پسندیدہ کتابوں مـیں شامل کریں
فہرست مضامـین
نجمہ نکہت
جمع و ترتیب: چوت چٹا ی کہانی اعجاز عبید
بھوری نے کھڑکی سے باہر دیکھا
چاندنی رات کی خاموشی مـیں ایک عجیب سا جادو تھا۔ ایک عجیب سا صحرا اس کے اپنے کھیتوں مـیں خاموش پودے سرجھکائے سورہے تھے اور کوئی اس کے کانوں مـیں کہہ رہا تھا۔
یہ تیرے کھیت ہیں بھوری۔۔ یہ دور تک پھیلے ہوئے سرسبز کھیت جن مـیں سے ہوا گاتی ہوئی گذرتی ہے جن کے اوپر بادل جھومتے ہیں۔ جن مـیں تو نے اپنی امـیدیں و آرزوئیں بوئی ہیں اور جو دھرتی کے سینے سے نرم کونپلیں بن کے ابھری ہیں۔ دھیرے دھیرے پروان چڑھی ہیں۔ جوان ہوئیں ، چوت چٹا ی کہانی یہ سنہری مـیٹھی خوشبو والی ، بالیـاں۔
یہ چکنی نرم پتیـاں ، بہار سبزی ، مـیٹھی خوشبو ، اور سیـاہ مٹی کی مـینڈھ جو کھیتوں کے اطراف یوں پھیلی ہوئی ہے جیسےی کنواری کے سبز دوپٹے کی گوٹ۔
ان مـیں اگے ہوئے۔ سونے جیسے دانے جب کٹنے کے بعد کھلیـان مـیں ڈھیر ہوں گے تو ایسا لگے گا جیسے شدید محنت کر کے بہائے ہوئے پسینے کا ایک ایک قطرہ منجمد ہو گیـا ہے۔
تیری اپنی محنت ، تیرا اپنا لہو ، تیرا اپنا ارمان ، اور تو دانوں کے اس کھلیـان تلے بیٹھ کے سوچے گی۔ کھلیـان مـیں دانوں کی یہ پہاڑی مـیری محنت نے تخلیق کی ہے۔ مـیری محنت لہو ، مـیرے بل اور مـیری امـید نے اس پہاڑی کو یہاں مـیدان مـیں پیدا کیـا ہے۔ ان دانوں مـیں مـیرے روپ کا سنہرا پن ہے۔
مـیری سانسوں کی خوشبو ہے۔ مـیرے سینے کا گداز ہے۔ مـیری آنکھوں کی چمک ہے۔ ان دانوں کیلئے مـیرے دل مـیں اتنی ممتا ، اتنا پیـار اور اتنی شفقت ہے جتنی اولاد کیلئے ماں کے دل مـیں ہوتی ہے۔ شاید تخلیق دنیـا کی سب سے بڑی خوشی ہے۔
بھوری کے کانوں مـیں شاید اس کا مستقبل بول رہا تھا مگر اس آواز مـیں اتنی مٹھاس تھی کہ بھوری کے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی اس نے سوچا اس وقت کی مسکراہٹ بڑی اچھی لگ رہی ہوکتنے دنوں بعد اس کے دل مـیں گدگدی سی ہو رہی ہے۔ دن کا اجالا ہوتا تو وہ اپنی رس بھری مسکراہٹ فضا مـیں اچھالتی ہوئی اپنے کھیتوں مـیں چلی جاتی۔ لمبے لمبے پودوں کو سینے سے لگا لیتی۔ بالیوں پر پیـار سے ہاتھ پھیرتی اور ان کے پیلے سونے کو چوم لیتی بالکل اسی طرح جیسے زنیو نے پچھلی بہار مـیں پہلی مرتبہ اس کے ہونٹوں پر کھلتی کلیوں کو چوما تھا اور بھوری نے اپنے دل مـیں عجیب سی گدگدی محسوس کی تھی۔ ایسا ہی مـیٹھا مـیٹھا درد اور ایسی ہی ناقابل فہمک ، اس کا دل بہ یک وقت رونا بھی چاہتا تھا اور مسکرانا بھی۔ یہ عجیب سی کیفیت تھی۔ کوئی ایسا جذبہ ابھر آیـا تھا جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ اور آج بھی بھوری کے ہونٹ مسکرا رہے تھے اور آنکھیں جھلملا رہی تھیں۔
بھوری سوچنے لگی یہ کیـا چیز ہے جو گرداب کی طرح چکر کھاتی ہوئی مـیری رگ رگ سے اٹھتی ہے۔ پھر مـیرے ہونٹوں پہ ہنسی بن جاتی ہے تو آنکھوں مـیں آنسو۔ یہ کیسا نرالا احساس ہے۔ یہ کیسی انوکھی کشمکش ہے۔ یہ مسکراہٹ کے اندر آنسو کیسے ہیں۔ یہ گدگدی کے نیچے درد کیسا ہے ؟یہ تہہ بہ تہہ سوئے ہوئے جذبے کیسے ہیں ؟
جیسے دیہات کے گدلے نالے کے پاس پہاڑی راستہ ہے جس پر کوئی نہیں چلتا۔ کبھی کبھار اس راستے پر جانا پڑے تو یوں لگتا ہے جیسے قدموں کے نیچے پتھر کی تہیں ٹوٹ رہی ہیں۔ پہلی تہہ پر پیر پڑتا ہے تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے ایسا کوئی پتھر مـیرے۔ سینے مـیں بھی ہے۔ اس پتھر کی تہیں مسکراہٹوں اور آنسووں سے مل کے بنی ہیں۔ ایک تہہ پر چوٹ پڑتی ہے تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے اسی لئے تو ہنسی اور آنسو دونوں گھل مل جاتے ہیں۔
بھوری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چمک گئی۔ اس نے اپنی دانست مـیں اپنی سب سے بڑی الجھن کا سبب جان لیـا تھا لیکن زینو کہتا تھا کہ اس پہاڑی راستے کے نیچے جوالا مکھی چھپا ہے اور ایک دن پھٹ پڑے گا۔
کون جانے مـیرے دل کی تہوں کے نیچے بھی کوئی جوالا مکھی ہو۔
اس کی نگاہیں اپنے کھیت کے خاموش پودوں پر جمـی ہوئی تھیں۔ جو پندرہ دن بعد بالکل تیـار ہو جائیں گے اور جن کو وہ چاند سی ، درانتی لے کے یوں کاٹنے جائےجیسے زمـیندار اپنے نئے محل کو دیکھنے جاتا ہے۔
بھوری کو زمـیندار والی اس غلط تشبیہ سے جھرجھری سی آ گئی۔ نہیں نہیں۔ وہ زمـیندار کی طرح نہیں جائے گی۔ زمـیندار تو دوسرے کی محنت پر قبضہ جمانے جاتا ہے۔ اس وقت اس کی آنکھوں مـیں قدر خوفناک چمک ہوتی ہے۔ اس کی ساری زندگی نئے نئے محل بنوانے اور ان محلوں مـیں دیہات کی کنواری لڑکیوں کو قید کرنے مـیں گذرتی ہے۔ گاؤں بھر کے کھیتوں مـیں اس کا حصہ ہے۔ گاؤں بھر کے مزدوروں مـیں اس کا حصہ ہے۔ آخر اس مفت کے حصے کا سلسلہ کب ختم ہو گا؟
بھوری کے ذہن مـیں ہزاروں بار یہ سوال گونجا تھا مگر وہ جواب نہیں سوچ سکتی تھی۔ جواب سوچنے سے پہلے اس کے دل کی نرم و گرم تہیں ٹوٹنے لگتیں۔ ایسی آگ ابلتی کہ بھوری کو اندیشہ ہونے لگتا کہیں جوالا مکھی پھٹ نہ پڑے۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی کھڑی سوچتی رہی۔ اس کے دماغ مـیں ہزاروں خیـال تیزی سے پیدا ہوتے۔ تیزی سے ٹکراتے اور ان کا ہجوم بھوری کے لئے پریشان کن ہو جاتا۔
آج بھوری کا ذہن اس کی بچپن سے اب تک گذری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ بڑی ایمانداری سے اس کے سامنے لا رہا تھا اور وہ بڑی محتاط نظروں سے ان لمحوں کو بغور دیکھتی۔ ان لمحوں کے پیچھے اپنے ماحول کا پورا عاس کو دھندلے خواب کی طرح ہلکے غبار مـیں لپٹا ہوا دکھائی دیتا۔ بعض لمحے بالکل واضح تھے جن پر نئے سکوں کی سی چمک تھی اور حرص وہوس کی خوفناک جلاء وہ دن ، وہ لمحے ایک ایک کر کے سامنے آتے گئے۔
وہ دن بھی عجیب دن تھا جب زمـیندار نے اپنے کھیت کے ایک وٹی کو بھوری کے ہیں بھیجا تھا اور وٹی نے اس کو بتایـا تھا کہ زمـیندار کی مالن بیمار ہے۔ اس لئے تم کو زمـیندار نے باغ مـیں کام کرنے کا حکم دیـا ہے۔ بھوری نے بغیر منہ بنائے حامـی بھر لی۔ وہاں اس نے پارو کو دیکھا جو ریشمـی ساری اور چمکتے زیورات مـیں بھی افسردہ تھی جیسے جنگلی آزاد ہوا مـیں پلنے والے پھول کو شیشے کے صندوق مـیں بند کر دیـا گیـا ہو اور جو اپنی خوشبو اور تازگی کھونے کے بعد مرجھا گیـا ہو اور اس پھول نے بھوری سے التجا کی۔ یہاں سے چلی جا بھوری۔ بھگوان کیلئے چلی جا۔ اگر بوڑھا زمـیندار تجھے دیکھ لے گا تو تجھے بھی اس کال کوٹھری مـیں رہنا ہو گا۔ یہاں عجیب سی شادی ہوتی ہے۔ نہ دیئے جلتے ہیں۔ نہ مہندی لگتی ہے۔ نہ سھاگ گیت گائے جاتے ہیں اور نہ برات آتی ہے۔ بس بیـاہ ہو جاتا ہے پھر کٹھ پتلیوں کی طرح ایک ایک کے ہاتھوں مـیں کھیلنا پڑتا ہے۔ تو جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے بھاگ جا۔
اور وہ بڑا بھاری خوف اپنے دل مـیں لئے بھاگ آئی۔ اس نے راستے کا چکر بڑی تیزی سے کاٹا اور ہانپتی ہوئی آ کے زینو کے بازوں مـیں گر گئی۔
زینو اس نے سسکی لی اور اپنا سر زینو کے کندھے سے لگا دیـا۔
’’کیـا بات ہے بھوری ! زینو پریشان ہو گیـا۔
وہ اپنی پارو تھی نا۔ وہی جو بچپن مـیں ہمارے ساتھ کھیلتی تھی۔ شریر سی لڑکی جب ہم نے ساون مـیں ہیروں پر جھولے ڈالے تھے اور پارو کے جھولے کی رسی ٹوٹ گئی تھی اور پاروتی پتھر پر گر پڑی تھی ایک نوکیلا پتھر اس کے اپنے گال مـیں دھنس گیـا تھا۔ وہ زخم کا نشان اب تک اس کے گال پر موجود ہے۔ مگر آج مـیں نے اسے دیکھا۔ زمـیندار کے محل مـیں وہ شریر پارو اب ایک رنجیدہ سی مریل عورت ہے۔ جب مـیں وہاں کام کرنے گئی تھی تو اس نے مجھے جلدی سے وہاں سے بھگا دیـا۔ کہنے لگی اگر زمـیندار تجھے دیکھے گا تو یہاں قید کر لے گا۔
اس نے بڑے چمکیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور گہنوں سے لدی ہوئی تھی مگر اس کا چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کی آنکھیں بیمار کی آنکھوں کی طرح اداس اور کمزور تھیں۔
زینو سنجیدہ ہو گیـا۔ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ شادی ہو جائے تو اس زمـیندار کے بچے کو اتنی ہمت بھی نہیں پڑےکہ تیری طرف نظر اٹھا کے دیکھ سکے پھر چاہے تو گاؤں مـیں اکیلی گھوم پھر لے۔ مگر اس فصل تک کچھ نہیں ہو سکتا۔ ادھر باپ بیمار ہے۔ کھاٹ سے اٹھنے کا بھی اس مـیں دم نہیں رات بھر کھانستا ہے اور دم یوں پھولتا ہے جیسے سینے مـیں دھونکنی چل رہی ہو اور یہاں کا ڈاکٹر کہتا ہے۔ شہر لے جاؤ۔ گاؤں کے دوا خانے مـیں علاج نہیں ہو سکتا۔ اور مـیرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ زندگی ایسی مجبور ہے کہ ہم جو سوچتے ہیں بس زندگی بھر سوچتے ہی رہتے ہیں۔
زینو کا گلہ رندھ گیـا اور اس کی آنکھیں بھوری کی گہری خاموش آنکھوں ملیں تو اس کو احساس ہوا کہ وہ خود اپنا دکھڑا سنانے آئی تھی اور زینو اپنا دکھڑا لے بیٹھا۔ زینو نے سنبھل کے دیوار کا سہارا لیـا اور لہجہ مـیں یقین پیدا کرنے کیلئے حلق صاف کرنے لگا۔
مگر تو یہ نہ سمجھ کہ یہ مجبوری عمر بھر کی ہے۔ تجھے کیـا معلوم کہ مـیری راتیں کتنی ڈراؤنی ہو گئی ہیں۔ رات بھر سوچتا سوچتا الجھنے لگتا ہوں مگر کچھ سمجھ مـیں نہیں آتا۔ پریشانیوں نے مجھ جیسے کڑیل جوان کو بے آس کر دیـا ہے۔ کل گاؤں کے ساہوکار خان بابو کے پاس گیـا تھا۔ باتوں باتوں مـیں اس نے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔
کیـا کہا اس نے بھوری نے بڑے تردد سے پوچھا۔
تو سن کے کیـا کرے گی۔ تجھے سن کے دکھ ہو گا، زینو کی پیشانی پر ابھری ہوئی ورید پھڑپھڑانے لگی۔ اس نے بھوری کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
خان بابو نے کہا۔ بڑا آیـا بھوری کو بیـاہنے والا۔ اس کو زمـیندار کے محل مـیں بھیج دے تجھے کھانا بھی ملے گا۔ پیسہ بھی ملے گا اور بیمار باپ کی دوا بھی ملے گی۔ تو بے وقوف ہے ایسے رنگ روپ کی چھوکریـاں زمـینداروں کے محلوں مـیں اچھی لگتی ہیں۔ زمـیندار سب لڑکیوں کے دام تو نہیں لگاتا پر مـیرا اس کا یـارانہ ہے۔ کہہ سن کے تیری قسمت پھیر دوں گا۔ زینو نے ایک ہی سانس مـیں سب کچھ کہہ دیـا اور اس دوران بھوری کی طرف دیکھنے کی اس کو جرات نہ ہوئی۔
بھوری حیرت زدہ سی آنکھیں پھاڑے زینو کو دیکھتی رہی۔ اور مختلف قسم کے رنگ چہرے پر آئے اور جاتے رہے۔
وہ یہ بھی کہتا تھا کہ اس طرح مـیرا پچھلا قرض بھی چکا دینا۔ سود بہت بڑھ گیـا ہے۔
نہیں مانو گے تو مجبوراً کھیتوں پر آفت آئے گی۔
اور مـیں الٹے قدموں خالی ہاتھ لوٹ آیـا۔ مـیرا تو ہاتھ اس پر اٹھتے اٹھتے رہ گیـا مـیں اس کو ضرور مارتا مگر زمـیندار سے کہہ کے اپنے قرض مـیں مـیرے کھیت ضبط کروا لیتا تجھ کو ذرا ذرا سی بات کا پتہ ہے۔ تجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس نے کتنےانوں کی زمـین اسی ترکیب سے قبضے مـیں کر لی ہے۔ اس کے پاس جتنی زمـین ہے اتنی گاؤں بھر مـیں شایدیـان کی نہیں ہے۔ زمـیندار تو ہران سے زبردستی زمـین لے لیتا ہے مگر خان بابو بہت ہوشیـار آدمـی ہے۔ وہ مـیٹھی چھری سے گلا کاٹتا ہے۔ سب کو دل کھول کے قرض دیتا ہے۔ اور بھاری سود لگاتا ہےان یہ سمجھ کے خوش ہو جاتے ہیں کہ خان بابو بڑا دریـا دل آدمـی ہے ، ہران کے آڑے وقت کام آنے والا۔ اگر خان بابو نہ ہوتا تو گاؤں بھر کے لوگ بھوکوں مر جاتے۔
خان بابو اپنی طرف سے جس قدر چاہتا ہے قرض کی رقم کو بڑھا کر کھاتے مـیں لکھتا ہے کہ مـیرے کھیتوں کے دانے مـیں اس کا حصہ بڑھتا جاتا ہے۔ جب بھی اس کے ملنے جلنے والے یـار دوست گاؤں آتے ہیں تو وہ ہمـیشہ مجھ سے زیـادہ سے زیـادہ دانے لینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس بہانے مـیں بھوکا مر جاؤں مـیں تجھے کیـا بتاؤں کہ وہ مجھے طرح اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتا ہے …
مگر مـیں اُسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اول تو اس کی پشت پنا ہی زمـیندار کرتا ہے جاگیردار کرتا ہے حتی کے پٹیل پٹواری تک کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سبی نہی وقت اُسکے آگے ہاتھ پھلا تے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ان سے سودنہیں لیتا کہ زمـیندار خوش رہے اور سارے غریبان اس کی مٹھی مـیں دبے رہیں۔ مجھے بھی دانہی نہی طرح دنیـا پڑتا ہے جیسے ٹکڑی کی جال مـیں مکھی پھنس جاتی ہے ویسے ہی مـیں قرض مـیں پھنسا ہوا ہوں۔
دانہ کٹنے کے بعد جاگیر دار کا حصہ ، زمـیندار کا حصہ ، پٹیل پٹواری کا حصہ اور دوسرے کی حصے جانے کے بعد دانہ ہی کہاں رہی جاتا ہے۔ اتنا بھی تو نہیں رہتا کہ کچھ بیچنے کے بعد گھر کے لئے سال بھر آرام سے نکل جائے۔ تجھ پر بھی۔ یہی سب گذرتی ہے۔ مـیرے بتا نے کی ضرورت ہی کیـا ہے۔
بھوری اپنے ہاتھوں پر تھوڑی رکھے اس کی باتیں سنتی رہی پھر بڑے سوج بچار کے بعد بولی ’’ زینو … مـیری سمجھ مـیں یہ نہیں آتا کہ آقربیسیوں حصے ہماری محنت مـیں کیوں لگ جاتے ہیں۔ ؟
زنگیـا سوچنے لگا۔۔۔۔ اس کو مـیں طریقہ سے سمجھا سکتا ہوں ساری باتیں۔ مـیں تو خیر شہر مـیں رہ کے پڑھ لکھ گیـا ہوں اور اسی وجہ سے یہاں آتے ہی مـیں نے بات کی جڑ کو سمجھنے کی کوشش کی مگر بالماں ( جسکو سب بھوری کہنے تھے ، کیونکہ اس کے بال بالکل بھورے تھے مکئی کے بھٹے کی حفاظت کرنے والے سنہری لچھوں کی طرح ) تو بالکل جاہل کی لٹھ تھی۔
اب تو پھر بھی زنیو نے ہر ہر بات اس کو بڑی اچھی طرح سمجھائی تھی ورنہ وہ تو کئی بار زینوسے لڑ بیٹھتی کہ خان بابو کو بُرا نہ کہو بڑا دیـالو انسان ہے مگر جب بھوری کے ماں باپ گاؤں کی بُری وبا مـیں چل بسے تو زنگیـا کے باپ ملیـا نے بھوری کی اور اس کی زمـین کی حفاظت کی اور جب بھوری ترئی کی بیل کی طرح بڑھنے لگی تو ملیـا نے کھیتوں کا کچھ کام اس کے ذمہ بھی کر دیـا۔ ان دنوں زنگیـا شہر مـیں پڑھتا تھا۔
شہر گاؤں سے بہت قریب تھا اور ملیـا کا بھائی شہر مـیں جاگیردار کے باغ کا کام کرتا تھا اسلئے زنگیـا کو وہاں رہ کر پڑھنے مـیں زیـادہ آسانی تھی۔ گاؤں کا چھوٹا اسکول پاس کر کے وہ شہر چلا گیـا تھا۔
بھوری برابر اپنے کھیتوں مـیں جٹی رہتی۔ پھر رفتہ رفتہ اس کو گاؤں کے ہر آدمـی کے بارے مـیں نئی نئی باتیں معلوم ہوتی گئیں اور پھر ایک دن زنگیـا آ گیـا۔ صاف ستھری دھوتی ، چھوٹی سی بند گلے کی کرتی اور ذرا ذرا اسی ننھی مونچھیں جو بڑا رعب داب رکھتی تھیں۔
دونوں کے کھیت دانوں سے بھر گئے۔ جن کھلیـانوں مـیں خاک اڑتی تھی ان مـیں مزدوروں نے بھوری اور زینو نے گیت گائے۔ دھان کے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھے ، لوٹ پوٹ ہوے اپنے دلوں کو خوشی اور تسلی بخشی مگر اس خوشی کے پیچھے بے اطمنانی اور خوف چھپا تھا۔ دانوں کی تقسیم ، لگا ن اور مزدوری … گھر جگہ جگہ سے شکستہ ہو گیـا تھا اس کی مرمت کروانا ضروری ہو گیـا تھا۔ زنگیـا کے باپ کو مسلسل کھانسی کے دورے پڑنے لگے تھے ، اس کی دوا دارو … نہ جانے ساہوکارنے کب کا قرضہ اکٹھا کر کے تقاضے شروع کر دئیے بھوری و زینو کی مصروفیت بڑھ گئی تھی ، ان کو دوپہر کھانے کی فرصت بھی نہ ملتی جوار کی موٹی روٹیـاں اور املی کی کھٹی چٹنی ساراسارادن بھوری کے انچل مـیں بندھی کمر مـیں اڑسی رہتیں۔ جب سورج گھنے درختوں اور اونچے پہاڑوں کے درمـیان سرخ انگارے کی طرح دہکنے لگتا اور دھوپ کھتیوں کی مـینڈھوں پرسے گذرتی ہوئی اونچے اونچے پیڑوں پر چمکنے لگتی … مختلف قسم کی چڑیـاں ایک ساتھ شور مچانے لگتیں تو بھوری کیچڑ سے لت پت ہاتھ دھو لیتی اور کمرسےا ہوا آنچل کھول کے روٹی ، زنگیـا کے سامنے رکھ دیتی۔
آج وہی بالماں بہت بڑی بڑی باتیں سمجھ لیتی تھی۔ بہت مشکل سوالات پوچھ لیتی۔ یہ دراصل زنگیـا کے سمجھا نے کا کمال تھا کہ بھوری گاؤں کی سب سے زیـادہ سمجھدار لڑکی تھی مگر وہ ہر ایک سے اپنی قابلیت کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ زینو کے سوا وہی سے کڑے سوالات نہیں کر تی تھی۔ اور نہ وہ باتیںی اور کو بتاتی جن کو کہنے سے زینواس کو منع کر دیتا۔
’’ آخر بیسیوں حصے ہماری محنت مـیں کیوں لگ جاتے ہیں ؟ ‘‘ کتنا کٹھن سوال تھا یہ اسلئے کہ یہ سارا گاؤں جاگیردار کا ہے ، زمـیندار، ساہوکار پٹیل پٹواری سب اس کے ساتھی ہیں جو ہمارے ہاتھ کا ٹ کے اس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ جیسے پیسوں سے جوا کھیلا جاتا ہے۔ یہ ہمارے تمہارے جیون کا جوا کھیلتے ہیں۔ یہ حکومت کرنے والے لوگ ہیں اسلئے ہم کو ان کے حکم پر چلنا پڑتا ہے۔ ان کو زبردستی ہمارے سروں پر قائم کر دیـا گیـا ہے۔ ’’ تم ہی بتاؤ یہاںہے جو سرکار سے خوش ہے۔ ایساہی ظلم جاری رہا تو جنتا مر جائے گی۔ مـیری اپنی تکلیف اب مجھ سے کہی نہیں جاتی ’’مـیں جانتی ہوں زینو ‘‘… اس نے سراٹھا یـاتوآنسوزینو کے قدموں مـیں گر پڑے تو روتی ہے بھوری ؟تجھے مـیرے دکھ کا کتنا خیـال ہے اور یہ کمـینہ خان بابو کہتا ہے ’’ تجھے بیچ دوں۔ ہونھ … مـیری چمڑی تک تیرے لئے بک سکتی ہے مگر کوئی تجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ ‘‘ بھوری نے آنکھ اٹھا کے دیکھا۔ زینو کے بازو بہت مضبوط تھے۔ ‘‘
ایک بات اور پوچھوں ؟
’’پوچھ لے ‘‘
زمـیندار گاؤں کی اتنی بہت سی لڑکیوں کو اپنے محل مـیں کیوں بند کر دیتا ہے ؟ کیـا ان کی شادی کبھی نہیں ہوتی۔ ؟ بھوری نے بڑے فکر مندانہ انداز کے ساتھ آنکھیں جھپک کے پو چھا اور دیوارسے نیک لگا کے بیٹھ گئی۔
’’ پچھلے مہینے جب مـیں جاگیر دار کا سامان شہر والے گھر مـیں اپنی بنڈی پرلے گیـا تھا تو مـیں نے وہاں سنا تھا کہ زمـیندار اپنے محل مـیں قید کی ہوئی لڑکیوں کو کچھ دن اپنے پاس رکھتا ہے اور پھر جاگیردار کے ہاتھ بیچ دیتا ہے یـا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمـیندار کنواری لڑکیوں کے زیـادہ دام لگا کے جاگیردار کو فروخت کر دیتا ہے اور پھر جاگیر دار شہر لے جاتا ہے اور دلا لوں کے ذریعہ منہ مانگے داموں پر ولی عہد ان کو خرید کر اپنے محل مـیں داخل کر لتیـا ہے۔ یہ سارا کام جاگیردار و زمـیندار خود نہیں کرتے۔ ان کے آدمـی یہاں گاؤں مـیں بھی ہیں اور شہر مـیں بھی۔ لڑکیوں سے جو پیسے ملتے ہیں وہ جاگیر دار و زمـیندار لے لیتے ہیں اور دلالوں کو بیچ مـیں الگ پیسے ملتے رہتے ہیں۔ یہ سمجھو کہ یہ آدمـی جاگیردار و زمـیندار کے نوکر ہیں شہر مـیں یہ بات توسب ہی جانتے ہیں کہ وہاں کے ولی عہد نے تین سولڑکیـاں قید کر رکھی ہیں۔ اور ہر ماہ ان دلالوں کو بڑی بڑی رقمـیں ملتی ہیں یـا ان ماں باپ کو جو خود اپنی لڑکیوں کو بیچتے ہیں۔ ‘‘
’’ کیـا ماں باپ اپنی لڑکیوں کو خود بھی بیچ دیتے ہیں ‘‘ بھوری نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر پو چھا۔
’’ ہاں جیسے ہمارے مـیں جاگیر دارکسی لڑکی کو مانگ لیتا ہے اور گاؤں والے دے دیتے ہیں اگر نہیں دیتے تو نقصان اٹھا تے ہیں اور زبردستی ان سے ان کی آنکھوں کا نور چھین لیـا جاتا ہے۔ ایک باپ کی ضدسارے گاؤں کے لئے تباہی لا تی ہے اور ہوتا وہی ہے چاہے زبردستی اور جبر سے ہو … اس طرح ہمارے گاؤں کی خوبصورتی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ مـیں اور دوسرے سے تیرے ہاتھ مـیں پہونچ جاتی ہے۔ ایک منڈی سے دوسری منڈی اور دوسری سے تیسری مـیں بک جاتی ہے اور جھونپڑے مـیں پلے پاکیزہ قدم گندے محلوں مـیں چلے جاتے ہیں۔
وہاں انھیں پلائی جاتی ہے … ان کی ننگی تصویریں لی جاتی ہیں۔ انھیں ناچ گا نا سکھایـا جاتا ہے۔ ان پر سخت نگرانی رکھی جاتی ہے … یہ سب مجھے ایک دلا ل نے بتا یـا جسکے ہاتھ ہمارے زمـیندار لین دین کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی بتا یـا تھا کہ ایک بار کوئی لڑکی ولی عہد کے محل مـیں داخل ہونے کے بعد کبھی باہر نہیں نکل سکتی۔ وہاں ہر قسم کی اور ہر ذات و ہر دھرم کی لڑکی موجود ہے۔ کچھ اپنی مرضی سے آتی ہیں جن کیلئے دنیـا مـیں کوئی جگہ نہیں۔ کچھ لڑکیـاں ایسی ہیں جن کے ماں باپ ان کو اپنی مفلسی سے تنگ آ کے محل مـیں لے جاتے ہیں۔ کچھ لڑکیـاں زبردستی لائی جاتی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں جن پرسرکار اپنا حق جتا کر لے جاتی ہے اور ایسی لڑکیـاں ہماری تمہاری طرح غریبانوں اور مزدوروں کی ہوتی ہیں۔ غریبوں کی ہر چیز سرکار کی ہے … ہماری زندگی بھی … !
اور وہ بدمعاش ساہوکار کہتا ہے … ‘‘زینو کے ماتھے پربل پڑ گئے اور وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے بھوری کو دیکھنے لگا ’’اب جانے دو زینو … وہ بات نہ دہراؤ۔ مجھے دکھ ہوتا ہے۔ ‘‘
’’زینو … ! ایک دن دو پہر پیپل کی گھنی چھاؤں مـیں بیٹھ کے روٹی کھاتے ہوئے بھوری نے بات چھیڑی جب تم چھوٹے سے تھے اور گاؤں کے اسکول مـیں مـیلاسا کتابوں کا بستہ لئے پڑھنے جاتے تھے تب مـیں اپنی سہیلیوں سے بڑی شان سے کہتی ’’پڑھ لکھ کے زینو بہت بڑا آدمـی بنے گا‘‘۔ یہ بات باپو کی کہی ہوئی تھی جو مـیں دہرائے جاتی۔ پھر تم آگے پڑھنے کے لئے شہر چلے گئے۔ بہت سالوں بعد آئے تھے جو مجھے یقین ہو گیـا تھا کہ تم گاؤں بھر مـیں سب سے زیـادہ عقلمند اور اچھے آدمـی ہو۔ تم ضرور بڑے افسر بن جاؤ گے۔ مگر تم نے چوپال پر سب سے کہہ دیـا تھا کہ ’’مـیں افسر بننا نہیں چاہتا۔ مـیں تو اپنے باپ کی زمـین پران بن کے رہوں گا‘‘۔
سچ۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ تم اب دور نہیں جاؤ گے۔ اسی گاؤں مـیں رہو گے۔
تو کیـا مـیںان بن کے اچھا نہیں لگتا؟
مـیر ایہ مطلب نہیں ہے زینو۔ تمان بن کے ہی اچھے لگتے ہو۔ اب یہی دیکھو تم نے مجھے کتنی باتیں بتائیں۔ کتنی نئی باتیں جو مـیں پہلے کبھی نہیں جانتی تھی۔ پہلے پہل تمہاری باتیں مـیری سمجھ مـیں نہیں آتی تھیں۔ بہت وقت لگتا تھا۔ پھر عادت ہو گئی اور اب تمہاری ہر بات بڑی آسانی سے مـیری سمجھ مـیں آ جاتی ہے۔ تم سمجھاتے بھی اچھی طرح ہونا۔ تم پڑھے لکھے ہو تم سب گاؤں والوں کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ جہاں انھوں نے ہزاروں برسوں سے زمـین دانے ، لگان اور محنت کے لئے لڑائی جاری رکھی ہے وہیں وہ اپنی بیٹیوں کے لئے اپنی آبرو اور عزت کے لئے اکٹھے ہو کر جاگیردارو زمـین دار سے لڑیں۔
تم کو پتہ ہے کہ ایسا بہت جلد ہو گا شہر مـیں رہ کے مـیں گاؤں کو کبھی نہیں بھولا ہوں۔ زینو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
تم نے مجھے اب تک یہ بات نہیں بتائی مگر مـیں سمجھتی ہوں کہ تم نے اس کام مـیں ہاتھ ضرور ڈالا ہے۔ اگر مـیں بھی تمہارا ہاتھ بٹاؤں تو یہ کام جلدی ہو سکتا ہے ؟ ‘‘
تم ہی نہیں سب کو مل جل کر سوچنا ہے۔ جب تک سب مل کر اس کام مـیں مدد نہ دیں یہ کام اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ سب ہی لوگ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ جب تک ہم خود بڑھ کر یہ سرکار نہ توڑ دیں ، خودبخود سرکار نہیں ہٹےمگر خاموشی اور وفاداری اس کی بنیـاد کو اور مضبوط بنا دے گی۔ صبر کرنے اور ظلم سہنے کی حد ختم ہو چکی۔
اب ہم چپ رہ کر اپنی بے عزتی کا تماشہ نہیں دیکھ سکتے۔ تم ساتھ دوتو مـیری ہمت اور بڑھے’’مـیں تمہاری مدد ضرور کرونگی۔ اچھا اب تم اٹھو ، بھوکے ہو تو اور روٹی بچی ہے کھالو … شام کو گھر آنا …
پھر فصل کٹی۔ پیلی پتیوں سنہری بالیوں کے لمبے لمبے وزنی پودے درانتیوں سے گیت گا گا کر کنواری لڑکیوں اور جوان عورتوں نے کاٹے۔ نوعمر لڑکوں اور ادھیڑ مردوں نے کاٹے اور کھیتوں مـیں پودوں کے ڈھیر جمع ہو گئے۔ پھر کھلیـانوں مـیں دانوں کی پہاڑیـاں بنیں۔ زینو اور بھوری نے زندگی بھرساتھ رہنے کا وعدہ کیـا۔ اپنے کھیتوں کا دانہ مٹھی مـیں لے کر قسم کھائی۔
پھر گاؤں کے نالے کے قریب مٹی کی اونچی ڈھیری کے قریب دونوں ہاتھ جوڑے کھڑے رہے۔
’’ ہم سب جانتے ہیں یہ اسان کی سمادھی ہے جس نے زمـیندار کے نئے تعمـیر ہونے والے مکان مـیں بیگار کرنے سے صاف انکار کر دیـا تھا۔ اگر آپ بیگار لینا چاہتے ہیں تومـیں کام کرنے کیلئے تیـار نہیں ہوں ‘‘
پھر کیـا ہوا تھا … گنڈیـا کے چھوٹے بیٹے نے پوچھا
زمـیندار کے آدمـیوں نے اس غریب کو اس قدر مارا پیٹا کہ جسم سار ا زخمـی ہو گیـا۔
زمـیندار کے غضب کی یہ حالت تھی کہ سامنے کھڑے ہو کر چلاتا تھا ’’ اور مارو … اس بدمعاش نے ہم سے بغاوت کی ہے … اور مارو … اور مارو صبح تک اس نے دم توڑ دیـا۔ اس کی خود داری اور جرأت کے قصےان اپنے بچوں کو سناتے ہیں۔
ہاں۔ مـیری ماں نے بھی مجھ سے بیـان کیـا تھا۔ ہمارے گاؤں کے ہر حصے مـیں ایسے شہید سورہے ہیں جنہوں نے جاگیرداروں ، زمـینداروں اور پٹیل پٹواریوں تک سے اپنے حق کیلئے لڑائی کی۔ جبرو ظلم کا منہ توڑ جواب دیـا۔ رامو بھیـا نے اسی گاؤں مـیں اپنی کنواری بہن کیلئے زمـیندار پر کلہاڑی سے بھرپور وار کیـا تھا مگر کمبخت مرا نہیں تھا۔ مگر اس کی سزا رامو بھیـا کو موت کی صورت مـیں ملی۔
ایک دو نہیں ، ہماری اس زمـین پر ہزاروں لڑائیـاں ہوئی ہیں۔ یہ دباؤ، یہ حکومت اب کی نہیں ، بہت پرانی ہے۔ صدیوں پرانی۔ جتنا ظلم پرانا ہے ، اتنی ہی اس کے خلاف لڑائی پرانی ہے۔ جہاںان نے بیگار کے خلاف ،لگا ن کے لئے ، زمـین کیلئے اور دانے کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ پوری قوت اور سچائی کیسا تھ لڑائی جاری رکھی ہے وہیں اس نے عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے بھی زبردست لڑائی جاری رکھی ہے۔ اسی لئے رامو بھیـا کا نام ہم سب عزت سے لیتے ہیں …
اس رات تمامانوں نے فیصلہ کر لیـا کہ اس سال ہم اپنی سرکار کو اپنے دیہات کی کوئی جوان لڑکی نہیں دیں گے۔ ہم کئی سالوں سے اپنی لڑکیـاں ، اپنی آنکھوں کا نور اپنے دل کی ٹھنڈک اور اپنے بدن کا لہو نچوڑ نچوڑ کر اس خونیں سرکار کو پلاتے آئے ہیں۔ اب اگر ہماری کھال بھی کھنچوا دی گئی تب بھی ہم اپنے گھروں کا سکون نہیں دیں گے …
’’ہم زمـینداروں کی منڈی مـیں اپنی کنواریـاں کبھی نہ ے دیں گے۔ ہماری غیرت اس سرکار کے آگے نہیں جھک سکتی۔ ہم اپنا دانہ سرکار کو دے دیں ،ساہو کا رکو دے دیں۔ مولویوں اور پنڈ توں کو دے دیں پٹیل پٹواریوں کو دے دیں۔ ہم سے سرکار بیگار لے ، ہم کو مارے بیٹے ہماری زمـین چھین لے اور ہماری بیٹیـاں بھی لے لے … ان کی منڈی سجا کے بیٹھ جائے۔ کیـاسرکار دلالوں کی سرکار ہے۔ ہم سرکار کی ایک نہ چلنے دیں گے۔ ‘‘
یہ وہ الفاظ تھے جو زینو نےانوں کے سامنے ، پورے جوش ، پورے اعتماد اور طاقتور لہجے مـیں کہے۔انوں نے بھی غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہر ہ کیـا۔ ہر ماں نے ہاتھ پھیلا کے زینو کیلئے دعا دی ہر باپ نے اس کو گلے لگا کے وفاداری کا عہد کیـا۔ ہر کنواری نے سرپرآنچل ڈال کے بڑی عقیدت سے زینو کو دیکھا اور بھوری … ؟ اس کی آنکھوں مـیں آنسوتھے تو ہونٹوں پہ مسکراہٹ۔
وہ رات عجیب سی رات تھی۔ رات بھران جاگ کے زمـیندار کا انتظار کرتے رہے صبح ہونے مـیں کچھ دیر رہ گئی تھی۔ بھوری سوئی پڑی تھی اور گردن کی سفیدنرم جلد کے نیچے نیلی رگیں دھڑک رہی تھیں۔
بوڑھےان نے آواز لگائی
’’ زینو … زنگیـا… ‘‘ زینو ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا
’’کیـا ہے دیـال چاچا ؟ ہم لوگ تو جاگ رہے ہیں ‘‘
’’ ارے بیٹا بڑا غضب ہو گیـا۔ زمـیندار کے سپاہی آ رہے ہیں۔ ان کو ہمارے فیصلے کا علم ہو گیـا ہے اور وہ اس کو سرکار کی توہین سمجھتے ہیں ، سرکا رکے خلاف بغاوت سمجھتے ہیں اور اسی لئے بہت سے سپاہی آ رہے ہیں۔ اب کی بار وہ بھوری کو لے جانا چاہتے ہیں۔ کل بعض خوشا مدیـانوں نے جو زمـین ضبط ہونے کے ڈرسے ہمارے فیصلے کے خلاف تھے۔ بھوری کے روپ کا قصہ خوب نمک مرچ لگا کے سنادیـا تھا اگر ہم نے ذرا بھی بزدلی دکھائی توسویرا ہونے ہونے تک وہ بھوری کو لے جائیں گے۔
وہ زبردستی اسے چھین لیں گے۔ تم بھوری کو گاؤں بھر مـیں کہیں بھی چھپا دو ، وہ ڈھونڈھ نکالیں گے۔ وہ تمھیں کال کو ٹھری مـیں بند کر دیں گے۔ وہ تمھیں ماریں گے۔ اس لئے صرف یہی بچاؤ کا طریقہ ہے کہ پوری قوت سے ، پوری طاقت سے آج جمع ہو کر مقابلہ کریں چاہے ہم سب مر جائیں مگر ہمارا فیصلہ اپنی جگہ قائم رہے … زندہ رہے۔ ‘‘
بھوری جاگ پڑی تھی اُسکی آنکھیں حیرت اور ہیبت سے پھیل گئیں۔ زینو نے اس کو زور سے بھینچ لیـا۔ خوف نہ کر بھوری … مـیں ابھی زندہ ہوں … مـیں تجھے اس منڈی مـیں کبھی نہ جانے دونگا۔ تجھے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ مـیں ان دلالوں سے لڑونگا۔ مـیں ان سپاہیوں کو مار ڈالونگا مگر تجھے ہاتھ نہیں لگا نے دونگا۔
سارےان اکٹھے ہو گئے تھے اور پہاڑی راستے پر گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی …
بھوری نے پوری خوت سے زینو کے بازو پکڑ لیئے۔ ہوا مـیں سپاہیوں نے دو تین خالی فائر کئے اور بھوری کا دل جیسے حلق مـیں آ گیـا وہ سرسے پاؤں تک کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بار بار تیزی سے راستے کو دیکھتیں۔ بھر زینوں کو بھرانوں کو … سامنے نکڑ پر گھوڑے دکھائی دینے لگے۔ زینو کے آگے سارےان جمع ہو گئے ان کی آنکھوں مـیں خوف اور عزم ملاجلا ساتھ۔ ان کے ہاتھ بار بار اپنے مضبوط ڈنڈوں پر جاتے۔ زینو اور بھوری کے آگے سارےان ساحلی چٹانوں کیطرح کھڑے تھے ،
زمـیندار سپاہوں کے پیچھے سب سے بانکے گھوڑے پر سوار تھے۔ ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر کہا۔
سرکار کہتے ہیں ’’ تم بھوری کو سیدھی طرح دے دو ورنہ گولی چلے‘‘ …
’’سرکار سے کہو ہم گولی کھانے تیـار ہیں مگر بھوری کو نہیں دیں گے ‘‘
زمـیندار نے سپاہیوں کی طرف مسکرا کے دیکھا پھرکسانوں کی طرف دیکھا جو دور تک انسانوں کا کھیت معلوم ہو رہے تھے …
سرکار کہتے ہیں ’’تمہارا فیصلہ ہمارے خلاف بغاوت ہے ‘‘
’’ ہماری عزت بڑی چیز ہے۔ ہم نہ عزت دیں گے نہ زمـین ‘‘ دیـال نے زوردار لہجے مـیں پکار کر کہا۔
’’تم چپ رہو۔ گستاخ آدمـی ‘‘ زمـیندار نے اپنی سفید مونچھوں پر تاؤ دے کے ڈانٹا چپ رہنے کی حد ہوتی ہے۔ آپ سرکار ضرور ہیں مگر کیـا یہ سرکار دلالوں کی سرکار ہے ؟ دیـال بھی شیر کی طرح گرجا۔
اس کو پکڑ لو … زمـیندار نے دیـال کی طرف انگلی اُٹھا کے اشارہ کیـا۔ اور سپاہیوں نے اُسے پکڑ لیـا۔
سرکار کہتے ہیں ‘‘ اب بھی مان جاؤ۔ ہم تمہاری ہی بھلائی چاہتے ہیں ، اگر بھوری کو چپ چاپ ہمارے حوالے کر دو تو ہم تمھیں معاف کر دیں گے۔ ‘‘
’’سرکا رسے کہو ہم بھوری کو ہر گز نہیں دیں گے چاہے ہم سب کی جان چلی جائے ‘‘ زینو نےانوں کو ہٹا کے سامنے آتے ہوئے کہا اور اس کے مضبوط بازو اکڑ گئے
’’یہزبان دراز ہے ؟‘‘
’’ سرکار یہ زینو ہے ، بھوری کا منگیتر … ’’ سپاہی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیـا ’’اچھا … تم یہاں آؤ … ‘‘ گھوڑے پر شان و شوکت سے بیٹھے ہوئے زمـیندار نے مسکرا کے زینو کو اشارہ کیـا۔ زنیو اپنے ڈنڈے کو زمـین پر ٹیک کے آگے آیـا، اے بیوقوفان !ہم تم کو اس کے بدلے انعام دیں گے۔ اب بھی کچھ نہیں گیـا ہے۔ ورنہ تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم خالی ہاتھ ہرگز نہیں جا سکتے۔ ہم تم کو نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہتے۔ اسلئے تم کو ہمارا حکم ہے بھوری کو ہمارے حوالے کر دو۔ جاؤ سپاہیو بھوری کو ڈھونڈ لاؤ… زمـیندار نے پھر مونچھوں پر تاؤ دے کر اپنی پیشانی سے پسینہ پونچا۔ اس کے آنکھوں کی بھیـانک چمک اور بڑھ گئی۔ سپاہیوں کے درمـیان سروں پر پٹرومرکھے بہت سے مزدور تھے۔سپاہیـانوں کو ہٹا ہٹا کے آگے بڑھنے لگے اور جب بھوری نے چیخ ماری تو زمـیندار کے پاس کھڑے ہوئے زینو نے بجلی کی سی تیزی سے اپنی لٹھ سے زمـیندار پر زبردست وار کیـا اور زمـیندار گھوڑے کی پشت سے لٹک گیـا۔
سارے سپاہوں اورانوں مـیں کھلبلی مچ گئی۔ زمـیندار کے سپاہیوں نے زینو کو پکڑ لیـا اورانوں نے بھوری کو اپنے حلقہ مـیں لے لیـا۔
لاٹھیـاں اور بندوقیں چلیں مگر زمـیندار کے سپاہوں کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
زمـیندار کے جسم پر شدید ضرب پڑی تھی اور سپاہی اس کے بے ہوش جسم کو گھوڑے پر ڈالے محل جا رہے تھے۔ اور زینو رسیوں سے بندھا گھسٹتا ہو ا ان کے پیچھے تھا۔
بھوری دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی مـیں بھی جاؤنگی زینو کے ساتھ ‘‘
نہیں بھوری … زینو نے آج بہت بڑا کام کیـا ہے … اس نے آج ہر روایت توڑ دی تیری خاطر ، گاؤں کی عزت کی خاطر… ہم سب کی خاطر… اب تو اس محل مـیں نہیں جا سکتی … شوکت نے اس کے سرپر شفقت سے ہاتھ رکھا۔
زینو کو چھڑانے کیـانوں نے جان توڑ کوشش کی … مگر وہ تو خود ہی ان کا حلقہ توڑ کے زمـیندار کے قریب آ گیـا تھا اور اس طرح سپاہیوں نے اس کو گھیر لیـا تھا۔
کسانوں کا فیصلہ اٹل تھا۔ اور وہ سرکا رکو شکست دے کر آئے تھے۔ انھوں نے سرکا رکے منہ پرزبردست طمانچہ مارا تھا۔ وہ ایک لڑکی کو ظالم ہاتھوں سے بچا کر لے ائے تھے۔ وہ اپنے کھیتوں مـیں بیٹھے سوچ رہے تھے اگر ہم نے اسی طرح حوصلے سے کام لیـا تو یہ کھیت ہمارے ہونگے ، یہ دانہ ہمارا ہو گا۔ یہ زمـین ہماری ہواور ہماری عزت منڈ یوں مـیں ے نہیں جائے… یہ تجربہ بہت کامـیاب تھا۔ یہ مقابلہ بہت سخت تھا جس مـیں ہماری جیت ہوئی۔ سرکار منہ کی کھا گئی سرکار کی شکست نےانوں کو اور مضبوط کر دیـا۔ ان کو اپنے آپ پر اپنی قوت پر اپنی طاقت اور سچائی پراور زیـادہ اعتماد ہو گیـا۔
اور آج کھڑکی مـیں کھڑی بھوری کو سب یـاد آ گیـا۔ اپنے کھیتوں کو دیکھ کے اور چاندنی رات کے سحر کو محسوس کر کے آج اُسکا ذہن زندگی کی ایک ایک بات کو دہرانے لگا۔ اس نے بڑے فخر سے اپنے آپ کو دیکھا۔ مـیرا وجود آج بھی ویساہی پاکیزہ ہے جیسا شاید مـیری پیدائش پر ہو گا … اس نے سوچا … ہاں مگر ان ہونٹوں پر اب بھی زینو کے ہونٹوں کا لمس تازہ ہے۔ شانوں پر اب بھی زینو کے مضبوط ہاتھوں کا دباؤ باقی ہے اور د ل مـیں اب بھی زینو کے لئے ویسی ہی چاہت اور پیـار ہے۔ منگلو کہہ رہا تھا کل زینو چھوٹ جائے گا۔ اتنے زمانے بعد مـیں زینو کو دیکھ سکونگی۔ شوکت بھیـا کہتے تھے زینو کو سرکار خود نقصان پہونچا نا نہیں چاہتی زینوان سبھا کا آدمـی ہے۔ اگر زینو کو کچھ ہو گیـا تو زمـیندار کی خیر نہیں ہے۔ اسلئے سرکار زینو سے ہی نہیں ہم سب سے ڈر نے لگی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے زینو بہت دبلا ہو گیـا ہے۔ ہو جانے دو۔ مـیں زینو کو زندہ لینا چاہتی ہوں بس پھر ہم دونوں کھیتوں مـیں کام کریں گے … کیسا مزہ آئے گا پھر… بھوری نے ہنسں کے دونوں ہاتھوں مـیں چہرہ چھپا لیـا۔ وہ سوچنے لگی پھر مـیںان سبھا مـیں مل جاؤنگی اور سرکار کو کمزور بنانے مـیں زنیو کے برابر حصہ لوںزندگی ہماری اپنی ہوان کھیتوں کی طرح … جھونپڑے مـیں پلے ہوئے پاکیزہ قدم ہر طرف پاکیزہبکھیریں گے … اور زمـینداروں کی منڈ ی مـیں خاک اُڑے…
٭٭٭
جوگیندر سنگھ اپنی پگڑی ٹھیک کرتا ہوا کا رکے قریب آیـا … اب وہ کافی بوڑھا ہو گیـا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی مـیں جھکا و پیدا ہو جانے کے باوجود وہ تن کر چلنے کی کو شش کرتا۔ داڑھی کو اسی طرح خوبصورت انداز مـیں گوندھتاجیسے وہ آج سے تیس سال پہلے گوندھتا تھا۔
اب اس کے کپڑے زیـادہ قیمتی ہوتے۔ یوں بھی جو گیندرسنگھ لباس کے معاملے مـیں اپنی نفاست اور خوش ذوقی کے ثبوت مـیں ہر روز ہم سب سے قمـیض ، پتلون اور ٹائی کے کلر مـیچنگ کیلئے داد حاصل کر لینا۔ اس کی گھنی داڑھی باریک بٹی ہوئی رسی کی طرح بالوں کے بیچ مـیں پڑی خوبصورتی سےی ہوئی بندھی ہوتی۔ اس کے ساتھ فیشن ایبل اونچی سوساٹی کی عورتیں اکثر دیکھی جاتیں۔
اب تو جوگیند رسنگھ نے ٹکسٹائیل ملز کی معمولی نوکری چھوڑ کے امپورٹ۔ اکسپورٹ کا بزنس اپنا لیـا تھا۔ اس کو برج اور رمـی کھیلنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ دیسی کو وہ ہاتھ بھی نہ لگا تا۔ اب وہ بہت بڑا آدمـی بن گیـا تھا۔ اپنی کوششوں اور چالاکی سے اس نے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو پیچھے چھوڑ دیـا۔ قیمتی گھڑی ، ہیرے کا ٹائی پن اور سونے کے کف لن، جیب مـیں قیمتی فونٹن پن اور باہر کی کے باٹلز کار مـیں ہر وقت رکھے رہتے۔
ہر چیز قیمتی اور کمـیاب تھی مگر اب جوگیندر خود بہت سستا نظر آتا! مـیں اس روپ مـیں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیـا۔
کیـا وہ ایک بڑا آدمـی بھی بن سکتا ہے۔ ؟ مجھے یقین نہ آیـا۔
مجھے یـاد ہے کہ مـیں اور جوگیندرسنگھ ٹکسٹائیل ملز مـیں ساتھ ساتھ کام کرتے تھے مـیں کا ٹن سلکڑتھا اور وہ ویونگ ماسڑ… اسوقت بھی اُسکی تنخواہ مجھ سے دوگنی تھی۔ ملز کا لونی مـیں اُسکو دو منزل بنگلہ ملا تھا اور فیکٹری کی طرف سے کا رکی سہولت بھی موجود تھی۔ اس نے دو بار جاپان جا کے وہاں کی صنعتی ترقی کے بارے مـیں معلومات حاصل کی تھیں۔ ہر ایک سے ہنس کے بات کرنا اب اُسکے لہجے کی خصوصیت تھی۔
کام کرنے کی ہمارے دلوں مـیں لگن ہی نہیں۔ جاپان مـیں بالکل بڑھے آدمـی بھی آرام لئے بغیر دیوانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ لائف انجوائے کرنا اسی کام کے بعد ممکن ہے۔
وہ کاندھے تھپتھپا کے ہنس ہنس کے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں مـیں کام کرنے کا جذبہ اُبھارنے کی کوشش کرتا۔ وہ خود بھی بڑا محنتی تھا۔ کام کے بعد اپنے گھر کے ڈیکوریشن اور اپنے کمپونڈ مـیں پھیلے ہوئے چمن پر بڑی توجہ دیتا۔ مالی ہر وقت اس کی ہدایـات پر پریشان رہتے مگر جوگیندر سنگھ بڑا زندہ دل اور ہنس مکھ انسان تھا اسلئے اُسکے ساتھ کام کرنا بھی اچھا لگتا۔
کلب مـیں آتا تو بلیرڈز کے تین گیمس کھیلنے کے بعد گھر چلا جاتا اس کو رمـی یـا برج سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ رمـی کھیلنے والے دو دو تین تین راتیں ٹیبل پر بیٹھے بیٹھنے گذار دیتے مگر جوگیندر سنگھ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کے بھی نہ دیکھتا … وہ اُسکو بیوقوفوں کی جنت کہتا تھا۔ بغیر تھکے محنت کرنا ہی اس کی زندگی کا اُصول تھا۔
ا سکو اپنے وطن سے جنون کی حد تک پیـار تھا۔ ایسے لوگقدر گمنام ہوتے ہیں۔ مـیں اکثر سوچتا۔ اگر ایسے لوگوں کو حکومت کی مشنری مـیں جگہ مل جائے تو … مگر وہ اپنی جگہ اپنے فرائض خوبصورتی سے سنبھارہا تھا یہی کیـا کم تھا …اُس زمانے مـیں مسڑ دیسا ئی ملز کے جنرل منیجر تھے۔ ملز سے اکثر موریوں کے اندرسے ، وینٹی لیٹرز سے بیسیوں گز کپڑا چوری جاتا۔ سکیورٹی آفسیرنے ان چھوٹی چھوٹی چوریوں پر کڑی نظر رکھی تھی وہ سارے راستے بند کروا دئیے تھے جن راستوں سے کپڑا باہر جاتا تھا۔
پھر ان مزدوروں کی باقاعدہ جھڑتی ہوتی جن کی ڈیوٹی رات کی ہوتی۔
اس طرح چوریـاں بالکل ختم تو نہ ہوئی تھیں مگر کم ضرور ہو گئی تھیں۔
ایک شام جو گیند رسنگھ ہاتھ مـیں ٹیلی گرام لئے مـیرے گھر آیـا آنکھیں سرخ تھیں ، بال پریشان ، ماتھے پر بکھرے ہوئے۔
کیـا بات ہے جوگیند ر… ؟ مـیں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے صوفے پر بٹھا دیـا۔
’’مـیری ماں ، مـیری ماں … یـار … ‘‘
’’کیـا ہوا تمہاری ماں کو … ؟‘‘ مـیں نے ٹیلی گرام اس کے ہاتھ سے لے لیـا اب اس کی ماں اس دنیـا مـیں نہیں رہ گئی تھی …
پھر جو گیندر بلک بلک کر رویـا۔ اس چھوٹے بچے کی طرح جوی مـیلے مـیں اپنی ماں سے بچھڑ گیـا ہو۔ جو گیند رسنگھ اپنی ماں کو بہت چاہتا تھا۔ چھٹی لے کے دیہات جاتے ہوئے وہ ماں کے لئے گرم شال ، اصلی شہد اور ڈوپٹوں کا ململ لے جانا کبھی نہ بھولتا۔
مـیں نہ اس کو تسلی دے سکا نہ سمجھا سکا۔ اس قدر ہنس مکھ چہرہ آنسووں مـیں بھیگ کراُداس ہو گیـا تھا۔ جن آنکھوں مـیں سدا مسکراہٹوں کے چراغ روشن دہتے تھے۔ وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں۔ بے نور سی۔
مـیں اس وقت سے اس کا گہرادوست تھا جب ملز کی بنیـاد پڑی تھی اور پہلے پہل کام شروع ہو ا تھا۔ مشینیں باہر سے آئی تھیں۔ برسوں سے ہم ساتھ کام کر رہے تھے۔
پنجابی ، مرہٹے ، بنگالی ، مہاراشٹرین ، گجراتی، مدراسی ، بنگلوری ، نارتھ انڈینس ، ساوتھ انڈینس … سب ہی ایک جگہ کام کرتے تھے ایک دوسرے کے دوست تھے۔ رشتہ داروں سے زیـادہ اپنائیت اور یگانگت تھی آپس مـیں۔ اپنے اپنے شہروں سے دور یہاں ہم نے ایک ایسا شہربسا یـا تھا۔
جس مـیں مختلف مذہبوں ، مختلف طور طریق ، مختلف تہذیبوں اور مختلف روایـات رکھتے ہوئے بھی انسانیت کے ناطے ایک بندھن مـیں بندھے ہوئے ہم ایک دو سرے کے دکھ درد اور خوشیوں مـیں برابر کے شریک تھے۔ ملز مـیں کام کرنے والے ہر شام ایک دوسرے کے گھر جاتے کلب مـیں ملتے۔ تہواروں مـیں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے۔ اور ان مـیںی قسم کا کوئی دکھاوا یـا بناوٹ نہ ہوتی۔
کسی طرح کا بھید بھاؤ آپس مـیں نہ برتا جاتا۔ ایسی جتنی فیکٹریـاں ہیں اور ان کے اطراف ہزاروں گھر دور تک پھیلے ہوئے ہیں وہاں ایسی ہی فضا و ہوا ملتی ہے۔
اس کی ماں کی موت پر مـیں بھی جوگیندرسے لپٹ کے پھوٹ پڑا۔
اسی رات مـیں اور جوگیندر دیہات چلے گئے۔
واپسی پر وہ بہت غمز دہ تھا۔ اس کو معمولی دلاسہ اور تکلیف پہنچاتا تھا اس کی ماں نے جوانی کی بیوگی مـیں پہلا اور آخری سہارایہی سنبھال کے رکھا تھا۔ بڑی بڑی مصیبتیں اور پریشانیـاں اُٹھا کے جوگیندر کی پرورش کی تھی۔ پڑھایـا لکھایـا تھا ، اچھی تربیت دی تھی۔ اور جو گیندر کو اس کا بہت احساس تھا۔ دیہات مـیں زمـینات کا کام وہی سنبھالی تھی۔
ہماری واپسی کی رات ملز مـیں بہت بڑی چوری ہو گئی۔ کا رجو گیندر سنگھ کی تھی جس مـیں ڈاکو پگڑیـاں پہن کے ملز مـیں داخل ہوئے تھے کپڑا اور نئی مشینوں کے ضروری پارٹس غائب کرنے والی ٹولی سکیورٹی آفیسر کے ساتھ ملز مـیں آئی اور پھر یہ ہنگامہ برپا ہوا سکیورٹی آفیسر نے اس تمام واقعہ سے لاعلمـی ، ظاہر کی تھی۔ جب جوگیند رسے واقعات پر روشنی ڈالنے کیلئے کہا گیـا تواس نے بتایـا کہ وہ تمام رات اس نے سفرمـیں گذاری تھی اور مـیں اس کے ساتھ تھا۔
ایک زمانہ تک چھان بین ہوئی اور جب جوگیندر نے ذاتی دلچسپی لے کرکیس آگے بڑھایـا اور تحقیقات مـیں خود حصہ لیـا تو پتہ چلا کہ سکیورٹی آفیسر اور جنرل مـینجر نے مل کر یہ کا روائی کی تھی۔
اسی زمانے مـیں جو گیند رکی منگیتر کی شادی کی دوسرے گھرانہ مـیں ہو گئی کیونکہ وہ اس شادی کو اسوقت تک ملتوی رکھنا چاہتا تھا جب تک اس چوری کے کیس کا کوئی فیصلہ نہ ہو جائے۔
دیسائی کے جانے کے بعد ہرنام سنگھ جنرل منیجر بن کے آ گئے۔ ہر نام سنگھ اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ ہم سب نے کلب مـیں انھیں مدعو کیـا ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم سب نے مبارکباد دی۔ جوگیندر مبارکباد دینے آگے بڑھا تو مجھ سے ٹکرا کے کرسی پر گر پڑا اور پھر سنبھل کے پیچھے چلا گیـا۔
اُسی رات جو گیندر کے شیشے لئے مـیرے گھر آ پہونچا وہ بے تحاشہ پی رہا تھا۔ کبھی خوب قہقہے لگا که تا ، کبھی بلک بلک کے روتا ،کبھی جنرل مـینجر کو گالیـاں دیتا ، کبھی اس کی نئی نویلی بیوی کو تم کو ایسا نہیں کرنا چاہئے جوگیندر … تم ہمـیشہ سے ایک اچھے انسان ہو۔ تمہارا کٹر بے داغ ہے مـیرے یـار۔ تمہارا دل سچے موتی کی طرح خوبصورت ہے۔
اچھا آدمـی کیسا ہوتا ہے … ؟ آہاہا … ہاہا اس نے ہنسی اڑائی ارے بیوقوفی کو تم اچھائی کہتے ہو ؟ ہوں ؟
بے داغ کٹر کام آتا ہے … ؟ بو لو۔ بولو … مـیرا کالر پکڑ کے اس نے سرخ آنکھیں مـیری آنکھوں مـیں ڈال دیں۔ موتی جیسا خوبصورت دل مـیں نے اس سریندر کو رکو دیـا تھا جسکو بچپن سے دیوی بنا کے اپنے من مندر مـیں رکھ چھوڑا تھا اور آج وہ اس ہرنام سنگھ کی بیوی بن کر مـیری ویران زندگی کا مذاق اڑانے آئی ہے دیکھا تم نے قدر گہنے پہن رکھے تھے۔ ہر نام سنگھ کے نام کا سیندور اپنی مانگ مـیں بھر کر مـیری ، سونی راہوں مـیں دھول اڑانے آئی ہے۔
اُف … اُف … اس نےی ، ہوئی مٹھیوں سے اپنے ماتھے پر زور زور سے مارنا شروع کیـا۔
دوسرے دن جو گیند رکا استعفیٰ منیجر کی مـیز پر رکھا تھا۔ جوگیندر چلا گیـا … ایک زمانہ تک اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔
اور اب وہ مـیرے سامنے ایک برے آدمـی کے روپ مـیں آیـا تھا ی ، دھندے باز اور خود غرض بن کر …
اتنے اچھے انسان کو برا آدمـی بنانے کا ذمہ دارہے ؟
ہمارا معاشرہ … ؟ سریندر کور یـا ہرنام سنگھ …؟
کا راسٹا رٹ کر کے ریورس مـیں لیتے ہوئے دیر تک سوجچا رہا اور ہاتھ ملا کر اس کو خدا حافظ کہا۔
آج اس نے باتوں باتوں مـیں مجھے بتایـا تھا کہ ’’ دراصل کبھی عمر مـیں بڑا بیوقوف تھا۔ نا تجربہ کار ، دنیـاداری سے ناواقف ذرا سے دل ٹوٹنے پر رونے والے نا سمجھ بچے کی طرح … مگر اب حالات نے سب کچھ سکھا دیـا ہے۔ ہم اس نظام مـیں اس طرح ایک دم تبدیل ہو کر ہی جی سکتے ہیں یـار … اس نے کہا تھا۔
یہ اس کی اپنی آواز نہیں تھی۔ وہ تو ایک اچھا انسان تھا۔ دوستی کی خاطر جان پر کھیل جانے والا … اپنے کٹر کے دامن سے چوری کا داغ دھونے کی کوشش مـیں محبوبہ کو کھو دینے والا۔
مجھے اس کی موت کا واقعی رنج تھا۔ اس کی شخصیت کی کوئی بھی اچھائی زندہ نہ بچ سکی تھی !
٭٭٭
جمناں نے آنکھیں کھول کے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کا شوہر چار پائی پر بے سدھ پڑا تھا دونوں بچے اس کے پیروں کے پاس سورہے تھے۔ اس کے بالوں کاا ہوا جوڑا کھل گیـا تھا وہ ہڑبڑا کے بستر سے اٹھ بیٹی۔ پھر کھڑ کی کھول کے باہر دیکھا۔ ابھی تک اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ہر چیز پر ابھی تک اندھیرے کا لحاف پڑا تھا۔
برقی پول پر بلب جل رہا تھا اور اس کی ہلکی روشنی چھوٹے سے آنگن مـیں پڑ رہی تھی سستی کی خالی بوتل چار پائی کے نیچے پڑی تھی۔ آنگن مـیں جھاڑو لگا نے کے بعد اس نے چولھا جلایـا۔ چاٹے بنا کے پی اور پھر رات کے بچے ہوئے پانی سے برتن دھوئے۔ ساری بکھری ہوئی چیزوں کو ترتیب سے رکھا۔
چاول پکائے۔ دال دھوکے ہانڈی چولھے پر چڑھا دی
آہستہ آہستہ رات کا سیـاہ لحاف کھیسکا کرسویراپھلیتا گیـا۔
اس نے بہو کو آواز دی ’’ دروازہ بند کر لے مـیں ڈیوٹی پر جا رہی ہوں اور بغیر جواب سنے وہ جلدی سے گلی پار کر کے سڑک پر آ گئی۔ صفائی کے دفتر جا کے ، جھاڑ و ، گمپے ( ٹوکرے ) لے کے وہ جمعدار کے بتائے ہوئے پتہ پر پہونچ گئی۔ ہمـیشہ پانچ چھ عورتیں مل کے چلتی تھیں۔ سبنر رنگ کی ہنڈ لوم ساڑیـاں جن کے سرخ باڈر تھے۔ وہ اوڑھنیوں کے طور پر استعمال کرتی تھیں ، جھاڑو کے بڑے بڑے کٹٹے جو اک خاص طریقہ سے بنائے جاتے جن سے لمبی چوڑی سڑکیں جھاڑ نے مـیں آسانی ہوتی تھی۔
جمعدار کچھ دیر بعد ہوٹل سے چائے و بن کھا کے کلے مـیں پان دبا کے سائیکل پر آتا۔ ان کے کام کی نگرانی کرتا۔ انھیں نئی نئی ہدایتیں دیتا۔ ہر جھاڑنے والی عورت یـا مرد اس کو اپنی تنخواہ سے پچاس روپئے دے دیتے تاکہ جمعدار وقت پران کی حاضری رجسڑ مـیں درج کر دے۔ پیسے نہ دینے کی صورت مـیں خوف و دہشت کے علا وہ نوکری ہر وقت خطرہ مـیں نظر آتی۔
جمعدارسے بڑا انسپکٹر تھا ایسی عورتیں جو صفائی کے دفتر مـیں ملازمت کرتی تھیں مگر کبھی سڑکیں جھاڑ نے نہ آتی تھیں گھر بیٹھے گیـارہ سوروپئے مل جا تے تھے۔ انسپکٹر صاحب کے تین سوروپئے اس تنخواہ سے مقرر تھے۔ جمعدار سوروئیے لیتا تھا ایسی عورتوں سے مقررہ تنخواہ انسپکٹر اور جمعدار کواس لئے ملتی تھی کہ وہ ان عورتوں کی غیر حاضری کو کامـیاب اداکاری سے چھپائے رکھتے۔ انسپکٹر سے کوئی پو چھتا تو وہ بتاتا کہ آجکل اس کی ڈیوٹی بشیر باغ پر لگا دی گئی ہے یـاوہ پنجہ گٹہ مـیں ڈیوٹی کرتی ہے۔ اوپر والے عہدہ دارا تواس سے زیـادہ نئی نئی ترکیبوں اور منصوبوں مـیں ملوث تھے۔
مگر جمناں کو ان تمام باتوں سے کیـاسروکار تھا۔ وہ پندرہ برس سے کام کر رہی تھی اور پابندی سے اپنے عہدہ داروں کی مٹھی گرم کر رہی تھی اس طرح اس کی نوکری ایکساں بغیر ریکارڈ خراب ہوئے چل رہی تھی۔ اس نوکری مـیں سب بڑی شرط منہ بند رکھنا تھی۔
…
ویسے وہ نہ صرف نوکری مـیں بلکہ گھر مـیں بھی منہ بند رکھنے کی شرط پر عمل کرتی تھی۔ اس کا شوہر اس کی تنخواہ کا بڑا حصہ پی کھا کے اڑا دیتا۔ لے پالک لڑکا اور بہو اس کے پیسوں پر عیش کرتے۔ ایک کمرہ اور پتلے سے ورانڈے کا گھر اس نے اس زمانہ مـیں بنایـا تھا جب ہر چیز آسانی سے اور کم مہسول مـیں مل جاتی تھی۔ اب تو مرمت کروانا بھی مشکل تھا۔ لے پالک لڑکے کی شادی کا قرض بھی وہی برسوں سے اتار رہی تھی۔ جس مہینہ مـیں زیـادہ تنگی محسوس ہوتی وہ اپنے گلے کے سونے کے ’’گنڈلو‘‘ی ساہوکار کے پاس گروی رکھ دیتی۔ اس کے پیروں کے آدھ سیر وزنی چاندی کے توڑے پچاس روپئے مـیں ڈوب گئے تھے۔ یہ ڈوب جانا بھی یوں ہوتا کہ جب سود کی ندی چڑھتے چڑھتے باڑھ بن جاتی تو چھوٹی موٹی چیزوں سے لے کر سونے چاندی تک اس باڑھ مـیں ختم ہو جاتی، بہہ جاتی۔
امـیر بننے کا کیسا آسان طریقہ ہے یہ … وہ سوچتی۔
وہ جس محکمہ مـیں کام کرتی تھی اس کے بل کلکٹر بھی لکھ پتی تھے۔ پیسے اینٹھنے کی ترکیبیں تو یہاں کے بابو لوگ جانتے ہی تھے۔
کروڑ ہا روپئے کی رقم کا حساب کتاب برابر ہو جاتا تھا۔
معمولی جمعدار، انسپکٹر اور بل کلکٹر کے کئی کئی منزلہ پختہ مکان تھے جو کرایہ پردے رکھے تھے ان لوگوں نے۔
’’اس طرح پیسہ کمانے اور اس کو صحیح مد مـیں لگانے کا ہنر بھی جانتے ہیں ہم…‘‘ ایک دن بل کلکٹر نے انسپکٹر سے کہا تھا۔ تب ہی وہ دونوں کے لئے سامنے والی ہوٹل سے چائے لے آئی تھی اور اس کو بیوقوف و جاہل سمجھ کے وہ دونوں گفتگو مـیں مصروف رہے۔ وہ اپنی عمر، تجربہ اور عقل سے تو یہ بات سمجھ لیتی تھی مگر ایسی باتیں کرنا، یـا سمجھانا اس کو نہیں آتا تھا۔ بس اس کی زندگی مـیں تو ایک ہی جیسی اندھیری صبح تھی جب وہ جاگ جاتی تھی۔ جلدی جلدی اپنے حصے کا کام نمٹا کے وہ صفائی کے دفتر جاتی۔ جمعدار بڑا ایماندار آدمـی تھا۔ پیسے لیتا تھا تو کیـا ہوا۔ حاضری بھی ہو صحیح وقت کی ڈالتا تھا۔ چاہے سات بجے جاؤ، حاضری تو پانچ بجے صبح کی پڑتی تھی۔ کبھی بہت دور جھاڑو و گمپے اٹھا کے پیدل جانا پڑتا۔ کبھی دو مـیل دور کی سڑکیں جھاڑو، کبھی چار مـیل دور کی … نوکری تو نوکری ہی ہے۔
جس گھر کی عورتیں پیسہ کما کے لاتی ہیں ، اس گھر کے مردوں مـیں نسوانیت بڑھ جاتی ہے۔ حکیم صاحب اکثر ہنس کے اپنے ساتھی سے کہا کرتے جن کے مطب کے آگے وہ روز جھاڑو لگاتی تھی جب جمناں نے ہاتھ جوڑ کے مطلب پوچھا وہ بولے ’’بھئی جب عورتیں مرد بن کے مـیدان مـیں آ جائیں تو مرد شرما کے منہ پھیر ہی لیں گے ، تم کماتی ہو تو تمہارا مرد گھر مـیں کھاٹ پر پڑا اینٹھتا ہو گا، اس کو کیـا پڑی ہے کہ محنت کرے۔
دل ہی دل مـیں جمناں قائل ہو گئی۔ حکیم صاحب کی قابلیت اور اندازے کی… جھاڑو سے سڑکوں کی دھول اڑتی رہتی اور اس کے بالوں پر جمتی رہتی۔
صبح کب ہوئی، پنچھی گھونسلوں سے کب اڑے ، کرنیں پھولوں پر کب چمکیں اندھیرے کا لحاف کب تار تار ہوا۔ اسے کچھ خبر نہ ہوتی۔ پانچ بجے صبح سے پیٹھ جھکائے وہ سڑکیں جھاڑتی تھی۔
لوگ قدر گندہ اور غلیظ کر دیتے ہیں سڑکوں کو… سڑی بسی سبزیوں کا ڈھیر، اخبار کاغذ اور پھٹی ہوئی پالی تھِن کی تھیلیـاں۔ دھجیـاں ، باسی کھانے اور سالن کی بدبو… جگہ جگہ پان کی پیک، جانوروں اور انسانوں کی غلاظت! وہ اپنا جی مار کے صفائی کرتی رہتی کوڑے کے ڈھیر جانے کتنے دنوں سے نہیں اٹھے … حلق مـیں متلی و جلن کا احساس ہوتا۔ وہ ابکائی روک لیتی۔ وہ بھی تو انسان ہے صبح پانچ بجے سے دس بج جاتے۔ وہ پسینہ و دھول مـیں نہا جاتی جب جھاڑو رکھ سر اٹھاتی تو بس ملنے اور گھر جانے کی جلدی ہوتی کبھی بس نکل جاتی تو بس کے ساتھ ساتھ اس کی جان بھی نکل جاتی۔
پھر دو بجے اس کو دفتر مـیں رپورٹ بھی دینا ہے۔ پانچ بجے وہ گھر پہنچے گی۔ نہا دھو کے کپڑے بدل کے وہ انجینیر صاحب کے باغیچے مـیں درختوں کو پانی دے کر گھر آئے گی، تھکی ہاری …
آدھی رات کو جنگیـا کی بھاری آوازیں اس کا سکون برباد کر دےاس کیی بات کا جواب دےتو وہ دانت کچکچا کے اسے مارنے دوڑے گا آخر وہ اپنے احساس کمتری کو طرح دور کرے ؟ ہر روز کی طرح وہ بار بار دہرائے گا۔ ایک ہی سوال ’’مجھے اس کوٹر دلائےیـا نہیں ؟ بول کب دلائے گی؟ سینکڑوں روپئے کماتی ہے مگر اپنے مرد کو نہیں دیتی۔ کیـا کرتی اس پیسے کا؟ کو دیتی ہے ؟ہے وہ؟
وہ خاموش بیٹھی رہےجیسے بہری ہے ، گونگی ہے۔ سارے گھر کو سنبھالنے والی، اپنے گھر آ کے معذور و مجبور بن جاتی ہے ورنہ وہ مار مار کے بال کھینچ کھینچ کے اس کو ادھ موا بنا دیتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بیٹھے بیٹھے روٹی توڑنے والا اس طرح ظلم کرتا ہے۔ ہزاروں گھر ہیں ایسے جن مـیں یہی مجبوری و محتاجی ہے۔
عورتوں کے نصیب مـیں گھر بار سنبھالنے کی یہ سزا ضرور لکھی ہے۔ وہ روئے گی، سسکیـاں لےاور اپنے بستر پر پڑ رہے گی۔
اس صبح کے انتظار مـیں جو کبھی نہیں آئی۔ اس روشنی کے انتظار مـیں جو کبھی نہیں پھیلی۔ اس زندگی پر تو مہیب سائے منڈلاتے رہے۔ امـید کی کرن ان سایوں مـیں چمکتی رہی۔ شاید … شاید کبھی ایسی صبح آسمان کے دامن سے جنم لے جو ساری دنیـا مـیں اجالے اور خوشیـاں بھر دے۔ ہر چند خوبصورت و سہانی لگے دور دور تک اندھیرے کا نام و نشان نہ ہو۔ انسان ایک دوسرے پر بہانے بنا کے ظلم نہ کر سکے۔ محنت و جان توڑ محنت کے بعد تسلی اور سکون مل سکے۔ آرام و راحت کا احساس ہو۔
یہ نہیں کہ سویرا ہو اور اجالا نہ پھیلے ، سورج نکلے مگر روشنی نہ ہو کرنیں صرف اندھیرے کو چمکا دیں۔
دل پر بوجھ نہ ہو، زندگی وزنی پتھر بن کر شانے پر دھری ہو۔ انسان جو سوچے وہ کبھی تو پورا ہو۔ مگر کیسے ؟ وہ سوچتی رہی۔
مـیری زندگی مـیں تو بس رات کے گزرتے ہی اور ایک رات آ جاتی ہے کب سے ترس رہی ہوں روشنی کے لئے۔
زندگی ہے تو دھول، اور غلاظت بھری …گھر ہے تو ایساجس مـیں کوئی اپنا نظر نہیں آتا۔ آخر سب ہی کو کھلا کے تو کھاتی ہوں صرف اپنے لئے محنت نہیں کرتی۔ اس گھر کے لئے مرتی ہوں مگری کی آنکھوں مـیں مروت نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی غرض کے لئے مـیرے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ سوتی ہوں تو نیند مـیں بھی بے چین رہتی ہوں جیسے اندھیرے مـیں کچھ ٹٹول رہی ہوں۔ کیـا مجھے روشنی نہیں ملے گی؟ گھپ اندھیرے کے بعد کیـا کبھی اجالا نہیں پھیلے گا؟
اجالا ضرور پھیلے گا۔ رات کے بعد ہی تو دن نکلتا ہے
مـیری زندگی کا دن بھی آئے گا۔ وہ دن قدر چمکیلا اور سہانا ہو گا پھر اندھیرے مـیں پلنے والی ساری بدصورتی ختم ہو جائے گی۔ تیز دھوپ ساری گندگی اور غلاظت چوس لے، روشنی اندھیرے پر پھیل جائے گی۔
سوچتے سوچتے وہ سوگئی تھی، صبح کے انتظار مـیں
روشنی کے آرزو لئے۔
٭٭٭
جوبلی ہلز بہت خوبصورت جگہ ہے یہاں دو نیلی نیلی حسین جھیلیں ہیں۔ کنول راج اور نندن سر۔ ان کے کنارے سبز کائی مـیں چھپی ہوئی چٹانیں ہیں اور دور تک پھیلا ہوا سبزہ۔ یہاں برستا کا حسن نکھر جاتا ہے لہریں لیتا ہوا پانی بیقرار موجوں مـیں تبدیل ہو جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی موجیں جو تڑپتی ہیں۔ اچھلتی ہیں اور پھر سوجاتی ہیں۔ سوتی جاگتی لہریں ، چھل چھل، ایک تڑپتا ہوا نغمہ جس مـیں برسات کا پر شور ابھار ہوتا ہے۔ کنارے مخملی ڈوب پر ننھے قطرے ، پڑے تھرتھراتے رہتے ہیں۔ سورج کی شعاعوں مـیں نہائے رنگین قطرے۔ جو جمع ہو کر بھی جھیل مـیں گر جاتے ہیں۔ نئی لہریں بن جاتے ہیں۔
یہ جھیلیں جن کی گہرائی کو آنکھیں کھولے دیکھتے رہنے مـیں بڑا لطف آ جاتا ہے جیسے آئنہ گھما کر نئے نئے منظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے ہی اس جھیل مـیں کائی سے لپتی چٹانیں ، کچی سڑک پر اکا دکا چلتے آدمـی اور آفتاب کا دہکتا ہوا چہرہ، سب ڈولتے رہتے ہیں اور چاندنی راتوں مـیں اس مـیں جھلملاتے تاروں اور پورے چاند کا واقعی دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ان سے کرنیں پھوٹ کر ننھے گرداب پر پھیلتی ہیں۔ تارے سرک سرک کر اس کنارے سے اس کنارے تک جاتے ہیں۔ لرزتے ، کانپتے ستارے۔
جب مـیں زندگی کی یکسانیت سے اکتا جاتا ہوں توسنیما دیکھنے یـا سڑکوں پر آدھی رات تک آوارہ گھومنے کے بجائے جوبلی ہلز چلا جاتا ہوں گھنٹوں چٹان پر بیٹھے آنکھیں کھولے ان جھیلوں مـیں ان کی نیلی گہرائیوں مـیں دیکھا کر که تا ہوں … اور صبح مـیری گردن اکڑی اکڑی محسوس ہوتی ہے اور مـیں بڑی دیر تک اپنی گردن سہلاتا رہتا ہوں مگر نہ جانے ان جھیلوں مـیں کیـا جادو ہے کہ مـیں کھنچا چلا جاتا ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نیلی گہرائیوں سے اپنا گلابی ہاتھ نکالے بلاتا ہے ، اشارے کرتا ہے۔
پھر ایک دن راک کاسل ہوٹل مـیں چائے پیتے ہوئے مـیں نے دو نیلی آنکھیں دیکھیں شاداب غنچے کی طرح کھیلے ہوئے سرخ ہونٹ اور ملائم نازک ہاتھ۔ گرے اسکرٹ اور سرخ بلاؤز۔ مـیں نے گرم چائے کی پیـالی ہونٹوں سے لگا لی اور ا سکی طرف کن انکھیوں سے دیکھا … اور وہ مـیری طرف دیکھ رہی تھی مگر مـیری طرح کن انکھیوں سے نہیں بلکہ حیرانی سے۔ اس کی بھوئیں چڑھی ہوئی تھیں اور آنکھیں حیرانی سے کھلی ہوئی۔ شاید مـیرے مسلسل گھورنے پر اس کو تعجب ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ رہی ہوکہ عام ہندوستانیوں کی طرح عورت کے معاملہ مـیں ، مـیں بھی مـیں بھی گونگا ہوں جو صرف خوبصورت عورتوں کو گھور سکتا ہے ، پیـار بھری نظریں قربان کر سکتا ہے مگر زبان سے کچھ نہیں کہتا۔ مسکراتا ہے مگر بے باکی سے دلی جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔
مـیں نے چائے کی پیـالی مـیز پر رکھ دی۔ شیشے کی مـیز پر اس کا پر تو پڑ رہا تھا مرمریں جسم، شانوں پر بکھری لٹیں جن سے ایک سرخ کلی جھانک رہی تھی اور بے چین، بے کل آنکھیں جن مـیں دو جھیلیں بند تھیں۔ مـیں نے نظر اٹھا کے پھر اس کی طرف دیکھا اور اس نے مـیری طرف۔ ان آنکھوں مـیں عجیب سی تحریر تھی جیسے اس کو مـیری جھجک پر ہنسی آ رہی تھی، مـیری بے بسی پر ترس کھا کے اس نے غور سے مـیری طرف دیکھا اور مـیں بھی بڑی دیر تک اس کی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈالے سامنے چائے کی خالی پیـالی رکھے بیٹھا رہا۔
’’بیرا‘‘ دفعتاً وہ اٹھ کھڑی ہوئی
’’یس مـیڈم‘‘ بیرا ہوٹل کے آخری کونے سے تیز تیز قدم رکھتا آیـا۔
لڑکی کے ہونٹ ہلے بالکل اس انداز سے جیسے رنگین کلی چٹک جائے۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی مـیں نے مسکراتے ہوئے بیرے سے کہا جاؤ کچھ بسکٹ لاؤ، بٹر سیڈس، کیک اور جو تمہارا جی چاہے۔
بیرا ہنس پڑا۔ جو مـیرا جی چاہے ؟ ایں سر
’’ہاں جو تمہارا جی چاہے ‘‘۔ جاؤ۔ مـیں نے تیز لہجہ مـیں کہا تو وہ چلا گیـا۔ مـیں نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔
’’آپ کو جلدی نہ ہو تو بیٹھ جائیے ، پلیز، مـیرے ساتھ ایک چائے اور …‘‘ اس نے تعجب سے مـیری طرف دیکھا جیسے اسے مـیری قوت گویـائی پر شبہ ہے۔ جیسے گونگا یک بول اٹھے۔
مگر جلدی ہی ایک نیـا رنگ اس کے چہرے پر پھیل گیـا۔ اس کی نظروں کی حیرانی مٹ گئی اس کی جگہ حقارت تھی، احساس برتری تھا۔ اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں ’’تم ہندوستانی ہونا؟ ہندوستانی بہت بدتمـیز ہوتے ہیں۔ ان کو ملنے ملانے کا ایٹی کیٹ نہیں معلوم ہوتا، یعنی بغیر متعارف ہوئے تم قدر بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوں۔ گنوار، اجڈ، جاہل ہندوستانی ‘‘۔
مـیں نے لڑکی کے اس جذبہ کی طرف قطعاً توجہ نہیں دی جو طوفان کی طرح اٹھا تھا۔ اس کے دل سے آنکھوں مـیں اور پھر آنکھوں سے چہرے پر اتر آیـا تھا۔ اس کے دونوں ابروؤں کے درمـیان جلد کی سلوٹ مـیں ایک رگ غصہ سے پھڑک رہی تھی۔ مـیرا جی چاہا اس رگ کو اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں سے چوم لوں۔ اس طرح اس کا غصہ اتر سکتا تھا مگر مـیں اس جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہتا تھا۔ بلکہ اس لمحے کا انتظار کرنا چاہتا تھا۔
بیرا اپنی پسند سے نہ جانے کیـا کیـا اٹھا لایـا تھا۔ مـیں نے بٹر سیڈس کی پلیٹ اس کے سامنے سرکا کر حکم یـا
’’لیجئے ‘‘
اس نے بادل ناخواستہ اپنی گداز انگلیوں مـیں تھام لیـا۔ ہونٹوں تک لائی پھر بولی۔
تمہارا نام کیـا ہے ؟
’’رنچو ‘‘ مـیں نے جواب دیـا۔
’’رنچو‘‘ وہ آنکھیں پھاڑ کے پوچھنے لگی
’’ہاں۔ اتنا لمبا تڑنگا ہو گیـا ہوں مگر ماں پیـار سے پکارتی ہے۔ دراصل ہندوستانی ماؤں مـیں ممتا بہت ہوتی ہے نا!‘‘
’’تمہاری ماں کیـا کرتی ہے ؟ ‘‘
برتن مانجھتی ہے ، کھانا پکاتی ہے ، بچے پالتی ہے اور آدھی رات تک مـیرے بوڑھے باپ کے پیر دباتی ہے۔
چھی …بڑی گندی زندگی ہے۔ وہ بناوٹی لہجے مـیں بولی۔
’’تمہارا نام کیـا ہے ؟‘‘ مـیں نے اس کی نفرت کو نظر انداز کر کے پوچھا
’’مرلن‘‘ وہ مدھم آواز مـیں بولی، اس نے ننھے سے رومال سے ہونٹ پونچھے ان پر زبان پھیری۔ ہونٹ گیلے ہو گئے ، شگفتہ ہوئے ان مـیں رس بھر گیـا۔ اب وہ باتیں بھی کر رہی تھی، بسکٹ بھی کھا رہی تھی اور لہجے مـیں بیزاری بھی نہیں تھی۔ عورت بھی کیـا چیز ہے۔ مـیں نے سوچا۔
عورت کہیں کی ہو، کہیں بھی ہو عورت ہی رہتی ہے۔ پہلے رعب ڈالےبیزاری سے منہ پھیر لے گی۔ وقار تمکنت کی دھونس جمائے گی، تکلف برتےپھر گھل مل جائے گی۔ باتیں کرےاور بسکٹ کھائے گی۔
یہی سوچ کے مـیں ہنس پڑا۔
مرلن بولی ’’تم اتنی زور سے کیوں ہنستے ہو‘‘؟
’’اس لئے کہ مجھے نیلی جھیلوں سے عشق ہے اور جب مـیں آنکھیں کھولے ان کی گہرائیوں مـیں دیکھتا ہوں تو فرط مسرت سے ایسا ہی گونجتا ہوا قہقہہ مـیرے ہونٹوں سے پھوٹ پڑتا ہے ‘‘۔
’’جھیل…‘‘ وہ حیران لہجہ مـیں بولی ’’یہاں کہاں ہے جھیل‘‘؟
’’تمہاری آنکھوں مـیں ‘‘۔
وہ یوں دیکھنے لگی جیسے مـیں پاگل ہوں۔
آنکھوں مـیں بھی جھیل ہوتی ہے ؟ اس نے بڑی معصومـیت سے پوچھا
مـیں نے جھلا کر کہا ’’تم بات کی لطافت کو نہ سمجھ سکو گی‘‘۔
اور وہ خاموش ہو گئی۔
……
اس ملاقات کے بعد مرلن مجھ سے قریب آتی گئی۔ اس کی نفرت فنا ہو چکی تھی اور نفرت کے مٹے ہوئے احساس پر محبت کا نیـا احساس گہرے نقوش ابھارتا رہا۔ پہلی ملاقات مـیں پیـار کا جو بیج بویـا تھا اس کی کونپل، بڑھتی رہی، ہری بھری شاخیں ، چکنے تازہ پتے اور موٹا مضبوط تنا۔ بڑی بڑی جڑیں جو پودے کو درخت مـیں تبدیل کر چکی تھیں۔
ایک بار مل لینے کے بعد نہ معلوم کتنی بار مـیں مرلن سے ملا اور پھر جوبلی ہلز کی جھیلوں نے مجھے کبھی نہیں بلایـا اور نہ مـیں ان کی طرف کھنچا ہوا گیـا۔
ان جھیلوں سے زیـادہ خوبسورت پیـاری جھیلیں مجھے مل گئی تھیں۔
گہری، عمـیق جن کی تہہ کا پتہ ہی نہ چلتا تھا۔
مـیں جھکا ہوا، آنکھیں کھولے ان جھیلوں مـیں دیکھتا رہا اور مرلن مـیرے شانے سے سر لگائے بیٹھی رہی اور چار سال گزر گئے ان چار سالوں مـیں مـیری زندگی کے ہزاروں یـادگار لمحے چھپے ہوئے ہیں وہ مدت اپنے دامن مـیں زندگی کی جنت سمـیٹ لے گئی۔ ایک ایک لمحہ اب تک مـیرے ذہن مـیں جوں کا توں محفوظ ہے۔
ایک زمانہ گذر چکا ہے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کل ہی تو مـیں مرلن سے متعارف ہوا تھا۔ مـیرے ہونٹوں پر اب تک مرلن کے گرم شیریں ہونٹوں کا لمس زندہ ہے وہ حیران ، کھوئی کھوئی سی لڑکی جس کے گالوں کا رنگ کشمـیر کے سیبوں کی طرح سرخ تھا، جس کی آنکھوں جوبلی ہلز کی جھیلوں کی نیلاہٹ تھی۔جس کے ہونٹوں مـیں گلاب کے ادھ کھلے غنچوں کی ملائمت و تازگی تھی جس کے سینے کی دھڑکنیں بارہا سن چکا تھا۔ جس کی آنکھوں مـیں مـیرا ہی پرتو رہتا تھا۔ وہ اکثر ہری ہری لمبی گھانس پر بیٹھی مجھ سے کہا کرتی رنجو … مـیری آنکھوں مـیں دیکھو۔ہے اور مـیں مرلن پر جھک جاتا جیسے آئنہ دیکھ رہا ہوں اور وہ غور سے پلک جھپکے بغیر مجھے دیکھتی رہتی۔
چودھویں رات کا پورا چاند نکل آیـا تھا۔ ہر طرف نور کی بوچھار ہو رہی تھی رات کی رانی کی مہک ہوا کے تیز جھونکوں سے دور تک پھیل رہی تھی اور مرلن مـیرے پاس آ گئی تھی اس نے سفید بلاؤز اور سیـاہ اسکرٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی سفید پنڈلیـاں کھلی ہوئی تھیں۔
وہ رات ہم نے بوٹ کلب مـیں گذاری۔ ایک چھوٹی سی کشتی مـیں مـیں نے مرلن کو بٹھا دیـا اور قریب بیٹھ گیـا۔ وہ کانپتی ہوئی آواز مـیں اپنے دیس کا نغمہ الاپ رہی تھی۔
مـیں اور تم دونوں آسمانی فرشتے ہیں
اڑتے ہوئے امن کے پنچھی ہیں
جو پیـار کرتے ہیں اور سکون چاہتے ہیں
مگر سکون زندگی مـیں نہیں ہے
سکون موت کی وادی مـیں ملتا ہے
یہ نہ گاؤ مرلن۔ آج چاندنی رات ہے اور تم موت کی باتیں کر رہی ہو۔
مرلن نے مـیرے شانے سے سر لگا دیـا اور سسکی لی۔
’’مرلن …مرلن ڈیر‘‘ مگر مرلن چپ تھی۔ نیلی جھیلوں مـیں جوار بھاٹا چڑھ رہا تھا اور پھر سیلاب بہہ نکلا۔
رنجو… کیـا تم کو نہیں معلوم ہے کہ جنگ شروع ہو چکی ہے نہ معلوم دنیـا سے جنگ کی بلا کب دور ہو گی۔ مـیرا باپ فوج مـیں کیپٹن ہے اس کی چٹھی آئی ہے کہ جلدی دیس پہونچو ورنہ راستے بند ہو جائیں گے۔ اب ہم دیس جا رہے ہیں رنجو، اس لئے آج رات مـیں تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ مـیری ماں کو ہندوستانیوں سے شدید نفرت ہے۔ ڈانس ہال مـیں مجھے گوری نسل کے انسانوں کے جسم سے جسم لگائے سب کے سامنے ناچنے کی مکمل آزادی ہے مگر ایک ہندوستان کے ساتھ مـیری یہ آزادی برقرار نہیں رہ سکتی۔ صرف ان سے مـیٹھی باتیں کر کے مـیری ماں انھیں لوٹنا چاہتی ہے۔ پچھلے ہفتے ایک ہندوستانی نے مـیری ماں کو سونے کی ایک چھوٹی سی مورتی تحفتاً دی۔ اس وقت تو اس نے بہت تعریف کی مگر اس کے جاتے ہی فوراً بولی
’’بے وقوف۔ کالا آدمـی‘‘
مگر سب ایک جیسے نہیں ہوتے رنجو ڈارلنگ۔ ہمارے دیس مـیں جنگ بازوں کے ساتھ ساتھ امن پسند بھی موجود ہیں۔ کل مـیں اور مـیری ماں دونوں چلے جائیں گے۔ ہماری کوٹھی ویران ہو جائےاور باغ کے سارے پودے شاید سکوھ جائیں گے۔ تم راک کا سل ہوٹل مـیں اکیلے جاؤ گے۔ تم بوٹ کلب بھی شاید کبھی نہیں جاؤ گے۔ اس چھوٹی سی کشتی مـیں کبھی نہیں بیٹھو گے۔ تم بہت پر خلوص ہو۔ تم ہندوستانی ہو اور ہندوستانیوں کا دل بہت نرم ہوتا، ان کو نیلی سے پیـار ہوتا ہے ، مـیں سات سمندر پار چلی جاؤں گی۔ مـیں شادی نہیں کرونگی۔ مـیں وہاں جا کے انقلابیوں مـیں مل جاؤنگی۔ مـیں یوروپین ہوں ، مـیں امن چاہتی ہوں۔ تم ہندوستانی ہو۔ تم امن چاہتے ہو بالکل ایسا ہی امن جو اس چھوٹی سی کشتی مـیں مـیسر ہے۔ ہماری کوٹھی کے پاس والی کوٹھی مـیں ایک امریکن بڑھیـا رہتی ہے۔ جنوبی امریکہ مـیں اس کے گیـارہ بیٹے ہیں۔ تین فوجی ہیں اور آٹھ امن چاہتے ہیں۔ کل رات وہ رو رہی تھی مگر رنجو! جنگ کروانے والے امن کیوں نہیں چاہتے ، کیـا اس لئے کہ رنجو اور مرلن الگ ہو جائیں۔ اس لئے کہ انسان بوڑھا ہوکے بھی اپنے جوان فوجی بیٹوں کی لاش پر آنسو بہائے ؟ کیـا خدا انسان کو اسی لئے تخلیق کرتا ہے کہ وہ بلاوجہ مار ڈالا جائے ؟ یہ کیسی مجبوری ہے۔ اب تم مجھ کو خط بھی نہ لکھ سکو گے۔ راستے بند ہو جائیں گے۔ پھر ہم دونوں مل بھی نہ سکیں گے۔ آہ۔ پھر کیـا ہو گا؟
وہ رات بھر مـیرے سینے سے سر لگائے بڑبڑاتی رہی۔ مـیں نے اس کے آنسو پونچھ دیئے۔ اس کے سنہری بالوں کے لچھے سلجھا دیئے۔ اور صبح مـیں اس کو راک کا سل ہوٹل لے آیـا۔ وہی چند بیوقوف ہیرا ، وہی ہوٹل ، وہی مرلن اور وہی مـیں۔ مگر مرلن کے چہرے پر بیزاری نہیں تھی بلکہ کرب و اضطراب گھلا ملا سا تھا۔ اس کے سرخ ہوئے سوجے ہوئے تھے اور آنکھوں مـیں نمـی تھی۔
مـیرا حال بھی خراب تھا۔ جیسے کوئی مجھ سے مـیری زندگی چھین لئے جا رہا ہو۔ مـیرے سینے مـیں خشک ریت سی پھنس گئی تھی۔ مجھے اپنی پریشانی کا خود اندازہ نہیں تھا۔ مـیں خالی الذہن مـیز کے موٹے شیشے ہر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ آج اس نے دانستہ وہی سرخ بلاؤز اور گہرے اسکرٹ پہن رکھا تھا جو پہلی ملاقات کے وقت اس کے جسم پر تھا مگر وہ خود پہلے سے ہزار گنا بدلی ہوئی تھی۔ اسد کی لٹیں بکھر گئی تھیں مگر ان مـیں کوئی پھول نہیں تھا۔ اس کے ہونٹ ، خشک تھے ، اس کی باتیں ادھوری تھیں۔ اور مـیں قدر پریشان تھا۔ مـیں نے کہا۔
جاؤ مرلن اپنے دیس چلی جاؤ مـیں نے بچپن سے اب تک زندگی اتنی تکلیفوں اور مصیبتوں مـیں گذاری ہے کہ اب مـیں اذیت پسند ہو گیـا ہوں۔ ہاں اس تاریکی مـیں تم ایک تابناک ستارا بن کر چمکیں اور پھر اندھیرا ہو رہا ہے تابناکی کے بعد کا اندھیرا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے مگر مـیں اس کا عادی ہوں۔ اس لئے مجھے زیـادہ الجھن نہیں ہو گی۔
مـیں اسے ایر پورٹ چھوڑنے گیـا اور خدا حافظ کہنے سے پہلے مـیں نے اس کی آنکھیں چوم لیں۔ وہ گہری نیلی آنکھیں جن مـیں مـیری چار سال کی خوشیـاں اور مستقبل کی ویرانیـاں تیر رہی تھیں۔
مجھے مت بھولنا رنجو۔ وہ جذبات مـیں ڈوب کر بولی۔ تم نہیں بھولو گے تم ہندوستانی ہو۔ چاہت تمہارے خون مـیں رچی ہے۔
مـیرے اور مرلن کے درمـیان سات سمندر حائل ہو گئے۔ ابھی ابھی مرلن مجھ سے اتنی قریب تھی کہ مـیں اس کی معطر لٹوں کو دیکھ رہا تھا۔
اس کی گرم سانس محسوس کر رہا تھا اور ابھی وہ مجھ سے اتنی دور ہو گئی جیسے کبھی مـیرے قریب نہیں آئی تھی جیسے مـیر لئے اس کا وجود ہی نہ تھا۔
مـیں گھبرا کر جوبلی ہلز بھاگا۔ اپنی وحشت کو جو بلی ہلز کی جھیلوں مـیں گھول دینے کیلئے۔
مگر چٹانوں کی سبز کائی سیـاہ دھبوں مـیں تبدیلی ہو چکی تھی۔ جھیلیں خشک ہو چکی تھیں۔ ایک بوند بانی بھی نہ بچا تھا۔ ان کی گہرائیوں کا مجھے اب پتہ چلا۔ زیـادہ گہری نہ تھیں مگر پانی کی نیلاہٹ ان کی تصورات گہرائی تک پہونچے نہ دیتی تھی۔
پانی کی جگہ اب ہیلی بہتوں اور سرخ پھولوں والی جھاڑیـاں اُگ آئی تھیں جن مـیں لمبے کانٹے بھرے ہوئے تھے اور خشک سطح پر لاکھوں زرد پتیـاں اور سرخ مرجھائی پنکھڑیـاں اڑ رہی تھیں۔ وہ نیلی لہریں سوکھی مٹی مـیں جذب ہو چکی تھیں ہر طرف سنگدل چٹانیں بکھری پڑی تھیں۔
مـیں ایک مدت تک دیوانوں کی طرح گھومتا رہا۔ وحشتوں کی طرح کھویـا ہوا جیسے مـیری زندگی کا ایک ایک لمحہ کہیں کھو گیـا ہے ، اور ہر کرن تاریکی مـیں۔ گھل کر سیـاہ ماحول بن گئی ہے جس مـیں مـیرا دم الجھ رہا ہے جس مـیں اپنی خواہشیں اپنی تمنائیں ، ٹٹولتا ہوں ، ڈھونڈھتا ہوں مگر تو پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں۔ مـیری سمجھ مـیں نہیں آتا کہ ان ڈگمگاتے قدموں سے منزل کی سمت بڑھوں۔ مـیں اس یتیم بچے کی طرح تھا جس سے شفقت و محبت دور ہو گئی۔ اک مدت بعد مـیں سنبھلنے لگا۔
شاید مرلن بھی سنبھل گئی ہو۔ شاید اس نے بھی وحشتوں کا گلا گھونٹ کے مسکرانے کی کوشش کی ہو۔
ماں کے مرنے کے بعد مـیں شادی کر لی اور یہ سوچ کر مجھے بڑا دکھی ہوا کہ شاید مرلن نے بھی شادی کر لی ہو۔ مـیں نے تو بے شمار مجبوریوں کے تحت کی تھی۔ جبراً جیسے کوئی زندگی سے تنگ آ کر خود کشی کر لے۔
جب مـیں زندگی کی جلتی دھوپ مـیں ہانپتے ہانپتے تھک گیـا تو مـیں نے چھدری چھدری جھاڑیوں مـیں پناہ لی۔ مگر مرلن ؟ کیـا وہ بھی تپتی ہوئی دھوپ سے گھبرا کر ٹھنڈی چھاؤں مـیں بیٹھ گئی۔ ؟
مجھے نیلی جھیلوں کی ٹھنڈک نہ مل سکی۔ مـیں نے جنگ کے بعد انقلابی پارٹی مـیں شرکت کر لی۔ جنگ بازوں کے خلاف مـیری قوتوں اور مـیری خواہشوں نے امن کا محاذ بنا لیـا۔ اس محاذ مـیں مـیرے ساتھ ساری دنیـا کے امن پسند کھڑے ہیں مرلن ، امریکن بڑھیـا اور اس کے بیٹے ، مـیری بیوی ، مـیرے بچے اور مـیرے ساتھی ، سب مـیرے ساتھ ہیں۔
اب جب کہ مـیری زندگی کے صحرا مـیں مـیرے بچے نخلستان بن کے ابھرے ہیں۔ مـیرے چہرے پر ٹھنڈی ننھی منی انگلیوں کا لمس ، مـیری الجھنوں کو کم کر دیتا ہے۔ مـیری ٹانگوں سے لپٹے ہوئے گول مول ہاتھ مجھے روکتے ہیں۔ مـیرے چہرے سے چہرہ ملائے معصوم قہقہے لگا کر یہ پیـارے بچے ہلکی ہلکی خوشیـاں بخشتے ہیں تو تیسری جنگ ایک بار پھر مجھے لوٹنے آئی ہے۔
یہ نخلستان کا آسرا بھی چھین کر مجھے ایسے بے برگ و بار درخت مـیں بدل دینا چاہتی ہے جو برق کی مسلسل مہربانی سے جھلس گیـا ہو۔ دوسری جنگ نے نہ معلوم مـیرے ساتھ کتنی زندگیوں کو تباہ کیـا۔ کتنے ارمان ، کتنی خواہشیں ، کتنی خوشیـاں ، دہکتے بموں سے ، مشین گنوں ، تار پیڈو اور گولہ بارود سے فنا ہو گئیں۔
شاید مرلن مر گئی ہو۔ اگر مرلن مر گئی تو ایک عورت مر گئی۔ ایک محبوبہ ایک ماں ، ایک بیوی ، ایک بہن اور ایک بیٹی مر گئی ، ایک خاندان مرگیـا ، اس کے ساتھ لا تعداد زندگیـاں موت کی آغوش مـیں گر گئیں۔ ممتا شفقت و محبت مر گئی۔
مـیں خود اس کے بغیر زندہ درگور ہوں۔ اب بھی اس کو خوابوں مـیں تلاش کرتا ہوں۔ مرلن مجھ سے نہیں بچھڑی ، مـیرے جسم سے روح الگ ہو گئی ایک پھانس مـیرے دل مـیں ٹوٹ کر رہ گئی۔
آج مـیں اپنے پلنگ پر پیر پھیلائے ، منہ کھولے سورہا تھا تو مـیرے خواب مـیں مرلن آ گئی۔ مـیں نے دیکھا اس کے بالوں کے نرم لہجے چاندی کے تاروں جیسے ہو گئے ہیں۔ چہرے پر جھریـاں پڑ گئی ہیں اور وہ مـیرے ساتھ ہوٹل مـیں بیٹھی چائے پی رہی ہے۔ مجھ سے کہہ رہی ہے۔
رنجو۔ مـیرے آٹھ لڑکے ہیں۔ مـیں نے انہیں جنگ پر نہیں بھیجا ہم نے اپنے دیس مـیں جنگ کے خلاف مخالف محاذ تعمـیر کر لیـا ہے۔ اس امن کے مورچے پر مـیرے آٹھ بیٹے مـیرے ساتھ ہیں۔ مـیں اب بوڑھی ہو گئی ہوں۔ مـیں چاہتی ہوں اپنے بچوں کی خوشیـاں دیکھوں۔
اپنی زندگی مـیں جو خوشیـاں مـیں نے نامکمل چھوڑ دی تھیں وہ مـیری اولاد مکمل کرےمـیں اپنے دیس جا رہی ہوں مگر آج تم سے الگ ہوتے ہوئے مجھے غم نہیں ہو رہا ہے۔
اور مـیں نے کیـا۔ مجھے بھی غم نہیں ہے مرلن۔ مـیں بھی رنجیدہ نہیں ہوں۔ لو یہ ایر پورٹ آ گیـا۔ مـیرا ننھا بچہ تمہاری گڑیـا جیسی بیٹی کی آنکھیں چوم رہا ہے اس لئے مـیں تمہاری آنکھوں پر اپنے ہونٹ نہیں رکھوں گا۔
جاؤ مرلن۔ اپنی مردہ خواہشوں کو اپنے بچوں مـیں زندہ رکھنے کی کوشش کرو۔ آنے والی نسل اپنی زندگی کو موت بنا کر نہیں رکھے گی۔ خدا حافظ اور مـیری بیوی نے مجھے نیند سے جگا دیـا۔ مجھے یقین نہیں کہ مـیں سورہا تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسےی نے نا معلوم طریقہ پرمستقبل کا انجان ماحول مـیرے سامنے کھول کر رکھ دیـا تھا مـیری بیوی کا خیـال ہے مـیں خواب مـیں بڑبڑا رہا تھا مگر اس کو کیـا معلوم کہ مـیں مرلن سے سے باتیں کر رہا تھا مگر مـیرے چہرے پر جھریـاں نہیں ہیں۔ مـیرے بال سفید نہیں ہیں اور مرلن شاید مستقبل کا ایک تصور بن کے مـیرے خوابوں مـیں لہرائی ہو۔
وہ تو اب بھی ویسی ہی حسین ہو گی۔ ویسی ہی تندرست ، وہی سنہری زلفیں ، وہی تر و تازہ ہونٹ ، وہی مـیٹھا لہجہ۔
مرلن ان دو جھیلوں کا نام ہے جن مـیں چار سال تک غلطاں رہا۔ آج تک سوتے جاگتے ان کو دیکھتا ہوں۔
مگر جوبلی ہلز کی جھیلیں اب بھی برسات مـیں لہراتی و گاتی ہیں۔ ان مـیں وہی بے چین لہریں اب بھی اٹھتی ہیں۔ شبنم سبز دھوپ پر اب بھی تھرتھراتی ہے مگر مـیں وہاں نہیں جاتا۔ وہاں مـیرے جسم سے روح الگ کر دی گئی ہے۔ وہاں مـیں لٹ کر آیـا ہوں۔ مجھے کنول راج و نندن سہ دونوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ وہاں صرف سنگدل چٹانیں ہیں۔ مجھے تو ان دو جھیلوں سے عشق تھا جن کا نام ہے مرلن۔ جن کی گہرائیوں مـیں ڈوب ڈوب کر ٹھنڈی نیلی جھیلیں اور مرلن۔
٭٭٭
اے لو۔ اب کہنے کی بات نہیں مگر بن کہے رہا بھی نہیں جاتا۔ لوگ کہتے ہیں ماں مر جائے مگر تائی جیتی ہو تو آدھی فکر دور ہو جاتی ہے۔ مـیرا تو ان باتوں پر ذرا بھی ایمان نہیں رہا۔ اب دیکھو نا یہی تائی آسیب بنی گھر پہ منڈلایـا کرتی تھی۔ قسم لے لو جو مارے ممتا کے کبھی مـیرے سر پر ہاتھ رکھا ہو۔ بالکل رنڈی کے نخرے تھے۔
ہمـیشہ ابا کے کمرے مـیں بیٹھی اونچی اونچی آواز مـیں قہقہے لگائے جاتی اور شطرنج کھیلتے سمئے تو مہروں پر نگاہیں نہ ٹکتیں۔ بس ٹکر ٹکر ابا کا منہ تکتے جاتی۔ ذرا کی ذرا جو ہم ابا کے پاس جا بیٹھتے تو قہر آلودہ نظروں سے دیکھتی پھر بڑے مـیٹھے لہجے مـیں باہر جا کے کھیلنے کا مشورہ دیتی تو مـیرا جی چاہتا گردن مڑوڑ کے رکھ دوں۔
لمبا سا قد ، سوکھے مارے ہاتھ پاؤں ، خضاب کئے ہوئے سیـاہ بال اور ناک کے نیچے لکی جھولوں مـیں سے جھانکتا ہوا برا سا دہانہ ، اماں کی عمر گذر گئی اس کے ناز اٹھاتے۔ ہمـیشہ جٹھانی کا پاس لحاظ کرتی رہیں۔ اس کمبخت نے کبھی مہربان نظر اماں پر نہ ڈالی۔ بڑے پن کے رعب کو اس نے کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیـا۔ یوں ڈانٹ ڈپٹ کے اماں سے کام لیتی جیسے وہ زر خرید لونڈی ہوں اور اماں بھی گائے کی طرح بے زبان ہے۔ ہر وقت کام کاج مـیں جٹی ہلکے ہلکے قدموں سے گھر کا آنگن ماپتی پھرتیں۔ کوئی ماں کی اطلاع کیلئے طعن تشنیع سے کام لیتا تو اماں الٹی ہمدردی جتاتیں۔
اے ہئے بیوگی کے پالے نے تو ساری آرزوئیں ملیـا مـیٹ کر دیں۔ ایک ہمارا گھر رہ گیـا ہے۔ یہاں بھی دل نہ لگائے تو غریب کیـا کرے۔ کیسے غم غلط ہو۔
مگر یہ کہتے وقت امان کی جھکی جھکی آنکھیں اور زرد چہرہ چغلی کھا جاتا۔ اے بہن اتنی نیک نہ بنو کہ لوگ بیوقوف سمجھ کے لوٹ لیں تمہیں۔ خالہ اپنا قیمتی مشورہ پیش کرتیں۔
یہ روز روز کا آنا اور تمہارے مـیاں سے دل بہلانا یونہی نہیں ہے۔ ان کی ان کی ذمہ داری مفت مـیں اپنے سر لیتی ہو۔ ایک دن چیونٹیوں بھرا کباب ہو کے رہ جاؤں گی۔ جان چھڑانا دو بھر ہو جائے گا۔ سمجھ لو ، پڑوسین الگ اماں کی ناعاقبت اندیشی پر دانت پیستیں مگر اماں تھیں کہ کند ذہن بچے کی طرح سارے سبھ بھلا کے بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ لیتیں۔ دو پہر کے سناٹے مـیں محلے ٹولے کی عورتوں کے بیچ سگھڑ بیوی بنی سوئی دھاگا لے کے بیٹھتیں تو باری باری سب عورتیں اماں پر ریمارک پاس کرنا شروع کر دیتیں۔
بھئی تم جانو۔ تمہارے آگے تو بچے ہیں۔ اپان نہ سہی معصوموں کا خیـال کرو۔ ‘‘
عالیہ بانو ڈلی کاٹتے ہوئے نصیحت بھی کرتی جاتیں۔
اے یہ تو بڑی سیدھی ہیں۔ اس اللہ ماری کو دیکھو کہ بیوہ ہوئے چار چار آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور بھرا پُرا گھر ڈھونڈ لیـا موئی نے۔
اکبر جولاہے کی بیوی اماں کو بے قصور ٹھہراتیں۔
اے ہٹو۔ ایسی بچہ بھی نہیں ان باتوں کو سمجھنے کی عقل نہ ہو۔ اللہ رکھے بچے والی ہو گئیں۔ لگاوٹ کی نظر ہم غیر پہچان لیتے ہیں۔ زیبو خالہ کھڑے پائینچوں مـیں گوٹا ٹانکتے ہوئے جھنجلا جاتیں۔
اے دلہن۔ ! آخر تم اپنے مـیان سے بھی کچھ پوچھتی ہو کہ خوبصورت جوان بیوی کے ہوتے۔ اس ادھیڑ چڑیل مـیںلعل ٹکے ہیں کہ مٹے جاتے ہو؟ نورانی بو بہت رازدارانہ انداز مـیں اماں سے سوال کرتیں تو سوئی مـیں۔ دھاگا ڈالتے ہوئے اماں آبدیدہ ہو جاتیں۔ تو یہ ہے۔ اب سوئیوں کے نا کے اس قدر باریک بنتے ہیں کہ دھاگہ ڈالتے ڈالتے آنکھیں بھر آتی ہیں کب سے اس سوئی کو گھورے جا رہی ہوں۔ اور جلدی سے دوسری سوئی لانے کیلئے کمرے سے باہر نکل جاتیں۔
باورچی خانے کو اماں نے گویـا اپنا کمرہ بنا لیـا تھا۔ ہر وقت مصروف رہتیں کبھی ابا کیلئے شامـی کباب بنانے کی ترکیب ماما کو سمجھا رہی ہیں تو کبھی کوٹنے پیسنے مـیں ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ کبھی سمو سے تل رہی ہیں تو کبھی بچوں کیلئے کا اچار پڑ رہا ہے۔ کچھ تو بے ضرورت کی اٹھا دھری مـیں لگی ہیں۔
اماں ! آپ کہئے تو آپ کا پلنگ بھی یہاں اٹھا لاؤں۔ بھیـا بیزار ہو جاتے مگر اماں روتے ہوئے چہرے کے ساتھ مسکراکر رہ جاتیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو طعن و تشنیع پروف بنا لیـا تھا۔ آپ چاہے جس قدر نمک مرچ لگا کے اس مسئلہ کے چھپے ہوئے پہلو اجاگر کیجئے مگر کیـا مجال ہے کہ اماں ہاں مـیں ہاں ملانے بیٹھ جائیں۔
ساسیں اپنی نئی نویلی بہووں سے پہلی بات اماں کا قصہ سنا کر کرتیں۔ اللہی کو بیوی دئے تو کنویں والی باجی کی طرح۔ شوہر نے آنکھوں کے سامنے جٹھانی سے عشق جتایـا اور وہ کلموئی تو جیسے ان کی جان پر ادھار کھانے بیٹھی ہے۔ دکھا دکھا کے مـیٹھی بولیـاں بولتی ہے دیور سے مـیاں کو کھا گئی پر جی نہ بھر ا۔ اب بھر گھر مـیں چنگاری ڈالنے آئی ہے۔ مگر گھر والی نے خود زبان ہلائی نہ گھر مـیں لڑائی جھگڑا کھڑا کیـا۔ نہ رو رو کے پاس پڑوس کو اپنی کتھا سنائی۔ ہیرا تو ہیرا ہی ہوتا ہے چاہے گھوڑے پر پڑا ہو ، چاہے راجہ کے تاج مـیں جڑا ہو۔ قیمت کم نہیں ہوتی۔
مائیں سسرال جانے والی بیٹیوں سے بچھڑتے ہوئے کنویں والی باجی کا واقعہ سنا کر عبرت دلایـا کرتیں۔ شوہری بات پہ جھنجلا جاتے بیویوں کو جھاڑ پلاتے۔
گھر آنے مـیں ذرا دیر ہوئی تو مـیرے سر ہو گئیں۔ ذرا کنویں والی باجی کو دیکھو سامنے بیٹھی سارے کرتوت دیکھ رہی ہیں مگر اف نہیں کرتیں۔ کیـا قسمت والا شوہر ہے۔
ساری دنیـا اماں کے گن گایـا کرتی مگر اماں ان ساری باتوں سے بے نیـاز اپنی دنیـا مـیں گم رہتیں۔
کبھی رات کو آنکھ کھل جاتی تو مـیں چپکی پڑی انہیں دیکھا کرتی۔ کبھی اماں کی دبی دبی سسکیـاں سنائی دیتیں مگر مـیرے پکارنے پر صاف آواز مـیں جواب ملتا۔
شاید مـیرے ہی کان بجتے ہیں کبھی اماں ہتھیلی پر تھوڑی رکھے لحاف اوڑھے بیٹھی ہوتیں۔
آپ سوئیں نہیں اب تک ؟ بھیـا پڑھتے پڑھتے پانی پینے برآمدے مـیں آئے تو اماں کو بیٹھا دیکھ کے پوچھتے
مـیں تو سو گئی تھی مگر وجو کو شاید کھٹمل ستا رہے ہیں۔ بار بار چونک پڑتی ہے۔ اسی لئے اٹھ بیٹھی۔ اماں کی ساس پھول جاتی جیسے بہت دور سے چل کر آئی ہوں۔
ہائے۔ یہ اماں کو کیـا ہو گیـا ہے۔ مـیرے پلنگ مـیں تو کھٹمل وٹمل خاک نہیں۔ مـیں تو کب سے پڑی دیکھ رہی ہوں۔
پہلی بار ایک نامعلوم خوف نے مـیرے دل مـیں سر اٹھایـا۔
وہ ساری باتیں جن کو معمولی سمجھ کے نظر انداز کر جاتی تھی۔ اپنی پوری اہمـیت کے سامنے آ گئی تھیں۔ اب شاید مجھ مـیں چھپی ہوئی باتوں کو سمجھنے کا شعور آ گیـا تھا۔ تب ہی تو مـیں گھر بھر کی ذرا ذرا سی حرکتوں پر گہری نظر رکھنے لگی تھی۔
جائیداد کے سارے جھگڑے تایـا حی کے مرتے ہی تائی نے ابا کے سپرد کر دیئے تھے اور ابا یہ مقدمے کورٹ مـیں اس طرح لڑتے جیسے یہ ان کی اپنی جائیداد کے جھگڑے ہیں۔
ان دنوں رات رات بھر آرام کرسی پر پڑے سگریٹ پر سگریٹ پھونکا کرتے۔ دن دن بھر عدالتوں مـیں بحث کرنا اور رات کو بیٹھ کے تائی کو رپورٹ سنانا ان کا خاص مشغلہ تھا۔ وہ جب بھی آتی ابا کے پاس بیٹھی باتیں کیـا کرتی۔ اور اس طرح مقدموں کی بات چیت کے سہارے وہ ابا کی زندگی مـیں آہستہ آہستہ یوں داخل ہو رہی تھی جیسے زہر چپکے چپکے جسم مـیں سرایت کر جاتا ہے۔
اماں چولھے کی آگ بار بار کرید لیتیں۔ چولھے مـیں خواہ مخواہ پھونکیں مارتیں اور اپنے سوجے ہوئے پپوٹوں کو ہتھیلی سے مل جل کے انگاروں کو گھورتیں۔ شاید وہ یہ سوچتیں کہ ان کی اپنی ذات بھی ان انگاروں کے سچ جل رہی ہے۔ جب وہ بے مقصد انگاروں کو گھورے جاتیں تو تائی باتیں کرتے کرتے ابا کے قریب کھسک آتی اور کھچڑی بالوں پر اس طرح ہاتھ پھیرنے لگتی جیسے وہ کوئی تھکا ماندہ بچہ ہو جو زندگی کا چڑھاؤ چڑھتے چڑھتے تھک گیـا ہو۔
مگر اماں چپ چاپ یہ چڑھائی چڑھ رہی رہی تھیں۔ نہ آنکھوں مـیں آنسو نہ منہ مـیں زبان جیسے کافوری گڑیـا لٹانے پر آنکھیں موند لیتی ہے اور بٹھانے پر کھول دیتی ہے مگر اماں خود سے چل پھر بھی لیتی تھیں۔ ا پنے نہ تھکنے والے ہاتھوں سے گھر بھر کا کام بھی کرتی تھیں۔
ان کی آنکھوں مـیں چمک نہیں تھی۔ ان مـیں عجیب سے اداسی تھی جیسے خزاں کی ویران شام مـیں ہوتی ہے۔
تائی نے گھر کے نوکروں کو اپنا قاصد بنا رکھا تھا اور ان ہی کے ہاتھوں ابا تک اپنے محبت نامے پہونچایـا کرتی تھی جب کبھی نوکر تائی سے ناراض ہو جاتے تو وہ سارے خطوط اماں کو بھی دکھا دیتے۔ ان چٹھیوں کو وہ یوں سرسری نظروں سے دیکھتیں جیسے وہی ناول کا باب ہو۔ ان مـیں سے بہت سے خط اماں نے اس طرح پھینک دیئے تھے جس طرح کوئی دال موٹھ باندھا ہوا بیکار کاغذ پھینک دیتا ہے۔
ہائے۔ اماں تو بس صرف کاتو راہیں اللہ جانے کیـا ہو گیـا ہے کہ زبان نہیں کھولتیں۔ مجھے تو بڑا ارمان تھا کہی دن اماں کمر کے آنگن مـیں گھڑی ہو جائیں پھر خوب سلواتیں سناتیں اس تائی کی بچی کو۔ اور ابا کو بھی نوٹس دے دیں کہ آئندہ مداری کا تماشہ قطعی بند۔
مگر لاحول ولا قوۃ۔ اماں کا تو سمندر کی طرح وسیع و گہرا دل تھا۔
مجھے یـاد ہے ایک دن مرغیوں کے ڈبے کے قریب پھنکے گئے بڑے بڑے کاغذوں کو سنبھال کے رضو باجی کے ہاں لے گئی تھی کہ خوب بڑی بڑی کشتیـاں بنا دو جس مـیں چھوٹی سی گڑیـا بھٹا کے ٹب مـیں چھوڑ سکوں۔ اور جب ان تڑے مڑے کاغذوں کو کھولا که تا جانی پہچانی تحریر تھی۔ تائی موئے موئے بدصورت حروف بناتی تھی اور یہ حروف کاغذ پر یوں بکھرے پڑے تھے جیسے گھورے پر گندگی و کوڑا پڑا ہو۔
اس زمانہ مـیں مجھ کو لکھنا پڑھنا آ گیـا تھا۔ اور ہر تحریروں کو پڑھنے کی عادی تھی جیسے اس کو نہ پڑھنے سے جاہل گئی جاؤنگی۔
مـیں نے اور رضو باجی نے ان کو پڑھا تو رضو باجی ناک پر انگلی رکھ کے بیٹھ گئیں اور مـیرا نا تجربہ کار دماغ الجھ کے رہ گیـا۔ مـیں نے وہ سارے کاغذ کھلونوں کے ڈبے مـیں رکھ دیئے تھے۔ آج وہ کاغذ کھلونے کے ڈبے سے نکل کے مـیری الماری مـیں پہونچ گئے ہیں۔ جن باتوں کو کل تک ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکتی تھی۔ آج وہ باتیں حل کئے ہوئے معمے کی طرح سامنے رکھی ہیں۔ ہزاروں حرکتیں جن کو مـیں نے کبھی قابلِ توجہ نہ سمجھا تھا۔ اب اپنے پورے معنوں کے ساتھ آگے آئی ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جن باتوں کو ہم اپنے بچپن مـیں سنتے ہیں ، جن چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ ان کی گہرائی مـیں کبھی نہیں جھانکتے اور برسوں گذر جانے کے بعد وہ باتیں لاشعوری سے نکل کر نظروں کے سدامنے اپنے پورے مفہوم کا لباس پہن کے آتی ہیں۔
اس زمانے مـیں مـیں سوچتی کاش اماں رضو باجی کی طرح خوب ، پڑھی لکھی ہوتیں اور ڈھیر ساری تنخواہ کمایـا کرتیں۔ پھرانہیں تتلی کی طرح مٹھی مـیں داب کے مارتا۔ پھر اماں بھی گائے کی بجائے انسان ہوتیں۔ ہر قسم کے احساسات کے اظہار کا طریقہ آتا۔
اب تو انہوں نے اپنا جی مار دیـا تھا۔ گھریلو عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں صبر و ضبط کا ڈھنڈورا پیٹتی پھرتی ہیں مگر کوئی یہ تھوڑی ہی جانتا ہے کہ یہ مجبوری کی دوسری شکل ہے۔ خوشی ، غم ، غصہ و گرمـی کے سارے احساسات قانع زدہ تھے۔ کبھی کبھی اماں پر بیحد غصہ آتا۔ جانے کیسے اس بیہودہ سی زندگی سے سمجھوتا کئے بیٹھی ہیں۔ مـیں اماں کی جہالت پر کئی بار چھپ کے روئی تھی۔
اماں کے مـیکے مـیں کوئی نہ رہ گیـا تھا جو ان ساری کٹھن منزلوں مـیں اماں کو ڈھارس دیتا۔ یـا اماں کی سرپرستی کر کے ان کے حق کیلئے لڑائی مول لیتا حالات اتنے نازک ہیں۔ یہ مـیں نے کبھی نہ سوچا تھا۔
برسات کی اندھیری رات تھی۔ مـینہ کی موٹی موٹی بوندیں کنکریوں کی طرح باورچی خانے کی ٹین پر سے جا رہی تھیں اور اماں بجلی کے کوندے کے ساتھ لپک کر کلیجہ پکڑ لیتیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کے تکیہ کیبھگو رہے تھے بھیـا سرہانے بیٹھے تھے۔ مـیں بار بار کھڑکی تک جا کے لوٹ آتی۔ بجلی چھک سے لمحہ بھر کو برآمدے مـیں روشنی پھینکتی تو اماں چونک کے دروازے کی طرف دیکھنے لگتیں جیسے انہیںی کا انتظار تھا۔
’’اماں۔ مـیں ابھی آیـا۔ جواب سنے بغیر بھیـا برساتی کیلئے جھپاک سے باہر نکل گئے۔
ارے روک لیـا ہوتا وجو۔ اتنی اندھیری رات مـیں بارش مـیں بھیگنے کہاں چلا گیـا۔ اماں تڑپ کے بولیں۔ درد کی ٹیپس سینے مـیں جلدی جلدی اٹھنے لگیں۔ دور گھنٹے بعد بھیـا بھیگی چڑیـا بنے برآمدے مـیں آئے تو دوا کی شیشی کے ساتھ ابا بھی تھے۔ وہ پریشان گھبرائے سے آگے پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گئے بالکل اس بچے کی جو اپنی کلاس مـیں مسلسل غیر حاضر رہا ہو اور جسےی نے پکڑ کے اچانک مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیـا ہو۔ عین مـین وہی حال۔ ابا کا تھا۔ رات بھر وہ اماں کے پاس بیٹھے رہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اماں کو سویدا ہونے تک دو خوراک دوا پلائی مگر ہر بار اماں کو قئے ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے انجکشن لگا دیـا تھا اور ہم سب امتحان مـیں خراب پرچے کرنے والوں کی طرح مایوسی کی آغوش مـیں بڑے تھے۔
وجو ! اماں آہستہ سے بڑبڑائیں۔ تم لوگ مجھے ٹھنڈی راکھ سمجھے بیٹھے ہو مگر مـیں اپنے سینے مـیں دھکتی ہوئی چنگاریـاں چھپائے ہوئے جیتی رہی۔ ہاتھ پیر کٹے ہوں تو انسان دوسرے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ بیتا۔ عمر بھر طعنے سن کے چپکی رہ جانے والی اماں مجھ پر ڈال کے ابا کو طعنہ دے رہی تھیں۔ خیر مجھے معاف کیجئے۔ اماں کے تھرتھراتے ہونٹوں سے نکلا۔
ابا کچھ کہنے کو آگے جھکے مگر اب وہاں کوئی ایک لفظ سننے کو تیـار نہ تھا مـیں اور بھیـا اماں کے سینے سے لگے سسک رہے تھے اور ابا بے جان بت تھے اماں کو تکے جا رہے تھے۔
مـیں آج سوچتی ہوں کہ اس گندے معاشرے کو بدلنے کیلئے اماں نے کتنی خاموش جدوجہد کی تھی جس کو ہم برف کا تودا کہا کرتے تھے اس کے اندر کتنی گرم و تند لہریں دوڑا کرتی تھیں۔
’’پورے سماجی ڈھانچے کو بدلنے کیلئے سچ سچ عورتوں کو معاشی اعتبار سے قومـی ہونے کی ضرورت ہے بھیـا۔ اب بھی کبھی کبھی مـیں اماں کو یـاد کر کے بھیـا سے بحث کرنے مـیں ان کو باتیں دوسرے انداز مـیں دہراتی ہوں۔ اماں تو چراغ کی لو تھیں جو ہماری زندگی مـیں روشنی بکھیرنے کیلئے سدا آندھیوں سے لڑتی رہیں۔
سڑے گلے نظام کی تشبیہ کے طور پر مجھے تائی کا گھناؤنا چہرہ یـاد آ جاتا۔
اماں کے بعد تائی آسیب کی طرح گھر پر منڈلایـا کرتی مگر چراغ کی وہ لو زندگی کی اونچی اونچی راہوں مـیں اپنے پیچھے دور تک روشنی کی لکیر چھوڑ گئی تھی۔ ا بی آسیب کیلئے تاریکی کہاں ہے ؟
٭٭٭
جب کبھی مـیں سنجیدگی سے اپنے گھر کے بارے مـیں سوچتی ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے مـیرا گھر سیکولر ہندوستان کی نمائندگی کرنے والا واحد گھر ہے جہاں ہر قوم ، ہر نسل و ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے بستے ہیں جہاں مختلف زبانیں بولی وسمجھی جاتی ہیں۔ جہاں مذہب ، زبان و قلم کی آزادی ہر انسان کو حاصل ہے۔
ہر کمرہ اپنی الگ تہذیب ، کلچر ، روایـات کا آئینہ دار ہے۔ ہی نہیں بلکہ مختلف لباس ، رسم و رواج و رہن سہن کے مختلف طور طریقے رائج ہیں۔ ہر قوم کو اپنی خود مختاری قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس گھر کی جھلکیـاں نری دلچسپ ہیں۔
پرانے شہر مـیں دیوڑھی نما آٹھ کمروں ، درون عمل اور دو آنگن والا مکان ہمارا آبائی مکان ہے۔ جس کو شاہی خاندان سے خرید لیـا تھا۔
مـیرے والدین کا کمرہ قدیم طرزِ معاشرت کا نمونہ ہے۔ تخت پر فرش و گاؤ تکیہ کا استعمال ، تکیہ سے قریب پاندان ، تخت سے نیچے مراد آبادی بڑا سا اگالدان ، قدیم چھپر کھٹ پر مچھر دانی اور قدیم طرز وضع کا بستر ،سرہانہ جس قدر چوڑا ہے۔ اتنے لمبے تکیے ہیں۔ بیٹھنے کیلئے بڑی بڑی لمبی آرام کرسیـاں جس پر نیم دراز ہونے کے ساتھ ساتھ پیر لمبے کر کے آرام لینے کیلئے لکڑی کی پٹیـاں بھی لگی ہیں۔ الماریوں کے شیشوں سے قانون کی کتابیں سلیقے سے سجی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کی دیواروں پر تین انچ موٹے فریم مـیں قریبی رشتہ داروں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ نکھری ستھری شائستہو لہجہ والی اردو زبان بولی وسمجھی جاتی ہے۔ بزرگوں کا ادب ، آواز دبا کے آہستہ بات کرنا ، وقت کی پابندی اور بندھے ٹکے اصولوں پر عمل آوری پہلا درس ہے۔ کر دار کی عظمت تمام دنیـاوی بلندیوں سے بھی بلند مانی جاتی ہے۔
مہمان نوازی ، حوصلہ افزائی اور سخاوت تہذیب وشائستگی کی علامت ہے صبح ہر کام چھوڑ کے قدم بوسی کیلئے حاضر ہونا اور کھانے کے وقت سب کا اکٹھا ہونا لازمـی ہے۔ تبادلۂ خیـال کا یہی موقع ملتا ہے۔
اس کمرے سے آگے بڑھئے تو ایک اور کمرہ ہے۔ دو الگ اصولوں دو الگ مسلک اور دو الگ طبیعتوں کا ملاپ رعب داب۔ تحکمانہ لہجہ ، اونچا قد ، سرخ وسفید ، رنگ اپنی نسل اور فرقہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
دکن کا سانولاپن۔ احتیـاط ، دکھنی بولی ، درون گذر کرنے اور ہر سانچے مـیں ڈھل جانے والی فطرت ، جلد غصہ کرنے اور جلد بہل جانے والی طبیعت ہی ایک کمرہ مـیں دو مختلف الخیـال گروہ کے نمائندے مـیاں بیوی کے روپ مـیں مل جائیں گے۔ ایک بنک آفیسر اور ایک افسانہ نگار ایک وقت کا پابند ، پیسہ کمانے اور زندگی کی دوڑ مـیں آگے بڑھنے کی جدوجہد مـیں مصروف۔
در مـیری قدرتی نظاروں مـیں کھوئی رہنے والی نفسیـات واحساسات کی بھول بھلیوں مـیں گم ، زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے ، صحیح نفسیـاتی تجزیہ پیش کرنے کی دھن مـیں مگن۔
گھر کے سارے افراد کی خوشی ، ضروریـات ، پسند وناپسند کا خیـال رکھنے اور ان کے ساتھ مناسب برتاؤ کرنے والی حساس عورت ، رہن سہن بھی ترقی پسند ہے۔ ڈبل بڈ کے سرہانے درون پٹیل لیمپ سائیڈ ٹیبل ، کتابیں ہی کتابیں ، شلف پر لکھنے کی مـیز پر ، اخبار ورسائل ایک مـیں رکھے ہوئے۔ دو الماریـاں ، قدیم و جدید لباس اپنی آغوش مـیں لئے کھڑی ہیں۔ یعنی یہ کمرہ مـیرا ہے۔
سیڑھیـاں اتر کے نیچے آئیں تو بڑی بیٹی کا کمرہ ہے۔ اس گھر مـیں یہ تیسری نسل ہے۔ اس کے کمرے کی ہر چیز ماڈرن ہے۔ نئی تہذیب و نئے تمدن کی دلدادہ غالب کی غزل انگریزی دھن مـیں گنگنانے والی۔ روایـات ، پرانی سوچ اور قدیم طرزِ زندگی سے باغی ،نئے کلچر کی داغ بیل ڈالنے مـیں آگے آگے پرانے راستوں سے ہٹ کے نئی راہ بنانے والی۔ یہ لڑکی نظام کالج مـیں پڑھتی ہے۔ انگلش لٹریچر سے ایم۔ اے کر رہی ہے۔ کبھی انتہائی نرم مزاج انکسار و خلوص کا پیکر ، کبھی اجنبی لا پرواہ و بے تعلق خدا کی قدرت سے زیـادہ اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھنے والی اس کی سوچ سارے گھر سے الگ اور دماغ من مانی کرنے کا عادی ہے۔
رہن سہن بھی نئی تہذیب کو اجاگر کرتا ہے۔
بستر پر ، مـیز پر اور قالین پر کتابیں رات دیر گئے تک پڑی رہتی ہیں دونوں مـیاں بیوی پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کا شوہر بھی فلاسفی سے پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ اپنے پیـارے پروفیسر کا نام بھی وہ انتہائی عزت و عقیدت کے ساتھ لیتا ہے۔
ان دونوں کے دوست بھی جدوجہد ترقی پسند و نئی روشنی کے دیوانے ہیں۔ بعض دوست تو ایسے ہیں جو ان دونوں سے زیـادہ ان دونوں کی زندگی مـیں دلچسپی لیتے ہیں۔ ہر آڑے وقت دوڑ کے آتے اور مشورہ دیتے ہیں بعض کمر ، باندھ کے کارزار حیـات مـیں ان دونوں کے ساتھ ساتھ دوڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے ہیں اور سگریٹ پر سگریٹ پھونک کے ہر پہلو پر غور کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ مجھ سے مسکرا کے پوچھتی ہے۔ آپ نے ایسے دوست کبھی دیکھے ہیں۔ ایک آپ لوگوں کے وقت کے دوست تھے کہ ہر شاعر نے انہیں ’’خنجر بکف ‘‘ لکھا ہے۔
دوستوں ہی نے زخم بخشے ہیں۔ جیسا مصرعہ ان کی زبان پر آتا ہے۔
کتنا ڈفرنس ہے آپ کے دوستوں اور ہمارے دوستوں مـیں
مـیں بے اعتباری سے اس کی طرف دیکھتی ہوں۔ نئی نسل مـیں خلوص و محبت کی کمـی پر اب بھی مـیرا خیـال بدلا نہیں ہے۔ زندگی اس قدر تیز گام ہے کہ لوگوں کو خلوصِ دل سے مسکرانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مگر مـیں اس کے دوستوں کے خالص خلوص کو بھی سراہتی ہوں۔
اشٹرے مـیں ادھ جلے سگریٹوں کے انبار اور چائے کی پیـالیوں کے ڈھیر کو دیکھتی ہوں۔ مـیرا داماد بھی بیٹی کی تائید مـیں مسکراتا ہے۔ یہ لڑکا جو نہ صرف نئی نسل کے رہن سہن ، احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ رجعت پسند روایتی زندگی سے بغاوت اور بعض نام نہاد ترقی پسندوں کی سڑی گلی ذہنیت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔
رات دن بحث مباحثہ ، علمـی و ادبی محفلیں سجانا ، دوستوں کے برے وقت کام آنا اور اپنی ہر خوشی مـیں دوستوں کو شریک کرنا اس کیلئے ناگزیر ہے۔ دوستوں کے ساتھ آدھی آدھی رات تک باہر رہنا اور گھر آ کے بیوی کا غصہ سہہ لینا اسے آتا ہے۔
دوسرا کرمہ جو اس کمرے کے بعد آتا ہے۔ چھوٹی بیٹی کاہے ،اس نے بی ای کیـا ہے۔ الکٹریکل انجینئرنگ کرتے ہوئے اس نے ہمـیشہ امتیـازی کامـیابیـاں حاصل کی ہیں۔ کمرہ بہت ہی نفاست و دلکشی سے سجا ہوا ہے۔ سادگی مـیں بھی پُرکاری ہے۔ ہر چیز کی جگہ مقرر ہے اور کوئیی چیز کو ہٹا نہیں سکتا سوائے قدرتی ہوا اور زلزلے کے !
کوئی چیز بے جگہ پڑی نظر نہیں آتی۔ اس دور مـیں سانس لیتے ہوئے بھی پرانی قدروں کی دلدادہ ، قدیم تہذیب و تمدن ، فنونِ لطیفہ و آثار قدیمہ کی قدر دان، انگریزی زبان مـیں شاعری وافسانہ نگاری کرتی ہے۔
خاموشی وسکون کو پسند کرنے والی۔ تلگو اور ملیـالی زبان کے گیت ان کے اصلی ٹیون مـیں گاتی ہے۔ مصوری وموسیقی سے بے حد دلچسپی ہے۔ صبح و شام اسٹوڈنٹس گھیرے رہتے ہیں لڑکے و لڑکیـاں پڑھنے آتی ہیں۔ اور پڑھتے پڑھتے اک دور وہ آ جاتا ہے کہ وہ چھوٹی بہنیں و بھائی بن جاتے ہیں اور اپنی بہت سی پریشانیـاں ومسائل اس کے آگے رکھ کے رائے لیتے ہیں۔ وہ بڑے سوچ بچار کے بعد انہیں ان مسائل کا حل سمجھاتی ہے۔ سمجھاتے ہوئے وہ بھول جاتی ہے کہ کتنے مسائل اس کی زندگی کے ایسے پڑے ہیں جن کا کوئی حل اس کی سمجھ مـیں نہیں آتا۔ پھر بھی اس کو خدائے برتر پر یقین ہے کہ وہی نا مساعد حالات مـیں اس کا ساتھ دے گا۔ ہر نئی چیز کو ہر نئے خیـال کو وہ محض یہ سمجھ کر قبول نہیں کرتی کہ وہ نیـا ہے یـا اس پر جدیدیت کی چھاپ ہے۔ وہ گہرائی مـیں اتر کر ہر چیز کی ، ہر جذبہ کی اور ہر احساس و ہر اصول کی اچھائی و برائی ضرور ٹٹولتی ہے۔
ان کمروں کے سامنے والا کمرہ جوان کمروں سے بڑا ہے۔ چاروں بیٹیوں کا مشترکہ کمرہ ہے۔ اس کمرہ مـیں مـیری وہ بیٹیـاں رہتی ہیں جن کو مـیں نے صرف جنم نہیں دیـا ورنہ ننھی منی جانوں کو پال پوس کے پروان چڑھایـا ہے۔ جن کی ہر قدم پر نگرانی و رہبری کی ہے۔ یہ مـیرے شوہر کی پہلی بیوی کی لڑکیـاں ہیں۔
بڑی لڑکی پر اپنی خالہ کی طرح مذہبی رنگ غالب ہے۔ مذہبی کتابوں کا مطالعہ اس کی عادت مـیں شامل ہے۔ اس کی شادی بھی ایسے ہی کٹر مذہبی گھرانہ مـیں طئے ہوئی ہے۔ گفتگو مـیں اصطلاحات استعمال کرنے کا شوق ہے۔ اس نے بی ایس سی کیـا ہے۔
اس سے چھوٹی فلمـیں دیکھنے کی حد درجہ شوقین ہے۔ اس نے مـیٹرک کے بعد پڑھنا چھوڑ دیـا۔ وہ خلوص و محبت گھر بھر مـیں باٹتی پھرتی ہے۔ سب اس کو چاہتے ہیں اور وہ سب کو بے اندازہ پیـار دیتی ہے۔ ہر نیـا لباس بہنوں کو پہنا کے خوش ہونا ، ان کے چھوٹے موٹے کام انجام دینا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اچھے لباس و زیورات کا اس کو جنون کی حد تک شوق ہے کام کاج مـیں سلیقہ مندی ، پہننے اوڑھنے مـیں وہ ماہرانہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔
اس سے چھوٹی دو جڑواں یـا قوام بہنیں ہیں۔ جب مـیری گود مـیں انہیں دیـا گیـا تھا تو وہ آٹھ ماہ کی تھیں۔ اب ماشاء اللہ چودہ پندرہ سال کی ہیں۔ دونوں ہم شکل ، ایک جیسا رنگ روپ و قد و قامت ، بے انتہا ہنسوڑ لطیفے گڑھنے والی ، بعض اوقات وہ مقابل کو لا جواب بھی کر دیتی ہیں۔ یوں تو سب پڑھی لکھی ہیں مگر یہ دونوں اب تک پڑھ رہی ہیں۔ بات مـیں بات نکالنا اور رونے والے کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سارے گھر کیلئے وہ اس شہہ رگ کی طرح ہیں جو جسم بھر کو خون پہونچاتی ہے۔ دونوں اردو اور ہندی سے بھی برابر کی دلچسپی لیتی ہیں۔
مـیں اس سارے گھر کو گھوم پھر کر دیکھتی ہوں۔ اس مـیں تین نسلیں اپنے الگ الگ روایتی دور کے ساتھ رہتی بستی ہیں۔ مـیرا یہ گھر جو سارے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کیلئے کافی ہے۔ جہاں مختلف فطرتوں ، مختلف طبیعتوں اور مختلف خیـالات کے حامـی رہتے بستے ہیں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے قربانیـاں دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پیـار کرتے ہیں اپنے الگ الگ اصولوں اور الگ الگ تہذیب و تمدن الگ الگ زبانوں کے ساتھ ، الگ پسند وناپسند کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بھلائی کے متعلق سوچتے ہیں۔ اس یکجہتی کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ ایک دوسرے کے متعلق کوئی زہر نہیں گھول سکتا۔ ایک دوسرے کے درمـیان کوئی دراڑ نہیں ہے۔ کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہ سب ایک گھر کے لوگ ہیں۔
٭٭٭
مـینہہ کی موٹی موٹی بوندیں کھڑکی کے شیشوں پر ٹپاٹپ گر رہی تھیں۔ اودی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر برس رہی تھیں۔ ورانڈے سے دوڑ کر وہ اندر گئی۔ ساری کھڑکیوں کے پٹ بند کر کے جب وہ دوبارہ ورانڈے مـیں آئی تو آدھی بھیگ چکی تھی۔ نیم اور جامن کے پیڑ تیز ہوا مـیں جھوم رہے تھے۔ پکی جامنیں نیچے آنگن مـیں ڈھیر ہو رہی تھیں۔ بچے ہوتے تو آنگن مـیں خوشی سے بھری چیخوں اور قہقہوں سے ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ اس نے سوچا۔ ورانڈے کے ستون کے اطراف باہیں ڈال دیں اور کوئی پرانا گیت گنگنانے لگی۔ یہ پرانے گیت بھی کتنے پیـارے ہوتے ہیں۔ خوبصورت دھنیں اور جادو کی طرح اثر کرنے والے بول جیسے دل کو چھو لیتے ہیں۔
نمولیـاں اور جامنیں آنگن کی ریت پر بچھ گئی تھیں۔ ہوا مـیں تازگی اور خنکی تھی۔ تپتے ہوئے دنوں اور امس بھر راتوں کے بعد اس کو برسات کے پھوار بڑی اچھی لگتی۔ ہر سال برسات اودی گھٹاؤں اور ٹھنڈی پھواروں کے ساتھ آ جاتی ہے مگر پھر بھی اس کو برسات کا شدید انتظار رہتا۔
وہ گرم چائے کی پیـالی لئے باہر منڈیر پر جا بیٹھی اور ایک زمانہ تک ذہن مـیں پروان چڑھنے والی کہانی کاغذ پر اتر آتی۔
اسکول اور کالج ابھی کچھ دن بند رہیں گے۔ بچے پہاڑ سے واپس آ جائیں تو پھر وہی گہما گہمـی و چہل پہل ہو جائے گی۔ وہ کچن مـیں جلدی جلدی روٹی بنانے ، ناشتہ دینے ، اور ٹفن تیـار کرنے مـیں مصروف ہو جائے گی۔ لڑکیـاں تیـار ہوکے چوٹیـاں گندھوانے کیلئے اس کے پاس آ کھڑی ہوںاور وہ جلدی سے نل پر ہاتھ دھو کے ان کے بالوں سے الجھ جائے گی۔
اس نے دیکھا ، سامنے کیـاری مـیں زرد ڈیزیز کے ہزاروں پھول مسکرا رہتے تھے۔ دور تک پھیلے ہوئے گلابی، اودے اور سفید وربینا کے ننھے ننھے پھولوں کی شاخیں موٹی موٹی بوندوں کے وزن سے تھرا رہی تھیں۔ پرسوعں کی ژالہ باری سے کٹے پھٹے انجیر کے پتے اور کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے پر اس کی نگاہ رک گئی۔ بیگم صاحب چائے پی لیجئے۔ کام کرنے والی لڑکی ٹرے لئے کھڑی تھی۔
شاہ خاں ڈرائنگ روم مـیں بیٹھے مسز قریشی سے باتیں کر رہے تھے۔ اس نے ورانڈے سے جھانک کر نیچے دیکھا ،دروازے حسب معمول بند تھے۔ کمبخت ، بڑی بد ذوق ہے اور اس کی عمر کا تقاضہ بھی تو یہی ہے۔ مسز قریشی کے مصنوعی سفید دانت یـاد کر کے اس کو ہنسی آ گئی رنگے ہوئے سیـاہ بال جن کی چوٹی کمر تک آتی ہے۔ شاید انہوں نےی ہوئی ہالر مـیں ڈائی کرائے تھے۔ چہرے پر جھریـاں تھیں۔ بلڈ پریشر اکثر بڑھ کر دو سو تک جا پہونچا۔
بارہ کرسیوں والے لمبے ڈائننگ ٹیبل پر پھول دار مـیز پوش پڑا رہتا۔ شاید وہ دونوں گرم چائے کی چسکیـاں لے رہے ہوں۔ یـا شاید جائیداد سے متعلق باتیں کر رہے ہوں یـا پھر مسز قریشی اپنے بچوں کے بارے مـیں خان کو بتا دی ہوںکہ طرح ان کے چھ کے چھ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے۔ اب انہوں نے سویڈن مـیں ، نیروبی اور کینڈا ہن رہائش اختیـار کر لی ہے۔
مـیں اپنی تنہائی سے پریشان ہو گئی تھی۔ تم آ گئے ہو تو مـیری کوٹھی اور مـیری زندگی ، دونوں مـیں رونق آ گئی۔ اب بچے آتے بھی ہیں تو پیسہ بٹور کے چلے جاتے ہیں۔ ان کو ہندوستان مـیں رہنا پسند نہیں ہے۔ مـیری جائیداد کا اتنا روپیہ ملتا ہے کہ مـیں کھلے ہاتھ سے خرچ کر تی بھی ہوں تو بتک مـیں جمع کروانا پڑتا ہے۔ اس طرح مـیںی کی محتاج نہیں ہوں۔
یـا شاید وہ دونوں ایک دوسرے کو شدید چاہت آنکھوں مـیں لئے گھورے جا رہے ہیں۔ شاید شاہ خان دل ہی دل مـیں اس سے کہہ رہا ہو۔ اے ساٹھ سالہ دوشیزہ تم اپنے سیـاہ بال مـیرے کندھوں پر اسی طرح بکھیرتی رہو۔ اپنے مصنوعی دانتوں کی چمک سے مـیری آنکھیں خیرہ کر دون۔ اپنی جائیداد کے تذکرے صبح و شام کرو۔ تاکہ مـیں تمہارے پہلو مـیں بیٹھ کے دوسری جوان عورتوں کو گھور سکوں ، جس کا بنک بیلنس زیـادہ ہوتا ہے اس کے گھور پر عورتوں کو اعتراض نہیں ہوتا۔
بھی اب تم اپنا گھر بسا لو۔ یوں کب تک پریشان گھومتے رہو گے۔ ابھی جوان ہو گورے چٹے مضبوط انسان ہو ، اب مرنے والی نے اپنی نشانیـاں چار لڑکیوں کی شکل مـیں چھوڑی ہیں تو کیـا ہوا کیـا مرنے والے کے ساتھ کوئی مر جاتا ہے۔ جینے کیلئے بہانہ تو ڈھونڈتا ہی پڑتا ہے۔ آخر بنک آفیسر ہو، کل ترقی ہا کے اونچے ہو جاؤ گے۔ اس کے ایک پرانے دوست عظمت نے اس کی اہمـیت بڑھا چڑھا کے بیـان کی۔
یـار۔ ہم کونسی کنواری لڑکی چاہتے ہیں۔ بس کوئی بیوہ ہو چکی اپنی جائیداد ہو۔ اگر اس کا بڑا پکا مکان ہو تو سمجھو وہیں ڈیرہ ڈال دیں گے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہو پیسے والی۔ اس نے ایک آنکھ دبا کے اپنے دوست کو دیکھا۔
پیسہ والی۔ پیسہ والی۔ عظمت نے آہستہ آہستہ دہرایـا پھر یـاد کرنے کے انداز مـین ماتھے سے ہتھیلی ٹکا کے بیٹھ گیـا۔
لا اپنا ہاتھ۔ اس نے زور سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مارا
اور بے چینی سے کھڑا ہو گیـا۔
جوان بیوہ بھی ہے اور جائیداد والی بھی ہے۔ مگر اس کی دو ننھی منی لڑکیـاں ہیں۔ مگر کیـا ؟ وہ ایسی انداز مـیں پوچھنے لگا مـیری بھی تو سب لڑکیـاں ہی ہیں۔ اس کی یتیم لڑکیوں کیلئے مجھے تو کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔ جب وہ صاحب جائیداد تھے تو مجھے کیـا فکر۔
پڑھی لکھی۔ سمجھدار عورت ہے مگر اس کو ایک بیماری بھی ہے۔ کہانیـاں لکھنے کی اچھا۔ ہوا کرے۔ مجھے کیـا فرق پڑے گا۔ مـیں تو فلک سے گھر آؤں تو مجھے سرچھپانے کیلئے ایک شلٹر کی ضرورت ہو گی۔ مکان ہو گا تو مـیں بچوں کے ساتھ ایک جگہ وہ سکون گا۔ شاہ خان عظمت کو سمجھانے گلا۔
تمہیں کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں۔ بس تمہاری تھوڑی سی چاہت اور محبت اس کو تمہاری ہر ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دے گی۔ تم خود ماہر کھلاڑی ہو یـار۔ تمہیں زیـادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ جتنے فنکار ہوتے ہیں نا بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ انہیں تم ذرا سی محبت دے کر بڑی سے بڑی ذمہ داری سونپ دو ، وہ آسانی سے ہنس کر اٹھا لیں گے۔ سمجھے ؟ وہ اپنی دانست مـیں قیمتی مشورہ دے چکا تھا۔
پھر وہ دونوں رات گئے تک اپنے اپنے پلنگ پر لیئے مستقبل کے خاکے بناتے رہے۔
یہ سب واقعات و تجویز مـیں شادی کے بعد خان نے اس کو بتا دی تھیں۔ وہ ہنس کے ٹال گئی۔
اس نے نہ صرف شاہ خان و بچوں کی ذمہ داریـاں قبول کر لی تھیں۔ بلکہ شاہ خان کو ہر فکر سے آزاد کر دیـا تھا۔ مگر شاہ خانی پر بھی زیـادہ عرصہ تک بھروسہ کرنے والا آدمـی نہیں تھا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ مکان اس کی بیوی کا نہیں بلکہ اس کی لڑکیوں کے نام ہے تو اس کو اس گھر اور اس گھر کے تمام افراد سے عجیب سی بے زاری و بے تعلقی محسوس ہوئی حالانکہ وہ نہ صرف بچوں کی دیکھ بھال اچھی طرح کرتی تھی بلکہ شاہ خان کا ذرا ذرا سا کام بھی اپنے ہاتھوں سے کرنے کی عادی تھی۔
وہ اس خدمت و محنت کو غیر اہم سمجھتا اور چانوی حیثیت دیتا تھا۔
اس کی تلاش جاری تھی۔ کوئی ایسی عورت مل جائے جو دولت مند ہو۔ جس کی اپنی بڑی جائیداد ہو۔ اور وہ یکایک دولت مند نواب بن جائے۔ پھر شاہ خان اس سے دور ہوتا گیـا۔ وہ بنک مـیں آنے والی اور اپنے اکاونٹ مـیں پیسہ رکھوانے کیلئے اس سے مشورہ لینے والی عورتوں سے ایک بہت ہی سنجیدہ وبا اخلاق آفیسر کی حیثیت سے بات کرنا۔ ان کے ذاتی معاملات و نجی حالات کے متعلق اور جائیداد کے بارے مـیں بھی معلومات حاصل کرتا رہتا اور جب اسےی دولت مند بیوہ یـا مطلقہ عورت سے ملنے ،۔ ان کا پیسہ جمع کرنے اور قیمتی مشورہ دینے کا موقعہ ہاتھ آتا تو وہی شام ان کے بتائے ہوئے پتہ پر ان کے گھر پہونچ جاتا۔ اس کے یوں آنے پر عورتیں مرعوب ہو جاتیں۔ شام کی جائے بہت پر تکلف ہو جاتی۔ وہ بظاہر بہت بے تعلق اور محض ایک ہمدرد دوست کی حیثیت سے واپس آ جاتا۔
آپ پھر خود تشریف لائیے۔ ا سے ایک موقع اور ہاتھ آتا۔ پھر جیسے موقعہ ایسی کڑیـاں بن جاتے ہیں جن کی زنجیر بہت دور تک پہونچتی۔
آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر وہ گھر والوں اور خصوصاً اس عورت کے دل مـیں اپنا ایک گھر ضرور بنا لیتا تاکہ اس عورت کا گھر حاصل کرنے مـیں مدد مل سکے۔ اس طرح دوستی مضبوط ہوتی جاتی۔
ان تمام باتوں کا علم اس کی بیوی کو بہت کم ہوتا۔ وہ بہت احتیـاط سے کام لیتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کےی جملے یـا حرکت سے اس ڈرامے کا انجام خراب نکلے۔ وہ بہت ہی مہذب و با کردار آفیسر بنا رہتا۔ لوگ اس سے مل کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔
گورا چٹا ،۔ اونچے قد و قامت و مردانہ وجاہت کا نمونہ ، سیـاہ شیروانی یـا چاکلیٹی رنگ کے سوٹ مـیں ملبوس ، سنہری فریم والی عینک لگاتا تو کندن کی طرح چمکتے چہرے پر عجیب سا حسن پیدا ہو جاتا۔ اتنی عمر مـیں بھی جب کہ اس کے ریٹائر ہونے مـیں پانچ چھ سال باقی تھے وہ بڑا مقناطیسی چہرہ لئے گھومتا۔
ایک عرصہ تک بیوگی کی پھیکی اور بے رنگ زندگی گذارنے والی عورتوں مـیں وہ بے حد مقبول تھا ان عورتوں کے سامنے وہ اپنے بے ماں کے بچوں کا تذکرہ کر کے انہیں ہمدرد و غمخوار بنا لیتا۔ پھر رفتہ رفتہ ان سے قریب ہونے لگتا۔
ستون سے چمٹی وہ اپنے ماضی کی ایک ایک بات کو یـاد کر رہی تھی۔
وہ کونسی گھڑی تھی جب وہ شاہ خان سے اپنے مستقبل کی ایک ایک ادھوری تمنا وابستہ کئے اس کے ہاتھ مـیں ہاتھ دیئے اس کے بچوں کا مستقبل بنانے مـیں ساتھی اور سانجھی بن گئی تھی۔ ان ہاتھوں سے اس نے آٹھ آٹھ ماہ کی توام لڑکیوں کی پرورش کی تھی۔ اپنے گھر ، اپنے فرنیچر اور اپنے سے متعلق ساری چیزوں مـیں حصہ دار بنایـا تھا۔ چار سال اور دس سال کی جو لڑکیـاں تھیں وہ اب کالج و ہائی اسکول مـیں پڑھتی تھیں۔
ہر زخم مرہم رکھنے کی کوشش مـیں اس کے اپنے دل مـیں سینکڑوں گھاؤ پڑ گئے تھے۔ دوسروں کی ذمہ داریـاں سنبھالنے کی دھن مـیں وہ اپنی ذمہ داریـاں پہس پشت ڈال چکی تھی۔ شوہر اور بچوں کا دکھ درد سمـیٹنے مـیں اسے اپنا وجود یـاد نہ رہا تھا۔
شاہ خان اپنے مقصد کے پیچھے بھاگتا رہا۔ اور آج پھر ایک قدیم فوجداری کے وکیل صاحب کی دولت مند بیوہ کے چکر مـیں پھنس کے رہ گیـا ہے۔ ایسے واقعات بار بار دہرائے گئے تھے اور اب شاہ خان ایک ماہر شکاری تھا۔ اس کو دولت مند عورتوں سے درستی بڑھانے اور پھر آہستہ آہستہ انہیں قابو مـیں کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ جو موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا وہ بیوقوف ہے۔ وہ اکثر دوستوں کی محفل مـیں کیـا کرتا۔
وہ کہانیـاں لکھتی تھی۔ مختلف کر داروں کی نفسیـات سے واقف جب وہ اپنےی کر دار کا نفسیـاتی تجزیہ کرتی تو لوگ اسے تعریفی خطوط لکھتے۔ اسے انسانی نفسیـات کا ماہر بتاتے مگر وہ اپنی زندگی کے ایک اہم کر دار کی نفسیـات کے بارے مـیں حیران رہ جاتی۔ اس نے بڑی محنت سے اس کا نفسیـاتی تجزیہ کیـا تھا۔
وہ ایک غریب گھرانے سے آیـا تھا۔ اپنی انتھک محنت و جد و جہد سے وہ بنک آفیسر بنا تھا۔ اور اب وہ اپنے ساتھ والے آفیسرز مـیں ایک اونچے معیـار کی زندگی چاہتا تھا۔ خواہی قسمت پر ملے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ فوجداری کے ایک سینئر وکیل کی بیوہ سے چاہت کا کھیل ، کھیل رہا تھا۔ یہ عورت جس کے تین لڑکے و تین لڑکیوں کی شادی ہوئے زمانہ گذر گیـا تھا اب تو اس کے نواسے بھی جوان تھے۔
یہ عورت جوی کی نانی ہے۔ی کی دادی ہے۔ اچانک اس مـیںی کو چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ جاگ پڑا ہے۔ وہ بری طرح شاہ خان کے ہوش وحواس پر چھاتی چلی جا رہی ہے۔ ایک اودھی گھٹا بن کر ، جس سے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی۔
اب بارش تھم چکی تھی۔ بس ہلکی پھوار بغیری آواز کے گھر رہی تھی۔ نیم اور جامن کہے پیڑوں سے قطرے تیزی سے گر رہے تھے۔
وہ دبے قدموں سے درون انڈے کی چھت پر اتر آئی۔ ڈائننگ روم کے دروازے تو بند تھے ہی۔ وینٹی لیٹرز بھی بند تھے مگر ذرا انگلی سے ڈھکیلنے پر ایک بڑی دراز پیدا ہو گئی تھی۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل کی کرسیوں پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ شاہ خان مسز قریشی کو چمچے سے مـیٹھا کھلا رہے تھے۔ اچانک مسز قریشی نے شاہ خان سے سوال کیـا۔ آخر آپ نے اپنی بیوی کے بارے مـیں کیـا سوچاہے۔ ؟
خان نے بائیں ہاتھ کی انگلی کو دائیں ہاتھ کی انگلی سے کاٹ کر غالباً چھوڑ دینے کا اشارہ کیـا۔ مسز قریشی نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر شاہ خان کو مسکرا کر ترچھی نظروں سے دیکھا اور شاہ خان اس کے مـیٹھے ہونٹوں پر جھک گئے۔
دھڑ دھڑ۔ دھڑ۔ جیسے اس کا دل حرکت کرتے کرتے بند ہو جائے گا۔ شاہ خان کی ان حرکتوں کے بارے مـیں اس نے صرف سنا تھا مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنا کتنا جان لیوا ہے۔
کان کی لو مـیں گرم ہو گئی تھیں۔ کنپٹیـاں جیسے تڑخ رہی تھیں۔ اس کیفیت کا وہ کوئی صحیح نام نہ دے سکی۔ اس کی توساری زندگی تپتے ہوئے صحرا کی طرح گذری۔ ایسے ہی حالات مـیں ایسی ہی غیر محفوظ۔ تیز آندھی مـیں رکھے کے ننھے دیئے کی کانپتی لو کی طرح۔
مٹی کے کچے گھروندے کی طرح جو تیز بارش مـیں بہہ جاتا ہے۔ وہ کب تک اس گھروندے کو اپنے آنچل سے ڈھکتی رہے گی۔
ننھے منے بچوں کو اس کے ہاتھوں نے پال پوس کے بڑا کیـا ہے۔ بچے اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کو ماں کہہ کے پکارتے ہیں مگر۔
اے مـیرے بچو! جس کشتی مـیں ہم سب سوار ہیں اس کے پتوار ایک ظالم ملاح کے ہاتھوں مـیں ہیں۔ کچھ پتہ نہیں پار لگائے گا یـا کنارے سے قریب لا کے غرق کر دے گا۔ وہ ایک غیر ذمہ دار انسان ہے۔ اس کے پہلو مـیں تحفظ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ خود اپنے لئے ایک محفوظ پہلو ڈھونڈ رہا ہے۔ جہاں پہونچ کر اس کو دولت مندی ، مضبوطی و اونچائی کا احساس ہو۔
کیـا ایسا سوچنا کر دار کی انتہائی پستی نہیں ہے۔
آج اس طرح بارش مـیں بھیگتے بھیگتے اور اس کی شخصیت کا تجزیہ کرتے کرتے اسے یـاد آیـا کہ بھائی مـیاں نے بتایـا تھا کہ جس طرح آدم خور شیر کو انسان کے خون کی چاٹ لگ جتی ہے اسی طرح شاہ خان کو بیوہ عورت کے پیسے کی چاٹ لگ گئی ہے آسانی یہ ہے کہ وہ خوش شکل واسمارٹ ہے اور ایک نیک آفیسر ہے۔ یہ دولت مند عورتوں سے قریب ہونے کا بڑا اچھا ذریعہ ہے۔ اور پھری کو کوئی شبہ بھی نہیں ہوتا تمہیں معلوم ہے۔ مـیں اسے بیوہ خور کہہ کے پکارتا ہوں۔ انہوں نے قہقہہ لگایـا تھا۔ افوہ۔ قدر خطرناک نام ہے۔
اس خنک ہوا مـیں بھی اس کے ماتھے پر پسینے کی بوند مـیں ابھر آئی تھیں اور آنکھوں سے جھر جھر برسات ہو رہی تھی جو اس کے سینے مـیں شعلے بھڑکا رہی تھی
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات مـیں برسے
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیـا
دور سے بیگم اختر کی آواز آ رہی تھی۔
٭٭٭
مـیں بالکنی مـیں کھڑی سڑک کے کنارے اس درخت کو دیکھ رہی ہوں جس کے نیچے کئی راہگیر بارش سے بچنے کیلئے جمع ہو گئے تھے۔ ان تک صرف خنک ہوا کے جھونکے ہی پہونچ پائے اور سکڑے سکڑائے جسم شاید یہ سوچ کر خوش ہو جاتے کہ بارش سے بھیگنے اور سرد ہواؤں کے تیز جھونکوں سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ پیڑ قدر ضروری و اہم ہے۔
اس نے پلٹ کے ورانڈے مـیں بیٹھی اماں کی طرف دیکھا۔ مہربان شفیق مسکراہٹ ہونٹوں پہ لئے رہ منے چما کے لڑکے کو پڑھا رہی نہیں۔ اسٹو پر جائے کی کیتلی رکھی تھی اور ان کے ہاتھوں مـیں نوازش بھائی کا ادھورا سوئیٹر تھا جسے وہ بغیر آرام لئے جلدی جلدی بن رہی تھیں۔
نیچے سیڑھیوں سے ہٹ کے ابن مـیاں اور عالیہ بانو کا کمرہ تھا۔ اور بڑے بھیـا چھوٹے بھیـا اور نسیم بھیـا کے قہقہے ستونوں والے دالان سے سنائی دے رہے تھے۔ اور اماں کے چہرے پر ان قہقہوں کو سننے سے ایسی تازگی اور مسکراہٹ آ جاتی جیسے ان کی جوانی پھر لوٹ آئی ہو ، مگر بیچاری اماں نے تو مشکل ہی سے زندگی کے کچھ دن اچھے گذارے ہوں گے۔ ابا مـیاں دکن گئے۔ وہیں کے ہو رہے ، جب بھی انہوں نے اماں کو دکن بلایـا اور آنے کیلئے منی آرڈر بھیجا تو یہ بار اماں ہم سب کو سینے سے لگا کے پیـار سے بڑبڑائیں۔ ’’کیسے چلی جاؤں ان کمبخت ماروں کو چھوڑ کے۔ بڑی مشکل سے ان بے ماں باپ کے بچوں کو پرورش کیـا ہے۔ اب کے بھروسے چھوڑ دوں۔ اور پھر وہ سارے ہیں اماں بچوں کی ضروریـات پر خرچ کر ڈالتیں۔
اماں کو کوئی اماں کہتا ، کوئی ننھی دلہن اور کوئی جگور والی باجی کیلئے پکارتا ، دیہات کی بڑی بوڑھیـاں انہیں ننھی دلہن کہتیں ، ادھیڑ عمر کی عورتیں اور مرد جگور والی باجی کہتے اور دیہات کے سارے بچوں کیلئے وہ اماں تھیں۔ اماں کے نام کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ایک مہربان ، پر خلوص اور پر شفقت ہستی کا تصور آ جاتا۔
ہاشم مـیاں اپنی برف کی طرح سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر پھیر کے ان کی شادی کے حالات سنایـا کرتے۔ وہ تھیں بھی ایسی ہی جب بیـاہ کے سسرال آئیں تو آنچل مـیں بہت سے گڈگے ،گردیـاں بھی مـیکے سے ساتھ لے آئیں۔ انہوں نے ابھی ابھی تو اپنی لاڈلی گڑیوں کا بیـاہ رچانا، اور ڈھولک پر سکھی سہیلیوں کے ساتھ لہک لہک کے گانا اور رسم و رواج کی پابندی کرنا سیکھا ہی تھا کہ ان کا بیـاہ رچا دیـا گیـا۔ اور ننھی سی سگھڑ اور مہربان دلہن پا کے سسرال والے نہال ان کے دھان پان جسم مـیں بہت بڑا دل دھڑکتا رہتا۔ سب کے دکھ درد پہ کراہتا ہوا یہ دل ان کے سخی و لمبے ہاتھوں کا ساتھ نہ دے پانا۔
اللہ رکھے ان ننھی منی جانوں کو پیسہ تو بہت مل جائے گا۔ وہ اکثر دیہات کے مفلس اور یتیم بچوں کی مدد کرتے ہوئے دعا مانگا کریں۔
ابا مـیاں کو بڑا ارمان تھا کہ بس ایک ہونہار بچے کے باپ بن جائیں۔ اے جی سنتی ہو ؟ جانے وہ دن کب آئے گا جب مـیں باہر سے آؤں گا تو مـیاں صاحبزادے فوراً دوڑے ہوئے آئیں گے اور مـیری ٹانگوں سے لپٹ جائیں گے کبھی مـیری اچکن اٹھائے لئے آ رہے ہیں تو کبھی مـیرے جوتے اپنی کمزور گرفت مـیں پکڑے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھنا شہر کے سب سے اچھے اسکول مـیں پڑھاؤں گا صاحبزادے کو آہا ہا ، وہ خوش ہو کر یوں قہقہہ لگاتے کہ اماں سسپٹا کے نگاہیں چرانے لگتیں۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بہار کی پہلی کونپل ان کی کوکھ سے پھوٹی۔ دیکھتے دیکھتے ننھی دلہن ، ننھی ماں بھی بن گئیں۔ اب ابا مـیاں دن رات گھر مـیں پڑے رہتے۔ نیـاز نذر مـیں۔ مرادوں ، منتوں مـیں پیسہ پانی کی طرح بہایـا گیـا۔
اب دونوں کو اس دن کا انتظار تھا جب سرخ وسفید چہرے والا گول مٹول بچہ بیـاں چلے گا۔ پھری کرسی یـا دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہو گا۔ پھر چلنے لگا۔ پھر ابا مـیاں کی اچکن لے آئے گا۔ ان کے جوتے لئے گرتا پڑتا پنگ کے نیچے رکھ آئے گا۔
وہ اپنے بچے کے متعلق سوچتے سوچتے آپ ہی مسکرانے لگتے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے شہر کے سب سے اچھے اسکول کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔
وہ اپنے بچے کو یوں گود مـیں اٹھائے جیسے وہ کانچ کا بنا ہوا حسین گڈا سے ابا مـیاں کے حد بزرگ انہیں منجھلے مـیاں کہتے مگر دیہات کے سب بچے ابا مـیاں کی رٹ لگائے رہتے جب بچہ رینگنے لگا اور فرش پر پڑی ساری ضروری و غیر ضروری چیزوں کی اُٹھا دھری۔ توڑ پھوڑ اور ہر چیز پر توجہ دینے کی ذمہ داری اس کی چھوٹی سی ذات پر آ پڑی تو ننھی دلہن اور منجھلے مـیاں ہر حرکت پر قربان ہو جاتے۔ اب سارے دیہات مـیں ننھی دلہن کا طوطی بولتا تھا۔ یوں بھی ان کی مہربانی ، سخاوت اور آڑے وقت کام آنے والی عادتوں سے سب ہی متاثر تھے۔
ان کے ارمانوں پر اچانک خزاں چھا گئی۔ خوشیوں کے پھول مرجھا گئے۔ اچھا خاصہ ہنستا کھیلتا بچہ ہمـیشہ کیلئے چپ ہو گیـا۔
پھر ننھی دلہن اولاد کیلئے ترستی رہیں۔ مگر کوکھ تو ہمـیشہ کیلئے اجڑ گئی تھی پھر اس سے کوئی کونپل نہ پھوٹ سکی۔
منجھلے مـیاں ایسے دل شکستہ ہوئے کہ اپنے بڑے بھائی کے پاس دکن چلے گئے اور وکالت شروع کی۔
ادھر دیہات مـیں ہیضہ کی وباء نے گھر کے گھر ویران کر ڈالے۔ اگلے وقتوں مـیں یہی تو ہوتا تھا کہ جب کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑتا تو دیہات کے دیہات اجڑ جاتے جگور مـیں جس تیزی سے وباء پھیلی اسی تیزی سے دیہات ویران ہو گئے ایسے وقت ننھی دلہن نے لا وارث بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈھ کے اپنی حویلی مـیں بسانا شروع کیـا۔ وہ یوں پریشان وہراساں تھیں جیسے ان کی اولاد موت کے منہ پر کھڑی ہے۔
جب بھی منجھلے مـیاں چھٹیوں مـیں آتے تو لکھنو کی کوٹھی مـیں قیـام کرتے اور ننھی دلہن کو اپنے ساتھ لے جانے پر ضد کرتے مگر ان چھوٹی چھوٹی یتیم جانوں کو چھوڑ کے ننھی دلہن کہاں جاتیں۔ ان سب کا بار تو ان ہی کندھوں پر تھا۔
اب دیہات مـیںی صورت منجھلے مـیاں کا دل نہ لگتا۔ انہیں یہاں کی ہوا بھی بری لگتی اور فضا بھی۔
ننھی دلہن تو سانپ کے منہ کی چھچھوندر تھیں نہ اگلے بنے نہ نگلتے۔ جب رات کو سب بچے اکٹھے ہوتے تو وہ پلنگ پر لپٹی ہوئی کہانیـاں سنایـا کرتیں۔ ان کی ہر ضرورت پوری کرتیں۔ انہیں پڑھاتیں لکھاتیں تیـار کر کے اسکول بھیجتیں۔ انہیں سلیقہ مند اور سوگھڑ بنانے مـیں وقت کا بڑا حصہ صرف کرتیں۔ ا نہیں ادب لحاظ سکھانے ، تمـیز دار اور محنتی بنانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیـار کرتیں۔ ان مصروفیـات کیلئے انہیں بعض وقت سارا دن بھی ناکافی محسوس ہوتا۔ لڑکیوں کو وہ سینا پرونا کاٹ بیونت و پکوان بھی سکھاتیں۔ اماں انہیں دنیـا مـیں ایک مکمل انسان کی طرح جینا سکھاتی رہیں ان کے دکھ درد مـیں جاگتی رہیں ان کی خدمت کرتیں ان کی خدمت کرتیں ، کھیت کٹنے اور ان کے باغات کی فصلیں فروخت ہوتیں تو ننھی دلہن بہت خوش ہوتیں۔ پھر مہینوں بچوں کے کام کاج چھٹی نہ ملتی۔ اس طرح انہوں نے اپنی ساری جائیداد سے وصول ہونے والا پیسہ ان بچوں کی پڑھائی لکھائی و پرورش پر صرف کر دیـا۔
مـیں نے پلٹ کے پھر امان کی طرف دیکھا ان کے چہرے پر بے شمار جھریـاں پڑ گئی ہیں وہ پہلے سے زیـادہ کمزور ہو گئی ہیں۔ ان کے ہاتھوں مـیں ہلکا سا رعشہ پیدا ہو گیـا ہے۔ مگر ان کے سوچنے سمجھنے کی قوت کہیں زیـادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ جوان و ادھیڑ عمر کے لوگ جو اس حویلی مـیں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں وہ اماں کی آغوش کے پالے ہوئے ہیں ان کے کپکپاتے ہاتھ یقیناً کمزور ہیں مگر ان کی صحت مند فکر و نظر نے انہیں عظیم بنا دیـا ہے۔ ہائے اماں تم راستے کے اس پیڑ کی طرح ہو جو یونہی سربلند کئے ہیں پھیلائے ہر انسان کی خدمت کرتا ہے۔ اس کو اپنی وسیع آغوش مـیں پناہ دیتا ہے۔ طوفان ، آندھی وجھلسا دینے والے بگولوں سے بچاتا ہے اور حالات کا ہر ستم اپنی ذات پر سہہ لیتا ہے اگر ہماری زندگی کی راہ مـیں تم جیسا طاقت ور و گھنا پیڑ نہ آتا تو ہم کہاں جاتے ؟
٭٭٭
رگھو کھانا کھانے کے بعد چلم کے کش لینے لگا۔ شانی برتن سمـیٹ کر نالہ پر دھونے چلی گئی۔ کھیتوں کے بیچ سے عجیب سونچھی ٹھنڈک نکل رہی تھی۔ دھان کی بالیـاں سنہری ہو رہی تھیں۔ دھان خوشبو دار تھے یہ دھان وہ وینکٹ ریڈی زمـیندار سے مانگ کے لایـا تھا کتنا ارمان تھا اسے خوشبو دار دھان اگانے کا کھیتوں کے اطراف سورج مکھی کی باڑھ بھی اس کی حسن پرستی ظاہر کرتی۔
رگھو سب سے الگ تھلگ نظر آتا۔ صورت شکل مـیں ، لباس، بات چیت ، پسند ناپسند سب الگ تھی۔ ان سب کے درمـیان رہتے ہوئے کبھی اس کا اپنا رنگ الگ پہچانا جاتا تھا۔ اس کے کھیتوں کے اطراف پھول دار موسمـی پودے ضرور لگے ہوتے۔ جب بھی شہر جاتا پھولدار پودوں کی نام گیلے کپڑے مـیں لپٹ کے ساتھ لاتا۔ ان پھولوں کا نام اس کو یـاد نہ رہتا مگر الگ ، پھولوں کی بناوٹ پتیوں کی قسم ، اسے اچھی طرح یـاد رہتی۔
اس چھوٹے سے دیہات مـیں ، اس کی بیوی سب عورتوں سے زیـادہ اچھی شکل و صورت کی تھی۔ ملی ہوئی گہری بھنویں ، سیدھی پگڈنڈی کی طرح بازوں کے درمـیان چلی گئی۔ لمبی مانگ اور ٹھڈی کا کالا تل۔ے ہوئے بدن پر ہری ساری باندھ کر ، پلو کمر مـیں اڑس کر لمبے لمبے قدم رکھتی کھیتوں کو جانے والے راستے پر چلتی تو دور سے دیکھ کر یوں لگتا جیسے مندر کی سیـاہ چمکدار پتھر والی مورتی مـیں جان پڑ گئی۔ پتلی کمر پر چاندی کا کمر پٹہ وہ ضرور لگاتی۔ مسلسل محنت نے اس کا بدن بڑی خوبصورتی سے تراشا تھا۔ یہ کمر پٹہ واحد گہنا تھا جو اسے مـیکے سے ملا تھا۔ جب بھی دونوں مـیاں بیوی مندر جاتے وہ اشارے سے شانی کو بتاتا کہ یوں لگتا ہے جیسے یہ تیری ہی مورتی ہے۔
اتنا گہنا کہاں ہے مـیرے بدن پر۔ صرف دھاگے سے بنی ڈوری مـیں پشتہ پڑا ہے۔
یہ دیکھ ، وہ پشتے کی ڈوری ، چولی سے کھینچ کے نکالتی یہ دیکھ اتا سا سونا ، رگھو کا جی چاہتا موتی کے گلے سے سارے گہنے نکال کر شانی کو پہنا دے یوں بھی عورتیں گہنے پاتوں سے بہت خوش ہوتی ہیں نا؟ جیسے مورتی پتھر کی بنی ہوئی ہے ویسے ہی اس کے گہنے بھی پتھر ہی مـیں کھود کی بنائے گئے ہیں۔
یہ گاؤں بھی کتنا چھوٹا سا ہے۔ پرگی سے پندرہ سولہ مـیل دور غریبی ، ناداری وافلاس کی گہری چھاپ ہے اس گاؤں کے ذرے ذرے پر ، بچی ریڈی اور وینکٹ ریڈی یہاں پکی حویلیوں مـیں رہتے ہیں۔ ان کے قلعہ نما گھروں کو دیکھ کے آنکھیں حیران رہ جاتی ہیں۔
خصوصاً وینکٹ ریڈی کا عالیشان قلعہ۔ اس گاؤں مـیں جہاں جھونپڑیـاں ہیں کچے گھر ہیں ، مٹی سے بنے گھر جن کی چھتوں پر کویلو کی طرح شاہ آبادی پتھر جائے جاتے ہیں۔ بعض دو منزلہ گھر بھی مٹی سے بنے ہوئے ہیں اور چھتوں پر شاہ آبادی پتھر۔ وینکٹ ریڈی اور بچی ریڈی بڑی عزت والے زمـیندار ہیں۔ ان کے گھرانے مـیں خوشبودار چاول اور اصلی گھی روزہ استعمال ہوتا ہے۔ گاؤں پتھر کے قریب آدمـی آج بھی ان کے کھیتوں مـیں کام کرنے کیلئے مجبور ہیں۔
وینکٹ ریڈی نوجوان زمـیندار ہے۔ اس کے دیوان خانے مـیں شیر کی کھالیں اور ہرن دوبارہ سنگھا کی سینگین دیواروں کی زینت ہیں۔ ریچھ کی لمبے سیـاہ بالوں والی کھال درمـیانی مـیز کے نیچے بچھائی گئی ہے۔ اس قلعہ نما حویلی کی چھت سے پورے گاؤں کا نظارہ کیـا جا سکتا ہے۔ اس حویلی مـیں چور دروازے اور تہہ خانے بھی ہیں۔ وینکٹ ریڈی کو شکار کا شوق ہے۔ دیواروں پر جانوروں کی کھالیں اور سجی ہوئی بندوقیں اس کے شوق کا اظہار کرتی ہیں۔
چھت پر کروٹن کے گملے سلیقے سے رکھے ہیں۔ حویلی کی بنیـاد کے ساتھ ساتھ گودام ہیں جہاں زمـینات سے آیـا ہوا اناج رکھا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگلے وقتوں مـیں اس حویلی کو بنانے والے مستری شہر سے آئے تھے۔ ہاں مٹی ڈھونے و پتھر اٹھانے والے مزدور اسی گاؤں کے تھے۔ افلاس و غریبی کے مارے ہوئے جنہیں دیکھ کے رحم آتا ہے ، پھٹے ہوئے مـیلے کپڑے گھر مـیں تھوڑے سے مٹی کے برتن ، موٹی دھوتیـاں ، موٹی ساریـاں جن مـیں کئی کئی پیوند پڑے ہیں۔ دھجی دھجی کپڑے جنہیں پہن کر جانے یہ کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ پہنا ہے کہیں سے بدن ڈھک گیـا ہے تو کہیں سے کھل گیـا ہے۔ یہ لوگ پچکے ہوئے پیٹ اور ابھری ہوئی ہڈیـاں بجھ نہیں چھپا سکتے۔ اکثر موٹا چاول لال مرچ کی چٹنی سے کھاتے ہیں۔ دال یـا ساگ کم ہی بنتا ہے۔ دال اور چاول کھانا بھی ایک طرح کا عیش ہے۔
بچی ریڈی نے ایک مسلمان گماشتہ رکھا ہے جو ہر روزہ سود کاپیسہ وصول کرنے کیلئے قریب کے دیہاتوں مـیں گھومتا ہے۔ اس کے سینے پر تین جوان بیٹیـاں لدی ہیں۔ بجی ریڈی ہر آڑے وقت اس کے کام آتا ہے۔ گماشتے نے بھی دنیـا دیکھی ہے۔ وہی قیمت پر زمـیندار کو ناراض نہیں کرتا، اس کے لئے اصلی گھی ، انڈے وسستی مرغیـاں آس پاس کے دیہاتوں سے اکٹھی کر کے لے آتا ہے۔ کہیںی پیر کے مزار پر منتیں پوری کرنے پر کچھ پکتا ہے۔ فاتحہ دینے کیلئے بجی ریڈی کا گماشتہ بلایـا جاتا ہے۔ مرغیـاں ذبح کرنا ہو یـا فاتحہ دینا ہو، وہ نل پر نہا کے صاف کپڑے اور جالی دار ٹوپی اوڑھ کے فوراً حاضر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی گرہستی چلائی۔ بیوی اور تین بیٹیوں کی سرپرستی کی۔ وہ خودی درگاہ کا متولی تھا مگر کم ہی درگاہ مـیں حاضری دیتا۔ ہر وقت نشہ مـیں مدہوش رہنے والے کا وہاں کیـا کام۔ پھر یہ پینے پلانے کی عادت ایسی پختہ ہو گئی تھی کہ اب وہ بغیر پئے رہ بھی نہ سکتا تھا۔ خدا بھلا کرے بچی ریڈی کا اس کے وصول شدہ پیسوں مـیں سے وہ اپنے لئے سستے گڑمبے کی بوتل ضرور خرید لیتا۔ زمـیندار سب جانتے ہوئے بھی اسے کچھ نہ کہتا۔ کام کا آدمـی تھا نہ ہو
ہر وقت اس کے ہاتھ مـیں ایک موٹا سا ڈنڈا ہوتا جس کے آخری سرےر لوہے کی پٹی ٹھنکی ہوتی۔ مشہور تھا کہ اس زمـیندار کے گماشتہ نے کئی سرکش آدمـیوں کے سر کھول دیئے تھے۔
گاؤں کے درمـیان بڑا سا تالاب تھا جس کے اطراف مویشی گھاس چرتے۔ بھینس پانی کے اندر بیٹھی جگالی کرتی رہتیں۔ گاؤں کے بچے اور مویشی چرانے والے گڈریے سامنے مـیدان مـیں کھیلتے رہتے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں مـیں ذمہ داری کا یہ احساس بتاتا ہے کہ وہ کمسنی ہی مـیں اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل بن جاتے ہیں اور ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔
مویشی چرانا، کھیتوں کی مـینڈھیں بنانا ، ماں کے ساتھ گھر کو چونے و لال مٹی سے پوتنا اور پھر گاؤں کے اسکول مـیں پڑھنے جانا ، اپلے جلا کر پانی گرم کرنا ، مویشیوں کو چارہ ڈالنا ، تالاب پر کپڑے دھوتے ہوئے گھانس چرنے والے مویشیوں پر نظر رکھنا ، کتنے کام ہیں ان ذرا ذرا سی جانوں کیلئے اسی طرح گاؤں کے کچے راستوں پر بھاگتے بھاتے وہ جوان ہو جاتے ہیں۔
بدھ کو بازار لگتا ہے جس مـیں ضرورت کی ساری چیزیں بکتی ہیں۔ ش ہر سے دو چار سستے کپڑوں کی دوکانیں بھی آ جاتی ہیں۔ اس بازار مـیں مویشی المونیم کے کم قیمت والے برتن ، صراحیـاں ، گھڑے ، بٹیـاں ، ٹوکرے ، چٹائیـاں ، بوریئے ، آئینے ، پاوڈر ، ہینڈ لوم کی ساڑیـاں ، چہلواری ، موٹی ململ اور بچوں کیلئے ریڈی مـیڈ رنگین کپڑے۔ کم از کم دو فرلانگ تو لگتا ہی ہے بازار ، جس مـیں گوشت ترکاری اور کبھی مچھلی بھی ملتی ہے۔ گوشت صرف بازار کے دن ملتا ہے۔
یہاں ایک پکی دوکان قادر بی کی ہے جس مـیں ہر وقت ٹیپ ریکارڈ بجتا رہتا ہے۔ اس کا شوہر مزدوروں مـیں بھرتی ہو کر باہر چلا گیـا تھا۔ قادر بی نے چھ ایکڑ زمـین خرید لی ہے۔ اور اب دوکان پکی بن گئی ہے۔ اکثر ضرورت کی چیزیں قادر بی کی دوکان پر مل جاتی ہیں۔ اس کے پاس باہر کا کچھ سامان بھی جمع ہو گیـا ہے مگر گاؤں کی عام حالت افلاس زدہ ہے۔ ونوبا بھاوے جی کی پد یـاترا مـیں پچاس ساٹھ ایکڑ زمـین بھو دان تحریک کے تحت دی گئی تھی۔ مگر دی گئی صرف کاغذ پر وہ زمـین اب بھی وینکٹ ریڈی کے قبضے مـیں ہے۔
یوں بھی صرف زمـین سے کیـا ہوتا ہے۔ دانہ چاہئے ، کھاد چاہئے ، کام کرنے والے چاہئے ، ہل چلانے کیلئے بیل چاہئے ، پانی کیلئے چاہئے۔ پھر الٹا زمـیندار کا قرض چڑھتا چلا جاتا ہے ، بہتر طریقہ وہی ہے کہ بڑے زمـینداروں کے کھیتوں اور گھروں مـیں کام کرو اور موٹا جھوٹا کھاؤ ، اور کوئی صورت بہتری کی ہو نہیں سکتی۔
کبھی کبھی شانی کے طعنوں سے تنگ آ کے وہ سوچتا کیوں نہ قادری بی کے گھر والے کی طرح مزدوروں مـیں بھرتی ہو کر باہر چلا جائے۔ مگر یہ باہر کا چکر بھی تو ہزاروں روپئے چاہتا ہے۔ یہ بھی سننے مـیں آ رہا ہے کہ اب کمائی کے لئے باہر جانا بھی بند ہو جائے گا۔ لوگ واپس آ جائیں گے۔ بس بھگوان جس حال مـیں رکھے خوش رہو۔
کیـا بھگوان کی زبردستی ہے ؟ رگھو کے ، اندر کہیں سے ایک چنگاری اڑتی۔ پھر اس کا سارا وجود دہک اٹھتا۔ وہ ایک ایسی بھٹی بن جاتا ہے جس مـیں لوہا، فولاد ، سب کچھ پگھل جاتا ہے۔ وہ آنسو پی جاتا اور مٹھیـاں کے دیوار پر مکے برسانے لگتا۔
وہ دن بدن بدلتا گیـا۔ زمـیندار کے کارندے پکڑ کر لے جاتے۔ مار پیٹ کرتے ، وہاں سے چھوٹ کر وہ اور زیـادہ خطرناک منصوبہ بناتا ، جب شہر جانا وکیلوں سے مل کے گاؤں کے حالات کے بارے مـیں مشورے لیتا۔ وینکٹ ریڈی بھی اس کی آگ سے پگھلتا گیـا۔ اس کا قرض معاف کر کے اس کی زمـین واپس کر دی۔ زمـیندار جانتا تھا کہ مخالفت کرنے والے پر عنایـات کی بارش کر دو تاکہ آگ پھیل نہ سکے۔ رگھو کی کامـیابی نے دوسرے کاشتکاروں کی ہمت بندھائی۔ اب وہاں بہت سےان اپنی زمـین اور کھیت رکھتے ہیں یہ سب رکھو کی لگائی ہوئی آگ ہے۔ اب اس کو آگ سے کھیلنا آ گیـا ہے جب آگ سے کھیلنے کا فن آ جاتا ہے تو زندگی کی ، کٹھنائیـاں ، پریشانیـاں اور تکلیفیں سب حقیر لگتی ہیں۔ اس کا دل و دماغ عام لوگوں سے الگ کام کرتا۔ وہ دنیـا بھر سے بے خبر اپنی گرہستی ، اپنے کھیت اور صرف اپنی زمـین کے بارے ہی مـیں نہیں سوچتا تھا بلکہ سارےانوں کی عام زندگی کے بارے مـیں بھی اس نے خیـالوں ہی خیـالوں مـیں کئی نقشے بنائے تھے۔
پھر وہ نیک بند ہونے کے بعد شام مـیں بنک کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ کے چلم کے کش لیتا تو وہ سارے نقشے اپنے ساتھیوں کو بھی دکھاتا جاتا۔ کچھ سمجھ مـیں آ جاتے اور کچھ لاکھ کوشش پر بھی لوگوں کو وہ سمجھا نہ سکتا اور سامنے سڑک پری نہی کے گذرنے پر سرگوشیـاں بند ہو جاتیں۔
پچھلے سا ل جب سوکھا بڑا تھا تو زمـیندار کے گودام سےی نے آدھا اناج غائب کر دیـا تھا۔ زمـیندار کے کا رندے رگھو کو پکڑ کے لے گئے مگر کب تک حبس بیجا مـیں رکھتے ؟ آخر چھوڑ دیـا۔
رگھو اکیلاان تھا جس نے گاؤں کے اسکول سے ساتویں کلاس پاس کی پھر پرگی جا کے مـیٹرک کیـا۔ اس نے فرسٹ کلاس مارلئے تھے۔
وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا اور اس کا باپ اس کو پڑھانا نہ چاہتا تھا ۔ اتنے فاضل پیسے کے پاس ہیں کہ شہر بھیج کر آگے پڑھا یـا جائے۔
وہ خوب رویـا تھا ، چیخا و چلایـا تھا۔ مگر بغاوت کا جوالا مکھی تب بھی اس کے سینے مـیں سلگ رہا تھا۔ اُس نے گاؤں کی اس چھوٹی سی کنٹین مـیں کام کرنے سے انکار کر دیـا تھا جو اُسکا باپ اور چاچا مل کر چلاتے تھے اور جو دو بڑے جھونپڑوں پر مشتمل تھی۔
اب گاؤں مـیں بنک بھی کھل گیـا تھا اورانوں کا پچھڑا ہوا ، حالات سے مجبور اور پسا ہو ا جتھا بھی بنک سے قرض لے سکتا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ یہاں کا چند افراد پر مشتمل ، اونچے زمـینداروں انکے رشتہ داروں اور دوستوں کا حلقہ جو انسانوں کو مختلف خانوں مـیں بانٹ کر اپنا نام سر فہرست رکھتا تھا اور اپنی ٹانگ ان معاملات مـیں پھنسا کر رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش مـیں مصروف تھا۔
بنک کے منیجر کو اپنے گھر دعوتیں دیکے بلانے ، اس کو مختلف لوگوں کے بارے مـیں غلط باتیں بتانے ، وقت پڑنے پر گواہی نہ دینے اور الٹی سیدھی باتیں بنا کر بہکا نے مـیں یہ مٹھی بھر آدمـی اپنی اور اپنے ساتھوں کی ساری قوت سمـیٹ کراس کام مـیں جٹ گئے تھے۔ مگر رگھو نے مویشی اور دانہ بھی خرید لیـا تھا۔ اپنی زمـین پراس نے دوسرےانوں سے مل کے دھان کی کا شت کی تھی۔ کچھانوں نے رگھو کی ہدایت پر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے کھیتوں مـیں کام کر کے دوستی کی بنیـادوں کو مضبوط بنانے کا وعدہ بھی کیـا تھا۔ پھر ان کی بیویـاں و بچے بھی تھے۔ اس طرح ہمت کر کے رگھو کے آگے ڈھکیلنے پردہ زمـیندار کی نظروں مـیں کھٹکنے لگے تھے۔
دوسرے مسائل بھی تھے اناج کو پہلے جاگیر دار ، زمـیندار ، انکے کا رندوں مـیں اور گاؤں کے بڑے لوگوں مـیں بانٹ دیـا جاتا تھا۔ تھوڑ ابہت اناج جو بنڈیوں پر لاد کر شہر کی منڈ یوں مـیں بیچنا پڑتا تھا۔ وہ انانوں کیلئے پورا نہ پڑتا۔ نہ رکھا ہوا ، نہ فروخت کیـا ہوا۔ پھر توکسیـان کے پاس زمـین ہی نہیں رہ گئی تھی۔ی نہی ضرورت سے یـا کھیتی باڑی کی سہولتیں نہ ملنے پر زمـین کوڑیوں کے دام زمـیندار کے پاس خود بخود چلی جاتی تھی زیـادہ آسانی اس مـیں تھی کہ زمـینداروں کے کھیتوں مـیں مزدوری کر کے پیٹ بھر نے کا سامان کیـا جائے پھر ان کی یہ محنت تو منڈیوں مـیں فروخت ہو جاتی مگر دام گھٹا کے صرف مزدوری زمـیندار ان کو دیتا تھا۔ اس طرح وہ معمولی مزدور تھے۔ اپنے کھیتوں پربھی ان کی حیثیت ایک مزدور کی تھی رگھو نے آہستہ آہستہ اپنے کھیتوں پر اناج اگانا شروع کیـاتوسارے ساتھیوں نے ساتھ دیـا۔
شانی نے ڈھولک اور زمانے سے بیکار پڑے سامان سے گھنگھرو نکال کے لنگیـا و گھومری کو دیئے تھے۔ ناچ گا کے ان سب نے ان کی خوشیوں مـیں برابر کا حصہ لیـا۔
اس افلاس زدہ گاؤں مـیں بنک صرف کچھ سال پہلے کھولا گیـا تھا ورنہ حالات شاید بد سے بتر ہو گئے ہوتے۔
یو بھی عام زندگی غربت ، افلاس اور تنگدستی مـیں گذر رہی تھی۔
رگھو نے بنک کے گاؤں مـیں آتے ہی ساری مردہ زندگیوں مـیں جان ڈالنے کی کوشش کی۔ نہ صرف خود بنک سے قرض لے کے مویشی خریدے بلکہ دوسروں کو بھی جھنجھوڑا خود مـیر کا رواں بن کر سب کا ہاتھ پکڑ پکڑ کے اپنے سا تھ کھینچتا رہا۔
ان کو لے کر چلتا رہا۔ ان کے راستوں مـیں اپنے ارادوں ، اپنی پر عزم باتوں اور منصوبوں کی مشعلیں جلاتا رہا۔ ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ایک کمرہ کے پوسٹ آفس مـیں ، وہ اکثر پوسٹ ماسڑ سے ملنے آتا۔ شہرسے آئی ہوئی اپنی چھٹیـاں ، پرچے اور دوستوں کے خطوط لینے آتا۔
کبھی وہ دیر تک پو سٹ ماسڑ سے باتیں کرتا رہتا۔ وہی ایک پڑھا لکھا دوست تھا اس کا … اس کےان ساتھوں مـیں چوتھی ، پانچویں کلاس تک پڑھے ہوئے کچھ دوست ضرور تھے مگر پچھلی پیڑھی نے تو کچھ بھی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا۔ انھیں زمـینداروں نے ساہوکاروں نے اور چھوٹے موٹے بنیوں نے کو مٹیوں نے خوب لوٹا تھا۔ گاؤں مـیں ان کے تنگ تاریک پکے مکان تھے جن کی چھتوں پر لوہے کی سلاخیں سمـینٹ اور گارے مـیں بٹھائی گئی تھیں تاکہ چور اچّکے چھت کھول کر اندر نہ کو دسکیں۔
باہر دوکانیں تھیں ، اندر گھر بھی تھے اور گو دام بھی … زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں یہاں سے مل جاتی تھیں۔ اُدھار کھاتے بھی چلتے مگر لکھنے والے صرف بیوپاری تھے۔ خرید نے والے تو جاہل تھے۔ بے چارے تو اپنی ذہنیت سے مجبور تھے چھوٹے چھوٹے قرضے اکھٹے کر کے کوئی بڑی چیز ہتھیـا لیتے۔ غریب اور غریب ہو جاتے۔ پیسہ والوں کے یہاں اور پیسہ آ جاتا۔
رگھو نے اپنی زمـین وینکٹ ریڈی سے چھڑائی تواس پر ہل چلا کر، دانہ ڈال کر ، اس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے بھی ہزاروں فکریں تھیں جواس کو دبوچے ہوئے تھی
کچھ دن بعداس نے دیکھا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیـا کی طرف سے ڈھنڈ ورا پیٹا جا رہا ہے کہ وہ گاؤں والے جوکسان ہیں اور جن کا اناج درمـیانی لوگ خرید کراورکسانوں سے کم دام مـیں لے کے و اکٹھا کر کے کارپوریشن کو مقررہ لیوی پر فروخت کرتے ہیں۔ان خود اپنے آپ مـیں ہمت پیدا کریں اور خود کارپوریشن سے راست معاملت کریں تاکہ دھان بہتر ہونے کی صورت مـیں لیوی کے مقر رہ نرخ سے بڑھا کر لیـا جا سکے ورنہ یہ بڑھی ہوئی رقم درمـیانی آدمـی ہضم کر جاتے ہیں۔ پھرانوں سے یہ لوگ الگ اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ اور اس طرحان اپنے آپ سے انصاف نہیں کر پاتا۔ اگران کے پاس پانچ بورے بھی اناج کے ہیں تو وہ راست معاملت کر سکتا ہے ‘‘ رگھو دوڑا دوڑا پوسٹ ماسڑ کے پاس گیـا وہاں سے فوڈ کارپوریشن کو چھٹی پوسٹ کی اور گھر چلا گیـا۔ بہت دیر تک وہ شانی سے باتیں کرتا رہا۔ آج کتنی مدت بعد اس نے شانی سے اتنی باتیں کی تھیں … پھر بنک مـیں آ کے کلرک سے باتیں کرتا رہا وہیں دیوار پر اس نے اشتہار لگا دیکھا۔ وہی باتیں لکھی تھیں جنکا ڈھنڈورا پیٹا گیـا تھا … یہ اشتہار بھی فوڈ کارپوریشن آف انڈیـا کی طرف سے تھا۔ اس کی فصل کٹی توساتھیوں کے اناج کی بات بھی چھڑی اور دھان کے بورے دو بیل والی بڑی بنڈیوں مـیں لاد کے سب شہر چلے۔ رات بھر سڑک کے کنارے قطار کی صورت مـیں بنڈیوں چلتی رہیں۔
صبح دفتر کے بڑے احاطے مـیں وہ سب بیلوں کو کھول کر باہر لے جا رہے تھے۔
سارے کام ان کی امـیدسے بہتر ہوئے تھے اور اس پہلی کامـیابی پران کے دل خوشی سے جھوم رہے تھے۔ ورنہ ہوتا یہ تھا کہ گاؤں کے ’’دادا‘‘ قسم کے لوگ اپنی ہمدردی جتا کےانوں سے ان کا اناج لے کے اکٹھا کر لیتے اور دونوں طرف سے پیسہ بٹورتےان کو فائدہ کم ہی پہونچتا۔ یہ درمـیانی آدمـی مقررہ لیوی سے گھٹا کے رقمانوں کو دیتے جبکہ کارپوریشن کبھی مقررہ لیوی سے کم قیمت ادانہ کرتا بلکہ دھان کی بہتر قسم پر مقررہ لیوی سے زیـادہ قیمت ادا کرنے کا طریقہ رائج تھا ۔
اکثر یہ درمـیانی آدمـی ملر بھی ہوتا اور وہ دھان سے چاول نکال کے وصاف کر کے بیچتا۔ کوالٹی انسپکٹر نے رگھو کو بتا یـا تھا کہ وہ کم اناج بھی لا سکتا ہے اور زیـادہ سے زیـادہ بھی فروخت کر سکتا ہے۔
کارپوریشن اوران کے درمـیان یہی کوالٹی انسپکٹر کام کرتا ہے اس طرح گاؤں کے دادا یـا ملر کی ضرورت درمـیان مـیں بالکل نہیں پڑتی۔
اب چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی ان باتوں کو سمجھتے ہیں اور درمـیانی لوگ انھیں دھوکہ نہیں دے سکتے۔ یہ جاگرتی اس طرح آئی ہے کہ زمـیندار کے کا رندے بھی چوکنے رہتے ہیں۔
جہالت کے اندھیرے مـیں لپٹی ہوئی زندگیـاں بھی اپنے اطراف اجالے کی بکھری ہوئی کرنوں کو محسوس کر رہی ہیں۔
رگھو نےانوں کا اعتماد حاصل کر لیـا ہے اور اب تواس گاؤں کی اہم ضرورت بن گیـا ہے۔ ابتداء مـیں جب رگھو نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی زمـین پر اناج اگایـا تھا تو یہ کام ان سب نے مل جل کر لیـا تھا ورنہ زمـینداروں کے لئے تو گاؤں کے سارے لوگ مزدوری کیلئے نا کا فی تھے۔ پھر انھیں مزدور کہاں سے ملتے ؟
سب نے مل جل کرکام کیـا تھا گھر والی اور بچے تک ہاتھ بٹا تے۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے رگھو نے سب کو اپنے اعتماد مـیں لے لیـا تھا۔ لوگ اس مـیں بڑی مہانتا ڈھونڈھتے ارے رگھو تو ضرورکسی بھگوان کا اوتار ہے … کوئی اسے بلند ترین مقام تک لے جاتا … اونچا … اور اونچا۔ مجھے اس قدر اونچا مت اٹھا و جہاں پہونچ کر مـیری ساری اچھائیـاں و برائیـاں ،مـیری انتھک محنت اور جدوجہد صرف ایک ٹھنڈے کھردرے پتھر مـیں تبدیل ہو جائے۔ پھر مـیں مہمان کہاں رہ جاؤں گا۔ ایک ایسا پتھر بن جاؤں گا جو اپنی جگہ سے ذرا برابر بھی نہیں ہٹ سکتا۔ جس کے قدموں مـیں ناریل کے ڈھیر اور چہرے پر کم کم کے سرخ دھبے ہونگے۔۔ بے چین پتھریلی آنکھوں والے بتوں مـیں مہانتا کہاں دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کو ایک زندہ آدمـی کی طرح محسوس کرو۔ زندہ رہنے کیلئے محنت کرو۔ جدوجہد کرو جلانے جھپٹنے اور چھیننے کی طاقت پیدا کرو کہ یہی انسان کیلئے ضروری ہے انتھک محنت اور کوشش نے ہی خوبصورت بت بنائے ہیں اور انسان نے ہی اپن فن کی خوبصورتی ، کاوش اور عقیدت کو بھگوان کی مورتیوں مـیں منتقل کیـا ہے۔ انسان کا زندہ وجود بے جان پتھر سے کہیں اہم ہے۔ وہ اپنے الفاظ مـیں ان کو سمجھاتا رہا، مفہوم یہی تھا۔
اس چھوٹے سے غربت کے مارے گاؤں کی کہانی لکھتے ہوئے مـیں نے اپنے احساسات اپنے جذبات اور اپنے الفاظ کو بھی استعمال کیـا ہے مگر مـیں سمجھتی ہوں کہ رگھو نے اس سے زیـادہ پر اثر اور سب کی سمجھ مـیں آنے والے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ہاں اس کے سوچنے اور سمجھنے کا ڈھنگ سب سے الگ تھا۔ عام انسانوں سے الگ اس کو پہچانا جا سکتا تھا ایسے ہی لوگ انقلاب لاتے ہیں۔ پرانی روایـات کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔
انہیں آگ سے کھیلنے کا فن آتا ہے۔ وہ جس طرح جینا چاہتے ہیں ویسی ہی زندگی بنا لیتے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے رگھو آگے ہی آگے پڑھتا جا رہا ہے۔ کیـا پتہ آنے والی پیڑھی اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈھتی ہوئی آگے نکل جائے۔ مـیں وہاں بنک منیجر کی بیوی کی حیثیت سے گئی تھی اور ایک عرصہ تک وہاں رہ کے مـیں نے اس کہانی کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھا اور محسوس کیـا ہے۔ مـیں ایک کہانی کار بھی تو ہوں۔ مـیں نے اپنا کام مکمل کیـا اس ……کو لکھتے ہوئے جیسے مـیرا قلم بھی آگ اگلتا رہا۔ جس سے بغاوت کی آنچ آتی رہی۔
٭٭٭
مـیں نے پہلے پہل گل بانو کو اماں کے پیروں کے پاس بیٹھا دیکھا تھا۔ مـیلے کچیلے گھیر دار لہنگے کو سمـیٹتے ہوئے ، پھٹے ہوئے گریباں پر باریک ملگجی ڈوپٹہ لپیٹے ، منے ، ہاتھوں کے پیـالے مـیں تھوڑی ٹکائے وہ اماں کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے بیٹھنے کا انداز اور بغیر پلکیں جھپکائے ایک ٹک دیکھتے رہنے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ انتہائی انہماک سے ان کی باتیں سن رہی ہے۔ باورچی کے پاس ہی ستون کی آڑ مـیں کھڑا تھا۔
مـیں ورانڈے سے گذر کے اپنے کمرے مـیں جاتے ہوئے باورچی سے پوچھا ہت خان یہلڑکی ہے۔
بی بی جی یہ گل ہے۔ وہ بے تکے انداز سے مسکرا کے بولا۔
گل۔
جی ہاں اس کا نام گل بانو ہے۔ اس بھری پوری دنیـا مـیں بالکل اکیلی ہے سرکار ایک پھوپی تھی سو وہ اللہ کو پیـاری ہو گئی۔ سوچا چھوٹے ہوئے کام نپٹانے مـیں تکلیف ہوتی ہے۔ دوڑ بھاگ کے کام کاج کرےتو پاو روٹی اس کے حصہ مـیں بھی آ جائے گی۔ ورنہ بھوکوں مر جائےمالک۔ پھر اس دیہات مـیں یوں بھی مہنگائی کے مارے تاک مـیں دم آ گیـا ہے۔
اچھا اچھا۔ اب جا کے چائے پانی کا انتظام کرو۔ اماں نے اس کو ٹوک دیـا۔ اور مـیں اسٹول پر کتابیں ڈال کے ہاتھ منہ دھونے چلی گئی۔
بڑی دیر تک برآمدے سے اماں کی آواز سنائی دیتی رہی۔ وہ کبھی گل سے اور کبھی ہمت خان سے باتوں مـیں لگی رہیں۔ اور مـیں چائے پی کر ، اپنے کمرے مـیں آ گئی۔ اسکول کا کام اس دن کی معمول سے زیـادہ ہی تھا۔ مـیز پر کتابیں پھیلائے مـیں کرسی پر سکڑی سکڑائی بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ کھڑکی سے گذر کر آنے والی سرد ہوا جس مـیں تیر کی طرح لگتی تو روئیں بھرا جاتے۔ مـیں کتاب بند کر کے دلائی سنبھالتی ہوئی اٹھی تو کرسی کے پاس گل کو دیکھا جو سردی سے بچنے کیلئے گٹھری بنی مـیری دلائی کے اس حصہ کے نیچے پڑی تھی جو کرسی سے نیچے لٹک رہا تھا۔
اس کے گھٹنے پیٹ مـیں لگے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھ چہرے کے اطراف احتیـاط سے رکھے تھے اور اس کی بڑی بڑی سیـاہ آنکھیں بند تھیں۔
ہائے یہ بیماری یہاں پڑی ہے۔ نہ جانے اس نے اپنا کام اب ختم کیـا اور کب دبے پاؤں یہاں آ کے پڑ گئی۔
مـیں نے نظر بھر کے اس کو دیکھا سرخ وسفید رنگت ، بڑی ، بڑی خوبصورت آنکھیں جو بند تھیں۔ گول گول سفید بازو، گداز انگلیـاں ، عمر مشکل سے اٹھ سال ہو گی۔ دلائی اچھی طرح اس کے اطراف لپیٹ کے اس مـیں نے اس کو اٹھا لیـا اور تخت پر لٹا کے ایک پرانی کمبل بھی اس پر ڈال دی اور خود اپنے پلنگ پر آ کے لحاف اوڑھ لیـا۔
سویرے اماں مجھے نیند سے جگانے کیلئے کمرے مـیں آئیں تو گل کو تخت پر لٹا دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئیں۔ کان کھول کے سن لو۔ یہ نخرے نوکروں کے ساتھ اچھے نہیں لگتے کیـا پتہ کی لڑکی ہے کب تک رہے۔ اب نوکر ڈلائیـاں اور کمبل اوڑھ کے ہمارے ساتھ سوئیں گے۔ وہ بی بی واہ۔ اس مـیلی کچیلی لڑکی کو نئی دلائی مـیں لپیٹ دیـا۔ ہائے ہائے ، دلائی غارت کر دی۔
گل نے اماں کی آواز سن لی تھی اور چھلانگ لگا کے تخت سے فرش پر اتر آئی جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی وہ حیرانی سے کبھی ماں اور کبھی تخت کو دیکھتی رہی۔
نہیں بی بی جی۔ مـیں تخت پر نہیں سوئی تھی۔ مـیں تو یہاں نیچے فرش پر پڑی تھی چھوٹی سرکار کے قدموں مـیں۔ یہاں ! اس نے کرسی کے نیچے اشارے سے بتیـا۔ لمحہ بھر کو مجھے اس کی بے بسی اور بے چارگی پر ترس آ گیـا۔
اماں یہ سچ کہتی ہے۔ مـیں نے ان کو یقین دلانا چاہا مگر اماں کا دل نہ جانے نوکروں کے معاملے مـیں انتا سخت کیوں تھا۔ وہ گل کا ہاتھ پکڑ کے گھسیٹی ہوئی باہر لے گئیں۔
شام تک اتنے سے واقعہ پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیـا۔
مـیں اسکول سے آئی تو کچھ دیر بعد اس واقعہ کی گونج مـیں مجھے اپنے کمرے مـیں سنائی دی۔
گل دور کر مـیرے پاس آئی اور مـیرا سینڈل اتارنے لگی۔ اس نے مـیرے پرانے کہرے جو کانٹ چھانٹ کے اس کیلے سی دیئے گئے تھے۔ پہن رکھتے تھے نہانے کے بعد اس کا چہرہ خوب نکھر آیـا تھا۔گھونگریـالے ، بال کپڑے کی ایک دھجی کی مدد سے سر کے پیچھے باندھ دیئے گئے تھے۔ اتنے بے تکے ڈھیلے ڈھالے لباس مـیں بھی گل بہت پیـاری لگ رہی تھی۔
اس نے چپکے سے مجھے بتایـا کہ وہ پرانی کمبل اماں نے دے دی ہے اور وہی استعمال کرے گی۔ نئی دلائی کے ٹانکے ادھیڑ دیئے گئے تھے۔ باورچی خانے مـیں پڑا ہوا بان کا کھٹولا اسے دے دیـا گیـا تھا۔ اس طرح گل کی زندگی مـیں کچھ ترتیب آ گئی تھی۔ اسے کام کرتا دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اتنی ذرا سی عمر مـیں کام کا یہ سلیقہ ، ترتیب اور تیزی اس نے کیسے اپنی طبیعت مـیں پیدا کر لی۔
رفتہ رفتہ اماں جیسی پتھرول بھی اس کے لئے موم بن رہی تھیں۔ اب گل کے کانوں مـیں کم قیمت آویزے جھولتے رہے تھے بال پابندی سے چوٹیوں کی شکل مـیں گوندھے جاتے تھے۔ پیروں مـیں ربر کی معمولی چپل بھی آ گئی تھی۔
اس طرح گل اپنی ذاتی خوبیوں ، سلیقہ مندی اور انتھک محنت سے پتھر دلوں کے درمـیان اپنے لئے راستہ بنائی ہوئی تھی۔ ننھا منو اور ڈالی بھی اس کے بغیر تنہائی محسوس کرتے۔
اماں کے سر مـیں تیل لگانے ، وضو کرانے سے لے کے ،ناشتہ مـیز پر لگانے اور چھوٹے بچوں کو دودھ دینے ، ٹفن رکھنے اور ان کی کتابیں بیـاگ مـیں رکھنے کی ذمہ داری تک اس نے اپنے سر لے لی۔
مـیرے اسکول سے آنے پر وہ دوڑ کے کتابوں کا بیـاگ ہاتھ سے لے لیتی۔ مـیرے لاکھ منع کرنے پر بھی مـیرا سینڈل اتارتی اور جب مـیں ہوم ورک کرنے بیٹھی تو وہ بھی منو سے کاپی پنسل مانگ کے مـیرے پاس آ بیٹھتی۔ اس کو پڑھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ چلتے پھرتے ،کام کاج کرتے وہ مـیرے لکھ کر دیئے گئے الفاظ دہراتی۔ یـاد کرتی اور رات کو مجھے وہ سارے الفاظ اس کی کاپی مـیں لکھے ہوئے ملتے جن کو لکھنے کی مـیں اسے تاکید کر جاتی۔ اس طرح گل خوبیوں کا ایک مجموعہ تھی۔ لاکھ سوچنے پر بھی اس مـیں کوئی برائی نظر نہ آتی۔ اس کی سیـاہ آنکھوں مـیں عجیب سی اداسی چمکتی۔
ہم سب مـیں گھلے ملے رہنے کے باوجود اس کی اپنی ایک تنہا شخصیت تھی گھر بھر مـیں سب ہی کی اس سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ تھی۔ مگر وہ اپنے لئے تنہا کچھ نہ چاہتی ہم سب کی ضروریـات کا خیـال رکھنا۔ ہمارے ہر اشارے پر دوڑنا ، اور ہماری خوشی و ناراضگی کا پاس و لحاظ کرنا اس کو آتا تھا۔ مگر ہم نے کبھی اس کیی خواہش کو جاننے کی کوشش نہ کی۔ ہم مـیں سےی نے اس کی پسند وناپسند پر توجہ نہ دی پھر بھی وہ اپنی اداس آنکھوں کے ساتھ مسکراتی رہتی۔ ہماری پسند سے پرانے کپڑے پہن لیتی۔ ہماری پسند کا باسی سالن ، اور کھانا کھا لیتی ، منو اور ننھے کی پسند کا کھیل خود بھی کھیلتی۔ اپنی اچھائی کا نقاب پر برائی کے چہرے پر ڈال کے وہ خوبصورتی وحسن پیدا کر دیتی۔
ابا کی بدلی ہو گئی اور ہم لوگ دکن آ گئے۔ باورچی اتنی دور آنا بھی نہ چاہتا تھا۔ مگر گل کہاں جاتی ؟ اور پھر ہم سب کے بغیر اس کی زندگی قدر سپاٹ اور یکسانیت سے بھر پور ہوتی۔ مکان سجانے اور چیزیں ٹھکانے پر رکھنے مـیں وہ دوسرے نوکروں کا ہاتھ بٹاتی۔ سارا سارا دن نئے گھر کی سجاوٹ اور آرائش مـیں لگی رہتی تھی۔ پردے لگانے ، صوفے ، کشن ، ستڑ پیس ،ترتیب سے رکھنے ، بڈ روم اور منو ڈالی کے کمرے سجانے سے لے کے ننھے کیلئے جگہ کا انتخاب بھی اسی نے کیـا تھا۔ مـیرا کمرہ بھی اٹھا اپنے ہاتھوں سجایـا تھا۔
اب تو ا سنے ابا کے ضروری کاغذات اور فائلس بھی اپنی گرانی مـیں لے لئے تھے۔ ابا کے ضروری کاغذات نہ ملتے تو گل فوراً ڈھونڈ نکالتی منو اکثر کنجیـاں اور پن بھول جاتا اور گل اس کی الماری مـیں رکھ آتی۔ مـیں سردیوں کے موسم مـیں کبھی اپنا سوئیٹر پہننا بھول جاتی تو گل تیزی سے چل کے بس اسٹیج مرجھا جاتی۔ ابا دفتر جانے لگتے تو گل سے زیـادہ مصروف اماں بھی نہ دکھائی دیتیں۔ ناشتہ مـیز پر لگاتا ، پانی سے بھرا گلاس ان کے ہاتھ مـیں تھمانا کوٹ پہننے مـیں ابا کی مدد کرنا ، ان کے سارے ضروری کاغذات احتیـاط کے ساتھ صاحب کے حوالے کرنا ، اور چلتے وقت پان کی ڈبیہ دینا وہ کبھی نہ بھولتی۔ اب تو گل کے بغیر ہم سب بالکل فالج زدہ بڈھوں کی طرح فائل ہو گئے تھے۔ ان سات برسوں مـیں گل نے سب کو اپنا محتاج بنا لیـا تھا۔ اس کے بغیر تو کوئی کام جی کو نہ لگتا۔ وہ گھر مـیں سب سے زیـادہ خوبصورت تھی۔ نئے لوگ اس سے بڑے احترام سے بات کرتے۔ کوئی بھی اس نے لے پالک یـا نوکر ماننے کو آسانی سیتیـار نہ تھا۔ گل تھی بھی ایسی ہی۔ بے حد شائستہ اور تمـیز دار ، کوئی ایک بار اس سے ملتا تو دوبارہ ملاقات کا خواہش مند رہتا۔
ڈرائنگ روم مـیں ، ہر ملنے جلنے والے کی چائے پان سے خاطر کرنے کا گر خاص طور سے اسے معلوم تھا۔ گھر مـیں اماں سے ملنے آنے والیوں کے ساتھ نرم مـیٹھی گفتگو کر کے اس نے پورے ماحول کو سوشل اور خوشگوار بنا دیـا تھا۔ ہر شخص اسے اپنے جسم کا ایک بے حد کام کرنے والا عضو سمجھتا تھا۔ اس طرح وہ ہم سب کی زندگی کا لازمـی جز بن گئی تھی۔
ایسا مٹھیـا ٹھنڈا جھرنا جس سے ہم سب کی پیـاس بجھ جاتی۔
عید برات مـیں سب سے زیـادہ گھر کی صفائی ،سجاوٹ ، کپڑوں کی سلائی اس کو کئی کئی دن مصروف رکھتی۔ ما اں کو تو یہ سوچ سوچ کر ہول آتا کہ ایک دن گل بھیی شریف آدمـی سے بیـاہ دی جائے گی۔ پھر ہم سب کا کیـا ہو گا۔ ہمارا گھر خزاں نصیب چمن کی طرح ویرانہ لگے گا۔ گل اپنی ساری مہک ساتھ لے جائےجہاں رہےاپنی جنت خود ہی تخلیق کر لے گی۔ وہ سچ مچ گل ہے۔
کبھی کبھی مـیں بھی ان سارے مسائل پر بڑی سنجیدگی سے سوچتی اس نے ہائی اسکول کا پرائیوٹ امتحان بھی کامـیاب کر لیـا تھا۔
مـیں جب رات رات بھر تھیسس لکھنے مـیں مصروف رہتی تو وہ بھی اپنی کتابیں لئے وہیں آ جاتی۔ زیـادہ دیر گذرتی تو تھرموس سے گرم چائے پیـالی مـیں انڈیل کر مـیرے آگے مـیز پر رکھ دیتی۔ اس کی آنکھوں مـیں خلوص و محبت کی ایک دنیـا آباد تھی۔ مـیں اکثر اس کی شخصیت کے حسن سے مرعوب ہو جاتی سرخ وسفید چہرے پر سیـاہ بڑی بڑی آنکھیں ، گداز جسم ، لمبی جھولتی ہوئی دو چوٹیـاں جو اکثر کام کاج کے وقت سامنے آ پڑتیں اور وہ جھنجھلا کر انہیں پیچھے ڈال دیتی۔
سنجیدہ پر وقار مسکراتی شخصیت جو ہر ایک کو آرام پہونچانے کیلئے بنی تھی مگر اپنے آرام کے بارے مـیں جس نے کبھی نہ سوچا تھا۔
ایک دن عجیب سا اتفاق ہو اوہ اسی طرح پڑھ رہی تھی مـیں اپنے اطراف بہت سی کتابیں پھیلائے تحقیقاتی مقالے کے بارے مـیں سوچ رہی تھی کہ اس کی کتاب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکل کے نیچے گر پڑا۔ اس کو پتہ نہ چلا گل کے جانے کے بعد مـیں نے وہ کاغذ اٹھا لیـا۔ یہ منو کی تحریر تھی جو اس نے مـیڈیکل کالج کے ہاسٹل سے گل کے نام بھیجی تھی۔ اس تحریر نے مجھے چونکا دیـا۔
اس نے لکھا تھا کہ ’’دوسروں کی پسند پر تو وہ زندگی گذارتی رہی۔ کیـا اپنی پسند کی زندگی سمجھی نہ ملے گی۔ اور اگر اپنی پسند کے ساتھی کا نام اماں سے بتا کے وہ جدوجہد نہیں کر سکتی تو اب کی بار چھٹیوں مـیں خود اماں کو اپنی پسند کی لڑکی کا نام بتا دوں گا جس کو بچپن سے پوجتا آیـا ہوں اور وہ نام ہے گل !
مـیں نے آہستہ سے وہ پرچہ کتاب مـیں رکھ دیـا اور اس عزم کے ساتھ پلنگ پر لیٹ گئی کہ مـیں گل اور منو کی مدد ہر قیمت پرکروں گی۔
گل مـیں تو ساری خوبیـاں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ ہر وہ خوبی جو اونچے درجے کے خاندان کی لڑکیوں مـیں مشکل سے ملے گی۔ اماں کا قہر آلودہ چہرہ مـیرے آگے گھومتا رہا۔ ابا اور اماں کی پسند پر اس نے اپنی زندگی ، کے سات سال گذارے اور اپنی اتنی اونچی پسند پر شرما کے رہ گئی۔ کیـا ہم اس کی کوئی خواہش کبھی پوری نہ کر سکیں گے۔ مـیں نے اداسی اور نیند کے ملے جلے احساس کے ساتھ سوچا۔
ہم سب پر تمہارا احسان ہے گل اور جھانسا تم نے ہماری ذرا ذرا سی خواہش پوری کی ہے وہاں منو کی یہ پسند اور تمہاری خواہش کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ شاید تمہارے احسانات کا کچھ بوجھ اس طرح ہلکا ہو سکتا ہے۔
اور مـیں نے ایک آہنی عزم کے ساتھ کروٹ بدلی۔
٭٭٭
گوپی کی اداس آنکھوں مـیں آنسو آ گئے تھے اور ماتھے پر ایک نیلی رگ ابھر آئی تھی پچیس برس مـیں وہ صرف دو بار رویـا تھا۔ بچپن مـیں نہ معلوم کتنی بار مچل مچل کے آنسو بہائے تھے۔ کتنی بار بلک بلک کے رویـا تھا مگر وہ لمحے اسے اب یـاد نہیں تھے اس کی تازہ یـادداشت مـیں تو صرف دو بار بہائے ہوئے آنسو محفوظ تھے۔
پہلی بار تو وہ اس وقت رویـا تھا جب اس کی ماں مر گئی تھی اور دوسری بار اب جب کہ اس کو خود اپنے رونے کی وجہ معلوم نہیں تھی۔
مـیلے طاق پر پڑے ٹوٹے ہوئے آئینہ مـیں اس نے اپنے عکو گھور کر غور سے دیکھا اور اپنے آپ سے بولا۔ یہ آنکھوں کی اداسی ، یہ خشک ہونٹ اور یہ الجھے بال۔ کیـا مـیں عمر مـیں صرف دو بار رویـا ہوں۔ پھر یہ اداسی ، یہ وحشت کیوں ؟
نہیں نہیں۔ مـیں ہزاروں بار رویـا ہوں۔ کیـا ہوا جو آنسو نہیں ٹپکے۔ کیـا ہوا جوی نے مـیرے آنسو نہیں پونچھے۔ مگر مـیں رویـا ضرور ہوں۔ مـیں اپنے آپ کو صرف یہ سمجھا کہ بہلا لیتا ہوں کہ مـیں کبھی نہیں روتا۔ مـیں تو صرف قہقہے لگاتا ہوں۔ ہنستا ہوں دوسروں کوہنساتا ہوں اور ہمـیشہ خوش رہتا ہوں۔ مـیں آج تک اپنے آپ کو دھوکہ دیتا آیـا ہوں۔
اس نے اپنی مـیلی آستین مـیں گرم آنسو خشک کر لئے اور زبرسدتی ہونٹ پھیلا کر مسکرانے لگا۔ بالکل ایسے جیسے بچہ پیٹنے کے بعد مسکراتا ہے۔ رونے کے بعد کی ہنسی کتنی عجیب ہوتی ہے۔ آنسووں مـیں گھلی تلخ ہنسی۔
اپنی موٹی کھردری انگلیوں سے اس نے الجھے ہوئے سخت بالوں مـیں کنگھی اور سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیری گر اس کے ہونٹوں کی خشکی دور نہ ہوئی۔ اس کی روح مـیں ایک عجیب سی تشنگی بس گئی تھی جوی طرح دور ہی نہ ہوتی تھی۔
بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ آنسووں کی یہ دو بوندیں کیـا پیـاس بجھا سکتی تھیں۔ اس کا جی چاہتا تھا خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے اندر ہی اندر جیسے بھٹی سلگ رہی ہو۔ جیسے دھواں اٹھ رہا ہو۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس نے گھبرا کر مـیل سے اٹے ہوئے چیکٹ تکیہ پر اپنا سر ڈال کے تکھے ہوئے بازوں مـیں منہ چھا لیـا۔
اس کی اندھیری کو ٹھری مـیں ساری دنیـا کی اداسی سمٹ آئی تھی۔ نا امـیدی بے چینی اور الجھن ، جس نے اس کے دماغ مـیں اس قدر کشمکش پیدا کر دی تھی کہ کنپٹیوں مـیں درد ہونے لگا۔ اک نہ مٹنے والا اضطراب اس کے چہرے پر پھیل گیـا۔ اس کے پپڑائے ہونٹ کانپ گئے۔ ہر دھڑکن ایک آہنی ہتھوڑا بن گئی کر اس کا سیند توڑ رہی تھی۔
دھڑ۔۔۔ دھڑ۔۔۔ دھڑاک
کیوں شور مچاتے ہو جی۔ انسان ہو کہ جانور۔ سٹھانی کی جوان لڑکی نے گلے مـیں چاندی کی ہنسلی گھما کر غصہ سے گوپی کو گھورا۔ وہ بوکھلا گیـا ٹین کے بٹن مـیں کاج الجھ کر اس نے کرتے کا گلا بنہ کیـا اور حواس ٹھیک کر کے لجاجت سے بولا۔ وہ وہ ذرا سٹھانی کو ادھر بلا دو۔ بڑا ضروری کام ہے۔
وہ وہ کیـا کر رہے ہو؟ صاف بتاتے کیوں نہیں کیـا کام ہے۔ ان کے سر مـیں درد سمجھے ؟ وہ نفرت سے جھڑک کے بولی۔
گوپی نے سوچا لہجے کے اعتبار سے تو بالکل سٹھانی ہے۔ پھرسنبھل کے نرمـی سے بولا۔ بات یہ ہے کہ ان کے پاس مـیرے پیسے ہیں۔ آج ہڑتال کا دن ہے۔ ان سے کہا کہ۔ بھیک لینے کو اتنا غل مچایـا ہے مفت خور کہیں کا۔ لڑکی پیر پٹکتی جھانجھن بجاتی چلی گئی۔
وہ سکتہ مـیں آ گیـا تو وہ بھکاری ہے۔ آخر اس نے محنت کر کے ، خون پسینہ ایک کر کے پونجی جمع کی ہے کیـا اپنی چیز واپس لینا بھیک مانگنے کے برابر ہے کیـا۔ اس سے قبل کہ وہ اور کڑھتا۔ پنج کھاتا۔ سٹھانی دندناتی ہوئی اس کے سر پر آ گئی۔
اے ہے ، کلمو ا ابھیشک بے صبرا کہیں کا۔ ارے مـیں تیرے باپ کی قرض دار ہوں۔ کیـا لینا اور کیـا دینا تو نے کھولی کا کرایہ یـا اب تک رہتا ہے نوابوں کے ٹھاٹ سے تین کوڑی کا مزدور ، اور دماغ دیکھو کمـینے کا۔ مـیں تیرا ایک پیسہ باقی نہیں ہوں۔ ذرا کھڑکی سے مـیٹھی بات کر لی تو سر چڑھ گیـا بے ایمان۔ آج ہی خالی کر دیجیو ہماری کھولی ورنہ سیٹھ سے کہہ کے نکلوا دوں گی۔ سٹھانی سے زور سے کھڑکی بند کر دی اور اس کو یوں لگا گویـا ساری دنیـا کے دروازے اس پر بند ہو گئے۔ وہ گھبرا کر کھڑکی سے ہٹ گیـا اس کو محسوس ہو رہا تھا زمـین اس کے قدموں تلے سے بھاگی جا رہی ہے۔ بڑی دیر تک اس کے دماغ مـیں کھڑکی کے پٹ دھڑدھڑاتے رہے۔ ممکن تھا وہ تیسری بار آنسو بہاتا مگر خشک آنکھیں جل کر رہ گئیں۔ آنسو نہیں بہہ رہے تھے مگر وہ رو رہا تھا۔ اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کے گرد ہر چیز گھوم رہی تھی۔ آدھی جلی ہوئی موم بتی۔ ٹوٹا ہوا آئینہ کا ٹکڑا۔ مـیلی دھوتی ، بان کا کھٹولا اور بیڑی کے ادھر جلے ٹکڑے سب اس کے گرد ناچ رہے تھے۔ چکر کاٹ رہے تھے۔ اور وہ مبہوت بنا ان کے درمـیان حیرت سے منہ پھاڑے کھڑا تھا۔
اس کا چہرہ سیـاہ پڑ گیـا تھا اور کمزور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ایک دم وہ ناتواں ہو گیـا تھا۔ اس مریض کی طرح جس کو ڈاکٹر نے لا علاج بتا دیـا ہو۔
وہ پھر کھڑکی کے بند مٹیوں سے لگ کر کھڑا ہو گیـا۔ اس دنیـا مـیںی کو بھی تو اس کا خیـال نہ تھا۔ دنوں بال مٹی مـیں آٹے رہیں۔ ہفتوں غلیظ کپڑوں مـیں سڑتا رہے یـا گھنٹوں بھوکا مرے۔ کوئی جو ذرا بھی پرواہ کر جائے۔ اور آج تو رات بھر بھوکا رہنے کے بعد بھی اس کو پیٹ بھرنے کی کوئی امـید نہیں تھی۔ کوئی اس کی آنتوں کو مسئلہ ڈال رہا تھا۔ کلیجہ کھینچ کے منہ کو آ رہا تھا۔ اندرونی کشمکش وہکو جا کر دکھاتا؟ رہنے کو اب تو قبر جیسی کھولی بھی اس کی نہیں تھی۔ آج کی رات بھی اس کے ساتھ بیکل تھی۔ اس کی آنکھوں مـیں نہ دکھائی دینے والے ہزاروں آنسو مچل رہے تھے۔ نہ جانے جرم کی پاداش مـیں وہ اس قدر بے بسی سے سیٹھ کے فرش سے منہ لگائے سسک رہا تھا۔ مقصود سٹھانی کا نہ تھا قصور کارخانے کے مالک کا نہ تھا۔ قصور حکومت کا نہ تھا۔ قصور تو گوپی کا تھا۔ نہ وہ تین کوڑی کا ذلیل مزدور تھا یہ نوبت آتی۔
ساری عمر کا سرمایہ سٹھانی نے لوٹ لیـا اور کھولی سے نکال باہر کیـا۔ جیسے گنے کا سٹھیـار مـیں چوس لینے کے بعد گنا بیکار ہو جاتا ہے ویسے ہی گولی ، سٹھانی کیلئے ناکارہ ہو گیـا تھا۔ وہ راتس نے سوامـی کے جھونپڑے کی ننگی دہلیز پر تڑپتے گذار دی۔
دوسرے دن سوامـی سے اکنی ادھار مانگ کر اس نے چینے کھائے۔ ہڑتال برابر جاری تھی روزانہ مل مالک دھمکیـاں دیتا۔ کام سے الگ کر دینے کا اعلان کرنا۔ گڑ بڑ تالی مزدور مزے سے بھوکے بیٹھے مستقبل کے سپنے دیکھتے۔ ان کے پیٹ جلتے رہیں وہ خود ننگے رہیں پرواہ نہیں مگر اپنے بچوں کو بھوک سے روتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ سردی مـیں ان کے ننگے جسموں کو اکڑتا دیکھنے کی ان مـیں تاب نہیں تھی۔ ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے۔ کہاں تک بے زبان جانوروں کی طرح چپ رہیں کب تک صبر کریں۔ بڑھتے ہوئے بوجھ کو کب تک ڈھوئے پھریں۔ وہ سوچتے خواہ کچھ ہو جائے ایک بار پوری قوت سے ہر تکلیف کو سہہ کے بڑی ہڑتال کریں گے۔ چاہے جان جائے یـار ہے۔ بلا سے روز روز مرنا تو نہیں پڑے گا۔
سرخ جھنڈے والے ان کی ہمت بڑھاتے ان کوتسلی دیتے ان کے زخموں پر چھاپا رکھے اور مستقبل کا خاکہ دکھا کے ان کا عزم مضبوط کرتے جاتے۔
گوپی سب سے پیش پیش تھا۔ وہ ہڑتال کر کے مطالبات منو ا کے سسھانی سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ وہ گھنٹوں سوچتا کہ ہڑتال سے سٹھانی کا کیـا تعلق مگر اس کا دل کہتا نہیں سٹھانی سے انتقام لینے کیلئے ہڑتال ضروری ہے۔ وہ بڑی سرگرمـی دکھاتا۔ ہر جلسہ مـیں اس کی شرکت ضروری بھی۔ صراحی گلاس لے کے مزدوروں کو پانی پلاتا پھرتا اور جب جلسہ ختم ہو جاتا تو ہڑتالیوں کے درمـیان بیٹھ کے جلسہ کی تقریروں پر جوش انداز سے بحث کرتا۔ اپنی باتوں سے خوش ہو کہ سوامـی اور رام بھروسے اس کو تین تین پیسے روز دیـا کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ چنے لینا بھی بھول جاتا اور شام تک اکنی اس کی جیب مـیں پڑی رہتی۔
وہ دن بھی آیـا جب ہڑتالیوں کا لمبا جلوس بڑی آن سے نکلا۔ گوپی کو سب سے آگے رکھا گیـا تھا اور پرچم سر پر لہرا رہا تھا۔ جیسے جیسے پرچم ہوا مـیں ہلکورے لیـا ویسے ویسے مزدوروں کے چہروں پر خوشی کا رنگ لہریں لیتا۔
سڑک کے موڑ پر پہونچ کر گوپی نے سیٹھ کی دوکان کے پاس سے گذرتے ہوئے اکڑ کر سیٹھ کی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال دیں اور مسکرا کے آگے بڑھ گیـا جب مڑ کر گوپی نے پیچھے دیکھا تو سیٹھ مخبوط الحواس دوکان بند کر کے تالا لگا رہا تھا۔ خوشی کی ایک لہر گوپی کے جسم مـیں سر سے پیر تک دوڑ گئی۔ حوصلے سمجھا سمجھا کر قدم بڑھا رہے تھے۔ وہ سوچنے لگا اب تنخواہ بڑھنے کیـا دیر لگتی ہے۔ سٹھانی نے بے ایمانی کی تو کیـا ہوا وہ پھر اپنی شادی کیلئے پیسہ اکٹھا کرے گا۔ ا سکو ایک ساٹھی کی بری شدید ضرورت تھی۔ جو رات دیر گئے تک اس کا انتظار کرے۔ اس کے الجھے الجھے بالوں مـیں ٹھنڈی پتلی انگلیـاں پھیرے۔ اس کے دکھ درد مـیں آنکھوں مـیں آنسو اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے اس کو دلاسہ دے۔ آس بندھائے۔ اور یہ سوچ سوچ کر اس کی بھوک مٹ گئی۔
قدم جم کر پڑنے لگے اس نے پلٹ کر اپنے ساتھیوں کو مسکرا کر دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔
تیز تیز قدموں سے بڑھے چلو۔ دیکھتے نہیں اس شاہراہ کے آخری سرے پر کتنی حسین دلہنیں بیٹھی ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ آؤ آؤ بڑے چھو کیـا روشن مستقبل کیلئے تم تیز قدم بھی نہیں ڈال سکتے۔ ؟
کب تک تین کوڑی کے مزدور بن کر سٹھانیوں کے ہاتھ بکتے رہو گے۔
اور اس کے ساتھی تیز تیز قدموں سے چلنے لگے۔ سیٹھ تالا لگا کے ایک ہاتھ سے باریک دھوتی کا زرین سرا پکڑے ، تالو پر گلابی پگڑی چپکائے کھڑا تھا۔ اور جلوس بڑھ رہا تھا جلوس کے سامنے پولیس کے دستے آ گئے۔ اس کی سمجھ مـیں کچھ نہ آیـا کہ کیـا ہوا۔ اس لکر دو قدم پیچھے ہٹا۔
ہٹ جاؤ۔ پولیس شیر کی طرح دھاڑ رہی تھی۔
ہم نہیں ہٹیں گے۔ جلوس بپھر گیـا۔
وہ سب اپنا حق مانگ رہے تھے۔ مگر حق و انصاف اشک اور گیس اور لاٹھیوں سے دور نہ معلوم کہاں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ وہ کارخانے کے مالک سے انصاف ہی تو چاہتے تھے مگر شاید مالک بن کے انسان سب سے پہلے اپنی انسانیت کھو دیتا ہے۔
وہ اپنی حکومت سے زندہ رہنے کا حق مانگ رہے تھے جینے کی آزادی ظلم کے خلاف ایک بھر پور نعرہ ہی تو تھا یہ جلوس۔ گوپی سمجھتا تھا کہ یہاں تو ظلم کے خلاف زبان بھی پلانے کی اجازت نہیں۔ ظلم کی لاٹھی ہر وقت عام کے سر پرسوار ہو کے حکومت کرتی ہے۔ خیـال ہی خیـال مـیں اس نے ظلم کی لاٹھی توڑ کے پھینک دی۔
سنسناتی ہوئی گولی اس کے سینے مـیں دھنس گئی اور لڑکھڑا که تا ہوا گوپی زمـین پر لیٹ گیـا سوامـی ہیبت زدہ سا اس پر جھک گیـا۔ دم توڑتے ہوئے انسان کو سوامـی بھگوان کی یـاد دلا رہا تھا۔
رام رام کرو بھیـا۔
رام۔ آں ہاں۔ مشاہرہ کا آخری مـیرا اس کو اشارے کرنے لگا۔ چپکے چپکے بلانے لگا۔ اس کے تصور مـیں چھلکتی آنکھیں اور مسکراتے ہوئے ہونٹ ابھرے اور ڈوب گئے۔ گوپی کے خون سے تر بتر جھنڈا اس کے پہلو مـیں پڑا تھا۔ اس نے ایک نظر سوامـی پر ڈالی اور اس کی گردن ڈھلک گئی۔
رام بھروسے نے گوپی کی لاش کو بڑھ کے اپنے کندھے پر ڈال لیـا اور سوامـی نے جھنڈا تھام لیـا جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ رام بھروسے کو یوں لگا جیسے وہ اپنا جنازہ اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے۔ گوپی کے ساتھ اور چار لاشیں اٹھیں سامنے پولیس کا آدمـی اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ اور خاکی وردی غرور سے تن گئی تھی۔
دوسرے دن بہت سے کھادی پوش مزدوروں کو بہلا پھسلا رہے تھے۔ ان مـیں سیٹھ کا منجھلا لڑکا بھی شامل تھا اور مزدوروں کو مشورہ دے رہا تھا کہ ہڑتال ختم کر دیں۔
تاریخی ہڑتال کا افسوسناک طریقہ پر خاتمہ ہو گیـا۔ مزدوروں کے نام نہاد لیڈروں نے خود بڑھ کے ان کا گلہ دبا دیـا۔
سوامـی سوچنے لگا۔ نہ معلوم کب تک ہمارے غضب شدہ حقوق واپس نہیں دیئے جائیں گے۔ کب تک بچے بھوکے مریں گے۔ کب تک پہاڑ جیسے سیٹوں کو آہنی گولیـاں توڑتی رہیں گی۔ کب تک طوفان کے آگے خاکی وردیوں کا بند ٹھہر سکے گا۔
کب تک گولیوں سے انسانیت کو چپ کرایـا جائے گا۔
سیٹھ کا چھوٹا بیٹا سوامـی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
تم دیکھ لینا سوامـی۔ شہیدوں کے سرخ لہو سے نئی زندگی پیدا ہو گی۔ ہماری زندگییلی نہیں جا سکتی۔ ہمکو روندا نہیں جا سکتا۔
اور سوامـی سنسناتی گولیوں سے لا پرواہ ہو کر مضبوط لہجہ مـیں بولا۔ ہم اپنا حق ضرور منوا دیں گے۔ ہم پھر بڑی ہڑتال کریں گے۔
٭٭٭
تشکر: پروفیسر رحمت یوسف زئی جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
Related
. چوت چٹا ی کہانی . چوت چٹا ی کہانی[چوت چٹا ی کہانی]
نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Sun, 29 Jul 2018 23:43:00 +0000