم نبوت کی ضروت مرزا غلام احمد قادیـانی کی تنظیم اور نظریـات کے پیش نظر ہوئی مسئلہ ختم نبوت مـیں زیـادہ تر جماعت احمدیہ ہی کو مخاطب کیـا جاتا ہے۔ مگر جماعت احمدیہ نے جس طرح خود کو منظم اور مستحکم کررکھا ہے ان کے مقابلہ مـیں مجلس احرار یـا کوئی اور جماعت اس قدر منظم اور متحد نہیں۔ جماعت احمدیہ سیـاسقی اقتصادی معاشرتی اور عسکری لحاظ سے طاقت ور جماعت ہے پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر اس کی تنظیم کا ایک مضبوط نظام قائم ہے۔ اس جماعت کا ہر فرد اپنے عقیدہ اور عمل مـیں راسخ ہے۔ فنڈز کے لئے اسےی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ایک نظام کے تحت از خد ان کے فنڈز مـیں روپیہ جمع ہوتا ہے۔ ایک منصوبہ کے تحت خرچ کیـا جاتا ہے۔ جماعت کے پسمنادہ افراد کی ہر طرح امداد اور اعانت کی جاتی ہے۔
مقابلت¶ہ مجلس احرار اور دیگر دینی جماعتیں ہمـیشہ فنڈ نہ ہونے کا شکوہ کرتی ہیں۔ اور فنڈز کی کمـی کے باعث وہ کماحقہ خدمات سرانجام نہیں دے سکتیں۔ جماعت احمدیہ مـیں اتحاد۔ تنظیم اور ایک دوسرے کے لئے ایثار کا جذبہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تنظیم اتحاد اور ایثار مـیں کوئی شے بھی نہیں۔ دوسرے معنوں مـیں خلوص اور عمل کا فقدان ہے۔
اس وقت پاکستان کا ہر فرد یہ محسوس کررہا ہے۔ کہ جماعت احمدیہ ایک زبردست طاقت بن چکی ہے۔ اس کی وجہ ہم اپنے گریبانوں مـیں جھانک کر معلوم کرسکتے ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت کے منکر خاموشی سے اپنی صفوں کو منظم کرتے رہے۔ اور ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے اپنی صفوں مـیں انتشار پیدا کرتے رہے۔~<ف۸~
حوالہ جات
~ف۱~
تاریخ وفات ۲۹ جون ۱۹۸۷ء
~ف۲~
الازھار لذوات الخمار صفحہ ۲۰۱ حصہ دوم طبع دوم )مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ( ناشر۔ دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ربوہ
~ف۳~
>موج کوثر< صفحہ ۱۹۳ء مئولفہ جناب شیخ محمد اکرام ایم اے۔ ناشر فیروز سنز )لاہور۔ پشاور۔ کراچی طبع دوم ۱۹۵۸ء(
~ف۴~
>صداقت گوجرہ ۲۰ جون ۱۹۵۸ء بحوالہ رسالہ الفرقان ربوہ اگست ۱۹۵۸ء صفحہ ۲
~ف۵~
المنبر ۲۳ فروری ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۰
~ف۶~
ہفت روزہ المنبر ۲ مارچ ۱۹۵۶ء صفحہ نمبر ۱۰
~ف۷~
المنبر ۶ جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۱
~ف۸~
پمفلٹ >مجلس احرار کی تبلیگی سرگرمـیاں اور اس کا اجمالی خاکہ< صفحہ مرتب۔ محمد طاہر لدھیـانوی۔ محمد عالم منہاس لدھیـانوی۔ شائع کردہ۔ محمد اشرف ناظم مجلس احرار` اسلام گوجرانوالہ ۶ ستمبر ۱۹۷۲ء
تیسرا باب
جماعت احمدیہ کی عالمـی شہرت و عظمت مـیں اضافہ
۱۹۵۳ء کے دور ابتلاء کی تیسری عظیم الشان برکت یہ تھی کہ بیرونی ممالک مـیں اس کی شہرت وقار اور عظمت مـیں بے پناہ اضافہ ہوا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عالمـی پریس نے جماعت احمدیہ کے حق مـیں کھلے بندوں آواز بلند کی اور اس کی مظلومـیت کے چرچے دنیـا کے ہر گوشے مـیں ہونے لگے۔][اس سلسلے مـیں بعض بیرونی ممالک کے اخبارات کے تاثرات اور ان کے قارئین کی آراء کا نمونتاً ذکر کیـا جاتا ہے۔
ہندوستان کا مسلم پریس
۱۔ اخبار >حقیقت< لکھنو نے اپنی ۳` ۴ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت مـیں مندرجہ ذیل اداریہ تحریر کیـا
ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کر چراغ سے۔
تقریباً چھ سات ماہ کے سکون اور خاموشی کے بعد ایک بار پھر پاکتان کے ناعاقبت اندیش مولویوں اور کٹھ ملائوں نے وہی شر انگیز ایجی ٹیشن پھر شروع کردیـا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی شیرازبندی کو پاش پاش کردینا ہے۔ ان مولویوں` ملائوں اور خود ساختہ مولانائوں کا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیـا جائے اور سر ظفر اللہ کان کو وزارت خارجہ کے عہدہ سے ہتا دیـا جائے ان احمقوں کے نزدیک پاکستان گورنمنٹ کے اس اعلان کردینے سے کہ احمدی غیر مسلم ہیں ساری دنیـا ان کا گیر مسلم ہونا تسلیم کرے گی۔ لاکوں افراد کی ایک کلمہ گو جماعت کو جو خدا کی وحدانیت` رسول کی رسالت اور شریعت اسلامـیہ کی خود ان مولویوں اور مولانائوں سے کہیں زیـادہ سختی کے ساتھ پابند ہو 0] [rtf بیک گردش قلم خارج از اسلام قرار دے دینا ایسی افسوس ناک بلکہ شرم ناک جسارت ہے جس کی اسلام کی ۱۳۰۰ سال کی تاریخ مـیں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی۔ غور کیجئے کہ ایک شخص جو خدا اور رسسول کا کلمہ پرھتا ہے اسلامـی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کہتا ہےی کو کیـا حق حاصل ہے کہاس کو محض اس بناء پر خارج ازاسلام قرار دے دے کہ ختم نبوت کے بارے مـیں اس کا عقیدہ عام مسلمانوں کے عقیدہ سے کچھ مختلف ہے۔ کراچی اور لاہور مـیں جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایـا ہے وہ پاکسستان کے دوست نہیں ہیں بلکہ نہایت خطرناک دشمن ہیں۔ ہمارے خیـال مـیں راولپنڈی کی سازش سے کم مضرت رساں اور خطرناک یہ شورش نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس قسم کی فتنہ انگیز تحریکوں کو قطعی کچل دے ورنہ اگر مولویوں اور کٹھ ملائوں کی رسی ڈھیلی کردی گئی تو یہ فتنہ احمدیوں کے بعد دوسرے اسلامـی فرقوں کو بھی سمـیٹ لے گا۔ یقین کیجئے کہ ملاوں کو اگر اس ایجی ٹیشن مـیں حکومت کی کمزوری یـا نرمـی کی وجہ سے کچھ بھی کامـیابی ہوئی تو پھر اس فرقہ وار تعصب کے سیلاب سے دوسرے مسلم فرقوں کا محفوظ رہنا بھی محال ہوگا اور پھر اس کا انجام پاکستان کے لئے جس قدر تباہی~ف۱~ اور مہلک ہوگا اس کا انداز سمجھدار شخص ہی کرسکتا ہے۔
کراچی اور لاہور کی تازہ خبروں ے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس خطرناک فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیـار ہیں چنانچہ کراچی اور لاہور مـیں اب تک کم و بیش ڈیڑھ ہزار گرفتاریـاں ہوچکی ہیں اور لاہور کے کئی روزانہ اردو اخبارات کی اشاعت ایک ایک سال تک روک دی گئی۔ مولانا اختر علی خان ایڈیتر >زمـیندار< اور اس تحریک کے دوسرے کئی سرغنہ گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ حکومت پوری مستعدی اور سکتی کے ساتھ اس فتنہ انگیز تحریک کو کچل دینے کا قطعی فیصلہ کرچکی ہے۔ جیسا کہ لاہور اور کراچی کے تاز سرکاری بیـانات مـیں اعلان کردیـا گیـا ہے یقیناً پاکستان گورنمنٹ کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ دگر نہ اگر اس موقع پر اگر ذرا بھی کمزوری کا اظہار کیـا تو شورش پسندوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ اور پھر تو پاکستان کا زیـادہ عرصہ تک سلامت رہنا قطعی ناممکن ہوجائے گا۔~<ف۲~
اسی اخبار نے ۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت مـیں بعنوان >قادیـانی اور پاکستان< مندرجہ ذیل اداریہ لکھا:۔
>قادیـانیوں یـا احمدیوں کے خلاف پاکستان کے ایک طبقے مـیں جو شورش گزشتہ کئی سلا سے برپا کررکھی گئی ہے وہ روز بروز )زور( پکڑتی جارہی ہے۔ ابتداء اس مـیدان مـیں صرف احرری ہی پیش پیش نظر آرہے تھے اور اب تو جمـیعت العلامء پاکستان` نیوز پیرس ایڈیٹرس کانفرنس شریک ہوگئے ہیں اور یہ مطالبہ ان کی طرف سے انتہائی شد و مد کے ساتھ شروع کردیـا گیـا ہے کہ ظفر اللہ کان وزیر خارجہ پاکستان کو وزارت سے ہٹا دیـا جائے۔ قادیـانیوں کو سرکاری طور پر ایک اقلیت والی قوم قرار دیـا جائے۔ یہ ایجی ٹیشن اس مرتبہ ان کل جماعتوں کے اشتراک عمل سے اس زور شور کے ساتھ اٹھایـا گیـا ہے کہ پاکستان کی تازہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس سلسلہ مـیں روزانہ ہر ہر مقام پر متعدد گرفتاریـاں ہورہی ہیں اور گرفتار شدگان کی مجموعی تعداد ہزاروں سے تجاوز ہوچکی ہے۔ راست اقدام کے لئے جو مجلس عمل مقرر کی گئی تھی اس کے کل اراکین گرفتار ہوچکے ہیں لیکن یہ شورش گھٹنے کا نام نہیں لیتی۔ ہماری سمجھ مـیں نہیں آتا کہ ان پاکستانی افراد کی اس ذہنیت کی کیـا تاویل کی جائے کہ جس سے ان کے طرز عمل کای پہلو سے کوئی جواز نکل سکے۔
سوچنے کی بات ہے کہ مسلمانوں مـیں ایک دو نہیں بہتر فرقے ہیں۔ اگر ہر ہر فرقہ کے خلاف اسی قسم کا ایجی ٹیشن برپا کردیـا جائے تو اس سے مسلمانوں کی عصبیت و مرکزیت مجروح ہوگی یـا نہیں؟ اور اگر ہر فرقہ دائرہ اسلام سے یونہی خارج قرار دے دیـا گیـا تو پھر اسلام کے لوا برادروں کی تعداد کتنی کم ہوجائے گی؟
مانا کہ ان کے عقائد عام اسلامـی عقائد سےی قدر مختلف ہیں۔ مانا کہ مرزا غلام احمد صاحب قادیـانی کو مسیح موعودؑ مانتے ہیں لیکن جب تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت` خاتم النبین کی رسالت اور آپ کے خاتم النبین ہونے پر ان کا ایمان و ایقان ہے اس وقت تک دائرہ اسلام سے انہیں کوئی خارج نہیں کرکستا اور یوں حرف گیری پر اگر کوئی آئے تو ہر ہر فرقہ کے عقیدے کے بارے مـیں وہ ایک نہیں ۲۱ باتیں نکال سکتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کی جمعیت العلماء بشمول اس کے صدر مولانا عبدالحامد صاحب قادری بدایونی کے سب کے سب احراریوں کی اس جماعت کے ہمنوا اور ہمخیـال ہوگئے ہیں کہ جس کا منسا ہی مسلمانوں کی مرکزیت کو توڑنا اور اس کی عصبیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ جس زمانہ مـیں ہندوستان مـیں مسلم لیگ کا دور شباب تھا اور اس کے لیڈران کانگرس سے مطالبہ پاکستان کے سلسلہ مـیں الجھے ہوئے تھے یہی جماعت احرار مسلم لیگ کا ساتھ دینے کی بجائے اس کے مخالف کیمپ مـیں تھی اور ہر طریقے سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو روندنے اور پامال کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ یہی عطاء اللہ شاہ بخاری کہ جو آج اس تحریک کے ہیرو بنے ہوئے ہیں اپنی سوقیـانہ تقریروں اور اپنی دریدہ دہنیوں سے مسلم لیگی لیڈران کی ٹوپیـاں اچھالنے مـیں لگے ہوئے تھے۔ اور اب تشکیل پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی گرم بازای کے قیـام اور اپنی قدیمـی نفرت و عداوت کی آگ کو بجھانے کے لئے وہاں ایک ایسی شرمناک فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس کوی طریقے پر جائز و حق بجانب قرار نہیں دیـا جاسکتا۔
پاکستان کی نومولود سلطنت کو یونہی کیـا کم افکار لاحق ہیں کہ جن مـیں سے بعض ایسے ہیں کہ جن پر ان کی زندگی اور موت کا سوال اٹکا ہوا ہے۔ ایسی صورت مـیں اسی قسم کا کوئی ایجی ٹیشن وہاں شروع کرنا اس کے ساتھی پہلو سے دوستی کا مترادف نہیں ہوسکتا۔ حکومت پاکستان اس وقت تک اس معاملے مـیں جس مضبوط اور استقلال کے ساتھ اپنی پالیسی پر قائم ہے وہ بہت زیـادہ مسرت بخش ہے اور اسے یقیناً اس معاملہ مـیں ایک انچ بھی اپنی پالیسی سے نہ ہٹنا چاہیئے۔~<ف۳~
۲۔ اخبار >خلافت بمبئی< )مورخہ ۱۳ مارچ ۱۹۵۳ء( نے اپنے اداریہ مـیں لکھا:۔
>احمدی تحریک کی مخالفت مـیں پاکستان مـیں جس قسم کے مجنونانہ جوش و خروش کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ اس کو کوئی ذی ہوش اور ذی فہم مسلمان پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ عقائد کا اختلاف ایک )الگ( شے ہے۔ لیکن عقائد کے اختلاف مـیں اتنی شدت اور بحرانی کا مظاہرہی قوم کے توازن دماگی کے صحیح ہونے کی علامت نہیں۔ پاکستان مـیں احمدی تحریک نئی نہیں ہے۔ تقریباً پچاس برس یـا اس سے بھی زیـادہ زمانے سے ہندوستان مـیں احمدی عقائد کے لوگ زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ اپنے خیـالات اور عقائد کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔ لیکنی دور مـیں ان کے خلاف اتنی شدت کے ساتھ عوامـی مخالفت ظہور مـیں نہیں آئی۔ جتنی کہ پچھلے چند ہفتوں سے پاکستان مـیں ظاہر ہورہی ہے۔ی مذہبی جذبے مـیں اگر سیـاسی اغراض اور اختلافات بھی شامل ہوجائیں تو وہ نہایت امن سوز اور خطرناک شکل اختیـار کرلیتا ہے۔ پاکستان مـیں احمدی تحریک کے خلاف عوام کے جوش و خروش کے جو مظاہرہ ہورہے ہیں۔ ہمارا خیـال ہے کہ وہ محض مذہبی عقائد کے اختلاف تک محدود نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی پشت پر سیـاسی اغراض اور جماعتی اختلافات بھی کام کررہے ہیں۔ اگر اسی قسم کے مظاہرے اسی طرح ہوتے رہے۔ اور عوام کو قانون کو اپنے ہاتھ مـیں لینے کی آزادی دی جاتی رہی۔ توی منظم حکومت کا قیـام ہی دشوار نظر آتا ہے۔
افسوس ہے کہ اس وقت جبکہ پاکستان کو سینکڑوں خارجی اور داخلی مشکلات سے سابقہ ہے۔ ملک کے تحفظ اور استحکام اور ترقی اور بہبودی کے بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ اتنے وسیع پیمانے پر اندرونی خلفشار برپا ہے۔ اس وقت تو پاکستان کی پوری اجتماعی قوت ترقی اور تعمـیر کے کاموں مـیں صرف ہونی چاہئے تھی۔ بجائے اس کے ہوکیـا رہا ہے؟ ہر طرف مذہبی جنون کے مظاہرے` ہنگامے` گرفتاریـاں` قتل` خونریزی` حکومت امن قائم رکھنے کے لئے اور احمدی فرقہ کے افراد کے جان و مال کے تحفظ کے لئے جو کچھ کررہی ہے۔ وہ اس کا فرض ہے۔ اس کو اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ ہر مہذب حکومت ان حالات مـیں ہی کرے گی۔ لیکن ملک مـیں جب کوئی مذہبی تحریک حد اعتدال سے متجاوز ہوجاتی ہے اور اس کو سختی سے دبانے کے لئے حکومت کی طرف سے سخت تدابیر اختیـار کی جاتی ہیں تو ان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ عوام کے جذبات کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ حکومت پاکستان کا موجودہ ہیجان اور بحران کا مقابلہ بڑی ہوش مندی اور اعتدال کار کے ساتھ کرنا چاہئے۔ صرف طاقت کے استعمال ہی سے یہ بحران دور نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اس کی بھی ہے۔ کہ تمام حالات اور واقعات کا تجزیہ کیـا جائے اور ان اسباب کی صحیح چھان بین کی جائے جو موجود مذہبی منافرت کے باعث ہوئے۔ ان شکایـات کی تحقیق بھی بے لاگ طور پر کی جائے۔ جو پاکستان کے احمدی فرقہ کے حکام اور آفیسران کی زیـادتیوں کے متلق ہیں۔ جوشیلے عوام کو پرامن طور پر سمجھایـا جائے کہ اسلام جس کے وہ نام لیوا ہیں۔ وسیع رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ قران پاک مـیں صرف طور پر بتا دیـا گیـا ہے کہ لاکراہ فی الدین دین کے معاملہ مـیں کوئی خبر نہیں۔ ہر فرد کو یہ آزادی اسلام نے دی ہے۔ کہ وہ نجات کے جس راستہ کو بہتر سمجھتا ہے۔ اپنے لئے اختیـار کرے۔ سلام کی پوری تریک رواداری سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ایک ایسے ملک مـیں جہاں ایک بڑی اسلامـی اکثریت موجود ہے۔ ایک کمزور اور اقلیت کے فرقے پر ایسے وحشیـانہ مظالم کا ہونا ایک ایسا فعل ہے جس پر جتنا بھی اظہار نفرت کیـا جائے کم ہے۔ ہمـیں احمدی عقائد کے حسن و قبح کے متعلق اس شذرے مـیں رائے زنی نہیں کرنی ہے۔ نہ ہمـیں اس پر بحث کرنا ہے۔ کہ احمدی فرقہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یـا نہیں۔ ہم جس حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ احمدی عقائد رکھنے ولے حضرات کو یہ پورا حق ہے کہ وہ آزادی اور بے فکری کے ساتھ رہ کر پاکستان مـیں محفوظ زندگی گزاریں۔ اور کوئی قوت اور جماعت خواہ وہ ملک کی سب سے بڑی اکثریت ہی کیوں نہ ہو یہ حق نہیں رکھتی۔ کہ وہ اس آزادی کو ان سے چھین سکیں۔ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔ کہ جو مختلف خبریں ان ہنگاموں کے متعلق پاکستان سے آرہی ہیں۔ کہاں تک صحیح ہیں؟ لیکن جس حد تک بھی صحیح ہیں۔ وہ کچھ کم افسوسناک نہیں۔ عوام کے جذبات جب بے قابو ہوجاتے ہیں۔ جنون کی خوفناک حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ خدا کرے کہ پاکستان کے جنون زدہ عوام کو ہوش آئے۔ اور پاکستان سے جلد ان فتنوں کا سدباب ہوجائے۔ جو پاکستان کی سالمـیت کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔~<ف۴~
۳۔ روزنامہ >اقدام< حیدرآباد نے مورخہ ۲۴ جوادی الثانی ۱۳۲۱ھ ۱۱ مارچ ۱۹۵۳ء کو مندرجہ ذیل افتتاحیہ تحریر کیـا ہے۔
>اسلام اس مقدس تحریک کا نام ہے جو وسعت نظر` فراخ دلی` انسانیت دوستی اور جمہوریت نوازی مـیں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اسلام کے اصولوں کی نگہبانی کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسلام کو سرخرو بلند کرنے کی آرزو مند ہے۔ اور اسلامـی قوانین و احکامات کی روشنی مـیں اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کے اعلانوں سے اپنی زبانیں خشک کرتی رہی ہے۔ قائداعطم علیہ الرحمہ سے لے کر شہید ملت نواب زادہ لیـاقت علی خاں تک کی یہ تمنا تھی۔ کہ پاکستان ایک ایسی اسلامـی مملکت بن جائے جس کے فرماں روائوں کی زندگی مـیں خلفائے راشدین کی زندگی کی جھلک پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہو۔ اور جس کے مسلمان شہری اس ریگ زار عرب کے مسلمانوں کا نمونہ بن جائیں۔ جنہوں نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ساری دنیـا مـیں امن و چین` شرافت و نیکی` وسعت نظر اور انسانیت و شرافت کی نعمتیں بکھیر دی تھیں۔ قائداعظم یـا نواب زادہ کی زندگی تک تو یہ تمنا پوری نہیں ہوئی۔ اور ان دونوں اکابرین کے بعد اگر کچھ ہوا تو پاکستان مـیں یہ ہوا۔ کہ پاکستانی حکمرانوں کے ایک طبقے اور پاکستانی مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد نے ان جاہل عربوں کی نقل اتارنی شروع کردی جو اسلام سے پہلے آزادی` تنگ نظری اور خون خرابے کو اپنے قبیلوں کا وقار بنائے ہوئے تھے اور عقائد کے نام پر کٹ مرنا دوسروں کے عقائد کو متاثر کرنا` انسان کی فکر و نظر کی آزادی پر پہرے بٹھانا جن کا شعار ہوچکا تھا۔ پاکستان ایک اسلامـی طرز کی جمہوریت کے قیـام کے لئے بے تاب ہے۔ اور ایک ایسی جمہوریت کی نمائندگی کا دعویدار ہے۔ جس مـیں ہر فرد کو مساوات ہر خیـال کو آزادی اور ہر عقیدہ کو بے خطرہ ماحول مـیں پروان چڑھنے کا موقعہ حاصل رہے۔
لیکن لاہور سے لے کراچی تک کے حالیہ ہنگامے کیـا اس دعوے کی تکذیب نہیں کرتے۔ کیـا یہ ثابت نہیں کررہے ہیں۔ کہ ہنگامہ آرائی کے ماہرین اسلام سے دور اور بہت دور ہوچکے ہیں۔ اور ایسی حرکتیں ان سے سرزد ہورہی ہیں۔ جو خود اسلام کی روح کو مضطرب کئے بغیر نہیں رہ سکتیں احمدی ہو یـا مہدوی` شیعہ ہو یـا سنی حنفی ہو یـا حنبلی ہر ایک کو اس کی آزادی حاصل ہے۔ کہ وہ اپنے انداز مـیں سوچے اور اپنی پسند کو دوسروں کی پسند پر ترجیح دے۔ اگر کچھ لوگ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ ان کی صوابدید ہے۔ اور یہ ان کا اپنا اعتقاد ہے۔ پاکستان کے وہ علماء دین اور مفتیـان شرع متین جو احمدی و غیر احمدی کے عنوان پر قتل و غارت گری کو ہوا دے رہے ہیں۔
ہمـیں جواب دیں۔ کہ دوسروں کے عقائد مـیں مداخت کرنا۔ دوسروں کی صوابدید پر پہرے بٹھانا اور دوسروں کے انداز فکر کو متاثر کرنا کہاں کی مسلمانی ہے۔ یہ اسلام کاسا اول یہ ہے۔ اور یہ رسول کریم کی تعلیم کی تعمـیل مـیں ہورہا ہے۔
ہمـیں معلوم ہے نبی کریمﷺ~ نے دل آزاری کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔ اور دوسروں کے عقائد کی تضحیک سے شدت کے ساتھ روکا ہے اس انداز کریسی و نیک نفسی کے خلاف جانے والے غور کریں۔ کہ وہ خود کہاں تک سچے مسلمان اور نبی کریمﷺ~ کے حقیقی پرور اور شیدائی ہیں۔ اعتقاد کا معاملہ دنیـاوی نہیں` دینی اور صد فیصدی دینی معاملہ ہے۔ اور اس معاملہ مـیں حق و ناحق کا فیصلہ کرنے کی جسارت انسان نہیں کرسکتا۔ یہ صرف خدائے قدوس ہی کرے گا۔ اگر کوئی غلط راستے پر چل رہا ہے۔ اور غلط روی پر مصر ہے۔ تو وہ خدا کے حضور مـیں خود جواب دہ ہے۔ نبی کریمﷺ~ نے بھی کبھیی کے ساتھ سختی نہیں کی۔ اور نہ ہی اسلام کی طرف گم کردہ راہوں کو بلایـا ہے۔ اور جب خود بانی اسلام نے جبر و اکراہ سے کام نہیں لیـا۔ تو اسلام کے نام لیوائوں کو تشدد اور زبردستی کا پروانہ طرح دیـا جاسکتا ہے۔ ہمـیں حیرت تو اس بات پر ہے۔ کہ احمدی و غیر احمدی کے اس فتنہ کو ہوا دینے والوں مـیں ان علمائے دین کے نام بھی نظر آرہے ہیں۔ جو >اسلام کی حقیقی سپرٹ< پید کرنے کیلئے تحریکیں چلا رہے ہیں۔ جو >طاغوتی نظام معاشرت< کے خلاف جنگ کے بہت بڑے رہنما مانے جاتے ہیں۔ اور جو ہر چیز کو >اسلام< اور قران کی روشنی مـیں رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اور جو اپنے مخصوص گروہ کے ساتھ اس امر کی دھواں دھار کوشش کررہے ہیں۔ کہ پاکستان کا دستور اسلامـی دستور ہو۔ اور ڑان اور فرمودات محمدی کی روشنی مـیں اس کی ترتیب عمل مـیں آئے ہمـیں حیرت اس سے ہورہی ہے۔ کہ یہ سب ہنگامہ آرائی قطعی اسلامـی سپرٹ کے خلاف ہے اور فرمودات محمدی کا سایہ تک اس پر نہیں پڑ سکتا۔ ان حالات کی موجودگی مـیں کیـا ہمارا یہ خیـال ٹھیک نہیں ہے کہ یہ ساری فتنہ سامانی ہوس اقتدار کی آسودگی کے لئے ہورہی ہے۔ شخصی منافرت اور کشمکش برتری نے اس فتنہ کو اپنا سہارا بنا لیـا ہے۔؟
اس امر کے امکانات بھی موجود ہیں کہ پاکستان کے دسمن پاکستان سے اپنی استحصالی آرزئوں کو وابستہ رکھنے والوں نے چند ملائوں کو اپنا آلہ کار بناکر اور چند حکمرانوں کو مقامات بلند کے جھانسے دے کر پاکستان کے نظم و ضبط کو درہم برہم کرنے کے لئے یہ کھیل شروع کر رکھا ہے۔ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو پاکستان کے ہوش مند شہریوں` فرض شناس حکمرانوں اور خود آگاہ و مخلص رہنمائوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کی پرزور مذمت کریں اور اس غیر اسلامـی ہنگامہ آرائی کو سختی کے ساتھ کچلنے اور دبانے کی کوشش کریں اور اتاترک کی طرح ان ملائوں کو عبرتناک سزائیں دیں جو س شرفتن کے خالق ہیں اور اسلام کے نام پر اسلام کی روح کو مسخ کررہے ہیں۔~<ف۵~
۴۔ اخبار >رہبر< )کانپور( نے اپنی ۱۴ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت مـیں مندرجہ ذیل مقالہ شائع کیـا۔
>سیـاسی ہنگامہ برپا کررکھا ہے وہ سارے پاکستان کو اپنی لبیٹ مـیں لے چکا ہے لیکن جہاں تک اخباری اطلاعات کا تعلق ہے یہ آگ پنجابی حدود )مـیں( جس تیزی سے لگی ہوئی ہے وہی اور صوبے مـیں نہیں ہے۔ اس کی وجہ ایک تو صوبائی تعصب ہے۔ دوسری پنجابی مسلمانوں کی قدیم توہم پرستی ہے۔ پنجابی` پاکستان مرکزی سے کبھی مطمئن نہیں ہوا۔ اس کے بس مـیں ہوتا تو اس قسم کے ہنگامے اس سے بہت پہلے کرکے مرکزی حکومت مـیں انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔<
>ہنگامہ خواہ کم ہو یـا زیـادہ پاکستان مـیں جس طرح شروع ہوا ہے وہ افسوس ناک ہے۔ اور اس سے بڑھ کر رونے کی بات یہ ہے کہ احراریوں کے اس سیـاسی جال مـیں علماء کرام پھنس گئے ہیں اور جو مسئلہ آئینی جدوجہد سے حل ہوسکتا تھا اس کے لئے غیر آئینی راستہ اختیـار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ سمجھ مـیں نہیں آتا کہ احمدیوں کو قانون کی دفعہ کی رو سے اقلیت قرار دیئے جاتے اور جرم کی پاداش مـیں وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیـا جارہا ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ پاکستان اسلامـی )غیر احمدی( ریـاست ہے تو سب سے بڑی رکاوٹ تو یہی ہے کہ پاکستان کا دستور مملکت ہی نہیں ہے۔ جس کیی دفعہ سے اسلامـی مملکت کا ہونا ثابت ہو۔ سمجھداری کی بات یہ تھی کہ پہلے قانون بنانے پر زور دیـا جاتا اور اسلامـی شرعی قوانین نافذ کروائے جاتے اور نفاذ مـیں یہ سوال بھی اٹھتا تو غور کے قابل بنتا۔ علماء نے ایسا نہیں کیـا۔ اور سیـاسی مکر و فریب کے شکار ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج علماء سو کی افسوسناک سیـاست سے ملت اسلامـیہ تنک آچکی ہے۔ وہ س الحاد و بے دینی کے شاکی ہیں۔ جو مسلمانوں کے مغربی تعلیم یـافتہ مـیں عام ہوتی جارہی ہے۔ طلیکن وہ یہ بھولتے ہیں۔ کہ تعلیم یـافتہ مسلمانوں کو مذہب سے دور کرنے مـیں مغربی تعلیم کا اتنا ہاتھ نہیں ہے جتنا کہ ان اجارہ داران دین و ملت کا ہاتھ ہے۔ جو اپنے دنیـاوی اغراض کی تکمـیل کے لئے علماء کی مسند پر بیٹھ گئے ہیں۔ اگر آج کمـیونسٹ بے دین نظر آتا ہے تو اس مـیں مارکی مادہ پرستی کا اتنا ہاتھ نہیں ہے۔ جتنا کہ زارینہ کے اس سازشی اور غلط کار پادری کا ہاتھ ہے۔ جس نے مذہب کو حکومت کا کھلونا بنا دیـا تھا۔ ہمارے نمائشی مولویوں کی قدامت پسندی۔ کفر سازی۔ تنگ نظری اور شدید قسم کی متعصبانہ روش نے تعلیم یـافتہ طبقہ کو کٹھ ملائوں و علماء محتاطین ہی ے نہیں بلکہ ان مـیں مذہب کی جانب سے بھی بیزاری پیدا کردی ہے۔ پاکستان کے علماء بھی روائتی کٹھ ملائوں کی بدولت ایک غلط کردار پیش کررہے ہیں` اس طرح وہ احمدیوں کے مقابلہ مـیں خود اسلام کو نقصان پہنچانے کے باعث بن رہے ہیں تعلیم یـافتہ مسلمان جب اس قسم کی حرکتوں کو دیکھتے ہیں۔ اور مذہب کے نام پر علماء کرام کی تنگ نظرانہ روش کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ تو اس مـیں نفس مذہب کی جانب سے مایوسی پھیل جاتی ہے۔ اور کٹھ ملائوں کی سیـاسی چال کی بدولت علماء کرام کی عزت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ترکی مـیں علماء کی تنگ نظری نے جو نتائج پیدا کئے۔ وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ایران مـیں جو حشر ہوا۔ وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور شام و مصر مـیں جو حالات پیدا ہوئے۔ ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی علماء بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ جسے پاکستان کا تعلیم یـافتہ طبقہ زیـادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ ملک کی سالمـیت پر کوئی وار دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے کہ جب یہ طبقہ مـیدان مـیں آئے گا۔ تو علماء کرام کے ساتھ ہی اسلام کو بھی حشر سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جس کا ایک ادنیٰ مظاہرہ ہم ترکی مـیں دیکھ چکے ہیں۔ سیـاست مـیں تخریبی مقاصد کے لئے مذہب کا استدلال حدرجہ نقصان دہ ہوا کرتا ہے۔ پاکستان مـیں آج مذہب کو تخریبی سیـاست کا آلئہ کار بنایـا جارہا ہے۔ یہ چیز مذہب کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اور آج نہیں تو کل پاکستان کا تعلیم یـافتہ طبقہ مذہب کے خلاف صف آراء ہوجائے گا۔ جس کے نتیجہ مـیں کم از کم یہ تو ضرور ہوجائے گا۔ کہ پاکستان کو ایک اسلامـی اور مثالی اسٹیٹ بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ اسلامـی سٹیٹ کی جگہ دیسی ہی سیکولر حکومت وجود مـیں آجائے گی۔ جیسی کہ تنزل خلافت اسلامـی کے بعد ترکی مـیں وجود مـیں لائی گئی۔ اگر پاکستانی علماء اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان غیر مذہبی ریـاست بنادی جائے۔ اور وہ واقعی ایک مثالی مذہبی سٹیٹ کے قیـام کے خواہشمند ہیں تو ان کو اپنی موجودہ تنگ نظری ترک کرنا پڑے گی۔ مذہب کے نام پر فتنہ آرائی کا راستہ چھوڑنا پڑے گا۔ پیر پرستوں صوبائی متعصبین کو تختہ مشق نہیں بنایـا جائے گا۔~<ف۶~
۵۔ رسالہ >معارف< )اعظم گڑھ( نے لکھا:۔
مغربی پاکستان مـیں قادیـانیوں کی مخالفت جو شکل اختیـار کرگئی ہے وہ بھی مذہب` قانون اور اخلاقی حیثیت سے بھی صحیح نہیں ہے۔ قادیـانیوں کی شرعی حیثیت سے بحث نہیں مگر ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ اس وقت کیـا جاسکتا تھا جب پاکستان مـیں اسلامـی دستور نافذ ہو چکا ہوتا۔ مگر ابھی تک تو وہاں ۱۹۳۵ء~ف۷~ کا ایکٹ ہی چل رہا ہے جس کی نگاہ مـیں سب فرقے برابر ہیں اور اس کی رو سے اس قسم کا مطالبہ ہی کرنا صحیح نہیں۔ اور اگر اسلامـی دستور بھی نافذ ہوتا تو وہ بھی اس فتنہ و فساد کی اجازت نہیں دے سکتا تھا جو مذہب کے نام پر برپا کیـا گیـا۔ کوئی ایسی تحریک جس سے ملک کا امن و امان خطرہ مـیں پڑ جائے اور لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت اٹھ جائے مذہب کی خدمت نہیں بلکہ اس کو بدنام کرنا ہے۔ پنجاب مـیں اسلام کے نام پر جو جرائم کئے گئے ہیں ان کی اجازت اس کا کو سا قانون دیتا ہے اور اس سے اس کی کیـا خدمت ہوئی اور اس کے بعد فوج کے ہاتھوں جو زیـادتیـاں ہوئیں اس کی ذمہ داری بھی اس تحریک کے رہنمائوں کے سر ہے۔ اگر اسلام کی خدمت اسی طرح ہوتی رہی تو ملک ہی باقی نہ رہ جائے گا۔ اسلامـی قانون کہاں نافذ کیـا جائے گا حصول اقتدار کے لئے مذہب کو وسیلہ بنانا خود بڑا مذہبی جرم ہے۔ مذہب کے نام پر جو کچھ کیـا گیـا ہے اس کی اجازت تو لامذہبی بھی نہیں دے سکتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اسلام کے اصل محافظ و پاسبان علماء ہیں مگر ان کو اس زمانہ کے ارباب سیـاست سے ہوشیـار رہنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کا آلہ کار نہ بننے چاہئیں۔ پنجاب مـیں جو کچھ ہوا اس مـیں مذہب سے زیـادہ سیـاست کو دخل ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ ساری شورش مذہب کے نام پر کی گئی۔ جس کی ذمہ داری سے علماء بھی بری نہیں~ف۸~
۶۔ گجراتی ہفت روزہ >وطن< )بمبئی( کے ایڈیٹر مکرم جناب سیف صاحب پالمپوری نے ۱۰ مئی ۱۹۵۳ء کی اشاعت مـیں جماعت احمدیہ کے بارے مـیں بعض سوالات کے جواب مـیں لکھا:۔
>وطن< ہر کلمہ گو انسان کو مسلمان مانتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول~صل۱~ کا کلمہ پڑتا ہو۔ >وطن< کے خیـال مـیں وہ پکا مسلمان ہے خواہ وہ مسلمان قادیـانی ہو خواہ وہابی خواہ شیعہ اور خواہ سنی ہو۔ اس قسم کا سوال پوچھ کر فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کو ظاہر کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ >وطن< ان جھگڑوں کو نہیں مانتا۔ یہ کام تو ان لوگوں کا ہے جو اسلام کے دشمن ہیں فتنہ پرداز ہیں۔ >وطن< ایسی فتنہ پردازی )کے( سخت مخالف ہے اور اسے بہت بری نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستان مـیں قادیـانی مذہب والے بڑے عہدوں پر ہیں۔ اس کے متعلق وطن کے پاس کوئی جواب نہیں۔ کیونکہ >وطن< ایسی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی کو مانتا ہی نہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ پاکستان مـیں قادیـانی مذہب کا زور شور سے پرچار ہورہا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ قادیـانی مذہب کا تو پرچار نہیں ہورہا مگر قادیـانیوں کے خلاف کچھ عرصہ پہلے کافی پرچار رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان مـیں بار بار طوفان اٹھا۔ ملائوں نے اپنا نام تو اونچا کیـا مگر اسلام کو شرمندی کیـا۔ اب اگر ملا ذرا بھی شرم و حیـا رکھتا ہے تو اس کے بعد وہ اب کبھی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی مـیں دلچسپی نہ لے۔ پاکستان مـیں فرقہ بندی سے زیـادہ >ملاں بندی< ہو گئی ہے۔ ایک ہے > بندی< جو صرف ایک انسان یـا ایک خاندان کو خراب کرتی ہے مگر >ملاں بندی< اور ان کی فتنہ پردازی تو ساری قوم کو غرق کررہی ہے۔ اور اب ساری قوم اور سارے ملک کو تباہ و برباد کرسکتی ہے۔~<ف۹~
۷۔ روزنامہ >حلال نو< نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء مـیں >قادیـانی اور پاکستان< کے عنوان سے درج ذیل اداریہ سپرد اشاعت کیـا:۔
>پاکستان مـیں جو واقعات رونما ہورہے ہیں۔ ان کا کوئی براہ راست تعلق اسلامـی تعلیمات سے نہیں ہے۔ اسلام ان بھیـانک جرائم سے بری ہے اور اللہ اور اس کے رسول ان حرکات کے مخالف ہیں قادیـانیوں کے عقائد اگر گمراہی پر مبنی ہیں۔ اور اگر وہ اسلام کے پردہ مـیں کفر پھیلا رہے ہیں تو مسلمانوں کے لئے تبلیغ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ قادیـانیوں کے ایک ایک جلسہ کے مقابلہ مـیں دس دس جلسے کرسکتے ہیں۔ ایک ایک قادیـانی رسالہ کے مقابلہ مـیں دس دس رسائل شائع کرسکتے ہیں۔ اور ان کو ایک تفسیر کے مقابلہ مـیں دس دس تفسیریں کھ سکتے ہیں۔ اسلام نے اصلاح کے لئے تبلیغ کا طریق کار مقرر کیـا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا کہ جو تمہارے نقطئہ نظر سے اتفاق نہ کریں ان کے گھر جلائو ان کو پکڑ پکڑ کے ذبح کر ڈالو اور ان کی عورتوں پر بھی دست درازی شروع کر دو۔ رسول اللہ~صل۱~ اور ان کے خفاء راشدین جب فوجوں کو دفاعی جہاد کے لئے بھیجتے تھے تو یہ نصیحت ضرور کرتے تھے۔ کہ عورتوں` بچوں اور بوڑھوں پر دست درازی نہ کرنا۔۔۔۔۔ اس امر کا ہر امکان موجود ہے۔ کہ قادیـانیوں سے نپٹ کر بوہروں اور اسمٰعیلی فوجوں پر مذہب کے نام سے ہاتھ صاف کیـا جائے گا۔ پھر اہل حدیث پر نزلہ گرے گا۔ پھر شیعوں پر مصیبت آئے گی۔ اور پھر بریلوی ایک دوسرے کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے >جہاد< فرمائیں گے۔ اور اس کے بعد ان کا نمبر آئے گا۔ جو تقدیر کے قائل نہیں۔ یـا جو اللہ کے عرش پر ہونے کے خاص معنی لیتے ہیں۔ پھر زمـین کو گول کہنے والوں کی گردن ماری جائے گی۔ غرض کہ یہ مار کاٹ کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ پاکستان کے طول و عر مـیں صرف شیطان باقی رہ جائے گا جو انا ولا غیر کا نعرہ لگائے گا۔ خود مولوی آپس مـیں کٹ مریں گے۔ اور ہر ایک مرتے وقت یہ ہی تصور کرتا جائے گا۔ کہ بس ادھر روح نے جسم خاکی سے پرواز کی اور ادھر باغ جنت کے دروازہ پر رضوان نے استقبال کیـا۔ پھر کیـا ہے ہزاروں حسین و جمـیل حوریں ہوگی۔ اور عیش و عشرت کی وہ رنگ رلیـاں جن کا ایک حقیر نمونہ واجد علی شاہ کی زندگی مـیں پایـا جاتا تھا۔
خوب سمجھ لو کہ پاکستان مـیں جو کچھ ہورہا ہے۔ یہ مولویـانہ ذہن کا کرشمہ ہے۔ اور دوسرے ملوں مـیں بھی اسلام کے چہرہ پر یہ مولوی ہی کی کوتسار مل رہے ہیں۔ آج ساری دنیـا مـیں غیر مسلم ان واقعات سے ایک ہی نتیجہ نکال رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ اسلام اور تعصب مترادف ہیں۔ اور یہ کہ قرآن و قتل کے درمـیان ایسا گہرا رشتہ ہے کہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب اسلام کے روحانی لیڈروں کا یہ حال۔ تو بابو رائو پٹیل یـا دوسرے ایسے مخالوں کی شکایت کیوں کیجئے< ~}~
آپ کہتے ہیں کہ غیروں نے کیـا تم کو تباہ
بندہ پر درون کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو~ف۱۰~
)از علی بہادر خاں(
مصری پریس
مصر کے مشہور صحافے جناب عبد القادر حمزہ نے >پاکستان مـیں مذہب< کے عنوان سے اخبار البلاغ مـیں ایک خصوص مقالہ سپرد اشاعت کیـا جس کا خلاصہ اخبار مدینہ بجنور )۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء( مـیں حسب ذیل الفاظ مـیں شائع ہوا:۔
>قاہرہ ۲۳ مارچ اخبار البلاغ کے پروپرائٹر عبدالقادر حمزہ پچھلے دنوں مصری اخبار نویسوں کے وفد کے رکن کی حیثیت سے پاکستان گئے تھے۔ آپ نے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر ایک مضمون شائع کیـا ہے جس مـیں واضح کیـا گیـا ہے کہ پاکستان مـیں مذہب کے نام پر ناجائز فائدہ اٹھایـا جارہا ہے علماء اور دوسرے لوگ عوام کے کورانہ عقائد سے بے جا استفادہ کررہے ہیں۔
آج کل پاکستان اسی *** مـیں مبتلا ہے جس مـیں مصر مبتلا رہ چکا ہے۔ یعنی کچھ لوگ )علماء( سیـاسی اثر بڑھانے کے لئے مذہب سے بیجا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور ایسے معاملات )سیـاسیـات( مـیں دخل دینے کی کوشش کررہے ہیں جو ان سے تعلق نہیں رکھتے۔ محض اس دعویٰ کی بناء پر کہ ہم علماء ہیں دوسرے لوگ بھی عوام کے مذہب احساسات سے بیجا فائدہ اٹھاے کی کوشش مـیں مصروف ہیں ان لوگوں پر دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی نسبت مذہب کا اثر زیـادہ غالب ہے انہوں نے کہا کہ پاکستانی مسلمان قران پڑھتا ہے۔ اور وہ اس کی بعض سورتوں کو از بر کر لیتا ہے۔ لیکن وہ نہ قران کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہے اور نہ اسلام کے متعلقی دوسری کتاب کو۔ نہ عربی زبان جانتا ہے اس لئے خواندہ ہونے کے باوجود ناخواندہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا صحیح )ہے( کہ عام پاکستانی محض مذہبی طور پر مسلمان ہیں اور ان سے مذہب کے نام پر یـا اس کے متعلق جو کچھ کہہ دیـا جاتا ہے اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے دورہ مـیں جو فرقہ وارانہ گڑ بڑ دیکھی اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ مسلمان اسلام کی صحیح سپرٹ سے ناشنا ہیں۔ مـیرا مقصد نہ احمدیوں کی صفائی پیش کرنا ہے اور نہ ان کے مخالفوں پر نکتہ چینی کرنا۔ اگر ایسی صورت مـیں کہ اختلافی بحث` بلوے اور آتش زنی کی شکل اختیـار کرلے اور بے گناہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایـا جانے لگے تو افسوس ہوتا ہے۔ اگر پاکستانی مسلمان زیـادہ ہوجائیں اور تعلیم یـافتہ افراد کی تعداد بڑھ جائے تو ایسے قابل اعتراض اعمال کا رونما ہونا ناممکن ہوجائے گا۔ ضرورت ہے کہ جہاں جدید علوم و فنون حاصل کئے جائے وہاں قران کے معانی و مفہوم سے قریب تر ہونے کی کوشش کی جائے۔~<ف۱۱~
امریکی پریس
امریکہ کے اخبار Dealer" Plain ۔ "Celveland نے اپنی ۷ مارچ ۱۹۵۳ء کی اشاعت مـیں ڈبلیو۔ جی~ف۱۲~ ڈلڈائن Dildine)۔G۔(W کا حسب ذیل نوٹ دیـا:۔
۔1953 17, March Tuesday, Dealer, Plain Cleveland
۔Pakistan in Agitation Religious Spur Reds
‏ Dildin ۔G ۔W By
‏ Pakistan, in rioting bloody weeks's two las The ۔16 March ۔Karachi communists that level bighest appers religion, of enam the in all bigoted and reactionary most the of direction tactical assuming are ۔groups religious
‏ Western progressive the to distress acute causing is trend This it since destinies nation's this guarded have who Muslims minded ۔1957 in India from partition by created was
‏ Communism against bulwark a considered long Pakistan, in Today administration, progressive and population pious its of because to beginning is action and penetration Communist of pattern the Iran in developed tath to resemblance ominous and striking bear ۔years three past the during (Persia)
‏ organisations student of use made have Reds the Countries both In create to been has aim the both in And ۔groups religious fanatic and especially and sections geographical between disunity and distrust ۔leaders government among
‏ its has Kashani, Ahatullah by led Islam, ۔e۔Fidayan murderous Iran's the and group ("true") Ahrar the are They ۔counterparts Pakistan ۔organtsation Islamic means simply which ,imIsla۔i۔Jamaat
‏tav.14.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۴
‏RIOTS STARTS AHRAR
‏ has which action mob the off touched has which Ahrar the is It Pakistan in law Martial of imposition first, the about brought Lahore, in only applied been far thus has laow Martial ۔history of province pobulous most Punjab, growing wheat, the of capital killings, mob of seires a following imposed was It ۔Pakistan West of disruption and arson shops, and offices post of looting ۔communications
‏ separated was Pakistan ۔priests Moslem ۔mullahs by led is Ahrar inhahabitants its of faith Moslem the of basis the on India from vioce greater a sought long have mullahs the and immigrants, and western the resented have They ۔government of direction in the of leaders government of liberalism religious and orientataion ۔party League Moslem dominant
‏ the upon seized ehav they government, the beat to stick a As called also, Ahmadis, The ۔countroversy Ahmedi standing long because Moslems orthodox by heretics considered are Qadianis, ۔prophet true a as years, 40 dead founder, their proclaim they ۔prophets the of last the was Muhammad believe Moslems Orthodox
‏ non- a be to Qadianis the declare government the the demands Ahrar They ۔lists electoral separate upon them placing minority, Moslem foreign khan, Zafrullah Sir of government from removal demand also
‏ Ahrar ۔area world the in spokesman chief Pakistan's and minister of infiltration Qadiani sponsored has Zafrullah that charges۔posts government
‏ few a but numbering Pakistan, in group small a are Qadianis The are they minorities, religious other like But, ۔thousand hundred newspapers, owning wealthy, and business in successful knit, closlely fortunate, less the among provoked thus jealousy To ۔business and lands the of resentment added is stress, economic of times in especially actively an are sects, Moslem among alone almost Qadianis theat fact propagate to means possible every using group, missionary proselyting missionaries Qadiani converts, for search their In ۔faith their of cities large most including world, the of part every to gone have ۔States United the
‏ large inflame to used bed can which issue an is agitation Qadiani The some peaceful, some demonstrations, and population, the of masses cities large the all in days, few last the in occurred have bloody, ۔natsiPak East in Qadianis few are There ۔Pakistan West of
‏ Ahrar the of interpretations varying wildly of full is capital This is America that contention socialist the being the of one busines, ground the on Zafrullah Sir against campaign the backing secretly۔influence British of carrier supposed a is minister foregn the
‏ most have communtsts the that agreed is however, here, opinion Most smearing from also and Zafrullah of removal the from gain to with group progressive pushing, a is sect eth ۔Qadianis the between drawn is paralled strong a and connections international۔Russia in jews the of crackdown and here Qadianis of persecution
‏ who member staff dealer plain former a is aricle this of Author back now is He ۔1951 and 1950 in Asia from paper this for wrote other and Week News for coresspondent special as area that in۔publications
‏head1] tagکلیو لینڈ پلین ڈیلر ۱۷ مارچ ۱۹۵۳ء
کمـیونسٹ پاکستان مـیں مذہبی ایجی ٹیشن کو ہوا دے رہے ہیں
)ڈبلیو۔ جی۔ ڈلڈائن(
کراچی ۱۶ مارچ- گزشتہ دو ہفتوں کی خونریز ہنگامہ انگیزی جو پاکستان مںی سراسر مذہب کے نام پر کی گئی` وہ اعلیٰ ترین سطح کے سرکاری افسران کی اس رائے کی تصدیق معلوم ہوتی ہے کہ کمـیونسٹ ہمارے ملک کے مذہبی گروہوں کے نہایت متعصب اور رجعت پسند عناصر کی شاطرانہ رہنمائی کررہے ہیں اور یہ رخ ان مغرب زدہ ترقی پسند مسلم لیڈروں کو بہت پریشان کررہا ہے جنہوں نے کہ اس ملک کی قسمتوں کی قیـادت اس دن سے کی ہے جب سے یہ انڈیـا سے بذریعہ تقسیم الگ ہوا تھا۔ آج کل پاکستان مںی جس کو لمبے عرصہ سے اس کی عبادت گزار آبادی اور ترقی پسند حکومت کی وجہ سے کمـیونزم کے خلاف ایک قلعہ سمجھا گیـا تھا کمـیونسٹ دخل اندازی اور کمـیونسٹ اثر پذیری` اس صورت حال سے ایک نفرت انگیز اور نمایـاں مماثلت اختیـار کرتی جارہی ہے جو ایران مـیں گزشتہ تین سالوں مںی انہوں نے پیدا کی تھی۔
دونوں ممالک مـیں کمـیونسٹوں نے طلباء کی تنظیموں اور بعض دیوانے مذہبی گرہوں کو استعمال کیـا۔ دونوں ملکوں مںی ان کا مقصد یہ رہا ہے کہ بے اعتمادی پیدا کریں اور جغرافیـائی گروہوں خصوصاً گورنمنٹ کے لیڈروں کے درمـیان ناچاقی پیدا کریں-
ایران کے قاتلانہ فدایـان اسلام جن کے لیڈر آیت اللہ کا شافی ہیں پاکستان مںی اپنے مماثل عناصر رکھتے ہیں وہ گروہ احرر ۰سچے( اور جماعت اسلامـی ہیں )جس کا مطلب سادہ طور پر اسلامـی تنظیم ہے(
احرار فسادات کو شروع کرتے ہیں
یہ احرار ہی تو ہیں جنہوں نے عوامـی تحریک چلائی جس کے نتیجہ مـیں تاریخ پاکستان کا پہلا مارشل لاء نافذ ہوا۔ مگر تاحال یہ مارشال لاء صرف لاہور مںی جاری ہوا ہے جو گندم اگانے والے پنجاب کا دار السطنت اور مغربی پاکستان کا سب سے زیـادہ گنجان آباد صوبہ ہے۔ یہ مارشل لاء عام سلسلئہ قتل و غارت` لوٹ مار` ڈاک خانوں اور دکانوں کی لوٹ کھسوٹ آتش زنی اور مواصلات کے درہم برہم ہونے پر لگایـا گیـا۔ احرار کے لیڈر ملا یعنی دینی پیشوا ہیں۔ پاکستان کو انڈیـا سے اس لئے الگ کیـا گیـا کہ اس کے باشندے اور مہاجرین ایک جداگانہ مذہب یعنی اسلام کے پیروکار تھے۔ اور ملا لوگ لمبے عرصہ سے گورنمنٹ کی انتظامہ مـیں دخیل ہونے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے غالب مسلم لیگ کی گورنمنٹ کے لیڈورں کی مغرب نواز طرز حکومت اور مذہبی رواداری کی ہمـیشہ سے مخالفت کی ہے جو ہر دلعزیز مسلم لیگ پارٹی کے لیڈروں نے شروع سے اپنائی ہے گورنمنٹ کو شکست دینے کے لئے بطور ایک چھڑی کے انہوں نے لمبے عرصہ سے قائم چلے آتے مسئلہ احمدی نزاع کا کھڑا کر لیـا ہے۔ احمدی جن کو قادیـانی بھی کہا جاتا ہے ان کو قدامت پسند مسلمانوں کے منہ سے مرتد کا نام دیـا جاتا ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا بانی جس کو فوت ہوئے ۴۰ برس بیت چکے ہیں >ایک سچا نبی ہے<۔ قدامت پسند مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت محمد~صل۱~ آخری نبی تھے احرار کا مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ قادیـانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دے۔ اور ¶ان کو جداگانہ انتخابی فہرست پر ڈال دے ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خان جو کہ وزیر خارجہ پاکستان اور اس ملک کے سب سے بڑے نمائندہ یـا وکیل دنیـا کے اکھاڑہ مـیں ہیں احرار نے الزام لگایـا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ نے قادیـانیوں کو سرکاری ملازمتیں دلانے کی سرپرستی کی ہے۔
قادیـانی پاکستان مںی ایک مختصر گروہ ہیں جن کی تعدد چند لاکھ ہوگی مگر دوسری مذہبی اقلیتوں کی طرح وہ باہم گہرے طور پر متحد ہیں۔ وہ کاروبار مـیں کامـیاب اور متمول ہیں۔ اخباروں` زمـینوں اور تجارت کے مالک ہیں۔ اس لئے کم خوش قسمت لوگوں کے اند ان کی رقابت پیدا ہوئی خصوصاً آج کل جبکہ معاشی دبائو کا سامنا ہے پھر اس امر کا مزید غصبہ بھی ہے کہ قادیـانی صرف اکیلے ہی تمام مسلمانوں کے فرقوں مںی سے ایک مستعد تبلیغی گروپ اور دوسروں کا مذہب تبدیل کروانے کا شغف رکھتے ہیں اور یہ لوگ ہر ممکن ذریعہ سے اپنے مذہ کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ نیـا مذہب تبدیل کرنے والوں کی تلاش مـیں قادیـانی مبلغ بشمول امریکہ کے بڑے بڑے شہروں کے دنیـا کے ہر حصہ مںی پہنچے ہوئے ہیں۔ قادیـانی ایجی ٹیشن ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو استعمال کرکے پاکستانی آبادی کے ایک کثیر حصے کو بھڑکایـا جاسکتا ہے اور گزشتہ چد ایـام مـیں مظاہرے )کچھ بامن اور کچھ خونریز( مغربی پاکستان کے تمام شہروں مـیں ہوئے ہیں۔ مگر مشرقی پاکستان مـیں بہت کم احمدی ہیں۔ )لاہور کا( دارالحکومت احراری مشغلہ کی درجہ بدرجہ مختلف کی جانے والی توجیہات سے پر ہے جن مںی سے ایک نہایت ہی پراسرار توجہیہ وہ سوشلسٹ دعویٰ ہے جو امریکہ اس بناء پر کہ سر محمد ظفر اللہ خان خفیہ طور برطانوی اثر ور رسوخ کے حامل شخص ہیں پوشیدہ طور پر ان کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ تاہم اکثر آراء اس بات پر متفق ہیں۔ کہ کمـیونسٹوں کو )چوہدری( ظفر اللہ کے ہٹانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی قادیـانیوں کو داغدار کرنے سے ان کو کچھ فائدہ ہوگا۔
یہ فرقہ جدوجہد کرنے والا۔ ترقی پسند گروہ ہے۔ جو بین الاقوامـی تعلقات رکھتا ہے۔ اور قادیـانیوں کی اس ملک مںی ایذاء دی اور روس مںی یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے درمـیان قومـی مشابہت بتائی جاتی ہے۔
عالم لٹریچر مںی احمدیت کا ذکر
۱۹۵۳ء مںی جماعت احمدیہ کو اس درجہ نمایـاں حیثیت حاصل ہوگئی کہ مشرقی و مغربی دنیـا کے مفکرین مورخین اور اہل قلم شخصیتوں نے اس دور کے حوالہ سے تحریک احمدیت کا خصوصی ذکر کیـا اور یہ ایک ایسی غیر معمولی بات تھی کہ اگر احمدی لاکھوں روپے بھی خرچ کرتے تو حاصل نہ ہوسکتی۔ اس ضمن مـیں چند تحریرات کا ذکر کافی ہوگا۔
۱۔ بھارت کے ممتاز کشمـیری مئورخ جناب پریم ناتھ براز نے اپنی کتاب )کشمـیر مںی جدوجہد آزادی( Kashmir" in freedom for "Struggle
مـیں احراری تحریک کا ذکر بایں الفاظ کیـا۔
‏ the published was Committee Principles Basic the of report the When jubilant felt Pakistan of Muslims bigoted other and neddir-noigreli politics of crest on reaction installed having in success their at the of non-Muslims deprived having for also and country their in ۔State the in office highest the to elected get to right fundamental campaign a started mullahs by headed ractionaries the emboldened Thus therefore and non-Muslim as declared be also should Ahmadis the that ۔mullahs orthodox the of demand old an is that ۔Pakistan in minority a this deserve to committed have Ahmadis the that sin the is What Quran, the in htfai have and Muslims themselves call The �punishmen its has age every that hold they Only ۔prophet the and Sunnah the last the was Mohammad that tenet the in believe not do and prophets what say to me for not is It ۔mankind for deputed had God that prophet two no be can there But ۔belief this about wrong is what and right is what in belive to right the has one every state democratic a in that and mullahs triumphant the for But ۔proper and true thinks opinionshe the In ۔trouble up kick to hguoen was it followers violent their and momentum agained agitation anti-Ahmadia an 1953 of beginning ۔weeks within proportions gigantie assumed
‏ Principles Basie the framing while Mullahism before yielded Having Governmnet Din Nazimud- the for difficult became it Reort Committees's and vicious dangerous, this suppress, less much discountenance, to leaders League responsible some Indeed, ۔agitation anti-democratic the supporting vhhemently by fanaticism of flames the fanned only not did who one any and Prophet> last the is <Mohammed that principle one even Not ۔Muslim a be to claim not could view this to subscribe that publicly announce to courage the had party ruling the of member disagree to Muslim, a including everyone, of right birth the was it were "Politicians ۔Muslims the in sacred however belief any withe in Police of Inspector-General ۔Ali Anwar stated fire", with playing religious arousing "by Inquiry, of Court the before Punjab West including parties, political All ,noPopulati fanatical a of feelings the of out capital political make to tried League, Mulsim the (Public) the that say to strength the had politician No ۔situation placed all they hand other the on unreasonable; were demands this in Politicians ۔wave agitatinal an of crest the on themelves that wonder no is It "۔low too weapon any consider not do country carnage, What ۔form ciolent and virulent most a took agitation the of name the in wrought was destruction what and holocaussts, what and krad those during Punjab the in especially Pakistan west in Islam rendered were Ahmadis of Hundreds ۔April and March of days terrible Muslim small this for terror of reign a was There ۔homeless Punjab the in elsewhere and Lahore in happened "What ۔Community Ghulam confessed shame", in down heads our hang us make should ۔Pakistan of General governor ۔Mohammaed
‏ the with deal to failed administration civil the when Ultimately the over hand to obliged was Government Nazim-ud-Din disturbances ۔ycnormal restore to it on law martial impose and army the to area
‏ Communal Hindu other and Mahasabha Sangh, Jan of followers the as Just the for constituion secular a of adoption by that thing parties ۔India in Muslims the on conferred been has boon great a country becoming by that Pakistan in belief spread wide a is there Similarly putting be would Muslims Pakistani outlook their in non-communal an is Thet ۔obligation great under compatriots Hindu their of interests the in primarily is msiSecular ۔attitude unwarranted ۔most the it from benefits community majorty the and people all The ۔times modern in flourich cannot democracy secularism Without all of first minorties religious the harm might secularism of absence diffirent other, the after one before, long take not will it but bigotry and fanaticism to prey fall also majority the of sections a as lesson that laerned now have Pakistanis Many ۔country the in Government Pakistan the had ۔experience bitter recent of result idamhanti-A the before yielding of mistake fatal the committed sections other of exclusion demanded have would fanatics agitation counted be would fanatics but non last at till Islam, of fold the from ۔annihilation and ruin to path sure the be would That ۔Muslims as of idea the as long So ۔yet vanished wholly not has danger The possibility the abandoned totally not is State religiouds a building of lovers for is It ۔remain will head evil its raising fanaticism of ۔it about warned fully be to ycarcodem
‏ are Consitution Pakistan the of principles basic the as far so This �sphere other in progress any made country the Has ۔concerned
‏Kashmir, in Freedom for Struggle
602-604, ۔pp Bazaz Nath Prem by
۔1954 Delhi, Company, Publishing Kashmir
جب بنیـادی حقوق کی کمـیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی تو پاکستان کے مذہب پرست اور دوسرے متعصب مسلمان اس امر پر بڑے خوش تھے کہ انہیں اپنے ملک کی سیـاسیـات کے سر پر درخت پسندی ٹھونسنے مـیں بری کامـیابی ہوئی ہے اور اس امر پر بھی کہ انہوں نے اس طرح غیر مسلموں کو ان کے اس بنیـادی حق سے کہ وہ ریـاست کے اعلیٰ ترین عہدے کے لئے منتخب ہوسکتے ہیں محروم کردیـا ہے۔ اس طرح جر¶ات پاکر ان رجعت پسندوں نے جن کی راہنمائی ملائوں کے ہاتھ مںی تھی ایک یہ تحریک چلائی کہ احمدیوں کو بھی غیر مسلم قرار دے دیـا جائے تاکہ وہ پاکستان کی ایک اقلیت قرار پائیں یہ تحریک چلائی کہ احمدیوں کو بھی غیر مسلم قرار دے دیـا جائے تاکہ وہ پاکستان کی ایک اقلیت قرار پائیں یہ تلقید پسند ملائوں کا ایک پرانا مطالبہ ہے۔ احمدیوں نے بھلاسا قصور کیـا ہے کہ انہیں اس سزا کا مستوجب قرار دیـا جائے؟ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں` قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں` سنت اور رسول )کریم~صل۱(~ پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا صرف یہ اعتقاد ہے کہ ہر زمانہ مںی نبی ہوسکتا ہے اور وہ اس خیـال کو رد کرتے ہیں کہ محمد ~)صل۱(~ آخری نبی ہیں جو خدا تعالیٰ نے بندوں کی راہنمائی کے لئے مبعوث کئے۔ یہ مـیرا کام نہیں ہے کہ مـیں اس امر پر بحث کروں کہ یہ اعتقاد حد تک درست یـا غلط ہے لیکن اس بارے مںی دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ ایک جمہوری ریـاست مںی ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو حق اور درست سمجھتا ہے
اس پر اعتقاد رکھے۔ لیکن کامـیابی کے نشہ مںی مخمور ملائوں اور ان کے تشدد پسند ساتھیوں کے لئے یہ بات فتنہ پیدا کرنے کے لئے کافی تھی۔ ۱۹۵۳ء کے آغاز مںی احمدیوں کے خلاف جو ایجی ٹیشن شروع کی گئی اس نے زور پکڑنا شروع کردیـا اور چند ہفتوں مںی ہی وہ بڑی بھیـانک صورت اختیـار کر گئی۔
بنیـادی حقوق کی کمـیٹی کی رپورٹ مرتب کرتے وقت چونکہ ملائوں کے اثر کو قبول کر لیـا گیـا تھا اس لئے ناظم الدین کی حکومت کے لئے اس خطرناک نفرت انگیز اور خلاف جمہوری ایجی ٹیشن کو دبانا تو الگ رہا اس کی مذمت کرنا بھی مشکل ہوگیـا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض ذمہ دار لیگی لیڈروں نے تعصب کی اس آگ کو اس اصول کی بشدت تائید کرکے ہوا دی کہ محمد ~)صل۱(~ آخری نبی ہیں اور کوئی شخص جو اس نظر کی تائید نہیں کرتا وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ حکمران پارٹی کےی ایک ممبر کو بھی یہ جر¶ات نہ ہوئی کہ وہ کھلم کھلا یہ اعلان کرے کہ بشمول ایک مسلمان کے ہر شخص کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہی بھی اعتقاد سے اختلاف کرے خواہ وہ مسلمانوں کی نگاہ مںی قدر ہی مقدس کیوں نہ ہو۔ تحقیقاتی عدالت کے سامنے مسٹر انور علی انسپکٹر جنرل پولیس مغربی پاکستان نے یہ بیـان دیـا کہ >سیـاستدان آگ کا کھیل کھل رہے تھے جبکہ وہ متعصب عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کررہے تھے۔ تمام سیـاسی پارٹیوں نے اور ان مںی مسلم لیگ بھی شامل ہے اس امر کی کوشش کی اس صورت حال سے سیـاسی رنگ مـیں فائدہ اٹھائیںی سیـاستدان مںی یہ جر¶ات نہ تھی کہ وہ کہتا کہ عوامـی مطالبات غیر معقول ہیں۔ اس کے برعسب نے اپنے آپ کو اس ہیجان خیز تحریک کی چوٹی پر بطور رہنما کے رکھنا پسند کیـا۔ اس ملک کے سیـاستدانی بھی حربہ کے استعمال کو )ناجائز( ناپسندیدہ نہیں سمجھتے۔< بناء برین یہ امر قابل استعجاب نہیں کہ اس تحریک نے بڑی ہلاکت آفرین اور شدید شکل اختیـار کرلی۔ مارچ اپریل کے ان تاریک اور ہولناک ایـام مـیں مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب مںی اسلام کے نام پر بے حساب کشت و خون آگ سے اتلاف جان ہوا تباہی اور بربادی روا رکھی گئی۔ سینکڑوں احمدیوں کو لوٹا گیـا۔ ان کے درجنوں دیہات کو نذر آتش کا گیـا` مردوں اور عورتوں کو زندہ جلایـا گیـا اور ہزاروں کو بے خانماں کردیـا گیـا۔ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کے لئے خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی گئی۔ )مسٹر( غلام محمد گورنر جنرل پاکستان کو یہ تسلیم کرنا پرا کہ >جو کچھ لاہور مـیں اور پنجاب کے دوسرے مقامات پر ہوا وہ ہمارے سروں کو ندامت سے جھکا دینے کے لئے کافی ہے< بال¶اخر جب سوال انتظامـیہ ان فسادات کو دبانے مـیں ناکام ہوگئی تو ناظم الدین حکومت اس امر پر مجبور ہوگئی کہ اس علاقہ کا نظم و نسق فوج کے حوالے کردے اور اس مںی مارشل لاء لگا دیـا جائے تاکہ حالات معمول پر آسکیں-
جس طرح جن سنگھ` مہاسبھا کے پیروکار اور دوسری ہندو فرقہ وارانہ پارٹیـاں یہ سمجھتی ہیں کہ ملک کے لئے لا دینی طرز حکومت اختیـار کرلینے سے ہندوستان کے مسلمانوں پر ایک بہت بڑا احسان کیـا گیـا ہے اسی طرح پاکستان مںی بھی وسیع طور پر یہ خیـال پایـا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے مسلمانوں اپنے نقطئہ نظر مـیں غیر فرقہ وارانہ ہوجائیں تو وہ اپنے ہندو ہموطنوں پر بڑا احسان کریں گے یہ نقطئہ نظر قطعی عام طور پر غلط ہے۔ لادینی نظام بنیـادی طور پر سب لوگوں کے لئے یکساں مفید ہے اور اکثریتی فرقہ کو اس سے سب سے زیـادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ موجود دور مںی جمہوریت` لادینیت کے بغیر پنپ نہیں سکتی ملک مـیں لادینیت کی غیر موجودگی سے بے شک ابتداء مںی مذہبی اقلیتوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لیکن بہت جلد اکثیرتی طبقہ کے مختلف فرقے بھی یکے بعد دیگرے تعصب اور مذہبی جنون کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں نے بھی تازہ تلخ تجربہ کے بعد یہ سبق اب سیکھ لیـا ہے۔ اگر حکومت پاکستان احمدیوں کے خلاف چلائی گئی تحریک کے سامنے جھک جانے کی خطرناک غلطی کربیٹھی تو مذہبی مجنونوں نے مطالبہ کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کو بھی اسلام کے دائرہ سے خارج کیـا جائے۔ یہاں تک کہ صرف ایسے جنونی ہی مسلمان سمجھے جاتے اور باقی سب خارج ہوجاتے۔ یہ تباہی اور بربادی کا یقینی راستہ ہوتا۔ یہ خطرہ ابھی تک پوری طرح ٹلا نہیں ہے۔ جب تک کہ مذہبی ریـاست قائم کرنے کا تصور مکمل طور پر ترک نہ کردیـا جائے گا۔ اس وقت تک تعصب کو اپنا پر فتن سر اٹھانے کا امکان باقی رہے گا۔ یہ سب آئین پاکستان کے بنیـادی حقوق کے بارے مـیں اظہار خیـال کیـا گیـا ہے لیکن کیـا اس ملک نے دوسرے شعبوں مںی بھی کوئی ترقی کی ہے؟
۲۔ مسٹر ڈائلڈ و لبر Wilber) (Donald نے اپنی کتاب پاکستان (Pakistan) مںی جماعت احمدیہ کی نسبت لکھا:۔
‏ towards hositilty the however, Qadianis, the of case the in Even closely and strong a has It ۔aspects not did Movement Ahmadiyya the members its msaisuhten corporate high With ۔organisation knit strictly They ۔community the of service the to themselves devote that morality ascetic an have polygamy; encourage pudah, enforce their from alms collect indulgence; worldly all of disapproces for jobs find rate; literach high very have poor; their for rich and schools, courts, mosques, own their run and members; their 1947 In ۔taxes heavy impose they which for institutions, welfare which area the to native group Moslem educated best the were they llfi to upon drawn were they result, a As ۔Pakistan West became the of departments other and ministry foreign the in posts many ۔government new
‏ government members their all find Ahmadiyya that belief widespread The only care and students, university their all to scholarships give jobs, strong the Yet ۔exaggeration an certainly is Ahmadiyyas other about it and aloofness external involve did group the of chohesion internal antagonism the about brought that exclusiveness social this was that Hindu-Muslim of hight the of rest the and themselves between to in it fan could Ahrars, the group, semipolitical a 1946 after mentioned differences doctrinal the on attention focusing by violence ۔above
۔Haven New press HRAF Wilber, ۔N Donald by 96-97 ۔p "Pakistan"
>بہرحال قادیـانیوں کے معاملے مںی بھی دیکھا گیـا ہے کہ احمدیہ تحریک سے جو عداوت پائی جاتی ہے وہ بنیـادی طور پر اس کے دینی عقائد کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کے بعض معاشرتی پہلوئوں کی وجہ سے تھی- احمدیہ تنظیم بڑی مضبوط اور مربوط ہے اس کے ممبران اس بلند مقصد کی خاطر پورے جوش سے اپنی جماعت کے لئے وقف ہیں۔ وہ سختی سے پردہ کے پابند ہیں۔ کثرت ازدواج کے حامـی ہیں زاہدانہ اخلاقیـات کے حامل ہیں اور دنیوی آسائشوں سے لطف اندوز ہوکر رہ جانے کو پسند نہیں کرتے۔ وہ اپنے امراء سے چندہ لے کر اپنے غرباء پر خرچ کردیتے ہیں ان مـیں خواندگی کی شرح بہت اونچی ہے وہ اپنے ممبران کے لئے روزگار فراہم کرتے اور اپنی مساجد` عدالتیں` سکول اور رفاہی ادارے خود چلاتے ہیں جس کے لئے وہ اپنے ممبران پر بھاری ٹیلگاتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء مںی وہ اس علقہ مںی جو بعد مـیں مغربی پاکستان کہلایـا۔ سب سے بہتر تعلیم یـافتہ اسلامـی گروہ سمجھے جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ وزارت خارجہ مـیں کئی اسامـیوں پر تعینات کئے گئے اور نئی گورنمنٹ پاکستان کے کئی دوسرے محکموں مـیں بھی ان کی خدمت سے فائدہ اٹھایـا گیـا۔
یہ ایک عام خیـال ہے کہ احمدی لوگ اپنے تمام ممبران کے لئے سرکاری ملازمتیں ڈھونڈ کر ان کو دلواتے ہیں اور اپنے تمام یونیورسٹی طلباء کو وظائف دیتے اور صرف احمدی احباب کی ہی غور پر داخت کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بہت مبالغہ آمـیز خیـال ہے۔
تاہم اس گروہ کا اندرونی طور پر مضبوط اتصال بیرونی لحاظ سے ان کے یکاد تنہا رہ جانے کا موجب بن گیـا- چنانچہ معاشرتی لحاظ سے ان کا الگ تھلگ رہ جانا ان کے اور باقی مسلمانوں کے درمـیان دشمنی کو بروئے کار لایـا۔ ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کی انتہائی تباہ کاریوں کے دوران گویہ دشمنی تھوڑی دیر کے لئے دب گئی تھی۔ لیکن ۱۹۴۷ء مـیں تقسیم ملک کے بعد یہ معاشرتی عناد اتنا بڑھ گیـا کہ ایک نیم سیـاسی گروہ یعنی احرار نے اس عناد کو باآسانی ہوا دیکر عام دنگا فساد مـیں بدل دیـا اور عوام کی توجہ کو عقائد کے محولا بالا اختلافات پر مرتکز کردیـا۔
۳۔ برطانوی مئولف مسٹر ایـان سٹیفنز Stephens) (Ian نے اپنی کتاب )پاکستان( Pakistan مـیں لکھا:۔
‏ 1953, March in Lahore in days for raged rioting anti-Ahmadi Serous complex this part, In ۔law martial of imposition necessitating Ahmadis the of disapproval with do to really little had episode countroversy the from wind side- political a was and doctrnes, flavour, Islamic and shape, federal the over Karach in blowing then a are however Ahmadis ۔۔۔۔۔۔Consitition new proposed s'natsikPa of the of much and proselytising; in active lot, vigoruous missionaries, Christian which propaganda religious Muslim contemporary outside against struggling themselves find succesfully, very not ۔derivation Ahmadi of is instance for Africa, in Asia
۔Stephens lan by Pakistan
۔1963 59, ۔P Limited Benn Ernest London:
مارچ ۱۹۵۳ء مـیں شدید اینٹی احمدیہ فسادات لاہور مـیں کئی روز تک بڑھتے چلے گئے جو مارشل لاء پر منتج ہوئے۔ یہ پچیدہ صورت حال محض احمدیوں کے عقائد کے ساتھ ناراضی کی بناء پر ہرگز نہ تھی بلکہ دراصل یہ ایک ایک طرفہ سیـاسی روی تھی اس بحث کے متعلق جو کراچی مںی چل رہی تھی کہ دفاعی نظام کی شکل کیـا ہو۔ اس کو اسلامـی رنگ مـیں کیسے سمویـا جائے اور پاکستان کے مجوزہ نئے آئین کی نوعیت کیـا ہونی چاہئے۔۔۔۔۔۔
احمدی ایک مستعد گروہ ہیں جو تبلیغ مـیں ماہر ہیں۔ اور موجودہ زمانے مـیں متدین مسلمانوں کا اکثر و بیشتر پراپیگنڈا جس کا مقابلہ عیسائی مبلغین کو ایشیـا کے باہر مثلاً افریقہ وغیرہ مـیں درون پیش ہے احمدیہ فرقہ ہی کی طرف سے کیـا جاتا ہے۔
حرف آخر0] f[rt
بال¶اخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ۱۹۵۳ء کے بھاری ابتلاء کی ایک عظیم الشان برکت یہ بھی تھی کہ اس کے نتیجہ مںی احمدیوں کی بے مثال اخلاقی قوت اور بلند کٹر کا سکہ اپنوں اور بیگانوں پر بیٹھ گیـا۔
۱۹۵۳ء کے فسادات کے موقعہ پر سمندری )ضلع فیصل آباد( سے دو مولوی صاحبان بھاگ کر کوئٹہ پہنچے اور کئی لوگوں کے پاس پناہ کے لئے گئے کیونکہ مارشل لاء کی طرف سے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے تھے۔ مگری نے ان کو پناہ نہ دی۔ آخر وہ ایک احمدی ٹیچر ماسٹر عبدالحلیم صاحب کے پاس آئے۔ انہوں نے انہیں اپنے مکان پر ٹھہرایـا اور خوب خاطر و مدارات کی۔ مولوی صاحبان نے احمدیت کے خلاف بھی باتیں کیں۔ ماسٹر صاحب نے پناہ دی ہے جبکہ باقی مسلمان علماء اور امراء ہمـیں پناہ دینے سے ڈر گئے۔ لوگوں نے ان مولویوں کو بتایـا کہ ماسٹر صاحب تو قادیـانی ہیں۔ مولوی صاحب بہت شرمسار تھے۔ اور رات کے کھانے پر ماسٹر صاحب سے چھینتے ہوئے کہا کہ ہم نے بڑی زیـادتی کی ہے مگر آپ نے نہایت اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیـا۔ اگلے روز انہوں نے مسجد مـیں اعلان کیـا کہ اس شہر مـیں فلاں ماسٹر صاحب حقیقی مسلمان ہیں۔ اس پر عوام ان کے مخالف ہوگئے ہنگامہ کے خطرہ کے پیش نظر انہیں قید کردیـا گیـا۔ پھر ماسٹر صاحب نے انہیں چھڑایـا۔ اور وہ مولوی صاحبان آزاد علاقہ کی طرف چلے گئے۔~ف۱۳~
دہلی کے غیر مسلم صحافے سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون نے انہی دنوں اپنے اخبار >ریـاست< مـیں جماعت احمدیہ کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے لکھا:۔
>آج احمدیوں کے خلاف پنجاب مـیں بالکل وہی کچھ ہورہا ہے جو ۱۹۴۷ء مںی وہاں سکھوں اور ہندوئوں کے خلاف ہوا تھا۔ جو لوگ احمدیوں کے مذہبی کٹر اور ان کے بلند شعار سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر دنیـا کے تمام احمدی ہلاک ہوجائیں` ان کی تمام جائیداد لوٹ لی جائے۔ صرف ایک احمدی زندہ بچ جائے اور اس احمدی سے یہ کہا جائے کہ اگر تم بھی اپنا مذہبی شعار تبدیل نہ کرو گے تو تمہارا بھی۔ یہی حشر ہوگا تو یقیناً زندہ رہنے والا یہ واحد احمدی بھی اپنے شعار کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ مرنا اور تباہ ہونا قبول کرے گا~<ف۱۴~
حوالہ جات
~ف۱~
نقل مطابق اصل >)تباہ کن< ہونا چاہئے(
~ف۲~
بحوالہ بدر قادیـان ۱۴/مارچ ۱۹۵۳ء ص۹
~ف۳~
بحوالہ ہفت روزہ بدر )قادیـان( ۱۴/مارچ ۱۹۵۳ء ص۹
~ف۴~
بحوالہ بدر قادیـان ۲۱/مارچ ۱۹۵۳ء ص۶
~ف۵~
بحوالہ ہفت روز بدر )قادیـان( ۷/اپریل ۱۹۵۳ء ص۶
~ف۶~
بحوالہ بدر قادیـان ۲۱/مارچ ۱۹۵۳ء ص۷
~ف۷~
یہاں سہواً ۱۹۵۳ء لکھا تھا۔
~ف۸~
رسالہ معارف اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۴۳`۲۴۴ بحوالہ بدر ۷/جولائی ۱۹۵۳ء ص۷
~ف۹~
ترجمہ از اخبار وطن گجراتی ۱۰/مئی ۱۹۵۳ء ص۷ بحوالہ اخبار >بدر< قادیـان ۲۱/مئی ۱۹۵۳ء ص۷
~ف۱۰~
بحوالہ بدر ۲۸/مارچ ۱۹۵۳ء ص۴
~ف۱۱~
بحوالہ بدر قادیـان ۷/اپریل ۱۹۵۳ء ص۶
~ف۱۲~
مسٹر ڈالڈائن ایشیـا کے رسالہ >پلین ڈیلر< کے سٹاف ممبر تھے جو ۱۹۵۰ء۔۱۹۵۱ء مـیں شائع ہوتا رہا۔ اس کے بعد وہ اس علاقہ مـیں نیوزویک اور دوسرے رسالوں کے نامہ نگار خصوصی کے فرائض انجام دینے لگے۔
~ف۱۳~
ماہنامہ >الفرقان< ربوہ ستمبر ۱۹۷۱ء ص۴۸
~ف۱۴~
اخبار >ریـاست< دہلی ۱۶/مارچ ۱۹۵۳ء ص۳

. سپرا ۵۰۰ . سپرا ۵۰۰




[سپرا ۵۰۰]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Tue, 08 Jan 2019 16:12:00 +0000



سپرا ۵۰۰

206 Photos & Videos on Instagram - gramview

1 hour ago

2019 . سپرا ۵۰۰ 01 . سپرا ۵۰۰ 23 제주 여행 2일차 ! 진짜 알차게 놀았다 🍊💚 누가보면 우리 20살인줄 알겠어 ,, (?) 그리고 제주 소품샵에서 산 마스킹 테이프랑 메모지 다 내 취향이야 🤭💛

95 : سپرا ۵۰۰ ، سپرا ۵۰۰




[سپرا ۵۰۰]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Tue, 08 Jan 2019 16:12:00 +0000



تمامی مطالب این سایت به صورت اتوماتیک توسط موتورهای جستجو و یا جستجو مستقیم بازدیدکنندگان جمع آوری شده است
هیچ مطلبی توسط این سایت مورد تایید نیست.
در صورت وجود مطلب غیرمجاز، جهت حذف به ایمیل زیر پیام ارسال نمایید
i.video.ir@gmail.com