چوت چٹا ی کہانی

چوت چٹا ی کہانی کہانی ایک گاؤں کی ۔۔۔ نجمہ نکہت - بزم اردو لائبریریبزم ... | Urdu Sex Storiez | سپنوں کا سوداگر از جٹ صاحب - Urdu Adult Inpage Stories ... | سپنوں کا سوداگر از جٹ صاحب - Page 3 - Urdu Adult Inpage ... | urdu story: 11/06/17 |

چوت چٹا ی کہانی

کہانی ایک گاؤں کی ۔۔۔ نجمہ نکہت - بزم اردو لائبریریبزم ...

پسندیدہ کتابوں مـیں شامل کریں

فہرست مضامـین

                   نجمہ نکہت

جمع و ترتیب: چوت چٹا ی کہانی اعجاز عبید

بھوری نے کھڑکی سے باہر دیکھا

چاندنی رات کی خاموشی مـیں ایک عجیب سا جادو تھا۔ ایک عجیب سا صحرا اس کے اپنے کھیتوں مـیں خاموش پودے سرجھکائے سورہے تھے اور کوئی اس کے کانوں مـیں کہہ رہا تھا۔

یہ تیرے کھیت ہیں بھوری۔۔ یہ دور تک پھیلے ہوئے سرسبز کھیت جن مـیں سے ہوا گاتی ہوئی گذرتی ہے جن کے اوپر بادل جھومتے ہیں۔ جن مـیں تو نے اپنی امـیدیں و آرزوئیں بوئی ہیں اور جو دھرتی کے سینے سے نرم کونپلیں بن کے ابھری ہیں۔ دھیرے دھیرے پروان چڑھی ہیں۔ جوان ہوئیں ، چوت چٹا ی کہانی یہ سنہری مـیٹھی خوشبو والی ، بالیـاں۔

یہ چکنی نرم پتیـاں ، بہار سبزی ، مـیٹھی خوشبو ، اور سیـاہ مٹی کی مـینڈھ جو کھیتوں کے اطراف یوں پھیلی ہوئی ہے جیسےی کنواری کے سبز دوپٹے کی گوٹ۔

ان مـیں اگے ہوئے۔ سونے جیسے دانے جب کٹنے کے بعد کھلیـان مـیں ڈھیر ہوں گے تو ایسا لگے گا جیسے شدید محنت کر کے بہائے ہوئے پسینے کا ایک ایک قطرہ منجمد ہو گیـا ہے۔

تیری اپنی محنت ، تیرا اپنا لہو ، تیرا اپنا ارمان ، اور تو دانوں کے اس کھلیـان تلے بیٹھ کے سوچے گی۔ کھلیـان مـیں دانوں کی یہ پہاڑی مـیری محنت نے تخلیق کی ہے۔ مـیری محنت لہو ، مـیرے بل اور مـیری امـید نے اس پہاڑی کو یہاں مـیدان مـیں پیدا کیـا ہے۔ ان دانوں مـیں مـیرے روپ کا سنہرا پن ہے۔

مـیری سانسوں کی خوشبو ہے۔ مـیرے سینے کا گداز ہے۔ مـیری آنکھوں کی چمک ہے۔ ان دانوں کیلئے مـیرے دل مـیں اتنی ممتا ، اتنا پیـار اور اتنی شفقت ہے جتنی اولاد کیلئے ماں کے دل مـیں ہوتی ہے۔ شاید تخلیق دنیـا کی سب سے بڑی خوشی ہے۔

بھوری کے کانوں مـیں شاید اس کا مستقبل بول رہا تھا مگر اس آواز مـیں اتنی مٹھاس تھی کہ بھوری کے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اس نے سوچا اس وقت کی مسکراہٹ بڑی اچھی لگ رہی ہوکتنے دنوں بعد اس کے دل مـیں گدگدی سی ہو رہی ہے۔ دن کا اجالا ہوتا تو وہ اپنی رس بھری مسکراہٹ فضا مـیں اچھالتی ہوئی اپنے کھیتوں مـیں چلی جاتی۔ لمبے لمبے پودوں کو سینے سے لگا لیتی۔ بالیوں پر پیـار سے ہاتھ پھیرتی اور ان کے پیلے سونے کو چوم لیتی بالکل اسی طرح جیسے زنیو نے پچھلی بہار مـیں پہلی مرتبہ اس کے ہونٹوں پر کھلتی کلیوں کو چوما تھا اور بھوری نے اپنے دل مـیں عجیب سی گدگدی محسوس کی تھی۔ ایسا ہی مـیٹھا مـیٹھا درد اور ایسی ہی ناقابل فہمک ، اس کا دل بہ یک وقت رونا بھی چاہتا تھا اور مسکرانا بھی۔ یہ عجیب سی کیفیت تھی۔ کوئی ایسا جذبہ ابھر آیـا تھا جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ اور آج بھی بھوری کے ہونٹ مسکرا رہے تھے اور آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔

بھوری سوچنے لگی یہ کیـا چیز ہے جو گرداب کی طرح چکر کھاتی ہوئی مـیری رگ رگ سے اٹھتی ہے۔ پھر مـیرے ہونٹوں پہ ہنسی بن جاتی ہے تو آنکھوں مـیں آنسو۔ یہ کیسا نرالا احساس ہے۔ یہ کیسی انوکھی کشمکش ہے۔ یہ مسکراہٹ کے اندر آنسو کیسے ہیں۔ یہ گدگدی کے نیچے درد کیسا ہے ؟یہ تہہ بہ تہہ سوئے ہوئے جذبے کیسے ہیں ؟

جیسے دیہات کے گدلے نالے کے پاس پہاڑی راستہ ہے جس پر کوئی نہیں چلتا۔ کبھی کبھار اس راستے پر جانا پڑے تو یوں لگتا ہے جیسے قدموں کے نیچے پتھر کی تہیں ٹوٹ رہی ہیں۔ پہلی تہہ پر پیر پڑتا ہے تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے ایسا کوئی پتھر مـیرے۔ سینے مـیں بھی ہے۔ اس پتھر کی تہیں مسکراہٹوں اور آنسووں سے مل کے بنی ہیں۔ ایک تہہ پر چوٹ پڑتی ہے تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے اسی لئے تو ہنسی اور آنسو دونوں گھل مل جاتے ہیں۔

بھوری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چمک گئی۔ اس نے اپنی دانست مـیں اپنی سب سے بڑی الجھن کا سبب جان لیـا تھا لیکن زینو کہتا تھا کہ اس پہاڑی راستے کے نیچے جوالا مکھی چھپا ہے اور ایک دن  پھٹ پڑے گا۔

کون جانے مـیرے دل کی تہوں کے نیچے بھی کوئی جوالا مکھی ہو۔

اس کی نگاہیں اپنے کھیت کے خاموش پودوں پر جمـی ہوئی تھیں۔ جو پندرہ دن بعد بالکل تیـار ہو جائیں گے اور جن کو وہ چاند سی ، درانتی لے کے یوں کاٹنے جائےجیسے زمـیندار اپنے نئے محل کو دیکھنے جاتا ہے۔

بھوری کو زمـیندار والی اس غلط تشبیہ سے جھرجھری سی آ گئی۔ نہیں نہیں۔ وہ زمـیندار کی طرح نہیں جائے گی۔ زمـیندار تو دوسرے کی محنت پر قبضہ جمانے جاتا ہے۔ اس وقت اس کی آنکھوں مـیں قدر خوفناک چمک ہوتی ہے۔ اس کی ساری زندگی نئے نئے محل بنوانے اور ان محلوں مـیں دیہات کی کنواری لڑکیوں کو قید کرنے مـیں گذرتی ہے۔ گاؤں بھر کے کھیتوں مـیں اس کا حصہ ہے۔ گاؤں بھر کے مزدوروں مـیں اس کا حصہ ہے۔ آخر اس مفت کے حصے کا سلسلہ کب ختم ہو گا؟

بھوری کے ذہن مـیں ہزاروں بار یہ سوال گونجا تھا مگر وہ جواب نہیں سوچ سکتی تھی۔ جواب سوچنے سے پہلے اس کے دل کی نرم و گرم تہیں ٹوٹنے لگتیں۔ ایسی آگ ابلتی کہ بھوری کو اندیشہ ہونے لگتا کہیں جوالا مکھی پھٹ نہ پڑے۔

وہ کھڑکی کے پاس کھڑی کھڑی سوچتی رہی۔ اس کے دماغ مـیں ہزاروں خیـال تیزی سے پیدا ہوتے۔ تیزی سے ٹکراتے اور ان کا ہجوم بھوری کے لئے پریشان کن ہو جاتا۔

آج بھوری کا ذہن اس کی بچپن سے اب تک گذری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ بڑی ایمانداری سے اس کے سامنے لا رہا تھا اور وہ بڑی محتاط نظروں سے ان لمحوں کو بغور دیکھتی۔ ان لمحوں کے پیچھے اپنے ماحول کا پورا عاس کو دھندلے خواب کی طرح ہلکے غبار مـیں لپٹا ہوا دکھائی دیتا۔ بعض لمحے بالکل واضح تھے جن پر نئے سکوں کی سی چمک تھی اور حرص وہوس کی خوفناک جلاء وہ دن ، وہ لمحے ایک ایک کر کے سامنے آتے گئے۔

وہ دن بھی عجیب دن تھا جب زمـیندار نے اپنے کھیت کے ایک وٹی کو بھوری کے ہیں بھیجا تھا اور  وٹی نے اس کو بتایـا تھا کہ زمـیندار کی مالن بیمار ہے۔ اس لئے تم کو زمـیندار نے باغ مـیں کام کرنے کا حکم دیـا ہے۔ بھوری نے بغیر منہ بنائے حامـی بھر لی۔ وہاں اس نے پارو کو دیکھا جو ریشمـی ساری اور چمکتے زیورات مـیں بھی افسردہ تھی جیسے جنگلی آزاد ہوا مـیں پلنے والے پھول کو شیشے کے صندوق مـیں بند کر دیـا گیـا ہو اور جو اپنی خوشبو اور تازگی کھونے کے بعد مرجھا گیـا ہو اور اس پھول نے بھوری سے التجا کی۔ یہاں سے چلی جا بھوری۔ بھگوان کیلئے چلی جا۔ اگر بوڑھا زمـیندار تجھے دیکھ لے گا تو تجھے بھی اس کال کوٹھری مـیں رہنا ہو گا۔ یہاں عجیب سی شادی ہوتی ہے۔ نہ دیئے جلتے ہیں۔ نہ مہندی لگتی ہے۔ نہ سھاگ گیت گائے جاتے ہیں اور نہ برات آتی ہے۔ بس بیـاہ ہو جاتا ہے پھر کٹھ پتلیوں کی طرح ایک ایک کے ہاتھوں مـیں کھیلنا پڑتا ہے۔ تو جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے بھاگ جا۔

اور وہ بڑا بھاری خوف اپنے دل مـیں لئے بھاگ آئی۔ اس نے راستے کا چکر بڑی تیزی سے کاٹا اور ہانپتی ہوئی آ کے زینو کے بازوں مـیں گر گئی۔

زینو اس نے سسکی لی اور اپنا سر زینو کے کندھے سے لگا دیـا۔

’’کیـا بات ہے بھوری ! زینو پریشان ہو گیـا۔

وہ اپنی پارو تھی نا۔ وہی جو بچپن مـیں ہمارے ساتھ کھیلتی تھی۔ شریر سی لڑکی جب ہم نے ساون مـیں ہیروں پر جھولے ڈالے تھے اور پارو کے جھولے کی رسی ٹوٹ گئی تھی اور پاروتی پتھر پر گر پڑی تھی ایک نوکیلا پتھر اس کے اپنے گال مـیں دھنس گیـا تھا۔ وہ زخم کا نشان اب تک اس کے گال پر موجود ہے۔ مگر آج مـیں نے اسے دیکھا۔ زمـیندار کے محل مـیں وہ شریر پارو اب ایک رنجیدہ سی مریل عورت ہے۔ جب مـیں وہاں کام کرنے گئی تھی تو اس نے مجھے جلدی سے وہاں سے بھگا دیـا۔ کہنے لگی اگر زمـیندار تجھے دیکھے گا تو یہاں قید کر لے گا۔

اس نے بڑے چمکیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور گہنوں سے لدی ہوئی تھی مگر اس کا چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کی آنکھیں بیمار کی آنکھوں کی طرح اداس اور کمزور تھیں۔

زینو سنجیدہ ہو گیـا۔ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ شادی ہو جائے تو اس زمـیندار کے بچے کو اتنی ہمت بھی نہیں پڑےکہ تیری طرف نظر اٹھا کے دیکھ سکے پھر چاہے تو گاؤں مـیں اکیلی گھوم پھر لے۔ مگر اس فصل تک کچھ نہیں ہو سکتا۔ ادھر باپ بیمار ہے۔ کھاٹ سے اٹھنے کا بھی اس مـیں دم نہیں رات بھر کھانستا ہے اور دم یوں پھولتا ہے جیسے سینے مـیں دھونکنی چل رہی ہو اور یہاں کا ڈاکٹر کہتا ہے۔ شہر لے جاؤ۔ گاؤں کے دوا خانے مـیں علاج نہیں ہو سکتا۔ اور مـیرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ زندگی ایسی مجبور ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں بس زندگی بھر سوچتے ہی رہتے ہیں۔

زینو کا گلہ رندھ گیـا اور اس کی آنکھیں بھوری کی گہری خاموش آنکھوں ملیں تو اس کو احساس ہوا کہ وہ خود اپنا دکھڑا سنانے آئی تھی اور زینو اپنا دکھڑا لے بیٹھا۔ زینو نے سنبھل کے دیوار کا سہارا لیـا اور لہجہ مـیں یقین پیدا کرنے کیلئے حلق صاف کرنے لگا۔

مگر تو یہ نہ سمجھ کہ یہ مجبوری عمر بھر کی ہے۔ تجھے کیـا معلوم کہ مـیری راتیں کتنی ڈراؤنی ہو گئی ہیں۔ رات بھر سوچتا سوچتا الجھنے لگتا ہوں مگر کچھ سمجھ مـیں نہیں آتا۔ پریشانیوں نے مجھ جیسے کڑیل جوان کو بے آس کر دیـا ہے۔ کل گاؤں کے ساہوکار خان بابو کے پاس گیـا تھا۔ باتوں باتوں مـیں اس نے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔

کیـا کہا اس نے بھوری نے بڑے تردد سے پوچھا۔

تو سن کے کیـا کرے گی۔ تجھے سن کے دکھ ہو گا، زینو کی پیشانی پر ابھری ہوئی ورید پھڑپھڑانے لگی۔ اس نے بھوری کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔

خان بابو نے کہا۔ بڑا آیـا بھوری کو بیـاہنے والا۔ اس کو زمـیندار کے محل مـیں بھیج دے تجھے کھانا بھی ملے گا۔ پیسہ بھی ملے گا اور بیمار باپ کی دوا بھی ملے گی۔ تو بے وقوف ہے ایسے رنگ روپ کی چھوکریـاں زمـینداروں کے محلوں مـیں اچھی لگتی ہیں۔ زمـیندار سب لڑکیوں کے دام تو نہیں لگاتا پر مـیرا اس کا یـارانہ ہے۔ کہہ سن کے تیری قسمت پھیر دوں گا۔ زینو نے ایک ہی سانس مـیں سب کچھ کہہ دیـا اور اس دوران بھوری کی طرف دیکھنے کی اس کو جرات نہ ہوئی۔

بھوری حیرت زدہ سی آنکھیں پھاڑے زینو کو دیکھتی رہی۔ اور مختلف قسم کے رنگ چہرے پر آئے اور جاتے رہے۔

وہ یہ بھی کہتا تھا کہ اس طرح مـیرا پچھلا قرض بھی چکا دینا۔ سود بہت بڑھ گیـا ہے۔

نہیں مانو گے تو مجبوراً کھیتوں پر آفت آئے گی۔

اور مـیں الٹے قدموں خالی ہاتھ لوٹ آیـا۔ مـیرا تو ہاتھ اس پر اٹھتے اٹھتے رہ گیـا مـیں اس کو ضرور مارتا مگر زمـیندار سے کہہ کے اپنے قرض مـیں مـیرے کھیت ضبط کروا لیتا تجھ کو ذرا ذرا  سی بات کا پتہ ہے۔ تجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے کتنےانوں کی زمـین اسی ترکیب سے قبضے مـیں کر لی ہے۔ اس کے پاس جتنی زمـین ہے اتنی گاؤں بھر مـیں شایدیـان کی نہیں ہے۔ زمـیندار تو ہران سے زبردستی زمـین لے لیتا ہے مگر خان بابو بہت ہوشیـار آدمـی ہے۔ وہ مـیٹھی چھری سے گلا کاٹتا ہے۔ سب کو دل کھول کے قرض دیتا ہے۔ اور بھاری سود لگاتا ہےان یہ سمجھ کے خوش ہو جاتے ہیں کہ خان بابو بڑا دریـا دل آدمـی ہے ، ہران کے آڑے وقت کام آنے والا۔ اگر خان بابو نہ ہوتا تو گاؤں بھر کے لوگ بھوکوں مر جاتے۔

خان بابو اپنی طرف سے جس قدر چاہتا ہے قرض کی رقم کو بڑھا کر کھاتے مـیں لکھتا ہے کہ مـیرے کھیتوں کے دانے مـیں اس کا حصہ بڑھتا جاتا ہے۔ جب بھی اس کے ملنے جلنے والے یـار دوست گاؤں آتے ہیں تو وہ ہمـیشہ مجھ سے زیـادہ سے زیـادہ دانے لینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس بہانے مـیں بھوکا مر جاؤں مـیں تجھے کیـا بتاؤں کہ وہ مجھے طرح اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتا ہے …

مگر مـیں اُسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اول تو اس کی پشت پنا ہی زمـیندار کرتا ہے جاگیردار کرتا ہے حتی کے پٹیل پٹواری تک کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سبی نہی وقت اُسکے آگے ہاتھ پھلا تے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ان سے سودنہیں لیتا کہ زمـیندار خوش رہے اور سارے غریبان اس کی مٹھی مـیں دبے رہیں۔ مجھے بھی دانہی نہی طرح دنیـا پڑتا ہے جیسے ٹکڑی کی جال مـیں مکھی پھنس جاتی ہے ویسے ہی مـیں قرض مـیں پھنسا ہوا ہوں۔

دانہ کٹنے کے بعد جاگیر دار کا حصہ ، زمـیندار کا حصہ ، پٹیل پٹواری کا حصہ اور دوسرے کی حصے جانے کے بعد دانہ ہی کہاں رہی جاتا ہے۔ اتنا بھی تو نہیں رہتا کہ کچھ بیچنے کے بعد گھر کے لئے سال بھر آرام سے نکل جائے۔ تجھ پر بھی۔ یہی سب گذرتی ہے۔ مـیرے بتا نے کی ضرورت ہی کیـا ہے۔

بھوری اپنے ہاتھوں پر تھوڑی رکھے اس کی باتیں سنتی رہی پھر بڑے سوج بچار کے بعد بولی ’’ زینو … مـیری سمجھ مـیں یہ نہیں آتا کہ آقربیسیوں حصے ہماری محنت مـیں کیوں لگ جاتے ہیں۔ ؟

زنگیـا سوچنے لگا۔۔۔۔ اس کو مـیں طریقہ سے سمجھا سکتا ہوں ساری باتیں۔ مـیں تو خیر شہر مـیں رہ کے پڑھ لکھ گیـا ہوں اور اسی وجہ سے یہاں آتے ہی مـیں نے بات کی جڑ کو سمجھنے کی کوشش کی مگر بالماں ( جسکو سب بھوری کہنے تھے ، کیونکہ اس کے بال بالکل بھورے تھے مکئی کے بھٹے کی حفاظت کرنے والے سنہری لچھوں کی طرح ) تو بالکل جاہل کی لٹھ تھی۔

اب تو پھر بھی زنیو نے ہر ہر بات اس کو بڑی اچھی طرح سمجھائی تھی ورنہ وہ تو کئی بار زینوسے لڑ بیٹھتی کہ خان بابو کو بُرا نہ کہو بڑا دیـالو انسان ہے مگر جب بھوری کے ماں باپ گاؤں کی بُری وبا مـیں چل بسے تو زنگیـا کے باپ ملیـا نے بھوری کی اور اس کی زمـین کی حفاظت کی اور جب بھوری ترئی کی بیل کی طرح بڑھنے لگی تو ملیـا نے کھیتوں کا کچھ کام اس کے ذمہ بھی کر دیـا۔ ان دنوں زنگیـا شہر مـیں پڑھتا تھا۔

شہر گاؤں سے بہت قریب تھا اور ملیـا کا بھائی شہر مـیں جاگیردار کے باغ کا کام کرتا تھا اسلئے زنگیـا کو وہاں رہ کر پڑھنے مـیں زیـادہ آسانی تھی۔ گاؤں کا چھوٹا اسکول پاس کر کے وہ شہر چلا گیـا تھا۔

بھوری برابر اپنے کھیتوں مـیں جٹی رہتی۔ پھر رفتہ رفتہ اس کو گاؤں کے ہر آدمـی کے بارے مـیں نئی نئی باتیں معلوم ہوتی گئیں اور پھر ایک دن زنگیـا آ گیـا۔ صاف ستھری دھوتی ، چھوٹی سی بند گلے کی کرتی اور ذرا ذرا اسی ننھی مونچھیں جو بڑا رعب داب رکھتی تھیں۔

دونوں کے کھیت دانوں سے بھر گئے۔ جن کھلیـانوں مـیں خاک اڑتی تھی ان مـیں مزدوروں نے بھوری اور زینو نے گیت گائے۔ دھان کے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھے  ، لوٹ پوٹ ہوے اپنے دلوں کو خوشی اور تسلی بخشی مگر اس خوشی کے پیچھے بے اطمنانی اور خوف چھپا تھا۔ دانوں کی تقسیم ، لگا ن اور مزدوری … گھر جگہ جگہ سے شکستہ ہو گیـا تھا اس کی مرمت کروانا ضروری ہو گیـا تھا۔ زنگیـا کے باپ کو مسلسل کھانسی کے دورے پڑنے لگے تھے ، اس کی دوا دارو … نہ جانے ساہوکارنے کب کا قرضہ اکٹھا کر کے تقاضے شروع کر دئیے بھوری و زینو کی مصروفیت بڑھ گئی تھی ، ان کو دوپہر کھانے کی فرصت بھی نہ ملتی جوار کی موٹی روٹیـاں اور املی کی کھٹی چٹنی ساراسارادن بھوری کے انچل مـیں بندھی کمر مـیں اڑسی رہتیں۔ جب سورج گھنے درختوں اور اونچے پہاڑوں کے درمـیان سرخ انگارے کی طرح دہکنے لگتا اور دھوپ کھتیوں کی مـینڈھوں پرسے گذرتی ہوئی اونچے اونچے پیڑوں پر چمکنے لگتی … مختلف قسم کی چڑیـاں ایک ساتھ شور مچانے لگتیں تو بھوری کیچڑ سے لت پت ہاتھ دھو لیتی اور کمرسےا ہوا آنچل کھول کے روٹی ، زنگیـا کے سامنے رکھ دیتی۔

آج وہی بالماں بہت بڑی بڑی باتیں سمجھ لیتی تھی۔ بہت مشکل سوالات پوچھ لیتی۔ یہ دراصل زنگیـا کے سمجھا نے کا کمال تھا کہ بھوری گاؤں کی سب سے زیـادہ سمجھدار لڑکی تھی مگر وہ ہر ایک سے اپنی قابلیت کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ زینو کے سوا وہی سے کڑے سوالات نہیں کر تی تھی۔ اور نہ وہ باتیںی اور کو بتاتی جن کو کہنے سے زینواس کو منع کر دیتا۔

’’ آخر بیسیوں حصے ہماری محنت مـیں کیوں لگ جاتے ہیں ؟ ‘‘ کتنا کٹھن سوال تھا یہ اسلئے کہ یہ سارا گاؤں جاگیردار کا ہے ، زمـیندار، ساہوکار پٹیل پٹواری سب اس کے ساتھی ہیں جو ہمارے ہاتھ کا ٹ کے اس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ جیسے پیسوں سے جوا کھیلا جاتا ہے۔ یہ ہمارے تمہارے جیون کا جوا کھیلتے ہیں۔ یہ حکومت کرنے والے لوگ ہیں اسلئے ہم کو ان کے حکم پر چلنا پڑتا ہے۔ ان کو زبردستی ہمارے سروں پر قائم کر دیـا گیـا ہے۔ ’’ تم ہی بتاؤ یہاںہے جو سرکار سے خوش ہے۔ ایساہی ظلم جاری رہا تو جنتا مر جائے گی۔ مـیری اپنی تکلیف اب مجھ سے کہی نہیں جاتی ’’مـیں جانتی ہوں زینو ‘‘… اس نے سراٹھا یـاتوآنسوزینو کے قدموں مـیں گر پڑے تو روتی ہے بھوری ؟تجھے مـیرے دکھ کا کتنا خیـال ہے اور یہ کمـینہ خان بابو کہتا ہے ’’ تجھے بیچ دوں۔ ہونھ … مـیری چمڑی تک تیرے لئے بک سکتی ہے مگر کوئی تجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ ‘‘ بھوری نے آنکھ اٹھا کے دیکھا۔ زینو کے بازو بہت مضبوط تھے۔ ‘‘

ایک بات اور پوچھوں ؟

’’پوچھ لے ‘‘

زمـیندار گاؤں کی اتنی بہت سی لڑکیوں کو اپنے محل مـیں کیوں بند کر دیتا ہے ؟ کیـا ان کی شادی کبھی نہیں ہوتی۔ ؟ بھوری نے بڑے فکر مندانہ انداز کے ساتھ آنکھیں جھپک کے پو چھا اور دیوارسے نیک لگا کے بیٹھ گئی۔

’’ پچھلے مہینے جب مـیں جاگیر دار کا سامان شہر والے گھر مـیں اپنی بنڈی پرلے گیـا تھا تو مـیں نے وہاں سنا تھا کہ زمـیندار اپنے محل مـیں قید کی ہوئی لڑکیوں کو کچھ دن اپنے پاس رکھتا ہے اور پھر جاگیردار کے ہاتھ بیچ دیتا ہے یـا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمـیندار کنواری لڑکیوں کے زیـادہ دام لگا کے جاگیردار کو فروخت کر دیتا ہے اور پھر جاگیر دار شہر لے جاتا ہے اور دلا لوں کے ذریعہ منہ مانگے داموں پر ولی عہد ان کو خرید کر اپنے محل مـیں داخل کر لتیـا ہے۔ یہ سارا کام جاگیردار و زمـیندار خود نہیں کرتے۔ ان کے آدمـی یہاں گاؤں مـیں بھی ہیں اور شہر مـیں بھی۔ لڑکیوں سے جو پیسے ملتے ہیں وہ جاگیر دار و زمـیندار لے لیتے ہیں اور دلالوں کو بیچ مـیں الگ پیسے ملتے رہتے ہیں۔ یہ سمجھو کہ یہ آدمـی جاگیردار و زمـیندار کے نوکر ہیں شہر مـیں یہ بات توسب ہی جانتے ہیں کہ وہاں کے ولی عہد نے تین سولڑکیـاں قید کر رکھی ہیں۔ اور ہر ماہ ان دلالوں کو بڑی بڑی رقمـیں ملتی ہیں یـا ان ماں باپ کو جو خود اپنی لڑکیوں کو بیچتے ہیں۔ ‘‘

’’ کیـا ماں باپ اپنی لڑکیوں کو خود بھی بیچ دیتے ہیں ‘‘ بھوری نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پو چھا۔

’’ ہاں جیسے ہمارے مـیں جاگیر دارکسی لڑکی کو مانگ لیتا ہے اور گاؤں والے دے دیتے ہیں اگر نہیں دیتے تو نقصان اٹھا تے ہیں اور زبردستی ان سے ان کی آنکھوں کا نور چھین لیـا جاتا ہے۔ ایک باپ کی ضدسارے گاؤں کے لئے تباہی لا تی ہے اور ہوتا وہی ہے چاہے زبردستی اور جبر سے ہو … اس طرح ہمارے گاؤں کی خوبصورتی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ مـیں اور دوسرے سے تیرے ہاتھ مـیں پہونچ جاتی ہے۔ ایک منڈی سے دوسری منڈی اور دوسری سے تیسری مـیں بک جاتی ہے اور جھونپڑے مـیں پلے پاکیزہ قدم گندے محلوں مـیں چلے جاتے ہیں۔

وہاں انھیں پلائی جاتی ہے … ان کی ننگی تصویریں لی جاتی ہیں۔ انھیں ناچ گا نا سکھایـا جاتا ہے۔ ان پر سخت نگرانی رکھی جاتی ہے … یہ سب مجھے ایک دلا ل نے بتا یـا جسکے ہاتھ ہمارے زمـیندار لین دین کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتا یـا تھا کہ ایک بار کوئی لڑکی ولی عہد کے محل مـیں داخل ہونے کے بعد کبھی باہر نہیں نکل سکتی۔ وہاں ہر قسم کی اور ہر ذات و ہر دھرم کی لڑکی موجود ہے۔ کچھ اپنی مرضی سے آتی ہیں جن کیلئے دنیـا مـیں کوئی جگہ نہیں۔ کچھ لڑکیـاں ایسی ہیں جن کے ماں باپ ان کو اپنی مفلسی سے تنگ آ کے محل مـیں لے جاتے ہیں۔ کچھ لڑکیـاں زبردستی لائی جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جن پرسرکار اپنا حق جتا کر لے جاتی ہے اور ایسی لڑکیـاں ہماری تمہاری طرح غریبانوں اور مزدوروں کی ہوتی ہیں۔ غریبوں کی ہر چیز سرکار کی ہے … ہماری زندگی بھی … !

اور وہ بدمعاش ساہوکار کہتا ہے … ‘‘زینو کے ماتھے پربل پڑ گئے اور وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے بھوری کو دیکھنے لگا ’’اب جانے دو زینو … وہ بات نہ دہراؤ۔ مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ‘‘

’’زینو … ! ایک دن دو پہر پیپل کی گھنی چھاؤں مـیں بیٹھ کے روٹی کھاتے ہوئے بھوری نے بات چھیڑی جب تم چھوٹے سے تھے اور گاؤں کے اسکول مـیں مـیلاسا کتابوں کا بستہ لئے پڑھنے جاتے تھے تب مـیں اپنی سہیلیوں سے بڑی شان سے کہتی ’’پڑھ لکھ کے زینو بہت بڑا آدمـی بنے گا‘‘۔ یہ بات باپو کی کہی ہوئی تھی جو مـیں دہرائے جاتی۔ پھر تم آگے پڑھنے کے لئے شہر چلے گئے۔ بہت سالوں بعد آئے تھے جو مجھے یقین ہو گیـا تھا کہ تم گاؤں بھر مـیں سب سے زیـادہ عقلمند اور اچھے آدمـی ہو۔ تم ضرور بڑے افسر بن جاؤ گے۔ مگر تم نے چوپال پر سب سے کہہ دیـا تھا کہ ’’مـیں افسر بننا نہیں چاہتا۔ مـیں تو اپنے باپ کی زمـین پران بن کے رہوں گا‘‘۔

سچ۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ تم اب دور نہیں جاؤ گے۔ اسی گاؤں مـیں رہو گے۔

تو کیـا مـیںان بن کے اچھا نہیں لگتا؟

مـیر ایہ مطلب نہیں ہے زینو۔ تمان بن کے ہی اچھے لگتے ہو۔ اب یہی دیکھو تم نے مجھے کتنی باتیں بتائیں۔ کتنی نئی باتیں جو مـیں پہلے کبھی نہیں جانتی تھی۔ پہلے پہل تمہاری باتیں مـیری سمجھ مـیں نہیں آتی تھیں۔ بہت وقت لگتا تھا۔ پھر عادت ہو گئی اور اب تمہاری ہر بات بڑی آسانی سے مـیری سمجھ مـیں آ جاتی ہے۔ تم سمجھاتے بھی اچھی طرح ہونا۔ تم پڑھے لکھے ہو تم سب گاؤں والوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ جہاں انھوں نے ہزاروں برسوں سے زمـین دانے ، لگان اور محنت کے لئے لڑائی جاری رکھی ہے وہیں وہ اپنی بیٹیوں کے لئے اپنی آبرو اور عزت کے لئے اکٹھے ہو کر جاگیردارو زمـین دار سے لڑیں۔

تم کو پتہ ہے کہ ایسا بہت جلد ہو گا شہر مـیں رہ کے مـیں گاؤں کو کبھی نہیں بھولا ہوں۔ زینو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

تم نے مجھے اب تک یہ بات نہیں بتائی مگر مـیں سمجھتی ہوں کہ تم نے اس کام مـیں ہاتھ ضرور ڈالا ہے۔ اگر مـیں بھی تمہارا ہاتھ بٹاؤں تو یہ کام جلدی ہو سکتا ہے ؟ ‘‘

تم ہی نہیں سب کو مل جل کر سوچنا ہے۔ جب تک سب مل کر اس کام مـیں مدد نہ دیں یہ کام اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ سب ہی لوگ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ جب تک ہم خود بڑھ کر یہ سرکار نہ توڑ دیں ، خودبخود سرکار نہیں ہٹےمگر خاموشی اور وفاداری اس کی بنیـاد کو اور مضبوط بنا دے گی۔ صبر کرنے اور ظلم سہنے کی حد ختم ہو چکی۔

اب ہم چپ رہ کر اپنی بے عزتی کا تماشہ نہیں دیکھ سکتے۔ تم ساتھ دوتو مـیری ہمت اور بڑھے’’مـیں تمہاری مدد ضرور کرونگی۔ اچھا اب تم اٹھو ، بھوکے ہو تو اور روٹی بچی ہے کھالو … شام کو گھر آنا …

پھر فصل کٹی۔ پیلی پتیوں سنہری بالیوں کے لمبے لمبے وزنی پودے درانتیوں سے گیت گا گا کر کنواری لڑکیوں اور جوان عورتوں نے کاٹے۔ نوعمر لڑکوں اور  ادھیڑ مردوں نے کاٹے اور کھیتوں مـیں پودوں کے ڈھیر جمع ہو گئے۔ پھر کھلیـانوں مـیں دانوں کی پہاڑیـاں بنیں۔ زینو اور بھوری نے زندگی بھرساتھ رہنے کا وعدہ کیـا۔ اپنے کھیتوں کا دانہ مٹھی مـیں لے کر قسم کھائی۔

پھر گاؤں کے نالے کے قریب مٹی کی اونچی ڈھیری کے قریب دونوں ہاتھ جوڑے کھڑے رہے۔

’’ ہم سب جانتے ہیں یہ اسان کی سمادھی ہے جس نے زمـیندار کے نئے تعمـیر ہونے والے مکان مـیں بیگار کرنے سے صاف انکار کر دیـا تھا۔ اگر آپ بیگار لینا چاہتے ہیں تومـیں کام کرنے کیلئے تیـار نہیں ہوں ‘‘

پھر کیـا ہوا تھا … گنڈیـا کے چھوٹے بیٹے نے پوچھا

زمـیندار کے آدمـیوں نے اس غریب کو اس قدر مارا پیٹا کہ جسم سار ا زخمـی ہو گیـا۔

زمـیندار کے غضب کی یہ حالت تھی کہ سامنے کھڑے ہو کر چلاتا تھا ’’ اور مارو … اس بدمعاش نے ہم سے بغاوت کی ہے … اور مارو … اور مارو صبح تک اس نے دم توڑ دیـا۔ اس کی خود داری اور جرأت کے قصےان اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔

ہاں۔ مـیری ماں نے بھی مجھ سے بیـان کیـا تھا۔ ہمارے گاؤں کے ہر حصے مـیں ایسے شہید سورہے ہیں جنہوں نے جاگیرداروں ، زمـینداروں اور پٹیل پٹواریوں تک سے اپنے حق کیلئے لڑائی کی۔ جبرو ظلم کا منہ توڑ جواب دیـا۔ رامو بھیـا نے اسی گاؤں مـیں اپنی کنواری بہن کیلئے زمـیندار پر کلہاڑی سے بھرپور وار کیـا تھا مگر کمبخت مرا نہیں تھا۔ مگر اس کی سزا رامو بھیـا کو موت کی صورت مـیں ملی۔

ایک دو نہیں ، ہماری اس زمـین پر ہزاروں لڑائیـاں ہوئی ہیں۔ یہ دباؤ، یہ حکومت اب کی نہیں ، بہت پرانی ہے۔ صدیوں پرانی۔ جتنا ظلم پرانا ہے ، اتنی ہی اس کے خلاف لڑائی پرانی ہے۔ جہاںان نے بیگار کے خلاف ،لگا ن کے لئے ، زمـین کیلئے اور دانے کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ پوری قوت اور سچائی کیسا تھ لڑائی جاری رکھی ہے وہیں اس نے عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے بھی زبردست لڑائی جاری رکھی ہے۔ اسی لئے رامو بھیـا کا نام ہم سب عزت سے لیتے ہیں …

اس رات تمامانوں نے فیصلہ کر لیـا کہ اس سال ہم اپنی سرکار کو اپنے دیہات کی کوئی جوان لڑکی نہیں دیں گے۔ ہم کئی سالوں سے اپنی لڑکیـاں ، اپنی آنکھوں کا نور اپنے دل کی ٹھنڈک اور اپنے بدن کا لہو نچوڑ  نچوڑ کر اس خونیں  سرکار کو پلاتے آئے ہیں۔ اب اگر ہماری کھال بھی کھنچوا دی گئی تب بھی ہم اپنے گھروں کا سکون نہیں دیں گے …

’’ہم زمـینداروں کی منڈی مـیں اپنی کنواریـاں کبھی نہ ے دیں گے۔ ہماری غیرت اس سرکار کے آگے نہیں جھک سکتی۔ ہم اپنا دانہ سرکار کو دے دیں ،ساہو کا رکو دے دیں۔ مولویوں اور پنڈ توں کو دے دیں پٹیل پٹواریوں کو دے دیں۔ ہم سے سرکار بیگار لے ، ہم کو مارے بیٹے ہماری زمـین چھین لے اور ہماری بیٹیـاں بھی لے لے … ان کی منڈی سجا کے بیٹھ جائے۔ کیـاسرکار دلالوں کی سرکار ہے۔ ہم سرکار کی ایک نہ چلنے دیں گے۔ ‘‘

یہ وہ الفاظ تھے جو زینو نےانوں کے سامنے ، پورے جوش ، پورے اعتماد اور طاقتور لہجے مـیں کہے۔انوں نے بھی غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہر ہ کیـا۔ ہر ماں  نے ہاتھ  پھیلا کے زینو کیلئے دعا دی ہر باپ نے اس کو گلے لگا کے وفاداری کا عہد کیـا۔ ہر کنواری نے سرپرآنچل ڈال کے بڑی عقیدت سے زینو کو دیکھا اور بھوری … ؟ اس کی آنکھوں مـیں آنسوتھے تو ہونٹوں پہ مسکراہٹ۔

وہ رات عجیب سی رات تھی۔ رات بھران جاگ کے زمـیندار کا انتظار کرتے رہے صبح ہونے مـیں کچھ دیر رہ گئی تھی۔ بھوری سوئی پڑی تھی اور گردن کی سفیدنرم جلد کے نیچے نیلی رگیں دھڑک رہی تھیں۔

بوڑھےان نے آواز لگائی

’’ زینو … زنگیـا… ‘‘ زینو ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا

’’کیـا ہے دیـال چاچا ؟ ہم لوگ تو جاگ رہے ہیں ‘‘

’’ ارے بیٹا بڑا غضب ہو گیـا۔ زمـیندار کے سپاہی آ رہے ہیں۔ ان کو ہمارے فیصلے کا علم ہو گیـا ہے اور وہ اس کو سرکار کی توہین سمجھتے ہیں ، سرکا رکے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں اور اسی لئے بہت سے سپاہی آ رہے ہیں۔ اب کی بار وہ بھوری کو لے جانا چاہتے ہیں۔ کل بعض خوشا مدیـانوں نے جو زمـین ضبط ہونے کے ڈرسے ہمارے فیصلے کے خلاف تھے۔ بھوری کے روپ کا قصہ خوب نمک مرچ لگا کے سنادیـا تھا اگر ہم نے ذرا بھی بزدلی دکھائی توسویرا ہونے ہونے تک وہ بھوری کو لے جائیں گے۔

وہ زبردستی اسے چھین لیں گے۔ تم بھوری کو گاؤں بھر مـیں کہیں بھی چھپا دو ، وہ ڈھونڈھ نکالیں گے۔ وہ تمھیں کال کو ٹھری مـیں بند کر دیں گے۔ وہ تمھیں ماریں گے۔ اس لئے صرف یہی بچاؤ کا طریقہ ہے کہ پوری قوت سے ، پوری طاقت سے آج جمع ہو کر مقابلہ کریں چاہے ہم سب مر جائیں مگر ہمارا فیصلہ اپنی جگہ قائم رہے … زندہ رہے۔ ‘‘

بھوری جاگ پڑی تھی اُسکی آنکھیں حیرت اور ہیبت سے پھیل گئیں۔ زینو نے اس کو زور سے بھینچ لیـا۔ خوف نہ کر بھوری … مـیں ابھی زندہ ہوں  … مـیں تجھے اس منڈی مـیں کبھی نہ جانے دونگا۔ تجھے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ مـیں ان دلالوں سے لڑونگا۔ مـیں ان سپاہیوں کو مار ڈالونگا مگر تجھے ہاتھ نہیں لگا نے دونگا۔

سارےان اکٹھے ہو گئے تھے اور پہاڑی راستے پر گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی …

بھوری نے پوری خوت سے زینو کے بازو پکڑ لیئے۔ ہوا مـیں سپاہیوں نے دو تین خالی فائر کئے اور بھوری کا دل جیسے حلق مـیں آ گیـا وہ سرسے پاؤں تک کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بار بار تیزی سے راستے کو دیکھتیں۔ بھر زینوں کو بھرانوں کو  … سامنے نکڑ پر گھوڑے دکھائی دینے لگے۔ زینو کے آگے سارےان جمع ہو گئے ان کی آنکھوں مـیں خوف اور عزم ملاجلا ساتھ۔ ان کے ہاتھ بار بار اپنے مضبوط ڈنڈوں پر جاتے۔ زینو اور بھوری کے آگے سارےان ساحلی چٹانوں کیطرح کھڑے تھے ،

زمـیندار سپاہوں کے پیچھے سب سے بانکے گھوڑے پر سوار تھے۔ ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا۔

سرکار کہتے ہیں ’’ تم بھوری کو سیدھی طرح دے دو ورنہ گولی چلے‘‘ …

’’سرکار سے کہو ہم گولی کھانے تیـار ہیں مگر بھوری کو نہیں دیں گے ‘‘

زمـیندار نے سپاہیوں کی طرف مسکرا کے دیکھا پھرکسانوں کی طرف دیکھا جو دور تک انسانوں کا کھیت معلوم ہو رہے تھے …

سرکار کہتے ہیں ’’تمہارا فیصلہ ہمارے خلاف بغاوت ہے ‘‘

’’ ہماری عزت بڑی چیز ہے۔ ہم نہ عزت دیں گے نہ زمـین ‘‘ دیـال نے زوردار لہجے مـیں پکار کر کہا۔

’’تم چپ رہو۔ گستاخ آدمـی ‘‘ زمـیندار نے اپنی سفید مونچھوں پر تاؤ  دے کے ڈانٹا چپ رہنے کی حد ہوتی ہے۔ آپ سرکار ضرور ہیں مگر کیـا یہ سرکار دلالوں کی سرکار ہے ؟ دیـال بھی شیر کی طرح گرجا۔

اس کو پکڑ لو … زمـیندار نے دیـال کی طرف انگلی اُٹھا کے اشارہ کیـا۔ اور سپاہیوں نے اُسے پکڑ لیـا۔

سرکار کہتے ہیں ‘‘ اب بھی مان جاؤ۔ ہم تمہاری ہی بھلائی چاہتے ہیں ، اگر بھوری کو چپ چاپ ہمارے حوالے کر دو  تو ہم تمھیں معاف کر دیں گے۔ ‘‘

’’سرکا رسے کہو ہم بھوری کو ہر گز نہیں دیں گے چاہے ہم سب کی جان چلی جائے ‘‘ زینو نےانوں کو ہٹا کے سامنے آتے ہوئے کہا اور اس کے مضبوط بازو اکڑ گئے

’’یہزبان دراز ہے ؟‘‘

’’ سرکار یہ زینو ہے ، بھوری کا منگیتر … ’’ سپاہی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیـا ’’اچھا … تم یہاں آؤ … ‘‘ گھوڑے پر شان و شوکت سے بیٹھے ہوئے زمـیندار نے مسکرا کے زینو کو اشارہ کیـا۔ زنیو اپنے ڈنڈے کو زمـین پر ٹیک کے آگے آیـا، اے بیوقوفان !ہم تم کو اس کے بدلے انعام دیں گے۔ اب بھی کچھ نہیں گیـا ہے۔ ورنہ تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم خالی ہاتھ ہرگز نہیں جا سکتے۔ ہم تم کو نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہتے۔ اسلئے تم کو ہمارا حکم ہے بھوری کو ہمارے حوالے کر دو۔ جاؤ سپاہیو بھوری کو ڈھونڈ لاؤ… زمـیندار نے پھر مونچھوں پر تاؤ دے کر اپنی پیشانی سے پسینہ پونچا۔ اس کے آنکھوں کی بھیـانک چمک اور بڑھ گئی۔ سپاہیوں کے درمـیان سروں پر پٹرومرکھے بہت سے مزدور تھے۔سپاہیـانوں کو ہٹا ہٹا کے آگے بڑھنے لگے اور جب بھوری نے چیخ ماری تو زمـیندار کے پاس کھڑے ہوئے زینو نے بجلی کی سی تیزی سے اپنی لٹھ سے زمـیندار پر زبردست وار کیـا اور زمـیندار گھوڑے کی پشت سے لٹک گیـا۔

سارے سپاہوں اورانوں مـیں کھلبلی مچ گئی۔ زمـیندار کے سپاہیوں نے زینو کو پکڑ لیـا اورانوں نے بھوری کو اپنے حلقہ مـیں لے لیـا۔

لاٹھیـاں اور بندوقیں چلیں مگر زمـیندار کے سپاہوں کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔

زمـیندار کے جسم پر شدید ضرب پڑی تھی اور سپاہی اس کے بے ہوش جسم کو گھوڑے پر ڈالے محل جا رہے تھے۔ اور زینو رسیوں سے بندھا گھسٹتا  ہو ا ان کے پیچھے تھا۔

بھوری دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی مـیں بھی جاؤنگی زینو کے ساتھ ‘‘

نہیں بھوری … زینو نے آج بہت بڑا کام کیـا ہے … اس نے آج ہر روایت توڑ دی تیری خاطر ، گاؤں کی عزت کی خاطر… ہم سب کی خاطر… اب تو اس محل مـیں نہیں جا سکتی … شوکت نے اس کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھا۔

زینو کو چھڑانے کیـانوں نے جان توڑ کوشش کی … مگر وہ تو خود ہی ان کا حلقہ توڑ کے زمـیندار کے قریب آ گیـا تھا اور اس طرح سپاہیوں نے اس کو گھیر لیـا تھا۔

کسانوں کا فیصلہ اٹل تھا۔ اور وہ سرکا رکو شکست دے کر آئے تھے۔ انھوں نے سرکا رکے منہ پرزبردست طمانچہ مارا تھا۔ وہ ایک لڑکی کو ظالم ہاتھوں سے بچا کر لے ائے تھے۔ وہ اپنے کھیتوں مـیں بیٹھے سوچ رہے تھے اگر ہم نے اسی طرح حوصلے سے کام لیـا تو یہ کھیت ہمارے ہونگے ، یہ دانہ ہمارا ہو گا۔ یہ زمـین ہماری ہواور ہماری عزت منڈ یوں مـیں ے نہیں جائے… یہ تجربہ بہت کامـیاب تھا۔ یہ مقابلہ بہت سخت تھا جس مـیں ہماری جیت ہوئی۔ سرکار منہ کی کھا گئی سرکار کی شکست نےانوں کو اور مضبوط کر دیـا۔ ان کو اپنے آپ پر اپنی قوت پر اپنی طاقت اور سچائی پراور زیـادہ اعتماد ہو گیـا۔

اور آج کھڑکی مـیں کھڑی بھوری کو سب یـاد آ گیـا۔ اپنے کھیتوں کو دیکھ کے اور چاندنی رات کے سحر کو محسوس کر کے آج اُسکا ذہن زندگی کی ایک ایک بات کو دہرانے لگا۔ اس نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو دیکھا۔ مـیرا وجود آج بھی ویساہی پاکیزہ ہے جیسا شاید مـیری پیدائش پر ہو گا … اس نے سوچا … ہاں مگر ان ہونٹوں پر اب بھی زینو کے ہونٹوں کا لمس تازہ ہے۔ شانوں پر اب بھی زینو کے مضبوط ہاتھوں کا دباؤ باقی ہے اور د ل مـیں اب بھی زینو کے لئے ویسی ہی چاہت اور پیـار ہے۔ منگلو کہہ رہا تھا کل زینو چھوٹ جائے گا۔ اتنے زمانے بعد مـیں زینو کو دیکھ سکونگی۔ شوکت بھیـا کہتے تھے زینو کو سرکار خود نقصان پہونچا نا نہیں چاہتی زینوان سبھا کا آدمـی ہے۔ اگر زینو کو کچھ ہو گیـا تو زمـیندار کی خیر نہیں ہے۔ اسلئے سرکار زینو سے ہی نہیں ہم سب سے ڈر نے لگی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے زینو بہت دبلا ہو گیـا ہے۔ ہو جانے دو۔ مـیں زینو کو زندہ لینا چاہتی ہوں بس    پھر ہم دونوں کھیتوں مـیں کام کریں گے … کیسا مزہ آئے گا پھر… بھوری نے ہنسں کے دونوں ہاتھوں مـیں چہرہ چھپا لیـا۔ وہ سوچنے لگی پھر مـیںان سبھا مـیں مل جاؤنگی اور سرکار کو کمزور بنانے مـیں زنیو کے برابر حصہ لوںزندگی ہماری اپنی ہوان کھیتوں کی طرح … جھونپڑے مـیں پلے ہوئے پاکیزہ قدم ہر طرف پاکیزہبکھیریں گے … اور زمـینداروں کی منڈ ی مـیں خاک اُڑے…

٭٭٭

جوگیندر سنگھ اپنی پگڑی ٹھیک کرتا ہوا کا رکے قریب آیـا … اب وہ کافی بوڑھا ہو گیـا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی مـیں جھکا و پیدا ہو جانے کے باوجود وہ تن کر چلنے کی کو شش کرتا۔ داڑھی کو اسی طرح خوبصورت انداز مـیں گوندھتاجیسے وہ آج سے تیس سال پہلے گوندھتا تھا۔

اب اس کے کپڑے زیـادہ قیمتی ہوتے۔ یوں بھی جو گیندرسنگھ لباس کے معاملے مـیں اپنی نفاست اور خوش ذوقی کے ثبوت مـیں ہر روز ہم سب سے قمـیض ، پتلون اور ٹائی کے کلر مـیچنگ کیلئے داد حاصل کر لینا۔ اس کی گھنی داڑھی باریک بٹی ہوئی رسی کی طرح بالوں کے بیچ مـیں پڑی خوبصورتی سےی ہوئی بندھی ہوتی۔ اس کے ساتھ فیشن ایبل اونچی سوساٹی کی عورتیں اکثر دیکھی جاتیں۔

اب تو جوگیند رسنگھ نے ٹکسٹائیل ملز کی معمولی نوکری چھوڑ کے امپورٹ۔ اکسپورٹ کا بزنس اپنا لیـا تھا۔ اس کو برج اور رمـی کھیلنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ دیسی کو وہ ہاتھ بھی نہ لگا تا۔ اب وہ بہت بڑا آدمـی بن گیـا تھا۔ اپنی کوششوں اور چالاکی سے اس نے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو پیچھے چھوڑ دیـا۔ قیمتی گھڑی ، ہیرے کا ٹائی پن اور سونے کے کف لن، جیب مـیں قیمتی فونٹن پن اور باہر کی کے باٹلز کار مـیں ہر وقت رکھے رہتے۔

ہر چیز قیمتی اور کمـیاب تھی مگر اب جوگیندر خود بہت سستا نظر آتا! مـیں اس روپ مـیں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیـا۔

کیـا وہ ایک بڑا آدمـی بھی بن سکتا ہے۔ ؟ مجھے یقین نہ آیـا۔

مجھے یـاد ہے کہ مـیں اور جوگیندرسنگھ ٹکسٹائیل ملز مـیں ساتھ ساتھ کام کرتے تھے مـیں کا ٹن سلکڑتھا اور وہ ویونگ ماسڑ… اسوقت بھی اُسکی تنخواہ مجھ سے دوگنی تھی۔ ملز کا لونی مـیں اُسکو دو منزل بنگلہ ملا تھا اور فیکٹری کی طرف سے کا رکی سہولت بھی موجود تھی۔ اس نے دو بار جاپان جا کے وہاں کی صنعتی ترقی کے بارے مـیں معلومات حاصل کی تھیں۔ ہر ایک سے ہنس کے بات کرنا اب اُسکے لہجے کی خصوصیت تھی۔

کام کرنے کی ہمارے دلوں مـیں لگن ہی نہیں۔ جاپان مـیں بالکل بڑھے آدمـی بھی آرام لئے بغیر دیوانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ لائف انجوائے کرنا اسی کام کے بعد ممکن ہے۔

وہ کاندھے تھپتھپا کے ہنس ہنس کے اپنے  ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں مـیں کام کرنے کا جذبہ اُبھارنے کی کوشش کرتا۔ وہ خود بھی بڑا محنتی تھا۔ کام کے بعد اپنے گھر کے  ڈیکوریشن اور اپنے کمپونڈ مـیں پھیلے ہوئے چمن پر بڑی توجہ دیتا۔ مالی ہر وقت اس کی ہدایـات پر پریشان رہتے مگر جوگیندر سنگھ بڑا زندہ دل اور ہنس مکھ انسان تھا اسلئے اُسکے ساتھ کام کرنا بھی اچھا لگتا۔

کلب مـیں آتا تو بلیرڈز کے تین گیمس کھیلنے کے بعد گھر چلا جاتا اس کو رمـی یـا برج سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ رمـی کھیلنے والے دو دو تین تین راتیں ٹیبل پر بیٹھے بیٹھنے گذار دیتے مگر جوگیندر سنگھ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کے بھی نہ دیکھتا … وہ اُسکو بیوقوفوں کی جنت کہتا تھا۔ بغیر تھکے محنت کرنا ہی اس کی زندگی کا اُصول تھا۔

ا سکو اپنے وطن سے جنون کی حد تک پیـار تھا۔ ایسے لوگقدر گمنام ہوتے ہیں۔ مـیں اکثر سوچتا۔ اگر ایسے لوگوں کو حکومت کی مشنری مـیں جگہ مل جائے تو … مگر وہ اپنی جگہ اپنے فرائض خوبصورتی سے سنبھارہا تھا یہی کیـا کم تھا …اُس زمانے مـیں مسڑ دیسا ئی ملز کے جنرل منیجر تھے۔ ملز سے اکثر موریوں کے اندرسے ، وینٹی لیٹرز سے بیسیوں گز کپڑا چوری جاتا۔ سکیورٹی آفسیرنے ان چھوٹی چھوٹی چوریوں پر کڑی نظر رکھی تھی وہ سارے راستے بند کروا دئیے تھے جن راستوں سے کپڑا باہر جاتا تھا۔

پھر ان مزدوروں کی باقاعدہ جھڑتی ہوتی جن کی ڈیوٹی رات کی ہوتی۔

اس طرح چوریـاں بالکل ختم تو نہ ہوئی تھیں مگر کم  ضرور ہو گئی تھیں۔

ایک شام جو گیند رسنگھ ہاتھ مـیں ٹیلی گرام لئے مـیرے گھر آیـا آنکھیں سرخ تھیں ، بال پریشان ، ماتھے پر بکھرے ہوئے۔

کیـا بات ہے جوگیند ر… ؟ مـیں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے صوفے پر بٹھا دیـا۔

’’مـیری ماں ، مـیری ماں … یـار … ‘‘

’’کیـا ہوا تمہاری ماں کو … ؟‘‘ مـیں نے ٹیلی گرام اس کے ہاتھ سے لے لیـا اب اس کی ماں اس دنیـا مـیں نہیں رہ گئی تھی …

پھر جو گیندر بلک بلک کر رویـا۔ اس چھوٹے بچے کی طرح جوی مـیلے مـیں اپنی ماں سے بچھڑ گیـا ہو۔ جو گیند رسنگھ اپنی ماں کو بہت چاہتا تھا۔ چھٹی لے کے دیہات جاتے ہوئے وہ ماں کے لئے گرم شال ، اصلی شہد اور ڈوپٹوں کا ململ لے جانا کبھی نہ بھولتا۔

مـیں نہ اس کو تسلی دے سکا نہ سمجھا سکا۔ اس قدر ہنس مکھ چہرہ آنسووں مـیں بھیگ کراُداس ہو گیـا تھا۔ جن آنکھوں مـیں سدا مسکراہٹوں کے چراغ روشن دہتے تھے۔ وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں۔ بے نور سی۔

مـیں اس وقت سے اس کا گہرادوست تھا جب ملز کی بنیـاد پڑی تھی اور پہلے پہل کام شروع ہو ا تھا۔ مشینیں باہر سے آئی تھیں۔ برسوں سے ہم ساتھ کام کر رہے تھے۔

پنجابی ، مرہٹے ، بنگالی ، مہاراشٹرین ، گجراتی، مدراسی ،  بنگلوری ، نارتھ انڈینس ، ساوتھ انڈینس … سب ہی ایک جگہ کام کرتے تھے ایک دوسرے کے دوست تھے۔ رشتہ داروں سے زیـادہ اپنائیت اور یگانگت تھی آپس مـیں۔ اپنے اپنے شہروں سے دور یہاں ہم نے ایک ایسا شہربسا یـا تھا۔

جس مـیں مختلف مذہبوں ، مختلف طور طریق ، مختلف تہذیبوں اور مختلف روایـات رکھتے ہوئے بھی انسانیت کے ناطے ایک بندھن مـیں بندھے ہوئے ہم ایک دو سرے کے دکھ درد اور خوشیوں مـیں برابر کے شریک تھے۔ ملز مـیں کام کرنے والے ہر شام ایک دوسرے کے گھر جاتے کلب مـیں ملتے۔ تہواروں مـیں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے۔ اور ان مـیںی قسم کا کوئی دکھاوا  یـا بناوٹ نہ ہوتی۔

کسی طرح کا بھید بھاؤ آپس مـیں نہ برتا جاتا۔ ایسی جتنی فیکٹریـاں ہیں اور ان کے اطراف ہزاروں گھر دور تک پھیلے ہوئے ہیں وہاں ایسی ہی فضا و ہوا ملتی ہے۔

اس کی ماں کی موت پر مـیں بھی جوگیندرسے لپٹ کے پھوٹ پڑا۔

اسی رات مـیں اور جوگیندر دیہات چلے گئے۔

واپسی پر وہ بہت غمز دہ تھا۔ اس کو معمولی دلاسہ اور تکلیف پہنچاتا تھا اس کی ماں نے جوانی کی بیوگی مـیں پہلا اور آخری سہارایہی سنبھال کے رکھا تھا۔ بڑی بڑی مصیبتیں اور پریشانیـاں اُٹھا کے جوگیندر کی پرورش کی تھی۔ پڑھایـا لکھایـا تھا ، اچھی تربیت دی تھی۔ اور جو گیندر کو اس کا بہت احساس تھا۔ دیہات مـیں زمـینات کا کام وہی سنبھالی تھی۔

ہماری واپسی کی رات ملز مـیں بہت بڑی چوری ہو گئی۔ کا رجو گیندر سنگھ کی تھی جس مـیں ڈاکو پگڑیـاں پہن کے ملز مـیں داخل ہوئے تھے کپڑا اور نئی مشینوں کے ضروری پارٹس غائب کرنے والی ٹولی سکیورٹی آفیسر کے ساتھ ملز مـیں آئی اور پھر یہ ہنگامہ برپا ہوا سکیورٹی آفیسر نے اس تمام واقعہ سے لاعلمـی ، ظاہر کی تھی۔ جب جوگیند رسے واقعات پر روشنی ڈالنے کیلئے کہا گیـا تواس نے بتایـا کہ وہ تمام رات اس نے سفرمـیں گذاری تھی اور مـیں اس کے ساتھ تھا۔

ایک زمانہ تک چھان بین ہوئی اور جب جوگیندر نے ذاتی دلچسپی لے کرکیس آگے بڑھایـا اور تحقیقات مـیں خود حصہ لیـا تو پتہ چلا کہ سکیورٹی آفیسر اور جنرل مـینجر نے مل کر یہ کا روائی کی تھی۔

اسی زمانے مـیں جو گیند رکی منگیتر کی شادی کی دوسرے گھرانہ مـیں ہو گئی کیونکہ وہ اس شادی کو اسوقت تک ملتوی رکھنا چاہتا تھا جب تک اس چوری کے کیس کا کوئی فیصلہ نہ ہو جائے۔

دیسائی کے جانے کے بعد ہرنام سنگھ جنرل منیجر بن  کے آ گئے۔ ہر نام سنگھ اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ ہم سب نے کلب مـیں انھیں مدعو کیـا ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم سب نے مبارکباد دی۔ جوگیندر مبارکباد دینے آگے بڑھا تو مجھ سے ٹکرا کے کرسی پر گر پڑا اور پھر سنبھل کے پیچھے چلا گیـا۔

اُسی رات جو گیندر کے شیشے لئے مـیرے گھر آ پہونچا وہ بے تحاشہ پی رہا تھا۔ کبھی خوب قہقہے لگا که تا ، کبھی بلک بلک کے روتا ،کبھی جنرل مـینجر کو گالیـاں دیتا ، کبھی اس کی نئی نویلی بیوی کو تم کو ایسا نہیں کرنا چاہئے جوگیندر … تم ہمـیشہ سے ایک اچھے انسان ہو۔ تمہارا کٹر بے داغ ہے مـیرے یـار۔ تمہارا دل سچے موتی کی طرح خوبصورت ہے۔

اچھا آدمـی کیسا ہوتا ہے … ؟ آہاہا … ہاہا اس نے ہنسی اڑائی ارے بیوقوفی کو تم اچھائی کہتے ہو ؟ ہوں ؟

بے داغ کٹر کام آتا ہے … ؟ بو لو۔ بولو … مـیرا کالر پکڑ کے اس نے سرخ آنکھیں مـیری آنکھوں مـیں ڈال دیں۔ موتی جیسا خوبصورت دل مـیں نے اس سریندر کو رکو دیـا تھا جسکو بچپن سے دیوی بنا کے اپنے من مندر مـیں رکھ چھوڑا تھا اور آج وہ اس ہرنام سنگھ کی بیوی بن کر مـیری ویران زندگی کا مذاق اڑانے آئی ہے دیکھا تم نے قدر گہنے پہن رکھے تھے۔ ہر نام سنگھ کے نام کا سیندور اپنی مانگ مـیں بھر کر مـیری ، سونی راہوں مـیں دھول اڑانے آئی ہے۔

اُف … اُف … اس نےی ، ہوئی مٹھیوں سے اپنے ماتھے پر زور زور سے مارنا شروع کیـا۔

دوسرے دن جو گیند رکا استعفیٰ منیجر کی مـیز پر رکھا تھا۔ جوگیندر چلا گیـا … ایک زمانہ تک اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔

اور اب وہ مـیرے سامنے ایک برے آدمـی کے روپ مـیں آیـا تھا ی ، دھندے باز اور خود غرض بن کر …

اتنے اچھے انسان کو برا آدمـی بنانے کا ذمہ دارہے ؟

ہمارا معاشرہ … ؟ سریندر کور یـا  ہرنام سنگھ    …؟

کا راسٹا رٹ کر کے ریورس مـیں لیتے ہوئے دیر تک سوجچا رہا اور ہاتھ ملا کر اس کو خدا حافظ کہا۔

آج اس نے باتوں باتوں مـیں مجھے بتایـا تھا کہ ’’ دراصل کبھی عمر مـیں بڑا بیوقوف تھا۔ نا تجربہ کار ، دنیـاداری سے ناواقف ذرا سے دل ٹوٹنے پر رونے والے نا سمجھ بچے کی طرح … مگر اب  حالات نے سب کچھ سکھا دیـا ہے۔ ہم اس نظام مـیں اس طرح ایک دم تبدیل ہو کر ہی جی سکتے ہیں یـار … اس نے کہا تھا۔

یہ اس کی اپنی آواز نہیں تھی۔ وہ تو ایک اچھا انسان تھا۔ دوستی کی خاطر جان پر کھیل جانے والا … اپنے کٹر کے دامن سے چوری کا داغ دھونے کی کوشش مـیں محبوبہ کو کھو دینے والا۔

مجھے اس کی موت کا واقعی رنج تھا۔ اس کی شخصیت کی کوئی بھی اچھائی زندہ نہ بچ سکی تھی !

٭٭٭

جمناں نے آنکھیں کھول کے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کا شوہر چار پائی پر بے سدھ پڑا تھا دونوں بچے اس کے پیروں کے پاس سورہے تھے۔ اس کے بالوں کاا ہوا جوڑا کھل گیـا تھا وہ ہڑبڑا کے بستر سے اٹھ بیٹی۔ پھر کھڑ کی کھول کے باہر دیکھا۔ ابھی تک اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ہر چیز پر ابھی تک اندھیرے کا لحاف پڑا تھا۔

برقی پول پر بلب جل رہا تھا اور اس کی ہلکی روشنی چھوٹے سے آنگن مـیں پڑ رہی تھی سستی کی خالی بوتل چار پائی کے نیچے پڑی تھی۔ آنگن مـیں جھاڑو لگا نے کے بعد اس نے چولھا جلایـا۔ چاٹے بنا کے پی اور پھر رات کے بچے ہوئے پانی سے برتن دھوئے۔ ساری بکھری ہوئی چیزوں کو ترتیب سے رکھا۔

چاول پکائے۔ دال دھوکے ہانڈی چولھے پر چڑھا دی

آہستہ آہستہ رات کا سیـاہ لحاف کھیسکا کرسویراپھلیتا گیـا۔

اس نے بہو کو آواز دی ’’ دروازہ بند کر لے مـیں ڈیوٹی پر جا رہی ہوں اور بغیر جواب سنے وہ جلدی سے گلی پار کر کے سڑک پر آ گئی۔ صفائی کے دفتر جا کے ، جھاڑ و ، گمپے ( ٹوکرے ) لے کے وہ جمعدار کے بتائے ہوئے پتہ پر پہونچ گئی۔ ہمـیشہ پانچ چھ عورتیں مل کے چلتی تھیں۔ سبنر رنگ کی ہنڈ لوم ساڑیـاں جن کے سرخ باڈر تھے۔ وہ اوڑھنیوں کے طور پر استعمال کرتی تھیں ، جھاڑو کے بڑے بڑے کٹٹے جو اک خاص طریقہ سے بنائے جاتے جن سے لمبی چوڑی سڑکیں جھاڑ نے مـیں آسانی ہوتی تھی۔

جمعدار کچھ دیر بعد ہوٹل سے چائے و بن کھا کے کلے مـیں پان دبا کے سائیکل پر آتا۔ ان کے کام کی نگرانی کرتا۔ انھیں نئی نئی ہدایتیں دیتا۔ ہر جھاڑنے والی عورت یـا مرد اس کو اپنی تنخواہ سے پچاس روپئے دے دیتے تاکہ جمعدار وقت پران کی حاضری رجسڑ مـیں درج کر دے۔ پیسے نہ دینے کی صورت مـیں خوف و دہشت کے علا وہ نوکری ہر وقت خطرہ مـیں نظر آتی۔

جمعدارسے بڑا انسپکٹر تھا ایسی عورتیں جو صفائی کے دفتر مـیں ملازمت کرتی تھیں مگر کبھی سڑکیں جھاڑ نے نہ آتی تھیں گھر بیٹھے گیـارہ سوروپئے مل جا تے تھے۔ انسپکٹر صاحب کے تین سوروپئے اس تنخواہ سے مقرر تھے۔ جمعدار سوروئیے لیتا تھا ایسی عورتوں سے مقررہ تنخواہ انسپکٹر اور جمعدار کواس لئے ملتی تھی کہ وہ ان عورتوں کی غیر حاضری کو کامـیاب اداکاری سے چھپائے رکھتے۔ انسپکٹر سے کوئی پو چھتا تو وہ  بتاتا کہ آجکل اس کی ڈیوٹی بشیر باغ پر لگا دی گئی ہے یـاوہ پنجہ گٹہ مـیں ڈیوٹی کرتی ہے۔ اوپر والے عہدہ دارا تواس سے زیـادہ نئی نئی ترکیبوں اور منصوبوں مـیں ملوث تھے۔

مگر جمناں کو ان تمام باتوں سے کیـاسروکار تھا۔ وہ پندرہ برس سے کام کر رہی تھی اور پابندی سے اپنے عہدہ داروں کی مٹھی گرم کر رہی تھی اس طرح اس کی نوکری ایکساں بغیر ریکارڈ خراب ہوئے چل رہی تھی۔ اس نوکری مـیں سب بڑی شرط منہ بند رکھنا تھی۔

ویسے وہ نہ صرف نوکری مـیں بلکہ گھر مـیں بھی منہ بند رکھنے کی شرط پر عمل کرتی تھی۔ اس کا شوہر اس کی تنخواہ کا بڑا حصہ پی کھا کے اڑا دیتا۔ لے پالک لڑکا اور بہو اس کے پیسوں پر عیش کرتے۔ ایک کمرہ اور پتلے سے ورانڈے کا گھر اس نے اس زمانہ مـیں بنایـا تھا جب ہر چیز آسانی سے اور کم مہسول مـیں مل جاتی تھی۔ اب تو مرمت کروانا بھی مشکل تھا۔ لے پالک لڑکے کی شادی کا قرض بھی وہی برسوں سے اتار رہی تھی۔ جس مہینہ مـیں زیـادہ تنگی محسوس ہوتی وہ اپنے گلے کے سونے کے ’’گنڈلو‘‘ی ساہوکار کے پاس گروی رکھ دیتی۔ اس کے پیروں کے آدھ سیر وزنی چاندی کے توڑے پچاس روپئے مـیں ڈوب گئے تھے۔ یہ ڈوب جانا بھی یوں ہوتا کہ جب سود کی ندی چڑھتے چڑھتے باڑھ بن جاتی تو چھوٹی موٹی چیزوں سے لے کر سونے چاندی تک اس باڑھ مـیں ختم ہو جاتی، بہہ جاتی۔

امـیر بننے کا کیسا آسان طریقہ ہے یہ … وہ سوچتی۔

وہ جس محکمہ مـیں کام کرتی تھی اس کے بل کلکٹر بھی لکھ پتی تھے۔ پیسے اینٹھنے کی ترکیبیں تو یہاں کے بابو لوگ جانتے ہی تھے۔

کروڑ ہا روپئے کی رقم کا حساب کتاب برابر ہو جاتا تھا۔

معمولی جمعدار، انسپکٹر اور بل کلکٹر کے کئی کئی منزلہ پختہ مکان تھے جو کرایہ پردے رکھے تھے ان لوگوں نے۔

’’اس طرح پیسہ کمانے اور اس کو صحیح مد مـیں لگانے کا ہنر بھی جانتے ہیں ہم…‘‘ ایک دن بل کلکٹر نے انسپکٹر سے کہا تھا۔ تب ہی وہ دونوں کے لئے سامنے والی ہوٹل سے چائے  لے آئی تھی اور اس کو بیوقوف و جاہل سمجھ کے وہ دونوں گفتگو مـیں مصروف رہے۔ وہ اپنی عمر، تجربہ اور عقل سے تو یہ بات سمجھ لیتی تھی مگر ایسی باتیں کرنا، یـا سمجھانا اس کو نہیں آتا تھا۔ بس اس کی زندگی مـیں تو ایک ہی جیسی اندھیری صبح تھی جب وہ جاگ جاتی تھی۔ جلدی جلدی اپنے حصے کا کام  نمٹا کے وہ صفائی کے دفتر جاتی۔ جمعدار بڑا ایماندار آدمـی تھا۔ پیسے لیتا تھا تو کیـا ہوا۔ حاضری بھی ہو صحیح وقت کی ڈالتا تھا۔ چاہے سات بجے جاؤ، حاضری تو پانچ بجے صبح کی پڑتی تھی۔ کبھی بہت دور جھاڑو و گمپے اٹھا کے پیدل جانا پڑتا۔ کبھی دو مـیل دور کی سڑکیں جھاڑو، کبھی چار مـیل دور کی … نوکری تو نوکری ہی ہے۔

جس گھر کی عورتیں پیسہ کما کے لاتی ہیں ، اس گھر کے مردوں مـیں نسوانیت بڑھ جاتی ہے۔ حکیم صاحب اکثر ہنس کے اپنے ساتھی سے کہا کرتے جن کے مطب کے آگے وہ روز جھاڑو لگاتی تھی جب جمناں نے ہاتھ جوڑ کے مطلب پوچھا وہ بولے ’’بھئی جب عورتیں مرد بن کے مـیدان مـیں آ جائیں تو مرد شرما کے منہ پھیر ہی لیں گے ، تم کماتی ہو تو تمہارا مرد گھر مـیں کھاٹ پر پڑا اینٹھتا ہو گا، اس کو کیـا پڑی ہے کہ محنت کرے۔

دل ہی دل مـیں جمناں قائل ہو گئی۔ حکیم صاحب کی قابلیت اور اندازے کی… جھاڑو سے سڑکوں کی دھول اڑتی رہتی اور اس کے بالوں پر جمتی رہتی۔

صبح کب ہوئی، پنچھی گھونسلوں سے کب اڑے ، کرنیں پھولوں پر کب چمکیں اندھیرے کا لحاف کب تار تار ہوا۔ اسے کچھ خبر نہ ہوتی۔ پانچ بجے صبح سے پیٹھ جھکائے وہ سڑکیں جھاڑتی تھی۔

لوگ قدر گندہ اور غلیظ کر دیتے ہیں سڑکوں کو… سڑی بسی سبزیوں کا ڈھیر، اخبار کاغذ اور پھٹی ہوئی پالی تھِن کی تھیلیـاں۔ دھجیـاں ، باسی کھانے اور سالن کی بدبو… جگہ جگہ پان کی پیک، جانوروں اور انسانوں کی غلاظت! وہ اپنا جی مار کے صفائی کرتی رہتی کوڑے کے ڈھیر جانے کتنے دنوں سے نہیں اٹھے … حلق مـیں متلی و جلن کا احساس ہوتا۔ وہ ابکائی روک لیتی۔ وہ بھی تو انسان ہے صبح پانچ بجے سے دس بج جاتے۔ وہ پسینہ و دھول مـیں نہا جاتی جب جھاڑو رکھ سر اٹھاتی تو بس ملنے اور گھر جانے کی جلدی ہوتی کبھی بس نکل جاتی تو بس کے ساتھ ساتھ اس کی جان بھی نکل جاتی۔

پھر دو بجے اس کو دفتر مـیں رپورٹ بھی دینا ہے۔ پانچ بجے وہ گھر پہنچے گی۔ نہا دھو کے کپڑے بدل کے وہ انجینیر صاحب کے باغیچے مـیں درختوں کو پانی دے کر گھر آئے گی، تھکی ہاری …

آدھی رات کو جنگیـا کی بھاری آوازیں اس کا سکون برباد کر دےاس کیی بات کا جواب دےتو وہ دانت کچکچا کے اسے مارنے دوڑے گا آخر وہ اپنے احساس  کمتری کو طرح دور کرے ؟ ہر روز کی طرح وہ بار بار دہرائے گا۔ ایک ہی سوال ’’مجھے اس کوٹر دلائےیـا نہیں ؟ بول کب دلائے گی؟ سینکڑوں روپئے کماتی ہے مگر اپنے مرد کو نہیں دیتی۔ کیـا کرتی اس پیسے کا؟ کو دیتی ہے ؟ہے وہ؟

وہ خاموش بیٹھی رہےجیسے بہری ہے ، گونگی ہے۔ سارے گھر کو سنبھالنے والی، اپنے گھر آ کے معذور و مجبور بن جاتی ہے ورنہ وہ مار مار کے بال کھینچ کھینچ کے اس کو ادھ موا بنا دیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بیٹھے بیٹھے روٹی توڑنے والا اس طرح ظلم کرتا ہے۔ ہزاروں گھر ہیں ایسے جن مـیں یہی مجبوری و محتاجی ہے۔

عورتوں کے نصیب مـیں گھر بار سنبھالنے کی یہ سزا ضرور لکھی ہے۔ وہ روئے گی، سسکیـاں لےاور اپنے بستر پر پڑ رہے گی۔

اس صبح کے انتظار مـیں جو کبھی نہیں آئی۔ اس روشنی کے انتظار مـیں جو کبھی نہیں پھیلی۔ اس زندگی پر تو مہیب سائے منڈلاتے رہے۔ امـید کی کرن ان سایوں مـیں چمکتی رہی۔ شاید … شاید کبھی ایسی صبح آسمان کے دامن سے جنم لے جو ساری دنیـا مـیں اجالے اور خوشیـاں بھر دے۔ ہر چند خوبصورت و سہانی لگے دور دور تک اندھیرے کا نام و نشان نہ ہو۔ انسان ایک دوسرے پر بہانے بنا کے ظلم نہ کر سکے۔ محنت و جان توڑ محنت کے بعد تسلی اور سکون مل سکے۔ آرام و راحت کا احساس ہو۔

یہ نہیں کہ سویرا ہو اور اجالا نہ پھیلے ، سورج نکلے مگر روشنی نہ ہو کرنیں صرف اندھیرے کو چمکا دیں۔

دل پر بوجھ نہ ہو، زندگی وزنی پتھر بن کر شانے پر دھری ہو۔ انسان جو سوچے وہ کبھی تو پورا ہو۔ مگر کیسے ؟ وہ سوچتی رہی۔

مـیری زندگی مـیں تو بس رات کے گزرتے ہی اور ایک رات آ جاتی ہے کب سے ترس رہی ہوں روشنی کے لئے۔

زندگی ہے تو دھول، اور غلاظت بھری …گھر ہے تو ایساجس مـیں کوئی اپنا نظر نہیں آتا۔ آخر سب ہی کو کھلا کے تو کھاتی ہوں صرف اپنے لئے محنت نہیں کرتی۔ اس گھر کے لئے مرتی ہوں مگری کی آنکھوں مـیں مروت نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی غرض کے لئے مـیرے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ سوتی ہوں تو نیند مـیں بھی بے چین رہتی ہوں جیسے اندھیرے مـیں کچھ ٹٹول رہی ہوں۔ کیـا مجھے روشنی نہیں ملے گی؟ گھپ اندھیرے کے بعد کیـا کبھی اجالا نہیں پھیلے گا؟

اجالا ضرور پھیلے گا۔ رات کے بعد ہی تو دن نکلتا ہے

مـیری زندگی کا دن بھی آئے گا۔ وہ دن قدر چمکیلا اور سہانا ہو گا پھر اندھیرے مـیں پلنے والی ساری بدصورتی ختم ہو جائے گی۔ تیز دھوپ ساری گندگی اور غلاظت چوس لے، روشنی اندھیرے پر پھیل جائے گی۔

سوچتے سوچتے وہ سوگئی تھی، صبح کے انتظار مـیں

روشنی کے آرزو لئے۔

٭٭٭

جوبلی ہلز بہت خوبصورت جگہ ہے یہاں دو نیلی نیلی حسین جھیلیں ہیں۔ کنول راج اور نندن سر۔ ان کے کنارے سبز کائی مـیں چھپی ہوئی چٹانیں ہیں اور دور تک پھیلا ہوا سبزہ۔ یہاں برستا کا حسن نکھر جاتا ہے لہریں لیتا ہوا پانی بیقرار موجوں مـیں تبدیل ہو جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی موجیں جو تڑپتی ہیں۔ اچھلتی ہیں اور پھر سوجاتی ہیں۔ سوتی جاگتی لہریں ، چھل چھل، ایک تڑپتا ہوا نغمہ جس مـیں برسات کا پر شور ابھار ہوتا ہے۔ کنارے مخملی ڈوب پر ننھے قطرے ، پڑے تھرتھراتے رہتے ہیں۔ سورج کی شعاعوں مـیں نہائے رنگین قطرے۔ جو جمع ہو کر بھی جھیل مـیں گر جاتے ہیں۔ نئی لہریں بن جاتے ہیں۔

یہ جھیلیں جن کی گہرائی کو آنکھیں کھولے دیکھتے رہنے مـیں بڑا لطف آ جاتا ہے جیسے آئنہ گھما کر نئے نئے منظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے ہی اس جھیل مـیں کائی سے لپتی چٹانیں ، کچی سڑک پر اکا دکا چلتے آدمـی اور آفتاب کا دہکتا ہوا چہرہ، سب ڈولتے رہتے ہیں اور چاندنی راتوں مـیں اس مـیں جھلملاتے تاروں اور پورے چاند کا واقعی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ان سے کرنیں پھوٹ کر ننھے گرداب پر پھیلتی ہیں۔ تارے سرک سرک کر اس کنارے سے اس کنارے تک جاتے ہیں۔ لرزتے ، کانپتے ستارے۔

جب مـیں زندگی کی یکسانیت سے اکتا جاتا ہوں توسنیما دیکھنے یـا سڑکوں پر آدھی رات تک آوارہ گھومنے کے بجائے جوبلی ہلز چلا جاتا ہوں گھنٹوں چٹان پر بیٹھے آنکھیں کھولے ان جھیلوں مـیں ان کی نیلی گہرائیوں مـیں دیکھا کر که تا ہوں … اور صبح مـیری گردن اکڑی اکڑی محسوس ہوتی ہے اور مـیں بڑی دیر تک اپنی گردن سہلاتا رہتا ہوں مگر نہ جانے ان جھیلوں مـیں کیـا جادو ہے کہ مـیں کھنچا چلا جاتا ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نیلی گہرائیوں سے اپنا گلابی ہاتھ نکالے بلاتا ہے ، اشارے کرتا ہے۔

پھر ایک دن راک کاسل ہوٹل مـیں چائے پیتے ہوئے مـیں نے دو نیلی آنکھیں دیکھیں شاداب غنچے کی طرح کھیلے ہوئے سرخ ہونٹ اور ملائم نازک ہاتھ۔ گرے اسکرٹ اور سرخ بلاؤز۔ مـیں نے گرم چائے کی پیـالی ہونٹوں سے لگا لی اور ا سکی طرف کن انکھیوں سے دیکھا … اور وہ مـیری طرف دیکھ رہی تھی مگر مـیری طرح کن انکھیوں سے نہیں بلکہ حیرانی سے۔ اس کی بھوئیں چڑھی ہوئی تھیں اور آنکھیں حیرانی سے کھلی ہوئی۔ شاید مـیرے مسلسل گھورنے پر اس کو تعجب ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ رہی ہوکہ عام ہندوستانیوں کی طرح عورت کے معاملہ مـیں ، مـیں بھی مـیں بھی گونگا ہوں جو صرف خوبصورت عورتوں کو گھور سکتا ہے ، پیـار بھری نظریں قربان کر سکتا ہے مگر زبان سے کچھ نہیں کہتا۔ مسکراتا ہے مگر بے باکی سے دلی جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔

مـیں نے چائے کی پیـالی مـیز پر رکھ دی۔ شیشے کی مـیز پر اس کا  پر تو پڑ رہا تھا مرمریں جسم، شانوں پر بکھری لٹیں جن سے ایک سرخ کلی جھانک رہی تھی اور بے چین، بے کل آنکھیں جن مـیں دو جھیلیں بند تھیں۔ مـیں نے نظر اٹھا کے پھر اس کی طرف دیکھا اور اس نے مـیری طرف۔ ان آنکھوں مـیں عجیب سی تحریر تھی جیسے اس کو مـیری جھجک پر ہنسی آ رہی تھی، مـیری بے بسی پر ترس کھا کے  اس نے غور سے مـیری طرف دیکھا اور مـیں بھی بڑی دیر تک اس کی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈالے سامنے چائے کی خالی پیـالی رکھے بیٹھا رہا۔

’’بیرا‘‘ دفعتاً وہ اٹھ کھڑی ہوئی

’’یس مـیڈم‘‘ بیرا ہوٹل کے آخری کونے سے تیز تیز قدم رکھتا  آیـا۔

لڑکی کے ہونٹ ہلے بالکل اس انداز سے جیسے رنگین کلی چٹک جائے۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی مـیں نے مسکراتے ہوئے بیرے سے کہا جاؤ کچھ  بسکٹ لاؤ، بٹر سیڈس، کیک اور جو تمہارا جی چاہے۔

بیرا ہنس پڑا۔ جو مـیرا جی چاہے ؟ ایں سر

’’ہاں جو تمہارا جی چاہے ‘‘۔ جاؤ۔ مـیں نے تیز لہجہ مـیں کہا تو وہ چلا گیـا۔ مـیں نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔

’’آپ کو جلدی نہ ہو تو بیٹھ جائیے ، پلیز، مـیرے ساتھ ایک چائے اور …‘‘ اس نے تعجب سے مـیری طرف دیکھا جیسے اسے مـیری قوت  گویـائی پر شبہ ہے۔ جیسے گونگا یک بول اٹھے۔

مگر جلدی ہی ایک نیـا رنگ اس کے چہرے پر پھیل گیـا۔ اس کی نظروں کی حیرانی مٹ گئی اس کی جگہ حقارت تھی، احساس  برتری تھا۔ اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں ’’تم ہندوستانی ہونا؟ ہندوستانی بہت بدتمـیز ہوتے ہیں۔ ان کو ملنے ملانے کا ایٹی کیٹ نہیں معلوم ہوتا، یعنی بغیر متعارف ہوئے تم قدر بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوں۔ گنوار، اجڈ، جاہل ہندوستانی ‘‘۔

مـیں نے لڑکی کے اس جذبہ کی طرف قطعاً توجہ نہیں دی جو طوفان کی طرح اٹھا تھا۔ اس کے دل سے آنکھوں مـیں اور پھر آنکھوں سے چہرے پر اتر آیـا تھا۔ اس کے دونوں ابروؤں کے درمـیان جلد کی سلوٹ مـیں ایک رگ غصہ سے پھڑک رہی تھی۔ مـیرا جی چاہا اس رگ کو اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں سے چوم لوں۔ اس طرح اس کا غصہ اتر سکتا تھا مگر مـیں اس جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہتا تھا۔ بلکہ اس لمحے کا انتظار کرنا چاہتا تھا۔

بیرا اپنی پسند سے نہ جانے کیـا کیـا اٹھا لایـا تھا۔ مـیں نے بٹر سیڈس کی پلیٹ اس کے سامنے سرکا کر حکم یـا

’’لیجئے ‘‘

اس نے بادل ناخواستہ اپنی گداز انگلیوں مـیں تھام لیـا۔ ہونٹوں تک لائی پھر بولی۔

تمہارا نام کیـا ہے ؟

’’رنچو  ‘‘ مـیں نے جواب دیـا۔

’’رنچو‘‘ وہ آنکھیں پھاڑ کے پوچھنے لگی

’’ہاں۔ اتنا لمبا تڑنگا ہو گیـا ہوں مگر ماں پیـار سے پکارتی ہے۔ دراصل ہندوستانی ماؤں مـیں ممتا بہت ہوتی ہے نا!‘‘

’’تمہاری ماں کیـا کرتی ہے ؟ ‘‘

برتن مانجھتی ہے ، کھانا پکاتی ہے ، بچے پالتی ہے اور آدھی رات تک مـیرے بوڑھے باپ کے پیر دباتی ہے۔

چھی …بڑی گندی زندگی ہے۔ وہ بناوٹی لہجے مـیں بولی۔

’’تمہارا نام کیـا ہے ؟‘‘ مـیں نے اس کی نفرت کو نظر انداز کر کے پوچھا

’’مرلن‘‘ وہ مدھم آواز مـیں بولی، اس نے ننھے سے رومال سے ہونٹ پونچھے ان پر زبان پھیری۔ ہونٹ گیلے ہو گئے ، شگفتہ ہوئے ان مـیں رس بھر گیـا۔ اب وہ باتیں بھی کر رہی تھی، بسکٹ بھی کھا رہی تھی اور لہجے مـیں بیزاری بھی نہیں تھی۔ عورت بھی کیـا چیز ہے۔ مـیں نے سوچا۔

عورت کہیں کی ہو، کہیں بھی ہو عورت ہی رہتی ہے۔ پہلے رعب ڈالےبیزاری سے منہ پھیر لے گی۔ وقار تمکنت کی دھونس جمائے گی، تکلف برتےپھر گھل مل جائے گی۔ باتیں کرےاور بسکٹ کھائے گی۔

یہی سوچ کے مـیں ہنس پڑا۔

مرلن بولی ’’تم اتنی زور سے کیوں ہنستے ہو‘‘؟

’’اس لئے کہ مجھے نیلی جھیلوں سے عشق ہے اور جب مـیں آنکھیں کھولے ان کی گہرائیوں مـیں دیکھتا ہوں تو فرط مسرت سے ایسا ہی گونجتا ہوا قہقہہ مـیرے ہونٹوں سے پھوٹ پڑتا ہے ‘‘۔

’’جھیل…‘‘ وہ حیران لہجہ مـیں بولی ’’یہاں کہاں ہے جھیل‘‘؟

’’تمہاری آنکھوں مـیں ‘‘۔

وہ یوں دیکھنے لگی جیسے مـیں پاگل ہوں۔

آنکھوں مـیں بھی جھیل ہوتی ہے ؟ اس نے بڑی معصومـیت سے پوچھا

مـیں نے جھلا کر کہا ’’تم بات کی لطافت کو نہ سمجھ سکو گی‘‘۔

اور وہ خاموش ہو گئی۔

……

اس ملاقات کے بعد مرلن مجھ سے قریب آتی گئی۔ اس کی نفرت فنا ہو چکی تھی اور نفرت کے مٹے ہوئے احساس پر محبت کا نیـا احساس گہرے نقوش ابھارتا رہا۔ پہلی ملاقات مـیں پیـار کا جو بیج بویـا تھا اس کی کونپل، بڑھتی رہی، ہری بھری شاخیں ، چکنے تازہ پتے اور موٹا مضبوط تنا۔ بڑی بڑی جڑیں جو پودے کو درخت مـیں تبدیل کر چکی تھیں۔

ایک بار مل لینے کے بعد نہ معلوم کتنی بار مـیں مرلن سے ملا اور پھر جوبلی ہلز کی جھیلوں نے مجھے کبھی نہیں بلایـا اور نہ مـیں ان کی طرف کھنچا ہوا گیـا۔

ان جھیلوں سے زیـادہ خوبسورت پیـاری جھیلیں مجھے مل گئی تھیں۔

گہری، عمـیق جن کی تہہ کا پتہ ہی نہ چلتا تھا۔

مـیں جھکا ہوا، آنکھیں کھولے ان جھیلوں مـیں دیکھتا رہا اور مرلن مـیرے شانے سے سر لگائے بیٹھی رہی اور چار سال گزر گئے ان چار سالوں مـیں مـیری زندگی کے ہزاروں یـادگار لمحے چھپے ہوئے ہیں وہ مدت اپنے دامن مـیں زندگی کی جنت سمـیٹ لے گئی۔ ایک ایک لمحہ اب تک مـیرے ذہن مـیں جوں کا توں محفوظ ہے۔

ایک زمانہ گذر چکا ہے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل ہی تو مـیں مرلن سے متعارف ہوا تھا۔ مـیرے ہونٹوں پر اب تک مرلن کے گرم شیریں ہونٹوں کا لمس زندہ ہے وہ حیران ، کھوئی کھوئی سی لڑکی جس کے گالوں کا رنگ کشمـیر کے سیبوں کی طرح سرخ تھا، جس کی آنکھوں جوبلی ہلز کی جھیلوں کی نیلاہٹ تھی۔جس کے ہونٹوں مـیں گلاب کے ادھ کھلے غنچوں کی ملائمت و تازگی تھی جس کے سینے کی دھڑکنیں بارہا سن چکا تھا۔ جس کی آنکھوں مـیں مـیرا ہی پرتو رہتا تھا۔ وہ اکثر ہری ہری لمبی گھانس پر بیٹھی مجھ سے کہا کرتی رنجو … مـیری آنکھوں مـیں دیکھو۔ہے اور مـیں مرلن پر جھک جاتا  جیسے آئنہ دیکھ رہا ہوں اور وہ غور سے پلک جھپکے بغیر مجھے دیکھتی رہتی۔

چودھویں رات کا پورا چاند نکل آیـا تھا۔ ہر طرف نور کی بوچھار ہو رہی تھی رات کی رانی کی مہک ہوا کے تیز جھونکوں سے دور تک پھیل رہی تھی اور مرلن مـیرے پاس آ گئی تھی اس نے سفید بلاؤز اور سیـاہ اسکرٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی سفید پنڈلیـاں کھلی ہوئی تھیں۔

وہ رات ہم نے بوٹ کلب مـیں گذاری۔ ایک چھوٹی سی کشتی مـیں مـیں نے مرلن کو بٹھا دیـا اور قریب بیٹھ گیـا۔ وہ کانپتی ہوئی آواز مـیں اپنے دیس کا نغمہ الاپ رہی تھی۔

مـیں اور تم دونوں آسمانی فرشتے ہیں

اڑتے ہوئے امن کے پنچھی ہیں

جو پیـار کرتے ہیں اور سکون چاہتے ہیں

مگر سکون زندگی مـیں نہیں ہے

سکون موت کی وادی مـیں ملتا ہے

یہ نہ گاؤ مرلن۔ آج چاندنی رات ہے اور تم موت کی باتیں کر رہی ہو۔

مرلن نے مـیرے شانے سے سر لگا دیـا اور سسکی لی۔

’’مرلن …مرلن ڈیر‘‘ مگر مرلن چپ تھی۔ نیلی جھیلوں مـیں جوار بھاٹا چڑھ رہا تھا اور پھر سیلاب بہہ نکلا۔

رنجو… کیـا تم کو نہیں معلوم ہے کہ جنگ شروع ہو چکی ہے  نہ معلوم دنیـا سے جنگ کی بلا کب دور ہو گی۔ مـیرا باپ فوج مـیں کیپٹن ہے اس کی چٹھی آئی ہے کہ جلدی دیس پہونچو ورنہ راستے بند ہو جائیں گے۔ اب ہم دیس جا رہے ہیں رنجو، اس لئے آج رات مـیں تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ مـیری ماں کو ہندوستانیوں سے شدید نفرت ہے۔ ڈانس ہال مـیں مجھے گوری نسل کے انسانوں کے جسم سے جسم لگائے سب کے سامنے ناچنے کی مکمل آزادی ہے مگر ایک ہندوستان کے ساتھ مـیری یہ آزادی برقرار نہیں رہ سکتی۔ صرف ان سے مـیٹھی باتیں کر کے مـیری ماں انھیں لوٹنا چاہتی ہے۔ پچھلے ہفتے ایک ہندوستانی نے مـیری ماں کو سونے کی ایک چھوٹی سی مورتی تحفتاً دی۔ اس وقت تو اس نے بہت تعریف کی مگر اس کے جاتے ہی فوراً بولی

’’بے وقوف۔ کالا آدمـی‘‘

مگر سب ایک جیسے نہیں ہوتے رنجو ڈارلنگ۔ ہمارے دیس مـیں جنگ بازوں کے ساتھ ساتھ امن پسند بھی موجود ہیں۔ کل مـیں اور مـیری ماں دونوں چلے جائیں گے۔ ہماری کوٹھی ویران ہو جائےاور باغ کے سارے پودے شاید سکوھ جائیں گے۔ تم راک کا سل ہوٹل مـیں اکیلے جاؤ گے۔ تم بوٹ کلب بھی شاید کبھی نہیں جاؤ گے۔ اس چھوٹی سی کشتی مـیں کبھی نہیں بیٹھو گے۔ تم بہت پر خلوص ہو۔ تم ہندوستانی ہو اور ہندوستانیوں کا دل بہت نرم ہوتا، ان کو نیلی سے پیـار ہوتا ہے ، مـیں سات سمندر پار چلی جاؤں گی۔ مـیں شادی نہیں کرونگی۔ مـیں وہاں جا کے انقلابیوں مـیں مل جاؤنگی۔ مـیں یوروپین ہوں ، مـیں امن چاہتی ہوں۔ تم ہندوستانی ہو۔ تم امن چاہتے ہو بالکل ایسا ہی امن جو اس چھوٹی سی کشتی مـیں مـیسر ہے۔ ہماری کوٹھی کے پاس والی کوٹھی مـیں ایک امریکن بڑھیـا رہتی ہے۔ جنوبی امریکہ مـیں اس کے گیـارہ بیٹے ہیں۔ تین فوجی ہیں اور آٹھ امن چاہتے ہیں۔ کل رات وہ رو رہی تھی مگر رنجو! جنگ کروانے والے امن کیوں نہیں چاہتے ، کیـا اس لئے کہ رنجو اور مرلن الگ ہو جائیں۔ اس لئے کہ انسان بوڑھا ہوکے بھی اپنے جوان فوجی بیٹوں کی لاش پر آنسو بہائے ؟ کیـا خدا انسان کو اسی لئے تخلیق کرتا ہے کہ وہ بلاوجہ مار ڈالا جائے ؟  یہ کیسی مجبوری ہے۔ اب تم مجھ کو خط بھی نہ لکھ سکو گے۔ راستے بند ہو جائیں گے۔ پھر ہم دونوں مل بھی نہ سکیں گے۔ آہ۔ پھر کیـا ہو گا؟

وہ رات بھر مـیرے سینے سے سر لگائے بڑبڑاتی رہی۔ مـیں نے اس کے آنسو پونچھ دیئے۔ اس کے سنہری بالوں کے لچھے سلجھا دیئے۔ اور صبح مـیں اس کو راک کا سل ہوٹل لے آیـا۔ وہی چند بیوقوف ہیرا ، وہی ہوٹل ، وہی مرلن اور وہی مـیں۔ مگر مرلن کے چہرے پر بیزاری نہیں تھی بلکہ کرب و اضطراب گھلا ملا سا تھا۔ اس کے سرخ ہوئے سوجے ہوئے تھے اور آنکھوں مـیں نمـی تھی۔

مـیرا حال بھی خراب تھا۔ جیسے کوئی مجھ سے مـیری زندگی چھین لئے جا رہا ہو۔ مـیرے سینے مـیں خشک ریت سی پھنس گئی تھی۔ مجھے اپنی پریشانی کا خود اندازہ نہیں تھا۔ مـیں خالی الذہن مـیز کے موٹے شیشے ہر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ آج اس نے دانستہ وہی سرخ بلاؤز اور گہرے اسکرٹ پہن رکھا تھا جو پہلی ملاقات کے وقت اس کے جسم پر تھا مگر وہ خود پہلے سے ہزار گنا بدلی ہوئی تھی۔ اسد کی لٹیں بکھر گئی تھیں مگر ان مـیں کوئی پھول نہیں تھا۔ اس کے ہونٹ ، خشک تھے ، اس کی باتیں ادھوری تھیں۔ اور مـیں قدر پریشان تھا۔ مـیں نے کہا۔

جاؤ مرلن اپنے دیس چلی جاؤ مـیں نے بچپن سے اب تک زندگی اتنی تکلیفوں اور مصیبتوں مـیں گذاری ہے کہ اب مـیں اذیت پسند ہو گیـا ہوں۔ ہاں اس تاریکی مـیں تم ایک تابناک ستارا بن کر چمکیں اور پھر اندھیرا ہو رہا ہے تابناکی کے بعد کا اندھیرا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر مـیں اس کا عادی ہوں۔ اس لئے مجھے زیـادہ الجھن نہیں ہو گی۔

مـیں اسے ایر پورٹ چھوڑنے گیـا اور خدا حافظ کہنے سے پہلے مـیں نے اس کی آنکھیں چوم لیں۔ وہ گہری نیلی آنکھیں جن مـیں مـیری چار سال کی خوشیـاں اور مستقبل کی ویرانیـاں تیر رہی تھیں۔

مجھے مت بھولنا رنجو۔ وہ جذبات مـیں ڈوب کر بولی۔ تم نہیں بھولو گے تم ہندوستانی ہو۔ چاہت تمہارے خون مـیں رچی ہے۔

مـیرے اور مرلن کے درمـیان سات سمندر حائل ہو گئے۔ ابھی ابھی مرلن مجھ سے اتنی قریب تھی کہ مـیں اس کی معطر لٹوں کو دیکھ رہا تھا۔

اس کی گرم سانس محسوس کر رہا تھا اور ابھی وہ مجھ سے اتنی دور ہو گئی جیسے کبھی مـیرے قریب نہیں آئی تھی جیسے مـیر لئے اس کا وجود ہی نہ تھا۔

مـیں گھبرا کر جوبلی ہلز بھاگا۔ اپنی وحشت کو جو بلی ہلز کی جھیلوں مـیں گھول دینے کیلئے۔

مگر چٹانوں کی سبز کائی سیـاہ دھبوں مـیں تبدیلی ہو چکی تھی۔ جھیلیں خشک ہو چکی تھیں۔ ایک بوند بانی بھی نہ بچا تھا۔ ان کی گہرائیوں کا مجھے اب پتہ چلا۔ زیـادہ گہری نہ تھیں مگر پانی کی نیلاہٹ ان کی تصورات گہرائی تک پہونچے نہ دیتی تھی۔

پانی کی جگہ اب ہیلی بہتوں اور سرخ پھولوں والی جھاڑیـاں اُگ آئی تھیں جن مـیں لمبے کانٹے بھرے ہوئے تھے اور خشک سطح پر لاکھوں زرد پتیـاں اور سرخ مرجھائی پنکھڑیـاں اڑ رہی تھیں۔ وہ نیلی لہریں سوکھی مٹی مـیں جذب ہو چکی تھیں ہر طرف سنگدل چٹانیں بکھری پڑی تھیں۔

مـیں ایک مدت تک دیوانوں کی طرح گھومتا رہا۔ وحشتوں کی طرح کھویـا ہوا جیسے مـیری زندگی کا ایک ایک لمحہ کہیں کھو گیـا ہے ، اور ہر کرن تاریکی مـیں۔ گھل کر سیـاہ ماحول بن گئی ہے جس مـیں مـیرا دم الجھ رہا ہے جس مـیں اپنی خواہشیں اپنی تمنائیں ، ٹٹولتا ہوں ، ڈھونڈھتا ہوں مگر تو پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ مـیری سمجھ مـیں نہیں آتا کہ ان ڈگمگاتے قدموں سے منزل کی سمت بڑھوں۔ مـیں اس یتیم بچے کی طرح تھا جس سے شفقت و محبت دور ہو گئی۔ اک مدت بعد مـیں سنبھلنے لگا۔

شاید مرلن بھی سنبھل گئی ہو۔ شاید اس نے بھی وحشتوں کا گلا گھونٹ کے مسکرانے کی کوشش کی ہو۔

ماں کے مرنے کے بعد مـیں شادی کر لی اور یہ سوچ کر مجھے بڑا دکھی ہوا کہ شاید مرلن نے بھی شادی کر لی ہو۔ مـیں نے تو بے شمار مجبوریوں کے تحت کی تھی۔ جبراً جیسے کوئی زندگی سے تنگ آ کر خود کشی کر لے۔

جب مـیں زندگی کی جلتی دھوپ مـیں ہانپتے ہانپتے تھک گیـا تو مـیں نے چھدری چھدری جھاڑیوں مـیں پناہ لی۔ مگر مرلن ؟ کیـا وہ بھی تپتی ہوئی دھوپ سے گھبرا کر ٹھنڈی چھاؤں مـیں بیٹھ گئی۔ ؟

مجھے نیلی جھیلوں کی ٹھنڈک نہ مل سکی۔ مـیں نے جنگ کے بعد انقلابی پارٹی مـیں شرکت کر لی۔ جنگ بازوں کے خلاف مـیری قوتوں اور مـیری خواہشوں نے امن کا محاذ بنا لیـا۔ اس محاذ مـیں مـیرے ساتھ ساری دنیـا کے امن پسند کھڑے ہیں مرلن ، امریکن بڑھیـا اور اس کے بیٹے ، مـیری بیوی ، مـیرے بچے اور مـیرے ساتھی ، سب مـیرے ساتھ ہیں۔

اب جب کہ مـیری زندگی کے صحرا مـیں مـیرے بچے نخلستان بن کے ابھرے ہیں۔ مـیرے چہرے پر ٹھنڈی ننھی منی انگلیوں کا لمس ، مـیری الجھنوں کو کم کر دیتا ہے۔ مـیری ٹانگوں سے لپٹے ہوئے گول مول ہاتھ مجھے روکتے ہیں۔ مـیرے چہرے سے چہرہ ملائے معصوم قہقہے لگا کر یہ پیـارے بچے ہلکی ہلکی خوشیـاں بخشتے ہیں تو تیسری جنگ ایک بار پھر مجھے لوٹنے آئی ہے۔

یہ نخلستان کا آسرا بھی چھین کر مجھے ایسے بے برگ و بار درخت مـیں بدل دینا چاہتی ہے جو برق کی مسلسل مہربانی سے جھلس گیـا ہو۔ دوسری جنگ نے نہ معلوم مـیرے ساتھ کتنی زندگیوں کو تباہ کیـا۔ کتنے ارمان ، کتنی خواہشیں ، کتنی خوشیـاں ، دہکتے بموں سے ، مشین گنوں ، تار پیڈو اور گولہ بارود سے فنا ہو گئیں۔

شاید مرلن مر گئی ہو۔ اگر مرلن مر گئی تو ایک عورت مر گئی۔ ایک محبوبہ ایک ماں ، ایک بیوی ، ایک بہن اور ایک بیٹی مر گئی ، ایک خاندان مرگیـا ، اس کے ساتھ لا تعداد زندگیـاں موت کی آغوش مـیں گر گئیں۔ ممتا شفقت و محبت مر گئی۔

مـیں خود اس کے بغیر زندہ درگور ہوں۔ اب بھی اس کو خوابوں مـیں تلاش کرتا ہوں۔ مرلن مجھ سے نہیں بچھڑی ، مـیرے جسم سے روح الگ ہو گئی ایک پھانس مـیرے دل مـیں ٹوٹ کر رہ گئی۔

آج مـیں اپنے پلنگ پر پیر پھیلائے ، منہ کھولے سورہا تھا تو مـیرے خواب مـیں مرلن آ گئی۔ مـیں نے دیکھا اس کے بالوں کے نرم لہجے چاندی کے تاروں جیسے ہو گئے ہیں۔ چہرے پر جھریـاں پڑ گئی ہیں اور وہ مـیرے ساتھ ہوٹل مـیں بیٹھی چائے پی رہی ہے۔ مجھ سے کہہ رہی ہے۔

رنجو۔ مـیرے آٹھ لڑکے ہیں۔ مـیں نے انہیں جنگ پر نہیں بھیجا ہم نے اپنے دیس مـیں جنگ کے خلاف مخالف محاذ تعمـیر کر لیـا ہے۔ اس امن کے مورچے پر مـیرے آٹھ بیٹے مـیرے ساتھ ہیں۔ مـیں اب بوڑھی ہو گئی ہوں۔ مـیں چاہتی ہوں اپنے بچوں کی خوشیـاں دیکھوں۔

اپنی زندگی مـیں جو خوشیـاں مـیں نے نامکمل چھوڑ دی تھیں وہ مـیری اولاد مکمل کرےمـیں اپنے دیس جا رہی ہوں مگر آج تم سے الگ ہوتے ہوئے مجھے غم نہیں ہو رہا ہے۔

اور مـیں نے کیـا۔ مجھے بھی غم نہیں ہے مرلن۔ مـیں بھی رنجیدہ نہیں ہوں۔ لو یہ ایر پورٹ آ گیـا۔ مـیرا ننھا بچہ تمہاری گڑیـا جیسی بیٹی کی آنکھیں چوم رہا ہے اس لئے مـیں تمہاری آنکھوں پر اپنے ہونٹ نہیں رکھوں گا۔

جاؤ مرلن۔ اپنی مردہ خواہشوں کو اپنے بچوں مـیں زندہ رکھنے کی کوشش کرو۔ آنے والی نسل اپنی زندگی کو موت بنا کر نہیں رکھے گی۔ خدا حافظ اور مـیری بیوی نے مجھے نیند سے جگا دیـا۔ مجھے یقین نہیں کہ مـیں سورہا تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسےی نے نا معلوم طریقہ پرمستقبل کا انجان ماحول مـیرے سامنے کھول کر رکھ دیـا تھا مـیری بیوی کا خیـال ہے مـیں خواب مـیں بڑبڑا رہا تھا مگر اس کو کیـا معلوم کہ مـیں مرلن سے سے باتیں کر رہا تھا مگر مـیرے چہرے پر جھریـاں نہیں ہیں۔ مـیرے بال سفید نہیں ہیں اور مرلن شاید مستقبل کا ایک تصور بن کے مـیرے خوابوں مـیں لہرائی ہو۔

وہ تو اب بھی ویسی ہی حسین ہو گی۔ ویسی ہی تندرست ، وہی سنہری زلفیں ، وہی تر و تازہ ہونٹ ، وہی مـیٹھا لہجہ۔

مرلن ان دو جھیلوں کا نام ہے جن مـیں چار سال تک غلطاں رہا۔ آج تک سوتے جاگتے ان کو دیکھتا ہوں۔

مگر جوبلی ہلز کی جھیلیں اب بھی برسات مـیں لہراتی و گاتی ہیں۔ ان مـیں وہی بے چین لہریں اب بھی اٹھتی ہیں۔ شبنم سبز دھوپ پر اب بھی تھرتھراتی ہے مگر مـیں وہاں نہیں جاتا۔ وہاں مـیرے جسم سے روح الگ کر دی گئی ہے۔ وہاں مـیں لٹ کر آیـا ہوں۔ مجھے کنول راج و نندن سہ دونوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ وہاں صرف سنگدل چٹانیں ہیں۔ مجھے تو ان دو جھیلوں سے عشق تھا جن کا نام ہے مرلن۔ جن کی گہرائیوں مـیں ڈوب ڈوب کر ٹھنڈی نیلی جھیلیں اور مرلن۔

٭٭٭

اے لو۔ اب کہنے کی بات نہیں مگر بن کہے رہا بھی نہیں جاتا۔ لوگ کہتے ہیں ماں مر جائے مگر تائی جیتی ہو تو آدھی فکر دور ہو جاتی ہے۔ مـیرا تو ان باتوں پر ذرا بھی ایمان نہیں رہا۔ اب دیکھو نا یہی تائی آسیب بنی گھر پہ منڈلایـا کرتی تھی۔ قسم لے لو جو مارے ممتا کے کبھی مـیرے سر پر ہاتھ رکھا ہو۔ بالکل رنڈی کے نخرے تھے۔

ہمـیشہ ابا کے کمرے مـیں بیٹھی اونچی اونچی آواز مـیں قہقہے لگائے جاتی اور شطرنج کھیلتے سمئے تو مہروں پر نگاہیں نہ ٹکتیں۔ بس ٹکر ٹکر ابا کا منہ تکتے جاتی۔ ذرا کی ذرا جو ہم ابا کے پاس جا بیٹھتے تو قہر آلودہ نظروں سے دیکھتی پھر بڑے مـیٹھے لہجے مـیں باہر جا کے کھیلنے کا مشورہ دیتی تو مـیرا جی چاہتا گردن مڑوڑ کے رکھ دوں۔

لمبا سا قد ، سوکھے مارے ہاتھ پاؤں ، خضاب کئے ہوئے سیـاہ بال اور ناک کے نیچے لکی جھولوں مـیں سے جھانکتا ہوا برا سا دہانہ ، اماں کی عمر گذر گئی اس کے ناز اٹھاتے۔ ہمـیشہ جٹھانی کا پاس لحاظ کرتی رہیں۔ اس کمبخت نے کبھی مہربان نظر اماں پر نہ ڈالی۔ بڑے پن کے رعب کو اس نے کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیـا۔ یوں ڈانٹ ڈپٹ کے اماں سے کام لیتی جیسے وہ زر خرید لونڈی ہوں اور اماں بھی گائے کی طرح بے زبان ہے۔ ہر وقت کام کاج مـیں جٹی ہلکے ہلکے قدموں سے گھر کا آنگن ماپتی پھرتیں۔ کوئی ماں کی اطلاع کیلئے طعن تشنیع سے کام لیتا تو اماں الٹی ہمدردی جتاتیں۔

اے ہئے بیوگی کے پالے نے تو ساری آرزوئیں ملیـا مـیٹ کر دیں۔ ایک ہمارا گھر رہ گیـا ہے۔ یہاں بھی دل نہ لگائے تو غریب کیـا کرے۔ کیسے غم غلط ہو۔

مگر یہ کہتے وقت امان کی جھکی جھکی آنکھیں اور زرد چہرہ چغلی کھا جاتا۔ اے بہن اتنی نیک نہ بنو کہ لوگ بیوقوف سمجھ کے لوٹ لیں تمہیں۔ خالہ اپنا قیمتی مشورہ پیش کرتیں۔

یہ روز روز کا آنا اور تمہارے مـیاں سے دل بہلانا یونہی نہیں ہے۔ ان کی ان کی ذمہ داری مفت مـیں اپنے سر لیتی ہو۔ ایک دن چیونٹیوں بھرا کباب ہو کے رہ جاؤں گی۔ جان چھڑانا دو بھر ہو جائے گا۔ سمجھ لو ، پڑوسین الگ اماں کی ناعاقبت اندیشی پر دانت پیستیں مگر اماں تھیں کہ کند ذہن بچے کی طرح سارے سبھ بھلا کے بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ لیتیں۔ دو پہر کے سناٹے مـیں محلے ٹولے کی عورتوں کے بیچ سگھڑ بیوی بنی سوئی دھاگا لے کے بیٹھتیں تو باری باری سب عورتیں اماں پر ریمارک پاس کرنا شروع کر دیتیں۔

بھئی تم جانو۔ تمہارے آگے تو بچے ہیں۔ اپان نہ سہی معصوموں کا خیـال کرو۔ ‘‘

عالیہ بانو ڈلی کاٹتے ہوئے نصیحت بھی کرتی جاتیں۔

اے یہ تو بڑی سیدھی ہیں۔ اس اللہ ماری کو دیکھو کہ بیوہ ہوئے چار چار آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور بھرا پُرا گھر ڈھونڈ لیـا موئی نے۔

اکبر جولاہے کی بیوی اماں کو بے قصور ٹھہراتیں۔

اے ہٹو۔ ایسی بچہ بھی نہیں ان باتوں کو سمجھنے کی عقل نہ ہو۔ اللہ رکھے بچے والی ہو گئیں۔ لگاوٹ کی نظر ہم غیر پہچان لیتے ہیں۔ زیبو خالہ کھڑے پائینچوں مـیں گوٹا ٹانکتے ہوئے جھنجلا جاتیں۔

اے دلہن۔ ! آخر تم اپنے مـیان سے بھی کچھ پوچھتی ہو کہ خوبصورت جوان بیوی کے ہوتے۔ اس ادھیڑ چڑیل مـیںلعل ٹکے ہیں کہ مٹے جاتے ہو؟ نورانی بو بہت رازدارانہ انداز مـیں اماں سے سوال کرتیں تو سوئی مـیں۔ دھاگا ڈالتے ہوئے اماں آبدیدہ ہو جاتیں۔ تو یہ ہے۔ اب سوئیوں کے نا کے اس قدر باریک بنتے ہیں کہ دھاگہ ڈالتے ڈالتے آنکھیں بھر آتی ہیں کب سے اس سوئی کو گھورے جا رہی ہوں۔ اور جلدی سے دوسری سوئی لانے کیلئے کمرے سے باہر نکل جاتیں۔

باورچی خانے کو اماں نے گویـا اپنا کمرہ بنا لیـا تھا۔ ہر وقت مصروف رہتیں کبھی ابا کیلئے شامـی کباب بنانے کی ترکیب ماما کو سمجھا رہی ہیں تو کبھی کوٹنے پیسنے مـیں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ کبھی سمو سے تل رہی ہیں تو کبھی بچوں کیلئے کا اچار پڑ رہا ہے۔ کچھ تو بے ضرورت کی اٹھا دھری مـیں لگی ہیں۔

اماں ! آپ کہئے تو آپ کا پلنگ بھی یہاں اٹھا لاؤں۔ بھیـا بیزار ہو جاتے مگر اماں روتے ہوئے چہرے کے ساتھ مسکراکر رہ جاتیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو طعن و تشنیع پروف بنا لیـا تھا۔ آپ چاہے جس قدر نمک مرچ لگا کے اس مسئلہ کے چھپے ہوئے پہلو اجاگر کیجئے مگر کیـا مجال ہے کہ اماں ہاں مـیں ہاں ملانے بیٹھ جائیں۔

ساسیں اپنی نئی نویلی بہووں سے پہلی بات اماں کا قصہ سنا کر کرتیں۔ اللہی کو بیوی دئے تو کنویں والی باجی کی طرح۔ شوہر نے آنکھوں کے سامنے جٹھانی سے عشق جتایـا اور وہ کلموئی تو جیسے ان کی جان پر ادھار کھانے بیٹھی ہے۔ دکھا دکھا کے مـیٹھی بولیـاں بولتی ہے دیور سے مـیاں کو کھا گئی پر جی نہ بھر ا۔ اب بھر گھر مـیں چنگاری ڈالنے آئی ہے۔ مگر گھر والی نے خود زبان ہلائی نہ گھر مـیں لڑائی جھگڑا کھڑا کیـا۔ نہ رو رو کے پاس پڑوس کو اپنی کتھا سنائی۔ ہیرا تو ہیرا ہی ہوتا ہے چاہے گھوڑے پر پڑا ہو ، چاہے راجہ کے تاج مـیں جڑا ہو۔ قیمت کم نہیں ہوتی۔

مائیں سسرال جانے والی بیٹیوں سے بچھڑتے ہوئے کنویں والی باجی کا واقعہ سنا کر عبرت دلایـا کرتیں۔ شوہری بات پہ جھنجلا جاتے بیویوں کو جھاڑ پلاتے۔

گھر آنے مـیں ذرا دیر ہوئی تو مـیرے سر ہو گئیں۔ ذرا کنویں والی باجی کو دیکھو سامنے بیٹھی سارے کرتوت دیکھ رہی ہیں مگر اف نہیں کرتیں۔ کیـا قسمت والا شوہر ہے۔

ساری دنیـا اماں کے گن گایـا کرتی مگر اماں ان ساری باتوں سے بے نیـاز اپنی دنیـا مـیں گم رہتیں۔

کبھی رات کو آنکھ کھل جاتی تو مـیں چپکی پڑی انہیں دیکھا کرتی۔ کبھی اماں کی دبی دبی سسکیـاں سنائی دیتیں مگر مـیرے پکارنے پر صاف آواز مـیں جواب ملتا۔

شاید مـیرے ہی کان بجتے ہیں کبھی اماں ہتھیلی پر تھوڑی رکھے لحاف اوڑھے بیٹھی ہوتیں۔

آپ سوئیں نہیں اب تک ؟ بھیـا پڑھتے پڑھتے پانی پینے برآمدے مـیں آئے تو اماں کو بیٹھا دیکھ کے پوچھتے

مـیں تو سو گئی تھی مگر وجو کو شاید کھٹمل ستا رہے ہیں۔ بار بار چونک پڑتی ہے۔ اسی لئے اٹھ بیٹھی۔ اماں کی ساس پھول جاتی جیسے بہت دور سے چل کر آئی ہوں۔

ہائے۔ یہ اماں کو کیـا ہو گیـا ہے۔ مـیرے پلنگ مـیں تو کھٹمل وٹمل خاک نہیں۔ مـیں تو کب سے پڑی دیکھ رہی ہوں۔

پہلی بار ایک نامعلوم خوف نے مـیرے دل مـیں سر اٹھایـا۔

وہ ساری باتیں جن کو معمولی سمجھ کے نظر انداز کر جاتی تھی۔ اپنی پوری اہمـیت کے سامنے آ گئی تھیں۔ اب شاید مجھ مـیں چھپی ہوئی باتوں کو سمجھنے کا شعور آ گیـا تھا۔ تب ہی تو مـیں گھر بھر کی ذرا ذرا سی حرکتوں پر گہری نظر رکھنے لگی تھی۔

جائیداد کے سارے جھگڑے تایـا حی کے مرتے ہی تائی نے ابا کے سپرد کر دیئے تھے اور ابا یہ مقدمے کورٹ مـیں اس طرح لڑتے جیسے یہ ان کی اپنی جائیداد کے جھگڑے ہیں۔

ان دنوں رات رات بھر آرام کرسی پر پڑے سگریٹ پر سگریٹ پھونکا کرتے۔ دن دن بھر عدالتوں مـیں بحث کرنا اور رات کو بیٹھ کے تائی کو رپورٹ سنانا ان کا خاص مشغلہ تھا۔ وہ جب بھی آتی ابا کے پاس بیٹھی باتیں کیـا کرتی۔ اور اس طرح مقدموں کی بات چیت کے سہارے وہ ابا کی زندگی مـیں آہستہ آہستہ یوں داخل ہو رہی تھی جیسے زہر چپکے چپکے جسم مـیں سرایت کر جاتا ہے۔

اماں چولھے کی آگ بار بار کرید لیتیں۔ چولھے مـیں خواہ مخواہ پھونکیں مارتیں اور اپنے سوجے ہوئے پپوٹوں کو ہتھیلی سے مل جل کے انگاروں کو گھورتیں۔ شاید وہ یہ سوچتیں کہ ان کی اپنی ذات بھی ان انگاروں کے سچ جل رہی ہے۔ جب وہ بے مقصد انگاروں کو گھورے جاتیں تو تائی باتیں کرتے کرتے ابا کے قریب کھسک آتی اور کھچڑی بالوں پر اس طرح ہاتھ پھیرنے لگتی جیسے وہ کوئی تھکا ماندہ بچہ ہو جو زندگی کا چڑھاؤ چڑھتے چڑھتے تھک گیـا ہو۔

مگر اماں چپ چاپ یہ چڑھائی چڑھ رہی رہی تھیں۔ نہ آنکھوں مـیں آنسو نہ منہ مـیں زبان جیسے کافوری گڑیـا لٹانے پر آنکھیں موند لیتی ہے اور بٹھانے پر کھول دیتی ہے مگر اماں خود سے چل پھر بھی لیتی تھیں۔ ا پنے نہ تھکنے والے ہاتھوں سے گھر بھر کا کام بھی کرتی تھیں۔

ان کی آنکھوں مـیں چمک نہیں تھی۔ ان مـیں عجیب سے اداسی تھی جیسے خزاں کی ویران شام مـیں ہوتی ہے۔

تائی نے گھر کے نوکروں کو اپنا قاصد بنا رکھا تھا اور ان ہی کے ہاتھوں ابا تک اپنے محبت نامے پہونچایـا کرتی تھی جب کبھی نوکر تائی سے ناراض ہو جاتے تو وہ سارے خطوط اماں کو بھی دکھا دیتے۔ ان چٹھیوں کو وہ یوں سرسری نظروں سے دیکھتیں جیسے وہی ناول کا باب ہو۔ ان مـیں سے بہت سے خط اماں نے اس طرح پھینک دیئے تھے جس طرح کوئی دال موٹھ باندھا ہوا بیکار کاغذ پھینک دیتا ہے۔

ہائے۔ اماں تو بس صرف کاتو راہیں اللہ جانے کیـا ہو گیـا ہے کہ زبان نہیں کھولتیں۔ مجھے تو بڑا ارمان تھا کہی دن اماں کمر کے آنگن مـیں گھڑی ہو جائیں پھر خوب سلواتیں سناتیں اس تائی کی بچی کو۔ اور ابا کو بھی نوٹس دے دیں کہ آئندہ مداری کا تماشہ قطعی بند۔

مگر لاحول ولا قوۃ۔ اماں کا تو سمندر کی طرح وسیع و گہرا دل تھا۔

مجھے یـاد ہے ایک دن مرغیوں کے ڈبے کے قریب پھنکے گئے بڑے بڑے کاغذوں کو سنبھال کے رضو باجی کے ہاں لے گئی تھی کہ خوب بڑی بڑی کشتیـاں بنا دو جس مـیں چھوٹی سی گڑیـا بھٹا کے ٹب مـیں چھوڑ سکوں۔ اور جب ان تڑے مڑے کاغذوں کو کھولا که تا جانی پہچانی تحریر تھی۔ تائی موئے موئے بدصورت حروف بناتی تھی اور یہ حروف کاغذ پر یوں بکھرے پڑے تھے جیسے گھورے  پر گندگی و کوڑا پڑا ہو۔

اس زمانہ مـیں مجھ کو لکھنا پڑھنا آ گیـا تھا۔ اور ہر تحریروں کو پڑھنے کی عادی تھی جیسے اس کو نہ پڑھنے سے جاہل گئی جاؤنگی۔

مـیں نے اور رضو باجی نے ان کو پڑھا تو رضو باجی ناک پر انگلی رکھ کے بیٹھ گئیں اور مـیرا نا تجربہ کار دماغ الجھ کے رہ گیـا۔ مـیں نے وہ سارے کاغذ کھلونوں کے ڈبے مـیں رکھ دیئے تھے۔ آج وہ کاغذ کھلونے کے ڈبے سے نکل کے مـیری الماری مـیں پہونچ گئے ہیں۔ جن باتوں کو کل تک ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکتی تھی۔ آج وہ باتیں حل کئے ہوئے معمے کی طرح سامنے رکھی ہیں۔ ہزاروں حرکتیں جن کو مـیں نے کبھی قابلِ توجہ نہ سمجھا تھا۔ اب اپنے پورے معنوں کے ساتھ آگے آئی ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ جن باتوں کو ہم اپنے بچپن مـیں سنتے ہیں ، جن چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کی گہرائی مـیں کبھی نہیں جھانکتے اور برسوں گذر جانے کے بعد وہ باتیں لاشعوری سے نکل کر نظروں کے سدامنے اپنے پورے مفہوم کا لباس پہن کے آتی ہیں۔

اس زمانے مـیں مـیں سوچتی کاش اماں رضو باجی کی طرح خوب ، پڑھی لکھی ہوتیں اور ڈھیر ساری تنخواہ کمایـا کرتیں۔ پھرانہیں تتلی کی طرح مٹھی مـیں داب کے مارتا۔ پھر اماں بھی گائے کی بجائے انسان ہوتیں۔ ہر قسم کے احساسات کے اظہار کا طریقہ آتا۔

اب تو انہوں نے اپنا جی مار دیـا تھا۔ گھریلو عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں صبر و ضبط کا ڈھنڈورا پیٹتی پھرتی ہیں مگر کوئی یہ تھوڑی ہی جانتا ہے کہ یہ مجبوری کی دوسری شکل ہے۔ خوشی ، غم ، غصہ و گرمـی کے سارے احساسات قانع زدہ تھے۔ کبھی کبھی اماں پر بیحد غصہ  آتا۔ جانے کیسے اس بیہودہ سی زندگی سے سمجھوتا کئے بیٹھی ہیں۔ مـیں اماں کی جہالت پر کئی بار چھپ کے روئی تھی۔

اماں کے مـیکے مـیں کوئی نہ رہ گیـا تھا جو ان ساری کٹھن منزلوں مـیں اماں کو ڈھارس دیتا۔ یـا اماں کی سرپرستی کر کے ان کے حق کیلئے لڑائی مول لیتا حالات اتنے نازک ہیں۔ یہ مـیں نے کبھی نہ سوچا تھا۔

برسات کی اندھیری رات تھی۔ مـینہ کی موٹی موٹی بوندیں کنکریوں کی طرح باورچی خانے کی ٹین پر سے جا رہی تھیں اور اماں بجلی کے کوندے کے ساتھ لپک کر کلیجہ پکڑ لیتیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کے تکیہ کیبھگو رہے تھے بھیـا سرہانے بیٹھے تھے۔ مـیں بار بار کھڑکی تک جا کے لوٹ آتی۔ بجلی چھک سے لمحہ بھر کو برآمدے مـیں روشنی پھینکتی تو اماں چونک کے دروازے کی طرف دیکھنے لگتیں جیسے انہیںی کا انتظار تھا۔

’’اماں۔ مـیں ابھی آیـا۔ جواب سنے بغیر بھیـا برساتی کیلئے جھپاک سے باہر نکل گئے۔

ارے روک لیـا ہوتا وجو۔ اتنی اندھیری رات مـیں بارش مـیں بھیگنے کہاں چلا گیـا۔ اماں تڑپ کے بولیں۔ درد کی ٹیپس سینے مـیں جلدی جلدی اٹھنے لگیں۔ دور گھنٹے بعد بھیـا بھیگی چڑیـا بنے برآمدے مـیں آئے تو دوا کی شیشی کے ساتھ ابا بھی تھے۔ وہ پریشان گھبرائے سے آگے پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گئے بالکل اس بچے کی جو اپنی کلاس مـیں مسلسل غیر حاضر رہا ہو اور جسےی نے پکڑ کے اچانک مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیـا ہو۔ عین مـین وہی حال۔ ابا کا تھا۔ رات بھر وہ اماں کے پاس بیٹھے رہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اماں کو سویدا ہونے تک دو خوراک دوا پلائی مگر ہر بار اماں کو قئے ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے انجکشن لگا دیـا تھا اور ہم سب امتحان مـیں خراب پرچے کرنے والوں کی طرح مایوسی کی آغوش مـیں بڑے تھے۔

وجو ! اماں آہستہ سے بڑبڑائیں۔ تم لوگ مجھے ٹھنڈی راکھ سمجھے بیٹھے ہو مگر مـیں اپنے سینے مـیں دھکتی ہوئی چنگاریـاں چھپائے ہوئے جیتی رہی۔ ہاتھ پیر کٹے ہوں تو انسان دوسرے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ بیتا۔ عمر بھر طعنے سن کے چپکی رہ جانے والی اماں مجھ پر ڈال کے ابا کو طعنہ دے رہی تھیں۔ خیر مجھے معاف کیجئے۔ اماں کے تھرتھراتے ہونٹوں سے نکلا۔

ابا کچھ کہنے کو آگے جھکے مگر اب وہاں کوئی ایک لفظ سننے کو تیـار نہ تھا مـیں اور بھیـا اماں کے سینے سے لگے سسک رہے تھے اور ابا بے جان بت تھے اماں کو تکے جا رہے تھے۔

مـیں آج سوچتی ہوں کہ اس گندے معاشرے کو بدلنے کیلئے اماں نے کتنی خاموش جدوجہد کی تھی جس کو ہم برف کا  تودا کہا کرتے تھے اس کے اندر کتنی گرم و تند لہریں دوڑا کرتی تھیں۔

’’پورے سماجی ڈھانچے کو بدلنے کیلئے سچ سچ عورتوں کو معاشی اعتبار سے قومـی ہونے کی ضرورت ہے بھیـا۔ اب بھی کبھی کبھی مـیں اماں کو یـاد کر کے بھیـا سے بحث کرنے مـیں ان کو باتیں دوسرے انداز مـیں دہراتی ہوں۔ اماں تو چراغ کی لو تھیں جو ہماری زندگی مـیں روشنی بکھیرنے کیلئے سدا آندھیوں سے لڑتی رہیں۔

سڑے گلے نظام کی تشبیہ کے طور پر مجھے تائی کا گھناؤنا چہرہ یـاد آ جاتا۔

اماں کے بعد تائی آسیب کی طرح گھر پر منڈلایـا کرتی مگر چراغ کی وہ لو زندگی کی اونچی اونچی راہوں مـیں اپنے پیچھے دور تک روشنی کی لکیر چھوڑ گئی تھی۔ ا بی آسیب کیلئے تاریکی کہاں ہے ؟

٭٭٭

جب کبھی مـیں سنجیدگی سے اپنے گھر کے بارے مـیں سوچتی ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے مـیرا گھر سیکولر ہندوستان کی نمائندگی کرنے والا واحد گھر ہے جہاں ہر قوم ، ہر نسل و ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے بستے ہیں جہاں مختلف زبانیں بولی وسمجھی جاتی ہیں۔ جہاں مذہب ، زبان و قلم کی آزادی ہر انسان کو حاصل ہے۔

ہر کمرہ اپنی الگ تہذیب ، کلچر ، روایـات کا آئینہ دار ہے۔ ہی نہیں بلکہ مختلف لباس ، رسم و رواج و رہن سہن کے مختلف طور طریقے رائج ہیں۔ ہر قوم کو اپنی خود مختاری قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس گھر کی جھلکیـاں نری دلچسپ ہیں۔

پرانے شہر مـیں دیوڑھی نما آٹھ کمروں ، درون عمل اور دو آنگن والا مکان ہمارا آبائی مکان ہے۔ جس کو شاہی خاندان سے خرید لیـا تھا۔

مـیرے والدین کا کمرہ قدیم طرزِ معاشرت کا نمونہ ہے۔ تخت پر فرش و گاؤ تکیہ کا استعمال ، تکیہ سے قریب پاندان ، تخت سے نیچے مراد آبادی بڑا سا اگالدان ، قدیم چھپر کھٹ پر مچھر دانی اور قدیم طرز وضع کا بستر ،سرہانہ جس قدر چوڑا ہے۔ اتنے لمبے تکیے ہیں۔ بیٹھنے کیلئے بڑی بڑی لمبی آرام کرسیـاں جس پر نیم دراز ہونے کے ساتھ ساتھ پیر لمبے کر کے آرام لینے کیلئے لکڑی کی پٹیـاں بھی لگی ہیں۔ الماریوں کے شیشوں سے قانون کی کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کی دیواروں پر تین انچ موٹے فریم مـیں قریبی رشتہ داروں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ نکھری ستھری شائستہو لہجہ والی اردو زبان بولی وسمجھی جاتی ہے۔ بزرگوں کا ادب ، آواز دبا کے آہستہ بات کرنا ، وقت کی پابندی اور بندھے ٹکے اصولوں پر عمل آوری پہلا درس ہے۔ کر دار کی عظمت تمام دنیـاوی بلندیوں سے بھی بلند مانی جاتی ہے۔

مہمان نوازی ، حوصلہ افزائی اور سخاوت تہذیب وشائستگی کی علامت ہے صبح ہر کام چھوڑ کے قدم بوسی کیلئے حاضر ہونا اور کھانے کے وقت سب کا اکٹھا ہونا لازمـی ہے۔ تبادلۂ خیـال کا یہی موقع ملتا ہے۔

اس کمرے سے آگے بڑھئے تو ایک اور کمرہ ہے۔ دو الگ اصولوں دو الگ مسلک اور دو الگ طبیعتوں کا ملاپ  رعب داب۔ تحکمانہ لہجہ ، اونچا قد ، سرخ وسفید ، رنگ اپنی نسل اور فرقہ کو ظاہر کرتے ہیں۔

دکن کا سانولاپن۔ احتیـاط ، دکھنی بولی ، درون گذر کرنے اور ہر سانچے مـیں ڈھل جانے والی فطرت ، جلد غصہ کرنے اور جلد بہل جانے والی طبیعت ہی ایک کمرہ مـیں دو مختلف الخیـال گروہ کے نمائندے مـیاں بیوی کے روپ مـیں مل جائیں گے۔ ایک بنک آفیسر اور ایک افسانہ نگار ایک وقت کا پابند ، پیسہ کمانے اور زندگی کی دوڑ مـیں آگے بڑھنے کی جدوجہد مـیں مصروف۔

در مـیری قدرتی نظاروں مـیں کھوئی رہنے والی نفسیـات واحساسات کی بھول بھلیوں مـیں گم ، زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے ، صحیح نفسیـاتی تجزیہ پیش کرنے کی دھن مـیں مگن۔

گھر کے سارے افراد کی خوشی ، ضروریـات ، پسند وناپسند کا خیـال رکھنے اور ان کے ساتھ مناسب برتاؤ کرنے والی حساس عورت ، رہن سہن بھی ترقی پسند ہے۔ ڈبل بڈ کے سرہانے درون پٹیل لیمپ سائیڈ ٹیبل ، کتابیں ہی کتابیں ، شلف پر لکھنے کی مـیز پر ، اخبار ورسائل ایک مـیں رکھے ہوئے۔ دو الماریـاں ، قدیم و جدید لباس اپنی آغوش مـیں لئے کھڑی ہیں۔ یعنی یہ کمرہ مـیرا ہے۔

سیڑھیـاں اتر کے نیچے آئیں تو بڑی بیٹی کا کمرہ ہے۔ اس گھر مـیں یہ تیسری نسل ہے۔ اس کے کمرے کی ہر چیز ماڈرن ہے۔ نئی تہذیب و نئے تمدن کی دلدادہ غالب کی غزل انگریزی دھن مـیں گنگنانے والی۔ روایـات ، پرانی سوچ اور قدیم طرزِ زندگی سے باغی ،نئے کلچر کی داغ بیل ڈالنے مـیں آگے آگے پرانے راستوں سے ہٹ کے نئی راہ بنانے والی۔ یہ لڑکی نظام کالج مـیں پڑھتی ہے۔ انگلش لٹریچر سے ایم۔ اے کر رہی ہے۔ کبھی انتہائی نرم مزاج انکسار و خلوص کا پیکر ، کبھی اجنبی لا پرواہ و بے تعلق خدا کی قدرت سے زیـادہ اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھنے والی اس کی سوچ سارے گھر سے الگ اور دماغ من مانی کرنے کا عادی ہے۔

رہن سہن بھی نئی تہذیب کو اجاگر کرتا ہے۔

بستر پر ، مـیز پر اور قالین پر کتابیں رات دیر گئے تک پڑی رہتی ہیں دونوں مـیاں بیوی پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کا شوہر بھی فلاسفی سے پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ اپنے پیـارے پروفیسر کا نام بھی وہ انتہائی عزت و عقیدت کے ساتھ لیتا ہے۔

ان دونوں کے دوست بھی جدوجہد ترقی پسند و نئی روشنی کے دیوانے ہیں۔ بعض دوست تو ایسے ہیں جو ان دونوں سے زیـادہ ان دونوں کی زندگی مـیں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہر آڑے وقت دوڑ کے آتے اور مشورہ دیتے ہیں بعض کمر ، باندھ کے کارزار حیـات مـیں ان دونوں کے ساتھ ساتھ دوڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں اور سگریٹ پر سگریٹ پھونک کے ہر پہلو پر غور کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ مجھ سے مسکرا کے پوچھتی ہے۔ آپ نے ایسے دوست کبھی دیکھے ہیں۔ ایک آپ لوگوں کے وقت کے دوست تھے کہ ہر شاعر نے انہیں ’’خنجر بکف ‘‘ لکھا ہے۔

دوستوں ہی نے زخم بخشے ہیں۔ جیسا مصرعہ ان کی زبان پر آتا ہے۔

کتنا ڈفرنس ہے آپ کے دوستوں اور ہمارے دوستوں مـیں

مـیں بے اعتباری سے اس کی طرف دیکھتی ہوں۔ نئی نسل مـیں خلوص و محبت کی کمـی پر اب بھی مـیرا خیـال بدلا نہیں ہے۔ زندگی اس قدر تیز گام ہے کہ لوگوں کو خلوصِ دل سے مسکرانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مگر مـیں اس کے دوستوں کے خالص خلوص کو بھی سراہتی ہوں۔

اشٹرے مـیں ادھ جلے سگریٹوں کے انبار اور چائے کی پیـالیوں کے ڈھیر کو دیکھتی ہوں۔ مـیرا داماد بھی بیٹی کی تائید مـیں مسکراتا ہے۔ یہ لڑکا جو نہ صرف نئی نسل کے رہن سہن ، احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ رجعت پسند روایتی زندگی سے بغاوت اور بعض نام نہاد ترقی پسندوں کی سڑی گلی ذہنیت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔

رات دن بحث مباحثہ ، علمـی و ادبی محفلیں سجانا ، دوستوں کے برے وقت کام آنا اور اپنی ہر خوشی مـیں دوستوں کو شریک کرنا اس کیلئے ناگزیر ہے۔ دوستوں کے ساتھ آدھی آدھی رات تک باہر رہنا اور گھر آ کے بیوی کا غصہ سہہ لینا اسے آتا ہے۔

دوسرا کرمہ جو اس کمرے کے بعد آتا ہے۔ چھوٹی بیٹی کاہے ،اس نے بی ای کیـا ہے۔ الکٹریکل انجینئرنگ کرتے ہوئے اس نے ہمـیشہ امتیـازی کامـیابیـاں حاصل کی ہیں۔ کمرہ بہت ہی نفاست و دلکشی سے سجا ہوا ہے۔ سادگی مـیں بھی پُرکاری ہے۔ ہر چیز کی جگہ مقرر ہے اور کوئیی چیز کو ہٹا نہیں سکتا سوائے قدرتی ہوا اور زلزلے کے !

کوئی چیز بے جگہ پڑی نظر نہیں آتی۔ اس دور مـیں سانس لیتے ہوئے بھی پرانی قدروں کی دلدادہ ، قدیم تہذیب و تمدن ، فنونِ لطیفہ و آثار قدیمہ کی قدر دان، انگریزی زبان مـیں شاعری وافسانہ نگاری کرتی ہے۔

خاموشی وسکون کو پسند کرنے والی۔ تلگو اور ملیـالی زبان کے گیت ان کے اصلی ٹیون مـیں گاتی ہے۔ مصوری وموسیقی سے بے حد دلچسپی ہے۔ صبح و شام اسٹوڈنٹس گھیرے رہتے ہیں لڑکے و لڑکیـاں پڑھنے آتی ہیں۔ اور پڑھتے پڑھتے اک دور وہ آ جاتا ہے کہ وہ چھوٹی بہنیں و بھائی بن جاتے ہیں اور اپنی بہت سی پریشانیـاں ومسائل اس کے آگے رکھ کے رائے لیتے ہیں۔ وہ بڑے سوچ بچار کے بعد انہیں ان مسائل کا حل سمجھاتی ہے۔ سمجھاتے ہوئے وہ بھول جاتی ہے کہ کتنے مسائل اس کی زندگی کے ایسے پڑے ہیں جن کا کوئی حل اس کی سمجھ مـیں نہیں آتا۔ پھر بھی اس کو خدائے برتر پر یقین ہے کہ وہی نا مساعد حالات مـیں اس کا ساتھ دے گا۔ ہر نئی چیز کو ہر نئے خیـال کو وہ محض یہ سمجھ کر قبول نہیں کرتی کہ وہ نیـا ہے یـا اس پر جدیدیت کی چھاپ ہے۔ وہ گہرائی مـیں اتر کر ہر چیز کی ، ہر جذبہ کی اور ہر احساس و ہر اصول کی اچھائی و برائی ضرور ٹٹولتی ہے۔

ان کمروں کے سامنے والا کمرہ جوان کمروں سے بڑا ہے۔ چاروں بیٹیوں کا مشترکہ کمرہ ہے۔ اس کمرہ مـیں مـیری وہ بیٹیـاں رہتی ہیں جن کو مـیں نے صرف جنم نہیں دیـا ورنہ ننھی منی جانوں کو پال پوس کے پروان چڑھایـا ہے۔ جن کی ہر قدم پر نگرانی و رہبری کی ہے۔ یہ مـیرے شوہر کی پہلی بیوی کی لڑکیـاں ہیں۔

بڑی لڑکی پر اپنی خالہ کی طرح مذہبی رنگ غالب ہے۔ مذہبی کتابوں کا مطالعہ اس کی عادت مـیں شامل ہے۔ اس کی شادی بھی ایسے ہی کٹر مذہبی گھرانہ مـیں طئے ہوئی ہے۔ گفتگو مـیں اصطلاحات استعمال کرنے کا شوق ہے۔ اس نے بی ایس سی کیـا ہے۔

اس سے چھوٹی فلمـیں دیکھنے کی حد درجہ شوقین ہے۔ اس نے مـیٹرک کے بعد پڑھنا چھوڑ دیـا۔ وہ خلوص و محبت گھر بھر مـیں باٹتی پھرتی ہے۔ سب اس کو چاہتے ہیں اور وہ سب کو بے اندازہ پیـار دیتی ہے۔ ہر نیـا لباس بہنوں کو پہنا کے خوش ہونا ، ان کے چھوٹے موٹے کام انجام دینا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اچھے لباس و زیورات کا اس کو جنون کی حد تک شوق ہے کام کاج مـیں سلیقہ مندی ، پہننے اوڑھنے مـیں وہ ماہرانہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔

اس سے چھوٹی دو جڑواں یـا قوام بہنیں ہیں۔ جب مـیری گود مـیں انہیں دیـا گیـا تھا تو وہ آٹھ ماہ کی تھیں۔ اب ماشاء اللہ چودہ پندرہ سال کی ہیں۔ دونوں ہم شکل ، ایک جیسا رنگ روپ و قد و قامت ، بے انتہا ہنسوڑ لطیفے گڑھنے والی ، بعض اوقات وہ مقابل کو لا جواب بھی کر دیتی ہیں۔ یوں تو سب پڑھی لکھی ہیں مگر یہ دونوں اب تک پڑھ رہی ہیں۔ بات مـیں بات نکالنا اور رونے والے کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سارے گھر کیلئے وہ اس شہہ رگ کی طرح ہیں جو جسم بھر کو خون پہونچاتی ہے۔ دونوں اردو اور ہندی سے بھی برابر کی دلچسپی لیتی ہیں۔

مـیں اس سارے گھر کو گھوم پھر کر دیکھتی ہوں۔ اس مـیں تین نسلیں اپنے الگ الگ روایتی دور کے ساتھ رہتی بستی ہیں۔ مـیرا یہ گھر جو سارے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کیلئے کافی ہے۔ جہاں مختلف فطرتوں ، مختلف طبیعتوں اور مختلف خیـالات کے حامـی رہتے بستے ہیں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے قربانیـاں دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پیـار کرتے ہیں اپنے الگ الگ اصولوں اور الگ الگ تہذیب و تمدن الگ الگ زبانوں کے ساتھ ، الگ پسند وناپسند کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بھلائی کے متعلق سوچتے ہیں۔ اس یکجہتی کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ ایک دوسرے کے متعلق کوئی زہر نہیں گھول سکتا۔ ایک دوسرے کے درمـیان کوئی دراڑ نہیں ہے۔ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

یہ سب ایک گھر کے لوگ ہیں۔

٭٭٭

مـینہہ کی موٹی موٹی بوندیں کھڑکی کے شیشوں پر ٹپاٹپ گر رہی تھیں۔ اودی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر برس رہی تھیں۔ ورانڈے سے دوڑ کر وہ اندر گئی۔ ساری کھڑکیوں کے پٹ بند کر کے جب وہ دوبارہ ورانڈے مـیں آئی تو آدھی بھیگ چکی تھی۔ نیم اور جامن کے پیڑ تیز ہوا مـیں جھوم رہے تھے۔ پکی جامنیں نیچے آنگن مـیں ڈھیر ہو رہی تھیں۔ بچے ہوتے تو آنگن مـیں خوشی سے بھری چیخوں اور قہقہوں سے ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ اس نے سوچا۔ ورانڈے کے ستون کے اطراف باہیں ڈال دیں اور کوئی پرانا گیت گنگنانے لگی۔ یہ پرانے گیت بھی کتنے پیـارے ہوتے ہیں۔ خوبصورت دھنیں اور جادو کی طرح اثر کرنے والے بول جیسے دل کو چھو لیتے ہیں۔

نمولیـاں اور جامنیں آنگن کی ریت پر بچھ گئی تھیں۔ ہوا مـیں تازگی اور خنکی تھی۔ تپتے ہوئے دنوں اور امس بھر راتوں کے بعد اس کو برسات کے پھوار بڑی اچھی لگتی۔ ہر سال برسات اودی گھٹاؤں اور ٹھنڈی پھواروں کے ساتھ آ جاتی ہے مگر پھر بھی اس کو برسات کا شدید انتظار رہتا۔

وہ گرم چائے کی پیـالی لئے باہر منڈیر پر جا بیٹھی اور ایک زمانہ تک ذہن مـیں پروان چڑھنے والی کہانی کاغذ پر اتر آتی۔

اسکول اور کالج ابھی کچھ دن بند رہیں گے۔ بچے پہاڑ سے واپس آ جائیں تو پھر وہی گہما گہمـی و چہل پہل ہو جائے گی۔ وہ کچن مـیں جلدی جلدی روٹی بنانے ، ناشتہ دینے ، اور ٹفن تیـار کرنے مـیں مصروف ہو جائے گی۔ لڑکیـاں تیـار ہوکے چوٹیـاں گندھوانے کیلئے اس کے پاس آ کھڑی ہوںاور وہ جلدی سے نل پر ہاتھ دھو کے ان کے بالوں سے الجھ جائے گی۔

اس نے دیکھا ، سامنے کیـاری مـیں زرد ڈیزیز کے ہزاروں پھول مسکرا رہتے تھے۔ دور تک پھیلے ہوئے گلابی، اودے اور سفید وربینا کے ننھے ننھے پھولوں کی شاخیں موٹی موٹی بوندوں کے وزن سے تھرا رہی تھیں۔ پرسوعں کی ژالہ باری سے کٹے پھٹے انجیر کے پتے اور کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے پر اس کی نگاہ رک گئی۔ بیگم صاحب چائے پی لیجئے۔ کام کرنے والی لڑکی ٹرے لئے کھڑی تھی۔

شاہ خاں ڈرائنگ روم مـیں بیٹھے مسز قریشی سے باتیں کر رہے تھے۔ اس نے ورانڈے سے جھانک کر نیچے دیکھا ،دروازے حسب معمول بند تھے۔ کمبخت ، بڑی بد ذوق ہے اور اس کی عمر کا تقاضہ بھی تو یہی ہے۔ مسز قریشی کے مصنوعی سفید دانت یـاد کر کے اس کو ہنسی آ گئی رنگے ہوئے سیـاہ بال جن کی چوٹی کمر تک آتی ہے۔ شاید انہوں نےی ہوئی ہالر مـیں ڈائی کرائے تھے۔ چہرے پر جھریـاں تھیں۔ بلڈ پریشر اکثر بڑھ کر دو سو تک جا پہونچا۔

بارہ کرسیوں والے لمبے ڈائننگ ٹیبل پر پھول دار مـیز پوش پڑا رہتا۔ شاید وہ دونوں گرم چائے کی چسکیـاں لے رہے ہوں۔ یـا شاید جائیداد سے متعلق باتیں کر رہے ہوں یـا پھر مسز قریشی اپنے بچوں کے بارے مـیں خان کو بتا دی ہوںکہ طرح ان کے چھ کے چھ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ اب انہوں نے سویڈن مـیں ، نیروبی اور کینڈا ہن رہائش اختیـار کر لی ہے۔

مـیں اپنی تنہائی سے پریشان ہو گئی تھی۔ تم آ گئے ہو تو مـیری کوٹھی اور مـیری زندگی ، دونوں مـیں رونق آ گئی۔ اب بچے آتے بھی ہیں تو پیسہ بٹور کے چلے جاتے ہیں۔ ان کو ہندوستان مـیں رہنا پسند نہیں ہے۔ مـیری جائیداد کا اتنا روپیہ ملتا ہے کہ مـیں کھلے ہاتھ سے خرچ کر تی بھی ہوں تو بتک مـیں جمع کروانا پڑتا ہے۔ اس طرح مـیںی کی محتاج نہیں ہوں۔

یـا شاید وہ دونوں ایک دوسرے کو شدید چاہت آنکھوں مـیں لئے گھورے جا رہے ہیں۔ شاید شاہ خان دل ہی دل مـیں اس سے کہہ رہا ہو۔ اے ساٹھ سالہ دوشیزہ تم اپنے سیـاہ بال مـیرے کندھوں پر اسی طرح بکھیرتی رہو۔ اپنے مصنوعی دانتوں کی چمک سے مـیری آنکھیں خیرہ کر دون۔ اپنی جائیداد کے تذکرے صبح و شام کرو۔ تاکہ مـیں تمہارے پہلو مـیں بیٹھ کے دوسری جوان عورتوں کو گھور سکوں ، جس کا بنک بیلنس زیـادہ ہوتا ہے اس کے گھور پر عورتوں کو اعتراض نہیں ہوتا۔

بھی اب تم اپنا گھر بسا لو۔ یوں کب تک پریشان گھومتے رہو گے۔ ابھی جوان ہو گورے چٹے مضبوط انسان ہو ، اب مرنے والی نے اپنی نشانیـاں چار لڑکیوں کی شکل مـیں چھوڑی ہیں تو کیـا ہوا کیـا مرنے والے کے ساتھ کوئی مر جاتا ہے۔ جینے کیلئے بہانہ تو ڈھونڈتا ہی پڑتا ہے۔ آخر بنک  آفیسر ہو، کل ترقی ہا کے اونچے ہو جاؤ گے۔ اس کے ایک پرانے دوست عظمت نے اس کی اہمـیت بڑھا چڑھا کے بیـان کی۔

یـار۔ ہم کونسی کنواری لڑکی چاہتے ہیں۔ بس کوئی بیوہ ہو چکی اپنی جائیداد ہو۔ اگر اس کا بڑا پکا مکان ہو تو سمجھو وہیں ڈیرہ ڈال دیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہو پیسے والی۔ اس نے ایک آنکھ دبا کے اپنے دوست کو دیکھا۔

پیسہ والی۔ پیسہ والی۔ عظمت نے آہستہ آہستہ دہرایـا پھر یـاد کرنے کے انداز مـین ماتھے سے ہتھیلی ٹکا کے بیٹھ گیـا۔

لا اپنا ہاتھ۔ اس نے زور سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مارا

اور بے چینی سے کھڑا ہو گیـا۔

جوان بیوہ بھی ہے اور جائیداد والی بھی ہے۔ مگر اس کی دو ننھی منی لڑکیـاں ہیں۔ مگر کیـا ؟ وہ ایسی انداز مـیں پوچھنے لگا مـیری بھی تو سب لڑکیـاں ہی ہیں۔ اس کی یتیم لڑکیوں کیلئے مجھے تو کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔ جب وہ صاحب جائیداد تھے تو مجھے کیـا فکر۔

پڑھی لکھی۔ سمجھدار عورت ہے مگر اس کو ایک بیماری بھی ہے۔ کہانیـاں لکھنے کی اچھا۔ ہوا  کرے۔ مجھے کیـا فرق پڑے گا۔ مـیں تو فلک سے گھر  آؤں تو مجھے سرچھپانے کیلئے ایک شلٹر کی ضرورت ہو گی۔ مکان ہو گا تو مـیں بچوں کے ساتھ ایک جگہ وہ سکون گا۔ شاہ خان عظمت کو سمجھانے گلا۔

تمہیں کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں۔ بس تمہاری تھوڑی سی چاہت اور محبت اس کو تمہاری ہر ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دے گی۔ تم خود ماہر کھلاڑی ہو یـار۔ تمہیں زیـادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ جتنے فنکار ہوتے ہیں نا بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ انہیں تم ذرا سی محبت دے کر بڑی سے بڑی ذمہ داری سونپ دو ، وہ آسانی سے ہنس کر اٹھا لیں گے۔ سمجھے ؟ وہ اپنی دانست مـیں قیمتی مشورہ دے چکا تھا۔

پھر وہ دونوں رات گئے تک اپنے اپنے پلنگ پر لیئے مستقبل کے خاکے بناتے رہے۔

یہ سب واقعات و تجویز مـیں شادی کے بعد خان نے اس کو بتا دی تھیں۔ وہ ہنس کے ٹال گئی۔

اس نے نہ صرف شاہ خان و بچوں کی ذمہ داریـاں قبول کر لی تھیں۔ بلکہ شاہ خان کو ہر فکر سے آزاد کر دیـا تھا۔ مگر شاہ خانی پر بھی زیـادہ عرصہ تک بھروسہ کرنے والا آدمـی نہیں تھا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ مکان اس کی بیوی کا نہیں بلکہ اس کی لڑکیوں کے نام ہے تو اس کو اس گھر اور اس گھر کے تمام افراد سے عجیب سی بے زاری و بے تعلقی محسوس ہوئی حالانکہ وہ نہ صرف بچوں کی دیکھ بھال اچھی طرح کرتی تھی بلکہ شاہ خان کا ذرا ذرا سا کام بھی اپنے ہاتھوں سے کرنے کی عادی تھی۔

وہ اس خدمت و محنت کو غیر اہم سمجھتا اور چانوی حیثیت دیتا تھا۔

اس کی تلاش جاری تھی۔ کوئی ایسی عورت مل جائے جو دولت مند ہو۔ جس کی اپنی بڑی جائیداد ہو۔ اور وہ یکایک دولت مند نواب بن جائے۔ پھر شاہ خان اس سے دور ہوتا گیـا۔ وہ بنک مـیں آنے والی اور اپنے اکاونٹ مـیں پیسہ رکھوانے کیلئے اس سے مشورہ لینے والی عورتوں سے ایک بہت ہی سنجیدہ وبا اخلاق آفیسر کی حیثیت سے بات کرنا۔ ان کے ذاتی معاملات و نجی حالات کے متعلق اور جائیداد کے بارے مـیں بھی معلومات حاصل کرتا رہتا اور جب اسےی دولت مند بیوہ یـا مطلقہ عورت سے ملنے ،۔ ان کا پیسہ جمع کرنے اور قیمتی مشورہ دینے کا موقعہ ہاتھ آتا تو وہی شام ان کے بتائے ہوئے پتہ پر ان کے گھر پہونچ جاتا۔ اس کے یوں آنے پر عورتیں مرعوب ہو جاتیں۔ شام کی جائے بہت پر تکلف ہو جاتی۔ وہ بظاہر بہت بے تعلق اور محض ایک ہمدرد دوست کی حیثیت سے واپس آ جاتا۔

آپ پھر خود تشریف لائیے۔ ا سے ایک موقع اور ہاتھ آتا۔ پھر جیسے موقعہ ایسی کڑیـاں بن جاتے ہیں جن کی زنجیر بہت دور تک پہونچتی۔

آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر وہ گھر والوں اور خصوصاً اس عورت کے دل مـیں اپنا ایک گھر ضرور بنا لیتا تاکہ اس عورت  کا گھر حاصل کرنے مـیں مدد مل سکے۔ اس طرح دوستی مضبوط ہوتی جاتی۔

ان تمام باتوں کا علم اس کی بیوی کو بہت کم ہوتا۔ وہ بہت احتیـاط سے کام لیتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کےی جملے یـا حرکت سے اس ڈرامے کا انجام خراب نکلے۔ وہ بہت ہی مہذب و با کردار آفیسر بنا رہتا۔ لوگ اس سے مل کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔

گورا چٹا ،۔ اونچے قد و قامت و مردانہ وجاہت کا نمونہ ، سیـاہ شیروانی یـا چاکلیٹی رنگ کے سوٹ مـیں ملبوس ، سنہری فریم والی عینک لگاتا تو کندن کی طرح چمکتے چہرے پر عجیب سا حسن پیدا ہو جاتا۔ اتنی عمر مـیں بھی جب کہ اس کے ریٹائر ہونے مـیں پانچ چھ سال باقی تھے وہ بڑا مقناطیسی چہرہ لئے گھومتا۔

ایک عرصہ تک بیوگی کی پھیکی اور بے رنگ زندگی گذارنے والی عورتوں مـیں وہ بے حد مقبول تھا ان عورتوں کے سامنے وہ اپنے بے ماں کے بچوں کا تذکرہ کر کے انہیں ہمدرد و غمخوار بنا لیتا۔ پھر رفتہ رفتہ ان سے قریب ہونے لگتا۔

ستون سے چمٹی وہ اپنے ماضی کی ایک ایک بات کو یـاد کر رہی تھی۔

وہ کونسی گھڑی تھی جب وہ شاہ خان سے اپنے مستقبل کی ایک ایک ادھوری تمنا وابستہ کئے اس کے ہاتھ مـیں ہاتھ دیئے اس کے بچوں کا مستقبل بنانے مـیں ساتھی اور سانجھی بن گئی تھی۔ ان ہاتھوں سے اس نے آٹھ آٹھ  ماہ کی توام لڑکیوں کی پرورش کی تھی۔ اپنے گھر ، اپنے فرنیچر اور اپنے سے متعلق ساری چیزوں مـیں حصہ دار بنایـا تھا۔ چار سال اور دس سال کی جو لڑکیـاں تھیں وہ اب کالج و ہائی اسکول مـیں پڑھتی تھیں۔

ہر زخم مرہم رکھنے کی کوشش مـیں اس کے اپنے دل مـیں سینکڑوں گھاؤ پڑ گئے تھے۔ دوسروں کی ذمہ داریـاں سنبھالنے کی دھن مـیں وہ اپنی ذمہ داریـاں پہس پشت ڈال چکی تھی۔ شوہر اور بچوں کا دکھ درد سمـیٹنے مـیں اسے اپنا وجود یـاد نہ رہا تھا۔

شاہ خان اپنے مقصد کے پیچھے بھاگتا رہا۔ اور آج پھر ایک قدیم فوجداری کے وکیل صاحب کی دولت مند بیوہ کے چکر مـیں پھنس کے رہ گیـا ہے۔ ایسے واقعات بار بار دہرائے گئے تھے اور اب شاہ خان ایک ماہر شکاری تھا۔ اس کو دولت مند عورتوں سے درستی بڑھانے اور پھر آہستہ آہستہ انہیں قابو مـیں کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ جو موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ بیوقوف ہے۔ وہ اکثر دوستوں کی محفل مـیں کیـا کرتا۔

وہ کہانیـاں لکھتی تھی۔ مختلف کر داروں کی نفسیـات سے واقف جب وہ اپنےی کر دار کا نفسیـاتی تجزیہ کرتی تو لوگ اسے تعریفی خطوط لکھتے۔ اسے انسانی نفسیـات کا ماہر بتاتے مگر وہ اپنی زندگی کے ایک اہم کر دار کی نفسیـات کے بارے مـیں حیران رہ جاتی۔ اس نے بڑی محنت سے اس کا نفسیـاتی تجزیہ کیـا تھا۔

وہ ایک غریب گھرانے سے آیـا تھا۔ اپنی انتھک محنت و جد و جہد سے وہ بنک آفیسر بنا تھا۔ اور اب وہ اپنے ساتھ والے آفیسرز مـیں ایک اونچے معیـار کی زندگی چاہتا تھا۔ خواہی قسمت پر ملے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فوجداری کے ایک سینئر وکیل کی بیوہ سے چاہت کا کھیل ، کھیل رہا تھا۔ یہ عورت جس کے تین لڑکے و تین لڑکیوں کی شادی ہوئے زمانہ گذر گیـا تھا اب تو اس کے نواسے بھی جوان تھے۔

یہ عورت جوی کی نانی ہے۔ی کی دادی ہے۔ اچانک اس مـیںی کو چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ جاگ پڑا ہے۔ وہ بری طرح شاہ خان کے ہوش وحواس پر چھاتی چلی جا رہی ہے۔ ایک اودھی گھٹا بن کر ، جس سے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی۔

اب بارش تھم چکی تھی۔ بس ہلکی پھوار بغیری آواز کے گھر رہی تھی۔ نیم اور جامن کہے پیڑوں سے قطرے تیزی سے گر رہے تھے۔

وہ دبے قدموں سے درون انڈے کی چھت پر اتر آئی۔ ڈائننگ روم کے دروازے تو بند تھے ہی۔ وینٹی لیٹرز بھی بند تھے مگر ذرا انگلی سے ڈھکیلنے پر ایک بڑی دراز پیدا ہو گئی تھی۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل کی کرسیوں پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ شاہ خان مسز قریشی کو چمچے سے مـیٹھا کھلا رہے تھے۔ اچانک مسز قریشی نے شاہ خان سے سوال کیـا۔ آخر آپ نے اپنی بیوی کے بارے مـیں کیـا سوچاہے۔ ؟

خان نے بائیں ہاتھ کی انگلی کو دائیں ہاتھ کی انگلی سے کاٹ کر غالباً چھوڑ دینے کا اشارہ کیـا۔ مسز قریشی نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر شاہ خان کو مسکرا کر ترچھی نظروں سے دیکھا اور شاہ خان اس کے مـیٹھے ہونٹوں پر جھک گئے۔

دھڑ دھڑ۔ دھڑ۔ جیسے اس کا دل حرکت کرتے کرتے بند ہو جائے گا۔ شاہ خان کی ان حرکتوں کے بارے مـیں اس نے صرف سنا تھا مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنا کتنا جان لیوا ہے۔

کان کی لو مـیں گرم ہو گئی تھیں۔ کنپٹیـاں جیسے تڑخ رہی تھیں۔ اس کیفیت کا وہ کوئی صحیح نام نہ دے سکی۔ اس کی توساری زندگی تپتے ہوئے صحرا کی طرح گذری۔ ایسے ہی حالات مـیں ایسی ہی غیر محفوظ۔ تیز آندھی مـیں رکھے کے ننھے دیئے کی کانپتی لو کی طرح۔

مٹی کے کچے گھروندے کی طرح جو تیز بارش مـیں بہہ جاتا ہے۔ وہ کب تک اس گھروندے کو اپنے آنچل سے ڈھکتی رہے گی۔

ننھے منے بچوں کو اس کے ہاتھوں نے پال پوس کے بڑا کیـا ہے۔ بچے اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کو ماں کہہ کے پکارتے ہیں مگر۔

اے مـیرے بچو! جس کشتی مـیں ہم سب سوار ہیں اس کے پتوار ایک ظالم ملاح کے ہاتھوں مـیں ہیں۔ کچھ پتہ نہیں پار لگائے گا یـا کنارے سے قریب لا کے غرق کر دے گا۔ وہ ایک غیر ذمہ دار انسان ہے۔ اس کے پہلو مـیں تحفظ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ خود اپنے لئے ایک محفوظ پہلو ڈھونڈ رہا ہے۔ جہاں پہونچ کر اس کو دولت مندی ، مضبوطی و اونچائی کا احساس ہو۔

کیـا ایسا سوچنا کر دار کی انتہائی پستی نہیں ہے۔

آج اس طرح بارش مـیں بھیگتے بھیگتے اور اس کی شخصیت کا تجزیہ کرتے کرتے اسے یـاد آیـا کہ بھائی مـیاں نے بتایـا تھا کہ جس طرح آدم خور شیر کو انسان کے خون کی چاٹ لگ جتی ہے اسی طرح شاہ خان کو بیوہ عورت کے پیسے کی چاٹ لگ گئی ہے آسانی یہ ہے کہ وہ خوش شکل واسمارٹ ہے اور ایک نیک آفیسر ہے۔ یہ دولت مند عورتوں سے قریب ہونے کا بڑا اچھا ذریعہ ہے۔ اور پھری کو کوئی شبہ بھی نہیں ہوتا تمہیں معلوم ہے۔ مـیں اسے بیوہ خور کہہ کے پکارتا ہوں۔ انہوں نے قہقہہ لگایـا تھا۔ افوہ۔ قدر خطرناک نام ہے۔

اس خنک ہوا مـیں بھی اس کے ماتھے پر پسینے کی بوند مـیں ابھر آئی تھیں اور آنکھوں سے جھر جھر برسات ہو رہی تھی جو اس کے سینے مـیں شعلے بھڑکا رہی تھی

ہم تو سمجھے تھے کہ برسات مـیں برسے

آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیـا

دور سے بیگم اختر کی آواز آ رہی تھی۔

٭٭٭

مـیں بالکنی مـیں کھڑی سڑک کے کنارے اس درخت کو دیکھ رہی ہوں جس کے نیچے کئی راہگیر بارش سے بچنے کیلئے جمع ہو گئے تھے۔ ان تک صرف خنک ہوا کے جھونکے ہی پہونچ پائے اور سکڑے سکڑائے جسم شاید یہ سوچ کر خوش ہو جاتے کہ بارش سے بھیگنے اور سرد ہواؤں کے تیز جھونکوں سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ پیڑ قدر ضروری و اہم ہے۔

اس نے پلٹ کے ورانڈے مـیں بیٹھی اماں کی طرف دیکھا۔ مہربان شفیق مسکراہٹ ہونٹوں پہ لئے رہ منے چما کے لڑکے کو پڑھا رہی نہیں۔ اسٹو پر جائے کی کیتلی رکھی تھی اور ان کے ہاتھوں مـیں نوازش بھائی کا ادھورا سوئیٹر تھا جسے وہ بغیر آرام لئے جلدی جلدی بن رہی تھیں۔

نیچے سیڑھیوں سے ہٹ کے ابن مـیاں اور عالیہ بانو کا کمرہ تھا۔ اور بڑے بھیـا چھوٹے بھیـا اور نسیم بھیـا کے قہقہے ستونوں والے دالان سے سنائی دے رہے تھے۔ اور اماں کے چہرے پر ان قہقہوں کو سننے سے ایسی تازگی اور مسکراہٹ آ جاتی جیسے ان کی جوانی پھر لوٹ آئی ہو ، مگر بیچاری اماں نے تو مشکل ہی سے زندگی کے کچھ دن اچھے گذارے ہوں گے۔ ابا مـیاں دکن گئے۔ وہیں کے ہو رہے ، جب بھی انہوں نے اماں کو دکن بلایـا اور آنے کیلئے منی آرڈر بھیجا تو یہ بار اماں ہم سب کو سینے سے لگا کے پیـار سے بڑبڑائیں۔ ’’کیسے چلی جاؤں ان کمبخت ماروں کو چھوڑ کے۔ بڑی مشکل سے ان بے ماں باپ کے بچوں کو پرورش کیـا ہے۔ اب کے بھروسے چھوڑ دوں۔ اور پھر وہ سارے ہیں اماں بچوں کی ضروریـات پر خرچ کر ڈالتیں۔

اماں کو کوئی اماں کہتا ، کوئی ننھی دلہن اور کوئی جگور والی باجی کیلئے پکارتا ، دیہات کی بڑی بوڑھیـاں انہیں ننھی دلہن کہتیں ، ادھیڑ عمر کی عورتیں اور مرد جگور والی باجی کہتے اور دیہات کے سارے بچوں کیلئے وہ اماں تھیں۔ اماں کے نام کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ایک مہربان ، پر خلوص اور پر شفقت ہستی کا تصور آ جاتا۔

ہاشم مـیاں اپنی برف کی طرح سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر پھیر کے ان کی شادی کے حالات سنایـا کرتے۔ وہ تھیں بھی ایسی ہی جب بیـاہ کے سسرال آئیں تو آنچل مـیں بہت سے گڈگے ،گردیـاں بھی مـیکے سے ساتھ لے آئیں۔ انہوں نے ابھی ابھی تو اپنی لاڈلی گڑیوں کا بیـاہ رچانا، اور ڈھولک پر سکھی سہیلیوں کے ساتھ لہک لہک کے گانا اور رسم و رواج کی پابندی کرنا سیکھا ہی تھا کہ ان کا بیـاہ رچا دیـا گیـا۔ اور ننھی سی سگھڑ اور مہربان دلہن پا کے سسرال والے نہال ان کے دھان پان جسم مـیں بہت بڑا دل دھڑکتا رہتا۔ سب کے دکھ درد پہ کراہتا ہوا یہ دل ان کے سخی و لمبے ہاتھوں کا ساتھ نہ دے پانا۔

اللہ رکھے ان ننھی منی جانوں کو پیسہ تو بہت مل جائے گا۔ وہ اکثر دیہات کے مفلس اور یتیم بچوں کی مدد کرتے ہوئے دعا مانگا کریں۔

ابا مـیاں کو بڑا ارمان تھا کہ بس ایک ہونہار بچے کے باپ بن جائیں۔ اے جی سنتی ہو ؟ جانے وہ دن کب آئے گا جب مـیں باہر سے آؤں گا تو مـیاں صاحبزادے فوراً دوڑے ہوئے آئیں گے اور مـیری ٹانگوں سے لپٹ جائیں گے کبھی مـیری اچکن اٹھائے لئے آ رہے ہیں تو کبھی مـیرے جوتے اپنی کمزور گرفت مـیں پکڑے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھنا شہر کے سب سے اچھے اسکول مـیں پڑھاؤں گا صاحبزادے کو آہا ہا ، وہ خوش ہو کر یوں قہقہہ لگاتے کہ اماں سسپٹا کے نگاہیں چرانے لگتیں۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بہار کی پہلی کونپل ان کی کوکھ سے پھوٹی۔ دیکھتے دیکھتے ننھی دلہن ، ننھی ماں بھی بن گئیں۔ اب ابا مـیاں دن رات گھر مـیں پڑے رہتے۔ نیـاز نذر مـیں۔ مرادوں ، منتوں مـیں پیسہ پانی کی طرح بہایـا گیـا۔

اب دونوں کو اس دن کا انتظار تھا جب سرخ وسفید چہرے والا گول مٹول بچہ بیـاں چلے گا۔ پھری کرسی یـا دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہو گا۔ پھر چلنے لگا۔ پھر ابا مـیاں کی اچکن لے آئے گا۔ ان کے جوتے لئے گرتا پڑتا پنگ کے نیچے رکھ آئے گا۔

وہ اپنے بچے کے متعلق سوچتے سوچتے آپ ہی مسکرانے لگتے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے شہر کے سب سے اچھے اسکول کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔

وہ اپنے بچے کو یوں گود مـیں اٹھائے جیسے وہ کانچ کا بنا ہوا حسین گڈا سے ابا مـیاں کے حد بزرگ انہیں منجھلے مـیاں کہتے مگر دیہات کے سب بچے ابا مـیاں کی رٹ لگائے رہتے جب بچہ رینگنے لگا اور فرش پر پڑی ساری ضروری و غیر ضروری چیزوں کی اُٹھا دھری۔ توڑ پھوڑ اور ہر چیز پر توجہ دینے کی ذمہ داری اس کی چھوٹی سی ذات پر آ پڑی تو ننھی دلہن اور منجھلے مـیاں ہر حرکت پر قربان ہو جاتے۔ اب سارے دیہات مـیں ننھی دلہن کا طوطی بولتا تھا۔ یوں بھی ان کی مہربانی ، سخاوت اور آڑے وقت کام آنے والی عادتوں سے سب ہی متاثر تھے۔

ان کے ارمانوں پر اچانک خزاں چھا گئی۔ خوشیوں کے پھول مرجھا گئے۔ اچھا خاصہ ہنستا کھیلتا بچہ ہمـیشہ کیلئے چپ ہو گیـا۔

پھر ننھی دلہن اولاد کیلئے ترستی رہیں۔ مگر کوکھ تو ہمـیشہ کیلئے اجڑ گئی تھی پھر اس سے کوئی کونپل نہ پھوٹ سکی۔

منجھلے مـیاں ایسے دل شکستہ ہوئے کہ اپنے بڑے بھائی کے پاس دکن چلے گئے اور وکالت شروع کی۔

ادھر دیہات مـیں ہیضہ کی وباء نے گھر کے گھر ویران کر ڈالے۔ اگلے وقتوں مـیں یہی تو ہوتا تھا کہ جب کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑتا تو دیہات کے دیہات اجڑ جاتے جگور مـیں جس تیزی سے وباء پھیلی اسی تیزی سے دیہات ویران ہو گئے ایسے وقت ننھی دلہن نے لا وارث بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈھ کے اپنی حویلی مـیں بسانا شروع کیـا۔ وہ یوں پریشان وہراساں تھیں جیسے ان کی اولاد موت کے منہ پر کھڑی ہے۔

جب بھی منجھلے مـیاں چھٹیوں مـیں آتے تو لکھنو کی کوٹھی مـیں قیـام کرتے اور ننھی دلہن کو اپنے ساتھ لے جانے پر ضد کرتے مگر ان چھوٹی چھوٹی یتیم جانوں کو چھوڑ کے ننھی دلہن کہاں جاتیں۔ ان سب کا بار تو ان ہی کندھوں پر تھا۔

اب دیہات مـیںی صورت منجھلے مـیاں کا دل نہ لگتا۔ انہیں یہاں کی ہوا بھی بری لگتی اور فضا بھی۔

ننھی دلہن تو سانپ کے منہ کی چھچھوندر تھیں نہ اگلے بنے نہ نگلتے۔ جب رات کو سب بچے اکٹھے ہوتے تو وہ پلنگ پر لپٹی ہوئی کہانیـاں سنایـا کرتیں۔ ان کی ہر ضرورت پوری کرتیں۔ انہیں پڑھاتیں لکھاتیں تیـار کر کے اسکول بھیجتیں۔ انہیں سلیقہ مند اور سوگھڑ بنانے مـیں وقت کا بڑا حصہ صرف کرتیں۔ ا نہیں ادب لحاظ سکھانے ، تمـیز دار اور محنتی بنانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیـار کرتیں۔ ان مصروفیـات کیلئے انہیں بعض وقت سارا دن بھی ناکافی محسوس ہوتا۔ لڑکیوں کو وہ سینا پرونا کاٹ بیونت و پکوان بھی سکھاتیں۔ اماں انہیں دنیـا مـیں ایک مکمل انسان کی طرح جینا سکھاتی رہیں ان کے دکھ درد مـیں جاگتی رہیں ان کی خدمت کرتیں ان کی خدمت کرتیں ، کھیت کٹنے اور ان کے باغات کی فصلیں فروخت ہوتیں تو ننھی دلہن بہت خوش ہوتیں۔ پھر مہینوں بچوں کے کام کاج چھٹی نہ ملتی۔ اس طرح انہوں نے اپنی ساری جائیداد سے وصول ہونے والا پیسہ ان بچوں کی پڑھائی لکھائی و پرورش پر صرف کر دیـا۔

مـیں نے پلٹ کے پھر امان کی طرف دیکھا ان کے چہرے پر بے شمار جھریـاں پڑ گئی ہیں وہ پہلے سے زیـادہ کمزور ہو گئی ہیں۔ ان کے ہاتھوں مـیں ہلکا سا رعشہ پیدا ہو گیـا ہے۔ مگر ان کے سوچنے سمجھنے کی قوت کہیں زیـادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ جوان و ادھیڑ عمر کے لوگ جو اس حویلی مـیں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں وہ اماں کی آغوش کے پالے ہوئے ہیں ان کے کپکپاتے ہاتھ یقیناً کمزور ہیں مگر ان کی صحت مند فکر و نظر نے انہیں عظیم بنا دیـا ہے۔ ہائے اماں تم راستے کے اس پیڑ کی طرح ہو جو یونہی سربلند کئے ہیں پھیلائے ہر انسان کی خدمت کرتا ہے۔ اس کو اپنی وسیع آغوش مـیں پناہ دیتا ہے۔ طوفان ، آندھی وجھلسا دینے والے بگولوں سے بچاتا ہے اور حالات کا ہر ستم اپنی ذات پر سہہ لیتا ہے اگر ہماری زندگی کی راہ مـیں تم جیسا طاقت ور و گھنا پیڑ نہ آتا تو ہم کہاں جاتے ؟

٭٭٭

رگھو کھانا کھانے کے بعد چلم کے کش لینے لگا۔ شانی برتن سمـیٹ کر نالہ پر دھونے چلی گئی۔ کھیتوں کے بیچ سے عجیب سونچھی ٹھنڈک نکل رہی تھی۔ دھان کی بالیـاں سنہری ہو رہی تھیں۔ دھان خوشبو دار تھے یہ دھان وہ  وینکٹ ریڈی زمـیندار سے مانگ کے لایـا تھا کتنا ارمان تھا اسے خوشبو دار دھان اگانے کا کھیتوں کے اطراف سورج مکھی کی باڑھ بھی اس کی حسن پرستی ظاہر کرتی۔

رگھو سب سے الگ تھلگ نظر آتا۔ صورت شکل مـیں ، لباس، بات چیت ، پسند ناپسند سب الگ تھی۔ ان سب کے درمـیان رہتے ہوئے کبھی اس کا اپنا رنگ الگ پہچانا جاتا تھا۔ اس کے کھیتوں کے اطراف پھول دار موسمـی پودے ضرور لگے ہوتے۔ جب بھی شہر جاتا پھولدار پودوں کی نام گیلے کپڑے مـیں لپٹ کے ساتھ لاتا۔ ان پھولوں کا نام اس کو یـاد نہ رہتا مگر الگ ، پھولوں کی بناوٹ پتیوں کی قسم ، اسے اچھی طرح یـاد رہتی۔

اس چھوٹے سے دیہات مـیں ، اس کی بیوی سب عورتوں سے زیـادہ اچھی شکل و صورت کی تھی۔ ملی ہوئی گہری بھنویں ، سیدھی پگڈنڈی کی طرح بازوں کے درمـیان چلی گئی۔ لمبی مانگ اور ٹھڈی کا کالا تل۔ے ہوئے بدن پر ہری ساری باندھ کر ، پلو کمر مـیں اڑس کر لمبے لمبے قدم رکھتی کھیتوں کو جانے والے راستے پر چلتی تو دور سے دیکھ کر یوں لگتا جیسے مندر کی سیـاہ چمکدار پتھر والی مورتی مـیں جان پڑ گئی۔ پتلی کمر پر چاندی کا کمر پٹہ وہ ضرور لگاتی۔ مسلسل محنت نے اس کا بدن بڑی خوبصورتی سے تراشا تھا۔ یہ کمر پٹہ واحد گہنا تھا جو اسے مـیکے سے ملا تھا۔ جب بھی دونوں مـیاں بیوی مندر جاتے وہ اشارے سے شانی کو بتاتا کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ تیری ہی مورتی ہے۔

اتنا گہنا کہاں ہے مـیرے بدن پر۔ صرف دھاگے سے بنی ڈوری مـیں پشتہ پڑا ہے۔

یہ دیکھ ، وہ پشتے کی ڈوری ، چولی سے کھینچ کے نکالتی یہ دیکھ اتا سا سونا ، رگھو کا جی چاہتا موتی کے گلے سے سارے گہنے نکال کر شانی کو پہنا دے یوں بھی عورتیں گہنے پاتوں سے بہت خوش ہوتی ہیں نا؟ جیسے مورتی پتھر کی بنی ہوئی ہے ویسے ہی اس کے گہنے بھی پتھر ہی مـیں کھود کی بنائے گئے ہیں۔

یہ گاؤں بھی کتنا چھوٹا سا ہے۔ پرگی سے پندرہ سولہ مـیل دور غریبی ، ناداری وافلاس کی گہری چھاپ ہے اس گاؤں کے ذرے ذرے پر ، بچی ریڈی اور وینکٹ ریڈی یہاں پکی حویلیوں مـیں رہتے ہیں۔ ان کے قلعہ نما گھروں کو دیکھ کے آنکھیں حیران رہ جاتی ہیں۔

خصوصاً وینکٹ ریڈی کا عالیشان قلعہ۔ اس گاؤں مـیں جہاں جھونپڑیـاں ہیں کچے گھر ہیں ، مٹی سے بنے گھر جن کی چھتوں پر کویلو کی طرح شاہ آبادی  پتھر جائے جاتے ہیں۔ بعض دو منزلہ گھر بھی مٹی سے بنے ہوئے ہیں اور چھتوں پر شاہ آبادی پتھر۔ وینکٹ ریڈی اور بچی ریڈی بڑی عزت والے زمـیندار ہیں۔ ان کے گھرانے مـیں خوشبودار چاول اور اصلی گھی روزہ استعمال ہوتا ہے۔ گاؤں پتھر کے قریب آدمـی آج بھی ان کے کھیتوں مـیں کام کرنے کیلئے مجبور ہیں۔

وینکٹ ریڈی نوجوان زمـیندار ہے۔ اس کے دیوان خانے مـیں شیر کی کھالیں اور ہرن دوبارہ سنگھا کی سینگین دیواروں کی زینت ہیں۔ ریچھ کی لمبے سیـاہ بالوں والی کھال درمـیانی مـیز کے نیچے بچھائی گئی ہے۔ اس قلعہ نما حویلی کی چھت سے پورے گاؤں کا نظارہ کیـا جا سکتا ہے۔ اس حویلی مـیں چور دروازے اور تہہ خانے بھی ہیں۔ وینکٹ ریڈی کو شکار کا شوق ہے۔ دیواروں پر جانوروں کی کھالیں اور سجی ہوئی بندوقیں اس کے شوق کا اظہار کرتی ہیں۔

چھت پر کروٹن کے گملے سلیقے سے رکھے ہیں۔ حویلی کی بنیـاد کے ساتھ ساتھ گودام ہیں جہاں زمـینات سے آیـا ہوا اناج رکھا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگلے وقتوں مـیں اس حویلی کو بنانے والے مستری شہر سے آئے تھے۔ ہاں مٹی ڈھونے و پتھر اٹھانے والے مزدور اسی گاؤں کے تھے۔ افلاس و غریبی کے مارے ہوئے جنہیں دیکھ کے رحم آتا ہے ، پھٹے ہوئے مـیلے کپڑے گھر مـیں تھوڑے سے مٹی کے برتن ، موٹی دھوتیـاں ، موٹی ساریـاں جن مـیں کئی کئی پیوند پڑے ہیں۔ دھجی دھجی کپڑے جنہیں پہن کر جانے یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ پہنا ہے کہیں سے بدن ڈھک گیـا ہے تو کہیں سے کھل گیـا ہے۔ یہ لوگ پچکے ہوئے پیٹ اور ابھری ہوئی ہڈیـاں بجھ نہیں چھپا سکتے۔ اکثر موٹا چاول لال مرچ کی چٹنی سے کھاتے ہیں۔ دال یـا ساگ کم ہی بنتا ہے۔ دال اور چاول کھانا بھی ایک طرح کا عیش ہے۔

بچی ریڈی نے ایک مسلمان گماشتہ رکھا ہے جو ہر روزہ سود کاپیسہ وصول کرنے کیلئے قریب کے دیہاتوں مـیں گھومتا ہے۔ اس کے سینے پر تین جوان بیٹیـاں لدی ہیں۔ بجی ریڈی ہر آڑے وقت اس کے کام آتا ہے۔ گماشتے نے بھی دنیـا دیکھی ہے۔ وہی قیمت پر زمـیندار کو ناراض نہیں کرتا، اس کے لئے اصلی گھی ، انڈے وسستی مرغیـاں آس پاس کے دیہاتوں سے اکٹھی کر کے لے آتا ہے۔ کہیںی پیر کے مزار پر منتیں پوری کرنے پر کچھ پکتا ہے۔ فاتحہ دینے کیلئے بجی ریڈی کا گماشتہ بلایـا جاتا ہے۔ مرغیـاں ذبح کرنا ہو یـا فاتحہ دینا ہو، وہ نل پر نہا کے صاف کپڑے اور جالی دار ٹوپی اوڑھ کے فوراً حاضر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی گرہستی چلائی۔ بیوی اور تین بیٹیوں کی سرپرستی کی۔ وہ خودی درگاہ کا متولی تھا مگر کم ہی درگاہ مـیں حاضری دیتا۔ ہر وقت نشہ مـیں مدہوش رہنے والے کا وہاں کیـا کام۔ پھر یہ پینے پلانے کی عادت ایسی پختہ ہو گئی تھی کہ اب وہ بغیر پئے رہ بھی نہ سکتا تھا۔ خدا بھلا کرے بچی ریڈی کا اس کے وصول شدہ پیسوں مـیں سے وہ اپنے لئے سستے گڑمبے کی بوتل ضرور خرید لیتا۔ زمـیندار سب جانتے ہوئے بھی اسے کچھ نہ کہتا۔ کام کا آدمـی تھا نہ ہو

ہر وقت اس کے ہاتھ مـیں ایک موٹا سا ڈنڈا ہوتا جس کے آخری سرےر لوہے کی پٹی ٹھنکی ہوتی۔ مشہور تھا کہ اس زمـیندار کے گماشتہ نے کئی سرکش آدمـیوں کے سر کھول دیئے تھے۔

گاؤں کے درمـیان بڑا سا تالاب تھا جس کے اطراف مویشی گھاس چرتے۔ بھینس پانی کے اندر بیٹھی جگالی کرتی رہتیں۔ گاؤں کے بچے اور مویشی چرانے والے گڈریے سامنے مـیدان مـیں کھیلتے رہتے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں مـیں ذمہ داری کا یہ احساس بتاتا ہے کہ وہ کمسنی ہی مـیں اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل بن جاتے ہیں اور ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔

مویشی چرانا، کھیتوں کی مـینڈھیں بنانا ، ماں کے ساتھ گھر کو چونے و لال مٹی سے پوتنا اور پھر گاؤں کے اسکول مـیں پڑھنے جانا ، اپلے جلا کر پانی گرم کرنا ، مویشیوں کو چارہ ڈالنا ، تالاب پر کپڑے دھوتے ہوئے گھانس چرنے والے مویشیوں پر نظر رکھنا ، کتنے کام ہیں ان ذرا ذرا سی جانوں کیلئے اسی طرح گاؤں کے کچے راستوں پر بھاگتے بھاتے وہ جوان ہو جاتے ہیں۔

بدھ کو بازار لگتا ہے جس مـیں ضرورت کی ساری چیزیں بکتی ہیں۔ ش ہر سے دو چار سستے کپڑوں کی دوکانیں بھی آ جاتی ہیں۔ اس بازار مـیں مویشی المونیم کے کم قیمت والے برتن ، صراحیـاں ، گھڑے ، بٹیـاں ، ٹوکرے ، چٹائیـاں ، بوریئے ، آئینے ، پاوڈر ، ہینڈ لوم کی ساڑیـاں ، چہلواری ، موٹی ململ اور بچوں کیلئے ریڈی مـیڈ رنگین کپڑے۔ کم از کم دو فرلانگ تو لگتا ہی ہے بازار ، جس مـیں گوشت ترکاری اور کبھی مچھلی بھی ملتی ہے۔ گوشت صرف بازار کے دن ملتا ہے۔

یہاں ایک پکی دوکان قادر بی کی ہے جس مـیں ہر وقت ٹیپ ریکارڈ بجتا رہتا ہے۔ اس کا شوہر مزدوروں مـیں بھرتی ہو کر باہر چلا گیـا تھا۔ قادر بی نے چھ ایکڑ زمـین خرید لی ہے۔ اور اب دوکان پکی بن گئی ہے۔ اکثر ضرورت کی چیزیں قادر بی کی دوکان پر مل جاتی ہیں۔ اس کے پاس باہر کا کچھ سامان بھی جمع ہو گیـا ہے مگر گاؤں کی عام حالت افلاس زدہ ہے۔ ونوبا بھاوے جی کی پد یـاترا مـیں پچاس ساٹھ ایکڑ زمـین بھو دان تحریک کے تحت دی گئی تھی۔ مگر دی گئی صرف کاغذ پر وہ زمـین اب بھی وینکٹ ریڈی کے قبضے مـیں ہے۔

یوں بھی صرف زمـین سے کیـا ہوتا ہے۔ دانہ چاہئے ، کھاد چاہئے ، کام کرنے والے چاہئے ، ہل چلانے کیلئے بیل چاہئے ، پانی کیلئے چاہئے۔ پھر الٹا زمـیندار کا قرض چڑھتا چلا جاتا ہے ، بہتر طریقہ وہی ہے کہ بڑے زمـینداروں کے کھیتوں اور گھروں مـیں کام کرو اور موٹا جھوٹا کھاؤ ، اور کوئی صورت بہتری کی ہو نہیں سکتی۔

کبھی کبھی شانی کے طعنوں سے تنگ آ کے وہ سوچتا کیوں نہ قادری بی کے گھر والے کی طرح مزدوروں مـیں بھرتی ہو کر باہر چلا جائے۔ مگر یہ باہر کا چکر بھی تو ہزاروں روپئے چاہتا ہے۔ یہ بھی سننے مـیں آ رہا ہے کہ اب کمائی کے لئے باہر جانا بھی بند ہو جائے گا۔ لوگ واپس آ جائیں گے۔ بس بھگوان جس حال  مـیں رکھے خوش رہو۔

کیـا بھگوان کی زبردستی ہے ؟ رگھو کے ، اندر کہیں سے ایک چنگاری اڑتی۔ پھر اس کا سارا وجود دہک اٹھتا۔ وہ ایک ایسی بھٹی بن جاتا ہے جس مـیں لوہا، فولاد ، سب کچھ پگھل جاتا ہے۔ وہ آنسو پی جاتا اور مٹھیـاں کے دیوار پر مکے برسانے لگتا۔

وہ دن بدن بدلتا گیـا۔ زمـیندار کے کارندے پکڑ کر لے جاتے۔ مار پیٹ کرتے ، وہاں سے چھوٹ کر وہ اور زیـادہ خطرناک منصوبہ بناتا ، جب شہر جانا وکیلوں سے مل کے گاؤں کے حالات کے بارے مـیں مشورے لیتا۔ وینکٹ ریڈی بھی اس کی آگ سے پگھلتا گیـا۔ اس کا قرض معاف کر کے اس کی زمـین واپس کر دی۔ زمـیندار جانتا تھا کہ مخالفت کرنے والے پر عنایـات کی بارش کر دو تاکہ آگ پھیل نہ سکے۔ رگھو کی کامـیابی نے دوسرے کاشتکاروں کی ہمت بندھائی۔ اب وہاں بہت سےان اپنی زمـین اور کھیت رکھتے ہیں یہ سب رکھو کی لگائی ہوئی آگ ہے۔ اب اس کو آگ سے کھیلنا آ گیـا ہے جب آگ سے کھیلنے کا فن آ جاتا ہے تو زندگی کی ، کٹھنائیـاں ، پریشانیـاں اور تکلیفیں سب حقیر لگتی ہیں۔ اس کا دل و دماغ عام لوگوں سے الگ کام کرتا۔ وہ دنیـا بھر سے بے خبر اپنی گرہستی ، اپنے کھیت اور صرف اپنی زمـین کے بارے ہی مـیں نہیں سوچتا تھا بلکہ سارےانوں کی عام زندگی کے بارے مـیں بھی اس نے خیـالوں ہی خیـالوں مـیں کئی نقشے بنائے تھے۔

پھر وہ نیک بند ہونے کے بعد شام مـیں بنک کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ کے چلم کے کش لیتا تو وہ سارے نقشے اپنے ساتھیوں کو بھی دکھاتا جاتا۔ کچھ سمجھ مـیں آ جاتے اور کچھ لاکھ کوشش پر بھی لوگوں کو وہ سمجھا نہ سکتا اور سامنے سڑک پری نہی کے گذرنے پر سرگوشیـاں بند ہو جاتیں۔

پچھلے سا ل جب سوکھا بڑا تھا تو زمـیندار کے گودام سےی نے آدھا اناج غائب کر دیـا تھا۔ زمـیندار کے کا رندے رگھو کو پکڑ کے لے گئے مگر کب تک حبس بیجا مـیں رکھتے ؟ آخر چھوڑ دیـا۔

رگھو اکیلاان تھا جس نے گاؤں کے اسکول سے ساتویں کلاس پاس کی پھر پرگی جا کے مـیٹرک کیـا۔ اس نے فرسٹ کلاس مارلئے تھے۔

وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا اور اس کا باپ اس کو پڑھانا نہ چاہتا تھا ۔  اتنے فاضل پیسے کے پاس ہیں کہ شہر بھیج کر آگے پڑھا یـا جائے۔

وہ خوب رویـا تھا ، چیخا و چلایـا تھا۔ مگر بغاوت کا جوالا مکھی تب بھی اس کے سینے مـیں سلگ رہا تھا۔ اُس نے گاؤں کی اس چھوٹی سی کنٹین مـیں کام کرنے سے انکار کر دیـا تھا جو اُسکا باپ اور چاچا مل کر چلاتے تھے اور جو دو بڑے جھونپڑوں پر مشتمل تھی۔

اب گاؤں مـیں بنک بھی کھل گیـا تھا اورانوں کا پچھڑا ہوا ، حالات سے مجبور اور پسا ہو ا جتھا بھی بنک سے قرض لے سکتا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ یہاں کا چند افراد پر مشتمل ، اونچے زمـینداروں انکے رشتہ داروں اور دوستوں کا حلقہ جو انسانوں کو مختلف خانوں مـیں بانٹ کر اپنا نام سر فہرست رکھتا تھا اور اپنی ٹانگ ان معاملات مـیں پھنسا کر رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش مـیں مصروف تھا۔

بنک کے منیجر کو اپنے گھر دعوتیں دیکے بلانے ، اس کو مختلف لوگوں کے بارے مـیں غلط باتیں بتانے ، وقت پڑنے پر گواہی نہ دینے اور الٹی سیدھی باتیں بنا کر بہکا نے مـیں یہ مٹھی بھر آدمـی اپنی اور اپنے ساتھوں کی ساری قوت سمـیٹ کراس کام مـیں جٹ گئے تھے۔ مگر رگھو نے مویشی اور دانہ بھی خرید لیـا تھا۔ اپنی زمـین پراس نے دوسرےانوں سے مل کے دھان کی کا شت کی تھی۔ کچھانوں نے رگھو کی ہدایت پر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے کھیتوں مـیں کام کر کے دوستی کی بنیـادوں کو مضبوط بنانے کا وعدہ بھی کیـا تھا۔ پھر ان کی بیویـاں و بچے بھی تھے۔ اس طرح ہمت کر کے رگھو کے آگے ڈھکیلنے پردہ زمـیندار کی نظروں مـیں کھٹکنے لگے تھے۔

دوسرے مسائل بھی تھے اناج کو پہلے جاگیر دار ، زمـیندار ، انکے کا رندوں مـیں اور گاؤں کے بڑے لوگوں مـیں بانٹ دیـا جاتا تھا۔ تھوڑ ابہت اناج جو بنڈیوں پر لاد کر شہر کی منڈ یوں مـیں بیچنا پڑتا تھا۔ وہ انانوں کیلئے پورا نہ پڑتا۔ نہ رکھا ہوا ، نہ فروخت کیـا ہوا۔ پھر توکسیـان کے پاس زمـین ہی نہیں رہ گئی تھی۔ی نہی ضرورت سے یـا کھیتی باڑی کی سہولتیں نہ ملنے پر زمـین کوڑیوں کے دام زمـیندار کے پاس خود بخود چلی جاتی تھی زیـادہ آسانی اس مـیں تھی کہ زمـینداروں کے کھیتوں مـیں مزدوری کر کے پیٹ بھر نے کا سامان کیـا جائے پھر ان کی یہ محنت تو منڈیوں مـیں فروخت ہو جاتی مگر دام گھٹا کے صرف مزدوری زمـیندار ان کو دیتا تھا۔ اس طرح وہ معمولی مزدور تھے۔ اپنے کھیتوں پربھی ان کی حیثیت ایک مزدور کی تھی رگھو نے آہستہ آہستہ اپنے کھیتوں پر اناج اگانا شروع کیـاتوسارے ساتھیوں نے ساتھ دیـا۔

شانی نے ڈھولک اور زمانے سے بیکار پڑے سامان سے گھنگھرو نکال کے لنگیـا و گھومری کو دیئے تھے۔ ناچ گا کے ان سب نے ان کی خوشیوں مـیں برابر کا حصہ لیـا۔

اس افلاس زدہ گاؤں مـیں بنک صرف کچھ سال پہلے کھولا گیـا تھا ورنہ حالات شاید بد سے بتر ہو گئے ہوتے۔

یو بھی عام زندگی غربت ، افلاس اور تنگدستی مـیں گذر رہی تھی۔

رگھو نے بنک کے گاؤں مـیں آتے ہی ساری مردہ زندگیوں مـیں جان ڈالنے کی کوشش کی۔ نہ صرف خود بنک سے قرض لے کے مویشی خریدے بلکہ دوسروں کو بھی جھنجھوڑا خود مـیر کا رواں بن کر سب کا ہاتھ پکڑ پکڑ کے اپنے سا تھ کھینچتا رہا۔

ان کو لے کر چلتا رہا۔ ان کے راستوں مـیں اپنے ارادوں ، اپنی پر عزم باتوں اور منصوبوں کی مشعلیں جلاتا رہا۔ ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ایک کمرہ کے پوسٹ آفس مـیں ، وہ اکثر پوسٹ ماسڑ سے ملنے آتا۔ شہرسے آئی ہوئی اپنی چھٹیـاں ، پرچے اور دوستوں کے خطوط لینے آتا۔

کبھی وہ دیر تک پو سٹ ماسڑ سے باتیں کرتا رہتا۔ وہی ایک پڑھا لکھا دوست تھا اس کا … اس کےان ساتھوں مـیں چوتھی ، پانچویں کلاس تک پڑھے ہوئے کچھ دوست ضرور تھے مگر پچھلی  پیڑھی نے تو کچھ بھی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا۔ انھیں زمـینداروں نے ساہوکاروں نے اور چھوٹے موٹے بنیوں نے کو مٹیوں نے خوب لوٹا تھا۔ گاؤں مـیں ان کے تنگ تاریک پکے مکان تھے جن کی چھتوں پر لوہے کی سلاخیں سمـینٹ اور گارے مـیں بٹھائی گئی تھیں تاکہ چور اچّکے چھت کھول کر اندر نہ  کو دسکیں۔

باہر دوکانیں تھیں ، اندر گھر بھی تھے اور گو دام بھی … زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں یہاں سے مل جاتی تھیں۔ اُدھار کھاتے بھی چلتے مگر لکھنے والے صرف بیوپاری تھے۔ خرید نے والے تو جاہل تھے۔ بے چارے تو اپنی ذہنیت سے مجبور تھے چھوٹے چھوٹے قرضے اکھٹے کر کے کوئی بڑی چیز ہتھیـا لیتے۔ غریب اور غریب ہو جاتے۔ پیسہ والوں کے یہاں اور پیسہ آ جاتا۔

رگھو نے اپنی زمـین وینکٹ ریڈی سے چھڑائی تواس پر ہل چلا کر، دانہ ڈال کر ، اس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بھی ہزاروں فکریں تھیں جواس کو دبوچے ہوئے تھی

کچھ دن بعداس نے دیکھا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیـا کی طرف سے ڈھنڈ ورا پیٹا جا رہا ہے کہ وہ گاؤں والے جوکسان ہیں اور جن کا اناج درمـیانی لوگ خرید کراورکسانوں سے کم دام مـیں لے کے و اکٹھا کر کے کارپوریشن کو مقررہ لیوی پر فروخت کرتے ہیں۔ان خود اپنے آپ مـیں ہمت پیدا کریں اور خود کارپوریشن سے راست معاملت کریں تاکہ دھان بہتر ہونے کی صورت مـیں لیوی کے مقر رہ نرخ سے بڑھا کر لیـا جا سکے ورنہ یہ بڑھی ہوئی رقم درمـیانی آدمـی ہضم کر جاتے ہیں۔ پھرانوں سے یہ لوگ الگ اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ اور  اس طرحان اپنے آپ سے انصاف نہیں کر پاتا۔ اگران کے پاس پانچ بورے بھی اناج کے ہیں تو وہ راست معاملت کر سکتا ہے ‘‘ رگھو دوڑا دوڑا پوسٹ ماسڑ کے پاس گیـا وہاں سے فوڈ کارپوریشن کو چھٹی پوسٹ کی اور گھر چلا گیـا۔ بہت دیر تک وہ شانی سے باتیں کرتا رہا۔ آج کتنی مدت بعد اس نے شانی سے اتنی باتیں کی تھیں … پھر بنک مـیں آ کے کلرک سے باتیں کرتا رہا وہیں دیوار پر اس نے اشتہار لگا دیکھا۔ وہی باتیں لکھی تھیں جنکا ڈھنڈورا پیٹا گیـا تھا … یہ اشتہار بھی فوڈ کارپوریشن آف انڈیـا کی طرف سے تھا۔ اس کی فصل کٹی توساتھیوں کے اناج کی بات بھی چھڑی اور دھان کے بورے دو بیل والی بڑی بنڈیوں مـیں لاد کے سب شہر چلے۔ رات بھر سڑک کے کنارے قطار کی صورت مـیں بنڈیوں چلتی رہیں۔

صبح دفتر کے بڑے احاطے مـیں وہ سب بیلوں کو کھول کر باہر لے جا رہے تھے۔

سارے کام ان کی امـیدسے بہتر ہوئے تھے اور اس پہلی کامـیابی پران کے دل خوشی سے جھوم رہے تھے۔ ورنہ ہوتا یہ تھا کہ گاؤں کے ’’دادا‘‘ قسم کے لوگ اپنی ہمدردی جتا کےانوں سے ان کا اناج لے کے اکٹھا کر لیتے اور دونوں طرف سے پیسہ بٹورتےان کو فائدہ کم ہی پہونچتا۔ یہ درمـیانی آدمـی مقررہ لیوی سے گھٹا کے رقمانوں کو دیتے جبکہ کارپوریشن کبھی مقررہ لیوی سے کم قیمت ادانہ کرتا بلکہ دھان کی بہتر قسم پر مقررہ لیوی سے زیـادہ قیمت ادا کرنے کا طریقہ رائج تھا   ۔

اکثر یہ درمـیانی آدمـی ملر بھی ہوتا اور وہ دھان سے چاول نکال کے وصاف کر کے بیچتا۔  کوالٹی انسپکٹر  نے رگھو کو بتا یـا تھا کہ وہ کم اناج بھی لا سکتا ہے اور زیـادہ سے زیـادہ بھی فروخت کر سکتا ہے۔

کارپوریشن اوران کے درمـیان یہی کوالٹی انسپکٹر  کام کرتا ہے اس طرح گاؤں کے دادا یـا ملر کی ضرورت درمـیان  مـیں بالکل نہیں پڑتی۔

اب چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی ان باتوں کو سمجھتے ہیں اور درمـیانی لوگ انھیں دھوکہ نہیں دے سکتے۔ یہ جاگرتی اس طرح آئی ہے کہ زمـیندار کے کا رندے بھی چوکنے رہتے ہیں۔

جہالت کے اندھیرے مـیں لپٹی ہوئی زندگیـاں بھی اپنے اطراف اجالے کی بکھری ہوئی کرنوں کو محسوس کر رہی ہیں۔

رگھو نےانوں کا اعتماد حاصل کر لیـا ہے اور اب تواس گاؤں کی اہم ضرورت بن گیـا ہے۔ ابتداء مـیں جب رگھو نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی زمـین پر اناج اگایـا تھا تو یہ کام ان سب نے مل جل کر لیـا تھا ورنہ زمـینداروں کے لئے تو گاؤں کے سارے لوگ مزدوری کیلئے نا کا فی تھے۔ پھر انھیں مزدور کہاں سے ملتے ؟

سب نے مل جل کرکام کیـا تھا گھر والی اور بچے تک ہاتھ بٹا تے۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے رگھو نے سب کو اپنے اعتماد مـیں لے لیـا تھا۔ لوگ اس مـیں بڑی مہانتا ڈھونڈھتے ارے رگھو تو ضرورکسی بھگوان کا اوتار ہے … کوئی اسے بلند ترین مقام تک لے جاتا … اونچا … اور اونچا۔ مجھے اس قدر اونچا مت اٹھا و جہاں پہونچ کر مـیری ساری اچھائیـاں و برائیـاں ،مـیری انتھک محنت اور جدوجہد صرف ایک ٹھنڈے کھردرے پتھر مـیں تبدیل ہو جائے۔ پھر مـیں مہمان کہاں رہ جاؤں گا۔ ایک ایسا پتھر بن جاؤں گا جو اپنی جگہ سے ذرا برابر بھی نہیں ہٹ سکتا۔ جس کے قدموں مـیں ناریل کے ڈھیر اور چہرے پر کم کم کے سرخ دھبے ہونگے۔۔ بے چین پتھریلی آنکھوں والے بتوں مـیں مہانتا کہاں دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کو ایک زندہ آدمـی کی طرح محسوس کرو۔ زندہ رہنے کیلئے محنت کرو۔ جدوجہد کرو جلانے جھپٹنے اور چھیننے کی طاقت پیدا کرو کہ یہی انسان کیلئے ضروری ہے انتھک محنت اور کوشش نے ہی خوبصورت بت بنائے ہیں اور انسان نے ہی اپن فن کی خوبصورتی ، کاوش اور عقیدت کو بھگوان کی مورتیوں مـیں منتقل کیـا ہے۔ انسان کا زندہ وجود بے جان پتھر سے کہیں اہم ہے۔ وہ اپنے الفاظ مـیں ان کو سمجھاتا رہا، مفہوم یہی تھا۔

اس چھوٹے سے غربت کے مارے گاؤں کی کہانی لکھتے ہوئے مـیں نے اپنے احساسات اپنے جذبات اور اپنے الفاظ کو بھی استعمال کیـا ہے مگر مـیں سمجھتی ہوں کہ رگھو نے اس سے زیـادہ پر اثر اور سب کی سمجھ مـیں آنے والے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ہاں اس کے سوچنے اور سمجھنے کا ڈھنگ سب سے الگ تھا۔ عام انسانوں سے الگ اس کو پہچانا جا سکتا تھا ایسے ہی لوگ انقلاب لاتے ہیں۔ پرانی روایـات کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔

انہیں آگ سے کھیلنے کا فن آتا ہے۔ وہ جس طرح جینا چاہتے ہیں ویسی ہی زندگی بنا لیتے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے رگھو آگے ہی آگے پڑھتا جا رہا ہے۔ کیـا پتہ آنے والی پیڑھی اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈھتی ہوئی آگے نکل جائے۔ مـیں وہاں بنک منیجر کی بیوی کی حیثیت سے گئی تھی اور ایک عرصہ تک وہاں رہ کے مـیں نے اس کہانی کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھا اور محسوس کیـا ہے۔ مـیں ایک کہانی کار بھی تو ہوں۔ مـیں نے اپنا کام مکمل کیـا اس ……کو لکھتے ہوئے جیسے مـیرا قلم بھی آگ اگلتا رہا۔ جس سے بغاوت کی آنچ آتی رہی۔

٭٭٭

مـیں نے پہلے پہل گل بانو کو اماں کے پیروں کے پاس بیٹھا دیکھا تھا۔ مـیلے کچیلے گھیر دار لہنگے کو سمـیٹتے ہوئے ، پھٹے ہوئے گریباں پر باریک ملگجی ڈوپٹہ لپیٹے ، منے ، ہاتھوں کے پیـالے مـیں تھوڑی ٹکائے وہ اماں کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے بیٹھنے کا انداز اور بغیر پلکیں جھپکائے ایک ٹک دیکھتے رہنے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ انتہائی انہماک سے ان کی باتیں سن رہی ہے۔ باورچی کے پاس ہی ستون کی آڑ مـیں کھڑا تھا۔

مـیں ورانڈے سے گذر کے اپنے کمرے مـیں جاتے ہوئے باورچی سے پوچھا ہت خان یہلڑکی ہے۔

بی بی جی یہ گل ہے۔ وہ بے تکے انداز سے مسکرا کے بولا۔

گل۔

جی ہاں اس کا نام گل بانو ہے۔ اس بھری پوری دنیـا مـیں بالکل اکیلی ہے سرکار ایک پھوپی تھی سو وہ اللہ کو پیـاری ہو گئی۔ سوچا چھوٹے ہوئے کام نپٹانے مـیں تکلیف ہوتی ہے۔ دوڑ بھاگ کے کام کاج کرےتو پاو روٹی اس کے حصہ مـیں بھی آ جائے گی۔ ورنہ بھوکوں مر جائےمالک۔ پھر اس دیہات مـیں یوں بھی مہنگائی کے مارے تاک مـیں دم آ گیـا ہے۔

اچھا اچھا۔ اب جا کے چائے پانی کا انتظام کرو۔ اماں نے اس کو ٹوک دیـا۔ اور مـیں اسٹول پر کتابیں ڈال کے ہاتھ منہ دھونے چلی گئی۔

بڑی دیر تک برآمدے سے اماں کی آواز سنائی دیتی رہی۔ وہ کبھی گل سے اور کبھی ہمت خان سے باتوں مـیں لگی رہیں۔ اور مـیں چائے پی کر ، اپنے کمرے مـیں آ گئی۔ اسکول کا کام اس دن کی معمول سے زیـادہ ہی تھا۔ مـیز پر کتابیں پھیلائے مـیں کرسی پر سکڑی سکڑائی بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ کھڑکی سے گذر کر آنے والی سرد ہوا جس مـیں تیر کی طرح لگتی تو روئیں بھرا جاتے۔ مـیں کتاب بند کر کے دلائی سنبھالتی ہوئی اٹھی تو کرسی کے پاس گل کو دیکھا جو سردی سے بچنے کیلئے گٹھری بنی مـیری دلائی کے اس حصہ کے نیچے پڑی تھی جو کرسی سے نیچے لٹک رہا تھا۔

اس کے گھٹنے پیٹ مـیں لگے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھ چہرے کے اطراف احتیـاط سے رکھے تھے اور اس کی بڑی بڑی سیـاہ آنکھیں بند تھیں۔

ہائے یہ بیماری یہاں پڑی ہے۔ نہ جانے اس نے اپنا کام اب ختم کیـا اور کب دبے پاؤں یہاں آ کے پڑ گئی۔

مـیں نے نظر بھر کے اس کو دیکھا سرخ وسفید رنگت ، بڑی ، بڑی خوبصورت آنکھیں جو بند تھیں۔ گول گول سفید بازو، گداز انگلیـاں ، عمر مشکل سے اٹھ سال ہو گی۔ دلائی اچھی طرح اس کے اطراف لپیٹ کے اس مـیں نے اس کو اٹھا لیـا اور تخت پر لٹا کے ایک پرانی کمبل بھی اس پر ڈال دی اور خود اپنے پلنگ پر آ کے لحاف اوڑھ لیـا۔

سویرے اماں مجھے نیند سے جگانے کیلئے کمرے مـیں آئیں تو گل کو تخت پر لٹا دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئیں۔ کان کھول کے سن لو۔ یہ نخرے نوکروں کے ساتھ اچھے نہیں لگتے کیـا پتہ کی لڑکی ہے کب تک رہے۔ اب نوکر ڈلائیـاں اور کمبل اوڑھ کے ہمارے ساتھ سوئیں گے۔ وہ بی بی واہ۔ اس مـیلی کچیلی لڑکی کو نئی دلائی مـیں لپیٹ دیـا۔ ہائے ہائے ، دلائی غارت کر دی۔

گل نے اماں کی آواز سن لی تھی اور چھلانگ لگا کے تخت سے فرش پر اتر آئی جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی وہ حیرانی سے کبھی ماں اور کبھی تخت کو دیکھتی رہی۔

نہیں بی بی جی۔ مـیں تخت پر نہیں سوئی تھی۔ مـیں تو یہاں نیچے فرش پر پڑی تھی چھوٹی سرکار کے قدموں مـیں۔ یہاں ! اس نے کرسی کے نیچے اشارے سے بتیـا۔ لمحہ بھر کو مجھے اس کی بے بسی اور بے چارگی پر ترس آ گیـا۔

اماں یہ سچ کہتی ہے۔ مـیں نے ان کو یقین دلانا چاہا مگر اماں کا دل نہ جانے نوکروں کے معاملے مـیں انتا سخت کیوں تھا۔ وہ گل کا ہاتھ پکڑ کے گھسیٹی ہوئی باہر لے گئیں۔

شام تک اتنے سے واقعہ پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیـا۔

مـیں اسکول سے آئی تو کچھ دیر بعد اس واقعہ کی گونج مـیں مجھے اپنے کمرے مـیں سنائی دی۔

گل دور کر مـیرے پاس آئی اور مـیرا سینڈل اتارنے لگی۔ اس نے مـیرے پرانے کہرے جو کانٹ چھانٹ کے اس کیلے سی دیئے گئے تھے۔ پہن رکھتے تھے نہانے کے بعد اس کا چہرہ خوب نکھر آیـا تھا۔گھونگریـالے ، بال کپڑے کی ایک دھجی کی مدد سے سر کے پیچھے باندھ دیئے گئے تھے۔ اتنے بے تکے ڈھیلے ڈھالے لباس مـیں بھی گل بہت پیـاری لگ رہی تھی۔

اس نے چپکے سے مجھے بتایـا کہ وہ پرانی کمبل اماں نے دے دی ہے اور وہی استعمال کرے گی۔ نئی دلائی کے ٹانکے ادھیڑ دیئے گئے تھے۔ باورچی خانے مـیں پڑا ہوا بان کا کھٹولا اسے دے دیـا گیـا تھا۔ اس طرح گل کی زندگی مـیں کچھ ترتیب آ گئی تھی۔ اسے کام کرتا دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اتنی ذرا سی عمر مـیں کام کا یہ سلیقہ ، ترتیب اور تیزی اس نے کیسے اپنی طبیعت مـیں پیدا کر لی۔

رفتہ رفتہ اماں جیسی پتھرول بھی اس کے لئے موم بن رہی تھیں۔ اب گل کے کانوں مـیں کم قیمت آویزے جھولتے رہے تھے بال پابندی سے چوٹیوں کی شکل مـیں گوندھے جاتے تھے۔ پیروں مـیں ربر کی معمولی چپل بھی آ گئی تھی۔

اس طرح گل اپنی ذاتی خوبیوں ، سلیقہ مندی اور انتھک محنت سے پتھر دلوں کے درمـیان اپنے لئے راستہ بنائی ہوئی تھی۔ ننھا منو اور ڈالی بھی اس کے بغیر تنہائی محسوس کرتے۔

اماں کے سر مـیں تیل لگانے ، وضو کرانے سے لے کے ،ناشتہ مـیز پر لگانے اور چھوٹے بچوں کو دودھ دینے ، ٹفن رکھنے اور ان کی کتابیں بیـاگ مـیں رکھنے کی ذمہ داری تک اس نے اپنے سر لے لی۔

مـیرے اسکول سے آنے پر وہ دوڑ کے کتابوں کا بیـاگ ہاتھ سے لے لیتی۔ مـیرے لاکھ منع کرنے پر بھی مـیرا سینڈل اتارتی اور جب مـیں ہوم ورک کرنے بیٹھی تو وہ بھی منو سے کاپی پنسل مانگ کے مـیرے پاس آ بیٹھتی۔ اس کو پڑھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ چلتے پھرتے ،کام کاج کرتے وہ مـیرے لکھ کر دیئے گئے الفاظ دہراتی۔ یـاد کرتی اور رات کو مجھے وہ سارے الفاظ اس کی کاپی مـیں لکھے ہوئے ملتے جن کو لکھنے کی مـیں اسے تاکید کر جاتی۔ اس طرح گل خوبیوں کا ایک مجموعہ تھی۔ لاکھ سوچنے پر بھی اس مـیں کوئی برائی نظر نہ آتی۔ اس کی سیـاہ آنکھوں مـیں عجیب سی اداسی چمکتی۔

ہم سب مـیں گھلے ملے رہنے کے باوجود اس کی اپنی ایک تنہا شخصیت تھی گھر بھر مـیں سب ہی کی اس سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ تھی۔ مگر وہ اپنے لئے تنہا کچھ نہ چاہتی ہم سب کی ضروریـات کا خیـال رکھنا۔ ہمارے ہر اشارے پر دوڑنا ، اور ہماری خوشی و ناراضگی کا پاس و لحاظ کرنا اس کو آتا تھا۔ مگر ہم نے کبھی اس کیی خواہش کو جاننے کی کوشش نہ کی۔ ہم مـیں سےی نے اس کی پسند وناپسند پر توجہ نہ دی پھر بھی وہ اپنی اداس آنکھوں کے ساتھ مسکراتی رہتی۔ ہماری پسند سے پرانے کپڑے پہن لیتی۔ ہماری پسند کا باسی سالن ، اور کھانا کھا لیتی ، منو اور ننھے کی پسند کا کھیل خود بھی کھیلتی۔ اپنی اچھائی کا نقاب پر برائی کے چہرے پر ڈال کے وہ خوبصورتی وحسن پیدا کر دیتی۔

ابا کی بدلی ہو گئی اور ہم لوگ دکن آ گئے۔ باورچی اتنی دور آنا بھی نہ چاہتا تھا۔ مگر گل کہاں جاتی ؟ اور پھر ہم سب کے بغیر اس کی زندگی قدر سپاٹ اور یکسانیت سے بھر پور ہوتی۔ مکان سجانے اور چیزیں ٹھکانے پر رکھنے مـیں وہ دوسرے نوکروں کا ہاتھ بٹاتی۔ سارا سارا دن نئے گھر کی سجاوٹ اور آرائش مـیں لگی رہتی تھی۔ پردے لگانے ، صوفے ، کشن ، ستڑ پیس ،ترتیب سے رکھنے ، بڈ روم اور منو ڈالی کے کمرے سجانے سے لے کے ننھے کیلئے جگہ کا انتخاب بھی اسی نے کیـا تھا۔ مـیرا کمرہ بھی اٹھا اپنے ہاتھوں سجایـا تھا۔

اب تو ا سنے ابا کے ضروری کاغذات اور فائلس بھی اپنی گرانی مـیں لے لئے تھے۔ ابا کے ضروری کاغذات نہ ملتے تو گل فوراً ڈھونڈ نکالتی منو اکثر کنجیـاں اور پن بھول جاتا اور گل اس کی الماری مـیں رکھ آتی۔ مـیں  سردیوں کے موسم مـیں کبھی اپنا سوئیٹر پہننا بھول جاتی تو گل تیزی سے چل کے بس اسٹیج مرجھا جاتی۔ ابا دفتر جانے لگتے تو گل سے زیـادہ مصروف اماں بھی نہ دکھائی دیتیں۔ ناشتہ مـیز پر لگاتا ، پانی سے بھرا گلاس ان کے ہاتھ مـیں تھمانا کوٹ پہننے مـیں ابا کی مدد کرنا ، ان کے سارے ضروری کاغذات احتیـاط کے ساتھ صاحب کے حوالے کرنا ، اور چلتے وقت پان کی ڈبیہ دینا وہ کبھی نہ بھولتی۔ اب تو گل کے بغیر ہم سب بالکل فالج زدہ بڈھوں کی طرح فائل ہو گئے تھے۔ ان سات برسوں مـیں گل نے سب کو اپنا محتاج بنا لیـا تھا۔ اس کے بغیر تو کوئی کام جی کو نہ لگتا۔ وہ گھر مـیں سب سے زیـادہ خوبصورت تھی۔ نئے لوگ اس سے بڑے احترام سے بات کرتے۔ کوئی بھی اس نے لے پالک یـا نوکر ماننے کو آسانی سیتیـار نہ تھا۔ گل تھی بھی ایسی ہی۔ بے حد شائستہ اور تمـیز دار ، کوئی ایک بار اس سے ملتا تو دوبارہ ملاقات کا خواہش مند رہتا۔

ڈرائنگ روم مـیں ، ہر ملنے جلنے والے کی چائے پان سے خاطر کرنے کا گر خاص طور سے اسے معلوم تھا۔ گھر مـیں اماں سے ملنے آنے والیوں کے ساتھ نرم مـیٹھی گفتگو کر کے اس نے پورے ماحول کو سوشل اور خوشگوار بنا دیـا تھا۔ ہر شخص اسے اپنے جسم کا ایک بے حد کام کرنے والا عضو سمجھتا تھا۔ اس طرح وہ ہم سب کی زندگی کا لازمـی جز بن گئی تھی۔

ایسا مٹھیـا ٹھنڈا جھرنا جس سے ہم سب کی پیـاس بجھ جاتی۔

عید برات مـیں سب سے زیـادہ گھر کی صفائی ،سجاوٹ ، کپڑوں کی سلائی اس کو کئی کئی دن مصروف رکھتی۔ ما اں کو تو یہ سوچ سوچ کر ہول آتا کہ ایک دن گل بھیی شریف آدمـی سے بیـاہ دی جائے گی۔ پھر ہم سب کا کیـا ہو گا۔ ہمارا گھر خزاں نصیب چمن کی طرح ویرانہ لگے گا۔ گل اپنی ساری مہک ساتھ لے جائےجہاں رہےاپنی جنت خود ہی تخلیق کر لے گی۔ وہ سچ مچ گل ہے۔

کبھی کبھی مـیں بھی ان سارے مسائل پر بڑی سنجیدگی سے سوچتی اس نے ہائی اسکول کا پرائیوٹ امتحان بھی کامـیاب کر لیـا تھا۔

مـیں جب رات رات بھر تھیسس لکھنے مـیں مصروف رہتی تو وہ بھی اپنی کتابیں لئے وہیں آ جاتی۔ زیـادہ دیر گذرتی تو تھرموس سے گرم چائے پیـالی مـیں انڈیل کر مـیرے آگے مـیز پر رکھ دیتی۔ اس کی آنکھوں مـیں خلوص و محبت کی ایک دنیـا آباد تھی۔ مـیں اکثر اس کی شخصیت کے حسن سے مرعوب ہو جاتی سرخ وسفید چہرے پر سیـاہ بڑی بڑی آنکھیں ، گداز جسم ، لمبی جھولتی ہوئی دو چوٹیـاں جو اکثر کام کاج کے وقت سامنے آ پڑتیں اور وہ جھنجھلا کر انہیں پیچھے ڈال دیتی۔

سنجیدہ پر وقار مسکراتی شخصیت جو ہر ایک کو آرام پہونچانے کیلئے بنی تھی مگر اپنے آرام کے بارے مـیں جس نے کبھی نہ سوچا تھا۔

ایک دن عجیب سا اتفاق ہو اوہ اسی طرح پڑھ رہی تھی مـیں اپنے اطراف بہت سی کتابیں پھیلائے تحقیقاتی مقالے کے بارے مـیں سوچ رہی تھی کہ اس کی کتاب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکل کے نیچے گر پڑا۔ اس کو پتہ نہ چلا گل کے جانے کے بعد مـیں نے وہ کاغذ اٹھا لیـا۔ یہ منو کی تحریر تھی جو اس نے مـیڈیکل کالج کے ہاسٹل سے گل کے نام بھیجی تھی۔ اس تحریر نے مجھے چونکا دیـا۔

اس نے لکھا تھا کہ ’’دوسروں کی پسند پر تو وہ زندگی گذارتی رہی۔ کیـا اپنی پسند کی زندگی سمجھی نہ ملے گی۔ اور اگر اپنی پسند کے ساتھی کا نام اماں سے بتا کے وہ جدوجہد نہیں کر سکتی تو اب کی بار چھٹیوں مـیں خود اماں کو اپنی پسند کی لڑکی کا نام بتا دوں گا جس کو بچپن سے پوجتا آیـا ہوں اور وہ نام ہے گل !

مـیں نے آہستہ سے وہ پرچہ کتاب مـیں رکھ دیـا اور اس عزم کے ساتھ پلنگ پر لیٹ گئی کہ مـیں گل اور منو کی مدد ہر قیمت پرکروں گی۔

گل مـیں تو ساری خوبیـاں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ ہر وہ خوبی جو اونچے درجے کے خاندان کی لڑکیوں مـیں مشکل سے ملے گی۔ اماں کا قہر آلودہ چہرہ مـیرے آگے گھومتا رہا۔ ابا اور اماں کی پسند پر اس نے اپنی زندگی ، کے سات سال گذارے اور اپنی اتنی اونچی پسند پر شرما کے رہ گئی۔ کیـا ہم اس کی کوئی خواہش کبھی پوری نہ کر سکیں گے۔ مـیں نے اداسی اور نیند کے ملے جلے احساس کے ساتھ سوچا۔

ہم سب پر تمہارا احسان ہے گل اور جھانسا تم نے ہماری ذرا ذرا سی خواہش پوری کی ہے وہاں منو کی یہ پسند اور تمہاری خواہش کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ شاید تمہارے احسانات کا کچھ بوجھ اس طرح ہلکا ہو سکتا ہے۔

اور مـیں نے ایک آہنی عزم کے ساتھ کروٹ بدلی۔

٭٭٭

گوپی کی اداس آنکھوں مـیں آنسو آ گئے تھے اور ماتھے پر ایک نیلی رگ ابھر آئی تھی پچیس برس مـیں وہ صرف دو بار رویـا تھا۔ بچپن مـیں نہ معلوم کتنی بار مچل مچل کے آنسو بہائے تھے۔ کتنی بار بلک بلک کے رویـا تھا مگر وہ لمحے اسے اب یـاد نہیں تھے اس کی تازہ یـادداشت مـیں تو صرف دو بار بہائے ہوئے آنسو محفوظ تھے۔

پہلی بار تو وہ اس وقت رویـا تھا جب اس کی ماں مر گئی تھی اور دوسری بار اب جب کہ اس کو خود اپنے رونے کی وجہ معلوم نہیں تھی۔

مـیلے طاق پر پڑے ٹوٹے ہوئے آئینہ مـیں اس نے اپنے عکو گھور کر غور سے دیکھا اور اپنے آپ سے بولا۔ یہ آنکھوں کی اداسی ، یہ خشک ہونٹ اور یہ الجھے بال۔ کیـا مـیں عمر مـیں صرف دو بار رویـا ہوں۔ پھر یہ اداسی ، یہ وحشت کیوں ؟

نہیں نہیں۔ مـیں ہزاروں بار رویـا ہوں۔ کیـا ہوا جو آنسو نہیں ٹپکے۔ کیـا ہوا جوی نے مـیرے آنسو نہیں پونچھے۔ مگر مـیں رویـا ضرور ہوں۔ مـیں اپنے آپ کو صرف یہ سمجھا کہ بہلا لیتا ہوں کہ مـیں کبھی نہیں روتا۔ مـیں تو صرف قہقہے لگاتا ہوں۔ ہنستا ہوں دوسروں کوہنساتا ہوں اور ہمـیشہ خوش رہتا ہوں۔ مـیں آج تک اپنے آپ کو دھوکہ دیتا آیـا ہوں۔

اس نے اپنی مـیلی آستین مـیں گرم آنسو خشک کر لئے اور زبرسدتی ہونٹ پھیلا کر مسکرانے لگا۔ بالکل ایسے جیسے بچہ پیٹنے کے بعد مسکراتا ہے۔ رونے کے بعد کی ہنسی کتنی عجیب ہوتی ہے۔ آنسووں مـیں گھلی تلخ ہنسی۔

اپنی موٹی کھردری انگلیوں سے اس نے الجھے ہوئے سخت بالوں مـیں کنگھی اور سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری گر اس کے ہونٹوں کی خشکی دور نہ ہوئی۔ اس کی روح مـیں ایک عجیب سی تشنگی بس گئی تھی جوی طرح دور ہی نہ ہوتی تھی۔

بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ آنسووں کی یہ دو بوندیں کیـا پیـاس بجھا سکتی تھیں۔ اس کا جی چاہتا تھا خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے اندر ہی اندر جیسے بھٹی سلگ رہی ہو۔ جیسے دھواں اٹھ رہا ہو۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس نے گھبرا کر مـیل سے اٹے ہوئے چیکٹ تکیہ پر اپنا سر ڈال کے تکھے ہوئے بازوں مـیں منہ چھا لیـا۔

اس کی اندھیری کو ٹھری مـیں ساری دنیـا کی اداسی سمٹ آئی تھی۔ نا امـیدی بے چینی اور الجھن ، جس نے اس کے دماغ مـیں اس قدر کشمکش پیدا کر دی تھی کہ کنپٹیوں مـیں درد ہونے لگا۔ اک نہ مٹنے والا اضطراب اس کے چہرے پر پھیل گیـا۔ اس کے پپڑائے ہونٹ کانپ گئے۔ ہر دھڑکن ایک آہنی ہتھوڑا بن گئی کر اس کا سیند توڑ رہی تھی۔

دھڑ۔۔۔ دھڑ۔۔۔ دھڑاک

کیوں شور مچاتے ہو جی۔ انسان ہو کہ جانور۔ سٹھانی کی جوان لڑکی نے گلے مـیں چاندی کی ہنسلی گھما کر غصہ سے گوپی کو گھورا۔ وہ بوکھلا گیـا ٹین کے بٹن مـیں کاج الجھ کر اس نے کرتے کا گلا بنہ کیـا اور حواس ٹھیک کر کے لجاجت سے بولا۔ وہ وہ ذرا سٹھانی کو ادھر بلا دو۔ بڑا ضروری کام ہے۔

وہ وہ کیـا کر رہے ہو؟ صاف بتاتے کیوں نہیں کیـا کام ہے۔ ان کے سر مـیں درد سمجھے ؟ وہ نفرت سے جھڑک کے بولی۔

گوپی نے سوچا لہجے کے اعتبار سے تو بالکل سٹھانی ہے۔ پھرسنبھل کے نرمـی سے بولا۔ بات یہ ہے کہ ان کے پاس مـیرے پیسے ہیں۔ آج ہڑتال کا دن ہے۔ ان سے کہا کہ۔ بھیک لینے کو اتنا غل مچایـا ہے مفت خور کہیں کا۔ لڑکی پیر پٹکتی جھانجھن بجاتی چلی گئی۔

وہ سکتہ مـیں آ گیـا تو وہ بھکاری ہے۔ آخر اس نے محنت کر کے ، خون پسینہ ایک کر کے پونجی جمع کی ہے کیـا اپنی چیز واپس لینا بھیک مانگنے کے برابر ہے کیـا۔ اس سے قبل کہ وہ اور کڑھتا۔ پنج کھاتا۔ سٹھانی دندناتی ہوئی اس کے سر پر آ گئی۔

اے ہے ، کلمو ا ابھیشک بے صبرا کہیں کا۔ ارے مـیں تیرے باپ کی قرض دار ہوں۔ کیـا لینا اور کیـا دینا تو نے کھولی کا کرایہ یـا اب تک رہتا ہے نوابوں کے ٹھاٹ سے تین کوڑی کا مزدور ، اور دماغ دیکھو کمـینے کا۔ مـیں تیرا ایک پیسہ باقی نہیں ہوں۔ ذرا کھڑکی سے مـیٹھی بات کر لی تو سر چڑھ گیـا بے ایمان۔ آج ہی خالی کر دیجیو ہماری کھولی ورنہ سیٹھ سے کہہ کے نکلوا دوں گی۔ سٹھانی سے زور سے کھڑکی بند کر دی اور اس کو یوں لگا گویـا ساری دنیـا کے دروازے اس پر بند ہو گئے۔ وہ گھبرا کر کھڑکی سے ہٹ گیـا اس کو محسوس ہو رہا تھا زمـین اس کے قدموں تلے سے بھاگی جا رہی ہے۔ بڑی دیر تک اس کے دماغ مـیں کھڑکی کے پٹ دھڑدھڑاتے رہے۔ ممکن تھا وہ تیسری بار آنسو بہاتا مگر خشک آنکھیں جل کر رہ گئیں۔ آنسو نہیں بہہ رہے تھے مگر وہ رو رہا تھا۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کے گرد ہر چیز گھوم رہی تھی۔ آدھی جلی ہوئی موم بتی۔ ٹوٹا ہوا آئینہ کا ٹکڑا۔ مـیلی دھوتی ، بان کا کھٹولا اور بیڑی کے ادھر  جلے ٹکڑے سب اس کے گرد ناچ رہے تھے۔ چکر کاٹ رہے تھے۔ اور وہ مبہوت بنا ان کے درمـیان حیرت سے منہ پھاڑے کھڑا تھا۔

اس کا چہرہ سیـاہ پڑ گیـا تھا اور کمزور ہاتھ  پاؤں کانپ رہے تھے۔ ایک دم وہ ناتواں ہو گیـا تھا۔ اس مریض کی طرح جس کو ڈاکٹر نے لا علاج بتا دیـا ہو۔

وہ پھر کھڑکی کے بند مٹیوں سے لگ کر کھڑا ہو گیـا۔ اس دنیـا مـیںی کو بھی تو اس کا خیـال نہ تھا۔ دنوں بال مٹی مـیں آٹے رہیں۔ ہفتوں غلیظ کپڑوں مـیں سڑتا رہے یـا گھنٹوں بھوکا مرے۔ کوئی جو ذرا بھی پرواہ کر جائے۔ اور آج تو رات بھر بھوکا رہنے کے بعد بھی اس کو پیٹ بھرنے کی کوئی امـید نہیں تھی۔ کوئی اس کی آنتوں کو مسئلہ ڈال رہا تھا۔ کلیجہ کھینچ کے منہ کو آ رہا تھا۔ اندرونی کشمکش وہکو جا کر دکھاتا؟ رہنے کو اب تو قبر جیسی کھولی بھی اس کی نہیں تھی۔ آج کی رات بھی اس کے ساتھ بیکل تھی۔ اس کی آنکھوں مـیں نہ دکھائی دینے والے ہزاروں آنسو مچل رہے تھے۔ نہ جانے جرم کی پاداش مـیں وہ اس قدر بے بسی سے سیٹھ کے فرش سے منہ لگائے سسک رہا تھا۔ مقصود سٹھانی کا نہ تھا قصور کارخانے کے مالک کا نہ تھا۔ قصور حکومت کا نہ تھا۔ قصور تو گوپی کا تھا۔ نہ وہ تین کوڑی کا ذلیل مزدور تھا یہ نوبت آتی۔

ساری عمر کا سرمایہ سٹھانی نے لوٹ لیـا اور کھولی سے نکال باہر کیـا۔ جیسے گنے کا سٹھیـار مـیں چوس لینے کے بعد گنا بیکار ہو جاتا ہے ویسے ہی گولی ، سٹھانی کیلئے ناکارہ ہو گیـا تھا۔ وہ راتس نے سوامـی کے جھونپڑے کی ننگی دہلیز پر تڑپتے گذار دی۔

دوسرے دن سوامـی سے اکنی ادھار مانگ کر اس نے چینے کھائے۔ ہڑتال برابر جاری تھی روزانہ مل مالک دھمکیـاں دیتا۔ کام سے الگ کر دینے کا اعلان کرنا۔ گڑ بڑ تالی مزدور مزے سے بھوکے بیٹھے مستقبل کے سپنے دیکھتے۔ ان کے پیٹ جلتے رہیں وہ خود ننگے رہیں پرواہ نہیں مگر اپنے بچوں کو بھوک سے روتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ سردی مـیں ان کے ننگے جسموں کو اکڑتا دیکھنے کی ان مـیں تاب نہیں تھی۔ ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے۔ کہاں تک بے زبان جانوروں کی طرح چپ رہیں کب تک صبر کریں۔ بڑھتے ہوئے بوجھ کو کب تک ڈھوئے پھریں۔ وہ سوچتے خواہ کچھ ہو جائے ایک بار پوری قوت سے ہر تکلیف کو سہہ کے بڑی ہڑتال کریں گے۔ چاہے جان جائے یـار ہے۔ بلا سے روز روز مرنا تو نہیں پڑے گا۔

سرخ جھنڈے والے ان کی ہمت بڑھاتے ان کوتسلی دیتے ان کے زخموں پر چھاپا رکھے اور مستقبل کا خاکہ دکھا کے ان کا عزم مضبوط کرتے جاتے۔

گوپی سب سے پیش پیش تھا۔ وہ ہڑتال کر کے مطالبات منو ا کے سسھانی سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ وہ گھنٹوں سوچتا کہ ہڑتال سے سٹھانی کا کیـا تعلق مگر اس کا دل کہتا نہیں سٹھانی سے انتقام لینے کیلئے ہڑتال ضروری ہے۔ وہ بڑی سرگرمـی دکھاتا۔ ہر جلسہ مـیں اس کی شرکت ضروری بھی۔ صراحی گلاس لے کے مزدوروں کو پانی پلاتا پھرتا اور جب جلسہ ختم ہو جاتا تو ہڑتالیوں کے درمـیان بیٹھ کے جلسہ کی تقریروں پر جوش انداز سے بحث کرتا۔ اپنی باتوں سے خوش ہو کہ سوامـی اور رام بھروسے اس کو تین تین پیسے روز دیـا کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ چنے لینا بھی بھول جاتا اور شام تک اکنی اس کی جیب مـیں پڑی رہتی۔

وہ دن بھی آیـا جب ہڑتالیوں کا لمبا جلوس بڑی آن سے نکلا۔ گوپی کو سب سے آگے رکھا گیـا تھا اور پرچم سر پر لہرا رہا تھا۔ جیسے جیسے پرچم ہوا مـیں ہلکورے لیـا ویسے ویسے مزدوروں کے چہروں پر خوشی کا رنگ لہریں لیتا۔

سڑک کے موڑ پر پہونچ کر گوپی نے سیٹھ کی دوکان کے پاس سے گذرتے ہوئے اکڑ کر سیٹھ کی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال دیں اور مسکرا کے آگے بڑھ گیـا جب مڑ کر گوپی نے پیچھے دیکھا تو سیٹھ مخبوط الحواس دوکان بند کر کے تالا لگا رہا تھا۔ خوشی کی ایک لہر گوپی کے جسم مـیں سر سے پیر تک دوڑ گئی۔ حوصلے سمجھا سمجھا کر قدم بڑھا رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا اب تنخواہ بڑھنے کیـا دیر لگتی ہے۔ سٹھانی نے بے ایمانی کی تو کیـا ہوا وہ پھر اپنی شادی کیلئے پیسہ اکٹھا کرے گا۔ ا سکو ایک ساٹھی کی بری شدید ضرورت تھی۔ جو رات دیر گئے تک اس کا انتظار کرے۔ اس کے الجھے الجھے بالوں مـیں ٹھنڈی پتلی انگلیـاں پھیرے۔ اس کے دکھ درد مـیں آنکھوں مـیں آنسو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے اس کو دلاسہ دے۔ آس بندھائے۔ اور یہ سوچ سوچ کر اس کی بھوک مٹ گئی۔

قدم جم کر پڑنے لگے اس نے پلٹ کر اپنے ساتھیوں کو مسکرا کر دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔

تیز تیز قدموں سے بڑھے چلو۔ دیکھتے نہیں اس شاہراہ کے آخری سرے پر کتنی حسین دلہنیں بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ آؤ آؤ بڑے چھو کیـا روشن مستقبل کیلئے تم تیز قدم بھی نہیں ڈال سکتے۔ ؟

کب تک تین کوڑی کے مزدور بن کر سٹھانیوں کے ہاتھ بکتے رہو گے۔

اور اس کے ساتھی  تیز تیز قدموں سے چلنے لگے۔ سیٹھ تالا لگا کے ایک ہاتھ سے باریک دھوتی کا زرین سرا پکڑے ، تالو پر گلابی پگڑی چپکائے کھڑا تھا۔ اور جلوس بڑھ رہا تھا جلوس کے سامنے پولیس کے دستے آ گئے۔ اس کی سمجھ مـیں کچھ نہ آیـا کہ کیـا ہوا۔ اس لکر دو قدم پیچھے ہٹا۔

ہٹ جاؤ۔ پولیس شیر کی طرح دھاڑ رہی تھی۔

ہم نہیں ہٹیں گے۔ جلوس بپھر گیـا۔

وہ سب اپنا حق مانگ رہے تھے۔ مگر حق و انصاف اشک اور گیس اور لاٹھیوں سے دور نہ معلوم کہاں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ وہ کارخانے کے مالک سے انصاف ہی تو چاہتے تھے مگر شاید مالک بن کے انسان سب سے پہلے اپنی انسانیت کھو دیتا ہے۔

وہ اپنی حکومت سے زندہ رہنے کا حق مانگ رہے تھے جینے کی آزادی ظلم کے خلاف ایک بھر پور نعرہ ہی تو تھا یہ جلوس۔ گوپی سمجھتا تھا کہ یہاں تو ظلم کے خلاف زبان بھی پلانے کی اجازت نہیں۔ ظلم کی لاٹھی ہر وقت عام کے سر پرسوار ہو کے حکومت کرتی ہے۔ خیـال ہی خیـال مـیں اس نے ظلم کی لاٹھی توڑ کے پھینک دی۔

سنسناتی ہوئی گولی اس کے سینے مـیں دھنس گئی اور لڑکھڑا که تا ہوا گوپی زمـین پر لیٹ گیـا سوامـی ہیبت زدہ سا اس پر جھک گیـا۔ دم توڑتے ہوئے انسان کو سوامـی بھگوان کی یـاد دلا رہا تھا۔

رام رام کرو بھیـا۔

رام۔ آں ہاں۔ مشاہرہ کا آخری مـیرا اس کو اشارے کرنے لگا۔ چپکے چپکے بلانے لگا۔ اس کے تصور مـیں چھلکتی آنکھیں اور مسکراتے ہوئے ہونٹ ابھرے اور ڈوب گئے۔ گوپی کے خون سے تر بتر جھنڈا اس کے پہلو مـیں پڑا تھا۔ اس نے ایک نظر سوامـی پر ڈالی اور اس کی گردن ڈھلک گئی۔

رام بھروسے نے گوپی کی لاش کو بڑھ کے اپنے کندھے پر ڈال لیـا اور سوامـی نے جھنڈا تھام لیـا جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ رام بھروسے کو یوں لگا جیسے وہ اپنا جنازہ اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے۔ گوپی کے ساتھ اور چار لاشیں اٹھیں سامنے پولیس کا آدمـی اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ اور خاکی وردی غرور سے تن گئی تھی۔

دوسرے دن بہت سے کھادی پوش مزدوروں کو بہلا پھسلا رہے تھے۔ ان مـیں سیٹھ کا منجھلا لڑکا بھی شامل تھا اور مزدوروں کو مشورہ دے رہا تھا کہ ہڑتال ختم کر دیں۔

تاریخی ہڑتال کا افسوسناک طریقہ پر خاتمہ ہو گیـا۔ مزدوروں کے نام نہاد لیڈروں نے خود بڑھ کے ان کا گلہ دبا دیـا۔

سوامـی سوچنے لگا۔ نہ معلوم کب تک ہمارے غضب شدہ حقوق واپس نہیں دیئے جائیں گے۔ کب تک بچے بھوکے مریں گے۔ کب تک پہاڑ جیسے سیٹوں کو آہنی گولیـاں توڑتی رہیں گی۔ کب تک طوفان کے آگے خاکی وردیوں کا بند ٹھہر سکے گا۔

کب تک گولیوں سے انسانیت کو چپ کرایـا جائے گا۔

سیٹھ کا چھوٹا بیٹا سوامـی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

تم دیکھ لینا سوامـی۔ شہیدوں کے سرخ لہو سے نئی زندگی پیدا ہو گی۔ ہماری زندگییلی نہیں جا سکتی۔ ہمکو روندا نہیں جا سکتا۔

اور سوامـی سنسناتی گولیوں سے لا پرواہ ہو کر مضبوط لہجہ مـیں بولا۔ ہم اپنا حق ضرور منوا دیں گے۔ ہم پھر بڑی ہڑتال کریں گے۔

٭٭٭

تشکر: پروفیسر رحمت یوسف زئی جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

Related

. چوت چٹا ی کہانی . چوت چٹا ی کہانی




[چوت چٹا ی کہانی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Sun, 29 Jul 2018 23:43:00 +0000



چوت چٹا ی کہانی

Urdu Sex Storiez

tag:blogger.com,1999:blog-35735781388584601132018-07-29T01:23:48.899-07:00

Urdu Sex Storiez

Urdu Sex Storiez like all stories

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.comBlogger31125tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-74245360148003107502015-11-20T20:30:00.000-08:002015-11-29T13:46:33.078-08:00

گرم بیوی اور لونڈے باز شوہر

<div dir="ltr" style="text-align: چوت چٹا ی کہانی left;" trbidi="on"><h1 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 20pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px 0px 5px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم بیوی اور لونڈے باز شوہر</h1><h2 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">(garm bevi apr londae baaz sohar)<a name='more'></a><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم بیوی&nbsp; یہ&nbsp; مـیرے دوست کی بیوی ہے اس کا کام ہی چدائی لگوانا ہوتا ہے اس کے گھر ا سکے شوہر کا جو بھی دوست آیـا ا سنے اسی سے چدائی لگوائی اس کی اندرونی بھی کہانی ہے جس کای کو معلوم نہٰں ہے مـیں نے بھی یہ سمجھا تھا کہ مـیرے دوست کی بیوی چالو عورت ہے جو طرح طرح کے بندوں سے چدائی لگوا لیتی ہے پھر جب مـیری ا سکے ساتھ دوستی ہوئی تو مٰں نے چودنے کے بعد پوچھا تھا کہ&nbsp; سچ بتاو کہ تم ہر اس بندے سے چدا لیتی ہو جو بھی تمہارے شوہر کا دوست گھر آجاتا ہے ا سکی کیـا وجہ ہے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">تب اس گرم بیوی نے مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ بتایـا تھا کہ اس کے مرد کو مردوں سے ہی سکون ملتا ہے ا سکا شوہر لونڈے باز ہے اور ا سبات کا سوائے ا سکےی کو معلم نہیں ہے اس کا باس بھی گانڈ مراتا ہے اور یہ ا سکو چودنے اس کے گھر جاتا ہے اسی لہیئے مـیرے شوہر کے باس نے ہم کو اچھا گھر مفت رہنے کو دیـا ہوا ہے مـیرا شوہر اس کو چودتا بھی ہے اور چدائی لگواتا بھی ہے ا سنے مجھے کہا کہ کیـا مـیں تیری گانڈ لے سکتا ہوں تو مـیں نے روک دیـااور اس کو مـیری چوت سے بالکل غرض نہٰں ہے جو لے یـا نا لے اس کو مجھ مـیں &nbsp;اب دلچسپی نہیں ہے تومـیں &nbsp;کیـا کرو مـیں چپ ہو گیـا کہ اپنے دوست بارے یہ پہلی بار مجھے معلوم ہوا تھا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیرا نام ریـاض ہاشمـی ہے اور یہ ایک سچی پاکستانی سیکہانی اپنے دوست کی وائف کے ساتھ پاکستانی سیکیـا &nbsp;جس کو آپ پڑھ رہے ہیں اس مـیں &nbsp;جھوٹ نہیں ہے تو شروع کرتا اگلی جانب ایک بار کا مـیرے دوست کی وائف جسکا نام تھا مہک&nbsp; ہےوہ بہت خوبصورت اور ی بھی &nbsp;تھی مـیرے دوست کا نام تھا نوید ہم دونو ں بہت اچھے دوست تھے کبھی وہ ہمارے آجاتا تھا تو کبھی مـیں اسکے گھر چلا جاتا تھا اسکی وائف بھی مجھے جانتی تھی ایک دن کیـا ہوا مـیں نوید &nbsp;کے گھر گیـا اسے ملنے کے لئے رات کا وقت تھا نو بجے ہونگے مـیں نوید کے گھر پہنچابیل بجائی تو اسکی وائف نے دروازہ کھولا یـار کیـا بتاؤ کیـا لگ رہی تھی وہ اسنے بلیک کلر کی شلوار قمـیض پہنی ہوئی تھی وہ بھی فٹنگ مـیں مـیں تو اسے دیکھتا ہی رہ گیـا اسکے بوبس تو اسکی قمـیض سے باہر نکلنے کو بیتاب تھے &nbsp;ہم کئی دنوں سے دبے دبے ایک دوسرے مٰں دلچسپی لے رہے تھے اور کھل کے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن پہلکرے والال معاملہ تھا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اسنے مجھے اندر آنے کو کہا مـیں جاکر صوفے پر بیٹھا مـیرے خیـال سے وہ گھر پر اکیلی تھی مـیں نے پھر بھی اسے پوچھ ہی لیـا مـیں نے کہا کے نوید گھر پر ہے وہ بولی کے نہیں وہ تو اپنے باس کے گھر گئے ہے انکے با سنے انہیں اپنےی خاص کام کے لیئے بلایـا ہے وہ بعد مٰں علم ہوا تھا کہ خاص کام چدائی ہوتی تھی&nbsp; یہ سن کر مـیرے دل مـیں خوشی ہونے لگی مـیں نے کہا کے چلو ٹھیک ہے مـیں پھر چلتا ہوں مـیں نے جان بوجھ کے کہا کہ وہ کیـا کہتی ہے &nbsp;وہ بولی کے بیٹھ جائے مـیں چائے بنا رہی ہوں پی کر جائے گا &nbsp;ایسے نہیں &nbsp;جانے دونگی وہ کچن کی طرف جانے لگی یـار کیـا بتاؤ اسکی گانڈ پیچھے سے کیـا لگ رہی تھی مـیری نیت خراب ہونی شروع ہوگی تھی دل کر رہا تھا کے پیچھے سے جاکر پکڑلو ں پر مـیں ڈر بھی رہا تھا کے اگر وہ برا ماں گئی تو مـیں نے سوچا کوشش کرنے مـیں کیـا حرج ہے چلو کچھ نہیں &nbsp;ہوتا دل بڑا کیـا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں جلدی سے اٹھا اور اسکے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیـا مـیں نے اسے پیچھے سے کر پکڑ لیـا اپنے لنڈ کو اسکی گانڈ کے ساتھ لگا کر اسے اندر بھر کرنے لگا اور اپر سے دونوں &nbsp;ہاتھو ں سے اسکے زبردست دودھ کو دبانا شروع کیـا مـیرا جوان ی لنڈ کھڑا ہوگیـا تھا وہ خود کو مجھ سے بناوٹی طور پہ ے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی اور کہنے لگی کے چھوڑئیے مجھے یے غلط کر رہے ہے آپ مـیں آپکے دوست کی وائف ہو مـیں نے اسکی ایک نہ سنی اور زور سے اسکو پکڑ کر اسکی جوانی&nbsp; کے بوبز کو دبانے لگا اب اسکی پاکستانی سیمـیں آواز مـیں تبدیلی انے لگی تھی وہ اس طرح ایک دم سسکیـاں لش والی لینے لگی تھی مـیں نے قت کی پروا کیئے با اسکو اپنی گود مـیں &nbsp;اٹھایـا اور اسے نیچے لٹا کر اسکے اوپر لیٹ کر اسکے ہونٹ چومنے لگا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اسکو زبردستنگ کرنے کے ساتھ اسکی جوانی کو فل مست چودنے کے لییے اسکو تیـار کر دیـا تھا اور پھر مـیں نے اس دوست کی گرم &nbsp;بیوی کو پکڑ کر اسکی جوانی کی کمـیز پاکستانی سیکرنے کے لیئے اندر ہاتھ ڈالا اور اسکے ساتھ اسکے نپلز کو مسلتا ہوا اسکو فل گرم کرنے لگا اور اب وہ&nbsp; بھی مـیرا ساتھ دے رہی تھی مـیں نے اب اسکی جوانی کو چودنے کے لیئے اسکے جسم کا فل مست مزہ گرم انداز مـیں لینا شروع کیـا اور اسکی شلار کو اوپر کرکے تھوڑی گانڈ ننگھی کی اسکی اور پھر اپنا لنڈ نکال کر اسکی چوت پر رکھ کر گھسانے لگا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اسکے اندر وہ مـیری بانہوں مـیں نڈھال تھی اور مـیں &nbsp;اسکی جوانی کو نان سٹاپ چود رہا تاھ اسکی پھدی بہت ٹائٹ تھی شاید دوست کا لنڈ چھوٹا ہو گا اسکی پاکستانی سیوالی سسکیـاں نکلنے لگیں مگر مـیں نہ رکا اور دس منٹ کے اندر اسکی چوت کا پانی نکالنے کے ساتھ اسکے اندر فارغ ہو گیـا تھااور ہم ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کے پڑے رہے تب ہی ا سنے مجھے اپنے لونڈے باز شوہر وای بات بتائی تھی اور اب مجھے اپنے دوست کی گرم بیوی کے ساتھ ہمدردی بھی اور محبت بھی ہو گئی ہے مـیں اس کو دسمبر کی راتوں مـیں &nbsp;کوبگرماتا ہوں بے چاری اگر مـیں &nbsp;نا ہوتا تو ٹھنڈ مـیں مر ہی گئی ہوتی</div></h2></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-53682906363493610322015-11-15T11:30:00.000-08:002015-11-15T11:30:00.398-08:00

پاکستانی لڑکی کی ی کہانی جب رشتے بدل گئے۔ پارٹ ٹو

<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><h1 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 20pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px 0px 5px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">پاکستانی لڑکی کی ی کہانی جب رشتے بدل گئے۔ پارٹ ٹو</h1><h2 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">(pakistani larki ke y kahani jab rishtae badal gae part two)<a name='more'></a><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">پاکستانی لڑکی یعنی مـیں نےپھر اپنی شلوار اتار دی&nbsp; تو وہ غسل خانے سے ویسلین کی شیشی لے کر آے اور مـیری گانڈ اور چوت پر خوب اچھی طرح ویسلین مل دی پھر دھیرے دھیرے مـیری چوت پر اپنی انگلی پھیرنے لگے اور مـیرے ھونٹوں پر پیـار کرنے لگے مـیں ایک عجیب سی حالت مـیں تھی اور مـیری نظروں کے سامنے ابا اور امـی کی وہ حرکتیں ایک فلم کی طرح آرہی تھیں جو وہ اکثر رات کو کیـا کرتے تھےپھر انکل نے مجھے اپنے گھٹنوں پر الٹا لیٹا لیـا اور اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی مـیری چوت مـیں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے&nbsp; مـیری چوت ویسلین کی وجہ سے بہت &nbsp;چکنی اور ملائم ہو گئی تھی اس لیے مجھے زیـادہ درد محسوس نہیںں ہوا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">بلکہ مزہ آ رہا تھا کافی دیر تک وہ مـیری چوت سے کھیلتے رہےان کا لنڈ تن گیـا تھا اور مـیرے پیٹ سے چھب رہا تھا اب ان کی حالت بھی عجیب سی ہوگئی تھی ان کے چہرے پر پسینہ اور سانسوں مـیں تیزی اور انگلی کی رفتار بھی بڑھ گئی تھی پھر انہوں نے مجھے ہٹایـا اور بستر پر لے گئے خود پہلے لیٹے اور مجھے کہا&nbsp; کے مـیں ان کے لنڈ کو اپنے منھ مـیں لے کر چوسوں مـیں ان کے سینے پر بیٹھ گئی مـیرا رخ ان کی ٹانگوں کی طرف تھااور مـیری گانڈ &nbsp;انکل کے منہ کے پاس تھی پھر مـیں نے انکل کے لنڈ کو اپنے منہ مـیں رکھا تو مجھے گھن کی وجہ سے متلی ہونے لگی اور مـیں نے لنڈ پر سے منہ ہٹا لیـا<br style="box-sizing: border-box;" />انکل بولے&nbsp; عرفانہ ڈرو نہیںں کچھ نہیں ہوتا&nbsp; شاباش لے لو منہ مـیں اور مـیرے سر کو پکڑ کر پھر سے اپنا لنڈ مـیرے منہ مـیں ڈال دیـا اور مـیں لنڈ کو چوسنے لگی ان کا لنڈ کافی لمبا اور موٹا تھا مـیں صرف ان کے لنڈ کا اپر والا حصّہ چوس رہی تھی اور وہ مـیری چوت مـیں انگلی کر رہے تھے&nbsp; اور اپنے منہ سے ہا ہا ہا کی آوازیں نکال رہے تھےانکل کی انگلی جب مـیری چوت مـیں جاتی تھی تو مجھے بہت &nbsp;مزہ آتا تھا<br style="box-sizing: border-box;" />ہم کوئی بیس منٹ تک یہی کرتے رہے&nbsp; پھر ایک دم مـیرا منہی گرم گرم چیز سے بھر گیـا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں نے اپنا منہ ہٹانے کی کوشش کی مگر انکل نے مـیرے سر کو مضبوطی سے انپے لنڈ کی طرف دبایـا کے ان کا لنڈ مـیرے حلق مـیں جا گھسسا&nbsp; مـیرا سانس بند ہونے لگا اور آنکھیں باہر نکل آئیں کوئی تین منٹ کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑا تو مـیری سانس مـیں سانس آئی &nbsp;مـیں تیزی سے غسل خانے کی طرف بھاگی اور جب شیشے مـیں دیکھا تو مـیرا منہی سفید سفیددارملائی جیسی چیز سے بھرا ہوا تھا مـیں منہ دھو کر واپس آئی تو انکل اسی حالت مـیں لیٹے ہووے تھے&nbsp; اور ان کا لنڈ بھی سفید چیز سے لتھڑا ہوا تھا<br style="box-sizing: border-box;" />انکل بولے مـیری جان عرفانہ تم بہت &nbsp;اچھی ہواب مـیرے لنڈ کو اپنی زبان سے صاف کر دوتو مـیں نے بغیر کی حجت کے ان کے لنڈ کو اپنی زبان سے صاف کیـا پھر انکل اٹھ کر غسل خانے مـیں گئے تو مـیں نے بھی اپنی شلوار پہن لی جب انکل واپس آیے تو وو ننگے تھےمـیں نے پوچھا&nbsp; انکل یہ سفید سفید کیـا چیز تھی؟انکل ہنستے ہووے بولےجانی اس کو منی کہتے ہیں تم کو کیسی لگی&nbsp; تمھارے تو منہ مـیں گئی تھی مـیں بولی انکل کوئی مزہ نہیں تھا&nbsp; پر گرم گرم تھی پھر انکل مـیرے ساتھ بستر پر لیٹ گئےرات کافی ہو چکی &nbsp;تھی اور مجھے لیٹے ہی نیند آ گئی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">صبح جب مـیری آنکھ کھلی تو مـیں نے دیکھا کے مـیری شلوار اتری ہوئی تھی اور انکل مـیرے ساتھ لپٹے ہویے تھے اور ان کا لنڈ مـیرے چوتڑوں مـیں تھا انہوں نے مـیری قمـیض کے بٹن کھولے ہوئے تھےاور مـیری چوچیوں کو مسل رہے تھے مجھے بھی مزہ انے لگا ان کا لنڈ مـیری گانڈ کے چھید پر تھاان کا لنڈ موٹے ہونے کی وجہ سے مـیری تنگ گانڈ مـیں نہیں جا رہا تھا اور مجھے بھی تکلیف سی ہو رہی تھی پھر ایک دم انکل نے مـیری گردن موڑ کر اپنے منہ کے پاس کر لی اور مـیرے ہونٹوں کو چوسنے لگےساتھ ساتھ ان کے دھکوں کی شدّت مـیں تیزی آ گئی ان کی انگلی مـیری چوت کے اندر تھی انکل کے منہ سے اف ہاہاہا کی آوازیں نکل رہی تھیں</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">پھر مجھے لگا کے مـیری گانڈ گرم گرم پانی سے بھر گئی ہے انکل بھی سست ہو گئے تھے اور مجھ سے الگ ہو کر اپنی آنکھیں بند کیے لیٹے ہوئےتھےمـیں اٹھ کر غسل خانے گئی اور کموڈ پر بیٹھ کے پیشاب کیـا&nbsp; تو مـیں نے دیکھا کے مـیری گانڈ انکل کی منی سے لتھڑی ہوئی تھی&nbsp; مـیں نے اپنے اپ کو اچھی طرح پانی سے دھویـا کپڑے بدلے&nbsp; اور پھر ناشتہ بنانے نیچے آ گئی انکل بھی نہا کر ناشتے کے لیـا نیچے آ گئے&nbsp; ہم دونوں نے ناشتہ کیـا&nbsp; انکل نے مجھے پانچ سو روپہ کا ایک نوٹ دیـااور پھر انکل مجھے اسکول چھوڑتے ہوئے اپنے دفتر چلے گئے مـیں اسکول مـیں سارا وقت پچھلی رات کے مطالق سوچتی رہی اور تصور مـیں اپنی آپ کو انکل کی بیوی کے روپ مـیں دیکھتی رہی دوپہر کو اسکول کے بعد مـیں گھر پہنچی &nbsp;تو ابا اور امـی واپس نہیں آے تھے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں چینی &nbsp;سے انکل کا انتظار کرنے لگی انکل تین بجے دفتر سے آے&nbsp; وہ بازار سے کھانا بھی لاے تھے&nbsp; ہم دونوں نے ایک ساتھ کھانا کھایـا اور اس کے بعد کافی دیر تک باتیں کرتے رہے انکل نے مجھے خوب پیـار بھی کیـاپھر مجھے امتحان کی تیـاری کرانے لگےشام کو ابا اور سب لوگ واپس آ گئے اورمجھے ان کے آنے کا بہت دکھ تھا مـیرا خیـال تھا کہ انکل آج رات کچھ بہت ہی نیـا کریں گے مجھے جس بات کی بے چینی تھی وہ یہ کہ کیـا مـیری چوت مـیں &nbsp;ان کا لن جا پائے گا اتنا بڑا لن کیسے اندر جا سکتا ہے چوت تو ایک دم سیل پیک تھی کیسے لوگ اس مـیں لن دال لیتے ہیں اور انکل مـیری گانڈ مـیں کیوں لن ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے</div></h2></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-66859503787556090672015-11-12T11:00:00.000-08:002015-11-12T11:00:00.796-08:00

پاکستانی انٹی کے ساتھ

<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><h1 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 20pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px 0px 5px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">پاکستانی انٹی کے ساتھ </h1><h2 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">(pakistani auntee k sath )<a name='more'></a><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">پاکستانی آنٹی کی چدائی کہانی اس دور کی ہے جب مـیں اسٹیٹ لائف مـیں بطور&nbsp; سیلز مـینجر کام کرتا تھا اور مـیرا دفتر بہت خوبصورت تھا یہ ہماری سٹیٹ لائف والوں کی ضرورت ہوتی ہے کام زیـادہ ہو یـا کم ہم دفتر مـیں لوازمات کا پورا خیـال رکھتے ہیں اعر ہم بڑے ملنسار بھی ہوتے ہیں&nbsp; یہ ہمارا کاروباری سیٹ اپ ہوتا ہے&nbsp; ان دنوں مـیں فل جوان تھااور مـیں نے کئی ایک کلائنٹ چود کے ان کی بیمہ پالیسی حاصل کی تھی دوستوں مـیرا نام لیـاقت ہے اور مـیں اپ کو اپنی پاکستانی آنٹی &nbsp;کی ی کہانی بتاؤں گا جس مـیں آپ کو بہت مزہ آئے گا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں ایک شادی مـیں شریک تھا اور ہم جان بوجھ کے پبلک پلیس پہ جاتے ہیں نئے گاہک ملتے ہیں &nbsp;ایک بار کا ذکر ہے مـیں نے ایک آنٹی &nbsp;کو &nbsp;شادی دیکھا جو بہت ہی ی تھی مـیں نے کافی دیر تک اس کو دیکھتا رہا پھر اس کو پتا چل گیـا تھا کہ مـیں اس کو ہی دیکھ رہا ہوں مـیں نے اس کو وزٹنگ&nbsp; کارڈ دیـا نمبر اس کو مل گیـا اور اس کو بھی کہا کہ آپ شادی مٰں سب سے زیـادہ پرکشش لگ رہی تھیں&nbsp; اس نے شککریہ بولااور مـیں نے کہا مـیں آپ کی کال کا انتظار کرونگا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اسنے مـیری اس حرکت کا برا نہ منایـا اور مـیں نے کہا کہ مـیں اکیلا رہتا ہوں مجھے اچھے دوست کی ضرورت ہے اس نے کہا وہ کال کرے گی&nbsp; پھر ایک دن اس کی کال آئی رسمـی باتوں کے بعد بولی مجھے فارغ رہنا اچھا نہٰں لگتا کیـا آپ مجھے مناسب جاب دلوا سکتے ہیں مـیں نے اس کو کہا لگواؤ نگا اس آنٹی نے کہا اچھا جی لگوانا مـیں نے اس کو کہا کچھ دن ویٹ کرو مـیں کرونگااپنے ساتھ ہی ٹھیک ہے اس نے کہا تھا مـیں نے جاب اس کو لگوادی مـیں نے ا سکو اپنے آفس مـیں نئے گاہکوں کی رہنامئی کے لیئے رکھ لیـا تھا بڑا آفس تھا وہاں اور بھی مـیرے ساتھ ورکر ہوا کرتے تھے &nbsp;پھر رفتہ رفتہ ہم کو ایک دوسرے سے انسیت ہوگئی اور ہم پیـار مـیں بندھ گئے&nbsp; ا سکو بھی مجھ سے پیـار ہو گیـا مـیں نے اس کو کہا کے اپ مجھے بہت اچھی لگتی ہو اس نے کہا کہ مـیں جناتی ہوں اس لیئے ہی تو آپ نے اپنے پاس جاب دی ہے اس کو پیسوں کی اتنی ضرورت نہٰں تھی جتنی تنہائی کو دور کرنے کی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">کہنے لگی آپ&nbsp; مجھ سے &nbsp;بہت پیـار کرتے ہو &nbsp;مـیں آپکی قدر کرتی ہوں اچھے انسان ہومـیں اس کو روز روز اپنی گاڑی مـیں چھوڑ کے آتا تھا کچھ دن کے بعد مـیں نے اس کو کہا کے آج مـیرے گھر چلو اس نے مجھے کہا کہ &nbsp;ٹھیک ہے آپ لے جانا مجھے اپنے ساتھ وہ بھی چدائی کروانے کے چکر مـیں تھی مـیں نے اس کو کہا کے مـیں آپ کے ساتھ سیکروں گا دیکھنا تمہیں بہت مزہ آئے گا اس نے کہا ٹھیک ہے مـیں اس کو شام کو لے کے آگیـا تھا گھر کے اندر تو پھر مـیں نے اس کو اپنے روم مـیں لے گیـا پھر کافی دیر ہم باتیں کرنے کے دوران مـیں نے اسکو اپنی سینے سے دبا لیـا تھا اور پھر اس آنٹی نے مجھے کرنی سٹارٹ کردی تھی &nbsp;وہ گرم آنٹی لگ رہی تھی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں بھی مزے لے رہا تھا مـیں نے اس کو چومتے ہئے اسکی بازووں سے پکڑ کر اسکو بیڈ پر لیٹا دیـا اور ایسے کرتے ہئے اسکی قمـیض کے اندر ہاتھ ڈال کر اسکے بوبز کو سہلانے لگا پھر اس کو مـیں نے اپنا لنڈ چسانے کے لیئے اس پاکستانی جوان عورت کی جوانی کو اپنا لوڑا ننگھا کر کے دیـا تو اسنے منہ مـیں ڈال کر اسکو مزے سے چوسناشروع کردیـا تھا مـیں اسکے سر کو پکڑ کراندر باھر کرتے کرتے منہ سے چود رہا تھا اور پھر اسکو لٹا کر اسکی شلوار کو اتارا اور اس مست آنٹی کی کھلی ہوئی لنڈ کے لیئے تڑپتی چوت کو مسل کر چاٹنا شروع کردیـا تھا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">ا سکی چوت کا پانی نکل نکل کے مـیرا سارا منہ گیلا کیئے جا رہا تھا اور وہ تڑپ رہی تھی ا سکی چکنی چکنی پھدی اندر سے گلابی تھی اور مـیں ایک ہاتھ لمبا کر کے ا سکی نپلز کو بار بار مسلے جا رہا تھاا یسا&nbsp; کرنے سے اس کو اور بھی گرمـی چڑھنے لگی تھی اور مـیرا لن بھی نا ہو اتھااور ا سنے مـیر الن دیکھا تو حیران رہ گئی تی بولی کیـا کھلاتے ہو اس لن کو ڈنڈا ہے ڈنڈا مـیں نے کہا گرم گرم چوت کا شوربہ مـیرا لن گٹا گٹ پیتا ہے اس لیئے موٹااور لمبا ہو گیـا ہے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں نے اس کو کرتے ہوئے اب تک چوم چاٹ کر ہاتھ پھیر لیـا تھا &nbsp;ا سکو فل مستی چڑھ گئی تھی مـیں نے پوچھا کیسا لگا ہے جانی کہا ہاں تم واقعی مست کرتے ہو بہت ہوا &nbsp;سکون والا سیہے اب کچھ کرو پلیز &nbsp;مـیں نے اپنا کھڑا گھیلا لنڈ اس کی چوت مـیں ڈالنے کے لیئے اسکی چوت &nbsp;پر پھیرا اور پھر ایک دم سے اسکو اسکی چوت مـیں گھسا دیـا تھا &nbsp;وہ تڑپی اور سارا لن اندر لے گئی جیسے برسوں کی پیـاسی تھی اور پھر اسکے اوپر لیٹ کر اسکی جوانی کے ہاتھوں کو پکڑ کر لنڈ کو اندر باھر کرنے لگا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اسکی سسکیـاں مست تھیں اور مـیں اسکو نان سٹاپ چد رہا تھا اس کو بھی مستی چھائی ہوئی تھی اور مجھے بہت مزہ اتا رہا اور مـیں پاکستانی انٹی کی چوت کو چودتا رہا اور پھر اسی طرح اسکی جوانی کو کبھی اپنے اوپر تو کبھی اسکے اوپر جاکر اسکی جوانی چدتی رہی تھی ار اسنے اپنی گانڈ کے بھی دھکے لگا کر مـیرے لنڈ کو اپنے اندر فارغ کردیـا تھا اور اکے بعد مـیں نے اس پاکستانی آنٹی کی چوت ک ہاتھ سے رگڑ کر سہلا کر اسسکے ساتھ زبردست مزہ لے کر اسکو فارغ کیـا اور پھر اس پاکستانی آنٹی کی جوانی کی چوت مـیں ایک بار پھر انگلی کی چدائی کی کیونکہ ا سکی گرمـی ختم نہٰں ہو رہی تھی کیـا شاندار عورت تھی</div></h2></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-34728384895206328512015-11-11T15:00:00.000-08:002015-11-11T15:00:00.674-08:00

گرم پاکستانی کلاس فیلو کو چودا

<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><h2 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم پاکستانی کلاس فیلو کو چودا</h2><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">(garm-pakistani-class-fellow-ko-choda)<a name='more'></a><br /><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم پاکستانی لڑکی کی چدائی کی کہانی کے ساتھ حاضر ہوں یہ مـیرے ٹیوشن سنٹر مـیں ساتھ ہی تھی بس اس کو چودنے کا من کیـااوخود بخود ہی معاملہ سیدھا ہوگیـامـیرا نام کاشان ہے اور مـیں سیکنڈ ایئر کا طالب علم ہوں اور ہر وقت گندی ی کہانیـاں اور چدائی کے سین ہی مـیرے دماغ پہ مسلط رہتے ہیں ان کے بنا زندگی اچھی نہیں لگتی مـیں ایک کوچنگ سینٹر مـیں پڑھتا ہوں جہاں گرلز اور بوائز اکھٹےدونوں پڑھتے ہیں مجھے وہاں ایک سال ہو گیـا پڑھتے پڑھتے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں جس لڑکی کو پسند کرتا ہوں وہ مـیٹرک کی اسٹوڈنٹ ہے مـیں اسے بہت پسند کرتا ہوں لیکن افسوس کبھی مـیری اس پاکستانی سیوالی لڑکی سے بات نہیں ہوئی کیوں کہ &nbsp;اسکی اور مـیری کلاس الگ الگ ہے مـیری کبھی بھی اس سے بات نہیں ہوئی مـیں بس دیکھتا ہوں اسے اور کچھ نہیں ایک بار کوچنگ کی طرف بس اسٹاپ پہ &nbsp;وہ کھڑی تھی وہ بس کا وزٹ کر رہی تھی لیکن کوئی بس بھی نہیں آئی تھی وہ بہت پریشان ہو رہی تھی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">پھر مـیں اس کے پاس گیـا اور اس سے پوچھا آپکو کہاں جانا ہے &nbsp;وہ کہنے لگی مـیں خود چلی جاؤنگی مـیں نے کہا بس نہیں آئے&nbsp;آپ مـیرے ساتھہ آجائیں مـیں آپکو چھوڑدیتا ہوں وہ نہیں مانی مـیں اسے فورس کرنے لگا پھر وہ ماں گئی مـیں بہت بریک لگانے لگا اور وہ بار بار مجھے &nbsp;پاکستانی سیکریزی اور ماڈرن&nbsp; لڑکی &nbsp;چپکنے لگی اور مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور مـیرا دک کرے سفر لمبا ہو جائے ا سکے بڑے ممے کیـا شاندار تھے اور جان نکالنے کے لیئے کافی تھے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں نے اس سے بات کرنا سٹارٹ کی پہلے تو وہ گھبرائی پھر مجھ سے ٹھیک طرح بات کرنے لگی مـیں نے کہا مجھے اپنا نمبر دو مـیں نے اس سے نمبر بھی لے لیـا اسکا گھر بہت دور تھا اور مـیں بائیک بھی سلوہی چلا رہا تھا &nbsp;تاکہ مـیں اس کے ساتھ چدائی کا معاملہ فٹ کر سکوں ہم مرد کو موقع مل جائے تو ہم لڑکی کو کہاں چھوڑتے ہوتے ہیں ہمارا بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہےمـیں اس سے پورے راستے بات کرتا رہا پھر اسکا گھر آگیـا &nbsp;مـیں سوچ مـیں پڑ گیـا کیـا دیکھو کیـا ہوتا ہے لیکن مـیں پر امـید تھا کہ وہ مان جائے گی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">مـیں نے اس پاکستانی سیوالی کو کہا اپ چلی جاؤگی یـا مـیں چورہ دوں تو کہنے لگی پ چا ے یـا کولڈرنگ تو پی لیں مـیں نے کہا ٹھیک ہے اور مـیں اس کے گھر چلا گیـا وہاں گیـا تو دیکھا کے کوئی بھی نہیں تھا مـیں نے پوچھا سب لوگ کہاں ہیں تو کہانے لگی کے وہ سب مامو ں کے گھر گئے ہوے ہیں مـیں نے کہا اچھا اور مـیں وہاں بیٹھ گیـا پھر وہ مجھے اپنا گھر دکھانے لگی اور اپنے بیڈ روم بھی لے کر گئی مجھے اسکا بیڈ روم بہت پسند آیـا اور وہیں بیٹھ گیـا پھر وہ بھی مـیرے پاس بیٹھ گئی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور مـیں اسکا ہاتھہ پکڑ کے سہلانے لگا اور کہنے لگا کے تم کتنی پیـاری ہو وہ شرمائی &nbsp;مـیں جانتا تھا کہ وہ اندر سے چدائی لگوانی چاہتی تھی اور بس مـیرے اور قریب آنے کی دیر تھی اس کی پھدی لن مانگ رہی تھی اور نیچے ہو کر مـیرے ساتھ ٹکرائی تو مـیں نے اسکو اپنے گلے سے لگا لیـا اور اسکے بعد مـیں نے وقت دیکھتے ہوئے اس لڑکی کے ساتھ دیسی سیکرنے ے لیئے اسکی جوانی کے ہونٹ کو اوپر کیـا ور اسکے لیپس پر کی اور پھر اسکی جوانی کو وہیں لٹا کر سیدھا اسکے اوپر لیٹا اور اسکی آنکھیں بند ہو گئی تھی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور مـیں نے اسکی جوانی کو چودنے کے لیئے اسکے ساتھ خوبنگ کرتا ہوا اسکے جسم کو ہر جگہ ہاتھ پھیر کر اسکو گرم کرتا ہوا مسلنے لگا اور پھر اسکی چھاتی کو اوپر سے دبایـا تو وہ گرم ہو گئ اور مـیرا ساتھ دینے کے لیئے اسنے اپنی ٹانگیں بھی کھول دیں مـین نے پہلے اسکی کمر مـین ہاتھ ڈال کر اسکی برا کا ہک کھولا اور پھر اسکی جوانی کو نیچے سے اوپر کمـیز اتار کر ننگھی کرنے لگا وہ آدھی ننگھی ہوئی تو مجھ سے رہا نہ گیـا اور مـیں نے اسکے مموں کو پکڑ کر اسکو چوستا ہو اسکی گردن سے نیچے تک اسے چومنے اور چوسنے لگا اس کی سسکیـاں نکلنے لگی تھیں اور وہ اس وقت فل گرم پاکستانی لڑکی کی طرح لن کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیـار ہو چکی تھی مـیں اس دن بہت کوش ہو رہا تھا کہ کیسے من کی مراد پوری ہو گئی</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">بہت سیکرنے کی بدولت&nbsp; اب تو اسکی سسکیـاں نکلنے لگیں اور مـیں نے پھر اسی دوران اسکی شلوار بھی اتار کر اسکو فل ننگی کردیـا تھا اور اپنا لنڈ پینٹ اتار کر ننگھا کیـا اور اسکے اوپر لیٹ کر اسکی چوت پر رگڑنے اور اسکے جسمک و پیـار مزے سے چومنے لگا اور پھر اسکے ہونٹ کو چومتا ہوا نیچے سے لوڑا اسکی پھدی مـیں پاکستانی سیکا انت مزہ لینے کے لیئے گھسانے لگا تو اسکو تھوڑا درد ہوا مگر مـیرا لنڈ سلپ مارتا ہوا اسکے اندر چلا گیـا &nbsp;ا سنے اوئی کی مـیں مر گئی اور لن کہاں ٹلنےوالا تھا مجھے اوئی نے جوش دلایـااور مـیں &nbsp;نے خوبٹھوک دیـا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور اب مـیں نے اسکی ٹانگوں کو ہاتھون سے اٹھا کر اسکے ہونٹ اور اسکے بریسٹ چوستا ہوا اسکی چدائی مارتا رہا اور اسکے ساتھ پاکستانی سیکرتا ہوا زبردست مزہ اسکی جوانی کا لوٹ رہا تھا&nbsp; کوئ تین منٹ کے اندر ہی مـیں اور وہ پہلی بار چدائی کرا کر ایک ساتھ فارغ ہوئے اور اسکی سانسیں گرم خوار اور لش تھیں اس کے اوپر ساتھ لگ کے مـیں کافی دیر تک پرا رہااور ا سنے مجھے اپنے ساتھ لپیٹ لیـا تھااور بولی مـیں بھی کب سے تم کو چاہتی تھی بس ہمت نہیں ہوتی تھی پھر ہن نے اور شفٹ لگائی اس گرم پاکستانی لڑکی نے یـادگار چدائی اور حسین یـادیں چھوڑیں تھیں &nbsp;&nbsp;اور اس لڑکی کو آج بھی یـاد کرتا ہوں تو دل کو سکون ملتا ہے لیکن اداس بھی ہو جاتا ہوں</div></div></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-8937288009007845742015-11-10T13:42:00.000-08:002015-11-10T13:42:00.098-08:00

گرم لڑکی کی حسین یـادیں

<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><h1 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 20pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px 0px 5px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">&nbsp;گرم لڑکی کی حسین یـادیں</h1><h2 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">(garm larki ke haseen yadaeen)<a name='more'></a><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم لڑکی جو کہ مـیری دوست تھی اس کے ساتھ مـیں کئی سالوں سے پیـار کرتا آرہا تھا اس کے ساتھ بیتے سہانے دنوں اور گرم ی راتوں کی کہانی ہے کبھی کبھی پرانی چدائی کی باتیں کرنااور ان کو یـاد کرنا اچھا لگتا ہے انسان پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھول سکتا نئی لڑکیـاں اگرچہ مـیں کئی چود سکتا ہوں لیکن اس پرانی دوست کی یـاد سے مجھے سکون مل جاتا ہےا ور دل کرتا ہے دوبارہ وہ ملے اور وہی اس کی شیپ ہو وہی دن رات ہوں اور ہم اسی طرح بے فکری کے ساتھ دن رات چدائی انجوائے کیـا کریں لیکن وقت بہت تیز ہے گزر جاتا ہے تو معلوم ہی نہیں ہوتا کب کیـا ہو گیـا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">یہ کہانی ایک مست اور گرم لڑکی کی کہانی ہے اور اس لڑکی کا نا م سپنا تھا اس کے لیئے تھا کا صیغہ&nbsp; استعمال کرنے کو دل نہٰں کرتا ہے اور مـیں اب بھی اس کی بات کرتے کرتے اس کو ہیں&nbsp; کہتا ہوں جیسے اب بھی سامنے کھڑی ہے&nbsp; مـیں تصور مـیں اب بھی دیکھ رہا ہوں اس کے بال اب بھی بہت پیـارے ہیں اس کے بال بہت خوبصورت ہیں اور درمـیانے ہیں اور اس کا انداز بہت ی تھا اس کے اس بال کمر تک نیچے اور گانڈ سے اوپر آرہے تھے اور اس لڑکی کی گانڈ بھی بہت نارمل تھی اورتھوڑی باہر تھی &nbsp;جس کو دیکھ کے مـیرا دل بھی کرتا تھا کہ کبھی موقع ملا تو ا سکی گانڈ بھی چودوں گا ھالانکہ مٰں گانڈ چودنا گوارا نہٰں کرتا لیکن اس کی ایسی تھی کہ چود لی جائے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور اس کا رنگ گورا تھا مگراس کی رنگ ی رنگ مـیں شمار ہوتا ہے اور اس کی پوری باڈی ی تھی اس گرم لڑکی کو جہاں سے بھی دیکھوں تولنڈ کھڑا ہوجاتا تھا مـیں نے اس جیسی لڑکی آج تک نہیں دیکھی اور اس گرم لڑکی کی ادائیں تو اچھے سے اچھے مرد کو سیکرنے مـیں لگا دیتی تھی اور اس کے جوانی کے بڑے دودھ کا سائز٣٦ تھا اس لڑکی مـیں مجھ کو صرف اس کا فگر ہی بہت پسند تھا جب وہ لیتی ہے تو اس کا فگر اور بھی مست لگتا ہے اس کا جوانی کے بڑے دودھ بہت مولائم ہے سپنا کے پورے جسم مـیں مجھے صرف اس کا جوانی کے بڑے دودھ ہی پسند ہے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اس کے بڑے بڑے ممے ایک بار دیکھتے ہی لن کھڑا ہو جائے کیـا ممے کی لائین اور شیپ تھی کئی لوگ تو ا سکے ممے دیکھ کے ہی چھوٹ جانے والے ہو جایـا کرتے تھے لیکن مـیں کوش قسمت تھا جس نے ا سکے ممے باقاعدہ انجوائے کیئے تھے جب بھی مـیں اس کے جوانی کے بڑے دودھ کو ہٹ لگاتاہوں تو مجھے بہت مزہ آتا ہے اور اور اس کو مـیں بکے لگا لگا کے سیکرتا تھا&nbsp; ممے کے نپلز پھول کی پتی تھےاور اس کو کہتاتھا کے تم مجھ سے چپک کر لیٹو ناں &nbsp;اور اپنے جوانی کے بڑے دودھ کو مـیری کمر پر لگا کر رکھو اور اس کی گرم سانسیں مـیری گردن پہ ہوا کرتی تھیں</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اس گرم لڑکی معلوم تھا کے مجھے اس کے جوانی کے بڑے دودھ بہت اچھے لگتے ہے اور وہ جان بوجھ کے بڑے ممے مجھے دکھاتی تھی ہمـیشہ کھلے گلے والی قمـیض جان بوجھ کے پہنتی اور نیچے جھک جاتی تھی تاکہ مـیں ا سکے ممے جی بھر کے دیکھ سکوں اور اتیجیت ہو کے ا سکی پھدی مانگ لو جو وہ دینے کے لیئے تیر ہوتی تھی &nbsp;اور وہ اپنے جوانی کے بڑے دودھ کا بہت خیـال رکھتی ہے اور وہ جب بھی مجھ سے ملتی ہے تو اپنے جوانی کے بڑے دودھ پر پرفیوم لگا کر آتی تھی &nbsp;تاکہ مـیں &nbsp;وہا ںنگ کر سکوں</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور مـیں جب بھی اس کے جوانی کے بڑے دودھ کو چومتا تھا تو مجھ کو بہت مزہ آتا تھا اور خوشبو کا احساس مجھے اور پاگل کر دیتا تھا اور جب ہمارا موڈ ہوتا تھا تو وہ لال رنگ کی چھاتی کی برا پہن کر آتی تھی لال رنگ مـیں اس کا جوانی کے بڑے دودھ اور بھی مست لگتا تھا اور ایک دن ہم دونوں ایک ہوٹل مـیں چلے گئے اور وہاں وہ فل تیـار ہو کر آئی اور جس طرح مجھے پسند ہے اس طرح بن کر آئی مـیں اس کو دیکھ کر پاگل ہو گیـا اور مـیں نے اس کی سائیڈ پر لے جا کر ایکسنگ کر دی اور پھر اس کی جسم سے شڑٹ کو اتارا اور اس کے جوانی کے بڑے دودھ کو بہت پیـار پیـار سے دباتا رہا اور اس کی خوب ساری کرتا رہا اور آرام آرام سے جیسے اس کی شیپ&nbsp; بگڑ جانے کا ڈر ہو اس نے ممے مـیرےلیئے سنبھال کے رکھے ہوئے تھے جیسے گفٹ ہو مـیرے لیئے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اس گرم لڑکی کے جوانی کے بڑے دودھ کو دبآتا رہا اور آج وہ مـیری پسند کی خوشبو لگا کر آہی تھی &nbsp;اور مـیں اس کے ممے پہ لگی خوشبو سے ہی مست ہو جاتا تھا اور چودنے کی تیـاری شروع ہو جاتی تھی اس نے کبھی مـیرا چدائی کے معاملے مـیں دل نہٰں توڑا تھا بس جب کہا مان جاتی تھی کیـا شاندار گرم پاکستانی لڑکی تھی مجھے اور والا نشہ آرہا تھا پھر مـیں نے اس کے جوانی کے بڑے دودھ پر ایک ہاتھ رکھ دیـا اور ایک ہاتھ سے آرام سے اسکی برا کو کھولا اور پھر آرام سے اس کی جوانی کے بڑے دودھ کی نوک دار نپلز کو مسلتا رہا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور اس پر زبان لگآتا رہا اور پھر اس کے جوانی کے بڑے دودھ پر آرام آرام سے چومنے والی کر رہا تھا اس گرم لڑکی کو بھی بھت مزہ لش والا آرہا تھا اور مجھے بھی بہت والا نشہ آرہا تھا مـیں کم ز کم ٣٠ منت تک اس کے جوانی کے بڑے دودھ کے ساتھ کھیلتا رہا اور اور اس کو تڑپاتا رہا اور پھر اس کی نرم سی لش والی پھدی مـیں لنڈ ڈالا اور اندر باہر کرا اور پھر دس مِنت تک کر که تا رہا اور پھر چدائی کرتا ہوا فری ہوگیـا اس نے مجھے سے جب بھی چدائی مجھے الگ مزہ ملا کیـا بات تھی اس گرم لڑکی کی جس کو مـیں ابھی تک نہیں &nbsp;بھول سکا</div></h2></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-47747525802678550042015-11-09T13:42:00.001-08:002015-11-09T13:42:20.640-08:00

گرم لڑکی کی حسین یـادیں

<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on"><h2 style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 400 16pt/1.2em &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: -1px; margin: 0px; padding: 0px; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم لڑکی کی حسین یـادیں (garm larki ke haseen yadaeen)<a name='more'></a><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">گرم لڑکی جو کہ مـیری دوست تھی اس کے ساتھ مـیں کئی سالوں سے پیـار کرتا آرہا تھا اس کے ساتھ بیتے سہانے دنوں اور گرم ی راتوں کی کہانی ہے کبھی کبھی پرانی چدائی کی باتیں کرنااور ان کو یـاد کرنا اچھا لگتا ہے انسان پرانے دوستوں کو کبھی نہیں بھول سکتا نئی لڑکیـاں اگرچہ مـیں کئی چود سکتا ہوں لیکن اس پرانی دوست کی یـاد سے مجھے سکون مل جاتا ہےا ور دل کرتا ہے دوبارہ وہ ملے اور وہی اس کی شیپ ہو وہی دن رات ہوں اور ہم اسی طرح بے فکری کے ساتھ دن رات چدائی انجوائے کیـا کریں لیکن وقت بہت تیز ہے گزر جاتا ہے تو معلوم ہی نہیں ہوتا کب کیـا ہو گیـا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">یہ کہانی ایک مست اور گرم لڑکی کی کہانی ہے اور اس لڑکی کا نا م سپنا تھا اس کے لیئے تھا کا صیغہ&nbsp; استعمال کرنے کو دل نہٰں کرتا ہے اور مـیں اب بھی اس کی بات کرتے کرتے اس کو ہیں&nbsp; کہتا ہوں جیسے اب بھی سامنے کھڑی ہے&nbsp; مـیں تصور مـیں اب بھی دیکھ رہا ہوں اس کے بال اب بھی بہت پیـارے ہیں اس کے بال بہت خوبصورت ہیں اور درمـیانے ہیں اور اس کا انداز بہت ی تھا اس کے اس بال کمر تک نیچے اور گانڈ سے اوپر آرہے تھے اور اس لڑکی کی گانڈ بھی بہت نارمل تھی اورتھوڑی باہر تھی &nbsp;جس کو دیکھ کے مـیرا دل بھی کرتا تھا کہ کبھی موقع ملا تو ا سکی گانڈ بھی چودوں گا ھالانکہ مٰں گانڈ چودنا گوارا نہٰں کرتا لیکن اس کی ایسی تھی کہ چود لی جائے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور اس کا رنگ گورا تھا مگراس کی رنگ ی رنگ مـیں شمار ہوتا ہے اور اس کی پوری باڈی ی تھی اس گرم لڑکی کو جہاں سے بھی دیکھوں تولنڈ کھڑا ہوجاتا تھا مـیں نے اس جیسی لڑکی آج تک نہیں دیکھی اور اس گرم لڑکی کی ادائیں تو اچھے سے اچھے مرد کو سیکرنے مـیں لگا دیتی تھی اور اس کے جوانی کے بڑے دودھ کا سائز٣٦ تھا اس لڑکی مـیں مجھ کو صرف اس کا فگر ہی بہت پسند تھا جب وہ لیتی ہے تو اس کا فگر اور بھی مست لگتا ہے اس کا جوانی کے بڑے دودھ بہت مولائم ہے سپنا کے پورے جسم مـیں مجھے صرف اس کا جوانی کے بڑے دودھ ہی پسند ہے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اس کے بڑے بڑے ممے ایک بار دیکھتے ہی لن کھڑا ہو جائے کیـا ممے کی لائین اور شیپ تھی کئی لوگ تو ا سکے ممے دیکھ کے ہی چھوٹ جانے والے ہو جایـا کرتے تھے لیکن مـیں کوش قسمت تھا جس نے ا سکے ممے باقاعدہ انجوائے کیئے تھے جب بھی مـیں اس کے جوانی کے بڑے دودھ کو ہٹ لگاتاہوں تو مجھے بہت مزہ آتا ہے اور اور اس کو مـیں بکے لگا لگا کے سیکرتا تھا&nbsp; ممے کے نپلز پھول کی پتی تھےاور اس کو کہتاتھا کے تم مجھ سے چپک کر لیٹو ناں &nbsp;اور اپنے جوانی کے بڑے دودھ کو مـیری کمر پر لگا کر رکھو اور اس کی گرم سانسیں مـیری گردن پہ ہوا کرتی تھیں</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اس گرم لڑکی معلوم تھا کے مجھے اس کے جوانی کے بڑے دودھ بہت اچھے لگتے ہے اور وہ جان بوجھ کے بڑے ممے مجھے دکھاتی تھی ہمـیشہ کھلے گلے والی قمـیض جان بوجھ کے پہنتی اور نیچے جھک جاتی تھی تاکہ مـیں ا سکے ممے جی بھر کے دیکھ سکوں اور اتیجیت ہو کے ا سکی پھدی مانگ لو جو وہ دینے کے لیئے تیر ہوتی تھی &nbsp;اور وہ اپنے جوانی کے بڑے دودھ کا بہت خیـال رکھتی ہے اور وہ جب بھی مجھ سے ملتی ہے تو اپنے جوانی کے بڑے دودھ پر پرفیوم لگا کر آتی تھی &nbsp;تاکہ مـیں &nbsp;وہا ںنگ کر سکوں</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور مـیں جب بھی اس کے جوانی کے بڑے دودھ کو چومتا تھا تو مجھ کو بہت مزہ آتا تھا اور خوشبو کا احساس مجھے اور پاگل کر دیتا تھا اور جب ہمارا موڈ ہوتا تھا تو وہ لال رنگ کی چھاتی کی برا پہن کر آتی تھی لال رنگ مـیں اس کا جوانی کے بڑے دودھ اور بھی مست لگتا تھا اور ایک دن ہم دونوں ایک ہوٹل مـیں چلے گئے اور وہاں وہ فل تیـار ہو کر آئی اور جس طرح مجھے پسند ہے اس طرح بن کر آئی مـیں اس کو دیکھ کر پاگل ہو گیـا اور مـیں نے اس کی سائیڈ پر لے جا کر ایکسنگ کر دی اور پھر اس کی جسم سے شڑٹ کو اتارا اور اس کے جوانی کے بڑے دودھ کو بہت پیـار پیـار سے دباتا رہا اور اس کی خوب ساری کرتا رہا اور آرام آرام سے جیسے اس کی شیپ&nbsp; بگڑ جانے کا ڈر ہو اس نے ممے مـیرےلیئے سنبھال کے رکھے ہوئے تھے جیسے گفٹ ہو مـیرے لیئے</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اس گرم لڑکی کے جوانی کے بڑے دودھ کو دبآتا رہا اور آج وہ مـیری پسند کی خوشبو لگا کر آہی تھی &nbsp;اور مـیں اس کے ممے پہ لگی خوشبو سے ہی مست ہو جاتا تھا اور چودنے کی تیـاری شروع ہو جاتی تھی اس نے کبھی مـیرا چدائی کے معاملے مـیں دل نہٰں توڑا تھا بس جب کہا مان جاتی تھی کیـا شاندار گرم پاکستانی لڑکی تھی مجھے اور والا نشہ آرہا تھا پھر مـیں نے اس کے جوانی کے بڑے دودھ پر ایک ہاتھ رکھ دیـا اور ایک ہاتھ سے آرام سے اسکی برا کو کھولا اور پھر آرام سے اس کی جوانی کے بڑے دودھ کی نوک دار نپلز کو مسلتا رہا</div><div style="-webkit-text-stroke-width: 0px; background-color: white; box-sizing: border-box; color: #333333; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; font: 16px/1.7 &quot;Open Sans&quot;, sans-serif; letter-spacing: normal; margin: 0px 0px 8.5pt; text-indent: 0px; text-transform: none; white-space: normal; widows: 1; word-spacing: 0px;">اور اس پر زبان لگآتا رہا اور پھر اس کے جوانی کے بڑے دودھ پر آرام آرام سے چومنے والی کر رہا تھا اس گرم لڑکی کو بھی بھت مزہ لش والا آرہا تھا اور مجھے بھی بہت والا نشہ آرہا تھا مـیں کم ز کم ٣٠ منت تک اس کے جوانی کے بڑے دودھ کے ساتھ کھیلتا رہا اور اور اس کو تڑپاتا رہا اور پھر اس کی نرم سی لش والی پھدی مـیں لنڈ ڈالا اور اندر باہر کرا اور پھر دس مِنت تک کر که تا رہا اور پھر چدائی کرتا ہوا فری ہوگیـا اس نے مجھے سے جب بھی چدائی مجھے الگ مزہ ملا کیـا بات تھی اس گرم لڑکی کی جس کو مـیں ابھی تک نہیں &nbsp;بھول سکا</div></h2></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-155608808307119222015-11-09T13:40:00.003-08:002015-11-09T13:40:51.950-08:00

بھابھی اپنے دوست کی اسے چودا

<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">بھابھی اپنے دوست کی اسے چودا<br />(bhabhi apnae dost ke usae choda) <a name='more'></a><br />بھابھی مـیرے دوست کی اس کی چدائی لگائی ان کے گھر جا کے اسکی جوان پھدی لن مانگ رہی تھی مجھ سے اس نے چدائی دبے لفظوں مـیں مانگی اور مـیں پھر اس کا دیوانہ ہوگیـا مجھے تو وہ پہلی ہی نظر مـیں بھا گئی تھی اور اس نے جو مجھے بتایـا اس کے بعد اس کی چدائی لگانی بنتی تھی ایک مرد کو اپنی بے عزری محسوس ہوتی ہے جب کوئی عورت اس سے چدائی لگوانا چاہتی ہے اور مرد سوری کہہ کے چل دے تو مـیں سناتا ہوں اپنی کہانی جس مٰں دوست کی بھابھی کو مـیں نے خوب رات بھر چودا مـیرا نام فرحان خان ہے اور مـیں بائیس سال کا ہوں اور مـیں چدائی کا پاپی لڑکا ہوں مجھ کو پھدی لینے کا بہت شوق رہتا ہے اور مجھے مل بھی جاتی ہے اور مـیں ڈیفنس مـیں رہتا ہوں اور مـیں جہاں جاب کرتا ہوں.وہاں ایک لڑکا ہے جس کا نام جاوید ہے اور وہ مـیرا بہت اچھا دوست ہے اور ہم ایک ساتھ رہتے ہیں اور ہر جگہ ایک ساتھ ہی جاتے ہیں اور ایک دن جاوید کی سالگرہ تھی اس نے ہم سب دوستوں کو انوائیٹ کیـا تھا اور ہم سب پارٹی مـیں گئے بھی تھے اور وہاں ہم نے بہت ہی مزہ کیـا تھا اور وہاں مـیری اس کے گھر والوں سے بہت اچھی بات ہو گئی تھی اور مجھے اس کی بھابھی بہت پسند ائی تھیں جس کے ساتھ بندہ ہر طرح کا دیسی سیکر سکےاس نے مجھے خود ہی لفٹ کرائی تھی تاکہ مـیں اس کے ساتھ دوستی کر سکوں خیر ہم نے وہاں بہت مزے کیے خوب ہلہ گلہ کیـااور چوری چوری ایک دوسرے کو تاڑت رہے تاسکہ چدائی کو فائنل کیـا جا سکے اور پھر اپنے اپنے گھر چلے گئے سب دوست اور مـیرا گھر بہت دور تھا تو مـیں جاوید کے گھر ہی رک گیـا انہوں نے مجھے کہا کہ رات کافی ہوگئی ہے اس لیئے آپ رک جاو مـیں اندر سے کود ہی رکنا چاہتا تھا لیکن مروت مـیں کہا آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے رک جاتا ہوں اور اس عورت نے بھی اشارے سے مجھے رکنا کا کہا مـیں بھی خوش اور مـیرا لن بھی اوپر نیچے ہونے لگا تھا اور مـیں نے وہاں جاوید کے گھر والوسے بہت اچھے سے بات کی جاوید کے گھر مـیں اس کی امـی بھابھی اور جاوید رہتے تھے جاوید کے بھائی کام کی وجہ سے باہر گئے ہوے تھے اور مـیں نے جاوید کے گھر مـیں کر گیـا اور پھر ہم دونوں سونے کر لئے چلے گئے اور پھر جب سب سو گئے کیونکہ کافی رات بھی ہوگئی تھی اور سب تھکے ہوئے تھے ان کو گہری نیند آ چکی تھی تو مـیں جاوید کی بھابھی کے روم مـیں گیـا کیونکہ اسنے مجھے کافی لائن ماری تھی اور اسکا ارادہ بھی تھا چدنے کا دیسی سیکرکے اور وہ مـیرا انتظار کر رہی تھی اور خوب مستی کرنے کے موڈ مـیں تھی مـیں نے اندر جا کر گیٹ بند کر دیـا اور پھر ہم دونوں بیڈ پر ایک ساتھ لیٹ گئے اس نے پہلے ہی ی نائیٹی پہن رکھی تھی جس مٰں سے اس کے تنے ہوئے بڑے ممے ساف نظر آ رہی تھی اور اس کی بغلوں کے نیچے ایک بھی بال نہیں تھا شیو تھیں اور اس کی بغلوں کی خوشبو مجھے مست کرنے لگی اور وہ فل موڈ مـیں دیسی سیکرنے کے تھی اور مـیری بانہوں مـیں تھی اور مـیں نے اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرا رہا تھا ،اور ہم دونوں ایک ساتھ بہت خوش تھے اس ٹائم پھر مـیں نے اس کو اپنے اور قریب پکڑ کر کیـااور پھر مـیں نے اس کے لیپس پر کیسس کی اس کے نرم نرم لیپس کو اپنے لیپس مـیں لیـا اور اس پھر مـیں نے اس کی بدن سےنائیٹی پوری اتار دیـاور پھر مـیں نے اس کے جوان لش کھڑے ممے پر اپنا ہاتھ مست پھیرا اور اپنے ہاتھ سے اس کے جوان لش کھڑے ممے دبایں اور اس کے پورے دیسی سیکرنے کے لیئے لش مست جسم کو اپنے لیپس سے چومنا شروع کر دیـاپھر مـیں نے اس کے جوان لش کھڑے ممے اور خوبصورت نپلز پرنگ اور چوما چاٹی کی اور پھر مـیں نے اس کے جوان لش کھڑے ممے کو چوسنا شروع کر دیـاتھااور اس کی ی آوازیں نکلنے لگیں اور پھر مـیں نے اس کی چدائی لگانے کے لیئے اسکی نائیٹی کے نیچے مـیچنگ پپینٹی بھی اتار لی تھی اس کا ی بدن فل ننگا سامنے تھا چوت گلابی اور ایک دم چمک دار تھی جیسے کبھیی نا چودا ہی نا ہو مـیں نے پوچھا لگتا نہیں کہ تم شادی شدہ ہو کہنے لگی کیـا بتاو مـیرا شوہر اس قابل نہیں ہے کہ چود سکے ا سکا لن دو انچ کا اور وہ وقت بہت کم لگاتا ہے اکثر اوپر رکھتے ہی فارغ ہوجاتا ہے پلیز مجھے چود کے سکون دو نا اور مـیں نے کہا فکر نا کرو یـاد رکھو گیی نے چودا تھا پوری اتاری اور اس کی چکنی چوت پر اپنا ہاتھ مست پھیرا اور مـیں نے اس کی چکنی چوت مـیں اپنی انگلیـاں ڈالی اور اپنی انگلیـاں اندر باہر کرنے لگا.وہ س رہی تھی اور فل مـیں اپنی پھدی کو گیلی کیئے ہوئے تھی اور پھر مـیں نے اپنے کپڑے بھی پورے اتار دیئے اب مـیں نے اس کی چکنی چوت مـیں اپنا جوان لنڈ ڈالا اور زور سے اندر کیـا،وہ زور سے نڈھال لیٹی چلائی پھر مـیں زور زور سے اپنا دیسی سیـاسکے ساتھ مزید کرنے کے لیئے جوان لنڈ اندر باہر کرنے لگا پھر مـیں نے اس کی نیچے والی چکنی چوت مـیں اپنا ہاتھ مست پھیرا اور پھر مـیں نے اپنا جوان لنڈ اس کی پیچھے والی چکنی چوت مـیں ڈالا اور وہ چیخی پھر مـیں دس منٹ بعد فارغ ہو گیـا لیکن اس دوران اس کی پھدی کا سارا پانی نکال چکا تھا مـیں نے کہا دوبارہ بھی ملتا رہونگااور چوداتا رہونگا اس نے کہا تمہارا احسان ہو گا اور مـیں وہاں سے اٹھ کر جاوید کے پاس اکر سو گیـا اور جاوید کی دیسی سیکروانے والی بھابھی مـیری پہلے دیسی سیوالی چدائی کی گرل فرینڈ تھی مـیں جاوید کے گھر اس سے دیسی سیکرنے کی ہی وجہ سے جاتا تھا کیـا بات تھی مـیری اس نئی دوست اور جاوید کی بھابھی کی </div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-53075112245315140952015-01-29T05:26:00.000-08:002015-01-29T05:26:00.065-08:00

اسکول کے پرنسپل کے ساتھ سخت چدائی

<a name='more'></a><strong>مـیرا نام عشرت ہے اور مـیری عمر 22 سال کی ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب مـین نے اپنا ماسٹرز مکمل کیـا تھا اور ایک سکول مـیں ٹیچنگ سٹارٹ کی تھی مـیرے بوبز 36 سائز کے تھے گورا رنگ اور ی فیگر تھا اور مجھے جو دیکھتا تھا وہ مست ہوجاتاتھا مـیں بہت پر کشش دکھتی تھی- خیر سکول مـیں بھی مجھ پر اکثر پیرنٹ اور مـیل ٹیچر بھی لائن مارتے تھے- مـیں اپنی ی فیگر کا بھرپور فائڈہ اٹھا کر اپنے کام نکلواتی تھی اور پرنسپل بھی مجھے بہت گھورتے تھے-</strong> <br><strong>     ایک دن مـیں نے پرنسپل کو کہا کے مجھے اگلے ہفتے چھٹی چاہیئے مجھے شادی مـیں جانا ہے اور تیـاری کرنے کے لیئے پورا دن لگ جائے گا تو انہوں نے مجھے کہا کی اس دن تم نے منتھلی شیڈول بنانا ہے تو تم اتوار کو آجاو ہم آفس مـیں اسے کلیر کر لینگے اور پھر اس دن چھٹی کر لینا، چوت چٹا ی کہانی مـیں اتوار والے دن تیـار ہوکر اسکول پہنچی اور پرنسپل کے روم مـیں چلی گئی- پورے سکول مـیں ہم دونوںکے علاوہ کوئی اور نہیں تھا- مـیں سر کے سامنے بیٹھی کام کر رہی تھی کہ تھوڑی دیر بعد سر اٹھے اور مـیرے پیچھے کھڑے ہو کر مـیرا کام دیکھنے لگے-</strong><br><strong>   اچانک مـیں نے محسوس کیـا کہ کوئی مـیرے بہت قریب ہے جیسے ہی مڑی تو انہوں نے مجھے اپنی باہوںمـیں جکڑ یـا اور مـیرے ہونٹ کو چوسنے لگے- مـیں نے ہٹانے کی کوشش کیمگر انہوں نے مجھے بہت زور سے اپنی باہوں مـیں دبایـا ہوا تھا اور پھر وہیں سے مجھے پکڑے مـیرے اوپر چڑ گئے مجھے زمـین پر لٹا کر اور مـیرے ممے دبانے لگے اور پاگل مست ہونے لگے اور مـیرے منہ سے بھی س س س نکل رہا تھا مگر مـیں انسے نہیں کرنا چاہتی تھی-</strong><br><strong>   مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک ہی انہوں نے مـیری کمـیز اتار دی اور مـیں انکے سامنے برا مـیں تھی جو انہؤں نے اوپر کردی اور مـیرے ہونٹو ں کو چھوڑ کر مـیری گردن اور مـیرے چھرے کو چومنے لگے پھر مـیرے بوبز چوسنے لگے مجھ سے بھی اب کنٹرول نہیں ہو رہا تھا اور مـیں انکے سر کو پکڑ کر اپنے بوبز پر دبانے لگے- 5 منٹ بعد وہ مـیری شلوار اتار کر مـیرے پورے بدن پر زبن پھیرنے لگے اور مـیری چوت مـیں انگلی ڈال کر اندر باہر کرنے لگے مـیں تو گرم ہوریہ تھی اور اپنی گانڈ ہلا رہی تھی اور اب مـیں چد کر فارغ ہونا چاہتی تھی-</strong><br><strong>    انہوں نے اپنے کپڑے اتارے انکا لنڈ دیکھ کر تو مـیں حیران ہوگئی اتنا لمبا اور موٹا تھا مـیں سمجھ گئی کہ آج مـیری چوت کو آخری مزہ ملے گا- انہوں نے مـیری ٹانگوںکو کھول کر اپنا لنڈ مـیری چوت پر رکھا اور جھٹکا دیـا آہ ہ ہ ہ ہ اور مـیں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیـا اور لنڈ تھوڑا ہی اندر گیـا تھا اور ایک اور جھٹکا لگا ور مـیری چیخیں نکل گئی اور آنکھوں مـیں آنسو آگئے پھر اسنے مجھ سے لپٹ کر ایک زور دار جھٹکا لگایـا اور لنڈ پورا اندر گھس گیـا مـیری تو جان نکل گئی اور آہہہ ہ ہ ہ ا ف ف ف  ماں ں کرنے لگی اور اسکے 3 سے 4 جھٹے پورے پورے ہی اتنے تھے کہ مـیں فارغ ہونے لگی اور اس سے لپٹ کر مست ہو کر لیٹ گئی کرتے رہو کہنے لگی اور وہ مجھے چودتا رہا-</strong><br><strong>    15 منٹ تک مجھے کرتا رہا اور مـیں اس سے لپٹی رہی اور اس نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور مـیرے جسم پر اپنا سارا پانی گرا دیـا اور مـیں بھی فارغ ہو چکی تھی- مجھے یہ مزہ پہلی دفعہ ملا تھا اور مـیری چوت جیسے پھٹ رہی تھی اور ہم 10 منٹ تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے- اور پھر اگلے دن چھتی کر کے مـیں جب سکول گئی تو بریک ٹائم مـیں انکے ساتھ انکے کمرے مـیں ہی ہوتی اور انکا لنڈ لے کر اپنی گرمـی مٹاتی-</strong>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-66405831906810510562015-01-29T02:22:00.000-08:002015-01-29T02:22:00.038-08:00

شہزادی صاحبہ کے ساتھ

<a name='more'></a><span alvi="" nastaleeq';="" font-size:="" medium;="" unicode-bidi:="" embed;"="">مـیرا نام شاکر ہے مـیری عمر 32 سال کے قریب ہے<br>یہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے پہلے کی بات ہے ایک دن مـیرے کمرے مـیں تمام کمپیوٹرز خراب تھے اور مجھے کام کرنے کے لئے دوسرے کمرے مـیں جانا پڑا جہاں کام ختم کرنے کے بعد حاجی صدیق صاحب نے مجھے اپنے پاس بلا لیـا اور کہا کہ کبھی ہمارے پاس بھی آکر بیٹھ جایـا کریں مـیں نے کہا حاجی صاحب آپ چائے پلائیں تو مـیں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں تو ان کو جیسے سانپ سونگ گیـا اچانک ان کی مـیز کے دوسری طرف بیٹھی ایک لڑکی نے کہا سر چائے پلا دیں گے آپ بیٹھنے والی بات کریں اس کی بات سن کر مـیں حاجی صاحب کی ٹیبل پر بیٹھ گیـا حاجی صاحب نے بتایـا کہ یہ شہزادی صاحبہ ہیں اور چند دن پہلے ہی آفس جوائن کیـا ہے انہوں نے ایک معروف سیـاسی شخصیت کا نام بھی لیـا اور بتایـا کہ یہ ان کی رشتہ دار ہیں اور ان کی سفارش کی بدولت ہی اس دفتر مـیں آئی ہیں مـیرے کان حاجی صاحب کی طرف اور نگاہیں شہزادی صاحبہ کی طرف تھی جوی بھی طرح سے شہزادی نہیں لگ رہی تھی بیس سال کے قریب عمر کی موٹے جسم کی مالک سانولے رنگ کی عام شکل وصورت کی مالک حجاب پہنے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی ٹیلی فون پر کینٹین مـیں چائے کا آرڈر دے رہی تھی اس کے جسم مـیں ایک ہی خوبی تھی کہ اس کے ممے بہت بڑے تھے کم از کم اڑتیس سائز کے ہوں گے چائے پیتے ہوئے مسلسل اس کے مموں کے بارے مـیں سوچتا رہا بعد مـیں مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ایک قصبے سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں ایک سرکاری ہاسٹل مـیں رہتی ہے جس پوسٹ پر اس کو دفتر مـیں رکھا گیـا ہے اس کے لئے اس کی کوالیفکیشن بھی پوری نہیں ہے ایک دن اس نے مجھے مـیرے موبائل پر کال کی اور کہا کہ اس کا بھائی گھر سے آرہا ہے اس کا ایک کامـی جگہ پھنسا ہوا ہے اگر مـیں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو کردو مـیں نے حامـی بھر لی تین بجے کے قریب شہزادی صاحبہ اپنے بھائی کے ساتھ مـیرے کمرے مـیں آئی اور مجھے ایک فائل پکڑا دی مـیں نے فائل دیکھی تو پتا چلا کہ جس شخص نے یہ کام کرنا ہے وہ مـیرا ایک دوست ہے مـیں نے اس دوست کو فون کیـا تو اس نے کہا کہ کام ہوجائے گا اور یہ کام واقعی دو دنوں بعد ہوگیـا اس کے بعد شہزادی صاحبہ نے مجھے شکریہ کے لئے فون بھی کیـا ایک دن مـیںی کام کے سلسلہ مـیں دوبارہ حاجی صاحب کے کمرے مـیں گیـا تو حاجی صاحب موجود نہ تھے شہزادی صاحبہ نے مجھے بٹھایـا اور چائے منگوالی اس دوران اس سے پندرہ بیس منٹ تک گفتگو ہوتی رہی اس نے بتایـا کہ ہاسٹل مـیں اس کیی بھی لڑکی کے ساتھ اتنی زیـادہ دوستی نہیں ہوئی روزانہ ہاسٹل جاکر وہ رات گئے تک بور ہوتی رہتی ہے مـیں نے اس کو مشورہ دیـا کہ اس کے ہاسٹل کے قریب ہی ایک بڑا پارک ہے وہ وہاں شام کے وقت واک کے لئے چلی جایـا کرے مـیں بھی اکثر شام کے وقت وہیں جاتا ہوں اس نے کہا کہ مـیرے ساتھ جانے کے لئے کوئی بھی نہیں ہوتا حالانکہ مـیرا دل بھی کرتا ہے کہ شام کو واک کیـا کروں مـیں نے فوری طورپر خدائی خدمت گار بنتے ہوئے اپنی خدمات پیش کردیں کہ مـیں جس وقت پارک جاتا ہوں اس وقت وہ بھی آجایـا کرے تو مـیں اس کو واپس ڈراپ کردیـا کروں گا لیکن اس نے انکار کردیـا تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب کمرے مـیں آگئے مـیں نے ان سے کام کے متعلق بات کی اور اپنے کمرے مـیں آگیـا شام کے وقت پارک جارہا تھا کہ راستے مـیں شہزادی صاحبہ کا فون آگیـا کہ شاکر صاحب مـیں آج واک کے لئے جانا چاہتی ہوں آپ وقت آئیں گے مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ چند گھنٹے پہلے ہی اس لڑکی نے مجھے ایک ٹکا سا جواب دیـا تھا اور اب مجھے خود کہہ رہی ہے خیر مـیں نے اسے بتا یـا کہ مـیں پارک تھوڑی دیر کے بعد پہنچ جاﺅں گا مـیں پارک پہنچا تو گیٹ پر ہی اس کے ساتھ ملاقات ہوگئی دونوں اکٹھے پارک مـیں گئے اور باتیں کرتے کرتے واک کرتے رہے اس دوران شہزادی صاحبہ نے بتایـا کہ ان کے باپ ایک مذہبی جماعت کے ضلعی امـیر ہیں اور ان کا گھرانہ بہت مذہبی ہے اس کے گھر والے اس کو دوسرے شہر مـیں ملازمت کے لئے نہیں آنے دیتے تھے مگر وہ ضد کرکے یہاں آئی ہے رات کو آٹھ بجے مـیں نے اس کو ہاسٹل چھوڑا اور خود گھر آگیـا اگلے دن پھر شہزادی صاحبہ کا فون آگیـا سات آٹھ دن تک مـیں نہ چاہتے ہوئے تھی اپنی خدمات شہزادی صاحبہ کو پیش کرتا رہااب روزانہ شہزادی صاحبہ مجھے دفتر مـیں ہی انٹر کام کے ذریعے پوچھ لیتیں کہ وقت پارک جانا ہے ایک دن مـیرے ایک کولیگ نے مجھے کہا کہ خوب عشق چل رہے مـیں نے اس سے پوچھا کہسے عشق تو اس نے کہا کہ شہزادی صاحبہ کے ساتھ مـیں بہت پریشان ہوا اس دن مـیں نے واک کے دوران شہزادی کو کہا کہ مـیں کل سے تمہارے ساتھ نہیں واک کروں گا دفتر مـیں لوگ باتیں کررہے ہیں اس نے کہا کہ باتیں کرتے ہیں تو کرنے دو تم مـیرے ساتھ نہ ہوئے تو مـیں بھی واک نہیں کرسکوںمـیری روٹین خراب نہ کرو اس دن مـیں نے دل مـیں ”کچھ اور ہی“ سوچ لیـا اور اس سے کہا کہ کل اتوار ہے اور دفتر سے چھٹی ہے کیوں نہ کہیں آﺅٹنگ پر چلیں اس نے فوراً حامـی بھر لی مـیں اگلے دن صبح دس بجے کے قریب اس کے ہاسٹل چلا گیـا اور اس کو گاڑی مـیں بٹھا کر سیدھا واہگہ بارڈر چلا گیـا جہاں پر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ہوٹل بنا ہوا ہے اس کا مـینجر مـیرا دوست ہے مـیں نے راستے سے اس کو فون کیـا کہ مـیں آرہا ہوں اور مـیرے ساتھ دفتر کی ایک کولیگ ہیں جنہوں نے شام کو فلیگ سرمنی دیکھنی ہے شام تک کمرا چاہئے اس نے کہا کہ آجائیں ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کیـا تو مـیں نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیـا اور شہزادی صاحبہ کو آکر پکڑ لیـااور ان کونگ شروع کردی شہزادی صاحبہ نے مجھے ہاتھ سے ہٹا دیـا اور کہا کہ کیـا کررہے ہیں یہ کوئی اچھی بات ہے مـیں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تو کہنے لگی کہ یہ سب ناجائز ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مجھے بہت غصہ آیـا مـیں نے اس کو زور زور سے دو تھپڑ رسید کردئےے اور کہا کہ روزانہ مـیرے ساتھ پارک مـیں واک کے لئے جاتی ہو وہ سب کچھ جائز ہے یہاں مـیرے ساتھ ایک کمرے مـیں ٹھہری ہو یہ سب کچھ جائز ہے روتے کہنے لگی کچھ بھی ہومـیں یہ کام نہیں کروںمـیں نے کہا کہ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتی تو فوری طورپر یہاںسے چلی جائے مـیں اس کو واپس بھی نہیں لے جاسکتا یہ کہہ کر مـیں کمرے سے باہر نکل آیـا اور مـینجر سے اخبار لے کر دوبارہ کمرے مـیں آکر پڑھنے لگا پندرہ منٹ کے بعد شہزادی صاحبہ جو صوفے پر بیٹھی تھیں بیڈ پر مـیرے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگی اور کچھ نہیں مجھے صرف شرم آتی ہے یہ سن کر مـیں نے اس کو کہا کہ تم آنکھیں بند کرلو شرم نہیں آئےتو کہنے لگی کہ صرفنگ ہی کرنی ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں مـیں نے موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ مـیں نے اس کے ساتھ دوستی صرف اس کے مموں کی وجہ سے کی ہے یہ مجھے بہت پسند ہیں مـیں ان کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں تو کہنے لگی کہ ٹھیک ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیںمـیں نے فوراً حامـی بھر لی اور فوری طورپر اس کا حجاب اتارا اور اس کونگ شروع کردی اس دوران پہلے تو وہ پتھر بنی رہی مگر تھوڑی دیر بعد مـیرا ساتھ دینے لگی دس پندرہ منٹ بعد مـیں نے اس کی قمـیص اتاری تو کہنے لگی کمبل اوپر اوڑھ لو مـیں نے کمبل اوڑھ لیـا اور اس کا بریزئیر بھی اتار دیـا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کردیـا اس دوران وہ کافی ہاٹ ہوگئی اور منہ سے اف ف ف ف ‘ام م م م م م ‘ س س س س س س کی آوازیں نکالنے لگی مـیں نے اس کی شلوار اتارنی چاہی تو اس نے پھر سے منع کردیـا مـیں نے اس کو کہا کہ بہتر ہے آج مجھے منع نہ کرو مـیں نہیں چاہتا کہ تم سے زبر دستی کروں مگر تم نے مزاحمت کی تو مـیں زبردستی کروں گا اور یہ کام پھر بھی ہوجائے گا یہ بات سن کر اس نے مزاحمت ترک کردی اور مـیں نے اس کی شلوار اتار دی اس کے بعد مـیں نے کمبل بھی اوپر سے اتار دیـا اس کے ممے بھی کیـا ممے تھے مـیں اپنے ہاتھ اس کے جسم پر پھیر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی دیکھ رہا تھا وہ آہستہ آہستہ مچل رہی تھی اور مـیں اس کے جسم کو بغور دیکھ رہا تھا اس کے جسم پر دو جگہ تل تھے ایک دونوں مموں کے درمـیان اور ایک پیٹ مـیں ناف کے قریب‘ اس نے ایک دو دن پہلے ہی ستر کے بال صاف کئے تھے چند منٹ مـیں ہی شہزادی صاحبہ آﺅٹ آف کنٹرول ہوگئیں اور مجھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیـا اور کہنے لگی شاکر کچھ کرو مـیں آج مر جاﺅںمـیں نے دوبارہ اس کینگ شروع کردی اور اس کو مزید تڑپانے لگا وہ بلیوں کی طرح مجھے کاٹنے لگی مـیں نے اب اس کو زیـادہ تڑپانا مناسب نہ سمجھا اوراپنے کپڑے اتار دیئے وہ مـیرا 8 انچ سے بھی بڑاہتھیـار دیکھ کر اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیـااور کہنے لگی شاکر یہ کیـا کرنے لگے ہو تو مـیں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی مـیں نے اس کی کمر کے نیچے تکیہ رکھا اور ٹانگیں اوپر اٹھاکر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا ہتھیـاراس کی چوت پر رکھ کراس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ایک زور دار جھٹکے سے اس کو سارا کا سارا اس کی چوت مـیں دھکیل دیـا اس کی چیخ مـیرے منہ مـیں ہی دب کر رہ گئی وہ مجھے دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کررہی تھی مگر کامـیاب نہ ہوسکی مـیں اس کے اوپر ہی لیٹا رہا تھوڑی دیر بعد اس کی مزاحمت کم ہوئی تو مـیں نے اس کے منہ سے اپنا منہ پیچھے کیـا اور اس کو کہا کہ کیـا ہوا ہے تو کہنے لگی شاکر تم نے تو مجھے مار ہی ڈالا ہے اس کو فوری طورپر باہر نکالو مـیں نے کہا کہ اب تم کو تکلیف نہیں بلکہ مزہ آئے گا کہنے لگی مجھے ایسامزہ نہیں چاہئے تم اس کو باہر نکالو اس دوران وہ مـیرے نیچے سے نکلنے کی کوشش بھی کرتی رہی مگر کامـیاب نہ ہوسکی اب مـیں نے اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اندر باہر کرنا شروع کیـا تو اس کو بھی مزا آنے لگا ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ فارغ ہوگئی مگر مـیں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا اب اس کی چوت کافی گیلی ہوگئی تھی اور مجھے اس کو چودنے مـیں مزہ نہیں آرہا تھا اس لئے مـیں نے اپنا لن اس کی چوت سے باہر نکالا اور اس کی چوت بیڈ شیٹ سے صاف کی بیڈ شیٹ پر خون اور منی کے دھبے پڑ گئے تھے بیڈ شیٹ پر خون کے دھبے دیکھ کر وہ رونے لگی مـیں نے اس کو سمجھایـا کہ پہلی بار ہر لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے تو وہ چپ ہوگئی گئی اس کے بار مـیں نے اس کو پھر سے چودنا شروع کردیـا اب وہ پوری طرح مـیرا ساتھ دے رہی تھی اور جب بھی مـیں گھسا لگاتا وہ نیچے سے اچھل اچھل کر مـیرا ساتھ دیتی بیس منٹ کی چدائی کے بعد مـیں فارغ ہوگیـا اور ساری منی اس کی چوت مـیں ہی چھوڑ دی اب وہ نڈھال ہوکر مـیرے ساتھ لپٹ گئی اس دوران وہ مـیرے لن کو مسلسل سہلاتی رہی کچھ ہی دیر کے بعد مـیں دوبارہ تیـار ہوگیـا مـیں نے اس کو کہا کہ ایک بار پھر سے یہ کام کرنا ہے تو اس نے انکار کردیـا مـیں نے اسرار کیـا تو وہ تیـار ہوگئی اور کہنے لگی کہ آج مـیں اس کام کی انتہا کو پہنچناچاہتی ہوں مـیں نے اس کی چوت پر اپنا لن رکھا تو چیخنے لگی کہ اب فوری طورپر لن چوت کے اندر ڈال دو مـیں نے ایسا ہی کیـا اور تقریباً پندرہ منٹ تک اس کی چدائی کرتا رہا اب کی بار پھرمـیں اس کی چوت مـیں ہی چھوٹ گیـا اور اس کے اوپر ہی لیٹ گیـا وہ بھی مکمل طورپر نڈھال ہوچکی تھی کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد اس نے باتیں شروع کردیں اور کہنے لگی کہ اگر یہ بات مـیرے گھر والوں کو پتا چل گیـا تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے اس نے بتایـا کہ اس کے گھر والوں نے فیصل آباد کے ایک وکیل کے ساتھ اس کی زبردستی منگنی کردی ہے اس نے بتایـا کہ اس کی چار بہنیں ہیں جن مـیں سے دو بڑی بہنوں کی شادی ہوچکی ہے جبکہ دو اس سے چھوٹی ہیں جبکہ تین بھائی ہیں اس کا باپ ابھی تک اس کی والدہ کے کردار پر شک کرتا ہے اور اکثر اوقات اس کو مارتا پیٹتا بھی ہے مگر وہ اپنے باپ کے سامنے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتی اس نے بتایـا کہ اس کا باپ ان کیی بھی سہیلی کو گھر نہیں آنے دیتا اور ہی ان کوی سہیلی کے گھر مـیں جانے کی اجازت ہوتی ہے جب مـیں نے اس سے پوچھا کہ اس کے باپ نے اس کو لاہور مـیں جاب کرنے کی اجازت کیسے دے دی تو اس نے کہا کہ اس نے اپنی منگنی کے بعد احتجاج کے طورپر زہر کھا لیـا تھا گھر والے اسے ہسپتال لے گئے ڈاکٹروں نے اس کی جان بچالی جب تندرست ہوکر گھر گئی تو اس نے گھر والوں سے کہا کہ وہ جاب کرنا چاہتی ہے پہلے انہوں نے انکار کردیـا مگر جب مـیں نے دوبارہ زہر کھانے کی دھمکی دی تو انہوں نے اجازت دے دی اس نے بتایـا کہ اس کاباپ اتنا شکی ہے کہ ہر روز ہاسٹل فون کرکے اس کے بارے مـیں پوچھتا ہے کہ اس کا مـیل جول کن لڑکیوں کے ساتھ ہے وہ دفتر سے کب آتی ہے اور کب جاتی ہے اس کے بعد ہم دونوں نے اکٹھے غسل کیـا اور مـیں اس کو شام سے پہلے ہی ہاسٹل چھوڑ آیـا اس کے بعد مـیری اس کے ساتھ ہرہفتے چدائی ڈیٹ ہونے لگی اس دوران اس کا حوصلہ کافی حد تک بڑھ گیـا ہم دونوں ایک بار مری بھی گئے جہاں مـیں نے اس کی چدائی کی ویب کیم کے ذریعے فلم بھی بنا لی وہ ابھی تک مـیرے پاس محفوظ ہے جبکہ اس نے ہاسٹل مـیں جاکر اپنی ایک دوست جمـیلہ جو ایک سرکاری محکمے ہے کو مـیرے بارے مـیں بتایـا تو اس کو بھی مجھ سے ملنے کا اشتیـاق ہوا مـیں نے اس کی بھی چدائی کی جبکہ چند ماہ کے بعد شہزادی صاحبہ کی شادی ہوگئی شہزادی صاحبہ کی والدہ کے ساتھ بھی مجھے ہم بستری کا موقع ملا اس کی کہانی مـیں ایک دور روز مـیں لکھ کر سب کے ساتھ شیئر کروں گا ابھی بھی اس کی ای مـیلز ‘ ایس ایم ایس اورفون مجھے آتے رہتے ہیں اس کی ای مـیلز اور ایس ایم ایس کا ایک خزانہ مـیرے پاس محفوظ ہے اگر کوئی اچھا دوست ملا تو اس کے ساتھ یہ بھی شیئر کرسکتا ہوں یہاں مـیں ایک بات بتانا بھول گیـا کہ شادی سے چند روز پہلے اس نے مجھے بتایـا کہ اس کو مـینسز نہیں ہوئے جب ڈاکٹر سے رابطہ کیـا گیـا تو اس نے بتایـا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے مـیں نے اس کو حمل گرانے کا مشورہ دیـا مگر وہ نہیں مانی ابھی چند روز قبل اس نے ایک بیٹے کو جنم دیـا ہے اس نے بتایـا کہ وہ بیٹا مـیری چدائی کا نتیجہ ہے اس نے مجھے اس کی تصاویر بھی ایم ایم ایس کی ہیں۔</span>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-58153427442011585072015-01-28T23:18:00.000-08:002015-01-28T23:18:00.240-08:00

جمـیلہ

<a name='more'></a><span>مـیرانام شاکر ہے اور اس سے پہلے مـیں شہزادی صاحبہ کے ساتھ سیکی سٹوری لکھ چکا ہوں اور امـید ہے کہ وہ سٹوری سب پڑھنے والوں کو پسند آئی ہواب مـیں اس کی سہیلی جمـیلہ کی سٹوری لکھ رہا ہوں جو اس کے ہوسٹل مـیں اس کی روم مـیٹ تھی شہزادی صاحبہ نے ایک دن ڈیٹ پر مجھے بتایـا کہ اس کی روم مـیٹ جمـیلہ جو سرکاری محکمہ مـیں ملازم ہے کو مـیرے اور تمہارے بارے مـیں سب کچھ پتا چل گیـا ہے اور اسے ڈر ہے کہ جمـیلہی اور کو اس بات کے بارے مـیں نہ بتا دے اس وقت مـیرے ذہن مـیں جمـیلہ کو بھی چودنے کا خیـال آیـا مـیں نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ کل وہ اپنے ساتھ جمـیلہ کو کھانے پر مـیرے پاس لے آئے مـیں اس کو سمجھا دوں گا اگلے روز شام کو سات بجے دونوں کھانے پر مـیرے ساتھ ہوسٹل سے باہر آگئیں جمـیلہ نے نقاب کیـا ہوا تھا مـیں ان کو لے کر ماڈل ٹاﺅن مـیں بھیـا کباب والے کے پاس لے آیـا جہاں جمـیلہ نے اپنا نقاب اتارا تو مـیں اس کا حسن دیکھ کر دنگ رہ گیـا کیـا حسین و جمـیل لڑکی تھی اس کے والدین نے یقیناً اس کا حسن دیکھ کر ہی اس کا نام رکھا تھا وہ ہسنتی تو اس کے گالوں مـیں ڈمپل پڑتے تھے مـیں اس وقت اس کے جسم کے بارے مـیں کوئی اندازہ نہیں لگا سکا کیونکہ ابھی بھی اس نے آبا اوڑھا ہوا تھا کھانا کھانے کے بعد مـیں ان دونوں کو لے کر ماڈل ٹاﺅن پارک مـیں آگیـا جہاں ہم گھاس پر بیٹھ گئے بات چیت کے دوران جمـیلہ بار بار مـیرے اور شہزادی کے افیئر کے بارے مـیں پوچھ رہی تھی مـیں کوئی بھی بات بتانے لگتا تو جمـیلہ بات کو پلٹ دیتی خیر ایک گھنٹہ تک ہم تینوں بیٹھے رہے اس کے بعد مـیں نے ان کو ہاسٹل ڈراپ کیـا اور بعد مـیںفون پر شہزادی کو بتایـا کہ مـیں جمـیلہ کو بھی چودنا چاہتا ہوں اس طرح وہی کو بھی مـیرے اور تمہارے بارے مـیں نہیں بتائےپہلے تو اس نے مجھے منع کیـا مگر مـیرے اصرار پر مان گئی مـیں نے اس کام کے لئے دو دن بعد کا ٹائم رکھا اور اس کو کہا کہ اتوار کے روز مـیں اس کو لینے کے لئے ہاسٹل آﺅں گا تو وہ جمـیلہ کو بھی ساتھ لے آئے طے شدہ پروگرام کے مطابق اتوار کو شہزادی اور جمـیلہ کو لے کر واہگہ بارڈر پر واقع اسی ہوٹل مـیں لے آیـا جہاں مـیں نے شہزادی کو پہلی بار چودا تھا یہاں آکر مـیں نے ناشتہ منگوایـا اور کھانے کے دوران بھی بار بار جمـیلہ ہمارے افیئر کے بارے مـیں پوچھ رہی تھی مـیں نے اس کو بتانا چاہا تو شہزادی نے منع کردیـا کچھ دیر بعد مـیں نے پلان کے مطابق شہزادی کو کہا کہ مـیں گاڑی کو لاک کرنا بھول گیـا ہوں وہ جاکر گاڑی کو لاک کردے شہزادی جاتے ہوئے گاڑی کے ساتھ کمرے کی چابی بھی لے گئی اس کے جاتے ہی مـیں نے شہزادی کو پکڑ کر اس کے ہونٹوں کی کرلی یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ جمـیلہ کو پتا ہی اس وقت چلا جب مـیرے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر تھے اس نے خود کو چھڑوانا چاہا مگر مـیں نے اس کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تھوڑی دیر بعد اس کو مزہ آنے لگا اور اس نے مزاحمت ترک کردی اور مـیرا ساتھ دینے لگی اب اس کا نیچے والا ہونٹ مـیرے منہ اور مـیرا اوپر والا ہونٹ اس کے منہ مـیں تھا مـیں نے اپنے ہاتھ اس کی چھاتی پر رکھ دیئے اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ سے دبانا شروع کردیـا اس نے مجھ سے کہا کہ شہزادی آجائےمـیں نے اس کو کہا کہ گاڑی کافی دور کھڑی ہوئی ہے ابھی دس منٹ تک شہزادی نہیں آئےاس دوران مـیں نے اس کے کانوں پر بھی کیـا جب مـیں نے اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھے تو وہ مچل سی گئی اب وہ مسلسل مـیرا ساتھ دے رہی تھی اچانک دروازہ کھلا اور شہزادی اندر آگئی اس وقت ہم دونوں آپس مـیں چمٹے ہوئے تھے شہزادی کو اندر دیکھ کر جمـیلہ حواس باختہ ہوگئی اور اپنی صفائی مـیں کہنے لگی کہ مـیں نے کچھ نہیں کیـا یہ تو شاکر نے مجھے زبردستی پکڑ کر ایسا کرنا شروع کردیـا شہزادی نے اس سے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا لگے رہو لیکن جمـیلہ کو جیسے سانپ سونگھ گیـا ہو وہ پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی اور آنسو بہانے لگی شہزادی نے آگے آکر اس کے آنسو صاف کئے اور اس کو کہا کہ کچھ نہیں ہوتا شاکر ہمارا مشترکہ دوست ہے اب بھی جمـیلہ مسلسل روئے جارہی تھی پھر مـیں نے آگے ہوکر اس کو پکڑا اور دوبارہنگ شروع کردی اب جمـیلہ نے مجھ سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی مگر مـیں نے اس کو نہ چھوڑا تھوڑی دیر کے بعد اس نے بھی مزے لینے شروع کردیئے اور مـیرا ساتھ دینے لگی اس دوران شہزادی نے اپنے سارے کپڑے اتار دیئے اور جمـیلہ کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہا مگر جمـیلہ انکاری ہوگئی مجبوراً شہزادی کو ہی یہ سب کچھ کرنا پڑا شہزادی نے جمـیلہ کو پکڑکر اس کا آبا اتارا اس کے بعد اس کی قمـیص اتاری تو مـیں جمـیلہ کے بدن کو دیکھتا ہی رہ گیـا جیسے سنگ مرمر کا بنا ہوا ہو شہزادی نے اس کا بریزیئر اتارا تو مـیرے جیسے ہواس ہی گم ہوگئے اڑھتیس سائز کے ممے بالکل ٹائٹ کھڑے ہوئے تھے مـیں نے فوری طورپر آگے بڑھ کر اس کے ایک نپل کو منہ مـیں لے لیـا اس دوران شہزادی نے اس کا دوسرا نپل اپنے منہ مـیں لے لیـا جمـیلہ تو شائد مزے کیی اور دنیـا مـیں پہنچ چکی تھی اور سسکاریـاں لے رہی تھی مـیں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا کر اس کے جسم کو کرنا شروع کردیـا اور شہزادی اس کے ہونٹوں کو چوس رہی تھی جمـیلہ جیسے ماہی بن آب کی طرح تڑپ رہی تھی مـیں نے اس کی شلوار بھی اتار دی اور اس کے مموں کے بعد اس کے پیٹ اور اس کے بعد اس کی رانوں پرنگ شروع کردی اس کا جسم کیـا تھا جیسے ریشم کا بنا ہوا ہو جمـیلہ مسلسل سسکاریـاں لے رہی تھی اب شہزادی نے جمـیلہ سے کہا کہ شاکر کتنا بے ایمان ہے ہمارے کپڑے اتار دیئے اور خود اپنی شرٹ بھی نہیں اتاری اب شہزادی نے مـیرے کپڑے اتار دیئے مـیرا آٹھ انچ کا لن دیکھ کر جمـیلہ کو جیسے سکتا ہوگیـا وہ دو منٹ تک مـیرا لن ہی دیکھتی رہی اس نے اپنی نظر اس وقت مـیرے لن سے ہٹائے جب شہزادی نے اس سے کہا کہ اس کو نظر نہ لگا دینا اب ہم تینوں کمرے مـیں ننگے لیٹے ہوئے تھے مـیں اور شہزادی جمـیلہ کو اور کبھی ایک دوسرے کونگ کررہے تھے جبکہ جمـیلہ شائد شرم کی وجہ سے ہمـیںنگ نہیں کررہی تھی جبکہ وہ فل گرم ہوچکی تھی اب مـیں نے شہزادی کو اشارہ کیـا تو اس نے جمـیلہ کی چوت پر منہ رکھ کر اس کو زبان سے چودنا شروع کردیـا اس اقدام پر جمـیلہ بری طرح مچلنے لگی تھوڑی دیر بعد جمـیلہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیـا تو شہزادی تمام پانی پی گئی اب وہ مـیرے لن کی طرف ہوئی اور مـیرا لن منہ مـیں لے کر اس کو لالی پاپ کی طرح چوسنا شروع کردیـا مـیرا آٹھ انچ کا لن اس کے منہ مـیں پورانہیں آرہا تھا مـیں مسلسل جمـیلہ کے جسم کونگ کررہا تھا تھوڑی دیر کے بعد جمـیلہ دوبارہ گرم ہوگئی اور مـیرا لن بھی پوری طرح اس کی چوت پھاڑنے کے لئے تیـار تھا مـیں جمـیلہ کی دونوں ٹانگوں کے درمـیان مـیں آگیـا اور اپنا لن اس کی چوت پر رگڑنا شروع کردیـا اب جمـیلہ مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور منہ سے مسلسل آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م کی آوازیں نکا رہی تھی مـیں نے شہزادی کو جمـیلہ کے سر کی طرف جا نے کا کہا اور اس کی ٹانگیں شہزادی کو پکڑا دیں شہزادی نے ہاتھوں سے جمـیلہ کی ٹانگیں پکڑیں اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے مـیں نے جھٹکا لگا کر اپنا لن اس کے اندر کیـا ابھی آدھا لن ہی اندرگیـا تھا اور جمـیلہ چیخنے لگی مگر اس کی چیخیں شہزادی کے منہ مـیں ہی رہ گئیں مـیں تھوڑی دیر کے رکا اور پھر ایک اور زور دار جھٹکا دیـا اور مـیرا آٹھ انچ کا لوڑا جڑ تک اس کے اندر چلا گیـا جمـیلہ کی چیخیں تو شہزادی کے منہ مـیں تھیں مگر اس کو جتنی درد ہورہی تھی اس کا اندازہ اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوﺅں سے لگایـا جا سکتا تھا وہ درد سے مسلسل کراہ اور تڑپ رہی تھی مـیں نے اب دس منٹ تک کوئی حرکت نہ کی تو وہ نارمل ہوگئی شہزادی نے جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے کہنے لگی اسے باہر نکالو شہزادی نے اس سے کہا کہ جتنی درد ہونی تھی ہوچکی اب تو مزہ لینے کا وقت ہے مگر وہ مسلسل مجھے لن باہر نکالنے کے لئے کہہ رہی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نیچے سے بھی حرکت کررہی تھی کہ شائدی طرح اس کی جان چھوٹ جائے مگر اب اس کی کہاں چلتی تھی وہ بے بس ہوچکی تھی تھوڑی دیر کے بعد مـیں نے اپنے لن کو حرکت دینا شروع کی تو اس کو درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آنے لگا وہ اب نیچے سے نکلنے کی بجائے مزہ لے رہی تھی پانچ منٹ کی چدائی کے بعد اس کی پھدی نے پانی چوڑنا شروع کردی مگر مـیں ابھی تک فارغ ہونے کے قریب بھی نہ تھا مـیں نے اس کے فارغ ہونے کے بعد اس کی چوت سے اپنا لن نکال لیـامـیں دیکھا بیڈ کی چادر خون سے بھری پڑی تھی جمـیلہ نے دیکھا تو خوفزدہ ہوگئی مگر شہزادی نے اس کو بتایـا کہ یہ سب کچھ پہلی بار ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے مـیرا لن ابھی تک کھڑا ہوا تھا شہزادی نے دیکھا تو فوری طورپر اس کو آگے بڑھ کر منہ مـیں لے لیـا تھوڑی دیر کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے چدائی کرنے کے لئے کہا مـیں نے اس کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور زور زور سے جھٹکے لگانے شروع کردیئے پانچ منٹ کا فاصلہ طے کرکے ہم دونوں اکٹھے فارغ ہوگئے اس کے بعد تینوں بیڈ پر ننگے ہی لیٹ کر باتیں کرنے لگے جمـیلہ نے بتایـا کہ اس کے دفتر مـیں کئی لوگ اس کو گندی نظروں سے دیکھتے ہیں ایک دن کو اس کے ایک افسر نے اس کو دوستی کرنے کے عوض ترقی کا لالچ بھی دیـا مگر اس نے انکار کردیـا اس دوران شہزادی صاحبہ مسلسل مـیرے لن کو سہلا رہی تھیں کچھ دیر کے بعد مـیں دوبارہ تیـار ہوا تو جمـیلہ نے مزید کچھ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیـا کہ ابھی پہلی بار کرنے کا بہت درد ہورہا ہے مـیں نے اب شہزادی صاحبہ کے ساتھ پیچھے کے سے کرنے کا فیصلہ کیـا جب اس کو آگاہ کیـا تو اس نے انکار کردیـا مگر مـیرے اصرار پر مان گئی مـیں نے اس کو گھوڑی بنایـا اور اس کی گانڈ پر تھوک لگا کر اس مـیں انگلی ڈال کر ذرا کو رواں کیـا اور اپنا لن اس پر رکھ کر تھوڑا سا زور لگایـاتو شہزادی صاحبہ کی چیخنا شروع ہوگئیں مـیں نے اس کو کہا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا تھوڑی سی دیر مـیں مزے آنے لگیں گے اب جمـیلہ نے بھی شہزادی کو شرم دلائی کہ مـیری بار تو تم نے مـیرے منہ پر اپنا منہ رکھا ہوا تھا اور کہا تھا کہ درد سے زیـادہ مزہ آئے گا اب کیوں چیخ رہی ہو جس پر شہزادی چپ ہوگئی مـیں نے جمـیلہ کو کہا کہ وہ آگے آکر اس کے سامنے کھڑی ہوجائے اور جب شہزادی چیخنے لگے تو اس کا منہ پکڑ لے اس نے ایسا ہی کیـا مـیں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور زور زور سے دو تین جھٹکے مار کر اپنا لن اس کی گانڈ کی وادیوں مـیں گم کردیـا مجھے حیرت ہوئی کہ شہزادی کو کچھ بھی نہیں ہوا بعد مـیں معلوم ہوا کہ جمـیلہ نے اس کے منہ کے اندر کپڑا دے کر اس کو زور سے پکڑ رکھا تھا شہزادی کی گانڈ اتنی تنگ تھی کہ مـیرے لن کو بھی اندر جاتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی بہرحال دس منٹ کے بعد مـیں اس کی گانڈ کے اندر ہی چھوٹ گیـا مـیرا لنڈ باہر نکلتے ہی شہزادی نڈھال ہوکر بیڈ پر گر گئی جمـیلہ نے اس کو پانی پلایـا تو اس کے حواس بحال ہوئے اس کے بعد شہزادی نے مجھے بہت برا بھلا کہا اور کہا کہ تم جانور ہو مـیں آئندہ کے بعد تم سے کبھی نہیں ملوںلیکن تھوڑی دیر کے بعد اس شرط پر مان گئی کہ آئندہ کبھی بھی پیچھے کے راستے پر نہیں جاﺅں گا اس کے بعد شام تک ہم تینوں باتیں کرتے رہے شہزادی نے جب جمـیلہ کو بتایـا کہ اس کوی طرح اس ” محفل“ مـیں لایـا گیـا ہے تو وہ بہت حیران ہوئی کہ شہزادی نے مـیرے ساتھ مل کر کیسے پلان بنایـا بہرحال وہ اس بات پر خوش تھی کہ اس کو انجوائے کرنے کے لئے ایک دوست مل گیـاتھا شام کو مـیں نے ان کو ہاسٹل ڈراپ کرکے خود گھر آگیـا اس کے بعد کئی بار جمـیلہ کے ساتھ اکیلے بھی ملاقات ہوئی لیکن اکثر وہ دونوں اکٹھے ہی مـیرے ساتھ ”سیر وتفریح“ کے لئے جاتی تھیں کچھ عرصہ کے بعد جمـیلہ کی ٹرانسفر شیخوپورہ ہوگئی اب اس کے ساتھ فون پر ہفتہ مـیں ایک آدھ بار بات چیت ہوجاتی ہے مگر ابھی تک ملاقات نہیں ہوسکی</span>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-24793636765031228802015-01-28T20:14:00.000-08:002015-01-28T20:14:00.167-08:00

اک امر لڑکی

<a name='more'></a>مرے نام انیل ہے اور مے دفتر مے کام کرتا ہو وو دفتر مے بوتھ سرے لڑکیـا ہے وو مرے ساتھ کام کرتا ہے ان مے اک لڑکے ہے اس کے نام موہبت ہے اس کے عمرے ٢٠ سالہ ہے اس کا کد ٥ فوت ٢ انچ ہے. چوت چٹا ی کہانی وو بوتھ پڑے ہے م ا انگش کیـا ہے اور مے نہ ف پاسس کیـا ہے اور مرے عمر ہے ١٩ سال ہے اور مرے کد ٥ فوٹ ہے اور مرے دفتر مے کمپیوٹر پر کام کرتا ہو .<br>وو اک امر لڑکی ہے اور بوتھ پسا ویلے ہے وو مجھے سے پرے کرتے ہی اور مے اس کے دل مے پرے کرتا ہو . چوت چٹا ی کہانی جب وو اتے پلا مرے بات کرتے ہے اور مرے ساتھ کوپشا مرے تے ہے اور مرے ڈیتھ پر جاتے ہے . جب مے بیمار ہوتا ہو او مرے گھر پر اجاتے ہو . اک مرے امـی اور ابو نہ اس کا نام پوچھا اور اس نہ مرے نام موہبت ہے اور ہم دوسر جنتا ہے وو مرے ساتھ کام کرتا ہی اور مے اس کے ساتھ کرتی ہو ینی اک دفتر مے کام کرتا ہے اور مرے گھر ویلو کو بوتھ پیستاد اہے .<br>اور اس نہ کہا مے اس سے شادی کرنے ہے گھر ویلو نہ کہا کرلو . لکم انیل نی منا اور اک دن گھر واپس نی آیـا تو اس نہ مجھے فون کیـا . اور مے اس کے گھر جلا کیـا اس مرے اک جایـا بنا لئے اور نہ مجھے بے کیـا تھا . جب اس نہ مرے کندہ پر ہاتھ رک تو وو کرم تھے اور مرے بلو کو ہلا رے تھے اور مجھے کرم کر رے تھے جب مے کرم ہو تو اس نہ مجھے کرنا شرو کر دیـا ہے اور مرے ہوتے کو بے کرنا شرو کردہ ہے جب وہا سے اٹھا تو اس نہ مرے ہاتھ پکڑ اور بولی تم کہا جرا ہو . اس مرے کو پکڑ اور مجھے کرنا شرو کر دیـا اور مـی نہ اس کو بے کیـا اس مرے کپڑا اترے اور مرے پورا جسم کو کرنا لکے اور مجھے کرم کرنا لکے تھے<br>مـی اس کے پودہ مـی ہاتھ مرے تو بوتھ کرم ہو کئ تھے . اور مرے لن کو پکڑ اور اس کو بے کرنا لکے تھے اور اس نہ لن کو جسم پر پرنہ لکے کیـا تھے اور مـی اس کئ مما جوسا اور اس کو جس ارے ہے .<br>مـی نہ کہا مـی بوتھ پرے کرتا ہو اور مـی تم شادی بے کرنا جاتا ہو اس مرے لن پکڑا اور اپنا پودا مـی ڈالا تھا اور وو اپنا پودا مـی حل جل ماجہ طہ . اور مجھے کرنا لکے تھے<br>اور کئ سلے پتے رے ہے اور اس بوتھ دار ہو ر تھے . مجھے بوجھ بوجھ جس ا ہے اور بے جس ا ہے . جب مرے شور بارے آیـا اس نہ کہا مرے پودا مـی ڈالا ہو مـی کہا ٹھیکے ہے مرے لن بوتھ اچھے لکا اور اس کو بے اچھے لکا .

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-10915364795214938282015-01-28T17:10:00.000-08:002015-01-28T17:10:00.550-08:00

جمـیلہ

<a name='more'></a><span>مـیرانام شاکر ہے اور اس سے پہلے مـیں شہزادی صاحبہ کے ساتھ سیکی سٹوری لکھ چکا ہوں اور امـید ہے کہ وہ سٹوری سب پڑھنے والوں کو پسند آئی ہواب مـیں اس کی سہیلی جمـیلہ کی سٹوری لکھ رہا ہوں جو اس کے ہوسٹل مـیں اس کی روم مـیٹ تھی شہزادی صاحبہ نے ایک دن ڈیٹ پر مجھے بتایـا کہ اس کی روم مـیٹ جمـیلہ جو سرکاری محکمہ مـیں ملازم ہے کو مـیرے اور تمہارے بارے مـیں سب کچھ پتا چل گیـا ہے اور اسے ڈر ہے کہ جمـیلہی اور کو اس بات کے بارے مـیں نہ بتا دے اس وقت مـیرے ذہن مـیں جمـیلہ کو بھی چودنے کا خیـال آیـا مـیں نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ کل وہ اپنے ساتھ جمـیلہ کو کھانے پر مـیرے پاس لے آئے مـیں اس کو سمجھا دوں گا اگلے روز شام کو سات بجے دونوں کھانے پر مـیرے ساتھ ہوسٹل سے باہر آگئیں جمـیلہ نے نقاب کیـا ہوا تھا مـیں ان کو لے کر ماڈل ٹاﺅن مـیں بھیـا کباب والے کے پاس لے آیـا جہاں جمـیلہ نے اپنا نقاب اتارا تو مـیں اس کا حسن دیکھ کر دنگ رہ گیـا کیـا حسین و جمـیل لڑکی تھی اس کے والدین نے یقیناً اس کا حسن دیکھ کر ہی اس کا نام رکھا تھا وہ ہسنتی تو اس کے گالوں مـیں ڈمپل پڑتے تھے مـیں اس وقت اس کے جسم کے بارے مـیں کوئی اندازہ نہیں لگا سکا کیونکہ ابھی بھی اس نے آبا اوڑھا ہوا تھا کھانا کھانے کے بعد مـیں ان دونوں کو لے کر ماڈل ٹاﺅن پارک مـیں آگیـا جہاں ہم گھاس پر بیٹھ گئے بات چیت کے دوران جمـیلہ بار بار مـیرے اور شہزادی کے افیئر کے بارے مـیں پوچھ رہی تھی مـیں کوئی بھی بات بتانے لگتا تو جمـیلہ بات کو پلٹ دیتی خیر ایک گھنٹہ تک ہم تینوں بیٹھے رہے اس کے بعد مـیں نے ان کو ہاسٹل ڈراپ کیـا اور بعد مـیںفون پر شہزادی کو بتایـا کہ مـیں جمـیلہ کو بھی چودنا چاہتا ہوں اس طرح وہی کو بھی مـیرے اور تمہارے بارے مـیں نہیں بتائےپہلے تو اس نے مجھے منع کیـا مگر مـیرے اصرار پر مان گئی مـیں نے اس کام کے لئے دو دن بعد کا ٹائم رکھا اور اس کو کہا کہ اتوار کے روز مـیں اس کو لینے کے لئے ہاسٹل آﺅں گا تو وہ جمـیلہ کو بھی ساتھ لے آئے طے شدہ پروگرام کے مطابق اتوار کو شہزادی اور جمـیلہ کو لے کر واہگہ بارڈر پر واقع اسی ہوٹل مـیں لے آیـا جہاں مـیں نے شہزادی کو پہلی بار چودا تھا یہاں آکر مـیں نے ناشتہ منگوایـا اور کھانے کے دوران بھی بار بار جمـیلہ ہمارے افیئر کے بارے مـیں پوچھ رہی تھی مـیں نے اس کو بتانا چاہا تو شہزادی نے منع کردیـا کچھ دیر بعد مـیں نے پلان کے مطابق شہزادی کو کہا کہ مـیں گاڑی کو لاک کرنا بھول گیـا ہوں وہ جاکر گاڑی کو لاک کردے شہزادی جاتے ہوئے گاڑی کے ساتھ کمرے کی چابی بھی لے گئی اس کے جاتے ہی مـیں نے شہزادی کو پکڑ کر اس کے ہونٹوں کی کرلی یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ جمـیلہ کو پتا ہی اس وقت چلا جب مـیرے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر تھے اس نے خود کو چھڑوانا چاہا مگر مـیں نے اس کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا تھوڑی دیر بعد اس کو مزہ آنے لگا اور اس نے مزاحمت ترک کردی اور مـیرا ساتھ دینے لگی اب اس کا نیچے والا ہونٹ مـیرے منہ اور مـیرا اوپر والا ہونٹ اس کے منہ مـیں تھا مـیں نے اپنے ہاتھ اس کی چھاتی پر رکھ دیئے اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ سے دبانا شروع کردیـا اس نے مجھ سے کہا کہ شہزادی آجائےمـیں نے اس کو کہا کہ گاڑی کافی دور کھڑی ہوئی ہے ابھی دس منٹ تک شہزادی نہیں آئےاس دوران مـیں نے اس کے کانوں پر بھی کیـا جب مـیں نے اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھے تو وہ مچل سی گئی اب وہ مسلسل مـیرا ساتھ دے رہی تھی اچانک دروازہ کھلا اور شہزادی اندر آگئی اس وقت ہم دونوں آپس مـیں چمٹے ہوئے تھے شہزادی کو اندر دیکھ کر جمـیلہ حواس باختہ ہوگئی اور اپنی صفائی مـیں کہنے لگی کہ مـیں نے کچھ نہیں کیـا یہ تو شاکر نے مجھے زبردستی پکڑ کر ایسا کرنا شروع کردیـا شہزادی نے اس سے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا لگے رہو لیکن جمـیلہ کو جیسے سانپ سونگھ گیـا ہو وہ پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی اور آنسو بہانے لگی شہزادی نے آگے آکر اس کے آنسو صاف کئے اور اس کو کہا کہ کچھ نہیں ہوتا شاکر ہمارا مشترکہ دوست ہے اب بھی جمـیلہ مسلسل روئے جارہی تھی پھر مـیں نے آگے ہوکر اس کو پکڑا اور دوبارہنگ شروع کردی اب جمـیلہ نے مجھ سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی مگر مـیں نے اس کو نہ چھوڑا تھوڑی دیر کے بعد اس نے بھی مزے لینے شروع کردیئے اور مـیرا ساتھ دینے لگی اس دوران شہزادی نے اپنے سارے کپڑے اتار دیئے اور جمـیلہ کو بھی ایسا ہی کرنے کو کہا مگر جمـیلہ انکاری ہوگئی مجبوراً شہزادی کو ہی یہ سب کچھ کرنا پڑا شہزادی نے جمـیلہ کو پکڑکر اس کا آبا اتارا اس کے بعد اس کی قمـیص اتاری تو مـیں جمـیلہ کے بدن کو دیکھتا ہی رہ گیـا جیسے سنگ مرمر کا بنا ہوا ہو شہزادی نے اس کا بریزیئر اتارا تو مـیرے جیسے ہواس ہی گم ہوگئے اڑھتیس سائز کے ممے بالکل ٹائٹ کھڑے ہوئے تھے مـیں نے فوری طورپر آگے بڑھ کر اس کے ایک نپل کو منہ مـیں لے لیـا اس دوران شہزادی نے اس کا دوسرا نپل اپنے منہ مـیں لے لیـا جمـیلہ تو شائد مزے کیی اور دنیـا مـیں پہنچ چکی تھی اور سسکاریـاں لے رہی تھی مـیں نے اس کو بیڈ کے اوپر لٹا کر اس کے جسم کو کرنا شروع کردیـا اور شہزادی اس کے ہونٹوں کو چوس رہی تھی جمـیلہ جیسے ماہی بن آب کی طرح تڑپ رہی تھی مـیں نے اس کی شلوار بھی اتار دی اور اس کے مموں کے بعد اس کے پیٹ اور اس کے بعد اس کی رانوں پرنگ شروع کردی اس کا جسم کیـا تھا جیسے ریشم کا بنا ہوا ہو جمـیلہ مسلسل سسکاریـاں لے رہی تھی اب شہزادی نے جمـیلہ سے کہا کہ شاکر کتنا بے ایمان ہے ہمارے کپڑے اتار دیئے اور خود اپنی شرٹ بھی نہیں اتاری اب شہزادی نے مـیرے کپڑے اتار دیئے مـیرا آٹھ انچ کا لن دیکھ کر جمـیلہ کو جیسے سکتا ہوگیـا وہ دو منٹ تک مـیرا لن ہی دیکھتی رہی اس نے اپنی نظر اس وقت مـیرے لن سے ہٹائے جب شہزادی نے اس سے کہا کہ اس کو نظر نہ لگا دینا اب ہم تینوں کمرے مـیں ننگے لیٹے ہوئے تھے مـیں اور شہزادی جمـیلہ کو اور کبھی ایک دوسرے کونگ کررہے تھے جبکہ جمـیلہ شائد شرم کی وجہ سے ہمـیںنگ نہیں کررہی تھی جبکہ وہ فل گرم ہوچکی تھی اب مـیں نے شہزادی کو اشارہ کیـا تو اس نے جمـیلہ کی چوت پر منہ رکھ کر اس کو زبان سے چودنا شروع کردیـا اس اقدام پر جمـیلہ بری طرح مچلنے لگی تھوڑی دیر بعد جمـیلہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیـا تو شہزادی تمام پانی پی گئی اب وہ مـیرے لن کی طرف ہوئی اور مـیرا لن منہ مـیں لے کر اس کو لالی پاپ کی طرح چوسنا شروع کردیـا مـیرا آٹھ انچ کا لن اس کے منہ مـیں پورانہیں آرہا تھا مـیں مسلسل جمـیلہ کے جسم کونگ کررہا تھا تھوڑی دیر کے بعد جمـیلہ دوبارہ گرم ہوگئی اور مـیرا لن بھی پوری طرح اس کی چوت پھاڑنے کے لئے تیـار تھا مـیں جمـیلہ کی دونوں ٹانگوں کے درمـیان مـیں آگیـا اور اپنا لن اس کی چوت پر رگڑنا شروع کردیـا اب جمـیلہ مزے کی انتہا کو پہنچ رہی تھی اور منہ سے مسلسل آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م کی آوازیں نکا رہی تھی مـیں نے شہزادی کو جمـیلہ کے سر کی طرف جا نے کا کہا اور اس کی ٹانگیں شہزادی کو پکڑا دیں شہزادی نے ہاتھوں سے جمـیلہ کی ٹانگیں پکڑیں اور اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیئے مـیں نے جھٹکا لگا کر اپنا لن اس کے اندر کیـا ابھی آدھا لن ہی اندرگیـا تھا اور جمـیلہ چیخنے لگی مگر اس کی چیخیں شہزادی کے منہ مـیں ہی رہ گئیں مـیں تھوڑی دیر کے رکا اور پھر ایک اور زور دار جھٹکا دیـا اور مـیرا آٹھ انچ کا لوڑا جڑ تک اس کے اندر چلا گیـا جمـیلہ کی چیخیں تو شہزادی کے منہ مـیں تھیں مگر اس کو جتنی درد ہورہی تھی اس کا اندازہ اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوﺅں سے لگایـا جا سکتا تھا وہ درد سے مسلسل کراہ اور تڑپ رہی تھی مـیں نے اب دس منٹ تک کوئی حرکت نہ کی تو وہ نارمل ہوگئی شہزادی نے جیسے ہی اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے کہنے لگی اسے باہر نکالو شہزادی نے اس سے کہا کہ جتنی درد ہونی تھی ہوچکی اب تو مزہ لینے کا وقت ہے مگر وہ مسلسل مجھے لن باہر نکالنے کے لئے کہہ رہی تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نیچے سے بھی حرکت کررہی تھی کہ شائدی طرح اس کی جان چھوٹ جائے مگر اب اس کی کہاں چلتی تھی وہ بے بس ہوچکی تھی تھوڑی دیر کے بعد مـیں نے اپنے لن کو حرکت دینا شروع کی تو اس کو درد کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آنے لگا وہ اب نیچے سے نکلنے کی بجائے مزہ لے رہی تھی پانچ منٹ کی چدائی کے بعد اس کی پھدی نے پانی چوڑنا شروع کردی مگر مـیں ابھی تک فارغ ہونے کے قریب بھی نہ تھا مـیں نے اس کے فارغ ہونے کے بعد اس کی چوت سے اپنا لن نکال لیـامـیں دیکھا بیڈ کی چادر خون سے بھری پڑی تھی جمـیلہ نے دیکھا تو خوفزدہ ہوگئی مگر شہزادی نے اس کو بتایـا کہ یہ سب کچھ پہلی بار ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے مـیرا لن ابھی تک کھڑا ہوا تھا شہزادی نے دیکھا تو فوری طورپر اس کو آگے بڑھ کر منہ مـیں لے لیـا تھوڑی دیر کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے چدائی کرنے کے لئے کہا مـیں نے اس کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور زور زور سے جھٹکے لگانے شروع کردیئے پانچ منٹ کا فاصلہ طے کرکے ہم دونوں اکٹھے فارغ ہوگئے اس کے بعد تینوں بیڈ پر ننگے ہی لیٹ کر باتیں کرنے لگے جمـیلہ نے بتایـا کہ اس کے دفتر مـیں کئی لوگ اس کو گندی نظروں سے دیکھتے ہیں ایک دن کو اس کے ایک افسر نے اس کو دوستی کرنے کے عوض ترقی کا لالچ بھی دیـا مگر اس نے انکار کردیـا اس دوران شہزادی صاحبہ مسلسل مـیرے لن کو سہلا رہی تھیں کچھ دیر کے بعد مـیں دوبارہ تیـار ہوا تو جمـیلہ نے مزید کچھ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیـا کہ ابھی پہلی بار کرنے کا بہت درد ہورہا ہے مـیں نے اب شہزادی صاحبہ کے ساتھ پیچھے کے سے کرنے کا فیصلہ کیـا جب اس کو آگاہ کیـا تو اس نے انکار کردیـا مگر مـیرے اصرار پر مان گئی مـیں نے اس کو گھوڑی بنایـا اور اس کی گانڈ پر تھوک لگا کر اس مـیں انگلی ڈال کر ذرا کو رواں کیـا اور اپنا لن اس پر رکھ کر تھوڑا سا زور لگایـاتو شہزادی صاحبہ کی چیخنا شروع ہوگئیں مـیں نے اس کو کہا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا تھوڑی سی دیر مـیں مزے آنے لگیں گے اب جمـیلہ نے بھی شہزادی کو شرم دلائی کہ مـیری بار تو تم نے مـیرے منہ پر اپنا منہ رکھا ہوا تھا اور کہا تھا کہ درد سے زیـادہ مزہ آئے گا اب کیوں چیخ رہی ہو جس پر شہزادی چپ ہوگئی مـیں نے جمـیلہ کو کہا کہ وہ آگے آکر اس کے سامنے کھڑی ہوجائے اور جب شہزادی چیخنے لگے تو اس کا منہ پکڑ لے اس نے ایسا ہی کیـا مـیں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور زور زور سے دو تین جھٹکے مار کر اپنا لن اس کی گانڈ کی وادیوں مـیں گم کردیـا مجھے حیرت ہوئی کہ شہزادی کو کچھ بھی نہیں ہوا بعد مـیں معلوم ہوا کہ جمـیلہ نے اس کے منہ کے اندر کپڑا دے کر اس کو زور سے پکڑ رکھا تھا شہزادی کی گانڈ اتنی تنگ تھی کہ مـیرے لن کو بھی اندر جاتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی بہرحال دس منٹ کے بعد مـیں اس کی گانڈ کے اندر ہی چھوٹ گیـا مـیرا لنڈ باہر نکلتے ہی شہزادی نڈھال ہوکر بیڈ پر گر گئی جمـیلہ نے اس کو پانی پلایـا تو اس کے حواس بحال ہوئے اس کے بعد شہزادی نے مجھے بہت برا بھلا کہا اور کہا کہ تم جانور ہو مـیں آئندہ کے بعد تم سے کبھی نہیں ملوںلیکن تھوڑی دیر کے بعد اس شرط پر مان گئی کہ آئندہ کبھی بھی پیچھے کے راستے پر نہیں جاﺅں گا اس کے بعد شام تک ہم تینوں باتیں کرتے رہے شہزادی نے جب جمـیلہ کو بتایـا کہ اس کوی طرح اس ” محفل“ مـیں لایـا گیـا ہے تو وہ بہت حیران ہوئی کہ شہزادی نے مـیرے ساتھ مل کر کیسے پلان بنایـا بہرحال وہ اس بات پر خوش تھی کہ اس کو انجوائے کرنے کے لئے ایک دوست مل گیـاتھا شام کو مـیں نے ان کو ہاسٹل ڈراپ کرکے خود گھر آگیـا اس کے بعد کئی بار جمـیلہ کے ساتھ اکیلے بھی ملاقات ہوئی لیکن اکثر وہ دونوں اکٹھے ہی مـیرے ساتھ ”سیر وتفریح“ کے لئے جاتی تھیں کچھ عرصہ کے بعد جمـیلہ کی ٹرانسفر شیخوپورہ ہوگئی اب اس کے ساتھ فون پر ہفتہ مـیں ایک آدھ بار بات چیت ہوجاتی ہے مگر ابھی تک ملاقات نہیں ہوسکی </span>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-48819113676298486902015-01-28T14:06:00.000-08:002015-01-28T14:06:00.049-08:00

Barati ki Suhag Raat

<a name='more'></a><div><b><span>دوستو آج مـیں ایک نیـا تجربہ کرتے ہوئے یہ کہانی لکھ رہا ہوں امـید کرتا ہوں آپ کو پسند آئے گی۔<br>بات کچھ سال پہلے کی ہے جب مـیں 18 سال کا تھا اور بارویں مـیں پڑھتا تھا۔<br>ایک بار مـیں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ داروں کی شادی پر کراچی گیـا۔ مـیں چونکہ بہت کم جاتا ہوں اسی لئے زیـادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔<br>خیر شادی والے گھر مـیں پہنچ کر پتہ چلا کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر مـیں ہو رہی ہے اور تقریبا” سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس مـیں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا مـیرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کافی افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام طور پر شادیوں مـین ہوتا ہے۔<br>مـیں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول مـیں گھومنے لگا۔ مـیری یہ حالت دیکھ کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں مـیری کیـا لگتی تھیں کو رحم آ گیـا۔<br>انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیـا کہ وہاں مـیرے کافی ہم عمر تھے۔<br>یہاں آ کر لگا کہ جنت مـیں آ گیـا ہوں کہ جہاں ہر طرف لڑکیـاں ہی لڑکیـاں بکھری ہوئی ہیں۔<br>کوئی ڈانس پریکٹیس کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی مـیک اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔<br>دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیـا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں<br>"چمن اور بھی ہیں آشیـاں اور بھی ہیں"<br>یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیـا گیـا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی اور پرسنالٹی پر فخر ہوا، جو جلد ہی ختم ہوا کیونکہ یہ سب لڑکیـاںی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔<br>مجھ سے پوچھا کہ موٹر سائیکل چلا لیتے ہو؟<br>مـیں نے فخر سے کہا: ایسا ویسا پورے لاہور مـیں مجھ سے اچھا بائیکر پیدا نہیں ہوا۔<br>مجھے کیـا معلوم تھا کہ بڑے بول فورا” سزا پاتے ہیں۔ مـیرا ٹیسٹ ایسے لیـا گیـا کہ شام تک گانڈ بائیک سے علیحدہ نہیں ہوئی۔<br>گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یـاد ہو گیـا۔<br>شام تک لڑکیوں نے مـیری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ مـیں بیٹھنے تو کیـا لیٹنے کے قابل نہ رہا۔<br>آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیـا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیـاں مـیرے ساتھ آئی اور مجھے حکم دینے لگیں ۔ مـیں پھولوں کی لڑیـاں لگانے لگا۔<br>اتنے مـیں شور مچ گیـا کہ تیـار ہو جاؤ مہندی کی رسم کے لئے۔<br>لڑکیـاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو مـیں نے شور مچا دیـا۔ آخر کار مـیں یہ مزدوری جن کی قربت کے لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔<br>مـیرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب مـیں بچی تھی مـیرے پاس چھوڑی اور دلہن کے گھربھاگ گئیں۔<br>بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح<br>یہ سوچ کہ مـیں نے اس بچی کا آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کیـا۔<br>پہلے تو اسے بچی سمجھنے والوں کی عقل اور آنکھوں پر شک کیـا۔<br>اس کی عمر 15-16 سال تھی دبلی پتلی، سانولا رنگ، شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہی قدر ی ٹراؤزر اور شرٹ مـیں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس مـیں وہ تھا اس کا چہرا جوی طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق ظاہر نہیں کر رہا تھا۔<br>اس کے چہرے پر بھی معصومـیت نہیں تھی۔<br><br>مـیں نے اس سے نام ارو کلاس وغیرہ پوچھا۔<br>”مـیرا نام سارا ہے۔ مـیں نائیتھ مـیں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔<br>"سارا مـیں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر مـیں پڑھتا ہوں" مـیں بولا۔<br><br>"سارا مـیرا خیـال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ مـیں بہت تھک گیـا ہوں۔"<br>وہ بولی: "نہیں باجی نے مجھ سےکہا ہے لگوا کے آنا۔"<br>مـیں نے کہا: مـیرا کیـا قصور ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیـاں اور محنت مـیری لگ رہی ہے۔<br>وہ ہنس دی: "لگانا تو پڑے گا۔"<br>مـیں نے کہا :" اور تمھیں کیوں چھوڑ گئیں ہیں یہاں مـیری نگرانی کے لئے۔"<br>"نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے والا ہو"۔وہ شوخ ہو کر بولی۔<br>مـیں نے کہا: کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے والا کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔<br>وہ بولی: بالکل نہیں پرامس مـیں نہیں مکروں گی۔<br>مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے مـیں آ گئی ہے۔ اب مـیں نے اسے اسی نیت سے دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایـا۔<br>مـیں نے اب سوچ کے جواب دیـا:چلو یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یـاد رکھنا اگر مکر گئی تو مـیں سمجھوں گا کہ تم مـیں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔<br>اب مـیں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں مـیرے قریب آ جاؤ۔ مـیں کام بھی کرتا رہا اور اس سے باتیں بھی۔<br>مـیں نے اس سے پوچھا : سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟<br>وہ بولی: نہیں یہ یـادگار رات ہوتی ہے زندگی بھر یـاد رہتی ہے۔<br>اس مـیں یـادگار والی کیـا بات ہوتی ہے؟<br>وہ ذرا کنفیوز ہو کر بولی : بس ایسے ہی۔<br>الٹا یہ رات تو تکلیف دے سکتی ہے۔<br>وہ بولی: کیسے<br>مـیں نے کہا: ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی کانٹا چب سکتا ہے۔<br>وہ بولی: کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔<br>مـیں بولا: ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔<br>وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ مـیں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس موضوع کو آگے چلاؤں یـا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔<br>مـیں پوچھا: کیـا ہوا کیـا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات مـیں کیـا ہوتا ہے؟<br>وہ آہستہ سے بولی: نہیں۔<br>مجھے اپنی کامـیابی صاف نظر آگئی۔ اس کا نہ جانا اور اس کو ختم نہ کرنا مجھے سب بتا گیـا تھا۔<br>سوری یـار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمـیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ مـیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔<br>وہ خاموش رہی۔<br>مـیں نے اگلا وار کیـا: اگر تم وعدہ کرو کہی کو مـیرا نہیں بتاؤتو مـیں بتاتا ہوں۔<br>وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب مـیری ھمت فل بڑھ گئی۔<br>مـیں نے کہا: سارا تمھیں پیریڈز ہوتے ہیں نا؟<br>وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امـید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیـا۔<br><br>مـیں آہستہ سے بولا: اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (مـیں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایـا) ڈالتے ہیں۔.لڑکی کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔<br>وہ سر جھکا کے زمـین دیکھتی رہی اور بولی: مـیں ابھی آتی ہوں۔<br>یہاں مـیں پریشان ہو گیـا۔ اگر وہ نہ آئی تو گیم گئی۔<br>وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ مـیں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن مـیں بعض ایسے فلمـی سین جس مـیں سیتھا وہ اور ایسی دوسری باتیں کرنے لگا۔<br>اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے وغیرہ۔<br>اتنے مـیں لائٹ چلی گئی۔ مـیں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیـا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ رہا تھا۔<br>"یہ کیـا کر رہے ہیں آپ؟"<br>مـیں بولا: وہ جو لڑکی ہی کروا سکتی ہے۔<br>وہ بولی: کوئی آ جائے گا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔<br>تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیـا کر رہے ہو۔ مـیں کہا کہ اسی بہانے ذرا آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دیں۔<br>دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ مـیں نے چائے لے لی اور کہا: سارا یہاں مـیرے پاس آ جاؤ۔<br>وہ بولی: نہیں کوئی آ جائے گا۔ سب باہر ہی ہیں۔<br>مـیں نے کہا: مـیں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔<br>وہ چلی گئی اور 5 منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔<br>مـیں نے اسے بانہوں مـیں بھر لیـا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیـا۔وہ ذرا سامسائی مگر کچھ ارو نہیں کیـا۔<br>مـیں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیـا جو حسب توقع گیلی تھی۔<br>مـیں نے اپنا ھاتھ اس کے ٹراؤزر کے اندر ڈال دیـا<br>اس کی کنٹ کے دونوں ہونٹوں کو رگڑنے لگا۔<br>اس نے مـیرا ھاتھ پکڑ لیـا مگر ہٹایـا نہیں۔مـیں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا بھی رہا۔<br>اتنے مـیں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" بیڈ کے دوسری طرف کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امـی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا سارا تو یہاں نہیں ہے؟<br>مـیں نے کہا: نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔<br>وہ بولیں؛ بیٹا ذرا بلا آؤ اس نے کپڑےبھی پہننے ہیں۔<br>ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی مـیں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر مـیں لائٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔<br>یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ مـیں سیج تیـار کروں مـیرا کھانا وہ بھجوا دیں گی۔<br>مـیں اکیلا کام مـیں جت گیـا۔<br>سارا مـیرا کھانا لے کر آئی۔<br>مـیں نے اسے کہا کہ وہ نظربچا کے آ جائے مگر وہ نہ مانی۔<br>آخر ایک بجے جب مـیں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی تھے۔ وہ انھیں نیچے ایک کمرے مـیں سلا کر مـیرے پاس آ گئی۔<br>تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں مـیں تھے اور عورتیں اندر گھر مـیں۔ مـیرے پاس ٹائم کی کمـی نہیں تھی کم از کم 2 گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔<br>آخر مـیں نے حل یہ نکالا کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیـا۔ اندر آ کر لائٹ آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیـا۔<br>وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔<br>ایک بار مـیں اس کی سیل کھول لیتا پھر مـیں بعد مـیں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔<br>مـیں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔<br>اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔<br>مـیں نے آرام سے اپنی انگی اس کی کنٹ مـیں ڈالی۔<br>تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔<br>مـیں نے اس کی قمـیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیـا۔<br>مـیرا وزن اس سے کافی زیـادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ مـیں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل درد تو نہیں گا؟<br>مـیں نے کہا: ہلکہ سا ہو گا مگر زیـادہ نہیں۔<br>اب مـیں اپنا لن اس کے اندر دھکیلا وہ چلا اٹھی: پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے درد ہو رہا ہو۔ امـی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔<br>مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ مـیں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈالا۔<br>وہ اب رونے لگی مگر مـیرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار نہیں تھی۔<br>وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔<br><br>دو تین منٹ کے بعد مـیرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔<br>مـیں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ مـیں نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیـا۔<br>اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیپوزیشن کی وجہ سے مـیں 6-7 منٹ بعد ہی چھوٹ گیـا۔<br>کچھ دیر بعد مـیں بیڈ کے نیچے سے نکل آیـا کوئی 2-3 منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔<br>مـیں نے اسے چومنا چاہا تو اس نے جھٹک دیـا۔<br>" یہ تھوڑا درد تھا۔ مجھے کتنا درد ہوا ہے معلوم ہے تمھیں۔" مـیں جا رہی ہوں" ۔<br>وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔<br>مـیں نے اسے روک لیـا۔<br>دیکھو سارا ! مـیری جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر مـیں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔<br><br>وہ بھڑک کے بولی: اب مـیں نہیں کرواؤں گی۔<br>مـیں نے کہا: کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ کہیں مـیری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔<br><br>وہ ڈر گئی اور یہی مـیں چاہتا تھا۔<br>مـیں نے کہا: کل رات پھر مـین تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی سے کروتو مزا آئے گا اور اگر زبردستی کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیـادہ ہوگا۔<br>یوں سمجھو مـیں اس کو پھاڑ دوں گا۔<br><br>وہ چلی گئی۔ مـیں کل کے لئے پلان بنانے لگا۔</span></b></div><div><strong></strong> </div><div><strong></strong> </div><div><b><span><span><br><br><br>سب سے پہلے تو پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔ یہ ایک تجربہ ہی تھا اچھا ہوا کہ آپ سب کو محظوظ کر گیـا۔<br>ایک بات مـیں اور کہنا چاہوں گا کہ اس مـیں کوئی حقیقت نہیں ہے۔<br>مجھے اب اگلے دن کے لئےی ایسی جگہ کا انتظام کرنا تھا جہاں مـیں پوری طرح سے اس کو چود سکوں۔ مـیرے ذہہن مـیں ایسی کوئی جگہ نہیں آ رہی تھی۔<br>خیر پوری رات سوچتے گزری۔سارا سے مـیں نے ایک دو مرتبہ بات کرنی چاہی تو وہ طرح دے گئی۔ مجھے غصہ تو آیـا مگر مجھے یہ یقین تھا کہ وہ آج رات پھر مـیرے نیچے ضرور ہو گی۔<br>صبح تیـاری ہوئی اور شام کو 7 بجے بارات گھر سے ہال روانہ ہوئی۔<br>ہال مـیں مجھے سارا کافی تیـار ملی اس نے انڈین سٹائل کا گھاگرہ اور چولی پہن رکھا تھا۔ کمـی تھی تو بس اس کی انڈینز کی طرح جسم ننگا نہیں تھا۔ مـیں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیـا۔<br>یہیں مـیں ایک بڑی غلطی کر گیـا۔ جن لڑکیوں کے پیچھے کل مـیں نے قید بامشقت جھیلی تھی آج مـیں سارا کے چکر مـیں ان کو نظر انداز کر گیـا تھا۔<br>شاید مـیری نظروں کا تعاقب کر کے ان مـیں سے سارا کی کزن نائلہ جو دلہن کی بہن تھی، وہ مشکوک ہو گئی تھی۔<br>بارات پہنچ گئی نکاح ہوا اور کھانا شروع ہوا۔مـیری بھوک پیـاس تو صرف سارا تھی۔ سارا جو مـیرے ساتھ بات تک نہیں کر رہی تھی۔<br>مـیں اسی کشمکش مـیں تھا کہ نورین (کزن) مـیرے پاس آئی : فیصل مـیرے پیـارے بھائی! پلیز ذرا گھر سے مـیرے لئے مـیرے کپڑے لے آؤ۔ مـیں نے ابھی اس سوٹ مـیں ڈانس کرنا ہے۔پلیز فیصل۔<br><br>مـیں ایک تو بھائی پر بدمزا ہوا اوپر سے اس ے وجہ کی مزدوری سے۔مـیں نے کہا: یـار مـیں تمھارے کپڑے کہاں ڈھونڈوں گا۔<br>"تم ایسا کرو ننھی کو لے جاؤ۔"اس نے اپنی بہن کا نام لیـا۔<br>"کمال ہے ننھی کو لے جا کر کیـا کروں گااور آنے جانے مـیں کتنا ٹائم لگئ گا پتہ بھی ہے۔"<br>"تم فکر مت کرو ابھی لیڈیز کے لئے کھانا نہیں کھولا ہے۔کھلے گا کھائیںپھر مووی بنے گی۔ لاسٹ مـیں دولہا ادھر آئے تو ہم ڈانس کریں گی۔" وہ بولی۔<br>"اچھا پھر ایسا کرو سارا کو بھیج دو اسے ہی سمجھا دو کیـا منگوانا ہے۔"مجھے بروقت ترکیب سوج گئی۔<br>وہ خوش ہوگئی۔ سارا کو بلایـا تو وہ انکارکرنے لگی۔اس نے مجھے آنکھ سے کچھ اشارہ کیـا جو مجھے سمجھ نہ آیـا۔ مـیں سمجھا وہ کہنا چاہ رہی ہے کہ مـیں آج نہیں چدواؤں گی۔<br>خیر ہم دونوں گھر آئے۔ پہلے کپڑے اٹھائے۔ گھر مـیں صرف ایک نوکرانی تھی جو کچن مـیں برتن سمـیٹ رہی تھی۔ اس نے ہمارے آنے جانے کا کوئی رسپانس نہیں لیـا۔<br>مـیں سارا کو لے کر اوپر ایک کمرے مـیں آ گیـا۔<br>فیصل مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز چلو کوئی آ جائے گا۔وہ کمرے مـیں آتے ہی رونے والی ہو گئی۔<br>فیصل وہ باجی کو شک ہو گیـا ہے۔پلیز مت کرو" مـین نے اسے بہانہ سمجھا۔<br><br>مـیں نے اس کی چولی اتار دی اور اسے بیڈ پر لٹا دیـا۔ اس نے نیچے 32 سائز کا برا پہنا ہوا تھا۔ کیونکہ اس کے ممے اسی سائز کے تھے۔<br>اگلے دو منٹ مـیں مـیں نے اس کا گھاگرہ اور پائجامہ بھی اتار دیـا۔اس نے اپنی ٹانگیں بند کر لیں اور اپنی کنٹ کو ھاتھوں سے چھپا لیـا۔<br>مـیں نے اپنے کپڑے اتارے اور کنڈوم چڑھایـا۔<br>اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ اس کے منہ مـیں اپنی زبان ڈال دی اور اپنے ھاتھوں سے اس کے مموں اور کنٹ کو سہلانے لگا۔<br>اب وہ بھیی حد تک ریلیہو گئی تھی۔ مگر ابھی بھی وہ مـیرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔مـیں نے دس منٹ اسی طرح اس کے مموں ہونٹوں اور جسم کو چومنے مـیں لگائے۔<br>وقت کی کمـی اور پکڑے جانے کے چانسز آج بھی بہت تھے۔ اسی لئے مـیں مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس کی ٹانگیں کھول کر لن اس کی کنٹ پر رگڑا۔<br>وہ بولی: پلیز آرام سے ڈالنا۔ مـیں کوئی بات نہیں کہوںبس مجھے درد مت دینا اورخون مت نکالنا، مـیں مرضی سے کروا رہی ہوں۔<br>مـیں نے اس سے کہا: تم اپنی ٹانگیں جتنی کھول سکتی ہو کھول لو۔مـیں آرام سے ڈالوں گا۔<br>وہ کل کی چھمکی کو لے کر ڈر رہی تھی۔<br>مـیں نے انتہائی آرام سے اندر ڈالا۔ وہ ذرا سے کراہی اور مجھے تھام لیـا مگر کل کی طرح چیخی نہیں۔ مـیں نے آہستہ آہستہ پورا لن اندر ڈال دیـا۔<br>جب پورا اندر چلا گیـا تو مـیں پوچھا: درد تو نہیں ہو رہا؟<br>وہ بولی: نہیں مگر پلیز آرام سے ہلانا<br>مـیں بالکل آرام سے لن اندر باہر کرنے لگا۔ تھوڑی دیر مـیں اسی طرح اس کو آرام آرام سے چودتا رہا۔ پھر مـیں نے اپنی رفتار ہلکی سی تیز کر دی.<br>اب وہ آنکھیں مـیچے گہری سانسیں لینے لگی۔ کبھی کبھی وہ اپنی کنٹ کو ٹانگوں کی مدد سے لیتی مگر جب مـیں دو چار زور سے جھٹکے دیتا تو وہ پھر ڈھیلی ہو جاتی۔<br>اب مـیں چھوٹنے کے قریب تھا۔ مـیں لن نکال لیـا۔لن کو ذرا ذرا سا ھاتھ سے تھام کر اس کی کنٹ سے ٹکرانے لگا۔<br>دو منٹ بعد جب مـیں ذرا نارمل ہو گیـا تو مـیں نے دوبارہ ڈال دیـا۔ وہ پھرمسائی۔: فیصل ڈالتے وقت درد ہوتا ہے۔<br>مـیں نے کہا: بس جاں آخری بار ہے۔<br>اب مـیں نے اس کی ٹانگیں ہوا مـیں اٹھا لیں اور پوری طاقت سے اسے چودنے لگا۔ وہ چلا اٹھی: فیسب پلیز مجھے اس طرح درد ہوتا ہے۔<br>مگر مـیں اپنے آکری جھٹکے زرزدار لگانا چاہتا تھا۔مـیں اس کے اوپر اس طرح لیٹ گیـا کے اس کے دونوں پیر مـیری کمرپر تھی۔ مـیں نے اس کے ہونٹوں کو چوما اور اس کو بےدردی سے چودنے لگا۔<br>اس نے بھی واویلا بند کر دیـا اور مجھے کہ پکڑ لیـا۔<br>اگلے 3 منٹ مـیں فارغ ہو گیـا۔<br>مـیں نے کنڈوم اتارا۔ ٹشو سے لن صاف کیـا اور کپڑے پہں کے باتھ روم چلا گیـا۔<br>باتھ سے واپس آیـا تو ہکا بکا رہ گیـا۔ کمرے مـیں اس کی کزن نائلہ کھڑی تھی اور اس کے ھاتھ مـیں مـیرا والٹ اور کنڈوم کا خالی ریپر تھا۔ باقی دو کنڈوم بھی بیڈ پر پڑے تھے۔ سارا رو رہی تھی۔اس نے دونوں چیر بیڈ پر پھینک دیں۔<br>اس نے مجھے کچھ نہیں کہا اور کمرے سے نکل گئی۔</span></span></b></div><div> </div><div> </div><div> </div><b><span><span>مـیں نے سارا کو وہیں چھوڑا اور ہال آ گیـا۔<br>ہال آ کر مـیں کافی پریشان رہا۔ شادی کی جو خوشی تھی اب وہ غم مـیں بدل گئی تھی۔<br>تھوڑی دیر بعد سارا اور نائلہ بھی مجھے دکھائی دے گئیں۔<br>سارا کا اترا ہوا چہرا مجھے دور سے دکھائی دے رہا تھا۔<br>مـیں نے نائلہ کے سامنے جانے سے گریز کیـا۔ شادی کافنکشن صبح کے تین بجے تک چلا۔<br>مـیں بھی ایک کمرے مـیں آ کر سو گیـا۔ تھوڑی دیرمـیں روشنی ہو گئی مگر سب گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے تھے۔ مـیں باہر آ گیـا۔ قریب ہی ایک پارک تھا وہاں جا بیٹھا وہیں چائے پی۔ 7 بجے کے قریب مـیں واپس آیـا تو گھر مـیں ہلکی سی چہل پہل تھی جو صرف ان کی تھی جو بچوں والی خواتیں تھیں یـا کام کرنے والی۔ مجھے ایک بار پھر چائے مل گئی۔ اتنے مـیں سارا کچن مـیں آئی۔مـیں اس کو دیکھ کر کھل اٹھا، کیونکہ وہی مجھے اصل صورتحال بتا سکتی تھی۔ اس نے منہ ھاتھ دھو کر چائے لی اور مجھے اشارے سے تسلی دی کہ مـیں ذرا علیحدگی مـیں ملتی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچن سے اٹھ کر اوپر چھت پر گئی۔ جاتے جاتے مـیری طرف دیکھا تو مـیں اس کا اشارہ سمجھ گیـا۔ مـیں بھی آرام سے اس کے پیچھے چل دیـا۔<br>چھت پر آتے ہی مـیرے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اصل بات کی طرف آ گئی۔.<br>نائلہ نے کل مـیرا اس کو آنکھوں مـیں اشارہ بازی کرتے دیکھ لیـا تو اس نے سارا کو کریدا۔ سارا کی پریشانی دیکھ کر وہ مشکوک ہو گئی۔ پھر جب ہم دونوں غائب ہو گئے تو اسے مزید شک ہوا۔ نورین سے اسے پتہ چل گیـا کہ ہم دونوں گھر گئے ہیں۔ اسی اثناء مـیں اس نےی کو بڑی مشکل سے گھر جانے کو راضی کیـا اور گھر آ گئی۔ آنے مـیں چونکہ وقت لگا اس لئے جب وہ پہنچی تو ہم اپنا کام پورا کر چکے تھے اور ہم دونوں کپڑے بھی پہن چکے تھے۔ مگر بیڈ پر کنڈوم کا ریپر، مـیرا والٹ اور دو نئے کنڈوم دیکھ کر وہ سب سمجھ گئی۔اس نے مجھے تو کچھ نہیں کہا مگر سارا کو مارا اور اسے دھمکی دی کہ وہ یہ بات سب کو بتا دے گی۔<br>مـیں یہ سب سن کر پریشان ہو گیـا مگر پھر بھی کچھ حوصلہ تھا۔ مـیں نے سارا کو تسلی دی اور سونے کو کہا۔ وہ مـیرے گلے لگی مـیرے ہونٹوں کو چوم کر چلی گئی۔ مـیں باہر دھوپ مـیں اخبار پڑھنے لگا۔ مجھے نیند نہیں آ سکتی تھی کیونکہ یہ ہم پنجابیوں کو بیماری ہے کہ ہم سورج نکلنے کے بعد نہیں سو سکتے۔<br>مجھے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ سارا پھر آ گئی۔مـیرے پاس آ کر بولی: نائلہ باجی والوں کے گھر سٹور ہے وہاں آئیں۔<br>مـیں چپ چاپ ان کے سٹور مـیں چلا گیـا۔ سٹور مـیں کافی کاٹھ کباڑ بکھرا ہوا تھا اور اس مـیں ایک بڑی لکڑی کی پیٹی پیچھے دیوار کے ساتھ تھی۔ پیٹی کے اندر ایک پرانا روئی کا گدا پڑا ہوا تھا۔پیٹی اور دروازے کے درمـیان کچھ فالتو سامان،ایک مـیز اور ایک خراب فریج تھا۔<br>مـیں سٹور مـیں داخل ہوا تو اس نے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا لی۔ مجھے پیٹی کے پاس لے آئی اور مـیرے گلے لگ کے بولی: کل ولیمے کے بعد آپ چلے جائیں گے، مـیں آج آخری بار آپ کے ساتھ پیـار کرنا چاہتی ہوں۔<br>مـیں مسکرا دیـا، یہی وہ لڑکی تھی جہ کل چدوانے کو راضی نہیں تھی آج خود جگہ ڈھونڈ کر چدوانا چاہتی ہے،وہ بھی ان حالات مـیں کے ہم رنگے ھاتھوں پکڑے جا چکے ہیں۔ عورت کو سمجھنا مرد کے بس کی بات نہیں۔<br>مـیں نے کہا: ٹھہرو مـیں کنڈوم لے آؤں۔<br>وہ بولی: مـیرے پاس ہے۔<br>اس نے کل والے دونوں کنڈوم مجھے دے دئیے۔عورت جب چدوانا چاہے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتی ہے۔<br>مـیں نے اسے پیٹی مـیں لٹایـا اور اپنی پینٹ گھٹنوں تک اتار کر کنڈوم پہنا۔<br>اس نے اپنی شلوار اتار دی اور قمـیضاوپر کر دی۔اس نے نیچے برا بھی نہیں پہنا تھا۔ مـیں اس کے اوپر لیٹ گیـا اور اس کی گیلی کنٹ پر لن رگڑنے لگا۔<br>مـیں نے اس کے ہونٹوں کو چوما تو وہ بھی اپنی زبان کا استعمال کرنے لگی۔ پھر مـین نے اسکے مموں چوسنے شروع کر دئیے۔ کچھ دیر بعد جب مـیں ڈالنے لگا تو وہ بولی: آج مـیں خود ڈالوں؟<br>مـیں اس کے اوپر سے ہٹ گیـا اور اسے اپنے اوپر لے آیـا۔ اس نے دو تیں مرتبہ کوشش کی آخر کار ڈال لیـا۔ اس نے ہونٹوں سے ایک لطف بھری سسکاری بھری۔<br>مـین نے اسکی ٹانگیں کھول رکھی تھیں مگر وہ صحیح طرح سے ہل نہیں پا رہی تھی۔ ویسے بھی جگہ بہت تنگ تھی۔<br>ًمـیں اسے باہر نکلنا کو کہا۔<br>مـیں اسے ننگے فرش پر لٹا کر چودنے لگا۔مـیں نے سارا سے پوچھا: درد ہو رہا ہے ؟<br>وہ بولی: نہیں اب مزا زیـادہ آ رہا ہے۔ اب پلیز کرتے رہیں۔ درد کی فکر نہ کریں۔<br>مـیں آج ساری اگل پچھلیر نکال دینا چاہتا تھا۔ اس لئے جب مجھے لگا کہ اب مـیں چھوٹنے کے قریب ہوں تو مـیں لن نکال لیـا۔<br>سارا کو کہا : اسے منہ مـیں لیکر چوسو۔<br>وہ بولی: مگر یہ تو گندہ ہو گیـا ہے، وہ وہاں سے نکالا ہے آپ نے۔<br>مـیں نے کنڈوم اتار دیـا ، لن ذرا ذرا سا گیلا تھا۔<br>مـیں نے کہا: لو آب چوسو۔<br>پہلے زبان اسکی ٹوپی پر پھیرو پھر آرام سے اپنے منہ مـیں لے کر چوسو۔<br>وہ کوشش کرنے لگی، اگلے ایک منٹ مـیں وہ صحیح طرح چوسنے لگی۔<br>2-3 منٹ بعد بولی: کچھ عجیب سا ٹیسٹ آ رہا ہے۔<br>مـیں نے کہا: بس کرو۔<br>نیـا کنڈوم چڑھایـا اور دوبارہ اس کی چوت مـیں ڈال دیـا۔اسے دیوار کے ساتھ لگا دیـا اور اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ دی۔<br>اس طرح 5 منٹ تک چودا۔ اس پوزیشن مـیں مـیں تھک گیـا۔<br>مجھے ایک مـیز اور ایک چوکی نظر آ گئی۔<br>مـیں نے اسے چوکی پر کھڑا دیـا اور مـیز پر الٹا لٹا دیـا۔اس کی قمـیض بھی اتار دی اور اسکی گانڈ کے بیچ مـیں سے لن اسکی کنٹ مـیں ڈال دیـا۔ ایک ھاتھ سے اسکی کمر کو تھاما اور دوسرا ھاتھ نیچے اسکی کنٹ کے ہونٹوں پر رکھا۔ اب مـیں ایک ھاتھ سے اس کی چوت کو مسلنے لگا اور تیزی سے اسے چودنے لگا۔ اس دہرے مزے سے وہ بے حال ہو گئی اور پوری طرح سے اونچی آواز مـیں آہیں بھرنے لگی۔<br>آہ آہ آہ آآآہ ہ ہ آہ آ آ آ آ آ<br>اس وقت کوئی بھی اسے یوں چدواتے دیکھ لیتا تو ہر گز اسکی عمر اور یہ بات نہ مانتا کہ یہ کل تک کنوری تھی۔<br>آج مـیری سیپوزیشن کے باعث مـیں اسے بہت دیر تک چودتا رہا وہ اب تھک چکی تھی تو مـیں نے سیدھا کر کے اسکی ٹانگیں اپنے کندھون پر رکھ لیں۔ اگلے 5 منٹ مـیں مـیں بھی چھوٹ گیـا۔<br>ہم نے کپڑے پہنے اور آرام سے آ کر لان مـیں بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔<br>اس نے باتوں مـیں مجھے بتا دیـا کے وہ چھوٹی عمر سے جان گئی تھی کہ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے، مگر اس کا کوئی پوائے فرینڈ نہیں تھا۔ سکول بھی صرف لڑکیوں کا تھا اور امـی کہیں آکیلے آنے جانے بھی نہیں دیتی تھیں۔<br><br>شوق سے زیـادہ تجسس تھا کہ آ خر فلموں مـیں لڑکی ایسے مزے کیسی لیتی ہے اور بعض دفعہ زبردستی چودنے سے روتی ہے اور مر جاتی ہے۔مگر اس کا کوئی پوائے فرینڈ نہیں تھا۔ سکول بھی صرف لڑکیوں کا تھا اور امـی کہیں آکیلے آنے جانے بھی نہیں دیتی تھیں۔<br>وہ ہر گز نہ چدواتی اگر کل مـیں اسکی چوت کو نہ سہلاتا۔ جب اسکی چوت کو ھاتھ لگا تو اسے اندازہ ہو گیـا کہ جب چھونے سے اتنا مزا آ سکتا ہے تو نیچے لیٹ کر مرد کے لن کا کتنا مزا ہو گا۔<br>دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کی سہیلیوں مـیں سے کئی چدوا چکی تھیں اور اس مزے کے قصے سناتی تھیں۔سو دراصل اس کو مـیں نے نہیں اس کی سہیلیوں کے قصوں اور فلمـی سینوں نے چدوایـا تھا۔<br><br>وہ بار بار کہتی رہی آج مـیں پوری طرح سے بالغ عورت بن گئی ہوں۔<br>جس مزے کے لئے لڑکیـاں ترستی ہیں وہ آج مـیں نے لے لیـا ہے۔لڑکیـاں بڑی شو مارتی ہیں کہ ہم نے سیکیـا ہی، ہمارا بوائے فرینڈ ہے، مـیری سیل کھولی تو مـیں نے درد کے باوجود برداشت کیـا۔ آج مـیں بھی کہہ سکتی ہوں۔<br>فیصل مـیری اس جگہ مـیں اتنا مزا آیـا نہ کہ کیـا بتاؤں۔<br>بہت سی باتیں مجھے نائلہ کے بارے مـیں پتہ چلیں جیسے وہ بھی کوئی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔ اسکے معاشقے بھی بہت عام ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس بات کی تہہ مـیں پہنچ گئی۔ کنڈوم دیکھ کر سب سمجھ گئی۔<br>اس غیرمتوقع چدائی نے مجھے ہلکا پھلکا کر دیـا۔ اب مـیرا دماغ ٹھیک طرح سے کام کر رہا تھا۔ مجھے نائلہ سے بچنے کے لئے اسکی کوئی کمزوری ڈھونڈنی تھی اور یہ کام سارا بخوبی کر سکتی تھی۔<br>مـیری پیـاس بجھ چکی تھی سارا مـیں اب مـیرے لئے کوئی کشش باقی نہیں تھی، مـیرے لئے بس وہ ایک آپشن سے زیـادہ نہ تھی۔ اب اگر وہ دیتی یـا نہ دیتی مجھے فرق نہیں پڑتا۔ مـیں اسی جزبے سے سوچنے لگا۔<br>پہلے دن مـیں یہ سوچ کے نہیں آیـا تھا کہ یہاں چودنے کو ملے گا۔ مگر اب سارا کے بعد مـیں اسی رخ پر سب لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا۔<br><br>ہم اسی طرح باتیں کرتے رہے۔ دس بجے مـیں نہانے چل دیـا اور واپسی پر ناشتہ کیـا۔<br>وہ سونے چلی گئی اور یہ یقین دھانی کروا گئی کے وہ موقع کی تاک مـیں رہے گی۔</span></span></b>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com4tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-71849238016635772152015-01-28T11:02:00.000-08:002015-01-28T11:02:00.656-08:00

گروپ مـیٹ کو چودا

<a name='more'></a>مـیرا نام عامر ہے مـیں کراچی یونیورسٹی مـیں پڑھتا ہوں،ام بی اے کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ ایک دفہ کا ہمارا پروگرام گروپ اسٹڈی کا بنا تھا نائٹ سٹے کا، مـیری فرنڈ کے گھر مگر ایک لڑکے نے ٹوپی دے دی اور پورا پروگرام کی واٹ لگ گئی مگر مـیرا تو فائدہ ہوا کیوں کہ مـیں افس سے ڈائڑکٹ پہنچنا تھا۔ مـیں جب پھنچا تو وہاں پتا چلا کہ سب نے ٹوپی کر دی ہے اور مـیں پاگل کی طرح وہاں ٹائم پر پھنچ گیـا ہوں۔ خیر جو ھوا اچھا ہی ھوا ۔<br>مـیں نے اسے کہا کہ چلو مـیں بھی چلتا ہوں ، تو اس نے منع کیـا اور کہا کہ کرا چی کے ھالا ت کا بھروسا نہیں تم ینہں رک جاؤ صبح کو چلے جانا مـیں نے بھی سوچا کہ چلو اچھا ہے تھوڑی بہت امتہانات کی تیـاری بھی ہو جائے گی۔<br>کھانا کھا کر مـیں چھت پر جا کر بیٹھ گیـا اور اپنی بک سے تیـاری کر رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ چھت پر اپنا رجسٹر لے کر ائی اور مـیتھ کی پڑیکٹس کرنے لگی اس وقت سردی سے مـیری تو جان نکل رہی تھی اور اس ظالم کو پتا بھی نہہں تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد مـیرے مرنے سے پہلے جب اسے احساس ہومجھے سردی لگ رہی ہے پھر اپنے گیسٹ روم مـیں لے گئی اور مـیں نیچے فرش پر بیٹھے ڑیڈنگ کر رھا تھا اور وہ صوفہ پر بیٹھ کر مـیتھ کی پڑکٹس کر رھی تھی۔<br>اسے دیکھ کر مجھے خواری چڑھ رھی تھی کیو کہ اس کی نائٹ ڈریس بھت پتلی تھی، مجھ سے رھا نہ گیـا مـیں مـیتھ مـیں اس کی مدد کرنے کے بھانے اس کے ساتھ مستی مذاک کرنے لگا اور بات بات پر اس کی ٹانگ پر ھاتھ مارتا، مـیں نے اس کی تعریف کرنا شروع کردی کے تم بہت ی ہو اور بہت خوبصورت ہواور مـیتھ سے اسے رومانس کے ٹوپک پر لے ایـا اور اسے رومانس کی باتیں کرنے لگا اہستا اہستا اسکی ٹانگوں پر اور اسکی کمر پر ھاتھ لگانے لگا اور اس کو خوار کرنا شروع کردیـا پھر مـیں نے اس کی کمر پر ھاتھ لگاتے لگاتے اس کے مموں کو ھلکا ھلکا ھاتھ لگانا شروع کردیـا اور صوفہ پر اس کو لٹا کر اسے مساج کرنے لگااور کے پیٹھ، ممے، ٹانگوں پر ھاتھ لگا رھا تھا پھر اسے خوا کرنے کے لے اس کی چوت پر ھاتھ لگانا شروع کردیـا اور اسے فل گرم کر رھا تھا، پھر اس کی شلوار مـیں ھاتھا ڈال کر اس کی چوت مـیں ہاتھ لگا رھا تھا ۔<br>جب مـیں نے دیکھا کہ وہ فل گرم ھو چکی ھے تو اسےنگ کرنا شروع کردی اور اس کی چوت مـیں انگل ڈالنے لگا پھر اسکے اوپر لیٹ کر اس کی گردن پرنگ کرنا شروع کردی اور اس کے اوپر لیٹے لیٹے اپنی پینٹ کا بیلٹ کھولا ۔ وہ بھی فل گرم ہو کر مجھے گردن پر اور مجھے ہونٹوں پرنگ کر رہی تھی۔ جب مـیں اسے چودنے لگا تو اس نے منع کیـا کہ مـیرے پیڑیڈ چل رہے ہیں مـیں نے اسے گانڈ مـیں ڈالنے کے لیے فورس کیـا مگر اس نے اجازت نہیں دی ، خیر کوئی بات نہیں پر اس کی چوت کی انڈر ویئر کے اوپر مـیرا لنڈ تھا اور اسےنگ کرتے کرتے اس کی منی نکل گئی پھر مـیری منی بھی اس کے پیٹھ پر چھوٹ گئی اور اس کے بعد سے ہم تقریباٌ مہینے یـا دو مہینے مـیں نایئٹ سٹدی کا پروگرام بناتے ہیں۔

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-78180579269187422442015-01-28T07:58:00.000-08:002015-01-28T07:58:00.315-08:00

سہاگ رات کی چدائی کی داستان

<a name='more'></a>مـیرا نام ناجیہ ہے اور یہ مـیری شادی کی رات یعنی سوہاگ رات کی کہانی ہے- مـیری عمر اسوقت 28 سال تھی اور مـیرے شوہر کا نام عادل ہے اور انکی عمر 33 سال تھی- مـیری شادی بہت مشکل سے ہوئی تھی اور مـیں نے آج تک کبھی نہیں کیـا تھا- مـیرا رنگ گورا چھوٹا ی فیر والا قد چھوٹے ممے اور باہر کو نکلی گانڈ تھا- مـیرے شوہر لمبے اور تگڑے ہیں- خیر شادی کی رات تھی اور جب ساری رسم ختم ہوئی اور مجھے کمرے مـیں لایـا گیـا جہاں مـیں آج عورت بننے ولی تھی دولھن کے جوڑے مـیں بستر پر بٹھا کر چلے گئے اور پورا کمرہ گالب کے بھولوں سے پھرا ہوا تھا-<br>خوشبو آرہی تھی کمرے مـیں بہت زیـادہ مـیں تھک چکی تھی اتنے مـیں مـیری نند مـیرے پاس آئ اور کہا آپکی امـی کا فون ہے- امـی نے مجھے بتایـا کہ آج مجھے طرح سے اپنے شوہر کو خوش کرنا ہے کہ وہ ہمـیشہ کے لیئے مـیرا ہو جائے اور اب سب مـیرے ہاتھ مـیں ہے اور فون بند کردیـا- تھوڑی دیر بعد مـیرے شوہر کمرے مـیں آئے اور دروازہ بند کرکے مـیرے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئے اور مـیری خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے اور 1 گھنٹے کی باتوں کے بعد مـیری جھجک ختم کرنے کے لیئے مـیری گود مـیں لیٹ گئے اور مجھے گھورنے لگے اور مـیں انکا سر دبانے لگی- انہوں نے مجھ سے کہا کہ آو کپڑے بدل لیتے ہیں اور تمہیں آج خود پر قابو رکھنا ہو گا بہت- اور مجھے اپنی گود مـیں بٹھا لیـا-<br>پھر مـیرے سامنے اپنے کپڑے اتار کر دھوتی پہن لی اور مـیرے اپنے ہاتھوں سے اترنے لگے اور مجھے اپنی باہوں مـیں دبا لیـا- 10 منٹ بعد مـیرے سارے کپڑے اور زیور اتار کر بیڈ پر مـیرے ساتھ بیٹھ گئے مجھے بہت شرم آرہی تھی اور مـیں نے اپنے بوبز کو اپنے ہاتھوں سے چھپایـا ہوا تھا اور مـیری آنکھیں بند تھیں- کمرے کی لائٹ بند کرکے انھوں نے مجھے اپنی باہوں مـیں بھر لیـا اور مـیرے ہونٹ کا رس پینے لگے اور اپنی دھتی اتار کر اپنا والا مـیرا ہاتھ مـیں تھما کر بولے اسکو سہلاو مالش کی طرح اور مجھ سے لپٹ گئے اور مـیرے اوپر لیٹ گئے- انکا بہت بڑا اور بہت موٹا تھا اور مـیں نے پہلی باری کا دیکھا تھا اور پکڑتے ہی اجیب سی بجلی ڈوڑنے لگی اور مـیں اسکو مسلنے لگی-<br>وہ مـیرے پورے بدن کو چوم رہے تھے اور مـیں ہر پر بجلی کا چھٹکا محسوس کر رہی تھی- مـیں آدھی مست ہو چکی تھی انکے جسم کی گرمـی مـیں اور وہ کہہ رہے تھے کہ واہ کیـا خوبصورت ہو تم اور پھر مـیری چوت مـیں اپنی انگلی رگڑنے لگے اور مـیں آہ ہ ہ ہ س س س کرنے لگی تو انہوں نے مـیرے منہ پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انگلی آرام سے اندر ڈالنے لگے- مـیں پاگلوں کی طرح اپنی آنکھیں بڑی کرکے انکا اور زور سے ہاتھوں مـیں دبا لیـا- اور وہ فل گرم ہوگئے- وہ مـیرے ننگھے بدن کا بھرپور مزہ لے رہے تھے اور مـیں پگل ہورہی تھی نشے مـیں ایسا مزہ مجھے آج پہلی بار ملا تھا- اور پھر انہوں نے مـیرے بوبز دبانے اور چوسنے چروع کردیئے-<br>مـیں آہ ہ ہ ہ س س س م م م   ہ ہ ہ  کرنے لگی اور وہ 5 منٹ تک چوستے رہے- پھر انہوں نے مـیرے پورے بدن کو مزے سے زبان کے ساتھ چاٹا اور مـیری چوت چاٹنے لگے اور مـیں 10 منٹ تک چاٹتے رہے مـیں آوازیں نکال کر مزہ لے رہی تھی اور انکا سر مـیری چوت مـیں دبا رہی تھی- اور پھر انہوں نے مـیری ٹانگیں کھولیں اور اپنا لنڈ کا ٹوپا مـیری ننی جوان چوت پر رکھ کر پانی سے گھیلا کیـا اور ہلکا سے جھٹکا دیـا اور مـیرے منہ پر ہاتھ رکھ دیـا مگر درد سے چیخ نکل رہی تھی- مگر انہوں نے اپنے ہاتھ مـیرے بغل سے گزار کر مـیرے کندھے پکڑ لیئے اور مـیرے منہ پر اپنے ہونٹ رکھ کر ایک اور دھکا مارا ور آدھا اندر گھس گیـا اور مـیں م م م م  کرکے آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے انکا بہت موٹا تھا اور مـیری ٹانگیں اوپر کو سیدھی اٹھ گئیں- اور مـیرے ہونٹ چوسنے لگے اور 2 منٹ بعد انھوں نے تھوڑا سا ہلایـا اور ایک آخری جھٹکا مارا اور پورا اندر گھسا دیـا اور مـیرے ہاتھ زور سے بستر پر لگے اور چادر کھینچ لی  آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی چینخ اور رونےلگی تو انھوں نے مجھے پیـار کرنا شروع کردیـا اور کہا بس ہوگیـا مـیری لالی-<br>پھر 5 منٹ تک ایسے ہی رہے اور انھوں نے باہر نکال کر جب اندر ڈالا تو مجھے مزہ آنے لگا اور مـیں نے ہاتھ انکی کمر پر رکھ لیئے اور وہ زور دار جھٹکے مارنے لگے اور مـیں درد والے مزے لینے لگی اور 15 منٹ تک وہ مجھے اسی طرح چودتے رہے اور مـیں انکا موٹا لمبا لنڈ لے کر مزے سے اپنی گانڈ ہلا رہی تھی- اس دوران مـیں فارغ ہو چکی تھی اور وہ بھی فارغ ہونے لگے اور انھوں نے اپنی مٹھ مـیری چوت کہ اب گڑھا بن چکی تھی انکے موٹے لنڈ کی وجہ سے اس مـیں بچہ دانی مـیں گرادی اور مـیری ٹانگیں سیدھی نہیں ہو رہی تھی اور وہ مـیرے اوپر ہی لیٹ گئے اور چادر خون سے لت پت تھی اور مـیں بھی انسے لپٹے ہوئے سو گئی- اور انکا لنڈ مـیری چوت مـیں ہی تھا-<br>رات مـیں ایک اور بار وہ مـیرے اندر فارغ ہوئے اور مـیں بھی مگر انکو نیند مـیں نہ پتہ لگا صبح کوئی 10 بجے اٹھے اور انھوں نے مجھے اپنی گود مـیں بٹھا کر نہلایـا اور پھر وہ مجھے روز پیـار کرنے لگے اور اب مجھے اپنا چسواتے بھی ہیں اور مـیرے منہ مـیں بھی ریلیز کرتے ہیں-

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com16tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-37896296434611024542015-01-28T04:54:00.000-08:002015-01-28T04:54:00.304-08:00

منگیتر کی چدائی

<a name='more'></a>ہمارا تعلق اردو اسپیکنگ گھرانے سے ہے اور ہم کراچی مـیں رہتے ہیں- ہی کہانی مـیری اور مـیری کزن کی ہے جسکو مـیں بچپن سے پیـار کرتا تھا- اور کچھ عرصہ قبل ہماری منگنی ہوئی تھی- ہمـیں ہر چیز کی فل آزادی تھی کیونکہ ہمارا تعلق ایک موڈرن گھرانے سے ہے اسلیئے مجھے اور کزن کو ایک دوسرے سے ملنے پر کوئی مسلہ نہیں تھا وہ ہمارے گھر سے تھوڑا آگے ہی رہتی تھی- یہ ان دنوں کی بات ہے جب مـیں ماسٹرز کرکے فارغ ہوا تھا اور جاب تلاش کر رہا تھا تو اکثر مـیری کزن ہمارے گھر آتی تھی اور مجھ سے ٹینشن مـیں آکر کہتی تھی کہ جلدی سے جاب پہ لگو اور مجھ سے شادی کر کے مجھے پانا بنا لو اور نہیں رہ سکتی اب مـیں-<br>ہم دونوں نے سوائےنگ کے اور کچھ نہیں کیـا تھا کبھی- ایک دفعہ مـیں اکیلا گھر مـیں بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا مـیرے گھر والےی پارٹی مـیں گئے ہوئے تھے اور رات کو دیر سے واپس آنا تھا- تو اسلیئے مـیری کزن جس کا نام فزہ ہے اور اسکی امـی کو رکوا کر چلے گئے- فزہ کمرے مـیں آئی اور کہا کہ امـی سونے چلی گئی ہیں اور مـیں اکیلی ہو اور مـیرے ساتھ بیٹھ گئی- مـیں نے اسکو اپنے بازو مـیں لٹا لیـا اور کرکے ہم فلم دیکھنے لگے- وہ بہت پیـاری تھی 30-26-32 کا فیگر تھا نارمل ممے اور گول ہونٹ تھے- مـیں نے اس دوران اسکو کی اور اچانک مجھے خواری چڑھنے لگی تو مـیں نے اسکے بوبز دبائے اور اس سے لپٹ گیـا- وہ شرمانے لگی اور کہنے لگی کوئی آجائے گا اور ابھی نہیں شادی کے بعد۔<br>مـیں نے کہا کہ کچھ دنوں مـیں ایک دوسرے کے ہمسفر بن جایئں گے اسلیئے ڈرو مت تو اسکی ہمت بڑھی اور مـیں اسسے لپٹ کر دبارہ اسکے بوبز دبانے گا اور اسکے نپلز کھڑے ہونے لگا- مـیرا لنڈ تو ٹائٹ ہو چکا تھا اور ہم کافی گرم ہو رہے تھے اورنگ کر رہے تھے فرینچ والی- مـیں اوپر سے اسکے بدن پر ہاتھ پھیرنے لگا اور اسکے اوپر لیٹ گیـا تو وہ بھی مست ہونے لگی- مـیں نے اپنی شڑٹ اتاری اور اسکی کمـیز اتار دی اسنے اندر برا نہیں پہنی تھی اور کیـا بتاوں وہ کتی چکنی اور دودھ گوری تھی اندر سے اور اور مموں پر ہاتھ رکھ کر شرمانے لگی- اور مـیں نے اسکے ہاتھوں کو کھینچ کر اپنی باہوں مـیں دبایـا اور اسکی چاتی سے چوستا ہوا اسکے ممے چوسنے لگا- اسنے کہا بہت اجیب لگ رہا ہے اور جیسے ہی منہ مـیں ممے چوسنے لگا تو وہ آہ ہ ہ ہ ہ  م م م م س س س  ا ف ف ف ف  کرنے لگی اور مـیرے سے کے بال پر ہاتھ پھرنے لگی اور آنکھیں بند کر لیں-<br>ٴ<br>قریب 10 منٹ تک مـیں نے اسکو فل گرم کرنے کے لیئے اسکے ممے چوسے اور پھر اس سے لپٹ کر اسکے نرم ممے دباتا رہا وار کرتا رہا-پھر مـیں نے اپنی پینٹ اتاری اور اسکو اپنا 8 انچ لما لند دکھایـا تو اسنے دیکھ کر کہا ہاں اتنا بڑا اور مـیں نے اسکا ہاتھ اپنے لنڈ پر رکھ دیـا اور سہلانے لگا اسنے کہا تمہارا تو فلم والوں سے بھی زیـادہ پیـارا ہے- اور اسے چومنے لگی تو مجھے تو اور ٹھرک چڑھنے لگی اور مـیں نے کہا چوسو اور اسکے منہ مـیں ڈال دیـا- وہ بڑی مشکل سے مگر مزے سے اسکو چوس رہی تھی اور مـیری بھی آنکھیں بند ہونے لگی 3 منٹ بعد مـیں نے اسکی شلوار اتار دی اور اسکی گھیلی چکنی ورجن چوت مـیرے سامنے تھی اور مـیں نے اسکو اپنی انگلی سے سہلانا شروع کردیـا اور اسکے ہونٹ چومنے لگا- وہ تو م م م  کر رہی تھی اور مجھے اور اپنے اندر دبوچ رہی تھی-<br>مـیں نے انگلی اسکی چوت مـیں ڈالی تو اسنے درد کی وجہ سے تھوڑی اوپر کی اور پھر ہلانے لگی اور مـیں اندر باہر کرنے لگا- پھر 5 منٹ بعد اسکی چوت کو 2 منٹ تک چاٹا اور وہ کہنے لگی کہ اندر ڈالو اب ورنہ مـیں مر جاوگی پلیز ہ ہ ہ ہ- تو مـیں نے اسکی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھا اور اسکی ٹانگیں کھول کر اس سے لپٹ گیـا اور کہا جان مجھے ٹائٹ پکڑلو مـیں کرو گا اور درد ہو تو مـیرے ہونٹوں کو چمنے لگ جانا- اسنے مجھے جکڑ لیـا اور مـیں نے نیچے سے لنڈ کی ٹوپی کو چوت پر سیٹ کیـا اور تھوڑا اندر دھکیلا تو اسکی آہ ہہ ہ  نکلی اور اسنے کہا نہیں کرو ابھی پھر مـیں نے ایک اور چھٹکا مارا اور اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے-<br>اسنے مجھے زور سے پکڑ لیـا ور مـیری گردن چاٹنے لگی اور مـیں نے ایک اور دھکا مارا تو لنڈ اندر تھا پورا چوت مـیں اور 2 منٹ رکھنے کے بعد اندر باہر کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد وہ بھی مزے لینے لگی اور مـیں اسکے ممے بھی چوسنے لگا-اور 15 منٹ کی چدائی کے بعد ہم دونوں فارغٍ ہوئے اور مـیں نے اپنی مٹھ اسکی چوت کے بوہر نکالی اسکی چوت سے خون نکل رہا تھا تھوڑا سا- پھر مـیں نے اسکو اپنی گود مـیں اٹھایـا اور باتھ روم لے جاکر ہم نے ساتھ شاور کیـا اور پھر کپڑے پہن کر وہ کمرے سے چلی گئی اور 1 مہینے بعد ہماری شادی ہوگئی-

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-44936330949138294722015-01-28T01:50:00.000-08:002015-01-28T01:50:00.429-08:00

ورجن لڑکی کی گانڈ ماری

<a name='more'></a><div>اردو سیـاسٹوڑی کے تھرکیوں کو مـیرے طرف سے خوش آمدید۔</div><div>مـیرا نام سوہیل ہے مـیں اس وقت کراچی مـیں پڑہائی کے سلسلے مـیں آیـا ہوا ہوں، اور کراچی یونیورسٹی مـیں انفامـیشن سائینس کا اسٹوڈینٹ ھوں، مـیری کلاس مـیں ایک لڑکی مجھے بہت پسند تھی، اور مـیں جب بھی اسے دیکھتا تھا خوار ھو جاتا تھا، مگر وہ مجھے زیـادہ لفٹ نہیں کرا تی تھی۔</div><div>ایک دن مـیں کلاس مـیں جا کر اس کے پاس بیٹھ گیـا اور فایئنل پڑوجیکٹ کے بارے مـیں بات کرنا شروع کردی، اور اسی ٹوپک پر ڈ کر رھے تھے اور پھر کلاس شروع ہوئی اور بس اسٹدی شروع، کلاس کے دوران اس نے مجھے اشارہ کیـا اور بھار نکل گئی مـیں بھی اس کے پیجھے چلدیـا۔</div><div>وہ ارٹس ڈیپارٹمـینٹ کے پیجھے والے واشروم مـیں گئی اور مـیں بھی اس کے پیجھے پیجھے واشروم کے پاس جا کر کھڑا ہوگیـا اس نے مجھے واشروم کے اندر بلایـا اور مجھ سے کھنے لگی کے مـیرا برا سیٹ کردو، اب مـیں تو فل ٹائم پھٹ رہی تھی کہ ایک تو لیڈیز باتھ روم اوپر سے لڑکی کا برا چیک کر رھا ھوں۔</div><div>پر مـیں بھی ڈھیٹ کی طرح اس کا برا صحیح کرنے لگا اور اس کا برا صحیح کرتے کرتے مجھے تو فل ٹائم خورای چڑھ رھی تھی کیو کہ مـیں تو پھلے سے ہی اس لڑکی کے پیجھے خوار تھا، مـیں نے ایک ھاتھ سے برا صھیح کیـا اور دوسرے ھاتھ سے اس کی گانڈ پر ھاتھ لگانا شروع کردیـا۔</div><div>اب مـیں اس کی گانڈ پر ھاتھ لگا رھا تھا اور وہ اہستہ اہستہ نلکے کی طرف جھک رھی تھی اور مـیں مست ہو کر اس کی گانڈ مـیں انگلی ڈالنے لگا اور اس کی شلوار مـیں ھاتھ ڈال کر اس کی چوت پر ھاتھ لگا رھا تھا۔ پھر اہستہ اہستہ اس کی شلوار نیجے کی اور اس کی گانڈ مـیں انگلی تھوڑی اندر ڈالنا شروع کی، اور وہ مزے لے لے کر آہ آہ آہ إ کر رہی تھی۔</div><div>پھر مـیں اٹھ کر باتھروم کا دروازھ بند کیـا اور اسے جھکا کر اسکی گانڈ کے کے اوپر اپنا انگوٹھہ رکھ کر دبانا شروع کیـا کیو نکہ اس کی گانڈ کا سوراکھ پورا نہیں کھلا تھا۔ اور دوسرے ھاتھ سے اس کی چوت کی دھانی پر انگلی رکھ کر اندر باھر کرنے لگا اور اسے فل ٹائم مست کرنا شروع کردیـا۔</div><div>جب مـیں اس کی گانڈ مارنے کے لئے اپنا لنڈ اس کی گاند کے پہ رکھ کر اندر ڈالتا تو وہ انرر صحیح نہیں جا رھا تھا کیونکھ وہ گانڈ سے ورجن تھی اور ساتھ ھی ساتھ اس کی چیکہیں بڑھ رھی تھی۔ مـیں نے بھی ھار نہیں مانی اور صابن کو مل کر پھلے اس کی گانڈ پر لگا یـا پھر اسے ملنا شروع کیـا اور اسکی گانڈ پہ اپنا لنڈ رکھا اور اہستہ اہستہ اندر ڈالنا شروع کیـا اور اس    90<sup>0 </sup>پر رکھ کر کر اسکی گانڈ مـیں لنڈ پورا اندر ڈال دیـا اور وہ زور زور سے چیخنے لگی بعد کرو بھت درد ھو رھا ھے مـیں نے اس کے منہ پر اپنا ھاتھ رکھا اور اسکی گانڈ مـیں زور زور سے شاٹ مارنے لگا۔ تقریباٌ 4 منٹ تک اس کی گانڈ مـیں لنڈ تھا اور اور لنڈ نکالنے کے بعد اس کی گاند کا مـیرے لنڈ کی چوڑائی جتنا چوڑا ھو گیـا تھا۔</div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-74319205256123226172015-01-27T22:46:00.000-08:002015-01-27T22:46:00.102-08:00

مـیری کالج کی لو سٹوری

<a name='more'></a><div><b><span><span><span>یہ کہانی ہے سارہ اور سہیل کی</span></span></span></b></div><br><b><div><span><span>مـیرا نام سہیل ہے مـیں ایک سٹوڈنٹ ہوں،اور بیسٹ سٹوڈنٹ مـیں شمار ہوتا ہوں،پیپروں کے بعد ہمـیں کچھ اسائمنٹس ملے،جس مـیں رولنمبرز کے حساب سے تین لوگوں کے گروپ بنے،جن کو اس اسائمنٹ پر کام کرنا تھا،مـیرے گروپ مـیں دو لڑکیـاں تھیں عائشہ اور سارہ وہ مـیری کلاس فیلو تھیں اسلیئےان سے ہیلوہائے تو تھی ،مگر کوئی خاص فرینڈشپ نہیں تھی،خیر ہمارا ٹاپک تھا* کچی آبادیوں کے مسائل*عائشہ اور سارا مـیرے پاس آئیں اور مجھ سے پوچھا ،کیسے کام کرنا ہے،مـیں نے کہا کہ مـیں کام کر لوں گا ،باقی تم دونوں ٹائپنگ کر لینا،عائشہ تو مان گئی مگر سارا نے کہا کہ وہ مـیرے ساتھ خود جائے گی،سارا ایک خوبصورت اور پر کشش لڑکی تھی،ہم مـیں فیصلہ یہ ہوا ،کہ ہم ایک پوائنٹ پر ملیں اور وہاں سے ساتھ ساتھ چلیں،وہ اور مـیں الگ الگ بستی پہنچے اور اپنا کام شروع کیـا،لوگوں کے ویوز ریکارڈ کیئے اور نوٹس بناتے رہے،تین دن تک ہمارا کام کافی حد تک ختم ہو گیـا تو ہم یونیورسٹی واپس آ گئے،اور عائشہ کو نوٹس دیے،وہ ان کو ٹائپ کرنے لگی،اس دوران ہم مـیں کافی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی جو کہ پسندیدگی مـیں بدل گئی تھی ،اب ہم روز ملنے لگے مگر اب آہستہ آہستی مجھ مـیں اس کی طلب جاگنے لگی،اور مـیری طلب شاید اس کو بھی محسوس ہوئی ہو گی،کیونکہ مـیں اب اسے چھونے لگا تھا،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیرا نام سارا ہے مـیں ایک سٹوڈنٹ ہوں،مـیری کلاس مـیں ایک لڑکا تھا ،جو ٹاپر مـیں آتا تھا ،وہ کافی ہینڈ سم اور گڈ لکنگ تھا،سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پروفیشن کے ساتھ پوری طرح ایماندار تھا،اس کی یہ ادا مجھے بھا گئی تھی، مـیری قسمت اچھی تھی کہ مجھے اسائمنٹ اس کے ساتھ ملی،اس نے آفر کی کہ وہ آوٹ ڈور ورک خود کر لے گا ،مگر مـیں نے اس کے ساتھ جانا پسند کیـا ،اس دوران ہم ایک دوسرے کے قریب آ گئے،<br>اتنے قریب کہ مـیں اس کی آنکھوں مـیں اپنے لیئے جذبات محسوس کرنے لگی،مجھے ڈر بھی لگتا تھا مگر مـیرا دل ہر بار اس کے آگے ہار جاتا</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>ایک دن ہم لائبریری مـیں بیٹھے تھے ،وہ باٹھانے کے لیئے شیلف کی طرف گئی،اس دن وہ بہت زیـادہ خوبصورت لگ رہی تھی،شیلف زرا ہٹ کر تھی،مـیں اس کے پیچھے گیـا ،مـیری آہٹ سن کر وہ مڑی مجھے دیکھ کر وہ واپس شیلف کی طرف متوجہ ہو گئی،مـیں اس کے بلکل ساتھ جا لگا اس کے جسم سے بھینی بھینی مگر ہوش اڑانے والی خوشبو آ رہی تھی ،مـیں نے دھیرے سے اپنے دونوں ہاتھ اس کی پینٹ پر رکھے اور اس کو ساتھ لگا لیـا،وہ ایک دم رک گئی مگر کچھ نہ بولی،مـیں نے اس کی گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے،اس نےایک گہری سانس لی اور شیلف کو مظبوطی سے پکڑ لیـا،مـیں نے اس کو گردن سے چومتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے گالوں پر رکھ دیئے،تو وہ فورا مـیری طرف مڑی اس کی چھاتی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی ،اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے ،اور اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں،مـیں اپنا ہوش کھو بیٹھا</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>اس دن مـیں اپنا نیـا سلک کا سوٹ پہن کر آئی،سہیل کی نظریں مجھ پر سے نہیں ہٹ رہی تھیں،مـیں بلینے شیلف کی طرفتو سہیل مـیرے پیچھے آیـا،وہ مـیرے قریب کھڑا تھا اچانک مجھے اس کے ہاتھ اپنی پینٹ پر محسوس ہوئے،اور اس نے مجھےاپنی باہوں مـیں بھر لیـا،مـیری پوری قمر اس کے ساتھ ٹچ ہو رہی تھی،مجھے اپنی گانڈ پر اس کا لن واضح محسوس ہو رہا تھا،مـیرے جسم مـیں سے جیسے جان نکل رہے تھی،مـیں نے شیلف کو پکڑ لیـا ورنہ مـیں شاید نیچے گر جاتی اس وقت مـیں نے اپنی گردن پر اس کے ہونٹ محسوس کیئے،اس نے نرمـی سے پھر ذرا زور سے مـیری گردن پر کیـا اور پھر مـیرے گالوں کو ہونٹوں سے چوسنے کی طرح کرنے لگا،اس کے ہونٹ نرمـی سے مـیری گردن سے گالوں تک کا سفر کر رہے تھے ،ہر لمحے مـیں بے قابو ہو رہی تھی ،مـیں نے خود پر قابو پانے کے لیئے پورے جسم کو سٹریچ کیـا اس وقت وہ مـیرے گالوں تک پہنچ کیـا ،اچانک مـیری چوت سے جیسے پانی کا ایک ریلا نکلا ،مجھے اپنی رانوں سے پانی کے قطرے نیچے جاتے ہوئے محسوس ہوئے ،مـیں فورا اس کی جانب مڑی مـیرا دوپٹہ نیچے گر گیـا جوں ہی مـیں اس کی جانب مڑی اس نے مـیرے ہونٹوں کو چوم لیـا،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیں نے اس کے ہونٹوں کو پوری طاقت سے کیـا ،اور 4/5 منٹ بعد اس کے منہ مـیں اپنی زبان ڈال دی ،تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کی زبان مـیری زبان سے ٹچ ہونے لگی ،مـیرے ہاتھ اب اس کی چوت اور چوت کے درمـیاں تھے،مـیں نے اس کو شیلف کے ساتھ لگا دیـا اور اس کی ایک ٹانگ کوتھوڑا سا اٹھا کر اپنا لنڈ اس کی ٹانگوں کے بیچ مـیں گھسا دیـا ،اس کے لیئے مجھے ذرا سا نیچے ہونا پڑا اب مـیں اس کی چوٹ کو سہلا رہا تھا ،اور فرنچ کر رہا تھا ،اس کے ہلتے ہوئے بوبز مجھے اور پاگل کر رہے تھے ،اچانک مجھےی کے بولنے کی آواز آئی اور ہم فورا الگ ہو گئے،اس کو سانس چڑھ گیـا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ،اس نے اپنا دوپٹا اٹھایـا اور وہاں سے چلی گئی ، کچھ دیر بعد مـیں بھی وہاں سے باہر آ گیـا</span></span></div></b><br><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیں وہاں سے سیدھا واش روم آئی کچھ دیر تو سانس ٹھیک کرنے مـیں لگ گئی،اس کے بعد مـیں نے خود پر دھیـان دیـا ،مـیرے بال،لپ سٹک اور کپڑوں کی استری سب خراب ہو گئی تھی ،مـیں نے اپنی شلوار اتاری تو وہ کافی گیلی ہو گئی تھی ،مـیں نے ٹشو سے اپنی چوت اور شلوار صاف کی اور باہر آ گئی ،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>کچھ دیر بعد وہ مجھے نظر آئی ،مـیں بلکل پاگل ہو چکا تھا ،کالج مـیں ایک فش فارم تھا جہاں پر ایک ٹیوب ویل روم بھی تھا،جو کہ کافی آگے جا کر تھا ،جہاں دن کو کوئی نہیں جاتا تھا ،مـیں نے اسے مـیسج کر کے وہاں بلایـا ،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>باہر آئی تو سہیل کا مـیسج ملا کہ مـیں فش فارم والی سائیڈ پر آوں،مـیں جانتی تھی کہ وہاں جانے کا کیـا مطلب ہے ،مگر مـیں کچھ سوچنے سمجھنے کی پوزیشن مـیں نہیں تھی ،مـیں وہاں چلی گئی ،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>جب وہ آئی تو مـیں وہاں موجود تھا ،اس کا آنا ہی اس کی رضا مندی تھی ،وہ جونہی آئی مـیں نے اس کو بانہوں مـیں بھر لیـا ،اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا،ساتھ ہی مـیں اس کے بریسٹ کو مسلنے لگا ،مجھے معلوم تھا کہ یہ ایسی جگہ نہیں کہ جہاں سیف طریقہ سے پورا سیـانجوائے کیـا جا سکے،مگر مـیں سیکرنا چاہتا تھا ،مـیں نے اس کی قمـیض کے بٹن کھولے اورکاندھوں سے اس کی قمـیض نیچے سرکا دی<br>اس کے آف وائٹ برا کا سٹرپ بھی نیچے کر دیـا ،تھوڑا سا اور نیچے کرنے کے بعد مـیں نے ہاتھ ڈال کر اس کا لیفٹ نپل باہر نکال لیـا ،<br><div><span><span>****************************</span></span></div><span>اس نے مـیری قمـیض نیچے کر کے مـیرا نپل نکال لیـا اور اسے منہ مـیں ڈال کر چوسنے لگا ،اب وہ گردن سے نپل تک ساری جگہ وہ بار بار وہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر چوستا اورکرتا رہا ،مـیں نے اپنی زندگی مـیں اتنا مزا کبھی نہیں لیـا تھا ،اچانک اس نے اپنا بایـاں ہاتھ مـیری شلوار مـیں ڈال دیـا ،ا سکا ہاتھ مـیری چوت کو آہستہ آہستہ سے مسلنے لگا،اس نے مجھے وہاں ٹیبل پر بیٹھا دیـا اور مـیری شلوار گھٹنوں تک نیچے کر دی</span>،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیں نے اس کی شلوار آدھی اتار دی اور اس کی چوت مـیں اپنی انگلی ڈال دی ،اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے آآآہ ہ ہ کی آواز نکالی اور اپنے ہونٹوں کو کاٹنے لگی،تھوڑی سی محنت کے بعد مـیں نے اپنی پوری انگلی اس کی چوت مـیں گھسا دی ،ذرا سی دیر مـیں انگلی آسانی سے اندر باہر ہونے لگی ،اس کی سفید سی ٹانگوں کے درمـیاں گیلی گلابی سی چوت مـیری برداشت سے باہر ہو چکی تھی،مـیں نے اپنی پینٹ کی زیپ کھولی اور اپنا لن باہر نکال لیـا ،ٹیبل زیـادہ اونچی نہیں تھی اس لیئے تھوڑا سا جھکنا پڑا ،مـیں نے اپنا لن اس کی چوت پر رکھا تو اس نے زور سے ایک آہ لی،مـیری لن کی ٹوپی اس کی چوت کے پانی سے گیلی ہو چکی تھی</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>اس کا گرم گرم لن مـیری چوت کے ساتھ رگڑ کھانے لگا ،ہر رگڑ کے ساتھ مـیری چوت سے مزیز پانی نکلتا ،اس نے مـیرا پرس اتھایـا اور مـیری قمر کے نیچے رکھ دیـا ،مـیری شلوار پوری اتا ر دی مـیری قمـیض اوپر کی طرف کر دی ،اپنی پینٹ بھی آدھی اتار دی اور اپنا لن مـیری چوت مـیں آرام سے ڈالنا شروع کیـا ،مـیری چوت مـیں اتنی جگہ نہیں تھی ،مگر وہ آرام آرام سے ڈالتا رہا ،مجھے بہت درد ہونے لگا ،مـیں جو لیٹی ہوئی تھی <br>اٹھ اور اس کے گلے مـین بانہیں ڈال دیں ،اس نے مـیری ٹانگوں کو کھولا اور اوپر اٹھا کر کہا کہ ٹانگیں کھول کر رکھو مـیں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور دونوں پاوں بھی ٹیبل پر رکھ دیے اور اپنے دونوں ہاتھ سہارے کے لیئے پیچھے رکھ لیئے</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیں نے ایک ہاتھ اس کی گانڈ پر رکھا اور دوسرے سے لن اندر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا ،مـیں نے اب لن اس کی چوت پر رکھ کر ذرا سا زور لگایـا تو لن کی ٹوپی اندا چلی گئی وہ فوراا چلائی ،پپلیز نکال لو مجھے بہت درد ہو رہا ہے</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>جوں ہی لن اندر گیـا مـیری چوت کے دونوں ہونٹوں پر کھنچائو سا ہوا،اور بہت درد ہونے لگا ،اس نے مـیرے ہونٹوں پر کیـا ،اور مجھے لٹا دیـا ،مـیری ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے مـیری قمر پکڑ لی ،اور ایک جھٹکا لگا اور مـیری چیخ نکل گئی ،مـیں اپنی چوت کے اندر گرم گرم راڈ محسوس کرنے لگی ،مـیرے چلانے کی وجہ سے اس نے پندرہ سیکنڈ انتظار کیـا پھر باہر کی طرف کھینچا مگر ٹوپی اندر کی طرف ہی رہنے دی</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>اس کی چوت مـیں سے ہلکا سا خون نکلنے لگا ،جو مـیری لن کے ساتھ اور چوت کے پانی کے ساتھ مل کر مـیری رانوں پر چلا گیـا ،مـی<br>ں نے دوسری بار جھٹکا لگایـا تو اب کی بار وہ چلائی نہیں مگر اس نے مـیرا لن پکڑ لیـا اور باہر نکالنے لگی ،مـیں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیـا اور اس کو کیـا اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مجھے بہت درد ہو رہا تھا ،مگر وہ باہر نکالنے پر راضی نہیں تھا ،اس نے ذرا سا انتظار کر کے پھر جھٹکا لگایـا اس بار درد کم ہوا اور ایک عجیب سا مزا آیـا ،ہر جھٹکے کے ساتھ درد کم اور مزا زیـادہ آنے لگا ،اب وہ اور تیزی سے دھکے لگا رہا تھا ،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>لن آرام سے اندر جانے لگا تو مـیں اس کو تیزی سے چودنے لگا ،تھوڑی دیر بعد مـیں نے اس کو اٹھا کر بٹھا دیـا اور اس کے ہونٹوں اور نپلز کو کرنے لگا ،وہ بھینگ مـیں مـیرا ساتھ دینے لگی،مـیں ٹیبل پر لیٹ کر اسے زور زور سے چودنے لگا</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیرے اوپر لیٹنے کے بعد وہ بڑی تیزی سے مـیرے اندر باہر کرنے لگا ،اس طریقے سے مـیری چوت کو بہت تیزی سے رگڑ لگ رہی تھی ،پھر مجھے لگا کہ اس کے لن مـیں سے کچھ نکل رہا ہے ،جو مـیں اپنی چوت مـیں نکلتا ہوا محسوس کر رہی تھی ،وہ بے دم ہو کر مـیرے اوپر لیٹ گیـا،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیں اٹھا اور اس کو کرتے ہوئے اپنی پینٹ اوپر کی مجھے اپنی پینٹ ذرا سی گیلی محسوس ہوئی ،اس کی چوت کے پانی اور خون نے مـیری پینٹ گیلی کر دی تھی،اس نے شلوار پہن لی اور اپنے کپڑے ٹھیک کرنے لگی،پھر ہم الگ الگ وہاں سے روانہ ہوئے،</span></span></div></b><br><div><span><span>****************************</span></span></div><b><div><span><span>مـیں سیدھا گرلز ہوسٹل گئی ،کیونکہ ایک تو مجھے بہت درد ہو رہا تھا ،اور دوسرا مـیری قمـیض خراب ہو گئی تھی ، مـیں نے اپنی دوست سے کپڑے لیئے اور اپنے کپڑے پھینک کر گھر گئی،دوست کو یہ بتایـا کہ ابنارمل پیریڈ ہوئے ہیں ،یہی بات امـی کو بتائی</span></span></div></b>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-89074794550145322632015-01-27T19:42:00.000-08:002015-01-27T19:42:00.535-08:00

صدف کا ریپ

<a name='more'></a>مـیرے کہنے پر مـیری بیوی نجمہ نے ہماری زندگی کا یہ سچا واقعہ لکھا ہے جس نے ہماری ازدواجی زندگی کو خوبصورت ترین بنا دیـا۔ <br><br>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br><br><br>اس سے آگے کا واقعہ مـیری بیوی نجمہ کی زبانی۔۔۔<br>مـیری عمر تب 22 سال تھی اور ندیم 25 سال کے تھے۔ ہماری شادی کو دو سال ہونے کو آئے تھے۔ تبھی اسلام آباد کے خوبصورت مقام پر مـیرے شوہر کا تبادلہ ہوا۔ ہم دونوں ایسی جگہ پر بہت خوش تھے۔ اسلام آباد کی ہری بھری وادیوں کا پر فضا مقام اور جوان دلوں کا سنگم۔۔۔ کو نہ لبھا لے؟ ہمـیں کمپنی کی طرف سے کوئی گھر نہیں ملا تھا، اس لیے ہم نے ان کے دفتر سے تھوڑی ہی دور ایک مکان کرائے پر لے لیـا تھا۔۔۔ جس کا کرایہ ہمـیں کمپنی کی طرف سے ہی ملتا تھا۔ گھر مـیں کام کرنے کے لیے ہم نے ایک نوکرانی رکھ لی تھی۔ اس کا نام صدف تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ 16 سال ہوگی۔ چڑھتی جوانی، خوبصورت، سندر، ی فگر، گوری دودھیـا رنگت، بدن پر نو خیز جوانی کےمخروطی ابھار اور چکنا پن جھلکتا تھا۔ <br><br>ندیم تو پہلے دن سے ہی اس پر فدا تھا۔ مجھ سے اکثر وہ اس کی تعریفیں کرتا رہتا تھا۔ مـیں اس کے دل کی بات اچھی طرح سمجھتی تھی۔ ندیم کی نظریں اکثر اس کے بدن کا معائنہ کرتی رہتی تھیں۔۔۔ شاید اندر تک کا نظارا کرتی تھیں۔ اس کے ابھار چھوٹے چھوٹے مگر نکیلے تھے۔ اس کے ہونٹ پتلے لیکن پھول کی پنکھڑیوں جیسے تھے۔ مـیں بھی اس کی کچی جوانی دیکھ دیکھ کر حیران ہوتی تھی اور سوچتی تھی کہخوش قسمت ہو گا جو اسے پہلی دفعہ چودے گا۔ <br><br>ایک دن ندیم نے رات کو چدائی کے وقت مجھے اپنے دل کی بات بتا ہی دی۔ اس نے کہا "نجمہ۔۔۔ صدف کتنی ی ہے نا۔۔۔"<br><br>"ہوں۔۔۔ آں ہاں۔۔۔ ہے تو سہی۔۔۔۔۔۔ لیکن نوجوانی مـیں تو تمام لڑکیـاں اتنی ہی ی ہوتی ہیں۔۔۔" مـیں نے اسے کے کے لیے کہا گو کہ مـیں اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ <br><br>"نجمہ! اس کا بدن دیکھا ہے۔۔۔ اسے دیکھ کر تو۔۔۔ یـار من مچل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔" ندیم نے کچھ اپنا مطلب واضح کرتے ہوئے کہا۔ <br><br>"اچھا جی۔۔۔! اب یہ بھی بتا دو جانو۔۔۔ کہ جی کیـا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔؟" مـیں ہنس پڑی۔۔۔ مجھے پتا تھا وہ کیـا کہے گا۔۔۔ <br><br>"سنو نجمہ۔۔۔! اسے پٹاؤ نا۔۔۔! اسے چودنے کو دل کرتا ہے۔۔۔"<br><br>"ہائے ہائے۔۔۔ تم نوکرانی کو چودوگے۔۔۔۔۔۔ پر ہاں۔۔۔ وہ چیز تو چودنے جیسی ہی ہے۔۔۔"<br><br>"تو بولو۔۔۔ مـیری مدد کروگی نا۔۔۔"<br><br>"چلو یـار۔۔۔ تم بھی کیـا یـاد کروگے۔۔۔ کل سے ہی اسے تیـار کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔"<br><br>پھر مـیں سوچ مـیں پڑ گئی کہ کیـا طریقہ نکالا جائے۔ سیتو سبھی کی کمزوری ہوتی ہی ہے۔ مجھے ایک ترکیب سمجھ مـیں آئی۔ <br><br>دوسرے دن صدف کے آنے کا وقت ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ مـیں نے اپنے ٹی وی پر ایک بلیو اردو فلم لگا دی۔ اس فلم مـیں چدائی کے ساتھ اردو ڈائیلاگ بھی تھے۔ صدف کمرے مـیں صفائی کرنے آئی تو مـیں باتھ روم مـیں چلی گئی۔ صفائی کرنے کے لیے جیسے ہی وہ کمرے کے اندر آئی تو اس کی نظر ٹی وی پر پڑی۔۔۔ چدائی کے سین دیکھ کر وہ کھڑی رہ گئی۔ اور سین دیکھتی رہی۔ <br><br>مـیں باتھ روم سے سب دیکھ رہی تھی۔ اسے مـیرا ویڈیو پلیر نظر نہیں آیـا کیونکہ وہ لکڑی کے کیس مـیں تھا۔ وہ دھیرے دھیرے قریب پڑے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسے مووی دیکھ کر مزا آنے لگ گیـا تھا۔ چوت مـیں لنڈ جاتا دیکھ کر اسے اور بھی زیـادہ مزا آ رہا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کا ہاتھ اب اس کی چھاتیوں پر آ گیـا تھا۔۔۔ وہ گرم ہو رہی تھی۔ مـیری ترکیب کارگر ثابت ہو رہی تھی ۔ مـیں نے موقع مناسب جانا اور باتھ روم سے باہر آ گئی۔۔۔ <br><br>"ارے۔۔۔ ٹی وی پر یہ کیـا آنے لگا ہے۔۔۔"<br><br>"باجی۔۔۔ بھائی تو ہیں نہیں۔۔۔ چلنے دو نا۔۔۔ ہم ہی تو ہیں۔۔۔"<br><br>"ارے نہیں صدف۔۔۔ اسے دیکھ کر دل مـیں کچھ ہونے لگتا ہے۔۔۔" مـیں مسکرا کر بولی<br><br>مـیں نے چینل بدل دیـا۔۔۔ صدف کے دل مـیں ہلچل مچ گئی تھی۔۔۔ اس کے جوان جسم مـیں شہوت نے جنم لے لیـا تھا۔ <br><br>"باجی۔۔۔ یہ چینل سے آتا ہے۔۔۔"اس کی ہوس بڑھ رہی تھی۔ <br><br>"ارے تمہیں دیکھنا ہے نا تو دن کو فری ہو کر آنا۔۔۔ پھر اپن دونوں دیکھیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔۔"<br><br>"ہاں باجی۔۔۔ تم کتنی اچھی ہو۔۔۔" اس نے مجھے جوش مـیں آکر پیـار کر لیـا۔ مـیں نڈھال ہو گئی۔۔۔ آج اس کی چمـی مـیں سیتھا۔ اس نے اپنا کام جلدی سے نمٹا لیـا اور چلی گئی۔ مـیرا تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔ <br><br>تقریباً دن کے ایک بجے صدف واپس آ گئی۔ مـیں نے اسے پیـار سے بیڈ پر بٹھایـا اور نیچے سے کیس کھول کر پلیر مـیں سی ڈی لگا دی اور مـیں خود بھی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ یہ دوسری فلم تھی۔ فلم شروع ہو چکی تھی۔ مـیں صدف کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں مـیں شہوت کے ڈورے تیرنا شروع ہو رہے تھے۔ مـیں نے تھوڑا اور انتظار کیـا۔۔۔ چدائی کے سین چل رہے تھے۔ <br><br>مـیرے جسم مـیں بھی شہوت جاگ اٹھی تھی۔ صدف کا بدن بھی رہ رہ کر جھٹکے کھا اٹھتا تھا۔ مـیں نے اب دھیرے سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ اس کی دھڑکنیں تک محسوس ہو رہی تھیں۔ مـیں نے اس کی پیٹھ سہلانی شروع کر دی۔ مـیں نے اسے آہستگی سے اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی۔۔۔ تو وہ مجھ سے چپک گئی۔ اس کاا ہوا بدن۔۔۔ اس کے بدن کی خوشبو۔۔۔ مجھے محسوس ہونے لگی تھی۔ ٹی وی پر شاندار چدائی کا سین چل رہا تھا۔ صدف کا دوپٹہ اس کے سینے سے نیچے گر چکا تھا۔۔۔ اس کے وں کا سائز 28 سے زیـادہ نہیں ہو گا۔۔۔ مـیں نے دھیرے سے اس کی چھوٹی چھوٹی مخروطی چھاتیوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیـا۔۔۔ اس نے مـیرا ہاتھ اپنے وں کے اوپر ہی دبا دیـا اور سسک پڑی۔ <br><br>"صدف! کیسا لگ رہا ہے بیٹی۔۔۔؟"<br><br>"باجی۔۔۔ بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ کتنا مزا آ رہا ہے۔۔۔" کہتے ہوئے اس نے مـیری طرف دیکھا۔۔۔ مـیں نے اس کی چونچیـاں سہلانی شروع کر دی۔۔۔ اس نے مـیرا ہاتھ پکڑ لیـا۔۔۔ <br><br>"بس باجی۔۔۔ اب اور نہیں کریں۔۔۔"<br><br>"ارے پگلی! مزے لے لے۔۔۔ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے ہیں۔۔۔۔۔۔" اور اسے کچھ بولنے کا موقعہ دیے بغیر مـیں نے اس کے تھرتھراتے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔ صدف ہوس سے بھری ہوئی تھی۔ اب صدف نے مـیری 36 سائز کی تنی ہوئی گول گول چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں مـیں بھر لیـا اور دھیرے دھیرے انہیں دبانے لگی۔ مجھے بھی بے حد مزا آ رہا تھا۔ مـیں نے اس کی شلوار کو آہستگی سے نیچے کی جانب کھینچا تو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس نے شلوار مـیں الاسٹک ڈالا ہوا تھا یعنی مـیرا کام مزید آسان ہو گیـا۔ مـیں نے کھینچ کر اس کی شلوار نیچے کر دی اور اس کی قمـیض کا دامن اوپر اٹھا دیـا۔۔۔ آہ اس کی رانیں دودھیـا رنگت کی تھیں اور پیٹ بے حد ستواں اور پتلا تھا۔۔۔ مـیں اس کی چکنی رانوں کو ہاتھ سے آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔۔۔ اب مـیرے ہاتھ دھیرے دھیرے اس کی چوت پر آ چکے تھے جو چکنائی اور پانی چھوڑ رہی تھی۔ مـیں نے اپنی ایک انگلی آہستگی سے اس کی چوت کے تنگ مـیں سرکائی۔ اس کی چوت کے اندر مـیری انگلی جاتے ہی صدف مجھ سے لپٹ گئی اور مجھے لگا کہ مـیرا کام ہو گیـا۔ <br><br>"باجی۔۔۔ ہائے۔۔۔ نہیں کرو نا۔۔۔ ماں۔۔۔ رے۔۔۔"<br><br>"کیسا لگ رہا ہے صدف؟<br><br>"آہ ہ ہ ہ ہ باجی بس کریں نا آہ ہ ہ ہ۔۔۔" <br><br>مـیں نے اس کی چوت کے دانے کو ہلکے ہلکے سے ہلانے لگی۔۔۔۔ وہ نیچے جھکتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں نشے مـیں بند ہو رہی تھی۔ <br><br>ادھر ندیم لنچ پر آ چکا تھا۔ اس نے اندر کمرے مـیں جھانک کر دیکھا۔ مـیں نے اسے اشارہ کیـا کہ ابھی رکو۔ مـیں نے صدف کو اور ی کرنے کے لیے اسے کہا - "صدف۔۔۔ آؤ گڑیـا مـیں تمہارا بدن سہلا دوں۔۔۔۔۔۔ کپڑے اتار دو۔۔۔ شاباش!"<br><br>"باجی۔۔۔ اوپر سے ہی مـیرا بدن دبا دیں نا۔۔۔" وہ بستر پر لیٹ گئی اور مـیں اس کی ننھی منی چھاتیوں کے ابھاروں کو دباتی رہی۔۔۔ اس کی سسکیـاں بڑھتی رہی۔۔۔ مـیں نے اب اس کی بڑھتی ہوئی ہوس دیکھ کر اس کی قمـیض بھی اتار دی۔۔۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ مـیں نے بھی یہ دیکھ کر اپنے کپڑے فوراً اتار دیے اور بالکل ننگی ہو گئی۔ اب مـیں اس کی چوت کو اپنی انگلی سے دبا کر سہلانے لگی۔۔۔ اور دھیرے سے ایک انگلی اس کی چوت مـیں ڈال دی۔ اس کے منہ سے لذت بھری سسکاریـاں نکل پڑیں۔۔۔ <br><br>"صدف۔۔۔ ہائے کتنا مزا آ رہا ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔"<br><br>"ہاں باجی۔۔۔ ہائے رے۔۔۔ مـیں مر گئی۔۔۔"<br><br>"صدف! لنڈ سے چدواؤ گی؟ بہت مزا آئے گا۔۔۔"<br><br>"کیسے باجی۔۔۔؟ لنڈ کہاں سے لاؤ گی۔۔۔؟"<br><br>"اگر تم کہو تو ندیم کو بلا لوں۔۔۔ تمہیں چود کر مست کر دے گا"<br><br>"نہیں باجی۔۔۔ نہیں۔۔۔ بھائی سے نہیں۔۔۔"<br><br>"اچھا تم الٹی لیٹ جاؤ۔۔۔ اب پیچھے سے تمہارے چوتڑ بھی مسل دوں۔۔۔"<br><br>وہ الٹی لیٹ گئی۔ مـیں نے اس کی چوت کے نیچے تکیـا لگا دیـا۔ اور اس کی گانڈ اوپر کر دی۔ اب مـیں نے اس کے دونوں پاؤں پھیلا کر ٹانگیں چوڑی کر دیں اور اس کی گانڈ کے چھید پر اور اس کے آس پاس ہولے ہولے سہلانے لگی۔ وہ لذت سے سسکاریـاں بھرنے لگی۔ <br><br>ندیم دروازے کے پاس کھڑا ہوا سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے کپڑے بھی اتار لیے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ندیم کا لمبا لنڈ ایک دم تن چکا تھا اور وہ اپنے لنڈ کو ہاتھ سے اوپر نیچے کر رہا تھا۔ مـیں صدف کی گانڈ اور چوتڑوں کو پیـار سے سہلا رہی تھی۔ اس کی ہوس بے حد بڑھ چکی تھی۔ تب مـیں نے ندیم کو صدفرا کیـا۔۔۔ کہ لوہا گرم ہے۔۔۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔<br><br>ندیم دبے پاؤں اندر آ گیـا۔ مـیں نے صدفرا کیـا کہ بس اب تم اس بچی کو چود ڈالو۔ صدف کی پھیلی ہوئی ٹانگوں کے درمـیان کھلی ہوئی گوری چٹی ٹائٹ چوت ندیم کو نظر آ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کا لنڈ اور بھی تننے لگا۔ تب تک ندیم اس کی ٹانگوں کے بیچ مـیں آ گیـا۔ مـیں صدف کے پیچھے آ گئی۔۔۔ جسے اب تک معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیـا ہونے والا ہے۔ ندیم نے صدف کے چوتڑوں کے پاس آکر لنڈ کو اس کی چوت پر رکھ دیـا۔ صدف کو فوراً ہی ہوش آ گیـا۔۔۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہم مـیاں بیوی نے مل کر اسے اپنے ہاتھوں مـیں جکڑ کر قابو کر لیـا تھا اور ندیم اس کے چوتڑوں سے نیچے لنڈ اس کی چوت پر ٹکا چکا تھا اور اس کے نازک بازوؤں کو اپنے مضبوط ہاتھوں مـیں لیـا تھا اور اس کے نازک جسم کو اپنے ورزشی بدن کے نیچے دبا کر قابو کر چکا تھا۔ <br><br>صدف چیخ اٹھی۔۔۔ پر تب تک ندیم کا ہاتھ اس کا منہ دبا چکا تھا۔ ادھر مـیں نے اپنے ہاتھوں مـیں لے کر ندیم کا موٹا لمبا لنڈ صدف کی چوت کے عین اوپر رکھ دیـا تھا۔ ندیم حرکت مـیں آ گیـا۔ <br><br>اس کا لنڈ اس بچی کی ننھی سی چوت کو چیرتا ہوا اندر تک گھس گیـا۔ درد کے مارے صدف کے منہ سے غوغیـانے کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ بستر پر تڑپ رہی تھی اور ندیم کے نیچے سے نکل بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی چوت گیلی تھی۔۔۔ چکنی تھی۔۔۔ لیکن ابھی تک چدی نہیں تھی۔ دوسرے ہی دھکے مـیں لنڈ اندر گہرائی مـیں اترتا چلا گیـا اور صدف کی آنکھیں درد کی شدت سے پھٹی جا رہی تھی۔ غو غو کی آوازیں نکل رہی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے زور لگا کر مـیرا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا لیـا اور زور زور سے بلک کر رونے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور چوت سے خون ٹپک رہا تھا۔ <br><br>"بھااااااااااااائی۔۔۔ چھوڑ دیں مجھے ےےےےے۔۔۔ آآآآہہہ مـیرے ساتھ ایسے نہ کریں۔۔۔ ہائے ےےےے مـیں مر جاؤں گی۔۔۔ باجی! آپ مجھے بچا لیں۔۔۔" اس نے منت بھرے انداز مـیں روتے ہوئے کہا۔ پر لنڈ اپنا کام کر چکا تھا۔ <br><br>"بس بیٹی۔۔۔ بس۔۔۔ تھوڑا سا برداشت کر لو۔۔۔ ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ رو مت۔۔۔" مـیں نے اسے پیـار سے پچکارتے ہوئے سمجھایـا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ وہ قدر درد سے گزر رہی ہو گی۔<br><br>"نہیں نہیں بس۔۔۔ بس باجی مجھے چھوڑ دیں اب۔۔۔ مـیں تو برباد ہو گئی باجی۔۔۔ آپ نے یہ کیـا کر دیـا۔۔۔" وہ نیچے دبی ہوئی تڑپتی اور روتی جا رہی تھی اور ہماری منتیں کر رہی تھی لیکن ہم دونوں نے مل کر اسے دبوچ رکھا تھا۔ دبی دبی چیخیں اس کے منہ سے نکلتی رہی لیکن ہم پر ان درد بھری چیخوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ندیم نے اپنے ڈنڈے نما لنڈ کو دھیرے دھیرے اندر باہر کرنا شروع کر دیـا۔ <br><br>"بھائی۔۔۔ بس کریں نا۔۔۔ مجھے چھوڑ دیں نا۔۔۔ مـیں برباد ہو گئی۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ کوئی مجھے بچا لو۔۔۔ ہائے مـیں آج مر جاؤں گی۔۔۔ بھائی۔۔۔ بھائی۔۔۔ بسسس۔۔۔ باجی۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔ آپ روک دیں نا بھائی کو۔۔۔ آہ ہ ہ۔۔۔ مـیں مر گئی ہائے۔۔۔ " وہ بری طرح روئے جا رہی تھی۔۔۔ اور منتیں کرتی رہی۔ لیکن اس دوران ندیم نے اس کی چونچیـاں بھی بھینچ لی۔ وہ ہائے ہائے کرکے روتی رہی۔۔۔ وہ اپنے بدن کو تڑپ تڑپ کر ہلتے ہوئے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ندیم کے جسم اور ہاتھوں مـیں بری طرح سے دبی ہوئی تھی۔ آخر کار اس نے خواہ مخواہ کی کوششیں ترک کر دیں اور بس نڈھال ہو کر بری طرح چیختی چلّاتی اور روتی رہی۔ <br><br>ندیم نے اپنی چدائی اب تیز کر دی۔۔۔ اس کا کنواراپن دیکھ کر ندیم اور بھی ی ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے دھکے وحشیـانہ پن پر آ گئے تھے اور صدف بے چاری نیچے دبی ہوئی سسکتی بلکتی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد صدف کا رونا اور بلکنا کچھ کم ہو گیـا۔۔۔ اور اندر ہی اندر شاید اسے مستی چڑھنے لگی۔۔۔ لیکن وہ سسکتی رہی۔۔۔ <br><br>"ہائے باجی مـیں لٹ گئی۔۔۔ مـیری عزت لٹ گئی۔۔۔ باجی مـیں برباد ہو گئی۔۔۔ بھائی مجھے چھوڑ دیں۔۔۔ اب بس کر دیں بھائی۔۔۔ ہائے" وہ بس آنکھیں بند کیے یہی بولتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کے نیچے پڑا تکیہ خون سے بھیگ چکا تھا۔ اب ندیم نے اس کی چونچیـاں پھر سے پکڑ لیں اور انہیں زور زور سے دباتے ہوئے صدف کو چودنے لگا۔ صدف ابی حد تک خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ شاید وہ سمجھ چکی تھی کہ اس کی جھلی پھٹ چکی ہے اور اب بچنے کا بھی کوئی راستا نہیں ہے۔ لیکن اب اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی مزا لے رہی ہے۔ اب مـیں نے بھی چین کی سانس لی۔<br><br>مـیں نے دیکھا کہ ندیم کا لنڈ خون سے سرخ ہو چکا تھا۔ صدف کی کنواری چوت پہلی بار چد رہی تھی اوراس کی ٹائیٹ چوت کے جکڑنے کا اثر یہ ہوا کہ ندیم جلد ہی چھوٹنے والا ہو گیـا۔ اچانک نیچے سے صدف کی سسکاری نکل پڑی اور وہ جھڑنے لگی۔ ندیم کو لگا کہ صدف کو اب مزا آنے لگا تھا اور وہ اسی وجہ کارن سے جھڑ گئی تھی۔ <br><br>مجھے لگا کہ ندیم اب چھوتا کہ تب چھوٹا تو مـیں نے ندیم سے کہا "جانو! بچی کے اندر نہ چھوٹ جانا۔۔۔ کوئی مصیبت کھڑی نہ ہو جائے"۔ یہ سن کر ندیم نے اپنا لنڈ باہر نکال لیـا اور صدف کے چوتڑوں پر پچکاری چھوڑ دی۔ ساری منی صدف کے چوتڑوں پر پھیلنے لگی۔ مـیں نے جلدی سے ساری منی صدف کے چوتڑوں پر پھیلا دی۔ ندیم اب پر سکون ہو چکا تھا۔ <br><br>ندیم بستر سے نیچے اتر آیـا۔ صدف کو بھی چدوانے کے بعد اب ہوش آیـا۔۔۔ وہ ویسے ہی لیٹی ہوئی دوبارہ رونے لگی۔ <br><br>"بس بیٹی اب تو جو ہونا تھا ہو گیـا۔۔۔ چپ ہو جاؤ۔۔۔ دیکھو تمہاری خواہش بھی تو پوری ہو گئی نا۔۔۔"<br><br>"باجی۔۔۔ آپ نے مـیرے ساتھ اچھا نہیں کیـا۔۔۔ مـیں اب کل سے کام پر نہیں آؤں گی۔۔۔" وہ لنگڑاتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے روتے روتے بولی۔۔۔ اس نے اپنے کپڑے اٹھائے اور دھیرے دھیرے انہیں پہننے لگی۔۔۔ مـیں نے اسے کپڑے پہننے مـیں اس کی مدد کی۔ اس دوران ندیم بھی کپڑے پہن چکا تھا۔ <br><br>مـیں نے ندیم کو صدفرا کیـا۔۔۔ وہ سمجھ چکا تھا۔۔۔ جیسے ہی صدف جانے کو مڑی مـیں نے اسے روک لیـا۔۔۔"سنو صدف۔۔۔ ندیم کیـا کہہ رہا ہے۔۔۔"<br><br>"صدف۔۔۔ مجھے معاف کر دو بیٹی۔۔۔ دیکھو بیٹی تمہیں ننگی لیٹے ہوئے دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیـا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دو بیٹی۔۔۔"<br><br>"نہیں۔۔۔ نہیں بھائی۔۔۔ آپ نے تو مجھے برباد کر دیـا ہے۔۔۔ مـیں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔" اس کا چہرا آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ <br><br>ندیم نے اپنی جیب سے سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر اسے دیے۔۔۔ پر اس نے دیکھ کر منہ پھیر لیـا۔۔۔ اس نے پھر مزید سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر اسے دیے۔۔۔ اس کی آنکھوں مـیں ایک بارگی چمک آ گئی۔۔۔ مـیں نے فوراً پہچان لیـا۔ مـیں نے ندیم کے ہاتھ سے نوٹ لیے اور اپنے پرس سے سؤ سؤ کے کل دو ہزار روپے نکال کر اس کے ہاتھ مـیں پکڑا دیے۔ اس کا چہرا کھل اٹھا۔ <br><br>"دیکھو۔۔۔ تمہارے بھائی نے غلطی کی اور یہ اس کا حرجانہ ہے۔۔۔ ہاں اگر بھائی سے مزید غلطی کروانی ہو تو اتنے ہی نوٹ اور ملیں گے۔۔۔"<br><br>"باجی۔۔۔ مـیں آپ کی آج سے بہن ہوں۔۔۔ پیسوں کی ضرورتے نہیں ہوتی ہے۔۔۔" <br><br>مـیں نے اسے صدف کو گلے لگا لیـا۔۔۔ "صدف۔۔۔ بیٹی ہمـیں معاف کر دینا۔۔۔ تو سچ مـیں آج سے مـیری بہن ہے۔۔۔ آئندہ اگر تمہارا اپنا دل چاہے۔۔۔ بس تبھی یہ کروانا۔۔۔" <br><br>صدف خوش ہو کر جانے لگی۔۔۔ دروازے سے اس نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا۔۔۔ اور پھر بھاگ کر آئی۔۔۔ اور مجھ سے لپٹ گئی۔۔۔ اور مـیرے کان مـیں کہا "باجی۔۔۔ بھائی سے کہنا۔۔۔ شکریہ۔۔۔"<br><br>"اب انہیں بھائی نہیں۔۔۔ بلکہ جیجا جی بولو! اور شکریہ لیے۔۔۔؟ پیسوں کے لیے۔۔۔"<br><br>" نہیں۔۔۔ ہممم مجھے چودنے کے لیے۔۔۔" وہ یہ کہہ کر واپس مڑی اور باہر بھاگ گئی۔۔۔<br><br>مـیں اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔۔۔ تو کیـا وہ یہ سب کھیل کھیل رہی تھی۔ مـیری نظر جونہی مـیز پر پڑی تو دیکھا کہ سارے کے سارے نوٹ وہیں پڑے ہوئے تھے۔۔۔ <br><br>اس کے بعد مـیں نے صدف کی ماں سے بات کر کے اسے اپنے ہاں مستقل اور فل ٹائم نوکرانی رکھ لیـا اور پھر ہم ہر رات ہم تینوں یعنی مـیں، ندیم اور صدف اکٹھے سوتے اور مل کر سیکرتے۔ <br><br>اس کے بعد کیسے ایک رات ندیم نے وحشی بن کر اس بچی کی کنواری گانڈ بھی پھاڑ ڈالی اور کیسے اس دوران وہ بے ہوش ہو گئی۔ پھر کیسے ندیم نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بھی صدف کو زبردستی چودا اور مجھے بھی کیسے اپنے دوستوں کے آگے نچوایـا اور ان سب سے ایک ساتھ چدوایـا۔۔۔ یہ واقعات آئندہ کبھی۔۔۔ <br>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<br><br>تو یہ تھا ہماری کام والی کے ساتھ ہمارے سیکا دل چسپ واقعہ جو مـیری بیوی نجمہ کی زبانی آپ نے پڑھا۔<br><br>اگر اسلام آباد یـا راولپنڈی کیی لڑکی یـا عورت کو سیکی خواہش ہو تو بلا جھجک مجھ سے مـیرے ای مـیل پر رابطہ کر سکتی ہے۔ مکمل رازداری کی ضمانت دیتا ہوں ہے۔۔۔

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-20818113070946849142015-01-27T16:38:00.000-08:002015-01-27T16:38:00.146-08:00

سیکی شوقین پروین

<a name='more'></a><div><span>آج مـیں آپ لوگوں کو جو واقعہ پیش کررہا ہوں وہ لاہور کی رہنے والی پروین کا ہے اور آپ یہ واقعہ اسی کی زبانی ہی سنیں گے </span></div><div><span>مـیرا نام پروین ہے اور مـیری عمر 35 سال کے قریب ہے مـیری شادی 12 سال قبل ہوئی اور ایک بیٹی کی ماں ہوں جو اس وقت چوتھی جماعت مـیں پڑھتی ہے مـیرا شوہر آٹھ سال پہلے روز گار کی تلاش مـیں امریکا چلا گیـا جہاں سے وہ ابھی تک تین بار پاکستان آیـا ہے آخری بار وہ ڈیڑھ سال پہلے پاکستان آیـا اور صرف دس دن کے بعد واپس چلا گیـا پہلے پہل تو مجھے اس کی کمـی مجھے بہت زیـادہ محسوس ہوتی تھی مگر آہستہ آہستہ مـیں اس کے بغیر رہنے کی عادی ہوگئی تقریباً ایک سال پہلے ایک رات مـیں باتھ روم مـیں جانے کے لئے اٹھی توپھر نیند نہ آئی جس پر مـیں چھت پر چلی گئی جہاں سے اپنے ہمسائے کو دیکھا جو اپنے لان مـیں اس کے ساتھ رومانس کررہا تھا اس نے اپنی بیوی کونگ کے بعد اس کی قمـیص کے اوپر سے ہی اس کے مموں کو دبانا شروع کردیـا جس سے مـیری سوئی ہوئی حسیں جاگ گئیں اور مجھے اپنے اور اپنے خاوند آصف کے پیـار کے واقعات یـاد آنے لگے جس سے مـیرے اندر ایک انجانی سی آگ بھڑک اٹھی تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں تو اپنے کمرے مـیں چلے گئے جبکہ مـیں بیڈ پر آن لیٹی مـیرے اندر لگی آگ مزید بڑھتی جارہی تھی مـیں نے ایک ہاتھ اپنی قمـیص مـیں اور دوسرا اپنی شلوار مـیں ڈال لیـا ایک ہاتھ سے اپنے ممے دبانے لگی جبکہ دوسرے سے اپنی پھدی مـیں فنگرنگ شروع کردی تھوڑی دیر کے بعد مـیںفارغ ہوگئی لیکن مجھے صحیح معنوں مـیں تسلی نہ ہوسکی اس سے اگلے روز بھی مـیں نے اسی طریقے سے اپنی تسلی کرنے کی کوشش کی لیکن اپنے اندر لگی آگ کو بجھا نہ سکی اس رات مـیں نے اپنے شوہر کو امریکا مـیں فون کرکے واپس آنے کو کہا تو اس نے جواب دیـا کہ ابھی چھ مہینے پہلے ہی تو پاکستان آیـا تھا اگلے دو سال تک دوبارہ واپسی نہیں ہوسکتی جس کے بعد مـیں مزید ڈس ہارٹ ہوگئی اس کے بعد مـیں نےی لڑکے کو پھنسا کر اپنی آگ بجھانے کا فیصلہ کیـا جس پر عمل کرتے ہوئے مـیں نے اگلے دو ماہ کے اندر کمرشل ایریـا مـیں ایک دکان پر کام کرنے والے بیس سال کے قریب عمر کے عامر نامـی نوجوان کو پھنسا لیـا جس کو مـیں نے ایک روز دن کے وقت اپنے گھر بلایـا اور اس کو اپنے کمرے مـیں بٹھا کر کوک پلائی اس کے بعد مـیں نے اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور اس کے گلے مـیں بانہیں ڈال کر اس کونگ شروع کردی شروعات مـیں نے کی اس کے بعد وہ سٹارٹ ہوگیـا اس نے مجھے بیڈ پر لٹایـا اور مـیرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئےنگ کے دوران اس نے اپنے ہاتھ سے مـیرے ممے دبانا شروع کردیئے مـیرے اندر آگ مزید بڑھ رہی تھی مـیں نے ایک ہاتھ سے اس کو کمر سے مضبوطی سے پکڑ لیـا جبکہ دوسرا ہاتھ اس کی کمر پر پھیرنا شروع کردیـا تھوڑی دیر کے بعد اس نے مـیرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور مـیری قمـیص اتارنے لگا اس کے بعد اس نے مـیری بریزیئر اور شلوار اس کے بعد اپنی پینٹ شرٹ اور انڈر ویئر بھی اتار دیـا اس کا لن پوری طرح کھڑا ہوا تھا جس کو دیکھ کر مجھے بہت مایوسی ہوئی کیونکہ مـیرے شوہر کا لن تقریباً ساڑھے چھ انچ کا تھا اور عامر صرف چار انچ لن کا مالک تھا اور وہ بھی کافی پتلا تھا لیکن اب کیـا ہوسکتا تھا مـیں نے اسی پر گزارہ کرنے کا فیصلہ کیـا اسی دوران عامر نے مجھے دوبارہنگ شروع کردی اور پھر مـیرے مموں کو چوسنے لگا وہ بڑی کمال مہارت سے یہ کام کررہا تھا اس کا ایک ہاتھ مـیری پھدی کو سہلا رہا تھا جس سے اس کے اندر سے پانی نکلنے لگا اس کے بعد اس نے مجھے سیدھا لٹا کر مـیرے مموں کو چوسا اور اور مـیرے نپلز کو اپنے دانتوں سے ہلکا ہلکا سا کاٹنا شروع کردیـا جس سے مـیرے منہ سے ایک آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ سی نکل گئی اس کے بعد اس نے مـیری گردن اور پھر مـیرے کانوں کے گرد اپنی زبان پھیرنا شروع کردی یہ سب کچھ مـیری برداشت سے باہر ہورہا تھا کہ اس نے ایک اور ناقابل برداشت کام کیـا اس نے اپنی ایک انگلی مـیری پھدی کے اندر ڈال دی اور اس کو ہلکا ہلکا سا موو کرنا شروع کردیـا جس سے مـیں مزے کی دنیـا مـیں پہنچ گئی نشے سے مـیری انکھیں بند ہورہی تھیں مـیں نے اپنی ٹانگیں اکٹھی کرلیں اور عامر کو مضبوطی سے پکڑ لیـا اور اس کو کہنے لگی عامر بس کرو اب مـیری برداشت سے باہر ہورہا ہے اس کے بعد اس نے مـیرے پیٹ اور مـیری ناف کے گرد اپنی زبان پھیری جس سے مـیرے مزے مـیں مزید اضافہ ہوگیـا لیکن اس کے ساتھ ساتھ مـیرے اندر لگی آگ مزید بھڑک اٹھی مـیں نے ایک دم عامر کو پکڑ کر خود سے علیحدہ کردیـا اور اس سے کہا کہ اب بس کرو اور اصل کام کرو لیکن اس نے مـیری بات ان سنی کرکے پھر سے مجھے سیدھا کیـا اور اپنا منہ مـیری پھدی پر رکھ دیـا جس سے مـیری جان نکل گئی اس کی زبان مـیری پھدی کے اندر گئی اور حرکت کرنے لگی مـیں نے اس کو بالوں سے پکڑ لیـا مـیرا دل کررہا تھا کہی طرح اس کی زبان مزید لمبی ہو جائے اور مـیرے اندر تک چلی جائے اس طریقہ سے کبھی مـیرے شوہر نے نہیں کیـا تھا اور مـیرے لئے یہ مزہ نیـا تھا دو منٹ تک اس نے مـیری پھدی کے اندر اپنی زبان چلائی پھر پیچھے ہٹ گیـا اور مـیرے ساتھ لیٹ گیـا اور مجھے کہنے لگا کہ اب تم مـیرے لن کو اپنے منہ مـیں لو مـیں نے پہلے یہ کام بھی نہیں کیـا تھا اس لئے اس کام سے انکار کرنے لگی اس نے مجھے بہت کہا لیکن مـیں نہ مانی اس کے بعد وہ اٹھ کر مـیری ٹانگوں کے درمـیان آگیـا اور مـیری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور اپنے لن کو مـیری پھدی پر رگڑنے لگا کچھ لمحے بعد اس نے مـیرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور جھٹکا دیـا اس کا پورا لن مـیری پھدی کے اندر چلا گیـا اس کے بعد اس نے جھٹکے مارنا شروع کردیئے مـیرا دل کررہا تھا کہ اس کا لن مـیرے اندر جاکر ٹکرائے لیکن اس کی لمبائی چھوٹی تھی جس کی وجہ سے مـیری خواہش پوری نہیں ہوسکی چار پانچ منٹ کے بعد وہ فارغ ہوگیـا لیکن مـیں ادھوری رہ گئی وہ مزید ایک آدھ منٹ تک مـیرا ساتھ دیتا تو مـیں بھی منزل تک پہنچ جاتی لیکن وہ فارغ ہوگیـا اور ٹھنڈا ہوکر مـیرے اوپر آن گرا اور لمبے لمبے سانس لینے لگامجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے مـیرے اندر لگی آگ مجھے بھسم کردےدس منٹ مـیرے اوپر ہی لیٹے رہنے کے بعد وہ اتر کر مـیرے ساتھ لیٹ گیـا مـیں نے اپنے ہاتھ سے اس کے لن کو سہلانا شروع کردیـا تاکہ اس کو دوبارہ تیـار کرکے خود بھی مکمل ہوجاﺅں پانچ ساتھ منٹ تک اپنی انگلیوں سے اس کے لن کے ساتھ کھیلتی رہی تو اس کے لن مـیں تھوڑی سی حرکت محسوس ہوئی تو کہنے لگا آپ اس کو منہ مـیں لیں تو جلدی کھڑا ہوجائے گا مـیں نے مجبوراً اس کے لن کو منہ مـیں لےنے کا فیصلہ کیـا اور اپنی بیڈ شیٹ سے اس کے لن کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ا سکو اپنے منہ مـیں لے کر لالی پاپ کی طرح چوسنا شروع کردیـا جس کے باعث چند سیکنڈ مـیں ہی اس کا لن کھڑا ہوگیـا مـیں نے اب دوسرے طریقے سے کرنے کا فیصلہ کیـا اور اس کو لیٹے رہنے کا کہہ کر اس کے اوپر بیٹھ کر اس کا لن اپنی پھدی مـیں لے لیـا اور اس کے اوپر اچھلنے لگی چھ سات منٹ تک اسی طرح اچھل کود کرنے کے بعد مـیں فارغ ہوگئی اور ساتھ ہی وہ بھی چھوٹ گیـا اس کے لن کی ساری منی مـیری پھدی مـیں نکلی لیکن اس کا مجھے کوئی فکر نہیں تھا کیونکہ دو سال پہلے ہی مـیں نے اپنا آپریشن کروا لیـا تھا اس کے بعد تقریباً پانچ ماہ تک مـیں دوسرے تیسرے دن عامر کو اپنے گھر بلا لیتی اور اس کے ساتھ سیکرتی کبھی تو مـیں بھی مکمل ہوجاتی لیکن کبھی کبھی وہ مجھے ادھورا چھوڑ کر خود ڈھیلا ہوجاتا ایک روز اس نے مجھے نیٹ پر اردو سٹوریز کی مختلف سائٹس بتائیں جن کا مـیں ریگولر وزٹ کرنے لگی اور اپنے فارغ وقت کا خاصا حصہ کہانیـاں پڑھنے مـیں صرف کرنے لگی اس دوران مـیں نے کہانیـاں لکھنے والے کئی افراد کو ای مـیلز بھی کیں چند ایک نے مجھے رپلائی بھی کیـا لیکن ان کے ساتھ بات آگے نہ بڑھ سکی ایک روز مـیں نے اردو فنڈا پر لاہور مـیں لائیو سیپرفارمنس کے حوالے سے ایک کہانی پڑھی تو مـیرے دل مـیں بھی شوق پیدا ہوا کہ مـیں یہ شو دیکھوں جس کے لئے مـیں نے اس کہانی کے رائیٹر کو ای مـیل کی جس مـیں مـیں نے اپنی خواہش کا اظہار کیـا جس کا مجھے دو روز بعد جواب موصول ہوا جس مـیں کہانی کے مصنف شاکر محمود نے بتایـا کہ ان کا شو کے آرگنائزرز کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوست کے ریفرنس سے وہاں گئے تھے اور اگلا پروگرام مارچ یـا اپریل مـیں ہوگا جس کے بعد ان کے ساتھ ریگولر مـیل کے ذریعے رابطہ ہونے لگا اس دوران ان کی چند ایک دیگر تحریریں بھی مـیں نے پڑھیں اور مـیرے دل مـیں ان کے ساتھ ملنے کا اشتیـاق پیدا ہوا مـیں نے ایک روز ان کو مـیل کرکے ان سے ملنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواباً مجھے مـیل مـیں اپنا فون نمبر </span><span>SEND </span><span>کردیـا جس پر مـیں نے فوراً ان کو کال کی اور ان سے ملنے کے لئے کہا جس پر انہوں نے کہا کہ وہ ابھی توی کام کے سلسلہ مـیں اسلام آباد مـیں ہیں لیکن دو تین روز تک واپس آکر پہلی فرصت مـیں ملیں گے یہ اتوار کا دن تھا جب مجھے دن کے بارہ بجے کے قریب شاکر صاحب کا فون آیـا اور انہوں نے کہا کہ وہ ابھی فری ہیں اور ملنا چاہتے ہیں جس پر مـیں نے ان سے کہا کہ آج مـیری بیٹی کو سکول سے چھٹی ہے اور گھر پر کچھ مہمان بھی آنے والے ہیں اگر کل کا یـا رات کا ٹائم رکھ لیـا جائے تو بہتر ہوگا خیر یہ بات طے ہوگئی کہ رات کو ساڑھے دس بجے شاکر صاحب مـیرے گھر آئیں گے اور رات مـیرے پاس ہی ٹھہریں گے رات کو چھ بجے کے قریب گھر سے تمام مہمان چلے گئے اور سات بجے کے قریب مـیری بیٹی بھی سو گئی جس کے بعد مـیں نہا کر فریش ہوگئی اور شاکر صاحب کا انتظار کرنے لگی مـیں سوچ رہی تھی کہ جانے شاکر صاحب کیسے ہوں گے پینٹ کوٹ مـیں ملبوس ایک بارعب عمر رسیدہ شخص یـا کوئی چلبلا نوجوان خیر وہ وقت بھی آگیـا جب انتظار کی گھڑیـاں ختم ہوگئیں دس بج کر پانچ منٹ ہوئے ہوں گے جب ڈور بیل بجی مـیں نے دروازہ کھولا تو دروازے کے سامنے سفید رنگ کی مہران گاڑی کھڑی تھی اور پاس ایک تیس سال کے قریب عمر کا ایک نوجوان جوبلیو جینز اوروائٹ ٹی شرٹ مـیں ملبوس تھا دروازہ کھولنے پر کہنے لگا آصف صاحب کا گھر یہی ہے مـیں نے اثبات مـیں سرہلایـا تو اس نے کہا مـیں شاکر جس پر مـیں نے بڑا گیٹ کھول کراس کو گاڑی اندر کرنے کو کہا اس نوجوان نے گاڑی اندر پارک کی اور گاڑی سے اتر کر ادھر ادھردیکھنے لگا جیسے کہ گھر کا جائزہ لے رہا ہو اس نوجوان کا قد پانچ فٹ دس انچ کے قریب ہوگا سفید رنگ اور کلین شیو کئے ہوئے یہ نوجوان بہت بھلا معلوم ہورہا تھا چہرے پر کمال کا اطمـینان تاثرات دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ یہ نوجوان ی کہانیـاں لکھنے والا ہے مـیں نے چند لمحے اس کا بغور جائزہ لیـا اور پھر اس کو لے کر سیدھا اپنے کمرے مـیں لے گئی جہاں ان کو بیڈ پر ہی بیٹھنے کو کہا وہ بلا جھجکے ٹانگیں نیچے کئے بیڈ پر بیٹھ گیـا مـیں نے ان سے پوچھا کہ ٹھنڈا یـا گرم تو کہنے لگا ٹھنڈا مـیں فوری طورپر کچن مـیں گئی اور فریج سے کوک نکالی دو گلاس ٹرے مـیں رکھے اور کمرے مـیں آگئی گلاسوں مـیں کوک ڈالی اور ایک گلاس نوجوان کے ہاتھ مـیں تھما کر دوسرا گلاس خود پکڑ لیـا یہ نوجوان چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے کر کوک پی رہا تھا اور جانے کن سوچوں مـیں گم تھا چند لمحے خاموشی کے بعد نوجوان گویـا ہوا تو آپ ہیں پروین </span></div><div><span>جی </span></div><div><span>کیـا حال چال ہیں</span></div><div><span>مـیں ٹھیک ہوں اپنی سنائیے </span></div><div><span>مـیں بھی ٹھیک ہوں کیسے لگتی ہیں مـیری تحریریں </span></div><div><span>بہت اچھی </span></div><div><span>لیکن یہ آپ سے اچھی نہیں ہوسکتیں آپ تو بہت ہی خوب صورت ہیں </span></div><div><span>مـیں ایک اجنبی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر چھمب سی گئی </span></div><div><span>آپ اسلام آباد سے کب واپس آئے </span></div><div><span>مـیں دوپہر مـیں آیـا تھا اور آتے ہی آپ کو فون کیـا آپ نے بتایـا کہ آپ مصروف ہیں تو مـیں گھر جاکر سو گیـا آٹھ بجے کے قریب اٹھا اور گھر کا کچھ سامان وغیرہ بازار سے خرید کر لایـا پھر آپ کی طرف آگیـا </span></div><div><span>آپ کیـا کرتے ہیں </span></div><div><span>کچھ بھی نہیں بس چھوٹی سی ایک جاب ہے </span></div><div><span>قسم کی جاب </span></div><div><span>جی مـیں ایک سرکاری محکمہ (محکمہ کا نام لے کر) مـیں (پوسٹ کا نام لے کر) کام کرتا ہوںاور آپ کے خاوند </span></div><div><span>جی وہ امریکا گئے ہوئے ہیں </span></div><div><span>اوہ </span></div><div><span>تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر مـیں نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا کہ آپ شوز اتار کر بیڈ کے اوپر بیٹھ جائیں تو وہ شوز اتارنے لگا اور مـیں گلاس لے کر کچن مـیں چلی گئی واپس آکر اس سے کھانے کا پوچھا تو اس نے انکار کردیـا اور کہا کہ اگر اب چائے مل جائے تو بہتر ہوگا اس کے علاوہ اس نے ٹی وی کا ریموٹ بھی مانگا مـیں نے اس کو ٹی وی کا ریموٹ دیـا اور کہا کہ اگر ڈی وی ڈی پر کوئی فلم دیکھنا چاہیں تو وہ بھی دیکھ سکتے ہیں تو کہنے لگا کہ آپ کے پاس بلیو فلم ہے مـیں اس کی بات سن کر چند لمحے اس کو دیکھتی رہی پھر انکار مـیں سر ہلا دیـا تو کہنے لگا مـیری گاڑی مـیں پڑی ہے آپ لے آئیںیـا مـیں اٹھا لاﺅں تو مـیں نے اس سے کہا کہ مـیں لے آتی ہوں مـیں نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر پڑی دو سی ڈیز اس کو لا کر دیں اور خود چائے بنانے کچن مـیں چلی گئی واپس آئی تو ٹی وی پر کوئی ہوم مـیڈ دیسی فلم چل رہی تھی جس مـیں ایک لڑکی نے لڑکے کو نیچے لٹا کر اس کا لن اپنے اندر لے رکھا تھا اور اچھل کود کررہی تھی مـیں چائے لے کر اندر آئی تو نوجوان نے مجھ سے کپ لے کر بیڈ کی ٹیک پر رکھ دیـا اور جیب سے ایک پلاسٹک کی پڑیـا نکالی جس مـیں سے ماچس کی ایک دیـا سلائی پر لگے مسالے جتنی کوئی چیز نکال کر چائے سے پہلے منہ مـیں ڈال لی(جس کے بارے مـیں مجھے بعد مـیں معلوم ہوا کہ یہ افیون تھی) پھر چائے پینے لگا مـیں اس کے سامنے ہی کرسی پر بیٹھ گئی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایـا اور ساتھ ہی کہنے لگا مجھے کانٹے تو نہیں لگے ہوئے آپ دور ہوکر بیٹھی ہیں مـیں شرمندہ سی ہوکر اٹھی اور اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گئی ٹی وی پر بدستور فلم چل رہی تھی اب لڑکی ڈوگی سٹائل مـیں تھی اور لڑکا اس کے پیچھے سے دھکے لگا رہا تھا اور لڑکی کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ اوی مـیں مر گئی اہ ام م م م اف بس کرووووو کی آوازیں آرہی تھیں جس سے مـیرے جسم کا درجہ حرارت بڑھ رہا تھا جبکہ مـیرے ساتھ بیٹھا شاکر نامـی نوجوان مـیری طرف دیکھ کر ہلکا ہلکا سامسکرا رہا تھا جس سے مـیں سکڑتی جارہی تھی اس کو آئے ہوئے آدھ گھنٹے سے زیـادہ کا وقت گزر چکا تھا لیکن اس نے مجھے ٹچ بھی نہیں کیـا تھا مـیں نے کئی بار کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا وہ مـیری طرف ہی دیکھ رہا تھا آخر مـیں نے اس سے پوچھ ہی لیـا </span></div><div><span>مـیری طرف کیـا دیکھ رہے ہیں </span></div><div><span>دیکھ رہا ہوں خدا نے کمال مہارت سے بنایـا ہے آپ کو آپ کے فگر دیکھ کر حیران ہورہا ہوں لگتا نہیں کہ آپ شادی شدہ اور ایک بچی کی ماں ہیں آپ کے شوہر یقینا نہ شکرے ہوں گے جو آپ کو چھوڑ کر چلے گئے </span></div><div><span>مـیں اس کی بات سن کر مزید چھمب سی گئی اور خاموش ہی رہی چند لمحے بعد وہ پھر کہنے لگا </span></div><div><span>کیسی لگ رہی ہے آپ کو فلم </span></div><div><span>اچھی ہے لگتا ہے پاکستانی ہے </span></div><div><span>ہاں یہ لاہور ہی کی ہے اوری گھر مـیںبنائی گئی ہے </span></div><div><span>لاہور مـیں بھی ایسے کام ہوتے ہیں </span></div><div><span>جی اس سے بھی بڑھ کر ہوتے ہیں </span></div><div><span>کیـا کیـا </span></div><div><span>آپ کو کیـا کیـا بتاﺅں خیر چھوڑیں ان باتوں کو آپ کے شوہر کو کتنا عرصہ ہوگیـا ہے امریکا گئے ہوئے </span></div><div><span>جی نو سال کے قریب </span></div><div><span>اس دوران وہ پاکستان نہیں آئے </span></div><div><span>جی آئے تھے ایک سال پہلے صرف دس دن کے لئے </span></div><div><span>آپ ان کو کہتی نہیں کہ اب پاکستان مـیں آجاﺅ </span></div><div><span>کہتی ہوں لیکن وہ کہاں سنتے ہیں </span></div><div><span>اوہ تو آپ کو ان کی کمـی محسوس نہیں ہوتی </span></div><div><span>ہوتی تو ہے لیکن مـیں کیـا کروں </span></div><div><span>آپ کیی اور مرد کے ساتھ دوستی ہے </span></div><div><span>جی نہیں (اس بار مـیں جان بوجھ کر جھوٹ بول گئی لیکن چند روز بعد مـیں نے شاکر کو بتادیـا کہ عامر نامـی ایک لڑکے سے مـیری دوستی ہے لیکن اب مـیں اس سے نہیں ملوں گی)</span></div><div><span>آپ کو ی کہانیوں کی ویب سائٹ کے بارے مـیں کیسے معلوم ہوا </span></div><div><span>جی ایک روز ایسے ہی بیٹھے بیٹھے سرچنگ کے دوران سائٹ کھل گئی </span></div><div><span>کب سے اردو کہانیـاں پڑھ رہی ہیں </span></div><div><span>یہی کوئی چھ سات مہینے ہوئے ہوں گے </span></div><div><span>مـیری کتنی کہانیـاں پڑھی ہیں آپ نے </span></div><div><span>جتنی بھی تھیں پڑھ لیں بہت اچھا لکھتے ہیں </span></div><div><span>مـیں اور بھی بہت کچھ اچھا کرتا ہوں </span></div><div><span>مـیں اس کی بات سن کر خاموش سی ہوگئی تو کہنے لگا </span></div><div><span>پوچھونہیں کیـا </span></div><span>مـیں نے کہا کیـا تو مجھے پکڑ کر پاس کیـا اور مـیرے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی کردی مـیرے اندر آگ بھڑک اٹھی اس نے فوراً ہی مجھے چھوڑ دیـا اور کہنے لگا مـیری طرف دیکھو مـیں نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں جیسے ان مـیں آگ جل رہی ہو براﺅن آنکھوں مـیں لال ڈورے تھے جو آدھ کھلی تھیں اس نے پھر مجھے پکڑ کر مـیرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے تو مـیں نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیـا اس نے گردن کے پیچھے ایک بازو سے مجھے سہارا دیئے رکھا اور خود مـیرے ہونٹوں کو چوستا رہا مـیں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھے بیڈ پر لٹا لیـا مـیری ٹانگیں بیڈ کے نیچے ہی رہیں اس نے پھر مـیرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کردیـا پھر مـیرے گالوں پر ہلکی ہلکی سینگ کی اس کے ہونٹوں مـیں غضب کی گرمـی تھی اس نے مـیری آنکھوں پر بھی بوسہ لیـا پھر گردن پر آگیـا اور اس کے بعد اس نے مـیرے کانوں کے گرد اپنی زبان پھیری اس کے بعد مـیری قمـیص اوپر کرکے مموں کو دبانے لگا مـیرے ممے ٹائٹ ہورہے تھے اس کے بعد اس نے اپنی زبان سے مـیرے نپلز کو ٹچ کرنا شروع کیـا جو پہلے ہی کھڑے ہوئے تھے اس کے ٹچ کرنے سے ان مـیں مزید سختی آگئی مـیری شلوار بھی گیلی ہونے لگی تھی تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھ سے علیحدہ ہوگیـا اور مجھے کھڑا کر کے اس نے پہلے مـیری قمـیص اتاری پھر برا اور پھر شلوار بھی اتار دی اس کے بعد خود کھڑا ہوکر اپنے کپڑے اتارنے لگا اس نے جیسے ہی اپنا انڈر ویئر اتارا اس کا لن دیکھ کر مـیری سیٹی گم ہوگئی اف اتنا لمبا اور موٹا کم از کم آٹھ انچ کا ہوگا مـیں نے اپنی انگلی اپنے دانتوں مـیں لے لی تو پوچھنے لگا کیـا ہوا تو مـیں نے اپنا بازو آنکھوں کے اوپر کرلیـا اور کچھ نہ بولی تو اس نے مـیرا بازو آنکھوں سے ہٹا کر کہنے لگا کیـا ہوا تو مـیں نے ہاتھ سے اس کے لن کی طرف اشارا کیـا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا کیـا ہوا مـیں کچھ نہ بولی تو وہ بیڈ پر مـیرے ساتھ آکر سیدھا لیٹ گیـا اس نے مجھے سائیڈ کی طرف اپنی طرف منہ کرکے لٹا لیـا مـیرا سر اس کے کندھے پر آگیـا مـیں اس کی چھاتی کے بالوں سے کھیلنے لگی اتنے بال تو آصف کی چھاتی پر بھی نہ تھے اس کے ہاتھ مـیری کمر پر آہستہ آہستہ چل رہے تھے دس پندرہ منٹ ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد مجھ سے کہنے لگا ایسے ہی لیٹے رہنے کا پروگرام ہے یـا کچھ کروبھی مـیں نے اس کی بات سن کر کہا کہ آپ ہی کچھ کریں مـیں بعد مـیں کروںتو مـیرا سر اپنے کندھے سے اتار کر خود بیٹھ گیـا اس نے اپنا سر مـیرے منہ پر جھکایـا اور پھر سے مجھےنگ کرنے لگا پھر مـیری ناف تک مـیرے جسم کے اوپر والے حصہ پر اس نے ہر جگہ اپنی زبان پھیری اس کے بعد ایک ٹانگ پکڑ کر سیدھی کی اور ران پر اپنی زبان پھیرنے لگا اف ف ف ف ف ف ف مـیرے منہ سے ایک لمبی سی آہ نکل گئی مـیں ہواﺅں مـیں اڑنے لگی تھی اس کے بعد اس نے دوسری ٹانگ پر بھی اسی طرح کیـا پھر دونوں ٹانگوں کے درمـیان مـیں دوزانو ہوکر بیٹھ گیـا اور اپنے لن کی ٹوپی مـیری پھدی پر رگڑنے لگا مـیری پھدی جو پہلے ہی پانی چھوڑ رہی تھی مزید گیلی ہوگئی مـیں نے اس سے کہا اب بس کرو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تو اس نے مـیری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں ایک ہاتھ سے اپنا لن سیدھا کیـا اور مـیری پھدی کے پر فٹ کرنے اور مجھے بازوﺅں سے پکڑ کر ایک زور دار جھٹکا دیـا آہ مـیرے منہ سے تکلیف اور مزے کی ملی جلی سی ایک زور دار آواز نکلی اس کے اگلے ہی لمحے اس کا لن باہر نکل آیـا اور یکا یک پہلے سے زیـادہ زور دار ایک اور جھٹکا آگیـا اس کا لن مـیرے اندری چیز سے ٹکرا گیـا مـیں چیخ اٹھی تو اس نے اپنے ہونٹ مـیرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور کچھ دیر ساکت رہا چند لمحے بعد اس نے ہونٹوں سے ہونٹ علیحدہ کئے اور پھر لن کو باہر نکال کر جھٹکا دیـا مجھے پہلے سے بھی زیـادہ تکلیف ہوئی اور اس کا لن گولی کی طرح مـیرے اندر لگا اس کا لن موٹا ہونے کی وجہ سے مـیری پھدی کے ساتھ بری طرح رگڑ کھا رہا تھا جس کے باعث مجھے سخت جلن ہورہی تھی لیکن مـیں جانتی تھی کہ یہ تکلیف چند لمحے کی ہے اس کے بعد مزے ہی مزے ہوں گے اس کے بعد وہ رکا نہیں بلکہ اس کے جھٹکوں مـیں تیزی اور مـیرے منہ سے نکلنے والی آوازوں مـیں بھی تکلیف کے عنصر کی جگہ مزا شامل ہوتا گیـا مـیری آوازوں کے ساتھ اس کے جھٹکوں مـیں مزید تیزی آجاتی وہ ایک بار اپنا لن ٹوپے تک باہر نکالتا اورپھر پہلے سے بھی زیـادہ شدت کے ساتھ اس کو اندر دھکیل دیتا ایسے ہی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ مـیری ناف کی جگہ سخت ہونے لگی اور ساتھ ہی مـیں نے اپنی ٹانگیں اس کے کندھوں سے اتار کر اس کی کمر کے گرد لپیٹ لیں چند لمحے بعد مـیرے جسم نے ایک جھٹکا لیـا اور پھر مـیں ڈھیلی ہوگئی مـیرا جسم ٹھنڈا پڑگیـا لیکن اس کے جھٹکوں مـیں ذرا سی بھی کمـی نہیں آئی تھی مـیری طرف سے رسپانس بھی نہ رہ گیـا تھا جس پر وہ رک گیـا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا مـیڈم جی بس ابھی تو آپ کو بہت لمبا سفر طے کرنا ہے مـیں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اس سے کہا چند منٹ صبر تو وہ مـیرے اوپر ہی لیٹ گیـا اس کے لن مـیں ابھی بھی وہی گرمـی تھی وہ ابھی بھی لوہے کی گرم سلاخ جیسا تھا پانچ منٹ بعد مـیں پھر تیـار ہونے لگی اور اپنی ٹانگوں کو اس کے گرد سخت کرنے لگی تو وہ پھر اٹھ کر بیٹھ گیـا اور اپنے لن کو ایک بار پھر باہر نکالا اور بیڈ شیٹ کے ساتھ صاف کیـا مـیں نے بھی اپنی پھدی کو بیڈ شیٹ سے ہی صاف کیـا اور اس نے فوراً اپنے لن کو مـیری پھدی کے دھانے پر فٹ کر کے پھر سے جھٹکے دینا شروع کردیئے مـیں سمجھ رہی تھی کہ ابھی چند منٹ مـیں وہ چھوٹ جائے گا مگر یہ مـیری غلط فہمـی تھی مـیں دو بار مزید چھوٹی مگر اس کے مکمل ہونے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں تھے مـیں نے اس کو کہا کہ اب پوزیشن چینج کرتے ہیں تو مـیرے اندر سے نکل گیـا اب اس نے مجھے بیڈ کے نیچے گھوڑی کی طرح کھڑا کیـا اور مـیرے دونوں ہاتھ بیڈ کے اوپر رکھ کر پیچھے سے مـیری پھدی کے اندر لن ڈال دیـا اب مـیرے ممے اس کے ہاتھ مـیں تھے اور جیسے ہی وہ جھٹکا دے کر اپنا پورا لن اندر کرتا اس کے ساتھ ہی مـیرے مموں پر اس کی پکڑ سخت ہوجاتی اور لن باہر نکلنے پر وہ مموں کو ڈھیلا چھوڑ دیتا اس کا جھٹکا اتنا زبردست ہوتا کہ اس کا لن مـیرے اندر جاکر مـیرے کلیجے کے ساتھ ٹکراتا اور مـیں آگے گرنے لگتی لیکن اس نے مجھے پکڑ رکھا ہوتا تھا جس کی وجہ سے مـیں نہ گرتی کبھی کبھی وہ مـیرے مموں کو چھوڑ کر چند لمحوں کے لئے اپنے جھٹکے نرم کرتا اورساتھ ہی ایک ہاتھ سے مـیرے ایک چوتڑپر ایک تھپڑ رسید کرتا جس کے ساتھ ایک ی آواز پیدا ہوتی اور مـیری تڑپ جو کم ہورہی ہوتی تھی وہ مزید پھر سے بڑھ جاتی پھر دوسرے ہاتھ سے دوسرے چوتڑ کو تھپڑ مارتا اور پھر مـیرے مموں کو پکڑ کر جھٹکے تیز کردیتا اس دوران کم از کم مـیں پانچ بار فارغ ہوگئی جبکہ پہلے والے سٹائل مـیں بھی مـیں تین بار چھوٹ چکی تھی اب مجھ مـیں مزید جھٹکے برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی تھی لیکن مـیں پھر بھی اس کا ساتھ دیتی رہی اور شاباش ہے اس نوجوان پر وہ ایک گرتی پڑتی عورت کو اپنے ساتھ لئے چل رہاتھا پھر اس نے اچانک اپنا پورا لن باہر نکال لیـا مـیں سمجھی شائد وہ فارغ ہونے والا ہے مـیں نے اس کو کہا کہ اندر ہی چھوٹ جاﺅ تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا مـیڈم ابھی کہاں مـیں تو پوزیشن چینج کرنے لگا ہوں ابھی تک مـیں ہی مشقت کررہا ہوں اب تھوڑی سی محنت آپ بھی کرلیں اس کے بعد وہ بیڈ کے اوپر لیٹ گیـا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا مـیں جو پہلے ہی تھک کر چور ہوچکی تھی اس کے کہنے پر اس کے اوپر چڑھ گئی مـیں نے اپنی ٹانگیں اس کے کے ادھر ادھر رکھیں اور اس کا لن اپنے اندر لیـا جیسے ہی مـیں اس کے اوپر اس کا لن پورا کا پورا مـیرے اندر چلا گیـا مـیں نے دو تین بار اس کو اندر باہر کیـا تو نڈھال ہوکر اس کے اوپر گر گئی تو ہنستے ہوئے کہنے لگا کیـا ہوا تو مـیں نے اس سے کہا کہ اب مجھ مـیں ہمت نہیں ہے اس نے مجھے کہا ٹھیک ہے آپ اتر جائیں تھوڑی دیر کے بعد کرلیں گے مـیں اس کے اوپر سے نیچے اتری اور اس کے کندھے کے اوپر سر رکھ کر اس کے سینے کے بالوں سے کھیلنے لگی چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے نیند آگئی پھر اس وقت مـیری آنکھ کھلی جب اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر جھنجھوٹا اور کہنے لگا مـیڈم اگر سونا ہی ہے تو مجھے کیوں بلایـا تھا مـیں نے اس کے لن کو دیکھا وہ ابھی تکی شیش ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا مـیں نے اس کو پکڑ تو وہ پتھر کی طرح سخت اور لوہے کی طرح گرم تھا اچانک شاکر کہنے لگا مـیڈم آپ کا پیچھے کے راستے سے کیـا خیـال ہے مـیں نے اس کی بات سنی تو انکار کردیـا (اس سے پہلے مـیں نے پیچھے کے راستے کبھی نہیں کیـا تھا) اس نے اصرار کیـا تو مـیں مان گئی اس نے مجھے تیل یـا کوئی لوشن لانے کو کہا مـیں باتھ روم مـیں گئی اور تیل کی شیشی اٹھا لائی اور اس کو تھما دی اس نے ایک بار پھر مجھے بیڈ کے ساتھ گھوڑی سٹائل مـیں کھڑا کیـا او رمـیرے ہاتھ بیڈ کے اوپر لگا دیئے اس نے تیل کی شیشی کھولی اور مـیرے گانڈ پر کافی سارا تیل ملا پھر اپنے لن کے ٹوپے پر بھی تیل لگایـا اور پھر ایک انگلی مـیری گانڈ مـیں ڈال ڈی مجھے تکلیف ہوئی اور مـیں جھٹکے کے ساتھ سیدھی ہوگئی اس کی انگلی مـیری گانڈ سے باہر نکل آئی تو کہنے لگا مـیڈم اس مـیں بہت تکلیف ہوگی لیکن پھر مزہ بھی بہت آئے گا اگر آپ تکلیف برداشت کرلوتو مـیں کرتا ہوں ورنہ نہیں کرتا مـیں چپ چاپ پھر اسی سٹائل مـیں ہوگئی اس نے اپنے لن کا ٹوپا مـیری گانڈ کے اوپر رکھا اور ایک ہاتھ سے مـیرا منہ پکڑ لیـا جبکہ دوسرا ہاتھ مـیرے پیٹ کے گرد لیـا اور ایک زور دار جھٹکا دیـا جس سے مجھے ایسے لگا جیسے مـیری گانڈی نے چیر دی ہو مـیرے منہ سے چیخ بھی نکلی لیکن اس کا ہاتھ مـیرے منہ پر تھا جس کے باعث آواز نہ نکل سکی مـیں نے اس سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک اور جھٹکا دیـا اس کا لن مزید تھوڑا سا اندر چلا گیـا مـیں تکلیف کے باعث مرنے والی ہوگئی مـیری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیـا اس نے اگر مجھے پکڑا نہ ہوتا تو مـیں منہ کے بل گر جاتی اتنا مجھے اندازہ تھا کہ ابھی اس کا پورا لن مـیرے اندر نہیں گیـا تھا ابھی پہلے جھٹکے سے نہیں سنبھلی تھی کہ اس نے لگا تار بلای وقفے کے دو تین اور جھٹکے دیئے اور پھر پیچھے سے ہی مـیرے ساتھ چمٹ گیـا مـیرا پورا جسم ٹھنڈا ہوگیـا تھا اور مجھے اپنی گانڈ مـیں بری طرح تکلیف محسوس ہورہی تھی مـیری آنکھوں کے سامنے بدستور اندھیرا تھا کہ مـیرے کانوں مـیں اس کی آواز آئی مـیڈم مبارک ہو پورا لن تمہارے اندر چلا گیـا مـیں نے بولنے کی کوشش کی لیکن حلق سے آواز ہی نہ نکلی جیسے اس کا لن مـیری گانڈ مـیں نہیں مـیرے حلق مـیں چلا گیـا ہو مـیں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ مجھے ایسی مبارک باد نہیں چاہئے تم اس کو باہر نکالو ابھی مـیں اپنے حواس بحال نہیں کرپائی تھی کہ اس نے پیچھے سے اپنی پکڑ نرم کی اور پھر سے جھٹکے دینے لگا اس کا ایک ہاتھ جو مـیرے منہ کے اوپر تھا وہ بھی مـیرے پیٹ کے گرد چلا گیـا مـیں اونچی آواز مـیں چیخنے لگی شاکر پلیز بس کرو مـیں مر جاﺅںہائے ئے ئے ئے ہائے امـی جی مجھے بچالو مـیں مرجاﺅںشاکر بس کرو تو وہ جھٹکے دیتے ہوئے کہنے لگا بس مـیری جان اب تھوڑا سااور اس کے ساتھ ہی اس کے جھٹکوں مـیں مزید تیزی آنے لگی پھر اچانک وہ رک گیـا اور مجھ سے کہنے لگا مـیڈم کیـا خیـال ہے فارغ ہوجائیں کہ ابھی مزید کچھ کرنا ہے مـیں تکلیف کے مارے کراہ رہی تھی اس کو کراہتے ہوئے کہا شاکر اب بس کرو مـیں مر جاﺅںپھر اس نے چار پانچ آہستہ آہستہ جھٹکے دیئے اور پھر مضبوطی سے مجھے پیچھے سے پکڑ لیـا مجھے اپنے اندر کوئی گرم لاوا جاتے ہوئے محسوس ہوا چند لمحے بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ مـیرے پیٹ سے علیحدہ کیئے اور مـیں دھڑم سے بیڈ کے اوپر گر گئی مجھے نہیں معلوم کیـا ہورہا ہے صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ مـیرے گالوں کو تھپتھپا رہا ہے اور کچھ کہہ رہا ہے کیـا کہہ رہا ہے کوئی پتا نہیں پھر اس نے مـیری ٹانگیں اوپر کیں اور خود بھی مـیرے ساتھ آکر لیٹ گیـا بیس پچیس منٹ ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد مـیرے حواسی حد تک بحال ہوئے تو مـیں نے دیکھا کہ رات کے تین بج رہے ہیں مـیری پھدی اور گانڈ دونوں مقامات پر درد ہورہی تھی گانڈ مـیں درد ناقابل برداشت حد تک زیـادہ تھی مـیں نے دیکھا وہ بھی مـیرے ساتھ ہی ننگا لیٹا ہوا ہے اور سامنے ٹی وی پر وہی بلیو فلم چل رہی ہے مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی اور اس نے مجھے لیٹے لیٹے گلے سے لگا لیـا مـیں نے محسوس کیـا کہ اس کا لن پھر سے شہوت پکڑ رہا ہے مـیں فوری طورپر اس سے علیحدہ ہوگئی تو اس نے کہا کیـا ہوا مـیڈم مـیں کچھ نہ بولی تو مجھے پھر سےنگ کرنے لگا اس نے مجھے کہا کیـا خیـال ہے مـیڈم ایک بار پھر ہوجائے تو مـیں نے کہا شاکر تم اتنے بے رحم ہو کیـا مجھے مارڈالنا چاہتے ہوتو مسکراتے ہوئے کہنے لگا نہیں تو پھر کبھی سہی آج چھوڑ دیتے ہیں اب مجھے چائے کی طلب ہورہی تھی مـیں نے سوچا کہ اٹھ کر جاﺅں تو مجھ سے اٹھا نہ گیـا اس نے مجھے سہارا دے کراٹھایـا اور کہنے لگا کیـا کرنا ہے تو مـیں نے اس کو کہا کہ باتھ روم اور کچن مـیں جانا چاہتی ہوں تو اس نے مجھے کھڑا کر دیـا ابھی دو قدم بھی نہ چلی تھی کہ مـیری آنکھوں کے گرد پھر سے اندھیرا آگیـا ایک زبردست چکر آیـا اور مـیں گرنے لگی کہ شاکر نے مجھے سنبھالا دیـا اور پکڑ کر باتھ روم لے گیـا جہاں مـیں نے اپنی پھدی اور گانڈ کو دھویـا تو گانڈ سے لہو نکل رہا تھا جبکہ پھدی بھی سوجی ہوئی تھی مـیں نے سر اٹھا کر شاکر کی طرف دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا پہلی بار تھا اس لئے تھوڑا سا خون نکل آیـا پریشانی کی کوئی بات نہیں خیر اس نے مجھے پھر پکڑ کر بیڈ تک پہنچایـا اور پھر ننگاہی کچن مـیں چلا گیـا اور دو کپ چائے لے آیـا اس نے مجھے سہارا دے کر اٹھا یـا اور تکیے کی ٹیک دے کر بٹھا دیـا ہم دونوں نے چائے پی اور پھر باتیں کرنے لگے اب بھی مجھے اسی شدت کے ساتھ گانڈ مـیں درد ہورہا تھا جیسا کہ اس وقت جب شاکر کا لن مـیری گانڈ کے اندر تھا اس کے علاوہ پھدی کے اندر بھی جلن محسوس ہورہی تھی پھر شاکر بیڈ کے اوپر سیدھا لیٹ گیـا اور مـیں سائیڈ لے کر اس کے ساتھ کندھے پر سر رکھ کرلیٹ گئی اور اس کے سینے کے بالوں کو انگلیوں کے ساتھ کنگھی کرنے لگی مـیں نوٹ کررہی تھی کہ اس کا لن پھر کھڑا ہوگیـا لیکن اب ہم نے کچھ نہ کیـا صبح کے پانچ بجے تو شاکر نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور مجھ سے اجازت لے کر گاڑی لے کر چلا گیـا مـیں نے بھی کپڑے پہنے اور سو گئی صبح وقت ہوئی مجھے نہیں معلوم مـیری بیٹی کو ملازمہ نے تیـار کرکے سکول بھیج دیـا مـیں اٹھی تو دوپہر کے د و بج رہے تھے مـیرا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا درد اب بھی اسی شدت کے ساتھ تھا مجھے بخار بھی ہوگیـا تھا مـیں نے دیکھا بیڈ شیٹ پر منی اور خون کے دھبے تھے مـیں گرتی پڑتی اٹھی اور بیڈ شیٹ چینج کرکے پھر لیٹ گئی ملازمہ نے کمرے مـیں ہی مجھے چائے لا کر دی مـیں نے ایک پین کلر لی لیکن بخار ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا شام کو مـیں نے شاکر کو فون کیـا جو آیـا اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گیـا دوائی سے مـیرا بخار تو ختم ہوگیـا لیکن تین روز تک مـیری گانڈ مـیں درد ہوتی رہی یہ درد اتنی شدید تھی کہ مجھ سے صحیح طریقہ سے بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا مجھے تین روز تک پاخانہ کرنے مـیں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا رہا تاہم تین دن کے بعد مـیں بالکل ٹھیک ہوگئی اسی روز مـیں نے شاکر کو پھر فون کیـا اور گھر آنے کا کہا لیکن اس نے بتایـا کہ اسے کوئی کام ہے اس لئے وہ نہیں آسکے گا تاہم اگلے روز وہ پھر مـیرے گھر آیـا اور ہم نے ایک بار پھر مزہ کیـا لیکن مـیں نے اس روز سے گانڈ مروانے سے توبہ کرلی ہے دوسری بار سیکے دوران بھی شاکر نے گانڈ مارنے کی خواہش کا اظہار کیـا لیکن مـیں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے جس پر وہ ہنسنے لگا اور اس نے پھر مجھے اس کام کے لئے نہیں کہا پہلی بار سیکے دوران شاکر کی ٹائمنگ ایک گھنٹہ سے زیـادہ تھی لیکن دوسری بار اس کی ٹائمنگ کم ہوکر بیس سے پچیس منٹ تک رہ گئی اس حوالے سے شاکر نے بتایـا کہ پہلی بار کی ٹائمنگ کی وجہ افیون کا استعمال تھا لیکن مـیں ہر بار سیکے لئے افیون استعمال نہیں کرتا ابھی تک مـیں شاکر کے ساتھ تین بار سیکرچکی ہوںاور مـیری خواہش ہے کہ شاکر کے ساتھ مـیرا تعلق لانگ ٹرم کے لئے ہو</span>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com8tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-38131042591750913792015-01-27T13:34:00.000-08:002015-01-27T13:34:00.121-08:00

پہلی دفعہ کی چدائی ایک جوان رنڈی کے ساتھ

<a name='more'></a>مـیرا نام فران ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب مـیں نے گریجویشن کے بعد نوکری اسٹارٹ کی تھی اور مجھے کرنے کا بہت دل کرتا تھا- مـیرے لنڈ کا سائز اسوقت 7 انچ لمبا اور 1 انچ موٹا تھا- چناچہ پہلی تنخواہ آنے پر مـیں نے اپنے ایک عزیز دوست کے ساتھ رنڈی کو چودنے کا پلان بنایـا اور اس دوران مـیرے گھر والےں گئے ہوئے تھے کزن کی شادی پر اور ہم دونوں ورجن تھے اور سردیوں کی وجہ سے ٹھرک بھی کافی چڑھی ہوئی تھی تو ہم نے بڑی مشکل سے ایک چکلے کا پتہ کیـا جو نائٹ پر لڑکیـاں بھیجتا تھا اور وہاں جاکر ہمـیں چکلے چلانے والی نے لڑکیـان دکھانا شروع کیں اور کہا کہ پر لڑکی وہ 3000 نائٹ لےاور لانا لے جانا ہمارا ہوگا-<br>مـیرے دوست کا تعلق ایک امـیر گھرانے سے تھا تو اسکے ہاس گاڑی تھی اور ہم نے رنڈیوں مـیں سے ایک لڑکی مصبہ کو سلیکٹ کیـا جسکی عمر 19 سال تھی اور تھوڑی سانوالی رنگ کی مگر ی فیگر اور لمبے ہونٹ پلس نارمل ممے تھے اور بتایـا کہ یہ 11 سالسے چدائی لگوا رہی ہے مگر اسکی چوت ابھی تک ٹائٹ ہے- خیر مـیں نے پیسے دینے کے بعد اس لڑکی کا باہر گاڑی مـیں انتظار کرنے لگے اور وہ 5 منٹ بعد برکھے مـیں آکر گاڑی مـیں بیٹھ گئی- ہمـیں ڈر تو لگ رہا تھا مگر ٹھرک کے آگے مجبور تھے اور اسے اپنے گھر لے آئے- اور پھر کھانا کھانے کے بعد اسے مـیں اپنے بیڈ روم مـیں لے گیـا اور اس سے ہم دونوں نے باتیں کیں-<br>پھر مویز نے کہا کہ مـیں پہلے جاتا ہوں اندر اس کرو گا اور پھر تم جانا تب تک تم یہاں بیٹھ کر سیگریٹ پیو اور مـیں لاونج مـیں انتظار کرنے لگا اور 30 منٹ بعد مویز آیـا اور مـیرے ساتھ سانسیں لیتے ہوئے بیٹھ گیـا اور کہا کہ یور بہت مست اور چکنی ہے مـیں نے تو اسے بہت چوما اور مزے سے چودا- اب باری مـیری تھی اور مـیں اندر گیـا کمرے مـیں اور وہ پھر ننگھی بیتھی تھی بیڈ پر مـیں اسے چومنا چوسنا چاہتا تھا تو اسکو پہلے نہانے کا کہا اور اس سے اسکی ہو ایک چیز دھلوائی اور اپنے ہاتھوں سے اسکا بدن پونچھا- پھر کمرے مـیں آکر اپنے کپڑے اتارے اور اسکو اپنی باہوں مـیں دبا کر اسکے اوپر لیٹ گیـا اور بے تحاشا چومنے لگا- پہلی باری لڑکی کو اپنے سامنے ننگھا دیکھا تھا اور پھر جب اسنے مـیرا لنڈ دیکھا تو کہا کہ اتنا بڑا اب تک کتنوں سے کیـا یے تو مـیں نے کہا کہ مٹھ مار کر ایسا ہوا ہے تو پہلی ہے- اور پھر اسکے ممے چوسنے لگا اور اسکی چوت کو دیکھنے لگا-<br>پھر اسکے پورے بدن کو چاٹا اور چوت مـیں انگلی ڈال کر اندر باہر کرنے لگا یـار بہت گرم تھی چوت اسکی اور مـیں اسکے ہونٹ چومتا رہا اور ممے دباتا رہا پھر اسکے ساتھ اوپر نیچے بستر پر گھومتا رہا اور اسکے پورے بدن پر ہاتھ پھیرا- پھر اسنے مـیرے لنڈ پر کمرے مـیں پڑا تیل لگایـا اور تانگ اٹھا کر لیٹ گئی اور مـیں نے لنڈ اسکی چوت مـیں ڈالنے لگا اور تھوڑا اندر گیـا تو اسنے کہا کہ آرام سے کرنا تیرا بہت بڑا ہے اور مجھے عادت نہیں ہے- خیر مـیں بڑا ایکسایٹڈ تھا کہ آج مـیں چوت مـیں لنڈ دال رہا ہوں اور چکنا مست بدن ہے اسکا- تو آرام سے اندر ڈھکیلتا رہا اور وہ ناٹک کرنے لگی آہ ہ ہ س س س اور پھر مـیں نے لنڈ اندر ڈالا اور اس سے لپٹ گیـا-<br>مـیں مدہوش ہونے لگا اور چوت کی گرمـی سے مجھے نشہ چڑھ رہا تھا اور مـیں نے لنڈ کو اندر باہر کرنے شروع کردیـا اور اسنے کہا کہ آرام سے کرو گے تو دیر تک ہوگا ورنہ جلدی چھوٹ جاو گے اور مـیں نے اسکی ٹانگیں اٹھا کر بازوں سے کھندوں تک کردیں اور لنڈ کو اندر باہر کرتا رہا اسکی چوت کافی ٹائٹ تھی اور وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی اور مـیں اسکے ممے بھی چوس رہا تھا جو کافی سخت تھے- اور 3 منٹ بعد مـیرے لنڈ سے مٹھ اسکی چوت مـیں نکلنے لگی اور مـیں تھنڈا ہوگیـا تو اسنے کہا کہ تو اب فارغ ہوگیـا ہے اور پھر مـیں نے اسکو کافی چوما اور چاٹا مجھے کافی مزہ آیـا تھا اور پھر اسکے اوپر لیٹ گیـا پھر مویز نے کہا کہ چل مـیں بھی اندر آرہا ہوں ایک اور شوٹ لگاتے ہیں-<br>تو اسنے کہا کہ تم دونوں ابھی کچے ہو اور پھر ہم 2 گھنٹے تک اسی طرح بات کرتے رہے اور مـیں نے دبارہ لنڈ کھڑا کیـا اور مویز نے اسکو گھوڑا بنایـا اور مـیں نے پیچھے سے اسکی چوت مـیں لنڈ ڈال کر تیز تہیز چودا اور پھر 6 سے 7 منٹ بعد مـیں بارغ ہوا اور مویز اسکو چوپا لگا رہا تھا وار اسکے منہ مـیں فارغ ہوا اور اسی طرح ہم پوری رات اسکے ہر جگہ سے مزے لوٹتے رہے اور صبح 6 بجے سوئے وہ صرف ایک دفعہ فارغ ہوئی اور ہم 5 گھنٹوں مـیں 3 بار فارغ ہوئے اور بس ہو گئی ہم سے- پھر ساتھ ناشتہ کیـا اور اسکے ساتھ مل کر نہایـا اور انگلی ڈال کر اس سے کھیلا اور اسے گھر والپس ڈراپ کر دیـا- اس دن کے بعد مـیں نے ہر مہینے اسی چکلے مـیں جا ر اپنی پسند کی ہر لڑکی کی چدائی ماری اور مصبہ جب واپس آئی تو اسکو اپنی پرمـیننٹ رنڈی بنا لیـا اور مجھے اس پر ڈسکاونٹ ملنے لگا-

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-18577196549901339932015-01-27T07:26:00.000-08:002015-01-27T07:26:00.710-08:00

چوری چھپے لڑکی کے گھر مـیں چدائی

<a name='more'></a>یہ ان دنوں کی بات ہے جب مـیں بی کام کے پیپرز سے فارغ تھا اور ریزلٹ کا ویٹ کر رہا تھا- مـیرے محلے مـیں کافی ی لڑکیـاں رہتی ہیں اور مـیں اکثر گیلری مـیں کھڑا ہو کر انکو تاڑتا تھا اور ایک دن ہمارے سامنے والا گھر جو کافی عرصے سے خالی تھا فیملی آئی اور اسمـیں ایک لڑکی تھی جس سے بڑے ممے 5۔5 قد اور بھرا ہوا جسم تھا اور رنگ ڈم تھا مگر فیگر آتنگ تھا- عمر اسکی کوئی 24 ہو گی-خیر وہ فیملی یہاں شفٹ ہوئی تھی اور مجھے اسکو دیکھ کر پہلی دفعہ چودنے کا دل کیـا- اب مـیں اسکو بہانے سے دیکھنے کے لیئے گیلری مـیں دیر تک اس گھر مـیں تاڑتا-<br>پہلے تو وہ بہت شرم اور پردہ دار بنتی تھی مگر بعد مـیں مجھے رسپانس دینے لگی اور یہاں تک کہ اسنے مجھ سے اشارے مـیں مـیرا نام اور حال تک پوچھا- پھر مـیں نے اسی طرھ اس سے روز اشرے مـیں بات کرنے لگا اور اسکا نمبر لیـا اورجب اسے فون کیـا تو وہ فون اٹینڈ کرکے اندر چلی گئی اور مـیں اس سے اسطرح لیٹ نائٹ باتیں کرنے لگا- سارادن اس ایم ایس اور رات مـیں پیکیج پر- پھر کچھ دنوں تک اسی طرح چلتا رہا اسکا نام نیلم تھا اور وہ مجھے پسند کرنے لگی تھی تو مـیں نے اسے ملنے کو کہا اسنے بتایـا کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتی اسکے گھر مـیں اسکی امـی ابو اور ایک چھوٹا بھائی تھا-<br>اس نے مجھے کہا کہ تم کھڑکی پر صبح 5 بجے ملنے آجایـا کرو تو مـیں اسکے بلاک مـیں اسکے گھر کے دروازے کے ساتھ کھڑکی سے اس سے باتیں کرنے لگا اور پھر 3 دن بعد اسنے مجھے کہا کہ گھر والے سو رہے ہیں 3 بجے سوئے ہیں تم اندر آجاو ہمارے پاس 5 گھنٹے ہیں- تو مـیں فورن اندر اگیـا اور وہ مجھے گیٹ کے ساتھ ہی بٹھا کر باتیں کرنے لگی- مـیں نے اسکو اپنی باہوں مـیں دبا لیـا اور اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگا وہ شرماتی بہت تھی اور راکتی نہیں تھی اور پھر مـیں نے اسکو وہیں لٹا کر اسکے اوپر لیٹ گیـا اور اسکے پورے بدن پر ہاتھ پھیرنے لگا اور وہ گرم ہونے لگی مـیرا لنڈ بھی کھڑا ہوچکا تھا-<br>مـیں نے اسکی کمـیز اوپر کی اور برا بھی اور اسکے ممے چوسنے لگا اور وہ آہ ہ ہ س س س کرنے لگی اور مـیں نے اسکو دبایـا اور پھر اپنی پینٹ اتار کر لنڈ کو اسکے منہ کے پاس لایـا اور چوسنے کو کہا وہ مزے سے اسے چوسنے لگی اور اسنے بتایـا تھا کہ وہ 3 دفعہ پہلے بھی کر چکی ہے جہاں یہ لوگ پہلے رہتے تھے- اور 5 منت تک چوسنے کے بعد مـیں نے کی نپلز جو کھڑے ہو گئے تھے نوچنے شروع کردیئے اور پھر اسکی شلوار گھٹنوں پوری چھٹکے سے اتار دی- اور اپنی شڑٹ اوپرکرکے اس سے لپٹ گیـا اور اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگ اور ممے دبانے لگا اسنے مجھے اپنی ٹانگوں سے لیـا-<br>مـیں نے مزید وقت برباد کیـا بنا اپنا لنڈ اسکی چوت پر رگڑنا شروع کردیـا اور جب وہ کہنے لگی کہ  ہ ہ ہ س س س ف فف ف کر دے مجھے- تو مـیں نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور دبا دیـا اور نیچے سے زوردار جھٹا مار کر پورا7 انچ لمبا لنڈ اندر گھسا دیـا- اسکی آنکھیں باہر آگئی اور سانس رک گیـا اور اور اسنے مجھے اور زور سے پکڑ لیـا- مـیں نے ایک اور اندر جھٹکا دیـا تو اسنے اپنے منہ کو مـیرے منہ مـیں گھسا لیـا اور مـیری زبان چوسنے لگی اور مـیں نیچے سے اندر باہر کرنے لگا تیز تیز اور وہ مجھے چاٹ رہی تھی اور اپنی گانڈ ہلا رہی تھی اور پھر مـیں نے اسکو اپنی گود مـیں بٹھایـا اور نیچے لیٹ کر اسے اوپر نیچے اچھالنے لگا اور اسکے بڑے ممے باونس ہورہے تھے-<br>اور 5 منٹ بعد اسکی چوت سے پانی نکلنے لگا اور وہ مـیرے اوپر لیٹ گئی اور پھر مـیں نے اسکو تیز تیز چودنا شروع کردیـا اور پھر اسکو بٹھا کر اپنا لنڈ اسکے منہ مـیں ڈالا اور تیز تیز اسکا سر آگے پیچھے کرنے لگا اور مـیری مٹھ اسکے منہ مـیں اسکے حلق سے نیچے اتر گئی اور وہ مـیرے لنڈ کو چوس کر صاف کیـا اور اپنے اوپر مسکراتی ہوئی لٹا کر مجھے چاٹنے لگی اور کہا تو مجھے کل صبح اسی ٹائم آکر اسی طرح کرنا- پھر اسنے مـیری بہن سے دوستی کی اور اب وہ اکثر اپنے گھر مـیں یہ بول کر آتی ہے کہ مـیری بہن سے ملنے جارہی ہے اور نیچے مـیں اسکا ویٹ کرتا ہوں اور اپنی گاڑی مـیں لٹا کر اسکی چدائی مارتا ہوں اور وہ بھی مجھ کہتی ہے کہ دیر سے فارغ ہونا اگلی دفعہ اور مـیرے پیچھے ریلیز کرنا-

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-11207731671408059262015-01-27T04:22:00.000-08:002015-01-27T04:22:00.055-08:00

اپنی نانی کے گھر چدائی

<a name='more'></a><div>مـیرا نام ریحان ھے، مـیری عمر 21 سال ھے مـیں اکائونٹنگ کا اسٹودینٹ ہوں، اسلاماباد مـیں رہتھا ہوں سو ھوا یوں کہ مـیں شروع ہی سے اپنی کزن پر خوار تھا اور وہ بھت خوبصورت ھے اس کا فیگر 38 ھے اب اپ خد ہی اندازا لگا سکتے ھیں، اور مـیں نے اسے چودا بھی ھے۔</div><div>ایک دن مـیں اپنی نانی کے گھر رہنے گیـا ہوا تھا مجھے پتا نہیں تھا کہ وہ بھی نانی کے ھاں رکنے آئی ہوئی ھے، مـیں اسے دیکھ کر چونک گیـا اور مجھے اپنا خواب پورا ہوتا دیکھائی دے رھا تھا، کیو نکہ مـیری نانی کے گھر مـیں صرف نانا اور نانی ھی ہیں۔ نانا الگ روم مـیں سوتے ہیں اور مـیں اپنی نانی کے ساتھ سوتا تھا۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی مـیں اٹھا اور دیکھا تو مـیری کزن گھری نیند مـیں سو رھی ھے۔</div><div>مـیں نے کمرے کے اندر جا کر دیکھا تو وہ بھت خوبصورت لگ ہی تھی سوتے وقت مـیں اسے غور سے دیکھنے لگا اسکی عمر 18 سال ھے مگر جونی اس کی عبور پر ھے ۔ مـیں اس کے ممے پر ھاتھ رکھ کر اس کے ممے دبا نے لگا وہ کافی گھری نیند مـیں تھی پھر مـیں اس کی چوت پہ ھاتھ رکھ کر اس مسلنے لگا اور اس کی چوت کو ڑگرنا شروع کردی اور پھر اس کے اوپر لیٹ کر اس کی گرند پرنگ کرنا شروع کردی۔</div><div>تھوڑی دیر مـیں اسکی انکھ کھل گئی اور وہ مجھے منع کرنے لگی مـیں نے اپنی انگلی اس کی چوت مـیں رکھی ہوئی تھی اور اسے گرم کر رھا تھا اور وہ منع کر رھی تھی تھوڑی دیر بعد جب وہ فل گرم ہو گئی اور چدوانے کو رازی ھو گئی مـیں نے اس کی چوت اور اس کی اس کی ٹانگیں چاٹنا شروع کردی۔</div><div>پھر مـیں نے اسے اٹھا یـا اور بھار ھال مـیں لٹا دیـا اور اسے کے اوپر لیٹ کر اسکی پر اپنا لنڈ رکھ کر اس کے ممے چوسنا شروع کردیے اور اس کے ممے دبانا شروع کردے، پھر اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اس کی چوت مـیں ہلکہ ہلکہ لنڈ ڈالنا شروع کردیـا، اس کی اواز نکلی درد ھو رھا ھے مـیں نے کھا شروع مـیں درد ھوتا ھے مگر مزہ بھی آئے گا، اہستہ اہستہ اسکی چوت مـیں پورا لنڈ ڈال دیـا اور اسے مزہ انے لگا۔</div><div>اسے ابھی چودنا شروع ہی کیـا تھا اور وہ فارغ ھو گئی تھی مجھے پتا چل گیـا تھا کیو نکہ مـیرا لنڈ گیلا ھوگیـا تھا، مـیں نے زور زور سے جھٹکے لگا اور اس کے چکنی اور گیلی چوت مـیں اسپیڈ سے لنڈ اندر باھر کرنا شروع کردیـا، اور اسے چود چود کے اس کی کا منہ لال کردیـا تھا اور وہ نڈھال ہو کر لیٹ گئی تھی۔</div><div>پھر مـیں نے اسکی گانڈ مـیں اپنا لنڈ ڈالا اور اس کی گانڈ مارنا شروع کردی اور اسکی گانڈ مـیں بھی تقریباٌ 13منٹ تک جھٹکے مارتا رھا اور پھر اس کے منہ مـیں اپنا لوڑا ڈال دیـا اور وہ چوسنے لگی اور اس طرح چوس رہی تھی کہ مـیرے منی بھی اس کے منہ مـیں چھوٹ گئی اور اسے اسی وقت الٹی ہو گئی مـیں اسے اٹھا کر باتھروم مـیں لے گیـا اسکی ھالت ایسی ہوگئی تھی کے اسےی چیز کا ہوش نہیں تھا ۔ باتھروم مـیں لے جا کر اسے اچھی تریقے سے صاف کیـا اور اسے اس کی جگہ لٹا کر اٹھ گیـا، جب مـیں اٹھ رھا تھا تو اس نے کھا کہ مجھے اتنا مزہ اس سے پھلے کبھی نہیں ایـا۔</div>یہ تھی مـیری کھانی امـید کرتا ہوں اپ کو پسند آئی ہوگی۔

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-26507880766327970512015-01-27T01:18:00.000-08:002015-01-27T01:18:00.651-08:00

چودو چوہدری چدائی کا شوقین

<a name='more'></a><div century="" gothic',="" arial,="" verdana,="" sans-serif;="" font-size:="" 13px;="" font-weight:="" bold;"=""> چوہدری بختیـار جدی پشتی رئیس تھا اور اس کے شوق بھی وہی تھے جو عام طور پر رہیسوں کے ہوتے تھے۔ اس کا باپ اس کے ترکے مـیں 50 مربعے زمـین چھوڑ کر مرا تھا۔<br>اس کی بہنیں شادی کی عمر گزار کر گھر مـیں بیٹھی تھیں،جائداد کے حصے بخرے نہ ہوں اسی لئے وہ کبھی بیـاہی ہی نہ گئی تھیں۔<br>بلقیس اس کی بیوی بھی ایک زمـیندار خاندان سے تھی جو صرف اسی وقت کام آتی تھی جب چوہدری کو اپنا غصہی عورت پر نکالنا ہوتا تھا۔ وہ بیچاری چوہدری کی مار کھاتی اور اسے اپنا فرض سمجھ کر چپ ہو رہتی۔<br>چوہدری عیـاش طبع تو تھا ہی ساتھ مـیں ظالم بھی تھا۔<br>آئے روز لاہور اور گوجرانوالا کے بدنام کوچوں سے رنڈیـاں آتیں اور ہزار بار کے بکے ہوئے سکوں کوی نئے سکے سے بھی زیـادہ دام مـیں بیچتیں۔<br>اس کی رعایـا مـیں سو کے قریب کمـی خاندان تھے جو کئی نسلوں سے اس کے خاندان کی چاکری کر رہے تھے۔ چوہدری ان کو بس ان دیتا کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا دباتا کہ بس جان اٹکی رہے۔<br>یہ کمـی اپنی بہو بیٹیـاں چوہدری کے بستر پر سلانا اپنے لئے خوش بختی سمجھتے۔<br>ادھری کی بیٹی تیرہواں سن پار کرتی اور اس کی شلوار مـیں خون کی پہلی بوند پڑتی تو پاکی نہاتے ہی اس کا باپ اسے چوہدری کے بستر تک چھوڑ آتا۔<br>اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس کی شامت آ جاتی، اس کی بہو بیٹیوں پر چوہدری کے کتے سب کے سامنے ٹوٹ پڑتے۔<br>اگر کوئی اور چوہدری سے پہلےی لڑکی کو جھوٹا کر دیتا تو اس لڑکی پر سارا گاؤں باری باری سوار ہوتا، اس وقت تک جب تک وہ زندگی سے آزاد نہ ہو جاتی۔<br>گاؤں کے لوگوں مـیں غیرت اور عزت جیسے لفظ صرف چوہدریوں کے لئے تھے۔<br>چوہدری کبھی بھیی کو طلب کر لیتا اوری کو اپنے بستر پر لے جاتا۔<br>یہ سب کرنے کے لئے اسےی سے چھپنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اسے رعایـا پر حکومت کرنے کا گر سمجھا جاتا تھا۔<br>بلقیس اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ تھی،اس نے یہی سب اپنے گھر بھی دیکھا تھا۔<br>چوہدری ایک دن ایک غریب لڑکی کو لایـا اور ایک کمرے مـیں اسے زبردستی چودنے لگا۔ لڑکی کی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا۔<br>بلقیس اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ گئی، لڑکی چوہدری کے بھاری وجود کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔ کم خوراک اور سخت محنت نے اسے اتنا موقع ہی نہ دیـا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی گوشت آتا۔ چوہدری کے نشے مـیں اس کی چوت پھاڑنے حد تک مار رہاتھا۔ بلقیس کچھ لمحے تو یہ ننگا ناچ دیکھتی رہی پھر آ گئی۔<br>لڑکی کی چیخیں اب بند ہو گئی تھیں، شاید وہ درد سے بیگانہ گئی تھی یـا ہوش سے۔ ایک ملازمہ اندر گئی اور ادھ مری لڑکی کو ایک چادر مـیں لپیٹ کر اس کے باپ کے حوالے کر دیـا۔<br>اس لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کے کنوارے خون سے سنے چند لال نوٹوں پر جھپٹا،نیم بےہوش بیٹی باپ کی آنکھوں مـیں چمک دیکھ کر اپنی پہلی کمائی پر دل ہی دل مـیں نازاں ہوئی۔<br><br>بلقیس کو اپنی بڑی نند نصرت جو تیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھی وہ اپنے کمرے ہی مل گئی۔ اس نے بلقیس کو<br>بلا لیـا۔<br>نصرت بولی: کی ہویـا بھرجائی، آج تجھے نیند نہیں آئی۔<br>بلقیس : نیند تو شاید آ جاتی مگر اس نمانی کی چیخوں نے سونے نہ دیـا۔<br>نصرت ہنسی: وے جھلی نہ ہو تو یہ کوئی نویں گل ہے کیـا۔<br>بلقیس: نویں تو نہیں بس آج عجیب سا درد ہوا تھا مجھے۔<br>نصرت بولی: کیسا درد بھرجائی کھل کے بول۔<br>بلقیس: رہن دے وڈی باجی تو مـیری چنتا نہ کر سو جا۔<br>نصرت: وے بھلیے لوکے مـیں نے سو کے کیـا کر لینا تو بیٹھ اور بتا۔<br>بلقیس: باجی مجھے اج ایک عجیب سا درد ہویـا کہ چوہدری صیب مـیرے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتا۔<br>نصرت: تیرے ساتھ مطلب، تو تو اس کی زنانی ہے، تیرے ساتھ ایسا کیوں کرے گا۔<br>بلقیس: کنا ویلے ہو گیـا چوہدری نے مجھے ھاتھ نہیں لگایـا ویـاہ کے بعد تو بس وہی کمـی کمـیں عورتیں یـا رنڈیـاں ہی اس کے ساتھ سوتی ہیں۔ اج مـیرے من مـیں ہوک اٹھی کہ کنا چنگا ہوتا کہ اس نمانی کے بدلے مـیں چیخ رہی ہوتی۔چوہدری بھلے درد دیتا پر دیتا تو صحیح۔<br>نصرت نے گہری سانس لی اور بولی: بھرجائی یہ جو مرد ہوتا ہے نا اسے اپنا نالہ تو کھلا پسند ہے مگر گھر کی عورتوں کا نالہ اسےا ہوا چاہئیے۔ اپنے لئے تو سارے عورتیں جائز ہیں پر اپنی عورت کے لئے سب حرام۔ جس آگ مـیں تو سال سے جل رہی ہے مـیں اٹھارہ سال سے جل رہی ہوں۔<br>جو درد تجھے اج ہویـا ہے وہ مجھے اٹھارہ سال پہلے ہوتا تھا جبی نمانی کی چیخیں نکلتی تو مـیں سوچتی کہ کوئی مـیری بھی یوں چیخیں نکالے۔ جبی کو جھوٹا چوہدری کو کھلانے کی سزا ملتی تو مـیں روتی کاش اس گاؤں کا ہر مرد مـیرے اوپر چڑھ ڈورے، مـیں مرد کی نیچے سے ہی مر جاؤں۔<br>بلقیس یہ سب سن کے حیران تھی کہ اس کی نند اسی دور سے گزر چکی ہے۔<br>نصرت بولی: مـیری اگ تو بجھ گئی ہے تجھے تو اٹھارواں لگا ہے تیری شلوار تو ابھی تر ہے تو اس اگ مـیں کیوں جلے۔<br>بلقیس: کیـا مطلب وڈی باجی۔<br>نصرت: ویکھ مـیرا ویـاہ ہوتا تو اج تیرے جتنی مـیری دھی ہوتی، مرد کی اگ پہ تو قطرے گرتے رہتے ہیں عورت کی اگ اسے آپ بجھانی پڑتی ہے۔ اگلا بوہا(دروازہ) بند ہوے تے پچھلی کھڑکی کھول لینی چاہی دی ہے۔<br>بلقیس:مگر۔۔ ۔ ۔<br>نصرت: اگر تو اس اگ کو پالتی رہی تو اک دن یہ تجھے ساڑ دے گی، چوہدری کا کیـا ہے نویں زنانی آ جائے گی، تجھے مرجھانا نہیں ہے بلکہ ایس کو نال نال بجھانا بھی ہے۔ بانی گرتا رہے تے زمـین بنجر نہیں ہوندی۔<br>بلقیس: لیکن اگری کو پتہ لگ فیر۔<br>نصرت: فیر کی روز روز مرنے سے اک واری چنگا۔<br>بلقیسی حد تک مطمئن ہو گئی تھی مگر ڈر بھی رہی تھی۔<br>بلقیس: پر یہ ہو گا کیسے۔<br>نصرت: ویسے جیسے چوہدری کڑی لاتا ہے تو منڈے لے ائے گی۔<br>بلقیس: مگر کیسے<br>نصرت: تو مجھ پہ چھوڑ دے، پرسوں کی رات چوہدری کے ڈیرے پہ کنجریـاں ناچیں گی، چوہدری ویلے سے نہیں مڑے گا، تو بس تیـار رہنا۔<br>بلقیس جو شاید پچھلے سوا سالہ شادی شدہ زندگی مـیں ایک دو بار چدی تھی اب اس آگ کے ھاتھوں بے چین ہو گئی تھی۔</div><div century="" gothic',="" arial,="" verdana,="" sans-serif;="" font-size:="" 13px;="" line-height:="" 20px;="" margin-bottom:="" 5px;="" margin-left:="" 5px;="" margin-right:="" 5px;="" margin-top:="" 5px;="" padding-bottom:="" 0px;="" padding-left:="" 0px;="" padding-right:="" 0px;="" padding-top:="" 0px;="" text-align:="" -webkit-auto;"=""> </div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3573578138858460113.post-92054349697022597062015-01-26T22:14:00.000-08:002015-01-26T22:14:00.412-08:00

تیل مالِش اور زبردست چدائی

<a name='more'></a><div><span>مـیری اِس کہانی کو پڑھنے والی سبھی چُوتوں اؤر لؤڑوں کو مـیرا بار بار سلام !<br><br>دوستو ! اِس کہانی کو پڑھکر چُوتیں اؤر لنڈ پانی چھوڑ دیںگے، یہ مـیرا آپسے وادا ہے اؤر آپکا بھی من چُدائی کے لِئے بیکرار ہو جاّیگا۔<br><br>دوستوں مـیرا نام سُنیل ہے، اُمر 28 اؤر لمبائی 6 فُٹ ہے ۔ ہمارا پرِوار ایک سںیُکت پرِوار ہے۔ مـیں آج آپکو اَپنے جیون کی ایک سچّی گھٹنا کے بارے مـیں بتانے جا رہا ہُوں۔ اِسکے باد سے تو مـیری جِندگی ہی ایک ی فِلم جیسی ہو گئی۔ ہمارے پرِوار کے سدسے کِسی کی شادی مـیں گئے ہُئے تھے اؤر ہمارے گھر مـیں کوئی نہیں تھا۔ اِس لِیے مـیں شام کو گھر واپِس آ گیـا اؤر پڑوس والی چاچی کے گھر چلا گیـا۔ مـیرے چاچا فؤج مـیں تھے اؤر کُچھ دِن پہلے ہی چھُٹّی بِتاکر واپِس گئے تھے اِسلِیے مـیری چاچی گھر پے اَکیلی رہتی تھی۔ گھر مـیں ویسے تو اُنکے ساس سسُر بھی تھے پر وو بات کہاں تھی کِ جو اُنکے سُکھ دُہکھ باںٹ سکیں۔<br><br>مـیری چاچی کی اُمر 26 سال اؤر لمبائی 5'8" ہے اؤر اُنکی فیگر 36-32-36 کی ہے اُنکی شادی کو سات سال بیت چُکے تھے۔ پر اُنہیں اؤلاد کا سُکھ نسیب نہیں ہُآ تھا۔ آج بھی وو بڑی ی نزر آتی ہیں۔ جب پہلے بھی کبھی مـیں اؤر چاچی گھر مـیں اَکیلے ہوتے تھے تو مـیںنے کئی بار جھُک کر کام کرتے سمے اُنکی گوری-گوری چھاتی دیکھی تھی۔ اُنکے وو بڑے بڑے ستن ہمـیشا ہی مـیری آںکھوں کے سامنے گھُومتے رہتے تھے۔ مـیری ماں نے چاچی کو کہ رکھا تھا کِ رات کو ہمارے گھر پر سو جانا۔<br><br>شام کو مـیں چاچی کے گھر چلا گیـا۔ جب چاچی گھر کا کام کر رہی تھی، اُنہوںنے کالے رںگ کا سُوٹ اؤر سپھید سلوار پہنا ہُآ تھا۔ گرمـی کا مؤسم ہونے کے کارن اُنکے کپڑے پتلے تھے اؤر اُسمـیں سے اُنکے اَںدرُونی کپڑے برا اؤر چڈّی ساف نزر آ رہے تھے۔ مـیں اُس وکت ٹیوی دیکھ رہا تھا لیکِن مـیرا پُورا دھیـان چاچی کی گاںڈ اؤر بڑے بڑے ستنوں پر تھا۔ رات کو کھانا کھاکر مـیں اَپنے گھر آ گیـا۔ چاچی نے کہا کِ وو کام نِپٹا کر تھوڈی دیر مـیں آ رہی ہے۔ مُجھے دیر تک ٹیوی دیکھنے کی آدت ہے اِسلِیے مـیں کریب رات 9:30 تک ٹیوی دیکھتا رہا۔<br><br>تبھی چاچی آ گئی۔ اُسکے باد مـیںنے گھر کے سبھی درواجے چیک کرکے بںد کر دِئے۔ مـیںنے چاچی کا بِستر بھی اَپنے کمرے مـیں لگا دِیـا تھا۔ تھوڑی دیر تک ہمنے ٹیوی دیکھا، پھِر چاچی مُجھسے کہنے لگی کِ اُسے نیںد آ رہی ہے اؤر وو سو رہی ہے۔<br><br>مـیںنے کہا- ٹھیک ہے، تُم سو جاّو۔<br><br>اُسکے باد مـیں کریب ایک گھںٹا اؤر ٹیوی دیکھتا رہا۔ سونے سے پہلے جب مـیں پیشاب کرنے کے لِیے جانے لگا تو مـیںنے دیکھا کِ چاچی اَبھی تک جاگ رہی ہے۔ مـیںنے پیشاب کرکے واپِس آ کر چاچی سے پُوچھا- کیـا بات ہے، آپکو نیںد کیوں نہیں آ رہی؟<br><br>تو چاچی نے بتایـا کے اُسکے پیٹ مـیں بڑا درد ہو رہا ہے۔ تو مـیںنے اُنسے پُوچھا کِ کیـا مـیں اُنکی کوئی مدد کر سکتا ہُوں تو اُنہوںنے کہا- پلیز ! سرسوں کے تیل سے مـیرے پیٹ کی تھوڑی مالِش کر دوگے؟<br><br>تو مـیںنے کہا- ٹھیک ہے۔<br><br>مـیں سرسوں کا تیل لیکر آ گیـا۔ اُنہوںنے اَپنے پیٹ پر سے کمـیج اُوپر کر دِیـا، مـیںنے اُنکے پیٹ کی مالِش کرنی شُرُ کر دی۔ مـیں کریب 30 مِنٹ تک اُنکی مالِش کرتا رہا۔ اُسکے باد اُنکے پیٹ کا درد کُچھ ٹھیک ہو گیـا پر اَبھی بھی تھوڑا سا تیل بچ گیـا تھا تو اُنہوںنے کہا کِ اِسے اُنکی پیٹھ پر لگا دو۔<br><br>چاچی کی پیٹھ سے اُنکا کمـیج ٹھیک سے اُوپر نہیں ہو رہا تھا تو چاچی بولی- چلو مـیں کمـیج ہی اُتار دیتی ہُوں۔<br><br>چاچی کمـیج اُتار کر لیٹ گئی اؤر مـیں اُنکی لاتوں پر بیٹھ کر اُنکی پیٹھ کی مالِش کرنے لگ گیـا۔ ایسا کرتے سمے مـیںنے کئی بار اَپنا ہاتھ اُنکے ستنوں پے لگایـا پر وو کُچھ ن بولی۔ پھِر مالِش کرنے کے باد اَپنے بِستر مـیں چلا گیـا۔<br><br>اَبھی مُجھے لیٹے ہُئے تھوڑا وکت ہی ہُآ تھا کِ چاچی مـیری چارپائی کے پاس آ گئی اؤر مـیرے اُوپر بیٹھ گئی۔ مُجھے پتا نہیں چل رہا تھا کِ مـیں کیـا کرُوں۔<br><br>مـیںنے چاچی سے پُوچھا- آپ یہ کیـا کر رہی ہو؟<br><br>تو وو بولی- آج تُونے مـیرے ستنوں کو ہاتھ لگا کر کئی سالوں سے مـیرے اَںدر کی سوئی ہُئی اؤرت کو جگا دِیـا ہے اؤر اَب اِسکی گرمـی کو ٹھںڈا بھی تُمہیں ہی کرنا پڑیگا۔<br><br>وو چاچی جِسکے ساتھ نںگا سونے کے مـیں سِرف سپنے ہی دیکھتا تھا وو آج مـیرے اُوپر بِنا کمـیج کے بیٹھی ہُئی تھی۔ مـیرا سپنا سچ ہونے جا رہا تھا اِس لِیے مـیں بہُت کھُش تھا۔<br><br>پھِر مـیںنے اؤر چاچی نے اَپنا کام شُرُ کر دِیـا۔ اُسنے اَپنے ہوںٹھ مـیرے ہوںٹھوں مـیں ڈال لِیے اؤر 10 مِنٹ تک مُجھے چُومتی رہی۔ پہلے مـینے اَپنی جیبھ چاچی کے مُںہ مـیں ڈال دی اؤر پھِر اُسنے مـیرے۔ پھِر چاچی نے اَپنی سلوار اُتار دی اؤر اَب اُسنے سِرف برا اؤر چڈّی ہی پہنی ہُئی تھی۔ پھِر وو بِستر پر لیٹ گئی اؤر مـیں اُسکے اُوپر۔<br><br>پھِر ہم دونوں کافی وکت تک ایک دُوجے کو چُومتے رہے، کبھی مـیں اُسکی چھاتی کو چُومتا، کبھی اُسکے پیٹ کو، تو کبھی لاتوں کو۔ پھِر چاچی نے اَپنی برا اُتار دی اؤر مـیںنے اُنکے بڑے بڑے بُوبس چُوسنے شُرُ کر دِیـا۔ اُسکے چُوچُک سکھت ہو گئے تھے اؤر چُوچی سکھت کٹھور ہوتی جا رہی تھی۔ مـیں اُنہیں مست ہوکر چُوسے جا رہا تھا۔<br><br>پھِر چاچی نے اَپنی چڈّی بھی اُتار دی اؤر مـیرے ساتھ لیٹ گئی۔ چاچی کی چُوت بہُت بڑی تھی۔ مـیںنے اُسکو چاٹنا شُرُ کر دِیـا۔ پھِر 5-6 مِنٹ مـیں چاچی پہلی بار جھڑ گئی۔ اُسکے باد چاچی نے مـیرا بڑا سا لںڈ اَپنے مُںہ مـیں ڈال لِیـا اؤر چُوسنے لگ گئی مـیںنے بھی اُنکے مُںہ مـیں ہی پِچکاری مار دی۔<br><br>پھِر چاچی نے کہا- چلو اَب اَسلی کام کرتے ہیں !<br><br>چاچی ٹاںگوں کو تھوڑا کھول کر سیدھی لیٹ گئی۔ مـیںنے اُوپر سے اَپنا لںڈ چاچی کی چُوت مـیں ڈال دِیـا، وو بہُت کھُش تھی کیوںکِ آج بہُت وکت باد اُسکی چُوت مـیں لںڈ گھُسا تھا۔ مـیںنے لںڈ کو آگے پیچھے کرنا شُرُ کر دِیـا۔ چاچی نے بھی آآاَ اِیئے اُواُوہ ماآ ہاآ ہاَّ کی آوازیں نِکالنی شُرُ کر دی۔ مـیں کریب تیس مِنٹ تک چاچی کی چُوت چودتا رہا، اِسمـیں چاچی دو بار جھڑ چُکی تھی۔<br><br>پھِر مـیںنے چاچی کو کہا- مـیں اَب تُمہیں گھوڑی کی ترہ چودنا چاہتا ہُوں۔<br><br>چاچی گھوڑی بن گئی، مـیںنے لںڈ کو پیچھے سے اُسکی چُوت مـیں گھُسیڑ دِیـا۔ چاچی کی چُوت پیچھے سے بڑی تںگ مہسُوس ہو رہی تھی۔ اُنہیں درد ہُآ اؤر وو چِلّا دی- آایئیئیئیئیئیئیئیئے ماآّآّاَ !<br><br>مـیںنے جور جور سے لںڈ آگے پیچھے کرنے شُرُ کر دِیـا اؤر 15 مِنٹ تک چاچی کو چودتا رہا۔ مـیںنے چاچی جیسی گرم اؤرت کی کبھی نہیں لی تھی۔ پھِر مـیرا چھُوٹ گیـا اؤر مـیں چاچی کو چُومنے لگ گیـا۔ تھوڑی دیر مـیں ہی لںڈ پھِر سے سلامـی دینے لگا۔ پھِر چاچی نے بولا کِ مـیں ایک بار پھِر اُنکی چُوت مارُوں !<br><br>اِس بار وو مـیرے اُوپر بیٹھ گئی اؤر اَپنے آپ ہِل ہِل کر دھکّے دینے لگی۔ مُجھے بڑا مزا آ رہا تھا۔ پھِر مـیںنے اُس ساری رات چاچی کی چار بار چُوت ماری۔ چاچی نے مُجھسے سُبہ کہا کِ اَب اُنکی تمنّا جرُور پُوری ہو جایّگی۔<br><br>اِسکے باد جب بھی ہمـیں مؤکا مِلتا، ہم یہ کھیل کھیلتے رہے۔ کُچھ مہینے باد چاچی نے ایک دِن مُجھے بتایـا- مـیں ماں بنّے والی ہُوں اؤر یہ سب تُمہاری ہی بدؤلت ہے کِ مُجھے ماں بنّے کا سُکھ مِلا ہے پر مُجھے ڈر ہے کِ تُم کہیں یے سب کِسی کو کہ ن دو۔<br><br>مـیںنے چاچی کو وِشواس دِلایـا کِ ایسا کبھی نہیں ہوگا اؤر یہ بات ہمارے بیچ ہی رہیگی۔<br><br>اُس دِن سے آج تک پتا نہیں مـیں کِتنی ہی ایسے چاچِیوں اؤر بھابھِیوں کو یے سُکھ دے چُکا ہُوں۔<br><br>تو دوستوں مُجھے مـیل کرنا ن بھُولیں، آپکے مـیل کا اِںتجار رہیگا۔</span></div>

likexvideos.comhttp://www.blogger.com/profile/16950352719822575802noreply@blogger.com2




[چوت چٹا ی کہانی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Thu, 09 Aug 2018 19:20:00 +0000



چوت چٹا ی کہانی

سپنوں کا سوداگر از جٹ صاحب - Urdu Adult Inpage Stories ...

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

تمام ممبرز فورم پر موجود ایڈز پر ضرور کلک کریں تاکہ فورم کو گوگل کی طرف سے کچھ اررننگ حاصل ہو سکے۔ آپ کا ایک کلک روزانہ فورم کے لیئے کافی ہے

(._.)Milestone(._.)    19,196

  • Super Moderator & Designer
  • Members
  • 19,196
  • 5,178 posts

shahid ch ok    39

  • Registered User
  • Members
  • 39
  • 8 posts

WET Eyes    385

  • Senior Member
  • Members
  • 385
  • 403 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

Guru Samrat    4,490

  • Regular Donor / Sponsor
  • Co Administrators
  • 4,490
  • 834 posts

(._.)Milestone(._.)    19,196

  • Super Moderator & Designer
  • Members
  • 19,196
  • 5,178 posts

hitreek    43

  • Registered User
  • Members
  • 43
  • 14 posts

Guru Samrat    4,490

  • Regular Donor / Sponsor
  • Co Administrators
  • 4,490
  • 834 posts

hitreek    43

  • Registered User
  • Members
  • 43
  • 14 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

Administrator    11,199

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

(._.)Milestone(._.)    19,196

  • Super Moderator & Designer
  • Members
  • 19,196
  • 5,178 posts
: چوت چٹا ی کہانی ، چوت چٹا ی کہانی




[چوت چٹا ی کہانی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Tue, 31 Jul 2018 04:21:00 +0000



چوت چٹا ی کہانی

سپنوں کا سوداگر از جٹ صاحب - Page 3 - Urdu Adult Inpage ...

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

تمام ممبرز فورم پر موجود ایڈز پر ضرور کلک کریں تاکہ فورم کو گوگل کی طرف سے کچھ اررننگ حاصل ہو سکے۔ آپ کا ایک کلک روزانہ فورم کے لیئے کافی ہے

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

(._.)Milestone(._.)    19,196

  • Super Moderator & Designer
  • Members
  • 19,196
  • 5,178 posts

Sexy Girl Aashi    79

  • Inactive Members
  • Members
  • 79
  • 18 posts

Ghost Rider    4,370

  • Members
  • 4,370
  • 1,306 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

Ghost Rider    4,370

  • Members
  • 4,370
  • 1,306 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

Ghost Rider    4,370

  • Members
  • 4,370
  • 1,306 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts

athra jutt    204

  • Great Writer
  • Members
  • 204
  • 430 posts
: چوت چٹا ی کہانی ، چوت چٹا ی کہانی




[چوت چٹا ی کہانی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Fri, 07 Sep 2018 04:34:00 +0000



چوت چٹا ی کہانی

urdu story: 11/06/17

جب وہ چلتی ہوئی کھوکھے کے پیچھے غائب ہو گئیں ۔۔۔تو اس کے تھوڑی دیر بعد۔۔۔ مـیں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنے آزار بند پر ہاتھ رکھا۔۔۔اور ایسے شو کرنے کرنے لگا کہ جیسے مجھے سخت پیشاب لگا ہے۔۔۔ اور تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے کھوکھے کے قریب پہنچ گیـا۔۔۔ مـیں نے آنٹی کو ٹرک کے پیچھے کھڑے ہونے کو کہا تھا لیکن اس کے برعوہ کھوکے کے بلکل پیچھے کھڑی تھیں ۔۔ جیسے ہی مـیں وہاں پہنچا ۔۔۔تو مجھے دیکھ کر کہنے لگیں کہ تم نے تو پہلے ہی نالے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے تو اس پر مـیں ان کے قریب ہوتے ہوئے بولا۔۔ مـیرا بس چلتا تو مـیں ننگا ہی۔۔۔۔۔ آپ کے پاس چلا آتا ۔۔ مـیری بات سن کر انہوں نے مـیرے آزار بند پر ہاتھ رکھا اور اسے کھولتے ہوئے بولیں تمہارے کہنے پر مـیں ادھر آ تو گئیں ہوں۔۔۔ لیکن یقین کرو کہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے اس لیئے پلیز واپس نہ چلیں؟ ۔۔۔ اتنی دیر مـیں وہ مـیرا نالا کھول چکیں تھیں۔۔۔ اور جیسے ہی مـیرا آزار بند کھلا ۔۔۔۔۔ مـیری شلوار نیچے گر گئی۔۔اور مـیرا لن جھوم کر ان کے سامنے آ گیـا۔۔۔۔ چنانچہ وہ مـیرے لن کو ہاتھ مـیں پکڑ تے ہوئے بولیں۔۔۔۔ تمہاری اس بلا نے مجھے یہاں تک آنے پر مجبور کیـا ہے ورنہ ۔۔۔ تمہیں اندازہ نہیں کہ اس وقت مـیرا قدر بہت برا حال ہے ۔۔۔۔ان کی بات سن کر مـیں آگے بڑھا۔۔۔۔ اور ان کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے بولا۔۔۔ نسرین جی آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔کہ آپ نے مـیری خاطر اتنا رسک لیـا۔۔۔اور ساتھ ہی ان کے منہ مـیں اپنا منہ ڈال لیـا۔۔ ابھی مـیں نے ان کے نرم ہونٹوں کو چوسنا شروع کیـا ہی تھا کہ وہ کہنے لگیں قسم سے مجھے بلکل بھی مزہ نہیں آ رہا ۔۔۔ لیکن مـیں تمہارا مزہ خراب نہیں کروں۔۔یہ کہتے ہی وہ زمـیں پر اکڑوں ہو کر بیٹھ گئیں ۔۔اور مـیرے لن کو اپنے منہ مـیں لے کر چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔ ادھر وہ مـیرے چوپے لگا رہیں تھیں اور مـیں یہ سوچ رہا تھا کہ مـیں تو انہیں شانت کرنے کے لیئے ادھر لایـا تھا جبکہ وہ بے چاری مجھے شانت کر رہی تھیں یہ سوچ کر مـیں نے ان کو بازو سے پکڑ کر اوپر اُٹھانے لگا تو وہ لن کو اپنے منہ سے نکال کر بولیں۔۔۔اب کیـا ہوا۔۔۔؟۔اچھا خاصہ تو چوس رہی تھی ۔۔تو مـیں ان کو اوپر اُٹھاتے ہوئے بولا۔۔ مـیں تو آپ کو شانت کرنے کے لیئے لایـا تھا۔۔اور آپ۔۔۔اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔۔ مـیں نے جیسے ہی ان کی شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایـا تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ نہیں یـار مـیں شلوار نہیں اتاروں گی۔۔ پھر کہنے لگی بلکہ تم بھی پہن لو ہم ایسے ہی مستی کر لیں گے۔۔۔ چنانچہ ان کے کہنے پر مـیں نے بھی شلوار پہن لی اور۔۔۔ پھر ان کا منہ کھوکھے کی طرف گھما کے ۔۔۔۔۔۔ دونوں ہاتھ دیوار پر رکھوائے ۔۔۔ اور ان کو بولا۔۔۔کہ اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کر دیں۔۔۔ ۔۔۔ جو انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ کر دی۔۔۔ اور پھر مـیں نے ان کی قمـیض کو گانڈ سے ہٹایـا۔۔۔ ۔۔۔۔اور اپنے لن کو ان کی نرم گانڈ کے پر رکھ کر تھوڑا سا دبایـا ۔۔۔تو ان کی گانڈ کے نرم مـیں مـیرے لن کا اگلا سرا پھنس گیـا۔۔۔ اس پر وہ گٹھی گھٹی آواز مـیں بولیں۔۔۔ تیرا لن مـیری بنڈ مـیں گھس گیـا ہے۔۔۔ تو مـیں بھی سرگوشی مـیں بولا۔۔۔۔۔ آپ اپنی گانڈ کو مـیرے لن پر دبائیں۔۔مـیری فرمائیش سننے کے بعد انہوں نے بلا توقف ۔۔۔۔مریے لن پر گھوٹ مارنی شروع کر دی۔۔۔۔۔اور گھوٹ مارتے مارتے سرگوشی مـیں بولیں۔۔تمہیں مزہ مل رہا ہے نا۔۔ تو مـیں نے بھی گھسہ مارتے ہوئے کہا۔۔۔ اگر آپ کا یہ اس وقت ننگا ہوتا تو مـیرا مزہ دوبالا ہو جانا تھا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی مـیں نے ان کی چھاتیوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر باری باری ۔۔۔۔۔انہیں دبانے لگا۔۔اور وہ بڑی شہوت کے ساتھ گھوٹ مارنے لگیں ۔۔ کچھ دیر گھسے مارنے کے بعد مـیں نے ان کی گانڈ مـیں پھنسے ہوئے لن کو باہر نکالا اور ان کو سیدھا کھڑے ہونے کو کہا۔۔۔اور پھر جیسے ہی وہ سیدھی ہو کر کھڑی ہوئیں مـیں وقت ضایع کیئے بغیر ۔۔ نیچے بیٹھ گیـا۔۔۔۔ اور ان کو ٹانگیں کھولنے کو کہا۔۔۔ مـیری بات سن کر انہوں نے اپنی ٹانگیں کھولیں اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔ کیـا کرنے لگے ہو؟ تو مـیں نے کوئی جواب دیئے بغیر ان کی لمبی قمـیض کو ایک طرف کر کے۔۔۔۔۔۔گیلی شلوار کے اوپر سے ہی ان کی چوت پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔اُف ف ف ف ف ف ۔۔حسبِ توقع ان کی گیلی چوت سے بہت ہی مست اور ی سمـیل کے لپٹے نکل رہے تھے ۔۔ اور ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی چوت بہت تیزی کے ساتھ لیک کر رہی تھی ۔۔۔۔اور ان کی شلواردار پانی سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔ ۔۔ مـیں نے شلوار کے اوپر سے ہی ان کی چوت پر اپنے دانت رکھے اور انہیں ہلکا ہلکا کاٹنا شروع ہو گیـا۔۔ مـیری اس حرکت سے وہ ی آواز مـیں بولیں ۔۔آہ۔۔اوہ ۔۔۔ یہ کیـا کر رہے ہو۔۔۔ آہ مزہ ۔۔۔ اور دانت کاٹتے کاٹتے اچانک مـیرے دانت۔۔۔۔ ایک ایسی جگہ پر جا پڑے۔۔۔۔۔ کہ جہاں سے ان کی شلوار تھوڑی سی پھٹی ہوئی تھی۔۔۔ یہ محسوس کرتے ہی مـیں نے اپنے منہ کو وہاں سے ہٹایـا۔۔۔اور اس چھوٹے سے مـیں انگلی ڈال کر ان کی شلوار کا پھاڑنا شروع ہو گیـا۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ نیچے جھکیں اور کہنے لگیں ۔۔۔ ارے ارے۔۔ مـیری شلوار کیوں پھاڑ رہے ہو۔۔۔لیکن مـیں نے کوئی جواب نہ دیـا ۔۔اور جب ان کی شلوار کافی حد تک پھٹ گئی۔۔۔تو مـیں نے اس پھٹی ہوئی شلوار کو ان کی چوت پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ان کی ننگی چوت کو چاٹنا شروع ہو گیـا۔۔۔۔ جیسے ہی مـیری زبا ن ان کی ننگی چوت کے ساتھ ٹچ ہوئی۔۔۔تو انہوں نے ایک مست سسکی لی۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔۔ مـیری چوت مـیں زبان ڈال ۔۔۔ ان کی بات سن کر مـیں نے اپنی زبان کو گول گول بنایـا اور ان کی چوت مـیں ڈال دی۔۔اُف ۔۔کیـا بتاؤں ان کی چوت بہت ہی گرم اور مست بوُ والی تھی۔۔۔ اور مـیں کافی دیر تک ان کی چوت کو چاٹتا رہا۔۔۔ اسی دوران وہ سسکی لیتے ہوئی بولی۔۔پھدی چاٹتے ہوئے۔۔۔۔ اپنی ایک انگل مـیری گانڈ مـیں بھی ڈال۔۔۔۔۔۔ ان کی گانڈ مـیں انگلی ڈال کر چوت چاٹتے ہوئے وہ ایک دو بار چھوٹی بھی ۔۔۔ لیکن ان کی چوت کی اکڑن کم نہیں ہو رہی تھی۔۔۔یہ دیکھ کر مـیں نے ۔۔ان کی گانڈ مـیں دی ہوئی انگلی کو باہر نکالا۔۔۔۔۔اور اپنی دو انگلیوں کو ان کی چوت مـیں ڈال دیـا ۔۔۔اور بڑی تیزی کے ساتھ ان آؤٹ کرنے لگا۔۔۔۔مـیرے ایسے کرنے سے ان کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔اور وہ ۔۔مزے مـیں چوُر۔۔۔مست لہجے مـیں بولیں۔۔۔ اور تیز گھما ۔۔۔۔۔۔ لن کی طرح اندر باہر کر۔۔۔ اور مـیں نے ایسا ہی کیـا۔۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔۔ ہی ان کی چوت خود بخود ہی کھل بند ہونے لگی۔۔۔اور مـیں سمجھ گیـا۔۔۔ کہ مـیڈم نسرین فائینل راؤنڈ مـیں پہنچ گئیں ہیں ۔۔۔۔اور مـیں نے اپنی انگلیوں کی رفتار تیز کر دی ۔۔۔تیز ۔۔۔۔۔اور تیززززززززززززززززززززز۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کی چوت مـیری دو انگلیوں کے ساتھ چمٹ گئیں اور اس کے ساتھ ہی نسرین آنٹی۔۔نے مجھے بالوں سے پکڑا۔۔ اور مـیرے منہ کو اپنی چوت پر دبا دیـا۔۔۔۔ ۔۔۔اور خود ہانپتے ہوئے آرگیزم کرنے لگیں۔۔۔ فارغ ہونے کے بعد جب وہ نارمل ہو گئیں تو ہم اسی فارمـیٹ کے تحت وہاں سے باہر آ گئے۔۔ ۔۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگیں کہ مـیرے ساتھ آؤ مـیں نے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں اور پھر ہم چلتے ہوئے اسی چوک پر پہنچ گئے کہ جہاں سے چلے تھے وہاں پہنچ کر وہ بڑے ہی خوش گوار موڈ مـیں کہنے لگیں۔۔ ۔ تمہیں معلوم ہے کہ بڑے عرصے کے بعد مـیں نے اتنا زیـادہ آگریزم کیـا ہے۔جس کی وجہ سے مـیری بے چینی ختم ہو گئی ہے۔۔۔پھر مـیرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔۔تو اس پر مـیں نے ان سے کہا کہ شکریہ کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔آپ شانت ہو گئیں۔۔ مـیرے لیئے یہی کافی ہے مـیری بات سن کر اچانک وہ چونک کر بولیں۔۔۔۔ مـیں تو شانت ہو گئی یـار پر ۔۔۔۔ تم تو ویسے کے ویسے رہ گئے۔۔۔ تو مـیں نے ان سے کہا کہ کوئی بات نہیں ۔۔۔ حساب برابر ہو گیـا ہے وہ کہنے لگیں وہ کیسے؟؟؟؟؟ تو مـیں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ مـیں ۔۔۔۔ تو وہ ایک دم ہنستے ہوئے بولیں۔۔۔اچھا تو تم اس دن کی بات کر رہے ہو۔ کچھ دیر گپ شپ لگانے کے بعد وہ کہنے لگیں کہ دیکھو مجھے تمہاری ٹرک والی جگہ بلکل پسند نہیں آئی ۔۔۔۔ تو اس پر مـیں نے ان سے کہا کہ مجبوری ہے نسرین جی۔۔۔ اور کوئی جگہ بھی تو نہیں ہے نا۔۔۔۔ مـیری بات سن کر وہ سوچ مـیں پڑ گئیں اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگیں۔۔۔ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ پھر مـیری آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال کر بولیں۔۔۔۔۔مـیرے گھر چلو گے؟ تو مـیں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔کہ آپ جیسی خوب صورت اور ی لیڈی کے ساتھ تو مـیں جہنم مـیں بھی جانے کے لیئے تیـار ہوں ۔۔ لیکن یہ بتائیں کہ آپ کا گھر محفوظ تو ہے نا؟ مـیرا مطلب ہے کہ آپ کے گھر والے خاص طور پر ۔۔۔ آپ کا گھر والا۔۔۔ ؟ مـیری بات سن کر وہ بڑی ہی نفرت سے بولیں۔۔۔ مـیرا گھر والا۔۔۔؟؟ اور پھر اسی نفرت بھرے لہجے مـیں کہنے لگیں ۔۔۔۔ نہیں وہ بہت لیٹ گھر آتے ہیں اس پر مـیں نے ویسے ہی پوچھ لیـا کہ وہ کام کیـا کرتے ہیں؟ تو آگے سے وہ کہنے لگیں اس کی موتی بازار مـیں دکان ہے اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ موتی بازار مـیں بے شمار پھدیـاں ملتی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور وہ دن رات ا نہیں مـیں گم رہتا ہے اسی لیئے۔۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد وہ چپ ہو گئیں ۔۔۔اتنی سی بات سے مـیں ان کی سیفرسٹیشن کی وجہ سمجھ گیـا۔۔۔لیکن چپ رہا۔۔۔۔ دوسری طرف کچھ دیر چُپ رہنے کے بعد۔۔۔ وہ کہنے لگیں ۔۔۔ تم نے کمـیٹی محلہ دیکھا ہے؟ اور جب مـیں نے ہاں کہا۔۔۔ تو انہوں نے مجھے اپنے گھر کا پتہ سمجھانا شروع کر دیـا۔اور جب مـیں نے ان کے بتائے ہوئے پتے کو نہ صرف سمجھ لیـا بلکہ آس پاس کی نشانیـاں بھی بتا دیں ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں گُڈ۔۔۔۔ تم ایسا کرنا کہ کل صبع گیـارہ بجے تم مـیرے گھر آ جانا اس وقت تک مـیرا مـیاں شاپ پر ۔۔اور بچے سکول چلے گئے ہوں گے۔۔اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگی اور ہاں جب مـیں تم سے پوچھوں کہ کیسے آنا ہوا ؟۔۔۔ تو تم نے جواب مـیں یہی کہنا ہے کہ امـی نے کمـیٹی کے سلسلہ مـیں بھیجا ہے۔ پھر مـیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ دیکھو تم مـیری زندگی کے پہلے مرد ہو کہ جسے مـیں اپنے گھر مـیں بلا رہی ہوں۔۔۔ اس لیئے پلیزز۔۔۔ مـیری اور اپنی عزت کا خیـال رکھنا ۔۔۔ تو مـیں نے ان سے کہا کہ وہ کیسے مـیڈم؟ تو آگے سے وہ کہنے لگی۔۔۔ تم نے اس راز کو بس راز رکھنا ہے۔۔ باقی سب مـیں سنبھال لوں گی۔ اس کے بعد کچھ مزید باتیں سمجھانے اور طے کر نے کے بعد۔۔۔ وہ اپنے اور مـیں اپنے گھر کو روانہ ہو گیـا۔۔۔ اگلے دن گیـارہ بجنے مـیں ابھی پانچ منٹ باقی تھے کہ مـیں نسرین آنٹی کی گلی مـیں پہنچ گیـا ۔ اور کال بیل بجا دی۔ تھوڑی دیر بعد دوسری منزل کی کھڑکی کھلی اور وہ اونچی آواز مـیں بولیں۔۔۔ جی بیٹا کیسے آنا ہوا ؟ ۔امـی تو ٹھیک ہیں ناں۔۔۔۔ ؟ چونکہ مـیں ان کے گھر فرسٹ ٹائم گیـا تھا اس لیئے محلے کی کچھ عورتیں بھی تجسس کے ساتھ مـیری طرف دیکھ رہیں تھی ۔ لیکن مـیں نے ان کا کوئی نوٹس نہیں لیـا۔۔ اور نسرین آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے نارمل انداز مـیں بولا۔۔۔ آنٹی امـی نے کمـیٹی کے سلسلہ مـیں بھیجا ہے۔۔ مـیری بات سن کر نسرین آنٹی نے ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔۔۔اور کہنے لگیں ۔۔مائینڈ نہ کرنا بیٹا ا یک تو تیری امـی بھی ناں۔۔۔۔ بہت وہمـی ہے ہر بار کوئی نہ کوئی پرابلم کھڑی کر دیتی ہے پھر ناراضگی بھرے لہجے مـیں بولیں دروازہ کھلا ہے تم اندر آ جاؤ ۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ کھڑکی سے غائب ہو گئی۔ چنانچہ مـیں نے بغیر ادھر ادھر دیکھے دروازے کھولا اور اندر داخل ہو گیـا۔۔۔ ۔۔ جیسے ہی مـیں دروازے سے اندر ہوا تو وہ کہنے لگی۔۔۔ کنڈی لگا کر اوپر آ جاؤ۔ دیکھا تو وہ حسین پری بالکنی مـیں کھڑی ۔۔۔ مـیری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔ چنانچہ ان کے کہنے پر مـیں نے دروازے پر کنڈی لگائی اور سیڑھیـاں چڑھ کے اوپر چلا گیـا۔۔۔ مـیں سیڑھیـاں چڑھ کر جیسے ہی ان کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔ وہ دروازے مـیں اپنی باہیں پھیلا کھڑی تھیں اور پھر جیسے ہی مـیں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیـا۔۔۔اور مـیرے ہونٹ چومتے ہوئے بولیں مـیرا خیـال تھا کہ تم نروس ہو جاؤ گے۔۔ لیکن تم نے تو کمال کی ایکٹنگ کی ہے۔اور اس طرح وہ کافی دیر تک مجھے اپنے ساتھ لپٹائے کھڑی رہیں ان کی بڑی بڑی چھاتیـاں مـیرے سینے مـیں دب سی گئیں تھیں ۔۔۔پھر انہوں نے مجھے ایک چمـی دی اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے مـیرے چہرے کو پکڑا ۔۔۔اور اسے چومنا شروع کر دیـا۔۔۔ اور مـیرے سارے چہرے کو چومتی چلی گئیں۔۔۔پھر آہستہ آہستہ ۔۔۔ان کے ہونٹ مـیرے ہونٹوں تک پہنچ گئے۔۔ اب انہوں نے مـیرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں مـیں لیـا اور انہیں چوسنا شروع ہو گئیں۔۔ہونٹ چوسنے کے بعد ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی زبان کو مـیرے منہ مـیں داخل کرنے کی غرض سے۔۔۔۔۔ زبان نکالی اور مـیرے دانتوں۔۔۔ پر پھیرنے لگیں۔۔ اور پھر دانتوں سے ہوتے ہوئے ان کی زبان جب مـیرے مسوڑھوں تک پہنچی۔۔۔۔تو مـیں نے فوراً ہی اپنا منہ کھول لیـا منہ کھلتے ہی ان کی لپلپاتی ہوئی زبان مـیرے منہ مـیں داخل ہو گئی۔۔۔ اور پھر ۔۔۔نسرین مـیڈم کی ی زبان مـیری زبان سے ٹکرائی۔۔۔۔۔جیسے ہی ہماری زبانوں کا آپس مـیں ٹکراؤ ہوا۔۔۔۔ تو اس کے ساتھ ہی مـیں نے اپنی زبان کو ان کے منہ مـیں گھمانا شروع کر دیـا۔۔۔مـیرے زبان گھمانے سے ان کی زبان بھی مـیری زبان کے ساتھ ٹکرانے لگی ۔۔اور اس ٹنگنگ کے دوران ہم دونوں کے زبانیں اور ان پر لگے تھوک آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے منہ مـیں آ جا رہے تھے۔۔۔ جس کی وجہ سے ہم دونوں کے جسموں مـیں شہوت کی زبردست لہریں ایک ساتھ سفر کر رہیں تھیں۔ وفورِ جزبات سے ہم دونوں کانپ رہے تھے لیکن ۔۔ ایک دوسرے کے منہ سے منہ نہیں ہٹا رہے تھے۔۔۔کسنگ کرتے کرتے دفعتاً وہ ایک دم تڑپیں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک دم سے مـیرے لن کو اپنے ہاتھ مـیں پکڑ لیـا۔۔۔ایک طرف تو وہ مـیرے ساتھ ٹنگنگ کر رہی تھیں ۔۔۔ اور دوسری طرف مـیرے لن کو پکڑے سختی کے ساتھ دباتی بھی جا رہی تھی۔۔۔اسی دوران انہوں نے مـیرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی بھاری چھاتیوں پر رکھ دیـا۔۔۔۔اور مـیں نے بجائے اوپر سے چھاتی کو پکڑنے کے ان کی قمـیض کے اندر ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔ اور برا کو ہٹا کر۔۔۔۔۔اپنے ہاتھ سے ان کی ننگی چھاتی کو پریس کرنا شروع ہو گیـا۔۔۔اب حالات یہ تھے کہ ہمارے منہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔۔۔ ہماری زبانیوں آپس مـیں ٹکرا رہی تھیں۔۔۔ہمارا تھوک ایک دوسرے کے منہ مـیں برابر آ جا رہا تھا۔۔اور ا س کے ساتھ ساتھ وہ مـیرے موٹے تازے لن کو اپنے ہاتھ مـیں پکڑ کر زور زور سے دبا رہیں تھیں۔۔اور مـیں ان کی ننگی چھاتی کو پریس کر رہا تھا۔۔۔۔اور ہم دونوں مزے سے بے حال ہو رہے تھے۔ ہم کافی د یر تک ایسے ہی کرتے رہے۔۔۔ پھر ہمارے جسم ایک دوسرے کے ساتھ جدا ہوئے۔۔۔۔ اور ہم ایک دوسرے کی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے اور پھر ۔۔۔دیکھتے دیکھتے ۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے ۔۔۔ پر اس دفعہ لپٹنے کا یہ وقفہ کافی قلیل تھا ۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم دونوں ہی سیآگ مـیں بری طرح سے جل رہے تھے۔۔اس دفعہ جیسے ہی ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔۔بنا کوئی بات کیئے ہم دونوں نے اپنے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے۔۔۔ اور اگلے چند لمحوں کے بعد ہم دونوں بلکل ننگے کھڑے ۔۔۔ایک دوسرے کو شہوت بھری نطروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کی بھوکی نظریں مسلسل مـیرے لن کی طرف لگی ہوئیں تھیں۔۔ جو اس وقتی لوہے کے راڈ کی طرح ا کڑا کھڑا تھا۔۔۔ وہ کچھ دیر تک مـیرے لن کو بھوکی نظروں گھورتی رہیں۔۔۔ پھر سرسراتے ہوئے لہجے مـیں بولیں۔۔۔۔ پلنگ پر لیٹ جاؤ۔۔۔ان کی بات سن کر مـیں کمرے مـیں پڑے پلنگ پر جا کر لیٹ گیـا۔۔۔۔ تب وہ بھی پلنگ پر آئیں اور مـیرے اوپر چڑھ کر بولیں۔۔۔ مـیرے ساتھ سیکا یہ فائدہ ہے کہ تم کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا۔تو اس پر مـیں کہنے لگا کہ وہ کیسے مـیڈم؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولیں وہ ایسے مـیری جان کہ ۔۔۔۔۔ ایک تو مـیں آل اِن ون ہوں۔۔تو پھر وہ کہنے لگیں آل ان وَن کا مطلب سمجھتے ہو نا۔۔۔ ؟ تو مـیں نے سر ہلا دیـا ۔۔۔تو وہ مجھے سر ہلاتے دیکھ کر شہوت بھرے لہجے مـیں کہنے لگیں ۔۔ آل ان ون کا مطلب ہے کہ مـیں لن کو منہ چوت اور گانڈ ہر جگہ لتی ہوں اور اگر تم کہو گے تو مـیں لن کو چوت سے نکال کر منہ مـیں بھی ڈال لوں گی۔۔۔۔ اور اگر تو کہنے گا تو تیرے لن سے نکلنے والی منی بھی پی لوں۔۔۔۔لیکن مـیری ایک شر ط ہے ؟ اور وہ یہ کہ جب تم مـیرے ساتھ دوستی کرو گے تو یہ دوستی صرف مـیرے ساتھ ہی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ مـیرے علاوہی اور خاتون کی طرف تم دیکھو گے بھی نہیں۔۔۔ کیونکہ مـیں نہیں چاہتی کہ جس کے ساتھ مـیں یـارانہ لگاؤں وہی اور کو بھی دیکھے۔۔۔اس سلسلہ مـیں ۔۔۔۔مـیں بہت ٹچی ہوں ۔۔۔۔ اس لیئے تم مـیرے ساتھ وعدہ کرو کہ آج کے بعد تم صرف مـیرے ہو کر رہو گے۔۔۔مـیرے علاوہی اور کی طرف دیکھو گے بھی نہیں ۔۔۔ بولو اس بات کا وعدہ کرتے ہو؟ اس وقت مـیرے زہن پر منی۔۔۔۔اور اس کی پھدی سوار تھی ۔۔۔۔ اس لیئے مـیں نے جھٹ سے وعدہ کر لیـا۔۔۔اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ ٹھیک ہے جی آج کے بعد مـیں صرف اور صرف آپ کے ساتھ دوستی رکھوں گا۔۔اس پر وہ مـیرا ہاتھ پکڑ کر بولی وعدہ؟ تو مـیں نے جلدی سے کہہ دیـا ۔۔۔ وعدہ۔۔۔۔۔ مـیری بات سن کر مسکرا ئی اور کہنے لگی۔۔۔۔ چلو اب پروگرام شروع کرتے ہیں پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ تم بس چپ چاپ لیٹے رہو اور انجوائے کرو۔۔۔ یہ کہہ کر وہ مـیرے اوپر جھکی اور سب سے پہلے مـیرے ماتھے کو چوما ۔۔۔۔ پھر زبان نکال کر مـیرا ماتھا چاٹنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ ان کی زبان سفر کرتی ہوئی مـیرے کانوں کی لو تک پہنچی ۔۔۔اسے چاٹنے کے بعد پھر واپس ہوئی اور مـیرے گالوں۔۔ کو چاٹتی گئی ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد انہوں نے مـیری گردن اور پورے چہرے پر دوبارہ زبان پھیری ۔۔۔۔۔اور پھر چہرے سے ہوتی ہوئی ان کی زبان مـیرے ہونٹوں پر پہنچی۔۔۔۔اور پھر انہوں نے اپنی زبان کو مـیرے منہ مـیں ڈال دیـا ۔۔۔ اور ایک بار پھر زبانوں کے آپس مـیں ٹکرانے کا کھیل شروع ہو گیـا ۔۔۔۔ لیکن پھر تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے اپنی زبان کو مـیرے منہ سے باہر نکالا۔۔۔۔اور پھر اپنی زبان کی لکیر بناتی ہوئی وہ مـیری چھاتی تک پہنچی اور پھر مـیرے سینے کو چاٹنے کے بعد آہستہ آہستہ ان کی زبان مـیرے نپلز پر آ گئی۔۔۔یہاں آ کر انہوں نے تھوڑا وقفہ کیـا اور مـیری طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے مـیرا سی؟ تو مـیں نے اے ون کا اشارہ کر دیـا۔۔۔۔ مـیرا اشارہ دیکھ کر وہ نیچے جھکی ۔۔ اور پھر مـیرے چھوٹے چھوٹے نپلز کو اپنے منہ مـیں لے کر باری باری انہیں چوسنے لگیں۔۔وہ اس کام مـیں بڑی مہارت رکھتیں تھیں ۔اُف۔۔ف۔ف اور ان کے ایسا کرنے سے مـیں تو تڑپنا شروع ہو گیـا۔۔ لیکن وہ مـیری حالت کو چھوڑ۔۔اپنے کام مـیں مگن تھیں۔۔۔ نپلز چوسنے کے بعد آہستہ آہستہ ان کی زبان نیچے آنا شروع ہو گئی۔۔ اور مـیری ناف پر آ کر رُک گئی ۔۔۔۔اب انہوں نے مـیری ناف مـیں اپنی زبان ڈالی اور اسے چاٹنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔ مجھے اس قدر لطف ملا کہ مـیں مزے سے بے حال ہوتے ہوئے ان سے بولا۔۔۔ بس کرو ۔۔۔ پلیز بس کرو ۔۔ لیکن وہ کچھ نہ بولیں ۔۔۔۔۔۔ اور مـیری ناف مـیں زبان ڈالے چاٹتی رہیں ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ان کی ہاٹ ٹنگ ۔۔۔۔ نیچے آنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ ان کی گیلی زبا ن اور نرم ہونٹ اس طرف آ رہے تھے کہ جس کے لیئے انہوں نے اتنا لمبا سفر کیـا تھا۔۔۔۔اب ان کی زبان بڑی بے تابی کے ساتھ اس طرف نیچے کا سفر کر رہی تھی ۔۔۔ جہاں پر ایک تنو مند اور موٹا سا لن تنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔جیسے ہی ان کی زبان مـیری مـیرے لن کے پاس پہنچی۔۔۔۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ ا اور کہنے لگی۔۔۔ تیرے لن کا ہیڈ بڑا ہی مست اور موٹا اتنا ہے کہ جیسے لن کے آگے ایک چھتری تانی ہو ۔۔ یہ کہہ کر انہوں نے مـیرے لن کو نیچے سے لے کر اوپر تک چاٹنا شروع کر دیـا۔۔۔۔ وہ ایک ہاتھ سے لن کو آگے پیچھے کرتے جاتی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے ہیڈ پر زبان سے مساج بھی کرتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد مـیرا ٹاپا ان کے تھوک سے گیلا ہو گیـا تھا ۔۔۔۔۔ تب انہوں نے مـیرے ٹوپے کو اپنے منہ مـیں لیـا اور اندر ہی اندر اسے زبان سے چاٹنے لگی ۔۔۔ اف یـارو ان کا انداز بڑا ہی مست اور تڑپا دینے والا تھا ۔۔۔مـیرے جسم نے مزے کے مارے دو تین جھٹکے لیئے اور۔۔۔۔ مـیں دوبارہ سے انہیں لن چوستے ہوئے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بڑے ہی آرٹ کے ساتھ مـیرے لن کو چوسے جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی فل ٹرائی تھی کہ وہ پورے لن کو اپنے منہ مـیں لے لیں۔۔۔ ۔۔۔۔ لن چوستے چوستے اچانک ہی انہوں نے پورے لن کو اپنے منہ مـیں ڈالنے کی کوشش کی ۔۔۔ ایسا کرنے سے لن ان کے حلق تک پہنچ گیـا ۔۔۔ اور جیسے ہی مـیرے لن نے ان کے حلق کو چھوا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی آنٹی جی کو کھانسی کا ایک زبردست دورہ پڑا۔۔۔۔۔۔۔اور انہوں نے فوراً ہی مـیرے لن کو اپنے منہ سے باہر نکالا ۔۔۔۔اور کہنے لگیں کیـا دیکھ رہے ہو؟ تو مـیں نے اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر لگے آپ کے تھوک کو دیکھ رہا ہوں تو وہ ہنس کر بولی ۔۔۔۔ ارے بدھو یہ صرف مـیرا تھوک ہی نہیں ہے بلکہ اس پر تیری مزی بھی لگی ہوئی ہے۔۔۔۔نہیں یقین تو یہ دیکھو۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی درمـیانی انگلی کو مـیرے لن پر رکھا۔۔۔اور پھر جیسے ہی انہوں نے اپنی انگلی کو لن سے ہٹا کر اوپر کیـا تو ایک تار سی بن گئی۔۔۔۔ اس پر وہ مـیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔یہ تار مـیرے تھوک کی نہیں بلکہ تیری مزی کی ہے ۔۔۔۔اس کے بعد انہوں نے اپنے منہ کو دوبارہ کھولا ۔۔۔ اور مـیرے لن کو چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔ یہ سب دیکھ کر مـیں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں کیونکہ مـیرے نزدیک یہ لمحے، چوت چٹا ی کہانی آنٹی کا مستی بھرا چوپا، اور چوپے کے دوران ان کے منہ سے نکلنے والی مخصوص قسم کی آوازیں ۔ مـیرے لن پر ان کا گیلا منہ۔۔۔ گرم سانسیں ۔۔۔ یہ سب مل کر ۔مجھے اور بھی مست کر رہیں تھیں ۔۔ پھر کچھ دیر لن چوسنے کے بعد انہوں نے مـیری طرف دیکھا ۔۔۔ اور لن پر تھوک دیـا۔۔ اور پھر شہوت بھری آواز مـیں کہنے لگیں۔۔۔ کہ اگر مـیرے نیچے کی گرمـی مجھے تنگ نہ کرتی تو مـیں نے تیرے اس خوب صورت لن کو کبھی بھی اپنے منہ سے نہیں نکالنا تھا۔۔۔ پھر مـیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تیـار ہو جاؤ ۔۔چدائی کا وقت آ گیـا ہے یہ کہتے ہوئے وہ اوپر اُٹھ گئی۔۔۔ جیسے ہی مـیں نے ان کے منہ سے چدائی کا لفط سنا ۔۔ تو مـیں ان کو چودنے کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی بستر سے اُٹھنے لگا تو وہ بولی ۔۔۔۔ نہ نہ۔ چھوٹے صاحب ! آپ ایسے ہی لیٹے رہیئے۔۔۔ کیونکہ آپ نے نہیں…۔۔۔ بلکہ مـیں نے آپ کے اوپر آنا ہے ۔یہ کہتے ہوئے وہ مـیرے اوپر آئی اور مـیرے لن کو پکڑ کر اپنی گیلی پھدی پر رگڑتے ہوئے بولی۔اگر تم نے مـیری چودائی کا مزہ لینا ہے ۔۔۔۔تو جیسے ہی مـیں تیرے لن کو اپنے اندر ڈالوں تو تم نے مـیرے نپلز کو چوسنا شروع کر دینا ہے ہے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی سنو ۔۔۔ جتنے زور اور جوش کے ساتھ تم مـیرے نپلز کو چوسو گے تم کو اتنا ہی زیـادہ مـیری پھدی سے مزہ ملے گا۔۔۔ پھر کہنے لگی مـیری بات کوسمجھ گئے ہو ناں؟ تو اس پر مـیں نے اپنا سر ہلا دیـا۔۔۔ اب انہوں نے مـیرے لن کی نوک کو ایک دفعہ اپنی بھگی پھدی مـیں ڈِپ کیـا۔۔ ۔۔۔۔۔ اور پھر اسے باہر نکال کر اپنے موٹے دانے کی طرف لے گئیں اور اسے تیزی کے ساتھ اس پر رگڑنے لگیں۔۔ اور مـیں نے دیکھا کہ ا ن کا دانہ خاصہ موٹا اور سائز مـیں کافی بڑا تھا ۔۔۔ مـیرے خیـال مـیںی چھوٹے بچے کی للی جتنا ہو گا۔۔۔تھوڑی دیر رگڑنے کے بعد وہ آگے جھکیں اور اور مـیرے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی پر ایڈجسٹ کیـا اور پھر ہولے ہولے مـیرے لن پر بیٹھنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔ان کی کھلی چوت بہت گرم ۔۔۔اور پانی سے لبابھری ہوئی تھی۔۔ چنانچہ پھسلن کی وجہ س ے مـیرا لن بڑے آرام کے ساتھ ان کی لوز چوت مـیں داخل ہوتا گیـا۔ اور جب مـیرا پورا لن ان کی گیلی چوت مـیں داخل ہو گیـا تو وہ مـیری طرف کچھ اور جھک گئیں ۔۔۔اور ایک ہاتھ مـیں اپنی بھاری چھاتی کو پکڑ کر۔۔۔اس کے نپلز کو مـیرے منہ کے قریب کر کے کہنے لگیں۔۔۔اسے چوسو۔۔۔ ان کی بات سن کر مـیں نے اپنے سر کو اوپر اُٹھایـا اور ان کے نپل کو اپنے منہ مـیں لے لیـا۔۔۔جبہک دوسرے نپل کو مـیں نے اپنی دو انگلیوں مـیں پکڑا اور اسے مسلنے لگا۔۔۔۔اس وقت وہ مـیرے بلکل اوپر جھکی ہوئیں تھیں ۔۔۔اور جھکنے کی وجہ سے ان کا موٹا سا دانہ مـیرے لن کے آس پاس اُگے ہوئے نوکیلے بالوں سے رگڑ کھا رہا تھا۔۔۔ اور مـیرے لن پر اُگے یہ چھوٹے چھوٹے نوکیلے بال ان کے دانے پر ریگ مال کی طرح لگ رہے تھے اسی لیئے جب گرم آنٹی بلکل جھک کر اپنی پھدی کے لبوں اور دانے کے ساتھ مجھے گھسے مارتیں۔۔۔۔تو اس وقت نیچے سے ایک تو لن ان کی چوت کے اندر تک چلا جاتا ۔۔۔۔اور مـیرے نوکیے بال بیک وقت ان کی چوت کے لبوں اور دانے سے رگڑ کھاتے تھے اسی لیئے تو گرم آنٹی گھسے مارتے ہوئے مزے سے پاگل ہوئی جا رہیں تھیں۔۔۔ اور اسی سیجنون مـیں آ کر انہوں نے مـیرے لن پر جمپیں مارنا شروع کردیں۔۔کچھ دیر بعد وہ جمپ مارتے ہوئے بولیں۔۔۔ بڑے عرصے کے بعد تمہارے ساتھ سیکا مزہ آ گیـا ہے۔۔۔اور پھر جوش مـیں کہنے لگیں۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ مـیری چوت نے مجھے بہت خوار کیـا ہے یہ مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی لیکن تیرا لن لے کر ۔۔۔۔اسے چین آ رہا ہے۔۔۔اس کے ساتھ ہی ان کی لن پر جمپ مارنے کی رفتار بہت بڑھ گئی۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے منہ سے لایعنی قسم کی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں اوووووو۔۔۔۔ااہ ہ ہہ ہ ہ۔۔۔۔۔یس یس یس ۔۔۔۔س س س ۔۔اس قسم کی مست آوازوں کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی پھدی کو اُٹھا اُٹھا کر مـیرے لن پر مارنا شروع کر دیـاتھا۔۔۔۔۔ اور مـیں سمجھ گیـا کہ ی لیڈی اب چھوٹنے والی ہے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ی لیڈی نے اپنے دونوں ہاتھ مـیرے کندھوں پر رکھے اور اپنی پوری طاقت سے گھسے مارنا شروع ہو گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد ان کے گھسوں کی رفتار اس قدر طوفانی ہو گئی۔۔کہ گرم آنٹی کے ان گھسوں کی وجہ بیڈ چوں چوں کرنے کے ساتھ ساتھ ہچکولے بھی کھانے لگا۔۔۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد آنٹی ۔۔بلند آواز مـیں بولیں ۔۔۔آہ۔ ہ ہ ہ۔اور اس کے ساتھ ہی ان کی چوت سے گرم جوس نکلنا شروع ہو گیـا۔۔اور وہ مـیرے اوپر گر کر ہانپنے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ مـیرے اوپر سے اُٹھی اور جھک کر اپنی پھدی کا ملاحظہ کرنے لگی۔۔۔ جس مـیں ابھی تک مـیرا لن پھنسا ہوا تھا اور اس سے پانی رس رس کر نیچے آ رہا تھا ۔۔ پھر آنٹی نے مـیری طرف دیکھا ۔۔اور کہنے لگی۔۔۔آج کچھ زیـادہ ہی چھوٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔یقین کرو مجھے اتنا بڑا آرگیزم بہت کم کم ہوا ہے پھر مـیرے لن کو ہاتھ مـیں پکڑ کر اسے ہلاتے ہوئے بولی یہ سب تمہارے اس شاندار ہتھیـار کا کمال ہے اور اس کے لیئے پہلے تیرے لن کا اور پھر تیرا بہت بہت شکریہ!!!!!!!!!۔۔۔ اس پر مـیں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ لیکن آنٹی جی مـیرا فارغ ہونا ابھی باقی ہےمـیری بات سن کر وہ بڑی شوخی کے ساتھ بولیں ۔۔۔پر یـار مـیری پھدی تو ٹھنڈی ہو گئی ہے ۔تو اس پر مـیں نے ان سے کہا کہ واقعی ہی آپ کی پھدی ٹھنڈی ہو گئی ہے لیکن مـیرا لن تو ابھی تک گرم ہے ۔۔اتنی بات کرتے ہی مـیں نے ان کی دودھیـا سفید گول گول اور موٹی۔۔۔گانڈ پر ہاتھ مارا ۔۔۔ کہ جس کی بڑی بڑی پہاڑیـاں مـیری جان نکال رہیں تھیں۔۔ اور کہنے لگا مـیڈم جی آپ کی پھدی ٹھنڈی لیکن گانڈ گرم ہے۔۔۔۔ مـیری بات سن کر وہ مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔۔ تو جناب مـیری گانڈ کےچکر مـیں ہیں ؟ تو مـیں نے ہاں مـیں سر ہلا دیـا۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ اُلٹی ہو کر گھوڑی بن گئی۔۔۔ اور اپنی جان لیو گانڈ کے دونوں پٹ کھول کر بولی۔۔۔ لو مار لو مـیری گانڈ۔۔۔۔ مـیں نے للچائی ہو نظروں سے ان کی خوب صورت کو دیکھا اور پھر گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ان کے پیچھے پہنچ گیـا۔۔۔۔اور ان کے کے پاس منہ لے کر تھوک دیـا۔۔۔۔ اور ابھی اسے ملنے ہی لگا تھا کہ وہ کہنے لگی۔۔۔۔ تھوک نہیں جان ۔۔۔ مـیری گانڈ پر تیل لگاؤ تو اس پر مـیں نے کہا وہ کیوں؟ تو اس پر وہ گردن گھما کر بولی ۔۔۔ تھوک اس لیئے مت لگاؤ کہ آپ کا تھوک ایک دو گھسوں کے بعد خشک ہو جائے گا ۔۔۔ اور اس کے بعد تم مـیری گانڈ مـیں خشک چدائی کرو گے جس سے مجھے گانڈ مـیں جلن ہو۔۔۔ تو اس پر مـیں نے ان سے کہا کہ آپ کا تو ٹھیک ہے۔۔۔۔تو وہ کہےس لگی۔۔۔یـار تم درست کہہ رہے ہو۔۔۔ لیکن تھو ک لگا کر گانڈ مروانا مجھے منظور نہیں۔۔۔۔کیونکہ تیرا لن بہت کافی بڑا اور موٹا ہے تو اس سے مـیری گانڈ دکھے گی۔۔ اس لیئے پلیز تھوک کی بجائے سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر تیل پڑا ہے اسے اچھی طرح سے مـیری گانڈ چکنی کر دو۔۔۔۔۔۔ چنانچہ مـیں نے ڈریسنگ ٹیبل سے تیل کی بوتل لی اور کافی سارا تیل ان کی گانڈ کے پر لگا دیـا۔۔۔ جو کہ ان کی لوز پھدی کی نسبت کافی تنگ تھا۔۔۔اس کے بعد مـیں نے اپنے لن کو اس تیل سے اچھی طرح بھگو لیـا۔۔جس کی وجہ سے مـیرا لن چمکنے لگا۔۔۔۔۔ چنانچہ مـیرے چمکتے ہوئے لن کو ٹیوب لائیٹ کی روشنی مـیں کو دیکھ کر وہ کہنے لگی۔۔۔ ہاں اب ٹھیک ہے اور بے فکری سے مـیری گانڈ مـیں ڈالو۔۔۔چنانچہ ان کی بات سن کر مـیں نے اپنے لن کا اگلا سرا ان کی گانڈ کے چکنے پر رکھا ۔۔۔۔۔ اور اسے ہلکا سا دھکا لگا۔۔۔تو مـیرا لن سرک کر ان کی کیوٹ کے اندر چلا گیـا ۔۔لن کے اندر جاتے ہی۔۔ پہلے تو اس کے منہ سے ۔۔۔۔سی ۔سی ۔۔کی آوازیں نکلتی رہیں ۔۔۔ پھر جب اگلے دھکے پر مـیرا لن اور اندر گیـا تو ان کے منہ سے ایک ذور دار چیخ نکلی۔۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔تو اس پر مـیں بولا کیـا ہوا آنٹی جی۔۔۔؟ تو وہ کہنے لگی بڑے دنوں بعد لن لینے کی وجہ سے انہیں درد ہو رہا تھا۔۔۔ پھر بولی ۔۔ لیکن تم مـیرے درد کی پرواہ مت کرو ۔۔۔۔اور پورا لن اندر ڈالو۔۔۔۔اس پر مـیں نے ایک طاقتورگھسا مارا ۔۔۔۔ اور اب مـیرا پورے کا پورا لن ان کی تیل سے چپڑی گانڈ مـیں چلا گیـا تھا۔اندر سے ان کی گانڈ بڑی ہی گرم۔۔۔۔۔ اورتیل کے باوجود بھی مـیرا لن پھنس پھنس کر آ جا رہا تھا ۔۔ بعض اوقات وہ خود بھی گھوٹ مارتی اور کہتیں کہ پوری طاقت سے گھسے مار۔۔۔ اور پھر اسی طرح گھسے مارتے مارتے مـیں ان کی گانڈ مـیں ہی خلاص ہو گیـا اس کے بعد مـیرا نسرین آنٹی کے گھر آنا جانا شروع ہو گیـا۔۔۔ اس کے باوجود کہ وہ ایک ی لیڈی ہونے کی وجہ سے انہیں ہر وقت ہی مـیرا لن چایئے تھا۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بے حد محتاط بھی تھیں ۔اس لیئے موقعہ دیکھ کر وہ مجھے بلایـا کرتی تھی۔۔۔پھر ایک دن یہ موقعہ بھی ۔۔ ہاتھ سے جانے لگا ہوا کچھ یوں کہ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔ مـیرے خیـال مـیں ۔۔۔۔ مـیں آپ کو یہ بتانا بھول گیـا کہ آنٹی کے دو بچے تھے ایک لڑکا جو کہ مـیٹرک سٹوڈنٹ تھا اور اس سے بڑی لڑکی جس کا نام مصباح تھا وہ انٹر کی سٹوڈنٹ تھی ۔۔۔کچھ عرصہ پہلے تک تو جب ان کے بچے سکول کالج جاتے تو تب مـیں ان کے بچوں کی غیر موجودگی مـیں آنٹی کے پاس جایـا کرتا تھا۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ۔۔۔۔۔ فکنگ کے بعد وہ مجھے کافی فکر مند نظر آئی تو مـیرے پوچھنے پر وہ انہوں نے بتلایـا۔۔۔۔ کہ مصباح کالج سے فری ہو گئی ہے اور کل سے گھر پر ہی رہا کرے گی۔۔اس پر مـیں مایوسی سے بولا۔۔۔ کہ مطلب کل سےہمارا فکنگ سیشن بند؟ مـیری بات سن کر وہ تڑپ کر بولی۔۔۔۔ ایسا نہ کہو۔۔۔ اتنے عرصے بعد تو مجھے اپنی پسند کا لن ملا ہے اور مـیں اسےی صورت مـیں بھی نہیں گنوانا چاہتی ۔۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگی۔۔۔ ایسا کرو کہ اگلے اتوار کو تم مجھے ملو۔۔۔مـیں مصباح کے ساتھ کچھ گٹھ جوڑ کرنے کی کوشش کروں گی۔۔۔ تو اس پر مـیں نے ان سے کہا سوچ لیں کیـا وہ آپ کو ایسا کرنے کی اجازت دے گی۔۔ تو اس پر وہ کہنے لگیں ۔۔اجازت کا تو مجھے پتہ نہیں۔۔۔ لیکن ہم ماں بیٹی آپس مـیں بہت فری ہیں۔اور مـیں اس کے ساتھ ہر بات شئیر کر لیتی ہوں۔۔پھر مـیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہیں معلوم ہے کہ مصباح کو بھی اپنے باپ کی حرکتوں کا پتہ ہے اور کبھی کبھی جب مـیں اس سلسلہ مـیں پریشان ہو کر سخت ڈپریشن مـیں چلی جاتی تھی تو مجھے ڈپریس دیکھ کر اس وقت مـیری دل جوئی کی خاطر یہ کہا کرتی تھی کہ ماما آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔جس طرح پاپا باہر منہ مارتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔آپ بھی کچھ ایسا ہی کر لو۔۔۔۔ کہ جیسے کو تیسا ملنا چاہیئے۔۔لیکن پلیز آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔ پھر مـیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔ فکر نہ کرو مـیں کوئی نہ کوئی ڈرامہ کر کے اسے منا ہی لوں گی۔۔۔ آنٹی کے دیئے ہوئے وقت کے مطابق مـیں اتوار بازار جا کر کافی دیر تک مقررہ جگہ پر کھڑا رہا۔۔۔ ۔۔لیکن وہ نہیں آئیں۔۔۔ یہ دیکھ کر مـیں مایوس ہو گیـا۔۔اور پھر مایوس ہو کر جانے ہی لگا تھا کہ اچانک مجھے نسرین آنٹی دکھائی دی۔۔ جس کے ساتھ ایک لڑکی بھی چلی آ رہی تھی۔۔ اس لڑکی کی شکل آنٹی سے بہت زیـادہ ملتی تھی ۔۔اور اس کے جسمانی خطوط بھی آنٹی کی طرح بلا کے ی تھے۔۔۔۔اس لیئے مـیں سمجھ گیـا کہ آنٹی کے ساتھ آنے والی لڑکی ۔۔کوئی اور نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ ان کی بیٹی مصباح ہے ۔ چنانچہ انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر مـیں وہیں رُک گیـا ۔۔ کچھ دیر بعد نسرین آنٹی معہ اس لڑکی کے مـیرے پاس پہنچ گئیں۔ ادھر جیسے ہی آنٹی مـیرے قریب پہنچیں تو مـیں نے بڑے تپاک کے ساتھ ان کو ہیلو ہائے بولا۔۔۔۔ لیکن سب سے پہلے آنٹی نے لیٹ آنے پر معزرت کی ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔اور پھر اپنے ساتھ آنے والی لڑکی کا تعارف کراتے ہوئے بولیں کہ یہ مـیری بیٹی مصباح طارق ہے پھر اس کے بعد انہوں نے اپنا رُخ مصباح کی طرف کیـا اور اس سے کہنے لگیں۔۔۔اور بیٹی یہ ہے وہ لڑکا کہ جس کا مـیں نے تمہارے ساتھ تزکرہ کیـا تھا۔۔۔اس پر مصباح نے بڑے غور سے مـیری طرف دیکھا۔۔۔۔ اور پھر آنٹی کے کان مـیں کچھ بولی۔۔۔تو اس کی بات سن کر آنٹی ہنس پڑیں۔۔۔اور آنٹی کے ہنسنے پر وہ لڑکی بھی مسکرا دی ۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کے گلاب گالوں کے دونوں اطراف ڈمپل پڑ گئے۔۔۔ جو کہ اس کے چہرے پر بہت بھلے لگ رہے تھے۔۔۔۔لیکن آنٹی کے ہوتے ہوئے مـیں نے اس لڑکی کی طرف زیـادہ دیکھنے سے گریز کیـا اور زیـادہ تر آنٹی کے ساتھ ہی بات چیت کرتا رہا۔۔۔۔۔۔ دونوں ماں بیٹی مـیرے ساتھ کچھ دیر کھڑی رہیں پھر وہاں سے جاتے وقت آنٹی کی بجائے مصباح کہنے لگی کہ ماما کہہ رہیں ہیں کل گھر ضرور آنا ۔۔ اس کے بعد وہ دونوں خریداری کے سلسلہ مـیں اتوار بازار کی طرف بڑھ گئیں۔۔اور ان کے جانے کے بعد مـیں بھی گھر آ گیـا۔۔۔۔۔ اگلے دن مـیں نے بیل دی تو جواب مـیں مصباح نے دروازہ کھولا ۔۔ اور مـیری طرف بڑے غور سے دیکھ کر ہولے سے بولی ماما اوپر ہیں۔۔۔اور مـیں سر ہلا کر اسی کمرے مـیں چلا گیـا کہ جہاں شروع دن سے مـیں آنٹی کے ساتھ سیکیـا کرتا تھا ۔وہاں پہنچ کر مـیں نے آنٹی سے پوچھا کہ آپ نے مصباح کو کیسے راضی کیـا؟ تو وہ اک ادا سے بولی۔۔۔ اس بات کو چھوڑ ۔۔۔۔ تُو بس آم کھا۔۔اور اس کے ساتھ ہی اپنے کپڑے اتارنے لگی۔۔۔ انہیں ننگا ہوتے دیکھ کر مـیں نے دل مـیں سوچا کہ مصباح گئی بھاڑ مـیں ۔۔۔۔تو آنٹی کی پھدی بجا۔۔۔یہ سوچ کر مـیں نے بھی کپڑنے اتارنے شروع کر دیئے۔۔۔ ۔۔ اور پھر آنٹی کو جی بھر کے چودا۔۔ فارغ ہونے کے بعد۔۔ حسبِ معمول آنٹی نے ایک صاف کپڑے کے ساتھ مـیرے لن کو اچھی طرح صاف کیـا اور پھر مجھے جانے کا بول کر۔۔۔۔۔ خود نہانے کے لیئے واش روم چلی گئی ۔۔ چنانچہ مـیں نے کپڑے پہنے اور گھر آ گیـا۔۔ اس کے بعد مـیں آنٹی کے گھر سابقہ روٹین پر جانا شروع ہو گیـا ۔۔۔ ہر دفعہ مصباح ہی دروازہ کھولتی ۔۔۔ جبکہ آنٹی دوسری منزل پر بیٹھی مـیرا انتظار کر رہی ہوتی تھیں۔۔اور جیسے ہی مـیں کمرے مـیں پہنچتا ۔۔۔ معمولی گپ شپ کے بعد ۔۔۔ ہمارا فکنگ سیشن شروع ہو جاتا تھا ۔۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ عرصہ بعد مـیں نے محسوس کیـا کہ دروازہ کھولنے کے بعد ۔۔۔ اور آنٹی کے کمرے سے آتے جاتے ہوئے مصباح بڑی عجیب نظروں سے مجھے دیکھا کرتی تھی۔ پہلے تو مـیں نے اسے اپنا وہم جانا۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن جب یہ حادثہ بار بار ہوا۔۔۔۔۔تو پھر جلد ہی مـیں اس کی نظروں کا مفہوم جان گیـا۔۔۔لیکن مـیں نے جان بوجھ کر مصباح کو کوئی لفٹ نہیں کرائی ۔۔۔ آخر کب تک۔۔۔ چنانچہ ۔۔ اس کچی کلی کے انداز و اطوار دیکھ کر اندر سے مـیں اس کی طرف راغب ہونا شروع ہو گیـا تھا لیکن اس پر ظاہر نہیں کیـا۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ مـیری بیل کے جواب مـیں اس نے دروازہ کھولا اور کہنے لگی۔۔ ۔۔ کہ ماما تو گھر پر نہیں ہیں تو اس پر مـیں نے بے اختیـار جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ لیکن مـیرا تو ان کے ساتھ ٹائم سیٹ تھا۔۔۔ مـیری بات سن کر اس کا گلاب چہرہ مزید سرخ ہو گیـا۔۔۔۔اور اس نے بڑی ہی عجیب نظروں سے مـیری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کل آنے کا بولا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر۔۔۔۔ مـیں نے اس کی طرف دیکھا تو مـیری تجربہ کار نظروں نے اس کی آنکھوں سے اُمڈتی ہو ئی ہوس کو تاڑ لیـا۔۔۔ لیکن مـیں کچھ نہ بولا اور اُلٹے پاؤں واپس ہو گیـا۔۔۔ گھر آ کر مـیرے لن نے شور مچانا شروع کر دیـا ۔کہ بہن چودا کڑی راضی ہے اور تو خواہ مخواہ نخرے چود رہا ہے ۔۔۔۔۔لن صاحب کی بات سن کر مـیں نے بہت ہچر مـیچر کرتے ہوئے ۔ اس سے کہا کہ سوچ بھائی۔۔۔ لڑکی کی لیتے لیتے ۔۔۔ کہیں اس کی ماں سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھنا۔۔۔ لیکن لن صاحب نے مـیری ایک نہ سنی اور کہنے لگا ۔۔۔ کہ جب تمہیں ۔۔۔۔ ایک ٹکٹ مـیں دو مزے مل رہے ہیں۔۔۔ تو بھا جی عیش کرو ۔۔ کہ پتہ نہیں پھر یہ گولڈن چانس ملے نہ ملے۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ چونکہ اندر سے مـیرا بھی دل یہی چاہ رہا تھا ۔۔۔اس لیئے کچھ دیر بحث و مباحثے کے بعد مـیں نے جناب لن اور مس شہوت صاحبہ کے سامنے اس شرط پر ہتھیـار ڈال دیئے۔۔۔ کہ مـیں اس لڑکی پر بس ایک آدھ بار ہی ٹرائی کروں گا۔۔۔۔۔ وہ مان گئی تو ٹھیک۔۔۔۔ ورنہ پہلی تنخواہ پر ہی گزارہ کروں گا۔۔۔ چنانچہ لن صاحب کے ساتھ یہ سب طے کرنے کے بعد۔۔۔۔۔ اگلے دن جب مـیں نے نسرین آنٹی کے گھر کی بیل بجائی ۔۔۔۔ تو حسبِ معمول مصباح نے دروازہ کھولا۔۔ مـیری اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ تو پہلے سے ہی تھی ۔۔۔ لیکن آج مـیں اس کے ساتھ ایک مختلف زاویہ سے مخاطب تھا ۔۔۔ چنانچہ دروازہ کھلتے ہی مـیں نے اس کی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ آج تو ماما گھر پر ہیں نا؟ تو جواباً اس نے بھی مـیری آنکھوں مـیں آنکھیں ڈالیں اور ہاں مـیں سر ہلا دیـا۔۔۔ تب مـیں سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے معنی خیز نداز مـیں بولا۔۔۔ مطلب آج کام بن جائے گا؟ مـیری بات سن کر اس کا چہرہ لال ہو گیـا۔۔۔اور وہ نیچے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ مجھے کیـا پتہ !!!! ۔۔۔ مصباح کی بات سن کر مـیں سیڑھیـاں چڑھ کر اوپر چلا گیـا۔۔۔اور کچھ دیر گپ شپ کے بعد آنٹی کی چودائی کرنے لگا۔۔۔۔ مـیں آنٹی کو گھوڑی بنا کر چود رہا تھا کہ۔۔۔۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کوئی دیکھ رہا ہو۔۔۔۔مـیں نے اس شک پر بڑا مغز مارا۔۔۔۔ لیکن مجھے کوئی سوراغ نہ مل سکا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود مـیری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کوئی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اور ہمـیں دیکھنے والا مصباح کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ آنٹی کو چودنے کے بعد مـیں اسی شش و پنج مـیں پڑا ۔۔۔۔ سیڑھیـاں اتر رہا تھا ۔۔۔کہ دروازے کو کنڈی لگانے کے لیئے وہ بھی آ گئی۔ حلانکہ مـیرے جانے کے بعد بھی وہ یہ کام کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن پہلے دن سے ہی آتے جاتے ہوئے وہ مجھے ضرور ملتی تھی۔ اور شاید یہ بھی اس کی طرف سے ایک سگنل تھا ۔۔پھر سیڑھیـاں اتر کر جب مـیں اس کے قریب پہنچا تو۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔ شکر ہے کہ آج کام بن گیـا۔۔۔۔مـیری بات سن کر وہ منہ سے تو کچھ نہ بولی۔۔ لیکن ۔۔۔۔آنکھوں سے بہت کچھ کہہ گئی۔۔۔۔۔ اور اس کی آنکھوں کا پیغام وصول کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔ مـیں نے اس کی طرف دیکھا تو ۔۔۔ اور اس کی آنکھوں سے واضع طور پر شہوت چھلک رہی تھی۔۔ ایک الہڑ جوان اور خوب صورت لڑکی کہ جس کے انگ انگ سے سیٹپک رہا تھا ۔۔۔۔۔اور جو اس بات سے بھی آگاہ تھی کہ مـیں کچھ دیر پہلے اس کی ماما کو چود کر آ رہا ہوں۔۔۔ ابھی مـیں نے اتنی بات سوچی تھی کہ ۔۔۔۔۔اچانک مـیرے زہن وہی خیـال آ گیـا۔۔۔۔ کہ آنٹی کے ساتھ فکنگ کرتے ہوئے ہمـیں کو ئی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ اور اس وقت مصباح کی جو حالت نظر آ رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ اس بات کی دلیل تھی کہ اس نے اپنی آنکھوں سے وہ سارا منظر دیکھا تھا۔۔تبھی تو آج خا ص طور پر اس کے انگ انگ سے ہوس اور آنکھوں سے شہوت ٹپک رہی تھی ۔۔ یہ سوچ کر مـیں نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کر لیـا۔۔۔۔چنانچہ دروازے کے قریب پہنچ کر اچانک مـیں رک گیـا ۔اور پھر اس کے جزبات بھرے چہرے کو دیکھتے ہوئے ۔۔۔ بظاہر بے دھیـانی مـیں اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر بولا۔۔۔ اوکے جی۔۔۔۔ مـیرا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر اس نے ایک نظر ۔۔ مجھے اور ۔۔۔۔ ایک نظر سیڑھیوں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور پھر منہ کو دوسری طرف پھیرتے ہوئے۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھ کو مـیری طرف بڑھا دیـا۔۔۔۔فرسٹ آف آل۔۔۔۔۔مـیں نے بڑی شرافت کے ساتھ اس ہاتھ کو اپنے ہاتھ مـیں پکڑا ۔۔۔۔اور پھر اچانک ہی اسے اپنی طرف کھینچ کر بولا۔۔۔ مصباح جی ہمارا شو کیسا لگا؟۔۔ مـیری بات سن کر اس کا چہرہ لال ٹماٹر ہو گیـا۔۔ اور وہ اپنی جگہ سے کم از کم ایک فٹ اوپر اچھلی۔۔۔۔ اور ۔۔۔پھر ۔۔مـیری طرف دیکھ کر ہکلاتے ہوئے بولی۔۔۔ کیـا کہہ رہے ہیں آپ؟۔ تو مـیں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی یقین سے کہا۔۔۔۔ کہ مـیں نے خود دروازے کی درز سے آپ کی یہ شلوار دیکھی تھی ۔۔۔مـیری بات سن کر اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیـا۔۔۔اور وہ کہنے لگی۔۔ مـیں تو بس ویسے ہی۔۔۔ پھر سر جھکا کر بولی ۔۔۔ ۔۔۔ ماما کو نہ بتانا پلیززززز ۔۔۔اس پر مـیں نے اس سے کہا ۔۔۔ کہ ایک شرط پر نہیں بتاؤں گا۔۔ کہ ایک دو۔۔۔ مـیری فرمائیش سن کر اس نے ایک نظر سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔اور کانپنے لگی۔۔ اس دوران مـیں نے اسے اپنی طرف کھینچا ۔ نہ کرو پلیز۔۔۔ماما نے دیکھ لیـا۔۔۔۔تو ۔۔ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔ کہ مـیں اپنے منہ کو اس کے منہ کے قریب لے گیـا۔۔۔۔اور پھر احتجاج کے باوجود ۔۔۔۔اس کے نرم ہونٹوں ۔۔ پر ایک ہلکی سی دے کر باہر نکل گیـا۔۔۔۔ پھر اس کے بعد مـیری اس کے ساتھ روٹین ہو گئی کہ جاتے سمے ۔۔۔ مـیں اس کو ہلکی پھلکی ضرور کرتا۔۔۔۔شروع مـیں اس نے تھوڑا احتجاج کیـا۔۔۔۔ لیکن جلد ہی وہ بھی مـیرا ساتھ دینے لگی۔۔۔ پھر آہستہ آہستہنگ کے ساتھ ساتھ مـیں اس کی چھاتیـاں بھی دبانے لگا۔۔۔۔اور ۔۔۔پھر ایک دن وہ بھی آ گیـا کہ جبنگ کے دوران ۔۔۔ مـیں نے اسے لن بھی پکڑا دیـا۔۔۔۔ جسے کچھ نخروں کے بعد۔۔۔اس نے پکڑ لیـا۔۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ ۔۔۔ جب مـیں اس کے گھر گیـا تو اس دن خلافِ توقع آنٹی نے دروازہ کھولا۔۔ اور مجھے ساتھ لے کر ڈرائنگ روم مـیں بیٹھ گئی ۔۔۔ اور پھر خود ہی کہنے لگی۔۔ مصباح نہا لے تو پھر اوپر چلتے ہیں ۔۔۔یہ کہہ کر وہ مـیرے ساتھ باتیں کرنے لگی۔۔۔ کچھ دیر بعد مصباح بھی ڈرائینگ روم مـیں آ گئی۔۔۔۔ اسے اندر آتا دیکھ کر آنٹی نے مـیرا ہاتھ پکڑا اور مصباح سے کہنے لگی ۔۔۔ ہم جا رہے ہیں باقی تم سنبھال لینا۔۔یہ کہہ کر آنٹی تیزی سے چلتی ہوئی سیڑھیـاں چڑھنے لگی ۔۔ اسی دوران مصباح مـیرے پاس آئی اور چپکے سے کہنے لگی۔۔۔مـیں نے آج شو دیکھنا ہے۔۔۔اس کی بات سن کر مـیں نے سر ہلایـا۔۔۔اور پھر آنٹی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔۔۔۔کمرے مـیں جا کر مـیں بظاہر تو آنٹی کو چود رہا تھا لیکن مـیرا سارا دھیـان۔۔۔۔ دروازے کی طرف تھا۔۔۔۔۔اسی دوران جب آنٹی مـیرے لن پر بیٹھی جمپ مار رہی تھی کہ اچانک مـیں نے دروازے کی درز سے ایک سایہ سا لہراتے ہوئے دیکھا اور مـیں سمجھ گیـا کہ وہ آ گئی ہے۔۔۔ کچھ توقف کے بعد جب مجھے اس بات کا یقین ہو گیـا کہ اب مصباح نے اپنی آنکھیں کی ہول کے ساتھ لگا لیں ہوں گی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ مـیں اوپر اُٹھنے لگا تو لن پر جمپ مارتی ہوئی آنٹی کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ کیـا ہوا جان؟ تو مـیں نے اسے کہا کہ آپ ایک منٹ کے لیئے مـیرے لن سے نیچے اترو ۔تو وہ مـیرے لن سے اتر کر نیچے آ گئی۔۔ان کے اترنے کے بعد مـیں بستر پر بیٹھ گیـا۔۔ اور پلنگ پر دونوں پاؤں دراز کر تے ہوئے ان سے بولا۔۔۔ اب آپ مـیری طرف منہ کر کے لن پر بیٹھ جائیں ۔۔۔۔۔ مـیری بات سن کر آنٹی آگے بڑھی ۔۔۔۔اور مـیرا منہ چوم کر کہنے لگی ۔۔۔ اچھا سٹائل بنے گا ۔اس کے بعد وہ اوپر اُٹھیں اور مـیری طرف منہ کر کے اپنی گیلی چوت کو مـیرے لن پر رکھ کر ۔ ۔ اور آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہونے لگیں۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ آنٹی کا منہ مـیری طرف اور پشت دروازے کی طرف تھی ۔۔۔۔ جبکہ ان کے بر عمـیرا منہ دروازے کی طرف تھا اور مـیری پوری کوشش تھی کہ مـیں ایسے زاویے سے بیٹھو ں کہ جہاں سے مـیرا لن آنٹی کی چوت مـیں جاتا ہوا صاف نظر آئے۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور مجھے پورا یقین تھا کہ مصباح یہ سب دیکھ کر انجائے کر رہی ہو گی۔۔ پھر اس کے بعد مـیں نے آنٹی کو مخاطب کر کے کہا کہ تھوڑا اوپر اُٹھیں۔۔۔اور وہ اوپر اُٹھ گئیں ۔۔۔ تو مـیں نے ان کی چوت سے اپنے لن کو نکلا ۔۔اور اسے ہاتھ مـیں پکڑ کر ۔۔۔۔۔دروازے کی طرف دیکھتے اسے لہرایـا۔۔۔۔اور پھر اسے آگے پیچھے کرنے لگا۔۔۔۔ اسی دوران آنٹی بےتابی سے کہنے لگیں ۔۔۔ ۔۔۔ کیـا کر رہے ہو یـار۔۔۔ ۔۔۔اسے اندر ڈالو۔۔۔۔ مـیں بس چھوٹنے لگی ہوں۔۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ تھوڑا اوپر اُٹھیں اور مـیں نے ایک دفعہ پھر دروازے کی طرف اشارہ کر تے ہوئے لن کو ہلایـا۔۔۔اور پھر اسے آنٹی کی چوت مـیں ڈال دیـا۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی مـیرا لن ۔۔۔آنٹی کی چوت مـیں گھسا۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اوپر نیچے ہونا شروع کر دیـا۔۔۔۔اور پھر اگلے چند لمحوں کے بعد ۔۔۔۔ انہوں نے ۔۔۔ شہوت بھری سی چیخیں ماریں ۔۔۔۔۔اور پھر جھٹکے مارتے ہوئے آرگیزم کر دیـا۔۔۔ چھوٹنے کے بعد وہ کافی دیر تک مـیرے ساتھ چمٹی ہانپتی رہیں۔۔۔ پھر جب ان کا سانس کچھ برابر ہوا تو مجھ سے کہنے لگیں کہ تم بھی چھوٹ گئے ہو ناں؟ تو مـیں نے جھوٹ موٹھ کہہ دیـا کہ جی ۔۔۔ مـیرا بھی پانی نکل گیـا ہے۔۔۔یہ سن کر وہ مطمئن ہو گئیں ۔۔۔اور تھکاؤٹ بھرے لہجے مـیں بولیں۔۔۔۔تیرے آج کے سٹائل نے تو مجھے تھکا کے رکھ دیـا ہے ۔۔۔۔ پھر سرہانے کے نیچے رکھے ہوئے کپڑے کو اُٹھا کر مـیری طرف پھینکتے ہوئے بولیں۔۔۔لو صاف کر لو۔۔۔۔ اور خود بیڈ سے کپڑے اُٹھا کر ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بنا ٹا ٹا کیئے۔۔۔۔۔واش رو م مـیں گھس گئیں۔۔ ادھر مـیں نے جلدی سے کپڑے پہنے ۔۔۔اور لن صاف کیئے بغیر باہر نکل گیـا۔۔۔ ۔۔۔۔ سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا تو سامنے مصباح کھڑی تھی۔۔۔ نیچے اترتے ہی مـیں نے اسے اپنی بانہوں مـیں لے لیـا۔۔۔اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے۔۔ ۔۔اور ٹائم شارٹ ہونے کی وجہ سے بس تھوڑی دیر ۔۔۔ انہیں چوسا اور پھر اپنے منہ کو اس کے کان کے قریب لے جا کر بولا۔۔۔ کیسا لگا مـیرا شو ۔۔۔اور خاص کر لن؟ تو وہ ہولے سے کہنے لگی۔۔۔۔ شو تو ہمـیشہ کی طرح ہاٹ تھا ۔اور پھر چپ ہو گئی۔۔۔ تب مـیں نے دوبارہ سے اپنا منہ اس کے کان کے قریب لے گیـا ۔۔۔۔ اور آہستہ سے بولا۔۔۔ مـیرے لن مـیں بھی کچھ کہو نا۔۔۔۔ تو وہ شہوت مـیں چور ۔۔۔کانپتی ہوئی آواز مـیں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا ہے تیرا۔۔۔ تب مـیں نے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور اپنے لن پر رکھ کر بولا ۔۔۔ یہ اتنا بڑا بھی نہیں کہ تیری پھدی مـیں نہ جا سکے ۔۔۔۔مـیری بات سن کر وہ واضع طور پر کانپی۔۔۔۔۔اور پھر خوف ذدہ آواز مـیں بولی۔۔۔۔ ایسا نہ کرو یـار ۔۔۔ کہیں ماما نہ آ جائیں ۔۔تو مـیں اسے جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔ فکر نہیں کرو ۔۔۔ آج کی چودائی نے اسے بہت تھکا دیـا ہے اور ۔۔۔۔۔ اس وقت وہ گرم پانی سے اپنی پھدی کو ٹکور کر رہیں ہوں گی۔۔۔ اور پھر مـیں نے اس کے ہاتھ کو پکڑا ۔۔۔۔اور اسے سیڑھیوں کے نیچے بنے واش روم مـیں لے گیـا۔۔۔۔ ا ور اس چھوٹے سے واش کو لاک کر کے۔۔۔۔۔ اپنی پینٹ کی زپ کھولا۔۔۔۔ اور لن کو باہر نکال کر۔۔۔ مصباح کے سامنے اسے لہرا کر بولا۔۔۔۔ ۔۔۔ ہاں تو مس ی اسے چوسنا پسند کرو گی۔۔۔ یـا پھر اسے۔۔۔ ڈائیریکٹ اندر ڈال دوں؟ ۔۔۔ مـیری بات سن کر مصباح نے واش روم مـیں رکھے کموڈ کا ڈھکن نیچے کیـا ۔۔۔اور پھر اس پر بیٹھ کر بولی۔۔۔ ہاں ضرور چوسوں گی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے کھینچ کر اپنے قریب کیـا۔۔۔۔اور اپنے منہ کو لن کے قریب لے جا کر بولی۔ ۔۔۔۔اوہ۔۔ اس کو دھویـا نہیں تھا ؟ تو اس پر مـیں نے کہا کیوں کیـا ہوا؟ تو وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔۔۔ کیونکہ اس مـیں سے ابھی تک۔۔۔۔ منی کی سمـیل آ رہی ہے تو مـیں نے اس سے کہا ۔۔۔ لن کو منہ مـیں ڈال ۔۔۔کیونکہ اس مـیری نہیں بلکہ تیری ماما کی منی ہے ۔۔ وہ اس لیئے کہ آج تو مـیں چھوٹا ہی نہیں۔۔۔ اور مـیں نے غور کیـا کہ اپنی ماما کی منی کا سن کر وہ ایک دم جزباتی سی ہو گئی ۔۔اور جلدی سے زبان نکال کر لن کو چاٹنے لگی۔ جب مـیرا لن منی سے صاف ہو گیـا تو مـیں نے اس سے کہا کہ ماما کی منی کیسی لگی؟۔تو وہ منہ مـیں رکھی ہوئی منی کو واش روم کے فرش پر تھوکتے ہوئے بولی۔۔۔۔مزے کی ہے ۔۔۔اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔۔ تم کیوں نہیں چھوُٹے؟۔۔۔تو مـیں نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔ کیونکہ آج مـیں نے تمہاری چوت جو مارنی تھی۔۔ مـیرے منہ سے چوت مارنے کا لفظ سن کر وہ ایک دم گرم ہو گئی۔۔ اور مـیری آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال کر شہوت بھرے لہجے مـیں بولی۔۔۔۔۔ پھر چوپا کیوں لگوا رہے تھے ۔۔۔چوت مارو۔۔۔۔ نا ۔یہ کہہ کر ہی کموڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔۔اور پھر اس نے اپنے اپنی الاسٹک والی شلوار کو نیچے کیـا۔۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ کموڈ پر رکھے اور ۔۔ اپنی گانڈ کو باہر نکال کر بولی۔۔۔ ۔چل اب چوت مار۔۔ ۔۔۔ گانڈ پیچھے کرنے کی وجہ سے مصباح کی بڑی ہی خوب صورت گانڈ ۔۔۔۔۔اور گرم چوت مـیری آنکھون کے سامنے آ گئی تھی۔۔۔ چنانچہ مـیں نے نیچے کو جھک کر اس کی چوت کو دیکھا تو اس مـیں سے گرمـی کے باعث بہت زیـادہ سیک نکل رہا تھا۔۔۔ تب مـیں نے اپنی ناک کو اس کی ی چوت پر رکھا۔۔اور اسے سونگنے لگا۔۔۔۔۔۔ چوت مـیں سے بڑی ہی مست اور عجیب سی مہک آ رہی تھی ۔۔ تھوڑی سی ۔۔مہک لینے کے بعد مـیں نے جونہی اس کی چاٹنے کی غرض سے اس کی چوت پر زبان رکھی تو وہ ایک دم تڑپ کر بولی۔۔چاٹ نہ۔۔۔۔۔ پھدی مار ۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔۔ جلدی سے لن اندر کرو۔۔۔ کہیں ماما نہ آ جائے۔۔۔ اس کی بات سن کر مـیں اپنے لن کے ہیڈ کو اس کی تنگ ۔۔۔۔ لیکن گیلی چوت پر رکھا ۔۔۔۔اور اسے اندر ڈالنے سے پہلے بولا۔۔۔ تیری فرسٹ ٹائم ہے۔۔۔۔تو وہ بے تکلف کہنے لگی۔۔۔ نہین ہے ۔۔۔۔ لیکن تم مـیرے اندر نہیں چھوٹنا۔۔۔۔۔مصباح کی بات سن کر مـیں نے چوت پر رکھے لن کو دھکا لگا کر اس کے اندر کر دیـا۔۔۔ جیسے ہی مـیرا لن مصباح کی چوت مـیں داخل ہوا ۔۔۔۔اس نے اپنے منہ سے نکلنے والی چیخ کو بڑی مشکل سے روکا ۔۔۔ لیکن پھر بھی اس کے منہ سے گھٹی گھٹی آواز مـیں ۔۔۔اوئی ماں۔۔۔۔ نکل ہی گیـا۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی گانڈ کو پیچھے کر کے مـیرے لن پر مارا اور کہنے لگی۔۔۔ جلدی جلدی گھسے مار۔۔۔۔۔۔اور اس کے کہنے پر مـیں نے جلدی جلدی گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ مـیرے تین چار گھسوں کے بعد ہی۔۔۔۔۔ وہ ی حسینہ فارغ ہو گئی۔۔۔اور اس کی چوت سے پانی بہہ بہہ کر نیچے گرنے لگا تب وہ مجھ سے بولی۔۔۔۔ تو بھی جلدی چھوٹ ۔۔۔۔۔۔ کہیں ماما نہ آ جائیں۔۔۔۔ اور مـیں نے دو تین گھسے مارے ۔۔۔۔تو مجھے ایسا لگا کہ مـیں بھی چھوٹنے والا ہو گیـا ہوں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تب مـیں نے لن کو کھینچ کر اس کی ٹائیٹ چوت سے باہر نکالا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کی چوت سے لن باہر نکلا ۔۔۔وہ ایک دم سیدھی ہو کر دوبارہ کموڈ پر بیٹھ گئی۔۔اور مـیرا لن پکڑ کر بولی۔۔۔۔ جانے لگے ہو؟ تو مـیں نے اثبات مـیں سر ہلا دیـا۔۔۔۔ مـیری بات سن کر وہ اپنے منہ کو مـیرے لن کے بلکل قریب لے آئی اور پھر اس پر بہت سار ا تھوک پھینکا ۔۔۔۔اور مـیری مُٹھ مارنے لگی۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد مـیں اس بولا۔۔۔ ۔۔۔ بس۔۔۔۔ مـیری بات سن کر اس نے مـیرے لن کا منہ دوسری طرف کیـا۔۔۔۔اور پھر تیز تیز ۔۔۔ ہاتھ ہلانے لگی۔۔۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے مـیرے لن سے پچکاری سی نکلی۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ منی کا پہلا قطرہ اڑتا ہوا۔۔۔۔ ان کے چھوٹے سے واش روم کی دیوار پر جا لگا۔۔۔ اس کے بعد۔۔۔۔۔ وہ تب تک مـیری مُٹھ مارتی رہی کہ جب تک مـیرے لن سے منی کا آخری قطرہ بھی نہ نکل گیـا۔۔اور جب مـیرا لن منی سے خالی ہو گیـا تو اس نے اپنی شلوار کو اوپر کیـا۔۔۔اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی ۔۔۔ کہ لن کو واپس ڈال کر مـیرا ویٹ کرو ۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد ۔۔۔ اس نے دروازہ پر ناک کی ۔۔۔۔ اور کہنے لگی چپکے سے باہر نکل جاؤ۔۔۔ اور یوں مـیرے مصباح کے ساتھ بھی سیپروگرام شروع ہو گیـا۔۔۔۔۔ آنٹی سے واپسی پر سیڑھیوں کے نیچے بنے واش روم مـیں کبھی تو مـیں اس کی چوت مارتا اور۔۔۔۔کبھی اس کو لن چسواتا تھا۔۔۔ اور کبھی کبھی صرف چوت کو چاٹا کرتا تھا۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ آنٹی کے ساتھ بھر پور سیکرنے کے بعد۔۔۔۔ حسبِ معمول اس نے لن کو صاف کیـا اور بیڈ پر کپڑے اُٹھا کر مجھے ٹاٹا کرتی ہوئی واش روم مـیں چلی گئی۔۔۔وہاں سے فارغ ہو کر جیسے ہی مـیں نیچے اترا تو سامنے ہی مصباح کھڑی تھی مـیں نے اسے اپنے بازؤں مـیں بھرا اور ۔۔۔ ہم نےنگ شروع کر دی۔۔۔۔۔ابھی ہمنگ ہی کر رہے تھے کہ۔۔۔ اچانک اوپر سے آنٹی آ گئی۔۔ آنٹی کو آتا دیکھ کر مصباح تو بھاگ کر کمرے مـیں چلی گئی۔۔۔اور اب مـیں اور آنٹی اکیلے رہ گئے ۔۔۔ تب آنٹی مـیری طرف مخاطب ہو کر کہنے لگیں ۔۔ مـیں تمہیں کچھ نہیں کہوںکہ مرد ہوتے ہی بے وفا ہیں ۔۔۔پھر مجھے پکڑ کر بڑے غصے سے بولی۔۔۔ کیـا مـیں تمہیں کم مزہ دیتی تھی ؟ تو مـیں نے شرم کے مارے نیچے دیکھتے ہوئے انکار مـیں سر ہلا دیـا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کہنے لگی۔۔۔ کیـا مـیں بستر پر تیری غلام نہیں ہوتی تھی ؟ تم جیسا پسند کرتے تھے مـیں ویسا ہی پوز بنا کر تم سے پھدی مرواتی تھی؟ تو مـیں نے ہاں مـیں سر ہلا دیـا۔۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھی اور مجھے جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔۔۔ مـیں نے کہا تھا نا کہ مجھ سے دھوکا نہیں کرنا۔۔۔۔ پر تم باز نہ آئے۔۔۔ اور دوسروں کی طرح تم بھی بے وفا نکلے۔۔۔ ۔۔پھر چلا کر بولی۔۔۔ابھی اور اسی وقت مـیرے گھر سے دفع ہو جاؤ۔۔۔آنٹی کی بات سن کر مـیں نے ان سے معافی تلافی کی بڑی کوشش کی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بہت منتیں کیں۔۔۔ لیکن وہی طرح بھی نہیں مانیں ۔۔ لیکن مـیں اپنی جگہ پر کھڑا ان سے مسلسل معافیـاں مانگتا رہا۔۔۔۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھیں اور جب مـیں ان سے ایکسکیوز کر رہا تھا ۔۔۔تو اچانک وہ چلا کر بولی آخری دفعہ کہہ رہی ہوں کہ مـیرے گھر سے دفع ہو جاؤ ۔۔۔ ورنہ مـیں چلانا شروع کر دوں گی۔۔۔۔۔ ان کی بات سن کر مـیں سر جھکا ئے اور بڑا رسوا ہو کر وہاں سے چلا آیـا۔۔۔۔۔۔پھر اس کے بعد بھی مـیں نے انہیں منانے کی ہر طرح سے کوشش کی ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ ان لبوں نے نہ کی مسیحائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ابنِ مریم ہوا کرے کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مـیرے دکھ کی دوا کرے کوئی۔ ختم شُد۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔......................................... . چوت چٹا ی کہانی . چوت چٹا ی کہانی : چوت چٹا ی کہانی




[چوت چٹا ی کہانی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Wed, 22 Aug 2018 12:38:00 +0000



تمامی مطالب این سایت به صورت اتوماتیک توسط موتورهای جستجو و یا جستجو مستقیم بازدیدکنندگان جمع آوری شده است
هیچ مطلبی توسط این سایت مورد تایید نیست.
در صورت وجود مطلب غیرمجاز، جهت حذف به ایمیل زیر پیام ارسال نمایید
i.video.ir@gmail.com