انٹی کی چودایی

انٹی کی چودایی جوان جسم کا اک ہی رشتہ چوت اور لنڈ کا ~ Desi Sexy Urdu Stories | Meri Chudai Ki Kahani: Poori Family Ko Choda Hindi Sex Story | Posts (Atom) - HOTURDUSTORIES |

انٹی کی چودایی

جوان جسم کا اک ہی رشتہ چوت اور لنڈ کا ~ Desi Sexy Urdu Stories

مـیں شمـیم بہار کا رہنے والا ہوں ۔ مـیری عمر 35 سال ہے اور مـیں شادی شدہ ہوں مـیری بیوی سروت اک خوب صورت چوت کی مالک ہے اپنے مستانی چوت پر اسے بہت ناز ہے ۔
سہاگ کی وہ نا دان اور خوب صورت حسینہ آج اک مست رنڈی ہے جوانی کی اس پہلی یـادگار رات کو جب مـیں اپنی اس مست جوانی کی شلوار اتاری تو جانھٹوں سے صاف چوت
مـیں سے مستا نی مہک آری تھی۔
ہم دونوںاکثردن مـیں مست چودای کا حسین کھیل کھلتے ہیں ٹی وی پربیلوفلم چل رہی ہوتی ہے
اور دیکتھے ہی دیکتھے ہم دونوں اک دوسرے کی چوت اور مـیں کھوجاتے وہ اکثرمدہوشی مـیں اتراتی ہے سالے حرامـی مادر چوت 70 سال کا بڈھا بھی مـیری چوت درشن کر لے تو اس کا بھی لنڈ رال ٹپکا دے ہم دونوں تو نہیں پیتے لیکن جوان مہکتے جسم سے نکلتے ضرورپیتے ہیں
مـیری بیوی اور مـیں اپنے اپنے پیشاب کو گلاس مـیں نکال کر اس کی چسکی کے سات
مست چودای کا مزا لتے اس مست جوانی کا انداز بھی اتنا مست ہوتا ہے کہ وہ چو ت کےس ات سات وہ گانڈ بھی مرو اتی تھی اصل مـیں یہ کہانی مـیری بہن کی ہے
مـیری اک پیـاری سی چھوٹی بہن غزالہ ہے غزالہ مجھہ سے دو سال چھوٹی ہے ہم دونوں اک دوسرے کو بہت پیـار کرتے ہے وہ کافی چنچل ہے اور حسین بھی مـیڑک تک آتے آتے ہم دونوں بھایی بہن نے جوانی کی دیلیز پر قدم رکھہ غزالہ کی نھنی نھنی چچیـاں نکل آیی تھی اور مـیرے لنڈ کے اس پاس ہلکے ہلکے بال نکلنے تھے
اکثررات مـیں اماں کو ابا سے اپنی چوت مرواتے دیکھا تھا پتا نہی تھا کہ یہسا کھیل ہے دونوں ننگے ہوتے اماں ابا کا لنڈ چوستی اور ابا اماں کی چوت اور پھر اماں کے حسین ننگے جسم کو پکڑ کر ابا اپنا موصل جیسا لنڈ اماں کی چوت مـیں پیل دیتے اک دبی سی چیخ سنایی دیتی ہاے بیٹی چوت مار ڈالا مـیری نازک چوت پھٹ جاےگی لیکن ابا اک بھوکے جانور کی طرح اماں کی مست چوت کا مزا لتے اماں کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑ ہوتی اور ابا مستی مـیں اماں کی مست چوت مـیں اور دکھے مارتے مارتے ٹنھڈے ہوجاتے
مـیڑک پاس کرکے مجھے آگے پڑھنے کےلیے شھر جانا پڑا اس بیچ مـیں چھٹیـاں مـیں گھرآتا غزالہ کی جوانی مـیں دن بہ دن نھیکر که تا جارہا
غزالہ کی جوانی مدمست ہوگیی گورے جسم رسیلے ہونٹ سڈول چھاتیـاں جیسا کہ حیس گڑیـا
مـیں بھی پورا جوان ہو چکا تھا گھر مـیں چنچل مدہوش حسن کو دیھک کر مـیرے لنڈ مـیںمسھاٹ ہونے لگتی کثر کام کے دوران اس کی چھاتیـاں پر نظر پڑتی دل مـیں خیـال آتا
کیوںنا اس جوانی کا مزا لوٹو اور اپنی گڑیـا کو بھی لنڈ کا مزا چھکاوں آخر مـیرے ساے مـیں
اس کی مدہوش جوانی پروان چڑی ہے اس طرح اسکی حسین چوت پر مـیرا بھی حق بنتا اخر کوی نہ کوی مرد اس کی چوتکو چودے گا پھر کیوںنا مـیں ہی اس کی مستانی جوانی کا مزا لو
گرمـیوں کے دن تھے مـیں اپنے کمرے مـیں ‎غزالہ کے مدہموش حسن کے خیـال مـیں ڈوبا اپنے لنڈ کو آ ھستہ آ ھستہ سہلارہا تھا کہ یکا یک کمرے کا دروازہ کھلا جلدی سے مـیں نے اپنا کھڑا لنڈ لنگی کے اندر ڈال لیـا سامنے ‎‌غزالہ چاے لےکر کھڑی تھی ۔تھوڑا جھجکی
اور چاے ٹیبل پر رکھہ کر چلیشاید لنگ کے اندر کھڑے لنڈ پر اس کی نظر نہیں پڑی
تھی خیـال آیـا کیوں نہ دوسرے دن بھی ایسا کیـا جاے اگر اس مست جوانی نے تھوڑا بھی ریسپانس دیـا تو بات بن جاےگی دوسرے دن ذیـادہ ہمت کی اور مـیں نے اپنی لنگی اتار کر الگ کردی اور لنڈ کو اپنے ہاتھوںلیکر سہلانے لگا اور جب وہ چاے لیکر کمرے مـیں آیی تو مـیں نے جلدی ناھی کی بگل مـیں پڑیی لنگی سے اپنے ننگے بدن کو ڈھک لیـا لیکنلنڈ کھلا ہی رہا اک بار غزالہ ٹھٹکی اک نطر مـیری طرف دیکھاپھرترچھی نطر سے کھڑے لنڈ کو دیکھا اور چپ چاپ ٹیبل پر چاے رھکہ کر واپس چلی گی
مجھے لگا کی اس کی مست جوانی مـیں ہلکی سی ہلچل تو ضرور ہویے نہی تو وہ شرماکے الٹے پیروں کمرے سے نکل جاتی اور پھراسے چودنے کی چاہت مـیںمـیرا بدن مـیں آگ لگا دی اواواواواواو مـیری پیـاری گڑیـا غزالہ اور مـیں جھڑ گیـا
اتوار کا دن تھا اماں اورابا شادی مـیں گيے ہوے تھے اور دوسرے دن لوٹنے کا پروگرام
تھا بھیـا مـیںنے کھانا لگاری ہو آپ ڈاینیگ روم مـیں آجاو حنا ( نوکرانی) کہا ں ہے مـیں نے پوچھا وہ پڑوس مـیں گیی ہے غزالہ نے کہا مـیں نے موقع غنیمت سمجا ۔ اپنی پیـاری بہن کے کورے بدن کا مزا لوٹنے کا اس سے اچھا موقع اور کہا ں ہوسکتا ۔
غزالہ تم نے کہانا کھا لیـا ۔ ہا ں بھایی جان
مـیری کھانے کی بھوک ختم ہوچکی تھی اور غزالہ کی جوانی کی بھوک سے لوڑے مـیں تناو آنے لگا تھا مـیں چپکے سے کیچن گیـا اور پیچھے سے غزالہ کو دبوچ لیـا
بھایی جان یہ کیـا کررہں مـیںری غزالہ بس تھوڑا سا مـیںنے اسے دبوچتے ہوے کہا
بھایی جان مـیں آپکی اپنی چھوٹی بہن ہوں
بہن ہو تو کیـا ہوا اک مست جوانی بھی تو ہو یہ رسیلے ہونٹییی چھاتیـاں۔اوریہ مستانی چوت اور مـیںنے شلوار کے اوپر سے چوت پر ہاتھہ رکھہ دیـا ۔
غزالہ مـیں تیرے پیـارے بھایی سے پہلے اک جوان مرد ہوں اور تیری اس حیسن جوان جسم پر مـیرا بھی حق ہے
حرام ذادے مجھے چھوڑدے
غزالہ چلایی تو بڑا کمـینہ
اور بھایی تو اپنی بہنوں کی عزت بچاتے ہیں۔اورتو ہی اپنی ہی بہن کی عزت پر ہا تھہ ڈال رہا ہے
سالی رنڈی چپ تیرے جیسی مصوم کچی کلی پرہر رشتہ قربان ہے اور جوان لنڈ تو صرف چوت پہچانتا ہے ۔
ماں بھابی بہن کے رشتےکے کیـا مطلب اسکےلیے معنہ نہں رکھتے
کتے اچانک غصے مـیں اسنے مـیرے منہ پر تھوک دیـا اورمجھے تھپڑمارنے لگی غزالہ مـیری بانہوںمـیں بری طرح جھٹپٹا ری تھی لیکن مـیری گرفت سے نکلنا آساں نہں تھا
مـیںحالت کو قابومـیں کرنے کے لیے اسکے دونوں ہاتھہ کو جکڑکر گود مـیں اٹھا کر اماں کے کمرے مـیں بیڈ پر پٹک دیـا یہ وہی بیڈ تھا جس پر مـیں نے اپنی اماں کو کیی بار چود واتے
دیھکا تھا اور آج مـیں اپنی بہن کی عزت اسی پر لوٹنے جارہا تھا
غزالہ کا جھٹپٹانا جاری تھا اک ہاتھہ سے مـیں اسکے رونوں ہاتھہ پکڑہوے تھا اور دوسرے ہاتھہ سے اسکی قمـیص پھاڑنے لگا جسےجسے اس کے کپڑے پھٹتے گیے اسکا حسین گورا بدن دیھکہ کر مـیری چودایی کی پیـاس اور بھی تیزہوگی اور اب شلوار کی باری تھی شلوار پھٹتے ہی غزالہ کی ننگی مست
چوت مـیرے سامنے تھی اک ہاتھہ اسکے چوت پرلگایـا اور تیزی سے رگڑنے لگا
بھیـامجھے چھوڑدے مـیری عزت مت برباد کرو غزالہ پھر چلای۔
لیکن مـیں کہاں مانے والا اس کو جکڑے ہوے مـیںنے پاجامہ کھولا اور موصل سا لنڈ باہرتھا مجھہ پر رحم کر بھیـا مـیں تھمارے ہاتھہ جوڑتی ہوں غزالہ سیسکنے لگی
چپ بھوسڑی والی آج مـیں تیری چوت کامزالےکر رہیوں گا کویی مادر چوت تیری مدہوش جوانی کا مزالوٹ نہی سکا وہ نامرد ہے اور مـیںنے اسے دوچار تھپڑ لگا دیں تھپڑکچھہ زور سے لگ گے جسکی وجہ سے اس کے منھہ سے خون نکلنے لگا مجھے اسکی پروا نہی تھی غزالہ نے مـیرےتیوردیھکہ کرجھٹپٹانا کم کر دیـا اور سسکنے لگی حرمزادی روتی کیوں ہے چپ چاپ چودنے دے تجھے بھی مزا آے گا مـیںنے کہا مـیں نے ہوشیـار یی سے اپنےہونٹ اسکی چوت پر رکھہ دیے اور اسکی چوت چا نٹے تھوڑی دیر بعد غزالہ نے رونا بند کردیـاشاید چوت چانٹے مـیں مزا آنے لگا مـیں سھمج گیـا کے غزالہ پر بھی جوانی کا نشہ چڑھ رہا ہےمـیںاپنےہونٹ اس کی چھاتیـاں پر گاڑدیـا اوراپنے لنڈ کا سپراچوت کے ہونٹ پرٹکا دیـا
بھیـامـیری عزت مت لوٹوں مـیں برباد ہو جاوغزالہ چلای یمـیں نے دیکھا کے غزالہ آسانی سے چوت ناہی دےزبردستی چودناہوگا
اسے دبوچے ہوے مـیں تیزی سے لنڈ گھیسڑ دیـا پہلے تو نرڈ چوت کے ہونٹوں کو چیرتا ہوا گھستا گیـا پھر چوت کی سیل نے اس کا راستہ روک لیـا غزالہ درد سے چیحنح لگی لکین مـیں کہاں صبر کرنے والاتھا اپنے ہاتھہ اس کے منہ پہ رکھہ کر پورے جسم کا زورلنڈ پر دیےدیـا لنڈ اک جھٹکے سے چوت کی جھلی پھاڑتا ہوا اندر چلا گیـا
ہ ہ ہ ہ ہ ہاہاہا ای ای ای ایآآآآآآآآآ غزالہ چیخ آٹھی کوری چوت پھٹ چکی تھی
نکال کمـینہ بہت درد ہورہے نہیں تو مـیری جان نکل جاے گی000000 ااااااااماںمجھے اس حرامـی سے بچالے غزالہ سسکنے لگی اوی
پہلی بارچوادیی مـیں تو درد ہوتا ہے اور پھر کویی تو تیری چوت پھاڑتا ہی غزالہ خاموش رہی شاید سمجھہ تھی کہ وہ لوٹ چکی ہے تھوڑی دیر پہلے کی کلی پھول بن آگی ہے
بھیـاتھوڑی دیر روک جاوں درد ہو رہا
غزالہ سسکنے لگی اوہی اویی ااااا آآآآآآ اب مزا آرا ہے توڑا زور سے کرو
غزالہ کی چوت زورزور سے جھٹکے مارنا شروع کردیے غزالہ بھی چوت اٹھا کر مـیرا ساتھہ دینے لگی بھاییـاور زور سے چود بڑا مزا ارا ہے آ ا ا ا اآواواواوا اویـاویـاوایـاومـیں جنت مـیں پہچہوں اااااااا بھیییییـاااااااااااااااااااااچودمجھے چود اور زور سے خود غزالہ دیوانی ہوری تھی
غزالہ مـیری رانی اب مـیں جھڑرہا ہوں ہاہاہاہ مـیرالنڈ اندر ہی جھڑ گیـا مـیری جان
بھیـا مـیں بھی اب جھڑی ہاے مـیری چوت اور ہم دونوںجڑ گیےتھوڑی دیر تک یونہی مـیں غزالہ کی چھا تیـاں منہ مـیں دباے پڑا رہا اب چھوڑ بھی اپنی بہن کو سالے سب رس پی جاے گا یـا بعد کلیےبھی کچھہ چوڑے گا مـیری گڑیـا اک چودای مـیں بہن چود نبا دیـا
مـیں نے جسے ہی دروازہ کی طرف نظر اٹھی حنا کھڑی مسکرای رہی تھی وہ مسکراتے ہوے ہمارے پاس آیی اور غزالہ کو پیـار کرکے بولی آج تم بہن بھایی نے یہ ثابت کردیـا کے دو جوان جسم کا اک ہی رشتہ ہوتا ہے چوت اور لنڈ کا

. انٹی کی چودایی . انٹی کی چودایی : انٹی کی چودایی ، انٹی کی چودایی




[انٹی کی چودایی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Mon, 20 Aug 2018 00:23:00 +0000



انٹی کی چودایی

Meri Chudai Ki Kahani: Poori Family Ko Choda Hindi Sex Story


وستوں مـیرا نام خالد اسلم ہے.مـیں آزاد کاشمـیر کا رہنے والا ہوں.مجھے کہانیـاں اور خاص طورپر گھریلو کہانیـاں جس مـیں رستےداروں کے درمـیان کہانی ہوبوہت پسند ہیں

مـیرے والد کا نام سردار اسلم ہے اور مـیری والدہ کا نام پروین ہے. انٹی کی چودایی مـیرے والد کی عمرکافی ہے یعنی مـیری والدہ ان سے بیس سال چھوتی ہیں.ہم دو بہن بھائی ہیں،فرح مـیری بڑی بہن ہے جس کی عمر ١٨ سال ہے اور فرح سے چھوٹا مـیں ہوں اور مـیری عمر ١٦ سال ہے.اور مـیری والدہ کی عمر ٣٧ سال ہے.
والد صاحب کا اپنا ذاتی کاروبار ہے.ان کی دو دوکانیں ہیں ایک راولپنڈی مـیں اور ایک مظفرآباد مـیں.اور ابا شادی کے فورن بعد راولپنڈی مـیں شفٹ ہو گیے تھے.راولپنڈی مـیں ابا کے ایک رشتے کے بھائی جمال کا گھر تھا اور ابا ،امـی ان کے ساتھ ہی رہتے تھے.کچھ عرصہ قبل انکل جمال کراچی رہتے تھے اور وو ہماری پیدائش کے بعد کراچی سے واپس آکر اپنے گھر مـیں رہنے لگے
انکل جمال بوہت زندہ دل انسان تھے گو وو ابا سے چھوٹے تھے لیکن ابا ان سے بوہت پیـار کرتے تھے.ایک اور بات جو مـیں بتانا بھول گیـا کے انکل جمال نے شادی نہیں کی تھی.
مـیں اور فرح ان سے بوہت خوش رہتے تھے ، انٹی کی چودایی وو ہم کو اکثر شام کو اسلام آباد سیر کروانے لیجاتے تھے.
جب ابا مظفرآباد جاتے تھے تو امـی بھی ہمارے ساتھ جاتیں تھیں.
انکل جمال کا گھرکوئی زیـادہ برا نہیں تھا، دو کمرے نیچے ،ایک کچن،غسلخانہ ، اور ایک بڑا صحن اور دوسری منزل پر ایک کمرہ جس مـیں انکل رہتے تھے،دوسری منزل کو ایک راستہ گھر کے اندر سے اور ایک گھر کے بھر سے جاتا تھا ،بھر والا راستہ انکل کے دوستوں کے لیـا تھا جو اکثر شام کو گھر اتے تھے اور رات کو دیر تک رہتے تھے.ان کے دوستوں مـیں زیـادہ تر ان سے کم عمر کے دوست ہوتے تھے
ان کا گھر راولپنڈی کی ایک پرانی آبادی مـیں تھے جہاں لوگ کم رہتے تھے . انٹی کی چودایی مـیں اور مـیری بہن ایک ہی اسکول مـیں پرتھے تھے، ہمارا اسکول مٹرک تک تھااور ہمارے گھر اور اسکول کے بیچ لوکاٹ کے باغات تھے..
مرے والد صاحب ایک مہینے کے زیـادہ دن مظفرآباد مـیں گذرتے تھے اور صرف ایک ہفتہ ہمارے پاس اتے تھے
اور جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے تو جب ہم بوہت مزے کرتے تھے.رات کو دیر تک جاگنا ،فلمے دیکھنا ، سیر کرنا ، واغرہ واغرہ... اور امـی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں تھیں.ہماری امـی انکل جمال کا بوہت خیـال رکھتی تھیں.
انکل جمال کے گھر ایک لڑکا جس کی عمر ١٨ سال تھی اور نام جواد تھا روز اتا تھا اور جب وو اتا تھا تو انکل ہم کو نیچے بھیجہ دیتے تھے.جواد ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا تھا اور وہ کافی بدنام تھا اپنے علاقے مـیں.جواد کے کچھ دوست اور بھی تھے جو انکل جمال کے گھر جواد کے ساتھ اتے تھے اور ان مـیں ایک لڑکا فیضان تھا. جو فرح کی سہیلی کا بھائی تھا.
دوستوں مـیں یـا داستان اپنی عمر کے ٢٥ سال گزارنے کے بعد سنا رہا ہوں.اور جو واقعیـات مـیں آپ کو بتاؤں گا وہ اس وقت کے ہیں جب مـیری عمر ١٥ یـا ١٦ سال کی تھی.
ایک ہفتے کی رات تھی اور شہر مـیں بارش ہو رہی تھی،انکل جمال اسلام آباد گئے ہووے تھے. جب وہ دیر تک واپس نہیں اے تو امـی بوہت پریشان ہو گیئں پھر انکل جمال کا فون آگیـا
اور انھوں نے بتایـا کے جب بارش روکےوہ تب گھر ییں گے. بارش اور تیز ہوتھی. مـیں اور فرح امـی کو بتا کر اوپرانکل کے روم مـیں چلے گیے اور ووہان ٹی.وی دیکھنے لگے. امـی اپنے روم مـیں چلی گیئں اور انکل جمال کا انتظار کرنے لگیں
فرح اور مجھ مـیں دو سال کا فرق تھا ،وہ مجھ سے بڑی تھیں لیکن وو مجھ سے کافی بڑی لگتیں تھیں،ان کا اونچا قد،گورا رنگ، بھرا بھرا جسم ، اور کلے لمبے بال ان کی عمر زیـادہ بتاتے تھے. مختصر یـا کے وو بوہت خوبصورت تھیں اور لوگ ان کو امـی کی چھوتی بہن لگتیں تھیں.خیر ہم تی وی دیکھ رہے تھے کے باہر والے راستے کی گھنٹی بجی، مـیں سمجھا کے جمال انکل آییں ہیںاور مـیں نے دروازہ کھول دیـا لیکن ووہان فیضان کھڑا تھا مـیں اسے اندر لے آیـا. وہ بارش کے پانی سے بھیگ چکا تھا.
فرح بولی؛؛فیضان تمارا دماغ خراب ہے جو اس بارش مـیں تم ادھر یے ہو.
فیضان بولا؛؛؛ فرح مجھے انکل سے کام تھا ..کہاں ہیں وہ؟
مـیں بولا؛؛ وہ تو اسلام آباد مـیں ہیں اور جب بارش روکےتو واپس آیینگے
تو اس نے کہا کے کیـا مـیں انتظار کر لوں
فرح نے کہا کر لو لیکن اپنے کپڑے تو بدل لو بلکل بھیگ چکے ہیں اور مجھے کہا کے اپنا کوئی لباس فیضان کو دے دوں اور یـا کہ کر وہ امـی کے پاس نیچے چلیں گیئں اور جاتے جاتے یـا بھی کہ گیئں کے جب انکل جمال آییں تو مـیں ان کو بتا دوں.مـیں نے فیضان کو اپنے کپڑے لا کر دیے جو اس کے جسم کے لیـا تنگ تھے
رات کے نو بج چکے تھے اور ابھی تک انکل جمال کا کوئی پتا نہیں تھا.ہم دونوں ٹی وی دیکھنے لگے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتے رہے
مـیں دل ہی دل مـیں سوچ رہا تھا کے جواد،فیضان اور شارق
کی دوستی انکل جمال سے کیوں ہے لیکن اس کا جواب مجھے نہیں پتا تھا.لیکن دل مـیں خواہش تھی کے اس کی وجہ معلوم کروں.
خیر فیضان مجھے گھورکر دیکھ رہا تھا. مـیں اس کے گھورنے سے کچھ گھبرا سا گیـا،اور اس سے نظریں چرانے لگا.مـیں نے شلوار اور قمـیض پہنی هوئ تھی جب کے فیضان نے پنٹ اور ٹی شیٹ اور وہ مجھ سے زیـادہ صحت مند تھا اور اسی لیـا مرے کپڑے اس کو تنگ تھے.اس کمر پر بیلٹ نہیں بندھی تھی کیونکے اس کے چوتربھی موٹے موٹے تھے.
فیضان نے مجھے کہا کے آو باہر بارش کا مزہ لیتے ہیں تو مـیں اور وہ چھتہ پے آگیـا،ہم دونوں بارش مـیں جلد ہی بھیگ گیے.مـیں چھتہ کی دیوار کے ساتھ کھڑا سڑک کو دیکھ رہا تھا اور تیز بارش بوندوں سے اپنے اپ کو بچا رہا تھا.ہم دونوں کے کپڑے گلے ہو کر جسم سے چپکے ہووے تھے. اتنے مـیں زوردار بجلی چمکی اور مـیں ڈرکے پیچھے ہوا تو فیضان سے ٹکرا گیـا. اور اس کا دھڑمرے جسم سے چپک گیـا اور کوئی سخت چیز مرے چوتروں مـیں گھس گی،مـیں ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ چیز فیضان کا للا تھا. مـیں نے غصّے سے فیضان کو دھکھا دیـا لیکن اس نے مجھے پیـار سے بھنج لیـا. پھر اس نے مـیری للی کو پکڑ لیـا اور اس کو ہلانا شروع کردیـا
.اس کا لنڈ ابھی تک مرے چوتروں کی درمـیان گھسا ہوا تھا، مجھے بھی یـا سب اچھا لگنے لگا اور مـیں نے معت کرنا ترک کر دی . مـیری شلوار پوری طرھ بھیگ کر مـیری ٹاگوںسے چپک گیئ تھی.
فیضان متواتراپنے لنڈ کو مـیری گانڈمـیں گھسا رہا تھا لیکن شلوار کے اوپر سے. اس کا لنڈ بھوحت لمبا اور موٹا تھا.خاص طور پر اس کے لنڈ کا ٹوپا کافی بڑا تھا.
مجھے اس کام کا زیـادہ پتا نہیں تھا ،لیکن اتنا معلوم تھا کے لڑکے لڑکے آپسمـیں یـا کرتے ہیں اور مجھ بھی کافی لوگوں نے اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی، ہمارے گھر کے پاس ایک سبزی والے کی دوکان ہے اور اس نے کی دفع مجھے پیـار وغیرہ کیـا تھا اور اپنی دوکان کے ساتھ والے کمرے مـیں لی جا کر مـیری گانڈ مرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر مـیں وہاں سے بھگ آیـا تھا ، اس کے علاوہ اور کافی لوگوں نے مرے ساتھ اوپر اوپر سے پیـار کیـا تھا.، بس جواد سے مـیرا دل لگتا تھا کیوں کے وہ مجھے اچھا لگتا تھا. فیضان نے مجھے کہا کے مـیں نیچے کا دروازہ بند کر دوں
مـیں نے جا کر دروازہ بند کر دیـا تو فیضان مـیرا ہاتھ پکڑ کر انکل کے کمرے مـیں آگیـا اور مجھے پیـار کرنا لگا ،اس نے مرے ھوٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیـا اور چوسنے لگا،اور اپنا ایک ہاتھ مـیری شلوار کے اندر دل کر مرے چوتروں کو ملنے لگا جس کی وجہ سے مجھے بھوحت مزہ آرہا تھا.پھر فیضان نے اپنا لنڈ پنٹ سے باہر نکالا اور مجھے پکڑا دیـا.مـیں نے اک کا لنڈ پکڑ کر اوپر نیچے ہلانے لگا.
تھوڑی دیر گزارنے کے بعد فیضان نے انکل جمال کی الماری کھولی اور وہاں سے ایک کریم کی ٹیوب نکالا اور مجھے کپڑے اتارنے کو کہا جو مـیں نے اتار دیے.اور اپنی انگلی سے مـیری گانڈ کے جھید پر کریم لگی.
مـیں بولا. فیضان بھائی آپ یہ کیـا کر رہے ہو
فیضان بولا؛؛خالد اس کریم سے تمہاری گانڈ کا ہولے ہول نرم ہو جائے گا.
فیضان نے کافی کریم مـیری گانڈ پر ملی اور اپنی انگلی بھی اندر کرنے لگا جس سے مجھے بےانتہا درد ہوا اور مرے مو
سے چیخ نکل گی، تو فیضان نے انگلی کرنا بند کردی لیکن مرے لنڈ کو ہلانا بند نہیں کیـا جس کی وجہ سے مـیں گرم ہوتا رہا اور جب دوبارہ فیضان نے مـیری گانڈ مـیں انگلی کی تو مـیں اس درد کو برداشت کرتا رہا.جب فیضان نے یہ محسوس کیـا کے مـیری گانڈ نرم ہوہے تو اس نے مجھے کھڑکی کے پاس لیجا کرمـیز کے کونے پر الٹا لیتا دیـا. مـیرے پاؤں فرش پر تھے اور کمر مـیز پر ٹکی هوئ تھی.فیضان نے اپن لنڈ پر تھوک لگائ اور اپنا موٹا لنڈ مـیری گانڈ کے پر رکھ کر آہستہ سے اندر کرنے کی کوشش کی جو کامـیاب نہ هوئ.مجھے بھی درد ہو رہا تھا اور مـیری گانڈ بھی بھوحت ٹائٹ/ تنگ تھی
پھر فیضان نے اپنے اپنے لنڈ اور مـیری گانڈ پر تیل لگایـا اور اپنے لنڈ کو دوبارہ مـیری گانڈ مـیں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا.
اس نے مجھے مرے کندھوں سے پکڑ لیـا اور اپنا لنڈ مـیری گانڈ کے پر رکھ دیـا.پھر اس نے ہلکے ہلکے اندر کیـا لیکن مجھے درد ہوا اور مرے آنسو نکل پڑے پر مـیں سوچ لیـا تھا کے مـیں یہ سب برداشت کر لوں گا. مـیری گانڈ کا اب کچھ کھل گیـا تھا اور جب فیضان نے دیکھا کے مـیں تیـار ہوں تو اس نے اپنے لنڈ کا ٹوپا مـیری گانڈ مـیں داخل کردیـا.مـیری تو سانس رک گیی اور آنکھیں باہر کو آگیئں اور مـیں نے اپنی گانڈ بینچ لی تاکے فیضان اپنا لنڈ اور اندر نہ کر سکے، پر مـیں فیضان نے مجھے پوری ترہان اپنی گرفت مـیں جکڑا ہوا تھا اور مـیں ہل بھی نہیں سکتا تھا.فیضان نے اب اپنا ٹوپا مـیری گانڈ مـیں ایک جھٹکے کے ساتھ اندر کر دیـا ،مـیں درد سے بےحال ہو گیـا لیکن فیضان نے اپنا لنڈ مـیری گانڈ مـیں پورا گھسا دیـا اور پہلے ہلکے اور پھر پوری طاقت سے مـیری گانڈ مارنے لگا، وقت کے ساتھ مرے درد مـیں بھی کمـی ہوتی جا رہی تھی اور مـیں بھی مزے لے رہا تھا
اور مـیں نے اپنی گانڈ کو ڈھلا چھوڑ دیـا که تا کے
فیضان کا لنڈ پورا اندر جا سکے.
مرے اندر کچھ ہو رہا تھا ،مـیرا لنڈ بھی مـیز سے ٹکرا ٹکرا کر پورا تن گیـا تھا اور اوپر سے فیضان کے طاقت وار جھٹکے مجھے اور پاگل بنا رہے تھے،، مجھے لگا کے مرے لنڈ سے کچھ نکلنے والا ہے اور پھر سفید رنگ کا گھڑا پانی مرے لنڈ سے نکلا تو مجھے سکون ملا .. فیضان اب بھی اسی رفتار سے مـیری گانڈ مر رہا تھا ،، مـیں نے اس کو کہا ؛؛ اب بس کرو فیضان بھائی ، لیکن اس نے مـیری ایک نہ سنی اور مـیری گانڈ مارتا رہا جب تک اک کے لنڈ نے پوری پانی مـیری گانڈ مـیں نہ ڈال دیـا.
مجھے پہلی دفع گانڈ مرنے کا جو مزہ آیـا مـیں اس کو لفظوں مـیں بیـان نہیں کر سکتا.
اتنے مـیں باہر کی گھنٹی بیجی تو ہم نے اپنے اپنے کپڑے ٹھیکہ کیـا ، پھر مـیں نے دروازہ کھولا تو انکل جمال تھے. ان کے ساتھ جواد بھائی بھی تھے ،وو دونوں جلدی سے کمرے کے اندر آگے، بارش ابھی تک نہیں رکی تھی.
انکل جمال نے مجھے کہا کے جا کر امـی کو بتا دو کے مـیں آگیـا ہوں. مـیں نے نیچے اکر امـی اور فرح کو بتا دیـا کے انکل آگےا ہیں تو امـی اور فرح دونوں نے اطمـینان کا سانس لیـا اور امـی انکل کے لیـا کھانا بنانے لگ گیئں
مرے پیٹ مـیں بوہت درد ہو رہا تھا مـیں بیت روم چلا گیـا .. جب واپس سہن مـیں آیـا تو امـی نے کہا کے کیـا بات ہے ،تمہاری چال کیوں بگاڑ گیے ہے تو مـیں نے بہانہ بنایـا کے مـیں بارش مـیں پیسل گیـا تھا،
پھر امـی نے انکل جمال اور جواد بھائی اور فیضان بھی کو نیچے بلوایـا اور انھوں نے ہمارے ساتھ کھانا کھایـا اور کھانا کے بعد وو تینوں اوپر چلے گیـا.
مـیں اپنے کمرے مـیں اکر لیت گیـا کیوں کے مـیری گانڈ بوہت بری ترہان دکھ رہی تھی اور جھید بھی سوجھ ہوا تھا اور مـیں الٹا لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کے انکل کے کمرے مـیں گانڈ کے کو ڈھلا کرنے والی کریم اور پھر فیضان بھائی کو اس کا پتا ہونا . مری عقل کام نہیں کر رہی تھی ... کیـا انکل جمال کا جواد بھائی اور فیضان بھائی کے ساتھ کوئی گلط رشتہ ہے ،، کیوں کے فیضان اور جواد بھائی بوہت خوبصورت تھے لیکن دونوں کافی بدنام تھے ، پھر مـیں نے سوچ لیـا کے مـیں معلوم کر کے رہوں گا کے ان تینوں کے درمـیان کیـا رشتہ ہے.
کوئی ١٠ بجے کے قریب انکل نے آواز دی کے ابو کا ٹیلیفون آیـا ہے تو امـی،فرح اور مـیں اوپر چلے گیے .
وہاں پر انکل جمال تھے اور ان کے ساتھ جواد بھائی تھے اور فیضان بھائی اپنے گھر چلے گئے تھے
پہلے مـیں نے ابا سے باتھ کی اور نیند کی وجہ سے نیچے آگیـا . امـی اور فرح وہیں تھیں اور ابا سے بات کر رہیں تھیں
تھوڑی دیر کے بعد فرح غصّے سے بھری کمرے مـیں واپس آییں اور اپنے سنڈل اتار کر دیوار پر مـیرے اور بستر پر گر پڑیں.اور بولیں مـیں سب کو دیکھ لوں گی
مـیں نے حیران ہو کر پوچھا ؛؛؛ فرح کو دیکھ لو گی،،ی نے کچھ کہا تم کو.
مـیں اور فرح آپس مـیں فری تھے اور دوستوں کی ترہان باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں شیر کر لیتے تھے
فرح بولی ؛؛ یـار تم ہر بات مـیں کیوں بولتے ہو
مجھے فرح کا رویہ کچھ عجیب لگا مگر مـیں کچھ نہیں بولا.
مـیری بہن فرح کی سخصیت مـیں اتنی کشش تھی کے جو بھی اسے ایک بار دیکھ لیتا تھا اسے بار بار گھورتا تھا .خاص طور پر اسکول کے لڑکے سب کے سب فرح کے گرد پروانوں کی ترہان مڈلاتے تھے اور جو چیز اسے ممتاز کرتی تھی وو اس کے چوتر یعنی گانڈ تھی.گول گول اور ابھری هوئ ، خمدار کمر ، مناسب مگر ذرا بڑے بریسٹ، لمبا قد امـی کے برابر،،
ان سب کے ہوتے ہووے کیـا کوئی ان کو نظر انداز کر سکتا ہے.
پھر مـیں نے فرح سے کچھ نہیں پوچھا کے وہ کو دیکھنے کا کہ رہی ہے.
فرح کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اس نے مجھ سے کہا کے کیـا مـیں نے کمپوٹر استعمال کرنا ہے ،تو مـیں نے اس کو کمپوٹر چلا کر دے دیـا. (یہ کمپوٹر انکل جمال نے فرح کو اس کی ضد پر لیکر دیـا تھا اور ساتھ مـیں مائک اور کیمرہ بھی دیـا تھا) فرحی سے باتیں کرنے لگی .اور جب فیضان کا ذکر آیـا تو پتا چلا کے وہ فیضان کی چھوتی بہن فائزہ سے باتیں کر رہی ہے. وہ اپنے اسکول کی باتیں کر رہی تھی اس لیـا مـیں نے کوئی خاص خیـال نہیں کیـا.
مـیری امـی ابھی تک انکل کے کمرے مـیں تھیں اور مـیں ان کا انتظار کر رہا تھا.بارش ابھی تک رکی نہیں تھی بلکے اس کی شدّت مـیں اور اضافہ ہو رہا تھا.تھوڑی دیر کے بعد انکل جمال نیچے ایے اور مـیرے پاس بیٹھ گیے. مـیں نے ان سے امـی کا پوچھا تو انہوں نے کہا کے تو ابا سے بات کر رہیں ہیں اور تم فکر نہ کرو مـیں خود ان کو چھوڑ جاؤں گا . اور پھر وو ایک تکیہ اور کمبل لیکر ے کہتے ہووے چلے گیے کے آج جواد بارش کی وجہ سے ان کے کمرے مـیں سویہ گا.انہوں نے کجھے اور فرح کو پانچ پانچ سو روپے بھی دیـا.
فرح کو نیند آ رہی تھی اس لیـا وو جلد سو گیئ
مـیں بھی سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا.پھر مـیں اٹھ کر باہر صحن مـیں چلا آیـا اور تیز ہوتی هوئ بارش کو دیکھنے لگا.اوپر جانے والی سیڑیوں کی لائٹ جل رہی تھی اور انکل جمال کا کمرہ بھی روشن تھا. مـیں یہ سوچ کر کے امـی کو سیڑیوں کی چابی دے دوں ،مـیں اوپر چلا گیـا .. اوپر کی چھت کا صحن کافی بڑا تھا اور کمرہ دو طرف سے کھڑکیـاں تھیں جو عام طور کھلی رہتی تھیں. مـیں دروازے کی طرف گیـا تو وو بند تھا. کمرے مـیں امـی اور انکل جمال کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں.مـیں نے امـی کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہیں آیـا ، کیونکے بارش کی تیزی اور ہوا کی آواز کا شور کافی تھا.مـیں اس کھڑکی کی طرف گیـا جو کھلی هوئ تھی.اندر امـی اور انکل جمال لوڈو کھل رہے تھے اور دونوں مسہری کے کنارے پر گھوٹنوں کے بل بیٹھے ہووے تھے اور دونوں کے گھوٹنوں پر کمبل ڈالا ہوا تھا اور اس کے اوپر لوڈو کی بساط رکھی هوئ تھی.امـی کے پیچھے جواد بھائی مسہری کے نیچے قالین پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے.
امـی کی پشت یعنی کہولے مسہری سے باہر نکلے ہووے تھے امـی کا سینہ ان کی رانوں پر تھا اور وو جھک کر کھیل رہیں تھیں
ان کے اس اسٹائل کو دیکھ کر مـیں حیرتزدہ رہ گیـا کے چلو انکل جمال کی بات تو ٹھیک ہے لیکن جواد بھائی تو غیر ہیں. امـی بوہت موڈرن تھیں وو زمانے کے مطابقچلتی تھیں . ان کے کپڑے بھی موڈرن ہوتے تھے . آج انہوں نے ہرے رنگ چھوتی اور تنگ قمـیض اور پیلے رنگ کی اونچی شلوار زیب تن کی هوئ تھی
امـی اور انکل جمال کے سر تقرباں ملے ہووے تھے اس ترہان امـی کا گردن سے نیچے کا حصہ یعنی سینہ عریـاں تھا.اور وو اس عریـانیت سے لاپرواہ ہو کر کھیل مـیں مصروف تھیں.
کچھ دیر کے بعد انکل جمال بولے ؛؛؛ جواد تم کہاں مصروف ہو
جواد بھائی ؛؛؛ انکل مـیں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ، بوہت اچھی فلم چل رہی ہے
انکل جمال؛؛ تم بور تو نہیں ہو رہے ہو ، تم بھی آجاؤ ،ہم تینوں مل کر کھیلتے ہیں اور امـی سے بولے کیوں پارو،
امـی بولیں ؛؛ مجھے کوئی اعتراض نہیں
جواد بھائی بولے ؛؛ نہیں آنٹی ، آپ کھیلیںمـیں اپ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں .
اور جواد بھائی امـی کی چوتروں کے قریب ہو کر زمـیں پر بیٹھ گیےاور اس ترہان بیٹھے کے ان کا ایک کندھا امـی کے چوتروں مـیں گھس رہا تھا.
امـی نے اس بات کا کوئی نوتکےنوٹس نہیں لیـا بس وو اپنے کھیل مـیں مصروف رہیں. کوئی دس منت کے بعد جواد بھائی نے اپنے کندھے پر ہاتھ سے خارش کی تو امـی نے مڑھ کر جواد بھائی کی طرف دیکھا تو جواد بھائی نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا لیـا.
جواد بھائی نے اس حرکت کو کی دفع دوہرایـا تو پھر امـی نے کوئی حرکت نا کی. جب امـی نے جواد بھائی کو کچھ نہیں کہا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امـی کے چوتروں کو سہلانا شروع کردیـا.
انکل جمال نے امـی سے کہا کے مـیں واش روم سے ہو کر اتا ہوں بس یہی کوئی دس منت مـیں. اور وہ یہ کہ کر کمرے سے باہر آگیـا
جس وقت جواد بھائی امـی کے چوتروں پر ہاتھ پھر رہے تھے تو ان کا جسم مرے سامنے آگیـا تھے اس لیـا مجھے سب کچھ جو انہوں نے کیـا تھا نظر نہیں آیـا.جیسے ہی انکل جمال باہر گیے تو جواد بھائی نے تھوڑی سا ہلے تو مـیں نے دیکھا کے ان کا کندھا مـیری امـی کی گانڈ مـیں گھسا ہوا ہے. امـی بولیں ؛؛ جواد یہ کیـا کر رہے ہو تم.
جواد بھائی بولے ؛؛ سوری آنٹی مجھے خیـال نہیں رہا.اپ لوگوں کے کھیل دیکھنے مـیں مشغول تھا.
امـی اور جواد بھائی دونوں انجاں بنے رہے اور اسی ترہان بیٹھے رہے ،خاص طور پر امـی اسی ترہان گھوٹنوں کے سہارے بیٹھی رہیں
امـی بولیں؛ جمال ابھی تک نہیں آیـا
جواد بھائی بولے؛؛ آنٹی مـیں دیکھ کر اتا ہوں
امـی؛ نہیں نہیں وو خود آجاے گا، اور تم کجھ کو آنٹی مت کہا کرو
جواد بھائی بولے ؛؛؛ پھر آپ کو نام سے موخاطب کیـا کروں
امـی بولیں پروین یہ باجی کہا کرو
جواب بھائی بولے ؛؛ مجھے پروین اچھا لگتا ہے
امـی ہنستے ہووے بولیں ؛؛ جواد تم مجھے جس نام سے پوکرو مجھ کو اچھا لگے گا. کیـا تم اسکول نہیں جاتے
جواد بھائی ؛؛ نہیں پروین، مـیں گھر ہوتا ہوں یہ پھر جب انکل جمال اتے ہیں تو ادھر آجاتا ہوں
امـی بولیں ؛؛ مـیں بھی اکیلی ہوتیں ہوں گھر مـیں شام تک، اور اگر تم فری ہوتے ہو تو مورننگ مـیں آجایـا کرو
جواد بھائی خوشی سے بولے ؛؛؛ مـیں آجاؤں گا پروین
امـی ؛ جو ذرا جمال کو دیکھ کر آو
جواد بھائی اٹھے تو مـیں نے دیکھا ،ان کا لنڈ تنا ہوا تھا، امـی نے بھی اس کے لنڈ کی طرف ایک نظر ڈالی اور بولیں ؛؛ جواد کل تم جلدی آجانا .
انکل جمال بھی واپس کمرے مـیں آگے، تو امـی بولیں ؛؛ جمال اب مـیں جاتی ہوں رات کے ١٢ بج گیئں ہیں.انکل جمال امـی کو چھوڑنے نیچے سیڑیوں تک آگے. مـیں ووہان پر چپ کر کھڑا تھا کے جب امـی نیچے اور انکل اپنے روم مـیں واپس آییں تو مـیں اپنے کمرے مـیں واپس جاؤں.
لیکن مـیری آنکھیں اس وقت حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گیئں جب امـی نے انکل جمال کو پیـار کیـا اور کہا کے مـیں تمہارا انتظار کر رہی ہوں جب جواد سو جاے تو تم مرے کمرے مـیں آجانا ،مـیں دروازہ کھلا رکھوں گی.
انکل جمال بولے؛؛؛ پارو ، جواد جیسے ہی سوتا ہے مـیں اسی وقت آجاؤں گا.
پھر امـی نیچے چلیں گیں اور انکل جمال اپنے روم مـیں آگے، اور مـیں اپنے روم مـیں جانے لگا تو انکل جمال اور جواد بھائی ایک دوسرے سے لپٹ کر پیـار کرنے لگے.اور جواد بھائی نے انکل جمال کی گانڈ کو دبانا شروع کر دیـا ،، مجھے اب یقین ہوا کے انکل یـا تو گانڈو ہیں یـا لونڈے باز ہیں
پھر مـیں وہاں سے چلا آیـا اور اپنے بستر پر لیٹ گیـا،اور مرے ماضی کے سین ایک فلم کی ترہان مرے سامنے چلنے لگے.
انکل جمال کا اپنی چھوتی عمر کے لڑکوں سے دوستی ،امـی کا روز رات کو ان کے کمرے مـیں جانا جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے،امـی کے پاس روپیوں کا ہونا،فرح کا ان کے ساتھ دوستانہ اور اس کو جیب خرچ دینا وو بھی ٥٠٠٠ ہزار روپے ماہانہ ...
ے سب باتیں مرے ذھن مـیں سوار تھیں اور مـیں ان سب باتوں کا جواب چاہتا تھا.
مـیری آنکھوں مـیں نیند غیب تھی اور مـیں بیچنی سے انکل جمال کے انے کا انتظار کر رہا تھا،.ایک بجے سیڑیوں کا دروازہ کھلا اور انکل اور جواد غسل خانے مـیں گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جواد بھائی انکل کے روم مـیں چلے گئے . مـیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا اور مـیں نے اپنا کمرہ بند کر کے لائٹ بھی بھجھائی هوئ تھی. امـی کے کمرے کی بتی روشن هوئ اور امـی باہر آییں اور غسل خانے کا دروازہ کھٹکایـا.انکل نے دروازہ اوپن کیـا اور امـی کو اندر کھینچ لیـا ، مـیں فورن صحن کے راستے امـی کے روم مـیں گیـا اور وہ دروازہ جو مرے کمرے مـیں کھلتا تھا وہ کھول کر اس مـیں سے اپنے روم مـیں آگیـا
اب مـیں رات کوی وقت بھی امـی کے کمرے مـیں دیکھ سکتا تھا.غسل خانے سے امـی اور انکل جمال کی ہنسنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہیں تھیں، وو دونوں باہر آے اور امـی انکل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے مـیں لے گیئں
انکل جمال بلکل ننگے تھے اور امـی کے کپڑے بھی پانی سے بھیگے ہووے تھے
جب انکل اندر کمرے مـیں داخل ہووے تو امـی نے صحن کا دروازہ بند کر دیـا اور ایک دم انکل سے لپٹ گیئں.اور انکل کے ہونٹ چومنے لگیں ، پھر امـی نے انکل کو دھکا دے کر بستر پر گرایـا اور اپنے کپڑے اتار کر انکل کے اوپر بیٹھ گیئں
اور انکل کے دونوں بازووں کو پہلا کر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگیں، وہ انکل کے لنڈ پر بیٹھی تھیں اور اپنی چھوٹ کو انکل جمال کے لنڈ پر رگڑ رہیں تھیں.
مـیں سکتے مـیں یہ سب دیکھ رہا تھا،اور یہ سوچ رہا تھا کے کب سے ہو رہا ہے.یہ حرام کاریـاں کب سے ہو رہی ہیں,
مـیرے کمرے مـیں مـیری بڑی بہن فرح سوی هوئ تھی اور امـی اپنے کمرے سے اپنے شوہر کے بھائی سے کھودے چودآیی کروا رہی تین. خیر امـی اوپر سے انکل کے لنڈ کو اپنی چھوٹ پر رگڑھ
رہیں تھیں اور انکل جمال امـی کی مست گانڈ مـیں ہاتھ پھر رہے تھے. پھر امـی اوپر سے ہٹ گیئں اور انکل جمال کے ساتھ بیٹھ گیئں ،اور ان کے لنڈ کو ہاتھوں مـیں پکڑکر چوسنے لگیں ،یوں لگتا تھا کے وو اس کام مـیں بوہت ماہر ہیں وہ انکل کا لنڈ اور انکل جمال امـی کی گانڈ مـیں انگلی کر رہے تھے.امـی کی گانڈ مرے دروازے کے بلکل قریب تھی اور جہاں سے مـیں دیکھ رہا تھا ووہان سے کوئی تین فیٹ دور تھی اور جب انکل جمال امـی کی گانڈ مـیں انگلی کرتے تھے تو امـی اپنی گانڈ اور کھول دیتی تھیں
اور پھر انکل جمال کی پوری انگلی امـی کی گانڈ کر اندر تک جاتی تھی ،انکل جمال بھی کبھی ایک اور کبھی دو انگلیـاں ڈالتے تھے.
امـی مزے سے انکل جمال کا لنڈ اور ٹتے کو دیوانہ وار چوس رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انکل جمال کی گانڈ تک کو چوم رہی تھیں.
مـیرا لنڈ یہ چودائی کا منظر دیکھ کر تن گیـا تھا اور مـیں نے بھی اپنے پاجامے کا ایلسٹک نیچے کر کے اپنی مٹہ مارنے لگا.
امـی بولیں؛؛ جمال جان، اب تم بھی مـیری چھوٹ کو چاٹو
یہ کہ کر امـی بسٹر پر لائٹ گیئں اور انکل جمال کو اوپر انے کو کہا
انکل جمال بسٹر پر کھڑے ہووے تو مجھے ان کا لنڈ نظر آیـا ، ان کا لنڈ کوئی زیـادہ بڑا نہیں تھا یہی کوئی چھ انچ کا ہو گا لیکن موٹا بوہت تھا .
انکل جمال مـیری امـی کے اوپر لیت کے امـی کے موممے چوسنے لگے اور اپنا لنڈ امـی کی چوٹ پر رگھرنے لگے امـی کی حالت قبل یہ دید تھی، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے انکل جمال ان کی پھددی مـیں اپنا لنڈ جلدی سے ڈال کر ان کو چود دے.لیکن جمال انکل تو امـی کے مممے چوسنے مـیں مصروف تھے. امـی نے انکل جمال کو کہا ؛جانو اب مجھ سے صابر نہیں ہوتا ،تم اپنے لنڈ کو مـیری چوٹ مـیں ڈال دو اور مـیری آگ ٹھنڈی کر دو.
انکل جمال نے جب دیکھا کے مـیری امـی بوہت گرم ہو گیئں ہیں تو انھوں نے اپنا لنڈ مـیری امـی کی چوٹ مـیں ڈال دیـا اور اندر باہر کرنے لگے.
جیسے جیسے انکل نے اپنی رفتار بڑھای امـی کی آوازیں نکلنے لگیں
اور امـی نے اپنی ٹاگوں کو انکل جمال کی کمر کے گرد لپٹا لیے
انکل جمال بولے''' پارو
اپنی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ لو تو پھر مـیرا لنڈ تمہاری چوٹ مـیں اندر تک جائے گا،
امـی نے اپنے سر کا تکیہ اپنی گانڈ کے نیچا رکھ کر جمال کو کہا ؛؛ اب تم ڈال دو اپنا لنڈ
انکل جمال نے اپنا چھوٹا سا لنڈ امـی کی سے نکالا اور پھر پوری طاقت سے اندر گھسسہ دیـا .اور دھکے لگانے لگے . امـی بھی پورا پورا انکل جمال کا ساتھ دے رہیں تھیں اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف اپنی گانڈ کو ہلا رہیں تھیں
امـی کی ٹانگیں آسمان کی طرف تھیں اور تکیہ نیچے ہونے کی وجہ سے انکل جمال کا لنڈ امـی چوٹ کے اندر تک آ اور جا رہا تھا،اور امـی بھی پوری ترہان لفت اندوز ہو رہی تھیں. تھوڑی دیر اسی طریقے سے چدوانے کے بعد امـی نے انکل کو کہا کے مـیں گھوڑی بن جاتی ہوں تم پیچھے سے مـیری چوُت مارو،
پھر امـی گھوڑی بن گیئں اور انکل جمال نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر امـی کے چتروں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول لیـا اور ان کی چوت مـیں اپنا لنڈ ڈال کر چودنے لگے
جب انکل کا جسم امـی موٹے چتروں سے ٹکراتا تھا تو تھب تھب کی آوازیں اتی تھیں اور انکل پوری قوت سے امـی کی چوت ماررہے تھے؛؛انکل جمال نے امـی کو بولا کے مـیں نکلنے کے قریب ہوں
اور انہوں نے اپنے دھکوں کی شدّت مـیں اضافہ کر دیـا ،ادھر امـی نے اپنی چوت کے دانے کو زور زور سے مسلنا کیـا تاکے وہ انکل جمال کے ساتھ ہی اپنا پانی نکال لین،اور ایک زوردار جھٹکے کے انکل جمال نے اپنی منی امـی کی چوت مـیں اگل دی اور کچھ ہی سیکنڈ کر بعد امـی کی چوت کا پانی بھی نکال گیـا،
دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹ کر خاموش لیٹے رہے
مرے برا حال تھا اور مـیں برابر مہت مارنے مـیں لگا ہو تھا.تھوڑی دیر مـیں مـیں بھی فارغ ہو گیـا اور کمرے کے پردوں سے اپنا لنڈ صاف کیـا اور پھر امـی اور انکل جمال کا تماشا دیکھنے واپس آگیـا
انکل جمال ابھی تک امـی کے اوپر تھے اور امـی الٹی لیتی ہویں تھیں،جب انکل جمال نے امـی کی چوت مـیں سے اپنا لنڈ نکالا تو وو امـی کی منی اور ان کی منی سے لت پٹ تھا. جیسے امـی نے اپنے ہونٹوں سے صاف کیـا.
رات کے دو بج چکے تھے.امـی اور انکل جمال ننگےھی لیٹے ہووے تھے.امـی کا سر انکل جمال گود مـیں تھے اور انکل جمال کے ہاتھ امـی کے سینے پر رکھے ہووے تھے اور وہ امـی کی چوچیوں کو دبا رہے تھے.مجھے یوں لگ رہا تھا کے امـی اور انکل جمال ایک دفع اور چدوائی کرنے کے موڈ مـیں ہیں،امـی اب سمٹ کر انکل کے سینے تک آگیئں تھیں اور انھوں نے انکل جمال کا ایک ہاتھ پکڑ اپنی گندی چوت پر رکھ لیـا اور ان کے ہاتھ کی ایک انگلی کو اپنی چوت کے اندر اور باہر کر رہی تھیں،اور اپنے دوسرے ہاتھ سے انکل جمال کا لنڈ ہلا رہی تھیں.
انکل جمال بولے؛؛؛؛ جانی ایسا مت کرو ، اب یہ کھڑا نہیں ہوگا
امـی بولیں؛؛؛ جمال مـیرا دل ایک دفع اور کرنے کو دل چاہ رہا ہے
انکل جمال ؛؛؛ یـار اب نہیں کھڑا ہو گا مـیرا لنڈ ،مـیں نے مورننگ مـیں کورٹ جانا ہے ، اب مت کرو
یہ کہ کر انکل جمال اٹھ گیے اور امـی کو پیـار کیـا اور اپنے کپڑے بدلے اور اپنے روم مـیں اوپر چلے گیے.امـی کچھ دیر تک یوہیں
لیتی رہیں پھر اٹھ کر نہایـا اور اکے بستر پر سو گیئں.
مـیں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو تین بجنے والے تھے اور پھر مـیں بھی بستر پر جا کر سو گیـا.
صوبھ مـیری آنکہ فرح کے جگانے سے کھلی ،اور سامنے گھڑی پر نظر پڑی تو نو بج رہے تھے اور فرح اسکول جانے کے لیـا تیـار تھی. مـیں نے ابھی ناشتہ بھی کرنا تھا اور انکل جمال کو کورٹ جانے کے لیـا دیر ہو رہی تھی، اوپر سے امـی ابھی تک سو رہیں تھیں.سو مـیں نے فرح کو کہا کے آج مـیں اسکول نہیں جاؤں گا.
فرح بولی؛ خالد امـی ابھی تک سو رہیں ہیں اور انکل جمال مـیرا انتظار کر رہے ہیں.مجھے آج اسکول مـیں دیر تک روکنا ہے . مـیری دو کلاسس ہیں ، اور تم امـی کو بتا دناکے انکل جمال مجھے کورٹ سے واپس اتے ہووے اسکول سے لے لیں گے.
مـیں بولا ؛؛؛ فرح تم فکر نا کرو
پھر فرح انکل جمال کے ساتھ اسکول چلی گیئ
مـیں نے ناشتہ کیـا اور امـی کے کمرے مـیں آیـا تو امـی بیسوده سو رہیں تھیں
مـیں نہانے چلا گیـا . جب مـیں نہ رہا تھا تو مجھے گھنٹی کی آواز آی، مـیں نے دروازہ سے جھانکا تو مجھے جواد نظر آیـا ، مـیں نے اس کو کہا کے وہ روکے ،مـیں کپڑے بدل کر اتا ہوں
جب مـیں غسل خانے سے باہر آیـا تو جواد بھائی صحن مـیں تھے اور امـی کے روم کا دروازہ کھٹکا رہے تھے ، مجھے دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سے گےا اور بولا .؛؛ خالد تم آج اسکول نہیں جو گے کیـا
مـیں بولا ؛؛؛ جواد بھائی اجج مـیں دیر سے اٹھا ہوں اس لیہ اسکول نا جا سکا
مـیری بات سن کر وہ کچھ پریشاں سے ہو گیے
اتنے مـیں امـی بھی اٹھ کر باہر صحن مـیں آگیئں
جواد بھائی نے امـی کو سلام کیـا ؛؛ کیـا حال ہے آنٹی
امـی بولیں؛؛ جواد مـیں ٹھیکہ ہوں بیٹا
پھر امـی نے مجھ سے پوچھا؛؛تم اسکول کیوں نہیں گیے
مـیں نے ان کو وجہ بتادی
وو غصّے سے بولیں . تم رات دیر تک جاگتے ہو اور پھر اسکول نہیں جاتے
جواد بھائی جلدی سے بولے ؛؛؛ کوئی بات نہیں آنٹی ، آپ فکر نا کریں مـیں خالد کو سمجھا لوں گا.
پھر امـی نہانے چلی گیئں اور مـیں غصّے سے اوپر انکل جمال کے روم مـیں چلا گیـا.
مرے پیچھے پیچھے جواد بھائی بھی اوپر آگے اور بولے؛؛؛
خالد کیـا تم نے فیضان سے کل گانڈ ماروی تھی
مـیں یہ سن کر ہکہ بکہ رہ گیـا ،،
جواد بھائی بولے؛؛ تم تو پکّے گانڈو ہو ،مجھے فیضان سب بتا دیـا ہے اور مـیں یہ سب تمھارے ابا کو،امـی کو اور انکل جمال کو اور اسکول مـیں سب کو بتا دوں گا.
مـیں نادامـی سے رونے لگا تو جواد بھائی مرے پاس اکر بولے؛؛ گانڈو پہلے گانڈ مرواتا ہے پھر روتا ہے
پھر بولے ؛؛ ایک شرط اگر تم پوری کرو تو مـیںی کو نہیں بتاؤں گا.
مـیں بولا ؛؛ آپ جو بھی کہیں مـیں مان لوں گا ، مگر اپی کو یہ بات نہیں بتانا
جواد بھائی نے مجھے گندی گندی گالیـاں دیں اور بولے؛مادر چود، تیری بہن کی چوُت مـیں لنڈ ماروں..تو خاموشی سے انکل جمال کے روم مـیں رہنا ،، مجھے تیری رنڈی امـی سے کام ہے. تم نیچے مت انا جب مـیں نا کہوں
مـیں بولا ؛؛ اچھا جواد بھائی
مـیں انکل کے روم مـیں چلا گیـا اور جواد بھائی نیچے چلے گیے
سیڑیوں پر ایک روشندان تھا جو بیک وقت صحن اور امـی کے روم مـیں کھلتا تھا
جواد بھائی کے جانے کے بعد مـیں سوچنے لگا کے امـی اور جواد بھائی اب کیـا کریں گے . مـیں جواد بھائی سے بوہت ڈرتا تھا مـیں کے سارا موحلہ کی ہی ان سے گانڈ پھٹتی تھی. مـیں نے حوصلہ کیـا اور روشندان کے پاس چلا گیـا . امـی اور جواد بھائی صحن مـیں بھیٹھے ہووے باتیں کر رہے تھے.
جواد بھائی ایک مظبوط جسم اور اونچا قد کے ملک تھے اور بوڈی بلڈر بھی تھے.اس وقت جواد بھائی نے پتلوں/جینس اور بغیر آستینوں کی
ٹی قمـیض پہنی هوئ تھی، امـی ٹیبل پر ناشتہ کر رہیں تھیں اور ساتھ والی کرسی جواد بھائی تگین پھیلا کر بیٹھے ہووے تھے.
امـی نے سفید رنگ کا ململ کا کرتا اور ململ کا اسی رنگ کا چست پاجامہ زیب تن کیـا ہوا تھا.اور اپنے گیلے بالوں کو تولیہ مـیں لپٹایـا ہوا تھا . مـیں نے ایک اور چیز نوٹ کی کے امـی نے بریزیر نہیں پہنا ہوا تھا اور کے گلے کے بٹن بھی کہولے ہووے تھے
ناستا کرنے کے بعد امـی نے جواد بھائی کو کہا کے یہاں تو بوہت گرمـی ہے چلو اندر چل کر بیٹھتے ہیں.دونوں اندراگیعے
امـی جب اٹھیں تب مـیں نے دیکھا کے ان کی قمـیض چھوٹی اور بڑے چک والی تھی اور ان کا پاجامہ بھی بوہت ٹائٹ تھا.
جب وو اندر کمرے مـیں گیے تو مـیں بھاگ کر اپنے کمرے مـیں آگیـا اور امـی کر کمرے کی ساتھ والی کھڑکی پر کھڑا ہو گیـا ، جہاں سے مـیں امـی کے روم مـیں دیکھ سکتا تھا. امـی قالین پے صوفے کے سہارے بیٹھ گیئں اور جواد بھائی بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گیے
امـی بولیں؛؛ جواد خالد کہاں ہے
جواد بھائی بولے؛؛؛ وو فیضان کے گھر گیـا ہے
امـی اطمنان سے بولیں ؛؛ یہ تو اچھا کیـا اس نے ،، جواد مـیں خالد کی طرف سے بوہت پریشان ہوں.، اس کے دوست اچھے نہیں ہیں
جواد بھائی بولے ؛؛؛ پروین ، مـیں دیکھ لوں گا اس کے دوستوں کو ،آپ فکر نا کریں ،، تم یہ بتاؤ کے تم نے مجھے کیوں بولیـا ہے.
امـی بولیں ؛؛ ہاں لیکن تم پہلے باہر کا اور سیڑیوں کا دروازہ بند کر کے او،وگرنہ بللی آجاتی ہے.
جواد بھائی دروازہ بند کرنے گیے تو امـی صحن مـین مـیں کھلنے والی کھڑکی پر جا کر کھڑی ہو گیئں.کھڑکی تھوڑا سا نیچے بنی هوئ تھی اور ایمـی اس کے چوکھٹ پر کھونیـاں ٹیک کر اور کافی جھک کر کھڑی تھیں اور اس ترہان ان کے چوتر باہر کی طرف نکل گیے. امـی کے ٹائٹ پاجامہ مـیں سے ان کی گانڈ صاف نومـیان ہوتھی. اب امـی کی پشت مـیری طرف تھی.
جب جواد بھائی کمرے مـیں واپس ایے تو امـی کو کھڑکی کے کھڑا دیکھ کر وہ بھی ان کے پاس ہی کھڑے ہو گیے اور امـی سے پوچھے لگے کے ان کو کیوں بولوایـا ہے .
امـی بولیں ؛؛ تم قمر کو جانتے ہو ، وہ جو ہمارے پڑوس مـیں رہتا ہے
جواد بھائی؛؛؛ہاں جانتا ہوں
امـی بولیں ؛؛ وہ فرح کو تنگ کرتا ہے
جواد بھائی ؛؛؛ مـیں اس کے سرے خاندان کو جانتا ہوں ؛؛ خاص طور پر اس کی بہن ریحانہ کو ، جس کا سرے موحلے سے چکّر ہے اور اس کی ماں بلقیس کو بھی جانتا ہوں ، اور تم پرواہ نا کرو مـیں سب ٹھیکہ کر دوں گا ، بس تم اتنا کرنا کے فرح کو کہنا کے جب قمر اس کو تنگ کرے تو وو مجھے فون کر دے ..
امـی بولیں ؛؛ نہیں جواد مـیں فرح کو کچھ نہیں کہوںسارا کام تم ہی نے کرنا ہے.
مـیں نے اندازہ لگایـا کے جواد بھائی کی نظریں امـی کے گریبان پر تھیں جس کے بٹن کھلے ہووے تھے. امـی نے پھر اپنی گانڈ پر ہاتھ پہرا اور کھاج کی جواد کو دکھاتے ہووے.جواد بھائی نے اپنے لنڈ پر ہاتھ پہرا اور امـی کی طرف اپنا رخ کر لیہ . امـی بدستور اپنی اپنی گانڈ کھجانے مـیں مصروف تھیں.
آج مورننگ سے ہی مطلع ابرآلود تھا. آسمان پر گہرے بادل چاھے ہووے تھے .پھر ایک دم بارش شروع ہو گیی.
امـی بولیں ؛؛ جواد دیکھو بارش شروع ہو گیی
جواد بھائی امـی کے پیچھے آکر اور امـی کے ساتھ اپنا جسم لگا کر کھڑے ہو گیے . ان کا لنڈ امـی کی گانڈ پر اور ان کے ہاتھ امـی کی کمر پر تھے. امـی کی خاموشی ان کی زبان بن گیی اور جواد بھی نے اس خاموشی کو امـی کا اقرار سمجھ لیہ
پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے امـی کی کرتا ہٹایـا اور اپنی انگلی سے امـی کے چوتروں مـیں انگلی کرنے لگے ، شاید امـی یہی چھتیں تھیں اسلئے انہوں نے جواد بھائی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکے اپنی کمر مـیں اور خم کر لیہ.
جواد بھائی کی ہمّت اور بڑھ گیی اور انہوں نے اپنا لنڈ اپنی پتلون سے نکالا اور امـی کے پاجامے کے اوپر سے ان کی گانڈ کے جھید پر رکھ کے کافی زوردار دھکے لگاے. اور امـی کو بالوں سے پکڑ لیہ.جواد بھائی بڑے ہی بےغیرت اور بدتمـیز لڑکے تھے ،ان کی زبان بوہت گندی تھی اوری کا خیـال نہیں کرتے تھے. اور اس لیہ سب کی ان سے گانڈ پہتی تھی.
جواد بھائی نے امـی کو سیدھا کیـا اور اپنے سینے سے لپٹا لیہ ،امـی بھی بیتاب ہو کر ان سے لپٹ گیئں اور جواد بھائی نے امـی کے ہونٹ چوسنے اور کاٹنے شروع کر دیے. امـی نے مست ہو جواد بھائی کے لنڈ کو پکڑ لیہ جو بلا موغلبہ دس انچ کا تھا.
مـیں نے آج تک اتنا لمبا لنڈ نہیں دیکھا تھا . مـیرا دل دھڑکنے لگا اور مـیں حیران ہو گیـا کے مـیری اپنی امـی اس ترہان کی حرکتیں کرتی ہیں جب ابا گھر پر نہیں ہوتے. اور یـا سب کچھ نجانے کب سے ہو رہا ہے.
اور مرے ذهن مـیں امـی کی حرکتوں کی ایک ریل سی مـیری آنکھوں مـیں گھومنے لگی اور وہ ساری باتیں یـاد انے لگیں جو اس وقت مـیں سمجھ نا سکا تھا.وہ امـی کا بازار جانا ، اور مختلف دوکانداروں سے ادھارگھر کا سامان خا اور ان کے پیسے واپس نا کرنا .اور بوہت سی باتیں جن کا ذکر اگر اپ لوگ چاہو گے تو پھری کہانی اور مـیں کروں گا، اس وقت تو جواد بھائی امـی کی چوُت کے مزے لے رہے تھے؛
امـی ابھی تک جواد بھائی سے لپٹی هوئ تھیں ایر جواد بھائی ممـی کے مممے چوس رہے تھے اور ان کا ایک امـی کی گانڈ مـیں گھسا ہوا تھا .
کبھی کبھی جواد بھائی امـی کی چھوت مـیں بھی اپنی انگلی ڈالتے تھے اور امـی ان کی اس حرکت سے بوہت لطف اندوز ہوتی تھیں. اس ترہان کرتے کرتے جواد بھائی نے امـی کا پاجامہ ان کی گانڈ سے نیچے اتار دیـا اور امـی کی گانڈ اپنی طرف کر لی؛ اب انہوں نے امـی کی ننگی گانڈ کے پر اپنی زبان رکھ کر امـی کی گانڈ چاٹنا شروع کر دی ،
امـی کا برا حال ہو گیـا ،ان کے مؤ سے سسکاریـاں نکال رہی تھیں اور جب ان کو اس گانڈ چاٹنے مـیں زیـادہ مزہ انے لگا تو انہوں نے اپنے دونوں چوتر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان کو اور کھول دیـا تاکے جواد بھائی کی زبان امـی کے گانڈ کے کے اندر تک چلی جایے.یہ عمل کوئی دس منت تک جاری رہا ،پھر امـی سے مزید ضبط نا ہو سکا اور انہوں نے کہا ؛؛؛
امـی ؛؛ جواد تم مجھے زیـادہ مت ترپاؤ، اپنی لنڈ مـیری گانڈ مـیں ڈال دو
جواد بھائی جو شاید نشے مـیں تھے امـی کی بیقراری دیکھ کر بولے؛
جواد بھائی ؛؛ ماں کی لوڑی، تم سرے جہاں سے چدواتی ہے ، کٹیـا ،رانڈ رنڈی ابھی جلدی بات کی ہے
اور جواد بھائی نے امـی کی گانڈ مـیں اپنی زبان ڈالنا جاری رکھی،
اور انہوں نے اپنی دو انگلیـاں امـی کی چھوت مـیں گسهردین. امـی کا اب تو اور بھی برا حال ہو گیـا ، انہوں نے کچھ اور برداشت کیـا پھر جواد بھائی سے التجا بھرے لہجے مـیں ان سے کہا
امـی؛ جواد مـیری گانڈ مـیں اپنا لنڈ ڈال دو نا ، مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا.
جود بھائی نے دیکھا کے امـی کی گانڈ کا چھید سوکڑنے اور کھلنے لگا ہے تو وو کھڑے ہو گیے اور اپنا لنڈ امـی کی تھوکوں بھری گانڈ پر رکھ دیـا اور امـی کو کندھوں سے پکڑ لیہ.
اور امـی سے کہا ؛؛ پروین مرے لنڈ کو ٹھیک اپنی گانڈ کے چھید پر رکھ لے اور اچھی ترہان اپنی گانڈ پر تھوک لگا .
انمـی نے اپنی تھوک سے اپنی گانڈ گیلی کی اور اپنی گانڈ کو اور جھکا لیہ.اور جواد بھائی کے لنڈ کو اپنی گانڈ کے چھید پر ٹیک دیـا
جواد بھائی نے جب دیکھا کے امـی اب بلکل گرم اور سیٹ ہیں تو انہوں نے ایک زوردار جھٹکے سے اپنا لنڈ امـی کی گانڈ مـیں گھسا دیـا.
درد کے مـیرے امـی کی چیخ نکل گیی اور انہوں نے جواد بھائی کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن جواد بھائی نے امـی کو اچھی ترہان قابو کیـا ہوا تھا.اور وہ پوری رفتار سے امـی کی گانڈ مارنے مـیں مصروف رہے ،امـی کی چیخیں اب ہلکی ہونے لگیں تھیں لیکن جواد بھائی کے زوردار جھٹکے کام نہیں ہووے تھے .
پہلے دس منت تو جواد بھائی نے اپنا لنڈ امـی کی گانڈ مـیں سے نکالا نہیں اور یونہی اپنے لنڈ کو باہر نکلے بغیر اندر ہی اندر دھکے لگاتے رہے.پر جب امـی کی گانڈ رواں ہو گیی تو جواد بھائی اپنا لنڈ امـی کی گانڈ مـیں پورا باہر نکال کر اندر گھسنے لگے ،جواد بھائی امـی کے مممے دبا رہے تھے اور امـی اب اپنی ہی چھوت مـیں انگلی کر رہیں تھیں،
مـیں نے بھی اپنا لنڈ شلوار مـیں سے باہر نکال لیہ تھا. اور مٹہ مارنے لگا ، یہ سب دیکھ کر مـیرا دل یہی کرنا چاہ رہا تھا.
ادھار جواد بھائی امـی کی گانڈ مارنے مـیں مصروف تھے اور جہاں تک مـیرا اندازہ تھا کے امـی کی چھوت نے پانی چھوڑ دیـا تھا ،وہ اس لیہ کے امـی اب جواد بھائی کے جھٹکوں کے جواب مـیں وہ گرمجوشی سے نہیں دے رہی تھیں. مگر جواد بھائی تو بس کچھ کھہ کر امـی کی گانڈ مار رہے تھے تقریباں ایک گھنٹے سے اور وہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے.بلآخر جواد بھائی نے اپنی منی مـیری امـی کی گانڈ مـیں چھوڑ دی اور کرسی پر بیٹھ گیے . امـی کی گانڈ منی اور غلاظت سے بھری هوئ تھی ، وہ اٹھیں اور جواد بھائی کا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے مـیں لے گیئں اور کوئی دس منت کے بعد وہ دونوں ننگے واپس کمرے مـیں اگیعے اور مسہری پر لیٹ گیے.
جواد بھائی بولے ؛؛ پارو تیری گانڈ بوہت ٹائٹ ہے . کیـا جمال تیری گانڈ نہیں مارتا
امـی بولیں ؛؛؛ پہلی دفع تم نے کیـا ہے ، جمال نے کبھی نہیں ماری.
جواد بھائی بولے؛؛؛ جھوٹ تو کیـا قمر کے باپ سے تیرا آنکڑا فٹ نہیں ہے.وہ تو پٹھان ہے اس کے تو مذہب مـیں لکھا ہوا ہے گانڈ مارنا اور مروانا ...
امـی بولیں ؛؛ نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیـا مرے ساتھ تم تو شک کرتے ہو
جواد بھائی ہنستے ہووے بولے ؛؛؛ ہاں ہاں تو تو بڑی معصوم ہے کٹیـا تیرے تو جمال بھائی ، قمر کا باپ ،بیکری والے بابا فضل اور وہ تمھارے بیٹے کے دوست کا بھائی اور ابا وہ سب تو تجھے سلام کرنے اتے ہیں.
امـی کچھ نہیں بولیں ... لیکن اندر اندر سے بوہت غصّے مـیں لگ رہیں تھیں، مگر جواد بھائی سے سب کی گانڈ پہتی تھی اس لیہ ان کی بھی بولتی بند تھی
جواد بھائی نے امـی کے پیت پر پیـار اور چوسنا شروع کیـا ، وہ کبھی کبھی امـی کی چھوت کی اوپر والی جگہ پر اپنے دانت گھڑدیتے تھے کے امـی کی چیخ نکل جاتی تھی. امـی سیدھی لیتی ہویں تھیں اور ان کی تگین کھلی ہوئی تھیں . ان کے اوپر پیت پر جواد بھائی کا موُن تھے اور جواد بھائی امـی سے خرمسٹیں کر رہے تھے.امـی کی چھوت مـیں انگلی کرنا ، ان کے مممو کو کاٹنا اورامـی کی بڑی بڑی کالی چوچیوں کو اپنے دانتوں سے کاٹنا ،، یہ سب امـی کو گرم کر دینے کے لیہ کافی تھا.امـی نے جواد بھائی کا لنڈ پکڑ لیہ اور اسے ہاتھ سے ہلانے لگیں تو وہ ایک دم تن گیـا.
امـی پیـار بھرے لہجے بولیں؛جواد تمہارا لنڈ پھر کھڑا ہو گیـا ہے.
جواد بھائی جو امـی کی چھوت چاٹ رہے تھے بولے؛؛؛ جان یہ پھر تمحے چوودنے کے لیہ تیـار ہے.
امـی بولیں ؛؛ پھر انتظار بات کا ہے چود لو ورنہ کوئی نا کوئی آ جایے گا.
جواد بھائی بولے؛؛؛ پارو آج تم مجھ کو یہ بتانا کے تم کو نے چودہ ہے.
امـی مزے سے شرشار لہجے مـیں بولیں ؛؛؛ ہاں بتا دوںلیکن پہلے مـیری آگ تو ٹھنڈی کر دو ، مـیں تو بیتاب ہوں تمہارا لنڈ اپنی چھوت مـیں لینے کے لیہ.
جواد بھائی ؛؛تو یہ لو ابھی تمہاری چھوت مـیں ڈال دیتے ہیں
یہ کہ کر جواد بھائی امـی کی ٹاگوں کے درمـیان آ گیے اور اپنا لنڈ امـی کی گیلی گیلی چھوت مـیں گھسسہ دیـا ..
امـی کی آہ نکل گیی اور انہوں نے اپنی ٹاگوں کو جواد بھائی کی کمر کے لپیٹ لیہ اور اپنی باہوں سے جواد بھائی کی گردن کو کر پکڑ لیہ . پھر انہوں نے جواد بھائی کے گھسسوں کا جواب اپنے زوردار گھسسوں سے دیـا.دونوں ایک دوسرے کو پوری طاقت سے گھسصے لگا رہے تھے اور امـی جواد بھائی کے ہونٹوں کو چوس رہیں تھیں .
پھر جواد بھائی نے امـی کی ٹاگین اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور امـی کے چوتروں کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیـا اور امـی کے اوپر آکر امـی کو چودنے لگے ،اس ترہان چودائی سے امـی کے گھوٹنے امـی کی گردن کے پاس تک گیے. اور جواد بھائی کا لنڈ امـی کی چھوت مـیں پورا آ جا رہا تھا .. کوئی دس منت کی چودائی مـیں امـی تو فارغ ہو گیئں لیکن جواد بھائی کا مست لنڈ امـی کی پھددی کو پڑھتا رہا .. پھر جواد بھی نکلنے کے قریب ہو گیے ،تو انہوں نے اپنا اپنا لنڈ امـی کی چھوت سے نکل لیہ اور امـی کے مون مـیں ڈال دیـا اور امـی کے مون مـیں چوٹ گیے . اپنی اک کی منی کا ایک ایک قطرہ پی گیئں .
جواد بھائی تھک کر امـی کے ساتھ ہی لیت گیے اور امـی بھی ان کے ساتھ لیت گیئں.
فرح کے اسکول سے واپس انے کا ٹائم ہو گیـا تھا . امـی نے اٹھ کر ووہی لباس پہن لیہ اور جواد بھائی نے بھی کپڑے پہن لیہ .دونوں باہر صحن مـیں اکر بیٹھ گیے.
آسمان پر پھر گہرے بادلوں سے بھر گیـا تھا،
امـی بولیں ؛؛؛ جواد اگر بارش ہوتو فرح کیسے گھر یہی گی.وہ تو چھتری بھی نہیں لے کر گیی ہے.
جواد بولے ؛؛ انکل جمال تو ہیں اس کے لیہ وہ اس کو چھوڑ جائیں گے؛
اتنے مـیں تیز بارش شروع ہو گیی . وہ دونوں اندر اگیعے.
جواد بھائی نے امـی کو پھر پکڑ لیہ ،
امـی؛؛ جواد اب نا تنگ کرو، فرح انے والی ہو گی
جواد؛؛ تو کیـا ہوا ، کیـا تم سمجھتی ہو کے فرح کو تمھارے کرتوت کا علم نہیں ہو گا.
امـی؛؛ پھر بھی مـیں اس کے سامنے کچھ نہیں کرتی.
جواد ؛؛ ہاں وہ بھی تمھارے سامنے کچھ نہیں کرتی ہو گی.
امـی؛ کیـا بکواس کر رہے ہو تم ، وہ مـیری بیتی ہے؛
جواد بھائی بولے ؛؛ کیـا پتا کی ہے وہ
امـی غصّے سے بولیں ؛؛ تم نے کیـا سمجھ رکھا ہے مجھے
جواد بھائی ہنستے ہووے بولے؛؛؛رنڈی
امـی بولیں؛؛ اپنے گھر کی بھی تم کو کوئی خبر ہے ؛؛
اب جواد بھائی بھی غصّے مـیں بولے؛؛کٹیـا تو اپنے گھر مـیں کیـا کیـا کرتی ہے مجھ کو سب معلوم ہے.قمے کے باپ ، بابا فضل ، خالد کے دوست کا بھائی اور اس کے ابا ،رمضان دودھ والا ، اور پتا نہیںکون ہیں انکل جمال کے علاوہ جو تجھ کو چود چکے ہیں.اوپر سے فرح بھی کوئی کم رنڈی نہیں ہے ،محلے کے دسیوں مردوں سے مزے لیتی ہے.
امـی نے اب کوئی جواب نہیں دیـا اور خاموش رہیں.
مـیں یہ سب سن کے حیران ہو گیـا . فرح بھی ایسی ہے یہ مجھ کو آج پتا چلا ..جواد بھائی جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے.
بارش تیز ہو گیی تھی، اتنے مـیں گھنٹی بجی ، جواد بھائی نے دروازہ کھولا تو فرح بھاگتی هوئ اندر آگیی. وہ پوری ترہان بھیگی هوئ تھی .
فرح ؛؛ جواد بھائی سلام
جواد بھائی نے جواب دیـا مگر ان کی نظریں فرح کے جسم کا تعف کر رہیں تھیں
فرح نے اپنا دوپٹتا اتار کر امـی کے بستر پر پھینک دیـا تو اسکے سفید رنگ کے چست لباس مـیں سے اس کا سارا بدن نظر انے لگا.
امـی بولیں ؛؛ فرح تم باورچی خانے مـیں جا کر کھانا گرم کر کے کھا لو اور خالد کو بھی بولالینا.
پھر امـی نے جواد بھائی سے کہا؛ جواد ہم اوپر جمال کے کمرے مـیں چلتے ہیں
مـیں ڈر گیـا کے اوپر اگر جواد بھائی نے مجھے نا پایـا تو مجھ کو مارین
گے. مـیں نے دیکھا کے جب فرح آی تھی تو جواد بھائی نے باہر کا دروازہ بند نہیں کیـا تھا ، مـیں موقعہ دیکھ کر باہر آیـا اور پھر واپس گھر مـیں آگیـا . اور پھر امـی کے کمرے مـیں آگیـا
جواد بھائی مجھ کے دیکھ کر بولے ؛؛ لو خالد بھی آگیـا ہے اور مـیں اب اوپر جا رہا ہوں اور انٹی آپ فرح کو کـه دو کے مرے لیہ بھی کھانا بنا لے.
امـی نے فرح کو کہا ؛؛ فرح آج خالد کا دوست بھی کھانا یہیں کھاۓ گا
ہمارا کچن برآمدے مـیں تھا ایک باہر کی دیوار تھی،دوسری طرف غسل خانے کی دیوار اور تیسری طرف مـیرا اور فرح کے کمرے کی دیوار تھی . اور ایک طرف کوئی دیوار نہیں تھی اس لیہ جو بھی کچن مـیں ہوتا تھا سب کو نظر اتا تھا.
فرح کچن مـیں جا کر روٹیـاں پکانے لگی موھڑے پر بیٹھ کر ،انہوں نے اپنی آستینوں کو چڑھا لیہ تھا اور اپنی شلوار کے پوہچوں کو بھی گھوٹنوں تک چڑھا لیہ تھا.. کم گھیرکی شلوار ،چھوٹی قمـیض ،کھلا دامن مـیں فرح کے مممے اور چوتر بوہت نومـیان ہو رہے تھے ،اس کے جسم کا ہر حصّہی کو بھی پاگل کر دینے کے لیہ کافی تھا.
امـی غسل خانے مـیں چلیں گیئں ،امـی کے جانے کے بعد جواد بھائی برآمدے مـیں اکر کھڑے ہو گیے اور فرح سے ہلکی آواز مـیں باتیں کرنے لگے.. مـیں صرف اتنا ہی سن سکا جو فرح نے جواد بھائی کو کہا کے آپ جب امـی سے بات کرلیں تو مجھے اشارہ کر دینا .. یہ موبائل پر بل دیدینا .پھر جب مـیری امـی نیچے اجایںتو مـیں اوپر آجاؤں گی.
امـی نہانے کے بعد غسل خانے سے نکلیں تو جواد بھائی نے ان کو اوپر چلنے کا اشارہ کیـا جس پر امـی نے سر ہلا دیـا تو جواد بھائی اوپر جمال انکل کے کمرے مـیں چلے گیے
پھر امـی بولیں ؛؛ خالد جب فرح کھانا بنا لے تو تم اوپر اکر دیدینا
اور خود اوپر چلی گیں. مـیں فرح کے پاس جا کر بیٹھ گیـا اور اس سے باتیں کرنے لگا.
مـیں بولا؛؛ فرح تم کو جواد بھائی کیسے لگتے ہیں
فرح بولی؛؛ مجھے تو ٹھیکہ لگتے ہیں اور تم یہ کیوں پوچ رہے ہو؛
مـیں گڑبڑا گیـا اور بولا؛؛ کچھ نہیں مـیں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں، کیوں کے یہ تو انکل جمال کے دوست ہیں پھر جب انکل گھر پر نہیں ہوتے تو وہ کیوں اتے ہیں ، اور امـی ان کا اتنا خیـال کیوں رکھتی ہیں
اور دیکھو کے اب امـی نے اپنے بالوں پر تولیہ لپیٹا ہوا تھا اور دریسسنگ گوں پہنا ہوا تھا اور وو اسی لباس مـیں اوپر چلیں گیئں.
فرح بولی ؛؛ تم تو پاگل ہو ، کچھ نہیں ہوتا امـی کے اوپر جانے مـیں ، جواد بھائی امـی سے بوہت چھوٹے ہیں. اور تم اپنے کام سے کام رکھا کرو .
مـیں چپ چاپ فرح کی باتیں سنتا رہا
فرح بولی؛؛ تم دو منت یہاں بیٹھو مـیں کپڑے بادل کر اتی ہوں ، پھر تم کھانا اوپر دے انا.
جب وو واپس آی تو اس نے باریک لوں کی قمـیض اور کپری پہنی هوئ تھی ،جس مـیں سے اس کی کالی برا اور لال جانگیـا صاف نظر آرہا تھا.
فرح نے مجھے کھانا دے انے کو کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کے امـی کو جلدی نیچے لے انا
مـیں جلدی سے اوپر چلا گیـا اور انکل جمال کے روم مـیں جا کر جواد بھائی کا کھانا ان کے دے دیـا.امـی اور جواد بھائی باتیں کر رہے تھے ؛ امـی صوفے پربیٹھی تھیں اور جواد بھائی ان کے ساتھ قالین پر نیچے بیٹھے تھے، امـی کے پاؤں مـیز پر تہے اور جواد بھائی اس مـیز کے ساتھ تھے .
مـیں نے امـی کو کہا کے فرح اپ کو بولا رہی ہے ، امـی نے کہا ٹھیکہ ہے تم چلو مـیں اتی ہوں
جواد بھائی بولے ؛؛ انٹی تم نے جانا ہے تو جاؤ، مـیں اب سونے لگا ہوں ،بس کھانا کہ کر آرام کر لوں گا
امـی اٹھیں اور مرے ساتھ نیچے آگیئں اور اپنے بستر لیت گیئں ،وہ رات کو بھی اچھی ترہان نہیں سوی تھیں اور دن کو بھی آرام نہیں کیـا تھا،بسترپر لیتے ہی ان کو نیند آگیی
فرح بار بار اپنے موبایل کی طرف دیکھ رہی تھی. پھر ایک گھنٹی بجی
فرح نے مـیری طرف دیکھا اور کہا ؛؛ خالد مـیں نے انکل جمال کے کومپوترپر اسکول کا کام کرنا ہے.تم ادھر ہی رہنا
مـیں سمجھ رہا تھا کے اب مـیری بہن کی باری ہے
فرح کے اوپر جانے کے کچھ ہی دیر کے بعد جواد بھائی نیچے ایے
اور مجھ سے کہا ؛؛ خالد تم اوپر مت انا
مـیں بولا ؛؛ اچھا
پھر وہ اوپر چلے گیے
مـیں نے کچھ دیر انتظار کیـا اور پھر مـیں بھی اوپر چلا گیـا اور دیکھا کے
فرح انکل کے کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی. جواد بھائی اس کے پاس کھڑے تھے
پھر فرح کھڑی ہو گیی اور جواد بھائی سے بولی؛؛ جواد تم مـیرا ایک کم کر دو گے؛؛
جواد بھائی نے پوچھا کیـا ؛؛
فرح ؛؛ قمر مجھے تنگ کرتا ہے . مـیرا باہر جانا مشکل ہو گیـا ہے
جواد بھائی نے شیخی ماری اور بولے ؛؛ فرح جی اس مادر چود کو مـیں تمھارے سامنے ماروں گا ، اسکی بہن ماریہ کی سب سے سامنے بے عزتی کر دوں گا . تم فکر نا کرو ، بس تم ایک دفع مـیرا اس سے ٹاکرا کروا دو پھر دیکھو مـیں تمھارے لیہ کیـا کیـا کر سکتا ہوں
فرح بولی؛؛ مجھے معلوم ہے کے تم نڈر ہو
جواد بھائی بولے؛؛ تم مرے ساتھ رہو مـیں سب ٹھیک کر دوں گا
فرح ؛؛ جواد مـیں تمھارے ساتھ ہوں ، بس تم مـیرا یہ کم کر دو ، ہم دونوں اچھے دوست ثابت ہوں گے
جواد بھائی بولے ؛؛ قسم سے ،، اور فرح کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگے
فرح نےی قسم کے غصّے کا اظہار نہیں کیـا بلکے جواد بھائی کو بڑھاوا دیتی رہیں .
فرح نے جواد بھائی کو بولا ؛؛ جواد تمہاری باڈی بوہت ورزشی ہے ، کیـا تم باڈی بلڈنگ کرتے ہو
جواد بھائی بولے ؛؛ ہاں مـیں نے جم جوئیں کیـا ہوا ہے
جواد بھائی بولے؛؛ فرح تم بھی بوہت خوبصورت جسم کی مالک ہو
اور تماری باڈیی موڈل سے کم اچھی نہیں ہے
فرح ؛؛ مجھے موڈل بنے کا بوہت شوق ہے اور مـیں روز اپنےآپ کو شیشے مـیں دیکھتی ہوں اور اداکاری کرتی ہوں جیسے کوئی موڈل کرتی ہے
جواد بھائی بولے ؛؛ فرح مـیرا ایک فوٹوگرافر جاننے والا ہے ، اور اس کا ایک سٹوڈیو بھی ہے. اگر تو چاہو تو مـیں اس سے بات کر لیتا ہوں ،وہ تمہارا فوٹو سیشن کر لے گا .
فرح ؛؛ پر امـی نہیں مانے گیں
جواد بھائی ؛؛ ان کو پتا بھی نہیں چلے گا
فرح بولی ؛؛ وہ کیسے
جواد بھائی ؛؛ تم اسکول سے واپس اتے ہووے ،ہر روز ایک گھنٹہ اس کے سٹوڈیو مـیں آجایـا کرو. اور امـی کو کہ دینا کے اسکول مـیں زیـادہ کلاسس ہوتیں ہیں
فرح بولی ؛؛ اسکول مـیں خالد بھی ہوتا ہے ،وہ امـی کو بتا دے گا
جواد بھائی بولے؛؛ خالد کی تم فکر نا کرو مـیں اس کو دیکھ لوں گا
اور اگر وہ نا مانہ تو ایک اور راستہ ہے مرے پاس مگر اس کے لیہ تم کو تھوڑا بہادر بانہ ہو گا
فرح بولی ؛؛ وہ کیـا راستہ ہے جواد
جواد بھائی تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ؛؛؛ تم سن نہیں سکو،تمہری امـی کے مطالق ہے ، اور تم شاید اسے جھوٹ سمجھو.
اگر تم ہمت کرو تو تمہاری امـی ایک سکنڈ مـیں ماں جیئں گی
فرح بولی ؛؛ جواد صاف صاف بات کرو ، مـیں موڈل بننے کے لیہ کچھ بھی کر سکتی ہوں
جواد بھائی فرح کو پکّا کر رہے تھے .ان کی خواہشوں کو ہوا دے رہے تھے
جواد بولے ؛؛ یـار تم ایک موکمّل موڈل ہو اور تم مـیں ہر وو بات ہے جو ایک اچھی موڈل مـیں ہو سکتی ہے
فرح بوہت خوش هوئ جواد بھائی کی باتیں سن کر اور وہ کھڑی ہو گیی
اور بولی ؛؛ جواد تم کتنے اچھے ہو ، گھر مـیں تو سب مجھ کو پاگل سمجھتے ہیں.لیکن ان کیـا پتا مـیں اس دنیـا مـیں کیـا حاصل کرنا چاہتی ہوں.
فرح اور جواد بھائی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور فرح اس دوران جواد بھائی سے بڑی پیـار سے باتیں اور ان کے ساتھ چپٹی رہی جواد بھائی بولے ؛؛ کل تمہاری امـی نے بازار جانا ہے ، وہ انکل جمال کے ساتھ جایں گیں ، کیـا تم بھی جاؤ گی
فرح بولی ؛؛ نہیں وہ جب بازار جاتیں ہیں تو مجھ کو نہیں لیکر جاتیں
جواد بھی بولے ؛ پھر کل دوپہر کو مـیں آجاؤں گا. مـیرا دوست ہے ایک جس کے پاس کیمرہ ہے . اس سے تمہاری فوٹو کھچوں گا
فرح بولی ؛؛ ٹھیک ہے .اب مـیں نیچے جا رہی ہوں
جواد بھائی کھڑے ہو کر بولے ..اچھا
اور فرح کی کمر پر ہاتھ رکھ دیـا ،فرح نے بھی ان کے ہاتھ کو دبا دیـا
جواد بھائی بولے ؛؛ فرح تم بوہت خوبصورت ہو اور تمہارا جسم بھی
فرح مسکراتے ہووے بولی ؛؛؛ کل جب تم مـیری تصویریں بناؤ گے تو مـیں دیکھونکے مـیں کیسی ہوں
مجھے یوں لگتا تھا کے فرح نے جواد بھائی کو قابو کر لیہ ہے اور وہ ان سے کوئی خاص کم لینا چھتیں ہیں،اور جواد بھائی یہ تو الو بن رہے ہیں یـا وہ امـی کی ترہان فرح کی چھوت کے مزے لینا چاہتے ہیں .
مـیں نیچے چلا آیـا اور امـی کے روم جھانکا تو امـی الٹی لیتے ہووے اپنے چوتر دبا رہیں تھیں
مـیں نے امـی سے پوچھا؛؛ امـی جان اپ کو کیـا ہوا ہے
امـی بولیں ؛؛خالد مـیری کمر مـیں درد ہو رہا ہے. مـیں غسل خانے مـیں پسل گیی تھی.
مـیں بولا؛؛ کیـا مـیں دبا دوں
امـی بولیں ؛؛ نہیں ، بس تو مجھے کھڑا ہونے مـیں مدد کر دے
مـیں نے فورن امـی کو ان کے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایـا اور اس عمل مـیں مـیرا بیٹھا ہوا امـی کے چوتروں کو لگا تو مرے بدن مـیں جیسے کرنٹ دوڑ گیـا . امـی اٹھ کر چلیں تو وہ اپنی ٹاگین کھول کر چل رہیں تھیں، اتنے مـیں فرح بھی خوش خوش کمرے مـیں آگیی
امـی فرح کو بولیں ؛؛ تو کہاں سے آرہی ہے بن ٹھن کے
فرح غصّے سے بولی ؛؛ امـی مـیں نے کبھی آپکو پوچھا ہے کے اپ کیـا کیـا کرتیں ہیں
امـی بولیں ؛؛ کیـا بول رہی ہے تو ، تیری زبان بوہت چلنے لگی ہے ، مجھ کو سب معلوم ہیں تیرے کرتوت
فرح بولی ؛؛ مـیں بھی جانتیں ہوں سب کچھ اپ کے بارے مـیں ، مـیرا مونہ مت کھولویں تو اچھا ہے.
امـی غصّے سے بولیں ؛؛ الینے دے تیرے باپ کو ، مـیں ان سے تیری تھوکائی کرواتی ہوں اور تیرے یـاروں کی بھی
فرح بولی؛؛ ہاں ہاں آپ بھی بتانا اور مـیں بھی بتاؤںآپکے لچھن اور اپ کے کرتوت جو اپ کرتی ہو
امـی اب ٹھنڈی آواز مـیں بولیں؛؛ فرح شرم کرو کوئی بیٹی اپنی ماں سے ایسے بولتی ہے. اچھا مجھے معاف کر دے ،تو تو بوہت سونی لڑکی ہے .
پھر امـی نے مجھے باہر جانے کو کہا اور مـیں کمرے سے نکل گیـا
امـی مرے نکلتے ہی فرح پر برس پڑیں اور اسے کہا کے خالد کے سامنے ایسی باتیں مت کیـا کرو
فرح غصّے مـیں اپنے کمرے آگیی .
شام ہو چکی تھی امـی بھی کپڑے بدل کر باہر صحن مـیں اکر بیٹھ گیئں.
امـی نے صحن کا دروازہ کھلا رکھا تھا اور ووی کا انتظار کر رہی تھیں . اتنے مـیں ماریہ باجی جن کی عمر کوئی تیس سال کی ہوہمارے گھر مـیں آگیئں. ماریہ باجی امـی کی خاص دوست تھیں. اور امـی سے کافی بے تکلّف تھیں. وہ اپنے بھائی نظام اور اپنی بھابی شانی کے ساتھ ہمارے محلے مـیں ہی رہتیں ہیں.ان کا کردار کوئی اچھا نا تھا. ان کی شادی نہیں هوئ تھی مگر ان کے چرچے اسلام آباد مـیں بھی مشور تھے .کو ایک سرکاری دفتر مـیں ملازم تھیں. اور وہ ہزارہ کی رہنے ولین تھیں.
خیر وہ امـی کے پاس اکر بیٹھ گیئں اور بولیں ؛؛ پروین کیـا بات ہے بڑی خوش نظر آرہی ہو کیـا بھائی صاحب اگائیں ہیں.
امـی بولیں ؛؛ نہیں ماریہ ایسی کوئی بات نہیں
ماریہ باجی بولیں ؛؛یـا کھلے کھلے سے گیسو یہ اڑی اڑی سی رنگت
امـی بولیں ؛؛ کچھ نیـا نہیں ہوا ہے. تم بتاؤ تمھارے عاشق الطاف کا کیـا حال ہے.
ماریہ باجی بولیں ؛؛ وہیں سے آرہی ہوں ، مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اور مـیں نے اس سے لیں ہیں.
امـی نے کہا ؛؛ کتنے لئے
ماریہ باجی بولیں ؛؛ پانچ ہزار، اچھا تم نے فلم دیکھنے چلنا ہے
امـی بولیں ؛؛ ہاں چلو مـیں تیـار ہوں
مـیرا دل بھی چاہ رہا تھا فلم دیکھنے کو .مـیں نے امـی کو کہا کے مجھے بھی ساتھ لے چلیں .امـی نے منہا کر دیـا مگر ماریہ باجی نے کہا .پروین لے لو خالد کو بھی اپنے ساتھ ،وو بھی دیکھ لے گا.
پھر ہم رکشا پکڑ کر صدر اگیعے . ماریہ باجی نے ٹکٹ لیہ .ہال تقریباں خالی تھا.ہم گلیری مـیں جا کر بیٹھ گیے ،ابھی فلم شروع نہیں هوئ تھی.ہال مـیں بوہت سیٹ خالی تین .ہماری والی لین تو بلکل خالی تھی.امـی پہلے پھر ماریہ باجی اور پھر مـیں بیٹھا تھا. ہم ایک کونے مـیں بیٹھے تھے .
ماریہ باجی نے ٹکٹ خریدے نہیں تھے ان ایک بڑی بڑی موچھوں والے ایک آدمـی نے ٹکٹ دیے تھے .
امـی نے ماریہ باجی سے پوچھا ؛؛ ماریہ یہ آدمـیتھا جس نے تم کو ٹکٹ دییں ہیں.
ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین یہ مـیرا ایک دوست ہیں جو مـیری موحبّت
مـیں پاگل ہے .اور یہ مرے بھائی کا دوست بھی ہے اور ہمارے گھر اس کا انا جانا ہے. ایک شادی شدہ آدمـی ہے لیکن اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہے.اس لیہ مـیں اس کا بوہت خیـال کرتی ہوں اور یہ مـیرا بھی اتنا ہی خیـال رکھتا ہے.(اور پھر امـی کے کان کے پاس ،ہلکی آواز مـیں بولیں کے یہ بھی ہمارے ساتھ فلم دیکھے گا.)
امـی بولیں ؛؛ ٹھیکہ ہے ، کیـا یہ مال دار آدمـی ہے
ماریہ باجی بولیں ؛؛؛ ہاں بوہت مال دار ہے . اس کی ایک مارکٹ ، اور چار گھر ہیں اور یہ سینما بھی اس کا ہے . تم کو ابھی پتا چل جایے گا جب وہ ہماری خاطر اور مدارات کرے گا.
سنیما ہال مـیں بوہت کم لوگ تھے ،ہمارے آگے اور پیچھے کی دو دو لینن خالی تھیں.
اتنے مـیں ایک آدمـی اکر ہممے کھانے پینے کی چیزیں دے گیـا.
پھر فلم شروع ہو گیی اور ہم سب کھاتے ہووے فلم دیکھنے لگے
مجھے فلم نظر نہیں آرہی تھی اس لیہ مـیں امـی اور ماریہ باجی کے درمـیان والی سیٹ پر آگیـا
امـی اور ماریہ باجی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھ لیں تھیں
پھر وو آدمـی جس نے ماریہ باجی کو ٹکٹ دیے تھے آیـا اور امـی اور ماریہ باجی کو سلام کیـا اور مجھ سے ہاتھ ملایـا.
ماریہ باجی نے ہمارا تعارف کروایـا . اس کا نام شاہ صاحب تھا اور ماریہ ان کو شاہ جی کـه کر موخاطب کر رہیں تھیں
ماریـا اور شاہ جی باتیں کرتے رہے اور ان کی باتوں سے مـیں ڈسٹرب ہو رہا تھا. مـیں نے ماریہ باجی سے کہا کے اپ امـی کے ساتھ بیٹھ جائیں اور انہوں نے فورن اٹھ کر اپنی سیٹ بدل لی ،اب مـیں امـی کے ساتھ اور شاہ جی امـی اور ماریہ باجی کے درمـیان مـیں تھے . امـی اور ماریہ باجی نے بدستور اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھیں هوئ تھیں اور شلواروں کے پونچھے ان کے گھوٹنوں تک ننگے تھے .
تھوڑی سے فلم دیکھنے کے بعد مـیں نے ماریہ باجی کی طرف چھوڑ نظروں سے دیکھا تو وہ شاہ جی کو پیـار کر رہیں تھیں
اور امـی کن انکھیوں سے ان کو دیکھ رہیں تھیں
امـی بولیں ؛؛ ماریہ ذرا خیـال سے خالد ساتھ ہے
ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین تم ذرا اپنی کمر ہماری طرف کر لو تاکے خالد کو کچھ نظر نا ایے
امـی نے اپنا مونہ مـیری طرف موڑ لیہ اور اپنی پشت شاہ جی کی طرف کرلی اور سیٹوں کے درمـیان جو ہاتھ رکھنے والی جگہ (ہنڈہولڈر ) اس کو بھی ہٹا دیـا اور اس طرح امـی کی سیٹ اور شاہ جی کی سیٹ ایک ہی ہو گیی. ادھار شاہ جی نے بھی ماریہ باجی والی سیٹ کا ہنڈ ہولڈر ہٹا دیـا . ماریہ باجی اور شاہ جی دونوں اپنی اپنی ٹانگیں سیٹ کر اوپر کر کے بیٹھ گیے.
مـیں اور امـی فلم دیکھنے مـیں مگن تھے . شاہ جی اور ماریہ باجی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے رہے.
مـیں اب ان کو صاف نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکے امـی بیچ مـیں تھیں اور مـیں کوشش کے باوجود ان دونوں کو دیکھنے مـیں ناکام رہا. بس ان کے باتیں کرنے ،ہسنے کی یہ پھر ماریہ باجی کی ہلکی ہلکی سسکاریـاں اور چوما چاٹی کی آوازیں آرہیں تھیں.
مـیرے پاس چپس ختم ہو گیے تو مـیں نے امـی سے کو کہا
امـی بولیں تم مـیرے چپس مـیں سے لےلو
امـی نے چپس کا بڑا لفافہ اپنی گود مـیں رکھا ہوا تھا. مـیں نے بیٹھے بھیٹھے اپنا ہاتھ بڑھا کر چپس لیتا رہا.اندھیرے کی وجہ سے مـیرا ہاتھ ہر دفع امـی کے پیٹ یہ رانوں سے ٹکراتا رہا
اور لفافے مـیں سے چپس لے کر کھاتا رہا.
پھر فلم اتنی اچھی تھی کے مـیرا پورا دایھاں فلم پر ہی مذکور رہا .
پھر انٹرول ہوا تو روشنی مـیں مـیں نے سب کو دیکھا ، ماریہ باجی ،شاہ جی اور امـی ٹھیکہ طرح بیٹھے ہوا نظر ایے
شاہ جی نے بیرے کو آواز دی تو اس کھانے کی کچھ اور چیزیں ہم کو لا کر دین. امـی شاہ جی سے بوہت متاثر نظر آتیں تھیں.
انٹرول ختم ہو اور مـیں دیکھا امـی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹ پر رکھ لیں اور اپنے چوتر سیٹ سے آگے کر لیہ. وہ اب فلم کم دیکھ رہیں تھیں بس ان کی نظریں شاہ جی اور ماریہ باجی پر گھڑی ہوئیں تھیں. مـیں نے بھی ان کو دیکھنے کی کوشش کی مگر اندھیرے کی وجہ سے کچھ دکھائی نا دیـا .
مـیں مایوس ہو کر فلم دیکھنے لگا . فلم مـیں اب مار دھاڑشروع ہو گیی جو مجھے پسند نہیں تھی . یوں لگتا تھا کے فلم اب ختم ہونے والی ہے .
مـیرا دل چپس کھانے کو چاہا تو مـیں امـی کی گود مـیں پرے ہووے لفافے مـیں ہلکے سے ہاتھ ڈالا تو وہاںی اور کا ہاتھ تھا.مـیں نے فورن اپنا ہاتھ کنچ لیہ .اور امـی کی طرف آگے ہو کر دیکھا تو امـی کی آنکھیں بند تھیں اور شاہ جی اپنے ہاتھ سے امـی کی چھوت مـیں انگلی کر رہے تھے .مـیں نے غور سے دیکھا تو شاہ کا لنڈ ماریہ باجی چوس رہیں تھیں اور شاہ جی ان سے چھپا کر امـی سے مستیـاں کر رہے تھے. مـیرے اندازے مـیں شاہ جی کی منی نکل گیی ، کیوں کے اب وہ پورجوشی کا اظھار نہیں کر رہے تھے.امـی کی شلوار گھوٹنوں تک اتری هوئ تھی اور وہ ابھی فارغ نہیں ہوئیں تھیں اس لیہ انہوں نے شاہ جی کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا.جب ماریہ باجی سیدھی ہویں تو شاہ جی نے اپنا ہاتھ امـی کی چھوت پر سے اٹھا لیہ. تو مـیں نے جان کر اپنا ہاتھ امـی کی گود مـیں ڈالا اور ظاہر یہ کیـا کے مـیں چپس لے رہا ہوں. مـیرا ہاتھ سیدھا امـی کی ننگے جسم سے ہوتا ہوا ان کی چھوت پر چلا گیـا.
امـی نے گھبرا کر مـیرا ہاتھ ہٹایـا اور اپنی شلوار اوپر کر لی.
مـیں بولا؛؛ امـی چپس کہاں ہیں
امـی نے چپ چاپ چپس کا لفافہ مجھے دے دیـا .
پھر گھنٹی بجی اور فلم ختم هوئ
ہم باہر نکلے تو دس بج چکے تھے ، شاہ جی نے پہلے ماریہ باجی کو ان کے گھر چھوڑا پھر ہممے گھر اتارا.
گاڑی سے اترتے ہووے شاہ جی بولے ؛؛ کیـا اپ کو فلم اچھی لگی
امـی ؛؛ ہاں شاہ جی بوحت مزہ آیـا
شاہ جی بولے ؛؛ اپ سے پھر کب ملاقات ہو گی
امـی مجھے دیکھتے ہووے بولیں ؛؛ کیوں کیـا ماریہ آپ کے لیہ کافی نہیں ہے.
شاہ جی . سوری ، آپ کو برا لگ کیـا
امـی نے مجھے کہا ؛؛ خالد تم اندر جاؤ
مـیرے جانے کے بعد امـی نے شاہ جی سے کچھ کہا جو مجھے سونائی نہیں دیـا . بس مـیں نے یہ دیکھا کے شا جی نے امـی سے ہاتھ ملایـا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلے گیے.
مـیں نے چابی سے دروازہ کھولا اور مـیں اور امـی گھر مـیں داخل ہووے تو فرح اور ہمارے ساتھ والے گھر کی پڑوسن کرن جو عمر مـیں فرح کے برابر تھی دونوں لوڈو کھیل رہے تھے.
فرح بولی ؛؛ آپ لوگوں نے بوحت دیر کر دی
امـی بولیں؛ فلم لمبی تھی ،سدس بجے تو ختم هوئ تھی
فرح ؛؛ امـی انکل جمال گوجر خان گیے ہیں ،وو آج گھر نہیں آییں گے .
امـی کے چہرے پر اداسی چاہ گیی.. اچھا ، تم نے کھانا کھایـا کیـا .
فرح ؛؛ جی
مـیں بولا ؛؛ مجھے تو بھوک نہیں ہے
امـی بولیں ؛؛ مـیں نے بھی کھانا نہیں کھانا ہے.
فرح بولی ؛؛ امـی کرن کے گھر آج اس کی امـی اکیلی ہیں ، اور انہوں نے مجھے بولایـا ہے کرن کے ساتھ سونے کو . مـیں آج رات کو اس کے گھر جاؤں گی. اور یہ کہ کر فرح اور کرن چلیں گیئں.
امـی مـیرے ساتھ اپنے کمرے مـیں آگیئں
امـی مجھ سے نظریں نہیں ملا رہی تھیں . اور ان کا چہرہ بھی پیلا ہوگیـا تھا. مـیں سمجھ گیـا تھا کے ایسا کیوں ہے ، مـیں نے ان کی چوری پکڑ لی تھی اور وہ مـیری طرف سے پریشاں تھیں
مـیں اپنے کمرے چلا گیـا اور کپڑے تبدیل کیے . گرمـیوں کے دن تھے اور حبس بھی ہو گیـا تھا . مـیں نے نیکر اور بنیـان پہن لی اور برآمدے مـیں آگیـا . امـی نے بھی کالے رنگ کی کوٹن کی باریک نائٹی پہن لی تھی اور ٹی وی دیکھ رہیں تھیں. اتنے مـیں امـی کے موبائل کی بل بجی.
امـی نے فون اٹھایـا اور بولیں ؛؛اسسلام علیکم
پھر بولیں ؛؛ شاہ جی کیـا ہال ہیں-- اچھا آپ پونچھ گیے ہیں -- کیوں دل نہیں لگتا --- مجھ مـیں ایسا کیـا ہے--- کیـا ماریہ سے بھی زیـادہ --- تو مـیں کیـا کروں---- مـیں شادی شدہ ہوں اور مـیرے دو بچے ہیں---- تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کے مـیں صرف ایک دوست بناتی ہوں اور شراکت مجھے پسند نہیں ہے.----- شاہ جی آپ مرہ بات کا برا نہیں ماننا --- مـیرے دیور مـیرے ساتھ رہتے ہیں .... جی---- آپ مجھے مجبور نا کریں------شاہ جی ابھی تو مـیں تھک گیی ہوں ،ہم کل بات کریں گے ... جی مورننگ مـیں مـیں گھر پر ہوتیں ہوں --- جی کل کر لیںی وقت بھی -- اوکے الله حافظ.اور پیسوں کا شکریہ .
( یہ امـی کی باتیں تھیں ، مجھے شاہ جی کی آواز نہیں آرہی تھی)
پھر مـیں امـی کے روم مـیں اکر ٹی وی دیکھنے لگا.
امـی نے مجھے اپنے پاس بولایـا اور کہا ؛؛ خالد تمہاری اسٹڈی کیسی چل رہی ہے.
مـیں بولا ؛؛ امـی جان ٹھیک چل رہی ہے.
امـی بولیں ؛؛ تم کو اب جیب خرچ کم پڑتا ہو گا
مـیں بولا ؛؛ ہاں کم تو پڑتا ہے
امـی بولیں ؛؛؛ جا مـیرا الماری سے مـیرا پرس نکل لا
مـیں امـی کی الماری سے ان کا پرس کو نکل کر ان کو دیـا .تو انہوں نے مجھے ایک ہزار روپے دئیے. مـیں نے خوسی سے وہ ان سے لے لیے.
پھر امـی نے مجھے پیـار کیـا اور کہا ؛؛ تو مـیرا چاند بیٹا ہے ؛
اور مجھے تجھ پر بڑا مان ہے. تو اپنی امـی کا بوحت خیـال رکھتا ہے. اور تجھے جب پیسوں کی ضرورت پڑے تو مجھ سے پوچھے بھغیر مـیرے پرس سے لے سکتا ہے.
مـیں نے امـی کو کہا ؛؛ امـی آپ بوحت اچھی ہیں .
امـی کے دل کو اب ذرا اطمنان ہو تھا .اور اب وہ آرام سے باتیں کر رہیں تھیں
: انٹی کی چودایی




[انٹی کی چودایی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Mon, 03 Sep 2018 06:11:00 +0000



انٹی کی چودایی

Posts (Atom) - HOTURDUSTORIES

tag:blogger.com,1999:blog-38603961608204802512018-08-29T19:08:38.106-07:00

HOTURDUSTORIES

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.comBlogger25125tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-88537361028940915502012-07-09T09:03:00.002-07:002012-07-09T09:03:34.021-07:00

Its Amazing

<br /><br /><ul><li><span style="background-color: انٹی کی چودایی white; font-size: large;"><b><span style="color: #990000;">&nbsp;نام سعد ھے۔مـیں ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ھوں۔مـیرا کلر تیکھا گندمـی ھے اور مـیری ھائٹ 5 فٹ اٹھ انچ ھے۔۔مـیری انکھیں گہری بران ھے اور مجھ مـیں سب سے زیـادہ لبھانے والی بات مـیرا بھولا بھالا اور معصوم سا چہرہ ھے۔مجھے دیکھتے ہی ہر شخص متاثر ہوجاتا ھے۔ایک بات جو مـیں نے بہت پہلے نوٹ کرلی تھی کہ مجھے خوبصورت لڑکے اٹریکٹ کرتے ہیں اور انھیں دیکھتے ہی مـیرے دل مـیں عجیب سا احساس جاگ جاتا ھے۔پہلے تو مـیں اس بات کو نھیں سمجھ پایـا لیکن اہستہ اہستہ مجھے اندازہ ہو گیـا کہ مـیں لڑکوں مـیں سیـاٹریکشن محسوس ہوتی ہے اور حقیقت مـیں مـیں لڑکوں کو پیـار کرنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مـیں حد سے زیـادہ شرمـیلا تھااوری کے ساتھ سیکرنا تو دور کی بات اگری کی طرف سے ایسا اشارہ بھی ملتا تو چاہنے کے باوجود مـیں اپنے سخت رویے سے ان کی حوصلہ شکنی کردیتا۔کسی کو ہمت ہی نہیں ہوئی کے مجھ سے اس حوالے سے کوئی بات کرپاتا،ایک طرف مـیں چاہتا تھا کہی بھی لڑکے کو لپٹا کر اسے پیـار کروں دوسری طرف مجھے اتنی شرم آتی تھی کہ کوئی شرارت سے مجھے انکھ بھی مارتا تھا تو مـیں گبھرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔مـیرے بہت سارے دوست ایسے تھے کہ جن کے ساتھ مـیرا دل سیکرنے کو تڑپٹا تھا مگر شرم کی وجہ سے مـیں صرف تصور مـیںہی ان سے دل بہلاسکتا تھا۔جب مـیں کالج مـیں آیـا تو سب سے پہلے جو لڑکا مجھ سے ٹکرایـا وہ راحیل تھا۔مـیرے اب تک کے دوستوں مـیں سب سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ۔اسے دیکھتے ہی جیسے مـیرا دل اچھل گیـا۔اس کا قد مـیرے برابر تھا لیکن چہرہ پنکش وائٹ تھا۔وہ جب ہنستا تھاتو اس کے گالوں مـیں گڑھے پڑتے تھے۔ہونٹ ترشے ہوئے سیب کی قاشوں جیسے اور دانت موتی کی طرح چمکتے ہوئے۔پہلی ہی نظر مـیں مـیں اس پر اپنا دل ہار گیـا۔مـیں اس کے ساتھ ہی بیٹھتا تھا اور زیـادہ تر وقت مـیں اسے کن انکھیوں سے اسے تکتا رہتا تھا۔اکثر مـیری نظریں اس کی پینٹ کی زپ والی جگہ کو ٹٹولتی رہتی تھی۔کئی بار مجھے اس کے ابھار کی انڈرلائن محسوس ہوئی جس کا احساس کرکے مـیرا بھی لمحوں مـیں کھڑاہوجاتا تھا۔اب مـیرے خوابوں مـیں صرف راحیل ہی تھا۔ کچھ دن بعد کالج مـیں چھٹیـاں پڑگئیں۔تب تک مـیں اور راحیل بہت گہرے دوست بن چکے تھے۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ بھی مجھ مـیں دلچسپی لیتا ہے اور بعض اوقات مـیری لاعلمـی مـیں تکتکی باندھ کر مجھے دیکھتا ہے۔مـیں سوچتا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی ایسی بات کرے گا یـا اشارہ بھی دیگا تہ مـیں ہمـیشہ کی طرح بیوقوفی نہیں کرونگا اور اپنے دل کی بات کھل کر اس سے کہہ دونگا لیکن ایساہونہ سکا۔کالج بندہوگیـا اورہم روز ملنے سے رہ گئے۔مجھے اس کی یـاد ستاتی اور مـیں کالج کھلنے کی دعا کرنے لگا۔یونہی 15 دن گزرگئے۔وہ اتوار کا دن تھا جب امـی نے اکر مجھ سے کہا کہ تمہارےی دوست کا فون ہے۔فون پر راحیل تھاہیپی برتھ ڈے ٹو یو راحیل کی آواز آئی اور مـیں حیران رہ گیـا۔آج مـیری سالگرہ تھی اور یہ اسے یـاد تھا۔مـیں نے اسے تھینکہا اور اسے بتایـا کہ مجھے اس کی بہت یـاد آرہی ہے۔تو ملنے کیوںنہیں آجاتے ?اس نے کہا آج سب گھر والے انکل کے یہاں جا رہے ہیں، انٹی کی چودایی اگر تم آتے ہو تو مـیں رک جاتا ہوں؛مـیری تو جیسے دلی مراد پوری ہوگئی۔مـیں نے فورا حامـی بھر لی کہ مـیں 5 بجے تک اس کے گھر پہنچ جائونگا۔اس خیـال سے کہ وہ شام کے وقت اپنے گھر اکیلا ہوگا مـیرے دل مـیں گدگدی ہونے لگی۔نہ جانے کیوں مجھے شدت سے یہ فیل ہونے لگا کہوہ بھی اکیلے مـیں مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔فون بھی اس نے اسی وجہ سے کیـاہوگا۔مـیں نے پکی ٹھان لی کہ اگر اس نے زرا سا بھی اشارہ دیـا تو مـیں شرمائے بغیر اسے فورا اسے اپنی باہوں مـیں بھر لونگا۔ اس کے گلابی نرم و نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوم لونگا۔اس کے گلابی گالوں کو جی بھر کے چومونگا۔ا ایسے ہی حالات کے ساتھ مـیں اس کے نارتھ ناظم آباد بلاک جے کے 240 گز والے شاندار مکان کے سامنے وقت سے پہلے پہنچ گیـا۔ایف بی ایریـا سے اس کے گھر تک کوئی بس ڈائریکٹ نہیں جاتی تھی اس لیے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن مـیں راحیل کے خیـالوں مـیں کھویـا آرام سے وہاں پہنچ گیـا۔بیل دبانے پر جس نے دروازہ کھولا اسے دیکھ کر مـیرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیـا۔وہ کوء 26،27 سال کا انتہاء خوبصورت لڑکا تھا۔اس کی بڑی بڑی نیلی انکھیں تھی۔کلر ایسا جیسےی نے دودھ کی کڑاہی مـیں بہت ساری روح افزا کی بوتل انڈیل دی ہو۔ہونٹ لال سرخ ہورہے تھے۔اس کا قد 6 فٹ سے نکلتا ہوا تھا اور جسمرتی تھا۔چوڑا چکلا سینہ کمر تک آتے آتے وی کی شکل اختیـار کر گیـا تھا۔اس نے بلیک کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ اور نیکر پہنی ہوئی تھی۔نیکر بہت ٹائٹ اور چھوٹی تھی جس مـیں سے اس کی بھری بھری رانیں پھوٹی پڑ رہی تھی۔ان گلابی رانوں کو دیکھتے ہی مـیرا مـیٹر شورٹ کر گیـا تھا۔اس نے اوپر سے لیکر نیچے تک مـیرا جائزہ لیـا۔اس کے ہونٹوں پر ایک دلاویز مسکراہٹ ابھری،جی فرمائیے ،اپ سے ملنا چاہتے ہیں? اس نے جلترنگ جیسی آواز مـیں پوچھا۔وہ جی وہ راحیل۔ ۔ ۔ &nbsp;مـیری پھنسی پھنسی آواز نکلی۔اس کی شخصیت کے آگے مـیرا دم نکل گیـا تھا۔اچھا تم سعد ہو وہ مسکرایـا آجائو، راحیل واش روم مـیںہے وہ آگے چلا مـیں اس کے پیچھے۔ پیچھے سے اس کی گاند کی بھری بھری گولائیـاں بلکل چپکی ہوئی نیکر کی وجہ سے قیـامت ڈھا رہی تھی۔چلتے چلتے وہ اچانک مڑا۔مـیں بری طرح بوکھلا گیـا۔مجھے یوں لگا جیسے اسے پتہ چل چکا ہے کہ مـیں اس کے کولہوں کو گھور رہا تھا۔وہ پھر بغور مجھے دیکھنے لگا۔مسکرایـا اور دوبارہ پلٹ کر چلنے لگا اورہم ڈرائنگ روم مـیں آگئے۔ٹھیک اسی وقت اندرونی دروازے سے راحیل بھی آیـا اور گرمجوشی سی مجھ سے آکر لپٹ گیـا۔پھر اس نے کہا سعد یہ مـیرے بڑے بھائی ثاقب ہیں واقعی اس کے نقوش راحیل سے بیحد ملتے تھے لیکن حقیقت مـیں ثاقب راحیل سے بہت زیـادہ خوبصورت تھا۔ثاقب شرارت سے مسکرایـا۔اصل مـیں ان کے بھی ایک دوست آنے والے تھے اس لئے یہ رک گئے ہیں راحیل نے بتایـا۔مـیں اور راحیل بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر چلاگیـا۔مـیری عجیب سی کیفیت تھی۔بار بار مجھے ثاقب کی ننگی رانوں کا خیـال ارہا تھا۔مـیرے بدن مـیں ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اندر سے بہت سارے لوازمات لیکر آگیـا اور راحیل زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرتا رہا۔ثاقب بھی برابر والے صوفے پر آکر بیٹھ گیـا۔مـیرے بدن مـیں پھر سرد سی لہریں دوڑنے لگیں مـیری نظریں کھاتے ہوئے پھر ثاقب کی رانیں ٹٹولنے لگیں۔اسی وقت گھنٹی بجی اور ثاقب اٹھ کر باہر گیـا اور جب واپس آیـا تو اس کے ساتھ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔اس مـیں اورثاقب مـیں کوئی چیز مشترکہ تھی تو وہ صرف قد کاٹھ تھا۔وہ کافی کالا تھا۔اور ثاقب کے ساتھ تو بلکل حبشی لگتا تھا۔مجھے وہ بلکل اچھا نہیں لگا۔ثاقب نے اس کا مجھ سے تعارف کروایـا۔اس کا نام امجد تھا اور وہ بھی ثاقب کے ساتھ انجنئرنگ کالج مـیں تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیـا۔اب ثاقب بلکل مـیرے برابر اکر بیٹھ گیـا۔اس کی ننگی گلابی ران مـیری ران سے ٹچ ہورہی تھی۔مـیں جھکی ھوئی نگاہوں سے اس کی نیکر کا ابھرا ہوا حصہ دیکھ رہا تھا۔نیکر کے اندر سے ہی محسوس ہورہا تھا کہ اس کا ٹول کتنا بڑا ہے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ ابھراہھوا حصہ نیکر پھاڑ کر نکل آئے گا۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ امجد مجھے دیکھ رہا ھے۔مـیں نے بوکھلا کر اپنی نظریں دوسری طرف گھمالی۔مجھے یوں لگا جیسے امجد مسکرا رہا ہے۔مجھے سخت گھبراہٹ ہونے لگی۔مـیں نے اپنا دھیـان باتوں کی طرف لگایـا۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر گیـا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مـیری نظروں نے اس کا تعاقب کیـا۔اس کے جسم کا ہر زاوئیہ مـیرے اندر آگ لگا رہا تھا۔مـیں اپنے دل مـیں راحیل کے لئے کچھ خواب بسا کر ایـا تھا اور مـیرے دل مـیں اس کا بھائی آبسا تھا۔5منٹ کے بعد امجد بھی اٹھ کر اندر چلا گیـا۔راحیل مجھے اپنی کچھ پرانی تصویریں دکھانے لگا۔15 منٹ بعد ثاقب کوک لیکر آگیـا۔امجد اس کے ساتھ تھا۔کوک پینے کے بعد مـیں اٹھ کھڑاہوا کہ اب مـیں چلونگا۔مـیں نے انھیں بتایـا کہ بس کے لئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑے گا تو ثاقب ایک دم بولا کہ امجد حیدری جارہا ہے تمھیں بس تک چھوڑدے گا۔منع کرنے کے باوجود مجھے امجد کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا پڑا۔</span></b></span></li><li><span style="background-color: white; font-size: large;"><b><span style="color: #990000;">بائیک پر امجد کے پیچھے بیٹھ کر مجھے احساس ہوا کہ امجد کا بدن کتنا چوڑاہے۔اس کی پیٹھ کے پیچھے سے مجھے کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا۔امجد مجھ سے پوچھنے لگا کہ مـیں کہاں رہتا ہوں۔مـیں نے بتایـا کہ ایف بی ایریـا مـیں تو وہ بولا کہ اسے گھر سے کچھ لیکر گلشن جانا ہے تو مـیں اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے چھوڑ دیگا۔مـیرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا۔چلتی ہوئی بائیک پر اس سے بات کرنے کے لئے مجھے اپنا اپ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے کان کے قریب جانا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے مـیرا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکرارہا تھا۔اسی دوران مجھے ایک مست کردینے والی خوشبو اس کی شرٹ سے اٹھتی فیل ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ مـیرا بدن اس کے بدن سے ٹکرا کر ایک سنسنی سی مـیرے اندر دوڑارہا ہے۔کچھ ہی دیر مـیں ہم حیدری کے ایک اپارٹمنٹ مـیں داخل ہوگئے۔مـیرے منع کرنے کے باوجود اس نے مـیراہاتھ پکڑا اور مجھے سیکنڈ فلور کے ایک فلیٹ کا چابی سے دروازہ کھول کر اندر لے گیـا۔وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔اس نے مجھے صوفے پر بٹھایـا اور مجھ سے کہا کہ صرف دو منٹ مـیں ہم چلتے ہیں۔فرج کی طرف جاتے جاتے اس نے مجھے بتایـا کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے یہاں اکیلا رہتاہے اور ثاقب جس کمپنی مـیں چیف انجنئر ہے وہیں ثاقب نے اسے ایک مناسب جاب دلوائی ہوئی ہے۔وہ دو گلاس اور کوک لے آیـا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مـیں کوک پینے لگا۔اس دوران اس نے مجھے بتایـا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انجنئرنگ پوری نہ کر سکا اور یہ ثاقب کا احسان تھا کے بعد مـیں اس نے اپنی کمپنی مـیں ایک اچھی جاب دلوادی۔وہ اپنے بارے مـیں بتارہا تھا اور مـیں کوک پیتے ہوئے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اتنا کالا نہیں تھا جتنا وہ مجھے ثاقب کے ساتھ کھڑا ہوا لگا تھا۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اورہونٹ قدرے بھاری تھے۔گہری آنکھیں تھیں۔وہ بلکل مـیرے قریب بیٹھا ہوا تھا۔مجھے پھر اس کے اندر سے خوشبو فیل ہوئی۔مجھے پھر نیکر مـیں ملبوس ثاقب یـاد آنے لگا اور مـیرے دل مـیں اس کے خیـال سے خماری چھانے لگی۔مـیں تصور مـیں ثاقب کی نیکر اتار کر اس کے ٹول کو ہاتھ مـیں لیکر مسلنے لگا۔اچانک امجد نے مـیری ران پر ہاتھ مارا۔مـیں بوکھلا گیـا</span></b></span></li><li><span style="background-color: white; font-size: large;"><b><span style="color: #990000;">کہاں کھوگئے اس نے پوچھا اور مـیں نے گڑبڑا کر بتایـا کہ مـیں اس کی بات سن رہا ہوں۔اچانک اس نے مجھ سے پوچھاکیـا ثاقب تمھیں اچھا لگتا ھے مـیں ششدر رہ گیـا۔سمجھ مـیں نہیں آیـا کہ کیـا جواب دوں۔جب اس نے مـیری ران پر ہاتھ مارا تھا تو دوبارہ نہیں ہٹایـا تھا۔ مـیں جانتا ہوں کہ تمہیں ثاقب اچھا لگتا ہے۔ویسے وہ واقعی چیز ہے۔امجد کہے جارہا تھا اور مجھے چپکی لگ گئی تھی ۔مـیرا خیـال ہے کہ تم بھی اسے اچھے لگے ہو مـیں نظریں جھکائے سن رہا تھا۔مجھ مـیں کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں تھی۔مـیرے بدن مـیں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور مـیرا پورا وجودی آگ مـیں جلنے لگا تھا۔ایسی اگ جس مـیں مزاہ تھا۔کیـا تم ثاقب سے اکیلے مـیں ملنا چاہوگے? اب مـیں نے حیران ہو کر اپنی نظریں اٹھائی۔عین اسی وقت اس نے اپنے ہاتھ سے مـیری ران کو دبایـا جس سے اس کے سوال کا اصل مقصد اور بھی واضح ہوگیـا۔ ہاں وہ تمہیں پسند کرتا ہے اور تم بھی اسے پسند کرتے ہو، لیکن اسے ڈرہے کہ تم اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ہو کہیں اسے بتانہ دو،مـیرے پاس اس کےی بات کا جواب نہ تھا۔لیکن یہ خیـال کہ ثاقب مجھے پسند کرتا ہے مـیرے وجود کو شرشار کر گیـا۔لیکن ابھی بھی مـیں امجد سے کچھ نہ کہہ سکا۔ایک بات بتا کبھی تم نے پہلےی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ امجد نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑدیـا اور مـیں شرم سے پانی پانی ہوگیـا۔اسی وقت اس نے مـیری ران پر اپنا دبا اور بڑھادیـا۔ مـیں تم کو ثاقب سے اکیلے مـیں ملواسکتا ہوں۔کیـا تم اس سے ملنا چاہوگے?مـیرا دماغ کہہ رہا تھا کہ مـیں سختی سے منع کردوں مگر مـیرا دل مجھے روک رہا تھا۔مـیرے بدن مـیں سوئیـاں سی دوڑ رہی تھی۔کیـا ۔ ۔ کک کیـا یہ ممکن &nbsp;مـیرے منھ سے بس اتنا ہی نکلا۔ہاں ۔تمہاری خواہش پوری ہوسکتی ہے لیکن تمہیں اس گبھراہٹ کو اپنے اندر سے نکالنا ہوگا،کک۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ &nbsp;مـیرے منہ سے نکلا اور وہ شرارت سے مسکرایـا۔اس وقت وہ مـیرے دل کی بات کررہا تھا اور مجھے دنیـا مـیں اپنے سب سے قریب محسوس ہورہا تھابتادوں کیسے اس نے مـیری انکھوں مـیں اپنی انکھیں ڈال دیں ۔مـیں نے اثبات مـیں سر ہلایـا تو وہ ایک دم جھکا اور مـیرے گالوں کو چوم لیـا۔اس کا مـیری ران پر رکھا ہواہاتھ کھسکتا ہوا مـیرے پیٹ پر آگیـا۔یہ زندگی مـیں پہلی بار مـیرے ساتھ ہوا تھا۔مـیں ہکا بکا امجد کو دیکھتا رہ گیـا۔تمہیں برا تو نہیں لگا اس نے تشویش سے پوچھا اور مـین حسب عادت چپ رہا۔وہ سمجھ گیـا کہ مجھے برا نہیں لگا۔اس کا ہاتھ جو اب بھی مـیرے پیٹ پر تھا تھوڑا سا نیچے آیـا اور مـیری پینٹ کی زپ والی جگہ پر آکے ٹھہر گیـا۔ایک لمحے بعد وہ دوبارا جھکا اور اپنے ہونٹ مـیرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور مـیری زپ والی جگہ پر اس کے ہاتھ کا دبا ایک دم بڑھ گیـا۔مـیرا پورا بدن آہستہ آہستہ کپکپانے لگا۔اس بار اس نے بغیر رکے مـیرے ہونٹوں کینگ جاری رکھی۔مـیری آنکھیں خودبخود بندہوگئیں۔اس نے دانتوں سے مـیرے ہونٹ کاٹنا شروع کردئے۔مـیں نے اپنے ہونٹ دبائے ہوئے تھے۔پھر اس نے مـیرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی۔اس کی زبان کی گیلاہٹ مـیں نے اپنے ہونٹوں پر فیل کی اور پھر اس کی زبان کا دبا مـیرے دبے ہوئے ھونٹوں پر پڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مـیرے دونوں ہونٹ کھل گئے اور اس کی گرم زبان مـیرے منہ مـیں دوڑ گئی۔مـیرا پورا وجود طوفانوں کی لپیٹ مـیں تھا۔بند آنکھوں سے مـیرے تصور مـیں ثاقب درون آیـا۔مجھے لگا جیسے ثاقب کے سرخ ہونٹ مـیری زبان کو چوس رہے ہیں اور اس کی رسیلی زبان مـیرے منہ مـیں دوڑ رہی ہے۔لذت اور انبساط سے مـیری روح تک شرشارہوگئی۔وہ دیوانوں کی طرح مـیرے ہونٹ اور زبان چوس رہا تھا۔ساتھ ہی اس کے گرم ہاتھ مـیری پیٹھ پر دوڑ رہے تھے۔مـیں نے اس کے تھوک کو امرت سمجھ کر اپنے حلق سے نیچے اتارا اور پھر اس کا حسین گلابی چہرہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھولدیں اور اپنے سامنے امجد کا چہرہ دیکھ کر مـیرے اندر مایوسی پھیل گئی اور مـیں نے غیر اردی طور پر اپنا سر پیچھے ہٹایـا۔کیـا ہوا اس نے بڑے پیـار سے مسکرا کر پوچھاکک۔ ۔ کچھ نہیں مـیں اتنا ہی کہہ پایـا۔اس نے مـیری کمر پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ثاقب کی جگہ امجد کو دیکھ کر مـیرے اندر مایوسی پھیل گئی تھی۔کیـا ثاقب مـیرے ساتھ واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ کرنا ۔ ۔ مطلب مجھے پسند کرتا ہے &nbsp;مـیرے اس اچانک سوال سے سے اس کی مجھ پر نہ صرف گرفت کمزورہوگئی بلکہ اس کے چہرے سے لمحہ بھر کے لئے مسکراہٹ بھی غائب ہوگئی لیکن دوسرے لمحے مـیں وہ مسکرایـا۔یقینا اسے ثاقب کے لئے مـیری بے چینی بری لگی تھی۔تم بھول رہے ہو مـیرے ساتھ تمہیں زبردستی بائیک پر اسی نے بٹھایـا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ مـیں تمہیںی طرح کریدوں کہ تم اسے چاہتے ہو کہ نہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی گڑبڑہو کہ جس سے راحیل یـا گھر کےی اور فرد کو پتہ چل جائے۔مـیں وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ دنوں مـیں حالات سازگار کرکے تمہیں اس سے ملوادونگا یہ کہہ کر وہ دوبارا جھکا اور مـیرے منہ مـیں اپنی زبان گھسیڑ دی۔مـیں امجد کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔وہی تھا جو مجھ جیسے ڈرپوک لڑکے کو ثاقب سے ملواسکتا تھا اور دوسری بات یہ کہ مـیرا اپنا گرم وجود اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے اندر سمالے۔اس نے مجھے دونوںہاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیـا اور دیوانہ وار مـیرے منہ مـیں اپنی زبان دوڑانے لگا۔مـیری سانسیں اتھل پتھل ہورہی تھیں اور زندگی کا وہ لطف جس کا مـیں صرف خواب دیکھا کرتا تھا کہی کے سینے سے لگ کر اپنے جنم جنم کی پیـاس بجھالوں وہ آج مـیں نے پالیـا تھا۔کتنی عجیب بات تھی کہ آج مـیں گھر سے راحیل کے ساتھ کچھ کرنے کی خواہش لیکر نکلا تھا اور اس کے گھر پہنچنے کی بعد مـیرے خوابوں مـیں مجھ سے دس سال بڑا اس کا بھائی آبسا تھا لیکن مـیرا وہ خواب ایک تیسرے ہی فرد کے ساتھ پوراہوا تھا جو پہلی نظر مـیں مجھے بہت برا لگا تھا۔ امجد مجھے سینے سے بھینچے مـیرے ہونٹ چوس رہا تھا اور پھر اس نے اپنی زبان سے مـیرے گال چاٹنا شروع کردیئے۔وہ پاگلوں کی طرح مـیرے پورے منہ کو چوس رہا تھا۔کبھی گال تو کبھی انکھیں اور کبھی مـیری گردن۔یونہی چومتے چوستے وہ مـیرے کان تک آیـا اور اپنے دانتوں سے کان کا سرا آہستہ آہستہ کترنے لگا۔شدت لزت سے مـیری آہ نکل گئی۔کانوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے وہ بڑی مدھ بھری آواز مـیں بولا سعد یو آر گریٹ! تم بہت کیوٹ اور بھولے ہو۔مـیرا دل کررہا ہے کہ مـیں تمہیں اپنے اندر کہیں چھپالوں ۔تمہارے اندر ایک نشہ ہے یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے سینے سے لگائے ہوئے اٹھالیـا اور مسلسلنگ کرتے ہوئے مجھے بیڈروم مـیں لے آیـا اور بڑے پیـار سے مجھے بستر پر لٹادیـا۔پھر وہ خود مـیرے اوپر چھاگیـا۔اس کے چوڑے چکلے وجود کے آگے مـیری مثال کبوتر جیسی تھی لیکن پورا مجھ پر آجانے کے باوجود اس نے اس بات کا خیـال رکھا تھا کہ مـیں اس کے نیچے آکر بعد نہ جائوں ۔جانے مجھے کیـا ہوا کہ مـیں نے اپنی شرم طیـاق کر اپنے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے گرد گھمائے اور اس کے منہ کو اپنی طرف کھینچ کر اس کے ہونٹوں پر کی۔امجد ششدر ہوکے مجھے دیکھنے لگا۔شاید اسے مـیری طرف سےی پیش قدمـی کی امـید نہ تھی۔دوسرے لمحے مـیں مـیری اس ادا پر فدا ہوکے اس نے دوبارا مجھے چومنا شروع کردیـا۔مـیں آنکھیں بند کرکے جیسے ہوائوں مـیں اڑرہا تھا۔مـیرا پورا وجود لرز رہا تھا ۔مـیرا لنڈ مـیری پینٹ مـیں اتنا کھڑا ہوگیـا تھا کہ پھنس رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے امجد نے مـیری شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے۔مـیرا نازک سا جسم اب اس کے سامنے کھلا تھا۔اس سے پہلے کے مـیں سوچتا کہ وہ اب کیـا کرے گا اس نے اپنی زبان مـیرے ایک نپل پر رکھی اور اسے باقاعدہ چوسنے لگا۔اف۔ ۔ مـیری تو کراہ نکل گئی ۔مـیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے چوسنے سے مـیرے بدن مـیں اس طرح کرنٹ دوڑ جائے گا۔مـیرے منہ سے مسلسل آہیں نکل رہی تھیں اور وہ ایک کے بعد ایک نپل چوسے جارہا تھا۔ اتنا مزاہ مـیں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اور اس وقت تو غضب ہی ہوگیـا جب چوستے چوستے وہ مـیرے پیٹ سے ہوتا ہوا مـیری ناف تک آیـا۔مجھے ایسا لگا جیسے ایک اگ سینے سے رینگتی ہوئی مـیرے ناف تک آگئی ہو۔اور پھر امجد نے اپنی دہکتی زبان مـیری ناف مـیں گھسیڑدی۔مـیں جیسے اچھل پڑا۔ایک آہ سی مـیرے منہ سی نکلی اور مـیں نے شدت جذبات سے امجد کے سر کے بال پکڑلئے۔امجد ان باتوں سے بے پرواہ مـیری ناف کے گرد اپنی زبان گھما رہا تھا اور مـیں مسلسل سسکاریـان بھر رہا تھا۔مـیں ساتویں آسمان پر اڑرہا تھا اور امجد مـیرے پیٹ کا ایک ایک حصہ چوم رہا تھا اور چوس رہا تھا۔اس کا ایک ہاتھ مـیری پینٹ کے ابھرے ہوئے حصے پر تھا جس کے دبا ئوسے مـیرا لنڈ اکڑنے لگا تھا۔پھر اس کے دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی مـیری پینٹ کے اوپر سے اندر سرائیت کر گئی۔مانو مـیری تو جیسے سانس رک گئی۔اس کی انگلی شاید مـیری انڈروئیر سے ٹکرائی اور اس نے تھوڑی سی اسے باہر کھینچ لی۔مـیں نے سرخ رنگ کی انڈروئیر پہنی ہوئی تھی جس کا تھوڑا سا سرا باہر آگیـا تھا۔وہ مـیری انڈروئیر دیکھ کے مسکرایـا۔لال کلر سیکا کلر ہوتا ہے اور مـیں سمجھ سکتا ہوں کہ تم عرصے سے اپنی خواہش دبائے بیٹھے ہو اپنا من مار کر شرم اور بدنامـی کے خوف سے صرف تصورات مـیں جی بہلارہے تھے۔اور مـیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اج تم زندگی مـیں پہلی بار ایسا کر رہے ہو۔آج تم بے خوف ہوکر اپنے دل کی بھراس نکال سکتے ہو۔یقین کرو مـیں دل سے تمہارے ساتھ ہوں۔آج صرف اور صرف تمہارا دن ہے اس کے بعد وہ دوبارا جھکا اور مـیرے ہونٹ بڑی نرمـی سے چوم لئے۔اس کا انداز مـیرے ساتھ بہت ہی والہانہ تھا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو مجھے نوچ کھسوٹ سکتا تھا مـیں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن مـیں نہیں تھا۔لیکن وہ مجھے تکلیف پہنچائے بغیر مجھے مزاہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔کسنگ کرتے کرتے اس کا ہاتھ پھسلتا ہوا مـیری پینٹ کے بیلٹ تک پہنچا اور اس نے مـیرا بیلٹ کھول دیـا۔اس کی زبان دوباہ &nbsp;مـیرے منہ مـیں دوڑ گئی اور اسی کے ساتھ اس نے پینٹ کا بٹن کھول کے مـیری زپ نیچے کردی۔زپ کی آواز کے ساتھ مـیرا دل اچھل کر حلق مـیں آگیـا۔اتنا ٹینس مـیں زندگی مـیں کبھی نہیں ہوا تھا ۔عین اسی وقت اس نے دانتوں سے مـیری زبان پکڑلی اور اسے چوسنے لگا۔ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ پینٹ کے اندر کھسک گیـا۔انڈروئیر پر ہونے کے باوجود اس کے ہاتھوں کی ہیٹ مـیں نے اپنے فل ٹینشن مـیں آئے ہوئے لندڈ پر محسوس کی۔مـیں ایک جھرجھری لیکر رہ گیـا۔مـیری سانسیں اتھل پتھل ہوچکی تھیں ۔اس نے انڈروئیر کے اوپر سے مـیرا لند پکڑ لیـا۔مـیری ایک طویل آہ نکل گئی۔اس نے بیتاب ہو کر مـیری زبان چوسنے کی رفتار بڑھادی۔ پھر وہ مـیرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ہوا مـیری گردن تک آیـا اور پھر وہاں سے پھسلتا ہوا مـیری نپل تک ایـا اور چند لمحے اسے چوسنے کے بعد سینے سے ہوتا ہوا پیٹ پر آیـا ۔اس کی زبان کی گرمـی اور گیلاہٹ سے مـیرا تن بدن جل رہا تھا۔ناف پر پہنچ کے اس نے ناف کے اندر تک زبان گھسیڑدی۔ساتھ ساتھ وہ خود بھی پھسلتا ھوا نیچے ہوگیـا تھا۔اس کے دونوں ہاتھ مـیری پینٹ پر تھے۔ناف چوستے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں کے زور سے مـیری رانوں کو اوپر اٹھایـا اور زبان ناف سے نیچے لے جاتے ہوئے مـیری پینٹ نیچے کردی اور اپنا منہ مـیری سرخ انڈروئیر کے اوپر رکھ کے مـیرے ابھرے ہوئے حصے کو اپنے دانتوں مـیں دبالیـا۔یہ کام اس نے اتنی تیزی اور مہارت سے کیـا کہ سرور اور کیف کی کیفیت مـیں مـیری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔مـیں زلزلوں کی لپیٹ مـیں تھا اور وہ مـیرا لند انڈروئیر کے اوپر سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔مـیری سسکیـاں لزت و انبساط سے آہوں مـیں اور پھر کراہوں مـیں بدل گئی تھیں۔سرور کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امجد بھی رکا نہیں تھا۔گہری گہری سانسوں کے ساتھ اس کا بھی کام جاری تھا۔اب وہ انڈروئیر کے اوپر سے ہی مـیرا لند چوس رہا تھا۔اس کے والہانہ انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بھی بیحد مزاہ ارہا ہے۔اس کے تھوک سے مـیراے انڈروئیر کا وہ پورا حصہ گیلا ہوچکا تھا اور مـیرے لند کی پوری اٹ لائین لند کے وائٹش کلر کے ساتھ صاف نظر آنے لگی۔اس نے چمکتی انکھوں سے لمحہ بھر رک کر مـیرے ابھرے ہوئے لنڈ کا جائزہ لیـا اور پھربے خود ہوکر دوبارہ انڈروئیر کے اوپر سے مـیرے لنڈ کو منہ مـیں لیکر چوسنے لگا۔مستی مـیں آکر مـیں نے اس کے ڈولتے ہوئے سر پرہاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیـا۔دیر تک وہ انڈروئیر کے اوپر سے مـیرا لند چوستا رہا۔مـیرے انڈرویئیر کا اوپری حصہ پورا گیلا ہوگیـا تھا۔ساتھ ساتھ وہ مـیری انڈروئیر سے نکلتی ہوئی چکنی اور گوری رانوں پر بھی اپنی زبان پھیرتا رہا۔اس کی زبان کی حدت سے مـیرا پورا وجود پھنک رہا تھا۔اس کی بے خودی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چومتا تھا کبھی چوستا تھا کبھی کاٹتا تھا۔مـیرا لنڈتن کر پوری طرح مـیری انڈروئیر مـیں کھڑاہوچکا تھا۔اایک وقت آیـا کہ مـیرے لئے یہ ناقابل برداشت ہوگیـا۔مـیں ایک جھٹکے سے پلنگ پر بیٹھا اور بالوں ہی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایـا اور اس کے سلگتے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور باقاعدہ سسکاریـاں لیتے ہوئے اس کے ہونٹ بیدردی سے کاٹنے لگا۔اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے مـیرے لئے اپنے اپ کو ڈھیلا چھڑدیـا۔اب مـیری زبان اس کے سیـاھی مائل منہ کو چوم رہی تھی۔اس کے ہونٹ چوس رہی تھی۔اس کے منہ مـیں گھوم رہی تھی۔اس وقت مجھے اپنے جسم کی بھوک یـاد تھی صرف۔نہ مجھے راحیل یـاد تھا اور نہ ثاقب۔نہ مجھے یہ یـاد تھا کہ جس کے ہونٹوں کو مـیں چاٹ رہا ہوں پہلی نظر مـیں وہ مجھے سخت برا لگا تھا۔مـیں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے گال چاٹنے لگا۔پھر چاٹتے چاٹتے اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔مـیں نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ کا بٹن کھولنا شروع کردیـا ۔اس نے مسکرا کر نیچے سائیڈ سے اپنے بٹن کھول دیئے۔اب اس کا چوڑا چکلا سینہ مـیرے سامنے تھا۔اس کے سینے پر معمولی بال تھے۔نپل بڑے اور ابھرے ھوئے تھے اور پیٹ تو جیسے تھا ہی نہیں۔بلاشبہ اس کا جسم کافی ی تھا۔ مـیں نے اس کی بڑی سی کمر پر اپنا ہاتھ رکھا اور جھک کر اس کے نپل کو اپنے منہ مـیں لے لیـا۔ اس نے ایک طویل سسکاری بھری۔اس کا بدن جھرجھرایـا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنوں کہ ساتھ سیکرچکا ہے لیکن مجھے یہ اندازا ضرورہو گیـا تھا کہ مـیرے ساتھ اسے بہت مزاہ آرہا ہے اور مـیری طرح وہ وجد کی کیفیت مـیں ہے حالانکہ مـیرا تو یہ پہلا تجربہ تھا۔اسی کی طرح نپل چوستے چوستے مـیں زبان پھیرتا ہوا نیچے ہوتا چلاگیـا اور اس کی سسکاریوں مـیں اضافہ ہوتا چلاگیـا اور جب مـیں ناف تک پہنچا تو وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔جب مـیں نے اس کی ناف پر اپنی ننگی زبان پھیری تو وہ تڑپ اٹھا۔مـیں اس کے اندر دبے ہوئے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا رہا اور وہ آنکھیں بند کئے مزے لیتا رہا۔اس کے بعد جب مجھ مـیں مزید برداشت نہ رہی تو مـیں نے اس کی پینٹ کی بیلٹ پر اپنا ہاتھ مارا۔آنے والے لمحات کے تصور سے اس کا پورا جسم کانپ کر رہ گیـا۔خود مـیری سانسیں اکھڑ گیئں تھیں۔ اور پھر جب مـیں نے بیلٹ کھول کر اس کی پینٹ نیچے کی تو وائیٹ اندڑویئر مـیں اس کا وہ حصہ مـیرے سامنے تھا جس کو دیکھنے کے تصور سے مجھے کپکپی طاری ہوگئی تھی۔انڈروئیر کے پیچھے چھپے مال کو دیکھ کر مـیری آنکھیں پھیل گئیں ۔اس کے لنڈ کی اٹ لائین اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف لاحق ہوگیـا لیکن سیکے بڑھتے ہوئے ٹینشن نے مجھے زیـادہ سوچنے کا موقع نہیں دیـااور مـیں نے بے صبری سے اس کی انڈروئیر کے ابھرے ہوئے حصے پر اپنے ہونٹ رکھ دئے۔وہ بری طرح تڑپا۔مـیں نے اس کی گاند پر دونوں ہاتھ رکھ کے اپنا پورا منہ اس کی جانگھوں مـیں گھسا دیـا۔اس کے ابھرے ہوئے بڑے سے لنڈ کو مـیں نے انڈروئیر کے اوپر سے اپنے منہ مـیں لیـا اور آہستہ سے اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔مـیں وہی کررہا تھا جو اس نے مـیرے ساتھ کیـا تھا کیونکہ مـیرے خیـال مـیں یہ اس کا حق تھا۔زندگی مـیں پہلی بار اس نے مجھے اس لذت سے روشناس کروایـا تھا جس کی تمنا مـیں مـیں عرصے سے مراجا رہا تھا۔مـیں نے اس کی کالی رانوں پراپنی زبان پھیری۔اس کی رانیں بالوں سے صاف تھیں ۔رانوں سے کافی نیچے جا کر اس کی ٹانگوں پر بال تھے۔اس کی جلتی ہوئی رانوں پر زبان پھیرنے سے مجھے بڑا مزاہ ارہا تھا۔ اس کی پھنسی ہوئی انڈروئیر سے نکلتی رانیں مـیرے لئے وجد اور ہوگئی تھیں۔مـیں نے ان کی اسی طرف سے انڈرویئر کو اور اوپر اٹھایـا یہاں تک کہ اس کے ٹٹے کا ایک حصہ نظر انے لگا اور وہیں اپنی زبان گھسیڑدی،اف ۔ ۔ اہ۔ ۔ مـیں گیـا۔ وہ تڑپ اٹھا۔مـیں نے مزید انڈرویئر کو اٹھایـا اور ساتھ ساتھ مـیری زبان نے اندر کی طرف پیش قدمـی جاری رکھی او سعد ۔۔ ۔ آئی لو یو مائی بوائے۔ ۔ اٹس امـیزنگ ۔ ۔ او گوڈ۔۔ وہ مسلسل سسکاریـاں بھرتے ہوئے کچھ نہ کچھ کہتا تھا اور مـیں مسلسل اس کی ران کی طرف سے اپنی زبان اس کی انڈروئیر کے اندر تک لیتا چلاگیـا۔مـیری زبان ران کے اخری حصے پر کونے سے ٹکرارہی تھی اور اس کے ایک ٹٹے کا کچھ حصہ بھی مـیری زبان کی زد مـیں آرہا تھا۔مـیں اپنی زبان دبا دبا کر اس کی ران کے اخری کونے پر پھیرتا رہا اور وہ سسک سسک کر مـیری حوصلہ افضائی کرتا رہا۔اس کے ابھار کا سائز بڑھتا رہا اور وہ وقت آیـا جب اس کے لندڈکا اینگل پھسل کر کچھ کم ہوا تو مجھے وہ ہپناٹائز کردینے والا منظر نظر آیـا۔اس کے بڑے سے لند کا ٹوپا انڈروئیر سے باہر چھلک آیـا تھا۔مـیں سب کچھ بھول کر مسحورہوکے انڈروئیر سے باہر نکل آنے والے اس کے کالے لیکن چکنے لند کے بڑے سے ٹوپے کو دیکھنے لگا۔مـیرے لئے یہ ایک جادوئی منظر تھا۔مـیں نے اپنی زندگی مـیں کبھیی اور کے لند کو نہیں دیکھا تھا۔پھر جیسے مـیں سلوموشن مـیں بلکل ہپناٹائز ہوکے انڈروئیر کے اوپر سے اس کے لنڈ کو اپنے منہ سے رگڑتا ہوا اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا اور اس کے جلتے ہوئے لند کے نظر آنے والے حصے پر اپنی زبان پھیری اور دوسرے لمحے مـیں پورا ٹوپا اپنے منہ مـیں لے لیـا۔اس کا پورا لنڈ لذت کی شدت سے تھرا گیـا اور انڈروئیر تھوڑا اور نیچے ہوگیـا ۔وہ لنڈ آہستہ آہستہ مجھے تڑپا تڑپا کر سامنے آرہا تھا اور مـیں صبر کئے بغیر اسے اور اپنے منھ مـیں لیتا جارہا تھا ۔اس کے منہ سے لایعنی آوازوں کا سلسلہ جاری تھا جو مجھے یہ احساس دلا رہا تھا کہ اسے کتنا مزہ آرہا ہے اور مـیں بھی بغیر رکے اس کے لنڈکے اوپری حصے کو چوسے جارہا تھا۔اس کے لند کی موٹائی سے مـیرا منہ تھک سا گیـا اور مـیں نے اپنی زبان اور منہ کے تلے اس کے لنڈ کو پوری قوت سے دبا کر اپنے منہ کو باہر کھینچا۔وہ شدت لذت سے چیخ پڑا۔مـیرے بھی صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور مـیں نے دونوں طرف سے پکڑ کر اس کی انڈروئیر نیچے کھینچ لی۔اس کا اکڑاہوا لنڈی راڈ کی طرح مـیرے گال سے ٹکرایـا اور مـیں لند کا سائز دیکھ کر بوکھلا گیـا۔اس کا لند آٹھ انچ سے بھی بڑا اور دو انچ سے زیـادہ موٹا تھا۔مـیں یک تک لنڈدیکھے جارہا تھا۔</span></b></span></li><li><span style="background-color: white; font-size: large;"><b><span style="color: #990000;">اس کو دیکھ کر مـیری آنکھوں مـیں تشویش کی پرچھائی لہرائی جو مجھے ایسا لگا کہ اس نے بھانپ لی ثاقب کو مـیرا لنڈ بہت پسند ہے۔وہ کئی کئی منٹوں تک اسے چوستا رہتا ہے &nbsp;مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیـا ہے لیکن اس کا یہ جملہ سن کر مـیرا دل کٹ کر رہ گیـا۔نہ جانے کیوںمجھے یہ سن کر بلکل اچھا نہیں لگا کہ ثاقب اس کا لنڈچوستا ہے۔چشم تصور سے مـیں نے دیکھا کہ ثاقب کہ خوبصورت منہ مـیں امجد کا کالا لنڈہے۔اور وہ اسے مزے لی لیکر چوس رہاہے۔اس کے گلابی امجد کے لند کو چوم رہے ہیں اور اس کی ہموار زبان امجد کے پورے لنڈ کو چاٹ رہی ہے۔کبھی وہ اپنے منہ مـیں مـیں امجد کے کالے ٹٹے لیکر چوس رہا ہے۔مـیرے لیئے یہ تصور روح فرسا تھا کہ جس سے مجھے پہلی نظر مـیں محبت ہوگئی تھی وہی اور کا اور وہ بھی اتنا کالا لنڈاپنے منہ مـیں لیتا ۔مـیرے نزدیک یہ ثاقب کے منہ کی توہین تھی۔پھر مجھے خیـال آیـا کہ مـیں بھی تو ہوس کے ہاتھوں مجبورہوکر امجد کا کالا لنڈ چوس رہا تھا۔مـیں نے ایک گہری سانس لی اور امجد کا بڑا سا لند اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا ۔اس کے باوجود اس کے لنڈکا ٹوپا پوراہاتھوں کی گرفت سے باہر تھا اور ایک اور تصور اپنے دماغ مـیں لایـا کہ اس لنڈ پر ثاقب کے خوبصورت ہونٹوں کا لمس ہے۔اسے اس کے سرخ لبوں نے چوسا ہے۔ایک بار پھر اس خیـال نے مجھے بے حال کردیـا اور مـیں نے بی تاب ہوکر اس کے لند کا ٹوپا اپنے منہ مـیں لے لیـا اور جہاں تک مـیرے ہاتھ تھے وہاں تک مـیں نے امجد کا لنڈ منہ مـیں لیکر چوسا اور اس کے لنڈ کی نوک پر گیلی زبان پھیری۔اپنے تیئں مـیں امجد کا لند نہیں چوس رہا تھا بلکہ ثاقب کے لبوں کو چوس اس تھوک کی مہک فیل کررہا تھا جو امجد کے لنڈ کو چوستے ہوئے ثاقب کے منہ سے نکل کر امجد کے لنڈ کو گیلا کر گئی تھی۔مـیں نے اپنا ایک ہاتھ ہٹادیـا اور امجد کے لنڈ کو اپنے منہ مـیں اور اندر تک لے گیـا اور پوری دلجمعی سے اسے چوسنے لگا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا آدھا لنڈبھی پوری طرح مـیرے منہ مـیں نہیں آسکا تھا۔امجد کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ھوگیـا اور اس نے مجھے اٹھایـا اور مـیرے گیلے ہوتے ہوئے منہ مـیں پھر اپنی زبان گھسیڑدی اور بیتابانہ اسے چوسنے لگا۔اس کے ہاتھ پھسلتا ہوا مـیرے کمر تک آیـا اور پھر اس نے بھی مـیری سرخ انڈروئیر کھینچ لی۔مـیرا تھراتاہوا لنڈ اس کے لنڈ سے ٹکرایـا اور مانو چنگاریـاں پھوٹ پڑی اور مـیں نے اس کے جسم سے اپنا جسم بھینچ لیـا۔مـیرا نچلا نازک سا حصہ اس کے بھرے ہوئے نچلے حصے سے ٹکرارہا تھا ۔مـیرا لنڈ اس کے لنڈ سے باتیں کررہا تھا۔دیر تک وہ مـیرے منہ کینگ کرتا رہا۔ او سعد ۔۔ ۔ مـیں جھوٹ نہیں بولونگا۔تم سے پہلے تم سے بھی خوبصورت لڑکوں کے ساتھ مـیں نے ایسا کیـاہے لیکن مـیری جان جو مزاہ مجھے تمہارے ساتھ آیـا ہے وہی کے ساتھ پہلے نہیں آیـا۔تمہارے اندر کوئی ایسی کشش ہے کہ مـیں بھی پاگل ہوگیـا ہوں۔ آئی لو یو مائی ڈارلنگ۔ ۔ ان جملوں کے ساتھ اس نے مـیرینگ بھی جاری رکھی اور پھر بڑی نرمـی سے اس نے مجھے ہلکا سا پیچھے ہٹا کر مـیرے لنڈ پر نظر ڈالی ۔مـیرا لنڈ تقریبا ساڑھے پانچ انچ لمبا تھا اور اس کے اپنے لنڈ کے مقابلے مـیں کافی پتلا تھا لیکن بلکل سیدھا اور تنا ہوا تھا۔ مـیرا لنڈبالکل سفید دودھ جیسا اور بے داغ تھا۔مـیرے لنڈکو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے مـیرے تنے ہوئے لنڈ کو پکڑا اور آہستہ آہستہ اسے سہلانے لگا ۔اس کے ہاتھوں مـیں مـیرا لنڈہچکولے کھا رہا تھا۔پھر وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گیـا اور کئی لمحوں تک مـیرے لنڈ پر نظر جمائے رہا۔آنے والے وقت کے تصور سے مـیرے اندر ہیجانی سی کیفیت طاری ہوگئی اور پھر وہی ہوا جو مـیں سوچ رہا تھا۔اس نے اپنے بڑے سے منہ مـیں مـیرا پورا لنڈ لے لیـا۔اس کے گرم گرم منھ مـیں جا کر مـیرا لند جیسے سلگ اٹھا اور مـیری ایک ہیجانی سی چیخ نکل گئی۔مـین نے پھر اس کے بال جکڑلیے جیسے لذت اگر ناقابل برداشت ہو گئی تو مـیں اسے بالوں سے جکڑ کر روک دونگا۔لیکن یہ لذت تو جتنی بڑھتی ہے اتنا ہی مزاہ آتا ہے۔وہ باقاعدہ آواز کے ساتھ مـیرا لند چوس رہا تھا اور اندر باہر کررہا تھا۔مـیرے لند کا سرا اس کے حلق سے جا کر ٹکرارہا تھا اور اس کا تھوک مـیرے پورے لند کو نہ صرف گیلا کر گیـا تھا بلکہ باقاعدہ باہر رس رہا تھا۔اس کے وحشیـانہ تابڑ توڑ چوسے نے مـیرا لند اکڑا دیـا تھا اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔آخر مـیں چلایـا بس امجد بس۔ ۔امجد نے مـیرا لند چوسنا چھوڑدیـا ۔مـیرا لند بری طرح جھٹکے کھا رہا تھا۔وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے مـیری گاند دبانے لگا۔اس کا ہاتھ مـیری گاند کی لکیر کے گرد گھوم رہا تھا۔مـیں اپنی اتھل پتھل سانسوں کو کنٹرول کررہا تھا۔اس دوران اس کی انگلی مـیری گاند کی لکیر کو آہستہ آہستہ چیررہی تھی۔اور پھر مـیں نے محسوس کیـا کہ اس کی انگلی کا سرا مـیرے کے گرد ٹھرگیـاہے اور پھر مجھے اپنی گاند کے پر اس کی انگلی چکراتی محسوس ہوئی۔یہ ایک نیـا مزاہ تھا جس کا مجھے زرا آئیڈیـا نہ تھا۔سنسنی کے مارے مـیری گاند کا پھڑپھڑانے لگا۔پھر اس کی انگلی کا دبا مـیرے پر بڑھ گیـا۔مـیں نے ایک سسکاری لی۔اس نے پیش قدمـی جاری رکھی۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خواری کے عالم مـیں ہے۔اس نے انگلی کو اور اندر کی طرف پش کیـا اورشاید اس کی انگلی ناخن تک اندر گھس گئی لیکن مـیں خود تکلیف سے ہلکے سے چیخا تو اس نے فورا انگلی کھینچ لی اور مـیرے لند والی جگہ مـیں پھر اپنا منہ رکھ کر مـیرے لند سے رگڑنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ سخت بے خودی کے عالم مـیں ہے۔سعد۔ ۔ او مائی بوائے۔ ۔مـیں کیـا کہوں تم کک۔ ۔ ۔ کیـا چیزہو? مـیں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔مم ۔ مـیں نے آج تک کبھی کک۔ ۔ی سے گاند نہیں مروائی۔ ۔ کک ۔ ۔ کیـا تم ہاں مـیرے دوست تم مم ۔ ۔ مـیری گاند مارنا پپ ۔ ۔ پسند کروگے?مـیرا دل ان لفظوں کی ایکسائٹمنٹ سے اچھل پڑا۔مـیرے لند نے اوپر نیچے دوچار جھٹکے لئے۔مجھے اس سے اس پروپوزل کی امـید نہ تھی۔یـا تو مـیرا جادو اس پر پوری طرح چل گیـا تھا یـا پھر وہ مـیرا چھوٹا سا لند اپنی گاند مـیں لیکر بدلے مـیں اپنا بڑا سا لند مـیری گاند مـیں ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن ایک اور خیـال نے مـیرا دل بٹھادیـا۔اگر امجد نے آج تک گاند نہیں مروائی تھی تو پھر ثاقب۔ ۔۔ کیـا ثاقب نے بھی نہیں?سوچ کے ساتھ ساتھ مـیرے منہ سے نکل گیـا۔امجد نے چونک کر مجھے دیکھا ۔اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگیـا۔نہیں۔ ۔ &nbsp;وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔ثاقب کو چکنے اور کم عمر لونڈے پسند ہیں۔تمہارے جیسے۔اس کا دل ایک سے دوچار ملاقاتوں مـیں اکتاجاتاہے آخری جملہ مجھے اضافی لگا۔شایدمجھے ثاقب سے بدزن کرنے لئے۔لیکن مـیرا دماغ تو ایک اور مسئلے مـیں پھنس گیـا تھا۔اگر ثاقب امجد سے گاند نہیں مرواتا تھا تو اس کا لند تو چوستا تھا ۔تعلق تو تھا۔تو کیـا۔ ۔تو کک۔ ۔ کیـا تم اس کی۔ ۔ گاند۔ ۔ ۔ مـیں جملہ پورا نہ کرسکا۔وہی چشم تصور سے پھر مـیں نے دیکھا کہ ثاقب الٹا ننگا ہوکر لیٹا ہوا ہے اور امجد اپنا موٹا کالا لند ثاقب کی گدرائی ہوئی گاند کے پر رکھ کر دھکا لگا رہاہے اور چند لمحوں مـیں ایک طویل چیخ کے ساتھ ثاقب نے اس کا پورا لند اپنی گاند مـیں لے لیـا۔نہیں &nbsp;امجد کا جواب کافی دیر بعد آیـا۔جانے کیوں مـیرے دل مـیں اطمـینان کی ایک لہر ڈور گئی۔ثاقب نے شاید کبھیی سے گاند نہیں مروائی۔مـیرا صرف لند چوسنا اسے اچھا لگتا ہے۔اسی دوران وہ دراز مـیں سے کریم کی ایک ٹیوب اٹھالایـا اور بہت ساری کریم نکال کر مـیرے لند پر بکھیر دی۔اس نے مـیرا لند لینے کا پورا ارادہ کرلیـا تھا۔مـیرا دماغ کہہ رہا تھا کہ مـیں اسے روک دوں پر مـیری ہوس مـیرے دماغ پر غالب آگئی اور مـیں خاموشی سے اسے کریم مـیرے لند پر مسلتے دیکھتا رہا۔اس نے دوبارہ کریم نکالی اور مـیرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹیوب ایک سمت پھینکی اور خود بستر کے کنارے پر بیٹھا۔ٹانگیں نیچے کئے ہوئے وہ پیٹھ کے بل لیٹا۔اپنی دونوں ٹانگیں مخالف سمت مـیں چیریں اور پھر اپنے ہاتھ کی کریم ساری اپنی گاند کے کے گرد بکھیردی اور مـیرے دیکھتے دیکھتے اپنی موٹی سی درمـیانی کریم آلود انگلی اپنے پر رکھی اور اسے دبایـا ۔اس کی پوری انگلی گاند مـیں گھس گئی۔اس دوران اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیـا تھا ۔اس کی بھری بھری گاند پوری طرح مـیرے سامنے تھی اور اس کا کالا گول پوری طرح کھل کر سامنے آگیـا تھا۔اس منظر نے مـیرے دل مـیں ایک آگ سی لگادی۔مـیرا سر جلنے لگا۔پھر اس نے لیٹے لیٹے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھادی۔او مائی گوڈ مـیں ٹرپ اٹھا ۔اس نے مـیری طرف دیکھا اور ایک سسکاری بھری آواز مـیں بولا آ جان۔ ۔ مـیری گاند تمہارے لند کا انتطار کررہی ہے۔۔مم ۔ ۔ مـیں نہیں کر۔ ۔ پانگا۔ ۔مـیرے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی،نو پروبلم ۔ ۔ تم کوشش تو کرووہ فل موڈ مـیں تھا۔مـیں آگے بڑھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے درمـیان مـیں آگیـا۔مـیرے ہیجان کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا ابھی مـیرا لند پھٹ پڑیگا۔ہمت مجتمع کرکے مـیں نے اپنا تیر کی طرح سیدھا لند اس کے کالے سے پر رکھا۔اس نے ایک سسکاری بھری۔مـیرا لند تھر تھرایـا۔مجھے لگا کہ مـیں ٹچ کرتے ہی چھوٹ جانگا۔مـیں نے پیش قدمـی روک کے اپنی سانس روک لی۔لند بری طرح اچھلا ۔کچھ توقف سے ہیجان کم ہوا تو مـیں نے پر اپنا لند دبایـااور پھر مـیری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس کی گاند پر اور مـیرے لند پر لگی کریم نے دونوں کو اتنا سلپری کردیـا تھا کہ ایک ہلکے سے دبا کے ساتھ مـیرا لند پھسلتا ہوا اس کی گاند مـیں گھستا چلا گیـا۔اس کی تیز کراہ پر مـیں وہیں ساکت ہوگیـا۔مـیرا پورا لند اس کی گاند مـیں تھا اور اس کی کراہ خاصی طویل تھی۔اس نے شدت درد سے اپنے ہونٹ بھینچ رکھے تھے۔مجھے تعجب ہوا۔ جتنی آرام سے لند اس کی گاند مـیں گھسا تھا اس سے تکلیف تو ہونی ھی نہ چاہئے تھی۔وہ شاید ایکٹنگ کررہا تھا تاکہ اس کی باری پر مـیں بھی برداشت کروں۔ مـیں تھوڑا سا پریشان ہوگیـا تھا۔دل چاہا کہ اپنا لند اس کی گاند سے نکال لوں اور شاید وہ یہ بات بھانپ گیـا کہ مـیں شش و پنج مـیں مبتلاہوگیـا ہوں اور اس نے تکلیف دہ آواز مـیں کہا کہ مـیں رکوں نہ۔ مـیرا دل پھر مـیرے دماغ پر حاوی آگیـا۔رکنے کا ایک فائدہ بھی ہوا کہ مـیں اس پیک پر تھا کہ اگر مـیں اپنا لند اسی وقت باہر کھینچ لیتا تو مـیری منی فورا نکل جاتی ۔وہ پورا منظر مجھے بے چین کئے ہوئے تھا ۔وہ بستر پر اوندھا لیٹا تھا ، اپنے ہی ہاتھوں سے اس نے اپنی دونوں ٹانگیں چیری ہوئی تھیں اور اس کی دونوں بھری بھری رانوں کے درمـیاں مـیں خود تھا۔مـیرے سامنے اس کا ہچکولے کھاتا بڑا سا لند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ مـیرا اپنا لند اس کی گاند مـیں تھا جو اس وقت فل ہاٹ ہورہی تھی۔اس گاند کی دیواروں نے مـیرا لند جکڑ رکھا تھا۔مـیں ہوائوں مـیں اڑرہا تھا ۔جوش اور جنون کے آخری عالم مـیں مـیں نے سب کچھ بھلا کر اپنا لند اس کی گاند مـیں اندر باہر کرنا شروع کردیـا۔وہ کراہ رہا تھا ۔مزے سے یـا تکلیف سے مجھے نہیں پتہ لیکن مـیں باقاعدہ مزے کے عالم مـیں چلارہا تھا۔مـیرے جسم کی تمام رگیں تن کر مـیرے لند کیساتھ شریک ہوگئیں تھیں۔مـیری ٹانگیں اس کی گاند سے ٹکرا کر آوازیں پیدا کررہی تھیں۔مـیرے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر تھے جس سے اس کی گرمـی کا احساس ہورہا تھا۔اس کی گاند مـیں تو جیسے ہیٹر چل رہے تھے جس کی تپش سے مـیرا لند سلگ رہا تھا۔وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔اب جوہونا تھا وہ بھگتنا تھا پھر مزے کو کیوں بعد پشت ڈالا جاتا۔مـیں نے محسوس کیـا کہ جب مـیرا لند اس کی گاند کی گہرائیوں مـیں اترتا تھا تو وہ اپنا ڈھیلا چھوڑدیتا تھا اور جب مـیں اپنا لند واپس کھینچتا تھا تو وہ اپنے کو بھینچتا تھا جس سے مـیرا لند اور اکڑجاتا تھا اور مـیرا مزاہ دوبالا ہوجاتا تھا۔مـیرا لند مسلسل اس کی گاند کے کو رگڑرہا تھا ۔اندر باہرہورہا تھا ۔مستی کا ناقابل بیـان عالم تھا کہ جس کے ہاتھون مـیرا اپنا وجود مـیرے بس مـیں نہ تھا۔بیـان کرنے کو تو یہ ایک لمبا وقفہ ھے لیکن حقیقت مـیں یہ چند لمحوں کا کھیل تھا ۔خواری مـیرے سر پر &nbsp;چڑھی ھوئی تھی کہ مـیں زیـادہ دیرہولڈ کرہی نہیں سکتا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے مـیری پوری جان مـیرے لند کے راستے اس کی گاند مـیں ٹرانسفر ہوجائے گی۔مـیں پسینے مـیں تر بترہورہا تھا۔جیسے ہی مجھے لگا کہ اب رکنا ممکن نہیں مـیں نے اپنی رفتار بڑھادی اور پوری قوت سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر مجھے لگا کہ ایک گرم لاوا مـیرے ٹٹوں سے چھوٹ پڑاہو۔مـیں شدت لزت سے چلایـا اور شاید امجد کو بھی احساس ہو گیـا کہ مـیں چھوٹنے والا ہوں۔وہ ساکت ہوگیـا اور پھر جذبات کا ایک طوفان مـیرے لند کے راستے منی کی صورت مـیں اس کی گاند کی گہرائیوں مـیں اترتا چلاگیـا۔پہلی چیخ پہلا فوارہ،دوسری چیخ دوسرا فوارہ ،تیسری چیخ تیسرا فوارہ۔مـیری جان فواروں کی شکل مـیں اس کی گاند مـیں اترتی جارہی تھی۔مـیں بری طرح ہانپ رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ مـیرے لند کی طرف اپنی گاند ہلا رہا تھا۔مـیں بری طرح تھک کر رک گیـا تھا لیکن اس کی حرکت جاری تھی ۔وہ مسلسل آگے پیچھے ہورہا تھا۔اس کی طلب بجھی نہیں تھی۔اس کا اپنا لند بری طرح ہوا مـیں لہرارہا تھا۔ مـیں بہت جلد فارغ ہوگیـاتھا۔اس احساس نے مجھے تھوڑا سا ڈسٹرب کردیـا۔اپنی کمزوری کا احساس کرکے مجھے شرمندگی فیل ہوئی اور شاید اس نے اس بات کو نوٹ کرلیـا۔وہ مـیری طرف دیکھ کر مسکرایـااس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر مـیراہھاتھ پکڑااور ایک جھٹکے سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیـا۔مـیرا لند جو کہ بلکل سکڑچکا تھا اس کی گاند سے نکل گیـا اور مـیں اس کے سینے پر آکے گرا۔اس کا لوہے کی طرح تنا ہوا لند مـیرے پیٹ کے نیچے دب گیـا تھا اور وہ ابھی تک آگ کی طرح تپ رہا تھا۔مـیرا منہ بالکل اس کے منہ کے اوپر تھا۔ڈونٹ وری یـار۔`وہ خمار آلود نظروں سے مجھے دیکھتا ہوا بولاشروع شروع مـیں ایسا ہی ہوتاہے۔آدمـی اتنا ٹینس اور ایکسائیٹڈ ہوجاتا ہے کہ چند لمحوں مـیں فیصلہ ہوجاتا ہے`یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف بھینچ لیـا اور اس کے ہاتھ مـیری پیٹھ پر رینگنے لگے۔مـیری خواری ختم ہوچکی تھی اور مـیں بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اب وہ پھر مجھے برا لگنے لگا تھا۔اس کا سیدھاہاتھ رینگتا ہوا مـیری گاند کی لکیر پر ایـا اور پھر دھیرے دھیرے لکیر کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور پھر مـیری گانگد کے پر اس کی وہی انگلی ٹھہر گئی جس پر کریم لگا کر اس نے اپنی گاند مـیں ڈالی تھی۔مـیری تو جیسے سانس رک گئی۔مجھے سخت تشویش ہونے لگی۔دل چاہا اسے روک دوں لیکن پھر ثاقب کا خوبصورت چہرہ مـیری انکھوں مـیں اتر آیـا۔امجد کے بغیر ثاقب سے ملاقات مـیرے جیسے شرمـیلے اور بوکھلائے ہوئے لڑکے سے ناممکن تھی اور ثاقب تو جیسے مـیرے لئے زندگی کی شکل اختیـار کرگیـا تھا۔مـیں امجد کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔مـیں نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے اور اپنی سانسیں بھی روک لیں ۔امجد نے مـیری گاند کے پر اپنی سلپری انگلی کا دبا بڑھایـااور اس کی آدھی انگلی سلپ ہوکر مـیری گاند مـیں گھس گئی۔مـیری نہ چاھتے ہوئے بھی تکلیف سے کراہ نکل گئی۔اس نے مـیرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئے اور ساتھ ہی انگلی پر دبا بڑھا کر پوری انگلی مـیری گاند مـیں گھسیڑدی۔مـیں اس کے جسم پر ہی ہلکا سا اچھلا۔اس نے دوسرے ہاتھ سے مجھے خود پر سنبھالا۔ساتھ ہی مـیرے ہونٹ چوسنے لگا۔اس کے اور مـیرے درمـیاں اس کا بڑا سا لوہے کی طرح سخت لند دبا ہوا تھا جس کے ہولناک سائیز نے مجھے خوفزدہ کر دیـا تھا۔انگلی پوری اندر گھس چکی تھی ہلکے سے درد کے ساتھ مجھے ایک انجانا سا کیف بھی محسوس ہوا۔وہ آہستہ آہستہ اپنی انگلی اندر باہر کررہا تھا۔ایک ہلکا سا وجد مجھ پر طاری ہوا اور مـیرے اپنے بیٹھے ہوئے لند مـیں ہلکی سی جھرجھراہٹ پیداہوئی۔کاش اس کا لند بھی اتنا ہی ہوتا جتنی اس کی انگلی تھی تو کتنا مزاہ آتا لیکن اس کا لند کئی گنا بڑا تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ لند مـیری گاند پھاڑدیگا۔وہ دیر تک اپنی انگلی مـیری گاند مـیں گھماتا رہا ۔ساتھ ساتھ وہ مجھے دوسرے ہاتھ سے اپنے سینے پر دبائے ہوئے تھا۔اس کے لند کا گرم دبا سے مـیرا پیٹ دب گیـا تھا۔ساتھ ہی وہ مـیرے ہونٹ چوس رہا تھا۔پھر اس کی زبان مـیرے منہ مـیں دوڑنے لگی۔اس کی سانسیں اکھڑ گئیں تھیں اور وہ بہت بے صبراہورہا تھا۔جب اس کی برداشت سے باہر ہوگیـا تو اس نے مجھے اپنے سینے پر سے اتارا اور کھڑا ہوگیـا۔اس نے پاس پڑی کریم کی ٹیوب اٹھائی اور بہت ساری کریم نکال کر کر اپنے لند پر مل دی۔خوف کے مارے مـیری جان نکل گئی تھی مگر مـیں خاموشی سے دیکھنے پر مجبور تھا۔مـین اپنی باری کا مزاہ لے چکا تھا۔اب اس کو منہ سے منع کرتا۔اب کی بار اس نے مجھے دیکھے بغیر مـیرا ہاتھ پکڑا اور مجھے الٹا پلنگ پر لٹادیـا۔مـیں الٹا لیٹا خوف سے آہستہ آہستہ لرز رہا تھا۔پھر مجھے اس کا ہاتھ دوبارا اپنی گاند پر محسوس ہوا اور پھر کریم مـیں لتھری ہوئی اس کی انگلی بڑے پیـار سے مـیری گاند مـیں اتر گئی اور وہ اس کو سرکل کی شکل مـیں گھمانے لگا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ مـیرے کو اپنا لند لینے کے لئے ہموار کررہا تھا۔پھر مجھے اچانک اس کی دوسری انگلی بھی اپنی گاند کے پر فیل ہوئی اور اس سے پہلے کہ مـیں کچھ سمجھتا اس نے دوسری انگلی بھی مـیری گاند مـیں گھسیڑدی۔درد اتنا تھا کہ مـیں کراہنے لگا۔اس نے دونوں انگلیـاں ایک ساتھ اندر باہر کرنا شروع کردی۔مـیں کراہتا رہا اور اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ایک عجیب سا احساس تھا جو درد کو مزے مـیں تبدیل کررہا تھا۔وہ انگلیـاں گھما گھما کر مـیرے کو بڑا کررہاتھا تاکہ مـیں اس کا لند کم سے کم تکلیف کے ساتھ اپنی گاند مـیں لے سکوں ۔اور پھر وہ لمحہ بھی آگیـا۔اس نے انگلیـاں مـیری گاند سے نکال لیں اور اپنے دونوں ہاتھ مـیرے کندھوں پر رکھے اور اسی کے ساتھ مـیں نے اس کا کھولتا ہوا لند اپنی گاند کی لکیر پر محسوس کیـا۔مـیں ایک دم ساکت ہوگیـا۔اس کا لند پھسلتاہوا ٹارگٹ کی طرف بڑھا اور پھر مـیرے پر آکے ٹھہر گیـا۔مـیرا سارا بدن ایک جھرجھری لیکر رہ گیـا۔اس کے گرم لند کے ٹوپے کا دبا مـیرے پر بڑھا ۔مـیں نے اپنے دانت بھیچ لئے۔اس نے زور لگایـا۔مـیں نے اور زور سے اپنے دانت بھینچے۔ایک جھٹکا لگا اور اس کا صرف ٹوپا مـیری گاند مـیں گھس گیـا اور برداشت کے باوجود مـیری بھیـانک چیخ نکل گئی۔اپنی زندگی مـیں مـیںی ایسے درد سے نہ گزرا تھا۔اس نے بوکھلا کر اپنا ٹوپا باہر نکال لیـا۔مـیں پلٹ کر بیٹھ گیـا۔شدتِ تکلیف سے مـیں ابھی تک کراہ رہا تھا۔مـیری انکھیں آنسووں سے لبریزہوگئی تھیں۔مـیں نے دیکھا کہ وہ مایوس کن نظروں سے مجھے دیکھ رہاہے۔اس کا لندہوا مـیں بری طرح بل کھا رہا تھا۔یہ یقینا ناانصافی تھی کہ اسے یوں خوار چھڑدیـا جائے۔ سوری۔ ۔ ` مـیں نے سسکیـاں لیتے ہوئے کہا اور پھر دل پر جبر کرکے دوبارا الٹاہوکر اپنی گاند اس کے لند کی طرف کردی اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اپنا لند مـیری گاند مـیں ڈالنے کے لئے اپنے لند کا ٹوپا مـیری گاند کی لکیر پر رکھے۔انتظار کچھ لمحہ طویل ہوگیـا اور پھر اس کے لند کے بجائے اس کا ہاتھ مـیرے کندھوں پر آیـا اور اس نے مجھے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کردیـا۔مـیں حیران ہو کر اس کی شکل دیکھنے لگا۔وہ بڑے پیـار سے مجھے دیکھ رہا تھا۔چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کہ یہ ابھی کیـا جائے۔پھر سہی۔`وہ بڑے پیـار سے مجھے دیکھتا ہوا بولالیکن۔ ۔ ۔ `مـیں نے اس کے کھڑے لند کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔سعد ائی لو یو۔پیـار مـیں کبھیی کو تکلیف نہیں دی جاتی۔`وہ بڑے خمار آلود لہجے مـیں بولاایسے مزے پر لعنت ہے جس سے تمہیں تکلیف ہو۔` اس کی اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیـا۔مـیں نے شکرگزار آنکھوں سے اسے دیکھا۔یقینا وہ مجھے شکل سے اچھا نہیں لگا تھا مگر وہ دل کا اچھا تھا۔اس کی محبت کا اظہار البتہ مجھے ڈسٹرب کررہا تھا کیونکہ مجھے تو ثاقب سے محبت تھی لیکن اطمـینان طلب بات یہ تھی کہ اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔پھر۔ ۔ `مـیں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ہوا تھا۔وہ مسکرایـا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھرنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیـا اور مـیرے اوپر آکر اپنی زبان مـیرے منہ مـیں ڈال کر چوسنا شروع کردیـا۔وہ پورا مـیرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہیں ہورہا تھا۔اس کا لند مـیرے پیٹ سے لیکر مـیرے سینے تک آیـا ہواتھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا لند آگے پیچھے ہوکر ہم دونوں کے درمـیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ہیٹ سے مـیرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون مـیں مـیری زبان اور منہ چوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے آپ کو مـیرے اوپر رگڑرہا تھا۔مـیں تو فارغ ہوچکا تھا اس لئے مـیرا احساس کچھ زیـادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح آہیں بھر رہا تھا ۔پھر۔ ۔ `مـیں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ہوا تھا۔وہ مسکرایـا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھرنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیـا اور مـیرے اوپر اکر اپنی زبان مـیرے منہ مـیں ڈال کر چوسنا شروع کردیـا۔وہ پورا مـیرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے آپ کو سنبھالا ہوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہیں ہورہا تھا۔اس کا لند مـیرے پیٹ سے لیکر مـیرے سینے تک آیـا ہواتھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنا لند اگے پیچھے ہوکر ہم دونوں کے درمـیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ہیٹ سے مـیرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون مـیں مـیری زبان اور منہ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے آپ کو مـیرے اوپر رگڑرہا تھا۔مـیں تو فارغ ہوچکا تھا اس لئے مـیرا احساس کچھ زیـادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح آہیں بھر رہا تھا ۔ طوفان تھمنے کے بھی کئی دیر تک وہ مجھے مـیرے منہ مـیری زبان چوستا رہا۔اس کا سارا وجود مـیرے اوپر کانپ رہا تھا۔ اس کا لند تھا کہ ٹھنڈاہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔نہ ہی اس کے سائیز مـیں کوئی فرق آرہا تھا۔اس کی دھیڑ ساری منی سے دونوں کا جسم لتھڑ گیـاتھا۔تھوڑی دیر بعد وہ پلٹ کر برابر مـیں سیدھا لیٹ گیـا اور پھرہاتھ بڑھا کر مجھے خود پر کھینچ لیـا۔وہ مسکرایـاآج تو مجھے مزہ آگیـا۔تم کو اچھا لگا` مـیں نے اثبات مـیں گردن ہلادی۔تم سے مل کر مجھے لگا ہے جیسے کوئی ادہورا پن ختم ہوگیـا ھے۔مـیں آج بہت خوش ہوں`مجھے پھر ثاقب یـاد آیـا اور پھر مجھے وقت کا احساس ہوا۔مـیں نے اس سے کہا کہ بہت دیرہوگئی ہے گھر والے پریشان ہورہے ہونگے تو اس نے مجھ سے کہا کہ مـین جلدی سے اپنا بدن دہولوں۔مـیرے بدن ہر پھیلی ہوئی اس کی منی سے مجھے بھی کراہت سی محسوس ہوئی۔مـین نے جلدی سے اپنا بدن دھوکر کپڑے پہن لئے۔اس نے بھی یہی کیـا۔اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایـا اور نہ چاہتے ہوئے بھی مـیں نے اس سے پوچھ لیـاکیـا ثاقب مجھ سے واقعی ملے گا`وہ اس سوال پر چونکا۔اسے شاید ابھی مجھ سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر پھیکے انداز مـیں مسکرایـاکیوں نہیں تم بس تھوڑا سا انتظار کرو۔مـیں تمہیں چند دنوں مـیں فون کرونگا۔`پھر اس نے مجھے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ڈراپ کیـا۔دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھرہاتھ ملا کر بائے کرکے چلاگیـا اور مـیں ثاقب سے ملاقات کا تصور کرتے ہوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔مجھے امـید تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ایک دن مـیں ثاقب مـیرے دل و دماغ پر چھاگیـا تھا۔اب مجھے بے چینی سے آنے والے حالات کا انتظار کرنا تھا</span></b></span></li><li><span style="color: #990000; font-size: large;"><b><br /></b></span></li><li><span style="background-color: white; font-size: large;"><b><span style="color: #990000;">اپنی کہانیـاں ،آبیتیـاں اور آراء adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔</span></b></span></li></ul><br /><div><br /></div>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-15628834407264552122012-07-09T06:43:00.003-07:002012-07-09T06:43:43.207-07:00

Suhag Raat Shadi sy Pehly

<br /><br /><br /><ul><li style="text-align: right;"><b style="background-color: white;"><span style="color: red; font-size: large;">یہ کہانی ویسے تو مـیرے دوست کی مامـی کی ہے جس کو مـیں نے بھی چودہ ہے لیکن یہ پھر کبھی بتاں گا یہ کہانی اس نے مجھے بتائی ہے جس کو مـیں اپنے لفظوں مـیں اور اس کہانی مـیں خود کو ڈال کر لکھ رہا ہوںمـیں بہت گبھرا رہا تھا کیوں کے مـیں جو کرنے جا رہا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا،یہ کہانی جو لکھ رہا ہوں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آپ سب دوستوں سے گزارش ہے کے اس کہانی کو پڑھ کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا لینا...</span></b></li><li style="text-align: right;"><b style="background-color: white;"><span style="color: red; font-size: large;">یہ کہانی صرف کچھ وقت کے مزے کے لئے ہے،اس کہانی مـیں سب نام فرضی ہوں گے،مـیرا نام طلحہ ہے یہ کہانی مـیری اور مـیری مامـی کی ہے،ہوا کچھ یوں کے مـیرے مامو کی شادی تھی...... انٹی کی چودایی مـیں نے اپنے ماموں کی سہاگ رات منائی آپ سب پریشان ہوں گے لکین یہ کہانی آپ لوگوں کے مزے کے لئے لکھ رہا ہوں،ان کے ساتھ مـیرا ہر طرح کا مذاق تھا.. انٹی کی چودایی ان کی عمر بیس سال تھی اور مـیری عمر اس وقت ستراں تھی</span></b></li><li style="text-align: right;"><b style="background-color: white;"><span style="color: red; font-size: large;">ہم اکھٹے پوندی کرتے تھے کھاتے پیتے تھے.. جب مـیرے ماموں آٹھیس سال کے ہوئے تو ان کی شادی کر دی تھی،مـیری مامـی کی عمر اس وقت چوبیس سال تھی.. مـیرے ماموں جو بھی بچی چود کر آتے مجھے بتاتے لکین مـیں نے ماموں کو کبی یہ نہیں کہا تھا کے مجھے بھی بچی کی پھدی دلوا ئو،مـیری مامـی بہت پٹاخہ عورت تھی یہ مجھے ان کی سہاگ رات والے دن پتا چلا تھامـیری مامـی کے ممے چھتیس کے تھے بند ان کی بتیس کی تھی اور کمر اس کی تیس کی تھی بہت کمال کی رنڈی تھی،مـیرے مامو نے ایک لڑکی کے ساتھ زینہ کر لیـا تھا وہ سیل پیک تھی شاید اس کی بد دوا لگ گئی تھی جو مـیرے مامو اپنے لن سے ھاتھ دھو بیٹھے،یہ بات مجھے اور مامو کو پتا تھی اوری کو نہیں پتا تھی..... مـیرے مامو کے بہت رشتے آئے تھے لکین مـیرے مامو ہر دفعہ انکار کر دیتے تھے یہ کہ کر کے مجھے شادی نہیں کرنی کبھی یہ کہہ کر کے لڑکی اچھی نہیں ہے پیـاری نہیں ہے،لکین ایک دن ان کو اپنی ماں کی ضد کے آگے ہارنا پرا اور شادی کے لئے من گے تھے سب گھر والے خوش تھے ... لکین مامونے جب مجھے بتایـا کے مـیں اب بھی شادی کے قابل نہیں ہوں تو مـیں نے ماموں سے پوچھا کے آپ من کیوں گے ہو مامو نے کہا تیری نانی نے ضد کی ہے تو مجھے ماننا پڑا.....مـیں نے کہا کے مامو جی اب کیـا ہو گا مامو رو پڑے اور کہا کے ہونا کیـا ہے مـیرے ساتھ ایسا ہونا چاہیے تھا مـیں نے مامو کو تسلی دی اور کہا کے آپی حکیم کو چیک کرا ہو سکتا ہے کوئی بات بن جانے مامو نے کہا کے مـیں نے بہت سے حکیموں سے بات کی ہے لکین کوئی فرق نہیں پڑا ہے یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے مـیں چلے گے اور مـیں نے ان سے اور بات کرنا مناسب نہیں سمجھا..............مامو اپنے لن سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یہ مجھے نہیں پتا تھا یہ تو مجھے بعد مـیں پتا چلا جب ہم لڑکی دیکھ کر آئے تھے،مامو کے جانے کے بعد مـیں سوچ رہا تھا کے ان کی بیوی ان کا ساتھ دےکیـا وہ ان کے ساتھ ایسے گزارا کر لےکیـا وہ ان کے ساتھ ساری زندگی اسے گزر دے................ان باتوں کو سوچ سوچ کر مـیرے سر مـیں درد ہونے لگ گئی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں لگ رہی تھی کے مـیں مامو کی طرح مدد کروں....... مجھے مامـی پر رہ رہ کر رونا آ رہا تھا بیچاری اب ان کے ساتھ کیسے زندگی گزرے گی.... خیر مـیں نے بھی یہ سوچ لیـا تھا کے مامو کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے تھا انہو نےی کی زندگی خراب کی ہے ان کی ساتھ تبھی ایسا ہو رہا ہے.......... خیر مـیں اپنے کام مـیں مصروف ہو گیـا پتا نہی چلا کے کب رات ہوئی . رات کو مامو کے ساتھ دوبارہ بات ہوئی وہ بہت پریشان تھے مجھے کہتے کے آ باہر سے کچھ لے آتے ہیں مـیں نے بھی کہا کے ٹھیک ہے پھر مـیں تیـار ہو گیـا کپڑے پہنے اور ہم دونو کچھ کھانے کے لئے چلے گے راستے مـیں مامو روتے رہے مجھے ان کی اس حالت پر بہت ترس آ رہا تھا لکن پھر مـیرے ذھن مـیں صبح والی بات آ گئی اور مجھے ان پر غصہ آنے لگ گیـامـیں نے دل مـیں سوچا کے کیوںی کی زندگی خراب کی ہے آج اپنے اوپر بنی ہے تو پتا چل رہا ہے پھر مـیں نے مامو کو جوٹھی تسلی دی اور کہا کے مامو کچھ نہیں ہوتا اپ صبر سے کام لو کچھ نہ کچھ ہو جاے گا لکن مامو مسلسل رو رہے تھے مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کے مـیں کیـا کروںمـیں نے کہا مامو اگر اپ چپ نہ ھوے تو مـیں نانی امـی کو آپ کی یہ بات بتا دوں گامامو نے کہا کے پاگل ہے اگر یہ بات بتائی تو مـیں اپنی جان دے دوں گا مـیں نے کہا کے مامو پھر آپ چپ ہو جو مجھ سے آپ کا رونا نہیں دیکھا جاتا یہ اپ کی حالت نہیں دیکھا جا رہی،مـیں تو اوپراوپر سے یہ باتیں کر رہا تھا لکن مامو سمجھے کے یہ بات سچ ہے اور مجھے ان کی حالت پر ترس آ رہا ہے اور وہ چپ ہو گے،خیر ہم ایک ہوٹل کے پاس جا کر رکے... وہاں سے کھانا کھایـا اور گھر آ گئے اگلے دن لڑکی والی اے مامو کو پسند کر کے کچھ رسمے کر کے چلے گے اب ہماری باری تھی ہم نے کچھ دنو بعد جانا تھا لڑکی والی مامو کی تصویر لے گے تھے اپنی بیٹی کو دکھانے کے لئے مامو نے سارا دن مجھ سے بات نہیں کی مـیں بھی حیران تھا مامو کو کیـا ہوا ہے مـیں مامو کے کمرے مـیں گیـا تو وہ رو رہے تھے مـیری نانو اور گھر والے سب لڑکی کے گھر جانے کی تیـاری کے لئے باہر سے کچھ سامان لینے گے تھے۔مامو کیـا ہوا ہے،مامو نے چپ ہونے کا ناٹک کیـا اور کہا کے کچھ نہیں ہوا مـیں نے مامو کو کہا کے مامو اپ نانی کو کہو کے مجھے رشتہ پسند نہیں آیـا مـیںنے ابھی شادی نہیں کرنی مامو پاگل ہے تو تیرا دماغ خراب ہو گیـا ہے اب سب تیـاریـاں ہو رہی ہیں اور مـیں منا کر دوںتو مامو اپ پھر روتے کیوں ھو اگر کچھ نہیں کر سکتے مجھے بتا مـیں نانی سے بات کر لیتا ہوں مـیں اپ کی مدد کر لیتا ہوںمامو نے کہا کے تو جا مـیں خود کچھ کر لوں گارات کو گھر والے سب آئے مامو نے باہر سے کھانا لیـا اور کھالیـااگلے دن مـیں اپنے گھر آ گیـا لکن مامو کے ساتھ روز فون پر بات ہوتی تھی وہ روز روتے تھے اور پھر فون بند کر دیتے تھے .خیر ایک دن مامو نے مجھے فون کیـا اور کہا کے لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں تو بھی آ جا اپنی مامـی کو دیکھ آمـیں نانو کے گھر چلا گیـا سب تیـار تھے مـیرا انتظار ہو رہا خیر ہم سب لڑکی دیکھنے چلے گے.... راستے مـیں مامو نے مجھے کہا کے لڑکی کی تصویر لے آنا. مـیں نے کہا کے ٹھیک ہے،کچھ دیر بعد ہم لڑکی والوں کے گھر پونچھ گے انہو نے ہمارا سواغت کیـااب لڑکی کو دیکھنے کی باری تھی کافی ساری لڑکیـاں ہمارے سامنے آئیں لکین وہ لڑکی نہیں آ رہی تھی جو مـیرے مامو کی بیوی بننے والی تھی........... ایک لڑکی ائی اس نے اپنا کند نکالا ہوا تھا لڑکی کی ماں نے مـیری نانی کو کہا کے یہ لڑکی ہے نانو نے کہا کے اچھی تربیت دی ہے اس کو اپ نے لڑکی کی ماں نے کہا کے شازیہ اپنا دوپٹہ اتارو اس نے دوپٹہ اتارا تو ہم سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گے اتنی خوبصورت لڑکی مـیرے مامو کی بیوی بنانے جا رہی تھی نانی نے تو اور بات نہیں کی لڑکی کو پسند کر لیـا اور شگن کر لئے اور پھر سب کو مبارک بعد دی سب کزن ان نے بات کر ر ہی تھے اس کے ساتھ تصویراتروا رہے تھے مـیں نے بھی تصویر اتروائی .... مامـی کے ساتھ بات کی مـیں نے پوچھا کے مامـی اپ کو مـیرے مامو کیسے لگے انہو نے شرماتے ھوے کہا کے بہت اچھے لگے اور یہ کہ کر وہ اپنے کمرے مـیں چلے گئی پھر ہم لوگ بھی گھر آ گے گھر آ کر مامو کو لڑکی کی تصویر دکھائی تو مامو اپنے کمرے مے چلے گے اور پھر سے رونے لگ گے مـیں نے مامو کو کہا کے کچھ نہیں ہوتا اپی حکیم سے بات کرو آپ کا مسلہ حل ہو گا آپ ایک دفع اور بات کرو لیکن مامو مسلسل رونے لگ گے مـیں کمرے سے باہر آیـا تو نئی خبر سننے کو ملی وہ یہ کے لڑکی والوں نے کہا ہے کے وہ شادی ایک ہفتے مـیں کرنا چاھتے ہیںنانی نے کہا کے اس لئے تیـاری بہت جلد کرنی ہومـیں اس وقت مڑا اور مامو کو جا کر یہ بات بتائی مامو نے کہا کے مـیں نے سوچ لیـا ہے کے مـیں کچھ کھا کے مر جاں گامـیں نے مامو کو کہا کے اپ اسی حرکت نہ کرو مـیں اپ کے کام آئوں گا اپ مـیرے ساتھ چلو حکیم کے پاس مامو نے کہا کے مـیں خود جاں گاپھر وہ اٹھے اور باہر چلے گے رات گے تک مامو گھر نہ آئے ہم سب پریشان تھے لکین مامو آئے تو سب کی جان مـیں جان آئی مامو بہت خوش تھے مامو اپنے کمرے مـیں گے نانو بھی چلے گئی اور مـیں نانو نے ماموسے پوچھا کے اتنی دیر سے کیوں آئے ہو مامو نے کہا کے دوستوں کو دعوت دینی تھی شادی کی نانو نے کہا کے جلدی تیـاری کر لو ایک ہفتے کا وقت دیـا ہے اس لئے جو جو کرنا ہے جلدی کرونانو گئی تو مامو کو کہا اپ کو کہا تھا نہ کے آپ جا حکیم کے پاس اب خوش ہو نہ مامو نے کہا کے مـیں جو بات تم نے کرنے لگا ہوں تم کو سن کر دکھ ہو گا لکین مـیری عزت کا سوال ہے مـیں نے کہا کے مامو بولو انہو نے کہا کے سہاگ رات تم منا ئوگے یہ کہہ کر مامو کی نظریں نیچے جھک گئی ما ما ما مامو آپ یہ کیـا کہ رہے ہو مامو نے کہا کے مـیں نے بہت سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیـا ہے،تم نے کہا تھا کے مامو مـیں آپ کے کام آئوں گا اپ کی مدد کروں گا اب تمہاری باری ہے،مـیں نے کہا کے مامو یہ غلط ہے مامو نے کہا کے مـیں مر جاتا ہوں اور کیـا کروں بتا مجھے جواب دومـیں نے کہا کے مامو اپ کچھ اور سوچو انہو نے اپنی شلوار اتری اور کہا کے یہ دیکھو مـیرا لن نہیں ہے مـیں مامو کی اس حرکت پر حیران تھا مجھے غصہ آ رہا تھا مامو کی اس حرکت پر مامو رو رہے تھے مـیں نے کہا کے مامو اپ کچھ نہ کرنا مـیں اپ کا ساتھ دوں گا مامو خوش ھوے اور کہا کہ ٹھیک ہے لکین یہ باتی کو نہ بتانا مـیں نے کہا ک ٹھیک ہے پھر مـیں مامو کے کمرے سے باہر آ گیـا.مجھے مامو کی بات پر غصہ بھی آ رہا تھا اور حیرانگی بھی پر مـیں کیـا کرتا ایک جان کو بچانے کی بات تھی،اس لئے مجھے ہاں کرنی پڑی جب مـیں کمرے سے باھر آیـا تو مـیں اس سوچ مـیں گم تھا کے مامو ایسے سوچ بھی کیسے سکتے ہیں.وہ مجھ سے کیسے بات کر سکتے ہیں انہو نے ایسا کیوں کہا کے مـیری سہاگ رات تم منا گے..باھر آیـا تو نانی نے کہا کے اب تم ادھر رہو گے جو بھی شوپنگ کرنی ہی مجھے بتا دینا مـیں کروا دوںتمہاری ماں بھی کل آ رہی ہے مـیں نے کہا کے ٹھیک ہے نانی جی پھر نانی نے کہا کے مـیرے ساتھ بازار چلو کچھ لانا ہے مـیں ان کے ساتھ چلا اور انہو نے کچھ کھانے کے لئے لیـا اور پھر ہم گھر آ گے گھر آیـا نہیں کے مامو نے کہا کے مـیرے ساتھ چلو مـیں ان کے ساتھ چلا گیـا مامو نے کہا کےی کو نا بتانا مـیری عزت ہے مـیں نے کہا ک مامو آپ مامـی کو کیسے منائو گے کہتے اس کا انتظام ہو گیـا ہے مـیں نے کہا کے مامو کیـا انتظام کرو گے مامو نے کہا وہ تم کو خود پتا چل جائے گا مـیں نے کہا کے بتا تو سہی مامو نے کہا کے خود دیکھ لینا مـیں مان گیـا پھر انہو نے کچھ خریدا لکین مجھے نہیں بتایـا مـیں نے بھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا پھر ہم گھر آ گے سارا دن سو کے گزر گیـا رات کو کھانا کھایـا اور پھر سے سو گیـا آگلے دن سب مہمان بھی آ گے تھے سب خوش تھے مامو بھی خوش....لکین ایک بات جو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یہ تھی کے مامو مجھ سے نظریں نہیں ملا رہے تھے جو کے حیرت والی بات تھی،مـیں نے سوچا شاید ایسے ہے ہو پھر گھر مے سب لوگ دھولکی بجانے لگ پڑے ہر طرف دھولکی کی آواز آ رہی تھی ..ہنستیں ہساتے دن گزر گے آج مامو کی تیل مہندی تھی سب کزن مامو کے ساتھ مذاق کر رہے تھے ان کو چھیڑ رہے تھے مامو بھی ان کے ساتھ خوش تھے... مجھے ان کی خوشی سے خوشی ہو رہی تھی،مـیں یہ سوچ رہا تھا کے ان کو خوش کروں نہ کروں لکین مـیںنے ھاں کہ دی تھی اس لئے مـیں یہ کام کرنے پے مجبور تھا تیل مہندی والی رسم پر مامو نے مجھے کہا کے کل کے لئے تیـار رہنا ساتھ ہی انکی آنکھ سے آنسو بہ گیـا مـیں نے کہا کے مامو اپ رو نہ سب اچھا ہو گا مامو نے بمشکل رونا چھوڑا اور مجھے کہا کے پانی پلا مـیں نے ان کو پانی پلایـا پھر مامو کے دوست آگے ان کے ساتھ مامو مصروف ہو گے ہم کزن آپس مـیں شگل مگل لگانا شروع ہو گے مہندی کی رسم کب ختم ہی پتا نہیں اور تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آگئی..مـیں جب اٹھا تو بارات کی تیـاری ہو رہی تھی مامو تیـار ہونے گے تھے اور گھر مـیں کزن تھے مـیں نے ناشتہ کیـا پھر تیـار ہونے لگ گیـا پھر مامو کا فون آیـا مـیں نے اٹھایـا تو مامو نے کہا کے تیـار ہو جانے اپنی چھویں بھی صاف کر لینا مـیں مامو کی باتوں سے حیران تھا مامو اتنی کھلم کھلا باتیں کیسے کر سکتے ہے، مامو اپنی بیوی خود چودوانا چاھتے تھے تو مجھے کیـا مسلہ تھا..... مـیں نے چھویں صاف کی نہایـا ناشتہ کیـا اور پھر مـیں کزنو کے ساتھ باتیں کرنے لگ گیـا انہو نے مامـی اور اپنی چاچی نہیں دیکھی تھی ان کو مـیں نے اس کی تصویریں دکھائی سب نے مامـی اور اپنی چاچی کی تعریف کی مجھے بھی ان کی خوبصورتی پر رشک آ رہا تھا...لکین مـیں اندر ہی اندر ان کی قسمت پر رو رہا تھا کے اس نےسا ایسا جرم کیـا ہو گا جس کی ان کو اتنی بڑی سزا مل رہی ہے لکین افسوس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تھاخیر مامو تیـار ہو کر آ گے تھے وہ بھیی ہیرو سے کم نہیں لگ رہے تھے لکین ہیرو نیچے سے زیرو تھا یہ صرف مجھے پتا تھا اور مامو کو،سب نے مامو کی تعریف کی لکین مامو اداس ہونے کی بجانے خوش تھے مجھے مامو کی خوشی کی وجہ صاف پتا لگ رہی تھی مـیں ایک طرف اس کام سے ڈر رہا تھا اور دوسری طرف مامو کی خوشی چاہیے تھی اور ان کی زندگی بچانی تھی مـیں مارتا کیـا نہ کرتا کیوں کے مـیرے مامو تھے اور مـیں نے ان کو ان کے اس وقت مـیں ساتھ دینے کا بھی کہا تھا اس لئے مـیں دونو طرف سے پھنس چکا تھا ایک طرف مامو کو زبان دی تھی اگر اس سے انکار کرتا تو مـیرے مامو کی موت کی وجہ مـیں ہوتا.اور دوسری طرف مجھے مامو کی خوشی چاہیے تھی مـیں نے ہاں کر دی تھی لکین ڈر تھا کے اگر مامـی نہ مانی تو مامو کی بدنامـی کے ساتھ ساتھ سارے خاندان کی بھی بدنامـی ہو جاتی.... مـیں یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھاکہ مامو نے کہا کے کیـا سوچ رہے ہومـیں بوکھلا کے بولا،ما ما مامو کچھ نہیں،مامو نے کہا دیکھو مـیری زندگی موت تمہارے ہاتھ مے ہے مـیں نے کہا کے مامو پر یہ غلط ہے مامو نے کہا ٹھیک ہے مـیری بارات نہیں جائےمـیرا جنازہ اٹھے گا پڑھ کر جانایہ کہ کر وہ اپنے روم مے چلے گے سب ان کی اس حرکت پر حیران تھے لکین اس وقت کو سمبھالنا مـیرے ہاتھ مے تھاسو مـیں جلدی سے اوپر کمرے مے گیـا اور مامو کو کہا کے دروازہ کھولو مامو نے کہا کے نہیں تم جا تم کو اپنے مامو کی خوشی نہیں چاہیے مـیں نے کہا کے مامو اپ جو کہو گے کروں گا لکین اپ باہر آئو....مامو نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں لال سرخ تھی مجھے واقعی دکھ ہو رہا تھا کے مـیں نے مامو کی اس بات کو کیوں نے مانا...مـیں نے مامو کو اندر کمرے مے لے کر جا کر کہا کے مامو اپ کا حکم سر آنکھوں پرمامو نے کہا ٹھیک ہے مـیری یہ بات مانو تم کو جو بھی ضرورت ہوئی بتا دینا مـیں نے کہا ٹھیک ہے پھر مامو کو کہا کے اپ کیسے منائو گے مامـی کو تو مامو نے کہا کے یہ مجھ پر چھوڑ دومـیں نے کہا ٹھیک ہے پھر نانی کمرے مے آ گئی کیـا باتیں کر رہے ہو ماما بھتیجانانی کچھ نہیں مامو نے کہا امـی جی یہ کہ رہا ہے کے اس کے پاس پیسے نہیں ھیں اس نے لوٹانے ھیں نانو نے کہا کے یہ لو پیسے انہو نے مجھے اپنے پرس مـیں سے دو تھادیـاں تھی دس دس والی نوٹ کی اور کہا کے جی بھر کر لوٹاناپھر نانو نے کہا کے جلدی نیچے آ جائو بارات جانے والی ہے پھر مـیں اور مامو نیچے آ گے اور ہم سب گاڑی مے بیٹھنے لگ گے سب کزن گھر والے بھی راستے مے بہت مزہ کیـا گانے گائے جگتیں کی...راستے مے مامو نے مجھے دو تین بار ایس ایم ایس کیـا کے ڈرنا نہ مـیں ہم تمہارے ساتھ مـیں نے مامو کو کہا کے ٹھیک ہے لکین مامـی کیسے مانےمامو نے کہا مـیں ہوں ابھی زندہ پھر بارات والی جگہ آ گئی سب لوگ اترے مامو بھی اپنی کار سے اترے..مـیں ہم ہال مے داخل ھوے لڑکی والوں نے ہمارا سوغات اچھے سے کیـا ہم ہال کے اندر بیٹھ گے تھوڑی دیر مـیں لڑکی آئی سب کے سب کزنو کہ اورگھر والوں کے منہ کھل گے. مامو کی آنکھوں مـیں پھر سے آنسو آنے لگ گے لکین مـیں جلدی سے آگے بڑھا اور مامو کو یـاد دلوایـا کے مـیں ابھی زندہ ہوں ساتھ ہی مامو نے اپنے غم کے آنسووں کو خوشی کے آنسووں مے بدل لیـا مـیں نے شکر کیـا کےی نے نہیں دیکھا لکین مامـی نے اس بات کو شاید محسوس کر لیـا تھا اور مامو کو عجیب عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی....مـیں نے اس بات کو اپنا وہم سمجھ کر ان دیکھا کر دیـا تھا .پھر باقی رسمـیں ادا کی کھانا کھایـا اور رخصتی کا وقت آ گیـا تھامامـی بہت رو رہی تھی کیسے نہ روتی آخر اپنے ماں باپ سے جدا ہو رہی تھی پھر مامـی کی رخصتی ہو گئی اور ہم مامـی کو گھر لے آئے لکین واپس پر مامو کی گاڑی مے مـیں بھی بیٹھا تھاگھر آ کر گھر والوں نے کچھ رسمـیں ادا کی.پھر مامو اور مامـی اپنے روم مے چلے گیـا سہاگ رات منانے. مامو اور مامـی کو گے ھوے تیس منٹ سے زیـادہ ہو گیـا تھا لیکن وہ باہر نہیں آئے تھے مجھے فکر ہو رہی تھی لیکن پھرکچھ دیر بعد مامـی آ گئی اور ان کے پیچھے پیچھے مامو بھی آ گے گھر والی حیران تھے لکین مامو بھی خوش تھے اور مامـی بھی مـیں سمجھ نہیں پا رہا تھا کے یہ کیـا معاملہ ہے کیـا مامو نے مامـی کو مانا لیـا ہے یـا پھر نہیںمـیں یہ سوچ رہا تھا کے مامـی نے مجھے کہا طلحہ تم چلو گے ہمارے ساتھ کچھ کھانے پینے گھر والوں سمـیت مـیں بھی حیران تھا کے مامـی آج کے دن سے مـیرے ستے اتنا گھل مل رہی ہے.مـیں اتنا خوبصورت بھی نہیں تھامـیرے اور بھی کزن تھے انکو بھی مامـی کہہ سکتی تھی لیکن مجھے کیوں مامو نے اس سے کیـا کہا تھا مامـی کو جو وہ تیس منٹ بعد من گئی تھی مـیری نانو نے کہا طلحہ بچے تیری مامـی تو تیرے سے ابھی سے گھل مل رہی ہیں اچھی بات ہے تو آج سے ہی ان کو اپنی پسند نہ پسند بتا دے مامـی نے کہا نانی جی اب مـیں اس کی مامـی ہوں یہ مجھ پر چھوڑ دو مـیں صرف اس کا خیـال نہیں رکوں گئی باقیوں کا بھی رکھوںنانی نے کہا یہ ہوئی نا اچھی بچیوں والی بات پھر مامو نے کہا کے تم لوگ جائویہ گاڑی کھولو مـیں ابھی آتا ہوںراستے مے مـیں مامـی سے بات نہیں کر پا رہا تھا.مامـی مجھ سے پوچھ رہی تھی کیـا کرتے ہو کوئی دوست ہے تمہاری لیکن مـیں مامـی کی بات کا جواب نہیں دے پا رہا تھامامـی نے ہنستے ہوئے کہا کے تھوڑی دیر بعد کیـا کرو گے مـیں نے پوچھا کے کب انہو نے کہا جہاں جا رہے ہیں خود پتا چل جائے،اتنی دیر مے مامو آ گے کیـا بات کر رہے ہو تم دونو کچھ مجھے بھی بتا مامـی نے کہا کہ یہ شرما رہا ہے اس سے کچھ ہو گا بھی کے نہیں مامو نے کہا کے مجھے نہیں پتا خود پوچھ لو مامـی نے کہا کے شرماتا ہے چلو وہا جا کر پتا چل جاتے گامامو نے گھر فون کر دیـا کے ہم لوگ کچھ دیر تک آ جائیں گے پھر ہم نے جوس پیـا مامو نے مجھے بادام بھی لے کر دے کے کھا لینا... پھر ہم لوگ گھر آ گے مـیں سارے راستے یہ سوچتا رہا کے مامو نے ایسا کیـا کہا ہے کے مامـی بنا شرماے مجھ سے بات کر رہی ہے پھر ہم گھر آگے تو نانو جاگ رہی تھی نانو نے کہا کے آ گے ہو گھر والے سب سو رہے تھے نانو بھی سونے چلےپھر مـیں اپنے روم مے اگیـا تو مامو نے مجھے کال کی اور کہا کے نیچے آئو مـیں نیچے آ گیـا تو مامو نے کہا کے اندر جا مـیں نے کہا کے اپ کدر جا گے تو مامو نے کہا کے دوسرے کمرے مے تو مـیں نے کہا کے مامو جی مامـی مان گئی ہے مامو نے کہا ہاں تو مـیں نے پوچھا کے کیسے تو انہو نے کیـا کے خود پوچھ لینا مـیں نے کہا کے ٹھیک ہے.... پھر مـیں ڈرتے ڈرتے اندر آگیـا مامو نے اپنے کپڑے اترے ہوئے تھے اور رات والے کپڑے پہنے تھے مامو نے کہا کے جلدی کرنا کیوں کے نانو تیری نے کچھ دیر بعد جانا ہے اور مـیرے سالوں نے بھی آجانا ہے مامـی نے کہا کے اپ جا اب مـیں مامو اور مامـی کی باتیں سن کر شوک مـیں تھا مامـی نے کہا سوچو نہ کل ولیمہ ختم ہونے دو مجھے اپنی ماں کے گھر سے آنے دو پھر سب بتا دوں گئی پھر مامـی نے کہا اپنے کپڑے اتارو مـیں نے کہاتھا تھا ٹھیک ہے لکین مجھے شرم آ رہی ہے مامـی جی مامـی نہ کہا کے شرم اتر دوںپہلے کپڑے اتارو پھر مـیں نے کپڑے اتارے ابھی مـیری شلوار نہیں اتری تھی کے مامـی ننگی ہو کر بیٹھ گئی تھی..مجھے مامـی کی اس حرکت نے مجھے چونکا دیـا تھامامـی نے کہا کے اتر بھی لو مـیرے بھولے راجہ مـیں نے پھر کپڑے اتارے مـیں نے مامـی کو کہا کے مجھے کچھ نہیں کرنا آتا مامـی نے کہا کے مے سیکھا دوںابھی واش روم جا دھو کر آئو مـیں واش روم گیـا لن کو دھویـا پھر باہر آ گیـا پھر مامـی گئی اور وہ بھی دھو کر آ گئی..مامـی اب بلکل ننگی مـیرے سامنے آ کر بیٹھ گئی تھی ادھر مامـی سوچ رہی تھی اور ادھر مـیں کےشروات کرے ہم دونو خاموش تھے. یہ خاموشی مامـی نے توڑی اور کہا کے کچھ کرو گے کے تمھارے مامو آئیں اور تم کو کہیں کے اپنی مامـی کو چودو مـیں مامـی کے منہ سے یہ باتیں سن کر حیران ہو رہا تھا... پھر مامـی اٹھی اور مجھے کہا کے مـیں لٹتی ہوں تم مـیرے اوپرآئو مامـی اب لیٹ چکی تھی اور مـیں ان اوپر تھا ان کے چھتیس کے ممے مـیرے سینے کے ساتھ لگ رہے تھے مـیں کافی عرصے بعد پھدی لے رہا تھا اس لئے مـیرے اندر گرمـی زیـادہ ہو رہی تھی مامـی نے کہا کے جنو اب شروع کر دو مـیں نے بھی بوتھ اپنا بھولا پن دیکھا دیـا تھا. پھر مـیں نے مامـی کے ماموں پر اپنا سینے کا وژن بڑھا دیـا اور ان کو چومـیاں کرنی شروع کر دی مـیں نے بھی مـیرا ساتھ دینا شروع کر دیـا تھا مـیرا ڈر مامـی کی باتوں نے ختم کر دیـا تھا. اس لئے مـیں بنا ڈرے مامـی کو چودنے والا تھا. مامـی مـیرے نیچے والی ہونٹ چوس رہی تھی مـیں مامـی کے اوپر والی ہونٹ چوس رہا تھا یہ سلسلہ پانچ منٹ تک چلاتا رہا پھر مامـی نے مجھے نیچے لٹایـا اور مـیرے اوپر آ گئی آتے سار انہو نے مجھے پیـاسو کی طرح چومنا شروع کر دیـا تھا... مـیں مامـی کی اس حرکت سے گرم ہو گیـا تھا نیچے سے وہ اپنی پھدی مـیرے لن کے ساتھ رگڑ رہی تھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ مـیرا لن اپنی پھدی مے لے لیں لکین مـیرا خیـال تھا وہ مـیری ساری شرم اترنا چاہتی تھی اس لئے مجھے پاگلوں کی طرح چوم رہی تھی... مامـی ساتھ ساتھ مـیرے بالوں مـیں اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی مجھے مزہ آ رہا تھا پھر اچانک مامـی روک گئی مجھے لگا ان کی پھدی پانی چھوڑ گئی ہے لکین وجہ کوئی اور تھی مامـی نے کہا کیوں جی اب مـیرے راجہ کی شرم اتری کے نہیںمـیں نے کہا جی شازیہ جی اتر گئی ہے لگتا واقعی اتر گئی ہے جو مـیرا نام لے رہے ہو مـیں نے کہا جی انہو نے کہا ٹھیک ہے اب کرو جو کرنا ہے مـیں نے یہ حکم سمجھا اورپھر ان کی آنکھوں سے لے کرجسم کے ایک ایک انگ کو چومنا شروع کیـا کبھی آنکھوں کو چومتا کبھی مموں کو کبھی پیٹ پر چمـی کرتا کبھی ٹانگ پر گرز پورے جسم کو چوما تھا مامـی مزہ سے پاگل ہو رہی تھی لکین وہ چاہتی تھی کے مـیں ان کی پھدی کو بھی چوموں اندر زبان دلوں لکین یہ مـیں مامـی کے منہ سے سنانا چاہتا تھا آخر مامـی بول پڑی....ظالم پھدی بھی ہے اس کو بھی مزہ دومـیں نے پھدی کو کھولا رو مجھے عجیب سے خوشبو آئی جو مـیرے لن کو ہتھوڑا بنا رہی تھی مـیں نے بیتحاشا مامـی کی پھدی کو چومنا شروع کر دیـا ساتھ ساتھ مامـی کے تانے ھوے نیپلز بھی دبا دیتا جس سے مامـی کے منہ سے آہ نکل جاتی اور مجھے مزہ آتامـیں نے مامـی کی پھدی کو چوس چوس کر فل گیلا کر دیـا تھا کچھ مـیرے تھوک سے کچھ ان کی پھدی کے پانی سے گیلی ہو گئی تھی مـیں نے مامـی کو پوچھا مامـی اپ نے کبھی چودوایـا ہے مامـی نے کہا لن ڈال کر دیکھ لے کے پہلے چودوایـا ہے مـیں نے کے نہیں مـیں نے کہا اتنی جلدی مامـی نے کہا کے ہاں..نہی مامـی ابھی مـیرا للا چوسو پھر تمہاری پھدی ماروں گا مامـی نے کہا اچھے مـیرے راجہ لیٹ جا مـیں چوستی ہوں تیرا لوراپھر مامـی نے مـیرا لن منہ مـیںڈالااف مزہ آ گیـامـیں نے اسی چوپا ماسٹر کبھی نہیں دیکھی تھی کیـا کمال کیـا چوپا لگا رہی تھی مـیرے انگ انگ مے مستی پیدا ہو رہی تھی پھر مامـی خود اپنی پھدی مـیرے مہ کے پاس لے کر ائی اور کہا کے تو مـیری پھدی چاٹ مـیں تیرا لورا چوستی ہوں مـیری پھدی پانی چھوڑنے والی ہے مـیں نے کہا مـیرا لن بھی پانی چھوڑنے والا ہے پھر مامـی نے لن کا ایسا چوپا لگانا شروع کر دیـا کے مـیری زبان مامـی پھدی کے اندر خود با خود جانے لگ گئی منی کبھی مـیرے لن کو چوستی تو کبی رنڈیوں کی طرح مـیرے ٹٹوں کو تو کبھی لن کی ٹوپی کو چوستی پھر مـیرا لن پانی شورننے کے قریب تھا مامـی نے کہا کے اندر زبان ڈال فل ایسے اہ اف اہ مزہ آ گیـامامـی کی پھدی کا پانی مـیرے مہ مے تھا اور مـیرا پانی مامـی کے منہ سے ہم دونو مزہ سے نڈھال ہو گے تھے جو مزہ مامـی کے چوپے مے ساتھ اف لفظوں مے بیـان نہیں ہو سکتا کیـا چوپا ماسٹر تھی مامـی اف مزہ آ گیـا کمال کا لن چوستی ہو آپ اف تو بھی کم نہیں مزہ دے دیـا آج تک نیٹ پر ایسے دیکھتی آ رہی ہوں آج اصل مے تو نے مزہ دے دیـا ہے اب پھدی کو بھی مزہ دے مـیں پھدی صاف کر آئوں پھر چودنا مجھے اور ہاں بادام کھا لے مـیرے راجہ مـیری پھدی کو تیز تیز چودنا مامـی مجھے چمـی دے کر واش روم گئی اور پانچ منٹ بعد واپس ائی مـیں بہت خوش تھا کے مامـی بھی مجھ سے خوش ہو گئی ھیں اب ان کی پھدی کو خوش کرنے کی باری تھی. مامـی واش روم سے آئی تو مجھے کہا کے تم بھی ہو آئو مـیں بھی واش روم گیـا لن کو دھویـا اور پھر کمرے مے واپس آ گیـا .. مامـی بیڈ پر بیٹھ کر مـیرا انتظار کر رہی تھی کے کب مـیں نکلوں اور مامـی مـیرے لن کو اپنی پھدی مے لے کر اپنی پھدی کو مزہ دے سکے.مـیں باہر آیـا تو مامـی نے کہا کے مـیرے اوپر مت لیٹنا مـیں نے کہا مامـی کیوں مامـی نے کہا کے تمہارا وزن بہت ہے مـیں نے مامـی کو کہا کے پھر لن کیسے اپنی پھدی مے لو گئی مامـی نے کہا کے لے لوںپریشان مت ہو مـیرے چودو راجہ مـیں نے کہا ٹھیک ہے مامـی جی پھر مامـی مـیرے اوپر ا گئی اور اپنے ممے مـیرے منہ سے ڈالنے لگ گئی ساتھ ساتھ مـیرے بالوں کو سہلانے لگ گئی مـیرے لن نے پھر سے مامـی کی پھدی کو سلامـی دینا شروع کر دی تھی مـیرا لن مامـی کے ممو کو منہ سے ڈالنے سے فاٹا فٹ کھڑا ہو گیـا تھامامـی کے مموں مے ایسا کیـا جادو تھا جو مـیرے لن کو پھر سے کھڑا کرنے پر مجبور کر رہا تھا.. مامـی اپنے ممے چوسوانے مـیں مدہوش ہو رہی تھی ساتھ ساتھ مـیرے بالوں مے ہاتھ ڈال کر مجھے مزہ دے رہی تھی مـیں کبھی مامـی کے ممو کو چوستا کبھی نپپلز کو دندی کٹتا مامـی کے مہ سے لذت آمـیز الفاظ نکل رہے تھے مامـی پاگل ہو رہی تھی پھر مامـی نے مـیرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیـا اتنا پاگلوں کی طرح چوسا مـیرا ہونٹوں کو کے مـیرے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا جو کے مامـی کے پیـارکی انتہا تھا. پاگل پن کی انتہا تھی.دو گرم جوانیـاں دو دھکتے جسم اف کمرہ بھی ہمارے پیـار کی وجہ سے گرم ہو رہا تھااتنا مزہ اف مامـی بھی پاگل تھی اور مـیں بھی پاگل ہو رہا تھا. مامـی نے مـیرے ہونٹوں سے نکلے خون کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کر دیـا مجھے مامـی کوئی چداکڑ لگ رہی تھی جس کو پھدی دینے کا لن کو چوسنے کا ہونٹوں کو چوسنے کا فن آتا تھا.مامـی مـیرے نیچلے ہونٹ چوس رہی تھی اور مـیں اوپر والے لذت آمـیز مزہ ا رہا اف کیـا مزہ تھا مامـی کے گلابھی پھول کی پنکریوں جیسے نرم ملائم ہونٹ مـیرے ہونٹ سے چھو رہے تھے. مامـی کے ہونٹی تندور کی ماند تھے جو مـیرے لن کو مجبور کر رہے تھے کے مـیں مامـی کے منہ مے اپنا لن دلوں بھی مـیں سوچ رہا تھا کے مامـی نیچے مـیرے پیٹ پر آ گئی اور چمـی کر کے مـیرے لن کو پکڑ لیـا اس کو چوسنا شروع کر دیـا اف اہ نکل گئی مامـی نے مـیرے مزے کو جانتے ھوے مـیرے لن کو مہ مے ڈال کر چوسنا شروع کر دیـا.کبھی لن کی ٹوپی کو چوسنا شروع کر دیـا اف کبھی لن کی ٹوپی کو چوستی کبھی پورا کبھی پورا لن چوستی کبھی ٹٹے چوستی مـیرا بس نہیں چل رہا تھا کے مامـی کی پھدی کو ابھی پھاڑ دوں لکین مـیں اپنے آپ کو ترسا کے اور مامـی کو ترسا کے پھدی مے لن دلانا چاہتا تھامـیری ممـی ایک نمبر کی رنڈی لگ رہی تھی اس کے لن چوسنے کا طریقہ اف کیـا بتاں مـیرا لن فل گرم تھا ممـی جب ٹٹوں کو چوستی تو مـیری چھاتی پر ہاتھ پھرتی مـیں ہوائوں مے اڑ رہا تھا۔مـیری مامـی ایک نمبر کی رنڈی لگ رہی تھی اس کے لن کو چوسنے کا طریقہ ٹٹوں کو چوسنے کا طریقہ مـیرے پورے جسم کو چومنے چاٹنے کا طریقہ اف مـیرے انگ انگ سے گرمـی اٹھ رہی تھی. مـیرا لن مامـی کی پھدی مے جانا چاہتا تھا لکین مے ابھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا مـیں مامـی کے مہ سے سنانا چاہتا تھا کے مـیری پھدی کو پھاڑ دے مامـی نے ابھی تک مـیرے لن کو پنے منہ مے رکھا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ مـیرے بالوں مے ہاتھ پھیررہی تھی مـیرے لن کا مزے کی وجہ سے حشر نشر ہو رہا تھا مامـی کے ہونٹوں کی گرمـی مـیرے لن کو اور مجھے پاگل کر رہی تھی... مامـیی رنڈی کی طرح مـیرے لن کو چوس رہی تھی پھر مامـی نے کہا کے مـیرے راجہ مـیری پھدی کا بینڈ بجا جا...مامـی نیچے ا گئی تھی اور مـیں مامـی کے اوپر تھا. پھر مـیں مامـی کے پائوں کو چومتا ہوا ٹانگوں کے اوپر آ گیـا تھا ٹانگوں کو چومتا ہوا چاہتا ہوا پھدی تک ا گیـا مامـی کی پھدی گیلی ہی تھی مامـی کی پھدی فل گرم تھی مـیری زبان کے اندر جانے کی دیر تھی مامـی کے منہ سے سسکاریـاں نکلنا شروع ہو گئی تھی اف اہ تیز تیز چودو نہ مجھے جانو اف کیـا جادو ہے تمہاری زبان کا تیز تیز آہ پھر مامـی نے مـیرا ہاتھ کو اپنے مموں پر رکھوایـا مامـی کے ممے مـیرے ہاتوں مے نہیں ا رہے تھے. مـیں نے مامـی کی فوڈ کے اندر فل زبان ڈالی ہی تھی مامـی کی سسکاریـاں تیز سے تیز ہو رہی تھی مامـی کی پھدی سے گرمـی نکل رہی تھی اف مامـی کی پھدی نے پانی چھوڑ دیـا اور مامـی نے اپنے ہاتھ مـیرے سر پر رکھ دِیے اور مـیرے سر کو اپنی پھدی کے اندر تک لے کر جانا چاہتی تھی مـیری حالت بھی غیر ہو رہی تھی مامـی کی پھدی کے پھٹنے کی باری تھی مامـی نے تڑپتے ھوے لہجے مـیں کہا کے اب لن بھی ڈال دو. پھر مـیں نے مامـی کی پھدی پر اپنا لن ٹکا کر پھدی مے لن ڈالنا چاہا لکین مامـی نے کہا روک جامامـی کیـا ہوا ہے مامـی درد نہ ہومامـی نہیں ہو گامامـی نے کہا اچھا آرام آرام سے چودنا...پھر مـیں نے مامـی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے پھر مامـی کے ممے مـیری چھاتی سے لگ رہے تھے مـیں نے مامـی کی پھدی پر لن کو سیٹ کیـا اور آرام آرام سے پھدی کے اندر ڈالنا شروع ہوا مـیرا لن دو انچ تک پھدی مے گیـا ہو گا مامـی کے مہ سے اہ نکلی آرام ارم سے مرے راجہ اف مزا اگیـا اف لن ہے یـاں کوئی گرم سیخ ہے آرام سے پھاڑنا مـیری پھدی مامـی ٹھیک ہے پھر مـیرا لن اندر نہیں جا رہا تھا ایک جگہ ایسی ای مـیرا لن اس کے آگے نہیں جا رہا تھا مـیں نے مامـی کے مموں کو پکڑا پھر ہونٹو پر ہونٹ رکھے اور لن کو تھوڑا پیچھے نکال کر پھدی مے ایک جھٹکے سے اندر لن ڈالا دیـا مامـی کے ان سے چینخ نکلی اور مـیرے منہ مے دب کر رہ گئی تھی ممـی بنا مچھلی کے تڑپ رہی تھی مجھے مامـی کی اس حالت پر رحم آ رہا تھا مـیں نے لن کو بھر نکالا تو مامـی نے کہا کے باہر نہ نکالو مـیں نے کہا مامـی یہ ٹھیک نہیں ہے مامـی نے کہا کے ٹھیک ہے مجھے بھی پتا ہے کے یہ ٹھیک نہیں ہے لکین مامو کی عزت کا خیـال رکھو مـیں نے اس وقت لن کو اندر ڈال دیـا ایک جھٹکے سے لن اندر جانے کی وجہ سے مامـی کے منہ سے پھر سے چیخ نکل آئی لکین اتنی زور سے نہیں نکل رہی مامـی نے کہا اس بات کو سمجھو مـیں اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتی اس لئے تمہارے مامو کی بات کو من کر تم سے چودوانے کو تیـار ہو گئی تھی یہ بات پھر بتائوں گئی پھرپھدی پھاڑ دی ہے اس کی گرمـی کو ٹھنڈا کرو مـیں نے نہ چاھتے ھوے گھر کی عزت اور مامو کی عزت کی وجہ سے مامـی کی پھدی کو چودنا شروع کر دیـا مـیرے ایک جھٹکے نے ممـی کی جان نکل دی تھی مـیں نے لن کو اندر رکھا ہوا تھا مـیں لن کو آگے پیچھے نہیں کر رہا تھا مجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا تھامامـی نے اپنے ہونٹ مـیرے ہونٹوں کے اوپر رکھے اور مـیرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیـا مـیں بھی انسان تھا کب تک روکتا مـیرا لن بھی تھا مـیں مامو کی طرح نہیں تھا مـیں مامـی کے ہونٹوں کو پاگلوں کی طرح چوسنے لگ گیـا مـیں نے سب باتوں کو بھلا دیـا تھا اور مـیں مامـی کی گرم گرم پھدی کو اور اپنے لن کو مزہ دینا چاہتا تھامـیں نے لن کو آگے پیچھے ڈالنا شروع کر دیـا تھا مامـی مـیرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی مـیں مامـی کا ساتھ دے رہا تھا مامـی مـیرا ساتھ دے رہی تھی مـیں نے مامـی کے مموں کو پکڑا ہوا تھا مـیں مامـی کے ممے دبا رہا تھا مامـی سے مـیرا وزن برداشت نہیں ہو رہا تھا مـیں مامـی کے مموں کو پکڑ کر ان کو چود رہا تھا اس لئے مامـی مـیرا وژن برداشت نہیں کرپا رہی مـیں نے اپنے ہونٹ مامـی کے ہونٹوں کے ساتھ دوبارہ ملا دِیے اور مامـی کو چودنا شروع ہو گیـا پھر مـیں نے مامـی کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جدا کیے اور بیڈ پر ہاتھ رکھ کر مامـی کو چودنا شروع کر دیـامامـی کے منہ سے عجیب عجیب آوازیں ا رہی تھی مامـی کی پھدی فل گیلی ہوئی ہوئی تھی مامـی کے منہ سے آہ مـیرے راجہ ایسے چودو آہ اف مزہ آ رہا ہے تیز تیز نہ کرو آرام آرام سے کرو اف لورا پورا ڈالو مـیری پھدی مے اف مزہ ا گیـا جان مـیری ایسے چودو مـیرے راجہ جو کہو گے کیـا کروں گئی مامـی آپ نے سب کہا خیـال رکھنے کو کیوں کہا مجھے اچھا نہیں لگا مامـی نے کہا کے وہ تو گھر والوں کو اور نانی کو دکھانے کے لئے کہا تھا اب تم مـیرے خاوند ہو مجھے چودو اہاف اف اف اف اف اہ آہ اہ آہ مزہ ا رہا ہے اب تیز تیز چودو مجھے اف کیـا لورا ہے تمہارا مـیری پھدی کو ایسا لورا چاہیے تھا مـیری گرم نرم پھدی تمہارے لن کی دیوانی ہو گئی ہے....اف اہ اف مزہ دے رہے ہو مـیرے راجہ پھر مـیں نہ لن کو نکالا موبائل کی لائٹ کو جلا کر مامـی کی پھدی کو صاف کیـا بیڈ کی چادر پر مامـی کی پھدی کا خون لگا ہوا تھا مامـی کی ٹانگوں پر بھی اور مامـی کی پھدی پر بھی مامـی کی پھدی کا خون اس چیز کی گواہی دے رہا تھا کے مامـی کی پھدی نے کبھی لورا نہیں لیـا ہوا مامـی کی پھدی مـیرے گرم لورے سے پھٹی تھی چادرپر عشق پے تازہ لہو کے چھینٹے ہیں.حدودے عشق آگے نکل گیـا ہے کوئی پھر مامـی اور مـیں واش روم اکھٹے گے مامـی کی پھدی کو پانی سے صاف کرنا چاہا پر مامـی نے کہا کے جلن ہو رہی ہے مـیں نے کپڑے پر پانی لگا کر پھدی کو صاف کیـا پھر بھی جلن ہو رہی تھی لکین مـیں نے مامـی کو کہا کے کچھ نہیں ہو گا پھر اپنے لن کو صاف کیـابیڈ پر واپس ا کر مامـی مـیرے اوپر لیٹ گئی....مامـی نے مـیرے ہونٹوں کو پھر سے چوسنا شروع کر دیـا تھا مـیرا لن جو تھوڑا سا بیٹھ چکا تھا مامـی کی چمـیوں کے ساتھ اور مـیرے ہونٹوں کو چوسنے کی وجہ سے دوبارہ کھڑا ہونے لگا پڑا تھامامـی کے ہونٹوں مے کیـا جادو تھا جو مـیرے لن کو بیٹھنے نہیں دے رہا تھاپھر مامـی نے مـیری چھاتی پر چمـیاں کرنا شروع کر دیـا تھی مامـی چمـیاں کرتے کرتے مـیری ٹانگوں پر آ گئی مـیرے لن کو منہ مے لے کر کلفی کی طرح چوسنا شروع کر دیـا تھا پھر مـیرے ٹٹوں کو چوسنا شروع کر دیـا پھر مـیری ٹانگوں کو چومتے چومتے مـیرے پائوں پر آگئی مـیری پائوں کی ایک ایک انگلی کو چوسا چوما پھر مجھ الٹا ہونے کو کہا مـیں نے کہا مامـی الٹا کیوں ہو جاں مامـی نے ہنستے ھوے کہا مـیں پٹھان نہیں ہوںمـیں نے ہلکی سے مسکراہٹ دی اور الٹا ہو گیـامامـی نے مـیری ریڑھ کی ہڈی کو چومنا شروع کر دیـا پھر مـیری ہپس کو چومنا شروع کر دیـا پھر مجھے کہا کے اب مجھے چودو گے مـیں نے کہا جسے مـیری جان شازیہ کہے گئی مامـی نے کہا کے مجھے مزہ ا رہا ہے مـیں چاہتی ہوں کے مـیں تیرے لن کی سواری کروں مـیں نے کہا جیسے مـیری جان خوش مامـی مـیرے لن پر بیٹھ گئی تھی مامـی نے آرام آرام سے لن کو اندر لینا شروع کر دیـا مامـی سے پورا لن نہیں لیـا جا رہا تھا کیوں کے مامـی رنڈی نہیں تھی بیشک ہو لوں کو رنڈیوں کی طرح چوس رہی تھی لکین پھدی مامـی کی کنواری تھی اس کا ثبوت چادر پر لگا خون تھا مامـی رک گئی مـیرے ہونٹوں کو چوما مـیرے ماتھے کو چوما پھر اپنے ممے مجھ پکڑا دِیے مامـی کے چٹے جسم پر چھتیس سائز کے ممے بہت اچھے لگ رہے تھے مامـی کے نیپلز کو مـیں نے اپنے انگوٹھے اور ایک انگلی سے رگڑنا شروع کر دیـامامـی کے منہ سے سسکاریـاں تیز تیز ہو گئی مامـی نے مزے مزے مے مـیرے لن کو پورا اپنی پھدی کے اندر لے لیـا تھا اور مـیرے لن کو پورا اندر لے کر پورا باہر نکال رہی تھی مامـی کی پھدی نے کبھی لن نہیں لیـا تھا پھر بھی مامـی کی پھدی لن کے لئے ترس رہی تھی مامـی مـیرے لن پر پانچ منٹ تک چھلانگے لگاتی رہی مـیرے لن کو اپنی بچے دانی کے ساتھ ٹکراتی رہی اور مـیرے لن کو پورا اپنی پھدی کے اندرلیـا پھر مامـی نے مـیرے ہونٹوں کو دوبارہ چومنا شروع کر دیـا تھا۔ مـیرے ہونٹوں سے کھیلتی رہی مـیں مامـی کے ہونٹوں کے ساتھ کھیلتا رہامامـی نے ایک دم پورا لن پھدی کے اندر سے نکالا اور ایک دم سے پورا لن پھدی کے اندر لے لیـا اور اپنی بچے دانی کے ساتھ لن کو ٹکرایـا.... مامـی کے منہ &nbsp;سے نکلنے والی چیخ مـیرے منہ مے ہی دب گئی تھی مامـی نے بہت مشکل سے درد کو برداشت کیـا تھا. اتنی درد مامـی کو تب نہیں ہوئی تھی جب ان کی سیل ٹوٹی تھی جتنی درد مامـی کو خود سے مـیرا لن ایک جھٹکے مے اپنی پھدی مے لینے سے ہوئی تھی مامـی کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے مامـی کی پھدی پانی چھوڑ چکی تھی مامـی نے مـیرے ہونٹوں کو اتنی درد ہونے کے باوجود نہیں چھوڑا تھا وہ مزے سے مـیرے ہونٹوں کو کلفی کی طرح چوس رہی تھی ان کو چاٹ رہی تھی پھر مامـی نے کہا مـیں تیرے لن کی سواری کر کر کے تھک گئی ہوں لکین تیرے تگڑے لمبے گھوڑے کو کوئی فرق نہیں پڑا ... کیـا کھلایـا ہے اس گھوڑے کو مـیں نے کہا مامـی ایک دفع اپ کے منہ مے مـیری منی نکلی تھی اور مـیں نے بادام بھی کھائے ہیں اس لئے مـیرا گھوڑا تھکا نہیں ہے مامـی نے کہا چل بدمعاش مـیری پھدی کو اپنے لن کے پانی سے سہراب کر دے مـیری جان جلدی چود مجھے مامـی نے کہا اب مـیری ٹانگیں کھول کر مـیری پھدی کو اور پھاڑ دے مـیری پھدی مے لگی آگ کو اپنے گرم راڈ کے ساتھ ٹھنڈا کر دے جیسے مـیری جان کہے گئی ویسے ہو گا پھر مـیں نے مامـی کی ٹانگیں کھول کر اپنے کندے پر رکھی اور پھر لن کو آرام آرام سے مامـی کی پھدی کی گہری مـیں ڈالنا شروع کیـا مامـی کی آوازیں نکل رہی تھی مـیرے راجہ پھدی کو پھدی سمجھ کر چود نہ کے کوئی گھڑھ سمجھ کر چودمامـی کی ایسی کھول کر بات کرنے سے مـیرے لن مـیں جان ا جاتی مـیرا لن مامـی کی پھدی کے اندر رہ کر ان کی پھدی کو سلامـی دیتا تھا مـیں لن کو فل اندر ڈال کر لن کو سخت کر لیتا تھا... مامـی کی منہ سے سسکاری نکلتی مجھے بہت مزہ ا رہا تھا مامـی کو بھی مزہ ا رہا تھا پھر مـیں مے لن کو باہر نکل کر مامـی کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیـا مامـی نے مـیرے بالوں مے ہاتھ ڈال کر مـیرے سر کو کر پکڑ لیـا تھا اور مـیرے سر کو اپنی پھدی کے اندر لے کر جانا چاہتی تھی لکین جو لن کام کر سکتا ہے وہ زبان نہیں لکین مـیں مامـی کے انگ انگ مے آگ لگانا چاہتا تھا اور اس کو خود اپنے لن سے ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا...پھر مـیں نے مامـی کے مموں مے اپنا لن ڈال کر آگے پیچھے کرنا شروع کر دیـا مامـی مـیرے لن کو ساتھ ساتھ چمـیاں کرتی اپنے منہ مے لیتی تھی مـیں پاگل ہو رہا تھا مامـی کے منہ سے بھی گرمـی کی سانسیں نکل رہی تھی جو کے مـیرے لن پر پڑتی تو مـیرا لن سخت ہو جاتا..مـیں مے مامـی کی ٹانگیں اپنے کندے پر رکھ کر پھر سے مامـی کی پھدی مے لن ڈالا اور مامـی کو تیز تیز چودنا شروع کر دیـا مامـی مـیرے اس طرح کے رویے سے بے خبر تھی مامـی کی پھدی مے مـیں مے اپنا چپو روانی کے ساتھ چلانا شروع کر دیـا تھا مامـی کی درد بھری آواز مجھے پاگل کر رہی تھی.،،، اف جان آرام سے چودو مـیں کہیں بھاگ نہیں جاںتمہاری ہوں آج سے اور تمہاری رہوںلکین آرام سے چودو جانو آہ اف اف اف اوچ آرام سے جانو جانو آرام سے اف اہمـیں اپنے چپو کو تیز تیز مامـی کی پھدی مے ڈال رہا تھا اور اندر باہر کر رہامـیں نے مامـی کو کہا کے مـیرے لن کا مادہ نکلنے والا ہے کہاں نکالوں آپ کے منہ مے آپ کے مموں مے آپ کی پھدی مـیںمامـی نہ کہا پھدی مے لیکن دو منٹ روکو آرام آرام سے چودو مـیرا پانی بھی نکلنے والا ہے اف اہ مامـی بھی اف اف اہ کر رہی تھی مـیں بھی اف اہ مامـی کی پھدی کی پچک پچک کی آوازوں سے کمرہ گھونج رہا تھا پھر مـیں نے آرام آرام سے اپنا جہاز مامـی کی پھدی مے اڑانا شروع کر دیـا تھا...مامـی کی پھدی کو مـیں پانچ منٹ تک مزید چودتا رہاپھر مامـی نے کہا تیز تیز چود مجھ مـیرا پا پا پانی نکلنے وا والا ہے اف تیز تیز جان مـیری تیز تیز تیز اور تیز چودمـیں بھی مامـی بھی اف آہ آہ کر رہے تھے مـیاں نے مامـی کی ٹانگیں نیچے کیں اور مامـی کی پھدی مے لن ڈال کر مامـی کے مموں کے ساتھ سینا لگا کر مامـی کے ہونٹوں کو چوس کر پھدی مے اندر لن کو ڈالا دیـا مـیرا لن پانی چھوڑ چکا تھا مـیں پھر بھی لن کو اندر باہر کر رہا تھاپھر مامـی نے اپنے ناخن مـیری کمر مے گھاڑ دے اور اپنی ٹانگوں سے مـیری ہپ کے ساتھ کر پکڑ لیـا تھا اور مـیرے ہونٹو کو خود سے چوسنا شروع کر دیـامـیرے لن کے پانی نے مامـی کی پھدی سہراب کر دیـا تھا مامـی کی پھدی کے پانی نے بھی مـیرے لن کو سہراب کر دیـا تھامـیں تھک کر مامـی کے اوپر درون پڑا تھا مامـی ابھی تک مـیرے ہونٹو کو چوس رہی تھی پھر مـیں نے لن کو باہر نکالا مامـی نے اپنی پھدی اسی چادر کے ساتھ صاف کی جس پر اس کی پھدی کا خون لگا ہوا تھاپھر مـیرے لن کو اپنے منہ مے ڈال کر صاف کیـامـیں اور مامـی اکھٹے نہائے اور فل چومـیاں کی رومانس کیـا اور پھر مـیں نے کپڑے پہنے اور مامـی نے مجھے کی مـیں مامو کو بلانے دوسرے کمرے مے گیـا تو مامو خوش رہے مامو نے کہا کے اب جب اگلی بار چودو گے تو شرما مت مـیں نے مامو کہا ٹھیک ہے نہیں شرماتا مامو مجھ سے خوش ھوے پھر مامـی کو جاتی دفع مـیں نے کہا کے کل کہاں چدائی کرائومجھ سے مامـی نے کہا اب صبر کرنا ایک ہفتہ مـیں نے کہا آپ کر لو گئی مامـی نے کہا نہیں لکین کرنا پڑے گا پھر مامو کے سامنے مامـی نے مجھے چمـی دی مـیں پہلے شرمایـا پھر مامو کی بات ذھن مـیں ا گئی پھر مـیں نے بھی مامـی کو چمـی دی ساتھ ساتھ مموں کو بھی دبایـاپھر مامو نے باہر کا جائزہ لیـا اور مجھے باہر بھیج دیـا اور مـیں اپنے کمرے مـیں ا گیـا تھامجھے نیند نہیں ا رہی تھی مـیں سوچ رہا تھا مامـی کو مزہ آیـا کے نہیں کے اچانک مامو کا فون آیـا مـیں نے ایس ام ایس کیـا جی مامو مامو نے کہا فون اٹھو پھر مامو نے فون کیـا تو اٹھے جی مامومامو کے کچھ لگتے پھدی کو مزہ دیـا ہے مـیں بوتھ خوش ہوں مامـی کی آواز سن کر اور یہ بات سن کر مجھے خوشی ہے مـیں نے کہا ٹھیک ہے اب اپ سو جو پھر مزے ہی مزے کرنے ہیںمامـی نے کہا ٹھیک ہے مـیری جان ایک ہفتہ بس پھر موجیں ہی موجیں مـیں کہا ٹھیک ہے مامـی نے مجھ چمـی دی مـیں نے بھی دی اور فون بند ہو گیـاپھر مجھے سکون کی نیند ا گئی کیسی لگی مـیری کہانی مزہ آیـا کے نہیں کومنٹ مجھے بتایں گے کے کیسی لگی یہ کہانی مجھے لکھنا نہیں آتا اس لئے غلطی کوتاہی معاف کرنا..</span></b></li><li style="text-align: right;"><b style="background-color: white;"><span style="color: red; font-size: large;">شکریہ</span></b></li><li style="text-align: right;"><b style="background-color: white;"><span style="color: red; font-size: large;">اپنی کہانیـاں ،آبیتیـاں اور آراء adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔</span></b></li></ul><br /><div><br /></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-45222763589200222012012-06-29T02:38:00.003-07:002012-06-29T02:38:40.323-07:00

Aurat Ke Kahani

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-KNHF16ysylI/T-12japc4gI/AAAAAAAAAMs/r0qLrvYi5xk/s1600/001.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-KNHF16ysylI/T-12japc4gI/AAAAAAAAAMs/r0qLrvYi5xk/s320/001.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/--2LKjtGZHr0/T-12mtLPCXI/AAAAAAAAAM0/lgOZBSlGFp4/s1600/002.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/--2LKjtGZHr0/T-12mtLPCXI/AAAAAAAAAM0/lgOZBSlGFp4/s320/002.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/--_LF1TUvCGU/T-12obDmiuI/AAAAAAAAAM8/a0M7yyJcaLE/s1600/003.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/--_LF1TUvCGU/T-12obDmiuI/AAAAAAAAAM8/a0M7yyJcaLE/s320/003.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-gNZxjjvT0dg/T-12qDA3X1I/AAAAAAAAANE/E0RJOfqPlwY/s1600/004.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-gNZxjjvT0dg/T-12qDA3X1I/AAAAAAAAANE/E0RJOfqPlwY/s320/004.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-lIRMp9QVWcE/T-12sUSJTWI/AAAAAAAAANM/DcOjbSWf5Qg/s1600/005.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-lIRMp9QVWcE/T-12sUSJTWI/AAAAAAAAANM/DcOjbSWf5Qg/s320/005.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-a_JALl4qfMY/T-12txxMljI/AAAAAAAAANU/stZG-asqU1o/s1600/006.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-a_JALl4qfMY/T-12txxMljI/AAAAAAAAANU/stZG-asqU1o/s320/006.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/--qjMHbTBUbY/T-12wK_stPI/AAAAAAAAANc/aZt9JlcBn0s/s1600/007.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/--qjMHbTBUbY/T-12wK_stPI/AAAAAAAAANc/aZt9JlcBn0s/s320/007.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-f6f_EMiR75M/T-12yWuoghI/AAAAAAAAANk/e6wcrMHf0Y4/s1600/011.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-f6f_EMiR75M/T-12yWuoghI/AAAAAAAAANk/e6wcrMHf0Y4/s320/011.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-LXL2pE9vvA4/T-1205sagNI/AAAAAAAAANs/16o_LDmcXck/s1600/012.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-LXL2pE9vvA4/T-1205sagNI/AAAAAAAAANs/16o_LDmcXck/s320/012.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-Pvo23lIY1Ug/T-123cqXX0I/AAAAAAAAAN0/IkhrxYBDZIw/s1600/013.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-Pvo23lIY1Ug/T-123cqXX0I/AAAAAAAAAN0/IkhrxYBDZIw/s320/013.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-4IR_1bhu5TE/T-126B9tmEI/AAAAAAAAAN8/1uw9t0r6LoE/s1600/014.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-4IR_1bhu5TE/T-126B9tmEI/AAAAAAAAAN8/1uw9t0r6LoE/s320/014.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-iPdr0uKojnk/T-127nY0SSI/AAAAAAAAAOE/EMusdD3KRgA/s1600/015.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-iPdr0uKojnk/T-127nY0SSI/AAAAAAAAAOE/EMusdD3KRgA/s320/015.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-Xliz2XVDZhg/T-12_1-JDHI/AAAAAAAAAOM/wWUfLxgYrsE/s1600/008.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-Xliz2XVDZhg/T-12_1-JDHI/AAAAAAAAAOM/wWUfLxgYrsE/s320/008.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-d895QlOyMBE/T-13C9Fn2TI/AAAAAAAAAOU/Gfrqdj4X5j0/s1600/009.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-d895QlOyMBE/T-13C9Fn2TI/AAAAAAAAAOU/Gfrqdj4X5j0/s320/009.gif" width="229" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-jf4pQCiUXtY/T-13EpKFOSI/AAAAAAAAAOc/MiP5XrIALj8/s1600/010.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-jf4pQCiUXtY/T-13EpKFOSI/AAAAAAAAAOc/MiP5XrIALj8/s320/010.gif" width="229" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-5641929497528403402012-06-23T05:40:00.003-07:002012-06-23T05:40:57.374-07:00

Wife of a Officer

<br /><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">ں ایک شریف لڑکا تھا اور سیکی الف ب بھی نہیں جانتا تھا . ایک واقعہ نے مـیری زندگی بدل دی اور مـیں سیسے واقف ھو گیـا- ہوا کچھ یوں کہ مـیری سم گم ھو گئی اور وہ ایک لڑکے کو ملی جس نے وہ سم اپنی ایک گرل فرینڈ کو دے دی اور پھر یہاں سے مـیری سیلائف کا آغاز ہوا : بعد مـیں، مـیں نے بہت ساری لڑکیوں سے سیکیـا. ان مـیں سے ایک بہت بڑے افسر کی بیوی بھی تھی آج کی سٹوری اس سے متعلقہ ہے کہ اس سے کب اور کہاں اور کیسے سیکیـا .ایک دن مـیں اپنے دوست کے پاس گیـا اور وہاں بیٹھااس سے گپ شپ لگا رہے تھا باتوں باتوں مـیں اس نے بتایـا کہ مـیرے پاس ایک لڑکی کا نمبر ہے اس کی آواز بہت پیـاری ہے لیکن وہ بہت غصے والی ہے اس سے سیٹنگ نہیں ھو رہی ہے.اس نے وہ نمبر مجھے بھی دے دیـاوہ نمبر ptclکا تھا .اگلے دن مـیں نے اس نمبر پر کال کی تو آگے سےی لڑکی نے فون اٹینڈ کیـا اور کہا ھیلو :اس کی آواز بہت پیـاری تھی مـیں نے کہا جی مجھے علی سے بات کرنی ھے تو اس نے کہا کہ یہاں کوئی علی نہیں رہتااتنا کہہ کر وہ خاموش ھو گئی اب مـیرے پاس فون بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا لیکن مـیں نے فون بند نہ کیـا اور خاموش ھو گیـا اس نے رکھا نہ ہی مـیں نے فون کٹ کیـا ایسے ہی کال چلتی رہی اور دنوں طرف سے خاموشی ، مـیرا بیلنس ختم ہوا تو کال خود بخود کٹ گئی ، آواز سننے کے بعد مـیں نے سوچ لیـا تھا کہ اس سے ضرور دوستی کرنی ھے کیونکہ جس کی آواز اتنی پیـاری ہے وہ خود کتنی سندر ھو گئی ، اگلے دن مـیں سوچ ہی رہا تھا کہ اس سے کیسے بات کروں تو اک انجان نمبر سے کال آئی مـیں نے کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف وہی لڑکی تھی جس سے رات بات ہوئی تھی لیکن مجھے پتا نہیں چلا کہ یہ رات والی لڑکی ہے ، اس نے مجھ سے پوچھا؟ مـیں نے اس سے پوچھا کہ آپ نے سے بات کرنی ہے ؟ اس نے کہا کہ رات اس نمبر پر آپ نے کال کی تھی ؟ تو مـیں نے کہا جی مـیں نے ہی کال کی تھی . اب مجھے اندازہ ھو گیـا تھا کہ یہہے مـیں نے پوچھا کیـا آپ کو برا لگا ؟ اس نے کوئی جواب نہ دیـا اور کال کٹ کر دی. مـیں نے کال بیک کی تو اس نے نمبر مصروف(busy)کر دیـا .مـیں نے مـیسج کیـا.پلیز کال اٹینڈ کرو ،تو اس نے رپلائی کیـا . کیوں کیـا بات ھے ؟ مـیں نے لکھا کہ آپ کی آواز بہت پیـاری ہے ، کیـا آپ مجھ سے دوستی کرو؟&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">اس نے رپلائی کیـا کہ آپ مـیں ایسی کیـا خاص بات ھے کہ مـیں آپ سے دوستی کر لوں؟ مـیں نے رپلائی کیـا کہ مـیں ایک مخلص شخص ھوں آپ مجھے آزما سکتی ھو ،تو اس نے رپلائی کیـا کہ مـیرے اس نمبر پر&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">Rs.500کا لوڈ بھیجو مـیں نے کہا کہ تھوڑا انتظار کرو مـیں ابھی بیلنس بھیجتا ھوں ،مـیں نے اپنے ایک لوڈ کرنے والے دوست کو فون کیـا اور اسے لوڈ کرنے کا کہا - اس نے اسی وقت لوڈ کر دیـا-</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">لوڈ ہونے کے بعد مـیں نے اسے کال کی تو اس نے اٹینڈ نہ کی اور مـیسج بھیجا کہ مـیں اس وقت مصروف ھوں بعد مـیں بات ھو- مـیں نے دل مـیں سوچا کہ دیکھو پانچ سو ضائع ہوتے ہیں یـا پھر ایک خوبصورت آواز سے آشنائی کا ذریعہ بنتے ہیں . مـیں اس کی کال یـا مـیسج کا انتظار کرنے لگا شام کے وقت اس نے مـیرے موبائل پر پانچ سو کا بیلنس لوڈ کروا دیـا . مجھے جیسے ہی بیلنس ملا مـیں نے اسے کال کی اور پوچھا کہ آپ نے مجھے بیلنس واپس کیوں کیـا ؟ تو اس نے کہا ہمارے پاس اللہ کا دیـا سب کچھ ہے مـیں کوئی لالچی عورت نہیں ھوں تو مـیں نے پوچھا پھر مجھ سے لوڈ کیوں منگوایـا تھا ؟ اس نے کہا کہ جب بھی کوئی رانگ نمبر تنگ کرتا ہے تو مـیں اسے بیلنس کا کہہ دیتی ھوں پھر وہ دوبارہ کال نہیں کرتا اس طرح مـیری جان چھوٹ جاتی ہییہ سب وقت گزاری کے لئے لڑکیوں کو فون کرتے ہیں جب انہیں بیلنس کا کہا جاتا ہے بھاگ جاتے ہیں آپ سے اس لئے بات کر رہی ھوں کہ آپ سچ مـیں مجھ سے دوستی کرنا چاہتے ہیں . مـیں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا کہ مـیں آپ سے سچ مـیں دوستی کرنا چاہتا ھوں ؟ تو اس نے کہا جو سچ مـیں دوستی کرنا چاہتے ہیں وہ بیلنس کروا دیتے ہیں جیسا کہ آپ نے کروا دیـا ہے. مـیں نے اس سے پوچھا کہ آپ کا نام کیـا ہے ؟اس نے کہا مـیرا نام امبر ہے مـیں نے کہا بہت ہی پیـارا نام ہے امبر-اس نے پوچھا کہ آپ کا کیـا نام ہے ؟&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">مـیں نے کہا کہ مـیرا نام عرفان ہے اور مـیں ساہیوال مـیں رہتا ھوں ، آپ کہاں رہتی ھو ؟ تو اس نے کہا کہ مـیں اوکاڑہ سٹی مـیں رہتی ھوں مـیں نے کہا اپنے بارے مـیں کچھ بتا ؟ اس نے کہا کہ مـیں شادی شدہ ھوں مـیرا ایک بیٹا ہے اور مـیرے مـیاں گورنمنٹ کے ایک ڈیپارٹمنٹ مـیں گریڈ سترہ کے افسر ہیں- آپ کیـا کرتے ہیں ؟مـیں نے کہا کہ مـیں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ مـیں جاب کرتا ھوں اس نے کہا مـیری عمر چھبیس سال ہے اور آپ کی ؟ مـیں نے کہا مـیری عمر انتیس سال ہیـاس نے کہا بعد مـیں بات کریں گے.ہاں ایک بات یـاد رکھنا کہ خود سے کبھی فون نہیں کرنا جب مـیرے شوہر پاس نہ ھوں گے تو مـیں آپ کو بتا دیـا کروں-</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">اس طرح ہماری دوستی کی ابتدا ہوئی.اگلے دن تقریبا دن کے بارہ بجے امبر کی کال آئی اور مجھ سے پوچھا کہ کیـا کر رہے ھو ؟مـیں نے جواب دیـا کچھ خاص نہیں، ٹی وی دیکھ رہا ھوں مـیں نے پوچھا کہ&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">آپ کیـا کر رہی ھو ؟ تو امبر نے کہا کچھ بھی نہیں، مـیاں آفس ہیں اور بیٹا سویـا ہوا ہے، اس دن اس کے ساتھ روزمرہ کی عام باتیں ہوئیں جس مـیں اس کے گھر بار شادی اور اسکی ایجوکیشن کی باتیں تھیں&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">چند دن اسی طرح عام روٹین کی باتیں ہوئیں وہ اور مـیں شاید سیکی باتوں کی طرف آنے سے شرما رہے تھے اور ایک دوسرے کی طرف سے پہل کے منتظر تھے. عام طور پر پیـار محبت کے معاملات مـیں عورتیں اظہار نہیں کرتیں یہ فریضہ بھی مرر کو ہی سرانجام دینا پڑتا ہے جو بھی عورتی انجان مرر سے بات کرنے پر آمادہ ھو جائے تو سمجھ لو کہ وہ ذہنی طور پر اسی (80) فیصد سیکے لئے تیـار ہوتی ہے اب یہ مرر پر منحصر ہوتا ہے کہ باقی بیس فیصد عورت کو کیسے راضی کرتا ہے ۔ پہل مـیں نے ہی کرنے کا فیصلہ کیـا اور ایک دن گیـارہ بجے کے قریب اسے مـیسج کیـا کہ کیـا ھو رہا ہے تو اس کا رپلائی آیـا کہ بس فارغ ہی ھوں تو مـیں نے اسے کال لگائی .امبر نے کال اٹینڈ کی اور پوچھنے لگی کہ عرفان کیسے ھو ؟مـیں نے جواب دیـا مـیں ٹھیک ھوں آپ سنا کیسی ھو ؟امبر نے کہا مـیں بھی ٹھیک ھوں اور مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیـا کر رہے ھو ؟مـیں نے کہا کہ آپ کی یـاد آ رہی تھی آپ کو بہت مس کر رہا تھا اس لئے آپ کو کال کر لی، او ھو ! آپ کو ہماری یـاد آ رہی تھی آپ کو کب سے ہماری یـاد آنا شروع ھو گئی جناب؟عورت کے حسن کی تعریف اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے،اس لئے اس ہتھیـار کا استمال کرتے ہوئے مـیں نے کہا کہ آپ کی آواز بہت پیـاری ہے جب آپ بولتی ہیں تو پتا نہیں کیوں مـیرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو جاتی ہیں؟آج کل تو ذھن مـیں آپ ہی ہوتی ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ ہی کو سوچتا ھوں،آپ جیسی خوبصورت لڑکی سے دوستی مـیرے لئےی اعزاز سے کم نہیں- امبر ہنستے ہوئے عرفان کوئی مسکہ لگانا تو آپ سے سیکھے.مـیںنے ذرا سا جذباتی ھو کر امبر سے کہا مـیرے دل کی آواز کو تم مسکہ کہہ رہی ھو امبر مـیں نے تم کو دیکھانہیں لیکن پھر بھی آپ کی چاہت مـیرے دل مـیں گھرکر گئی ھے اور آج کل مـیں تمہیں ہی سوچتا رہتا ھوں امبر تم بہت پیـاری ھو. کیـا تم بھی مجھے اتنا ہی مس کرتی ھو ؟ امبر نے کہا عرفان تم بہت اچھے ھو لیکن ایک بات یـاد رکھنا کہ مـیں شادی شدہ ھوں اور بال بچے والی ھوں تم خود پر کنٹرول رکھو کہیں ایسا ہی نہ ھو کہ آپ کی وجہ سے مـیری ازدواجی زندگی مـیں مسائل پیدا ھو جائیں، مـیں نے کہا کہ امبر تم اتنے دنوں سے مجھ سے بات کر رہی ھو اور ابھی تمہیں مـیرا پتا ہی نہیں چلا کہ مـیں کیسا لڑکا ھوں یہ آپ نے سوچ بھی کیسے لیـا کہ مـیں آپ کو تنگ کروں گا آپ کی یہ بات سن کر مجھے بہت دکھ پہنچا ہے، یہ کہہ کر مـیں نے فون کٹ کر دیـا فون بند کرنا تو صرف ایک بہانہ تھا کہ دیکھوں اسے مـیری پروا بھی ہے یـا نہیں ؟ اسی وقت اس نے کال بیک کی مـیں نے فون اٹینڈ کیـا تو امبر کہنے لگی کہ عرفان تم تو ناراض ھو گئے ھو مـیں نے تو ایسے ہی ایک بات کی تھی آپ سے -مـیں آپ سے سوری کرتی ھوں اگر آپ کو برا لگا مـیں نے کہا اپنوں مـیں سوری نہیں چلتا سوری کہہ کر تم نے مجھے بیگانوں مـیں شامل کر دیـا ہے امبر نے کہا عرفان تم تو مـیری جان ھو تم کو اپنا سمجھا ہے تو تم سے بات کر رہی ھوں مـیں نے کہاسچ امبر نے کہا مچ مـیں نے کہا اس خوشی مـیں ایک kiss ھو جائے اور مـیں نے فون پر اسے چومنے کی آواز نکالی تو اس نے بھی جوابا مجھے چومنے کی آواز نکالی اور کہا شکر ہے کہ آپ کی آواز مـیں پہلے جیسا مـیٹھا پن آیـا اس خوشی مـیں جو بھی فرمائش کرو گے وہ مـیں پوری کروںمـیں نے کہا کہ کیـا مـیں جو مرضی فرمائش کروں وہ تم پورا کرو؟ امبر نے کہا ہاں مـیں پورا کروں، مـیں نے کہا کہ مـیں تمہیں اپنے سامنے بیٹھا کر تمہیں دیکھنا چاہتا ھوں اس نے کہا عرفان مـیں نے تم سے وعدہ کیـا ہے تو مـیں اسے ضرور پورا کروںلیکن تمہیں اس کے لئے تقریبا ایک ماہ انتظار کرنا پڑے گا مـیں نے پوچھا کیـا مطلب ؟ تو اس نے کہا کہ مـیرے شوہر نے پندرہ دن کے لئے دفتری کام کے سلسلے مـیں بیرون ملک جانا ہے اس دوران مـیں آپ کی فرمائش پوری کر سکوں، مـیں نے کہا وعدہ ؟ تو امبر نے کہا پکا وعدہ ، مـیں نے کہا کہ کیـا ایسا نہیں ھو سکتا کہ مـیں آپ کو کہیں دیکھ سکوں ؟ تو امبر نے کہا اب مـیں نے آپ سے وعدہ کیـا ہے ملنے کا تو تم ایک ماہ صبر کرو .&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">مـیں نے کہا کہ وہ تو مجھے کرنا ہی پڑے گا ویسے بھی انتظار کا اپنا علیحدہ ہی مزا ہے &nbsp;اس دن مـیں نے فون پر اس کی KISS کی اور ملنے پر رضامند کر لیـا تھا اور تھوڑی بہت جو جھجک تھی وہ بھی تقریبا ختم ھو گئی تھی اس دن مـیں بہت خوش تھا کیونکہ مـیں اپنے ہدف کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اب اس سے تقریبا روز ہی بات ہوتی تھی سوائے اتوار کے -اب تو مـیں باتوں باتوں مـیں فون پر اس کی بھی کر لیتا تھا لیکن اس سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مـیری ہوس ظاہر ھو مـیں کبھی کبھی اس سے زد کرتا تھا کہ مـیں تمہیں ملنے سے پہلے ایک دفعہ دیکھنا چاہتا ھوں تو وہ کہہ دیتی تھی کہ جیسے ہی کوئی موقع آیـا تو مـیں آپ کو بتا دوں گی&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">ہفتہ کی دوپہر اس نے مجھے بتایـا کہ آج مـیں اپنے مـیاں کے ساتھ ان کے گاں جا رہی ھوں اگر تم اوکاڑہ آ سکتے ھو تو آ جا کیونکہ ہم نے بس سٹینڈ کے پاس والی دوکان سے مٹھائی خی ہے تم مجھے وہاں دیکھ سکتے ھو ،&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">مـیں نے کہا کہ مـیں ضرور آں گا اس نے مجھے اپنی کار کا نمبر اور رنگ بتا دیـا اور گھر سے نکلنے کا وقت بھی بتا دیـا اور کہا کہ مـیں اس وقت فون نہیں کر سکوںآپ تھوڑا انتظار کر لینا اگر کرنا پڑے &nbsp;۔مـیں بہت خوش ہوا کہ اتنے عرصے کے بعد پہلی دفعہ اسے دیکھنے کا موقع ملا ہے . مـیں تیـار ھو کر وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ پہلے اوکاڑہ پہنچ گیـا اس وقت مـیرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ھو رہی تھی اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور مجھے انجانی سی بے چینی محسوس ھو رہی تھی مـیں سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں کہ وہ کیسی ھوجلدی مـیں اس نے اپنا تو بتا دیـا تھا لیکن وہ مجھ سے نہیں پوچھ سکی تھی کہ وہ مجھے کیسے پہچانےلیکن مـیں نے اس کا حل سوچ لیـا تھا&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">جو وقت اس نے بتایـا تھا وہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک وہ پہنچی نہیں تھی جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا مـیری بے چینی مـیں اضافہ ھو رہا تھا اور انتظار کا بڑھتا ہوا ایک ایک لمحہ مـیرے دل کی دھڑکنوں اور مـیری بے چینی کو بڑھا رہا تھا کہ اچانک پھرمـیرے سامنے دوکان پر ایک کلٹس کار آ کر رکی اس کا رنگ امبر کے بتائے ہوئے رنگ سے ملتا تھا اس کی ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ ایک لڑکی ایک بچے کے ساتھ بیٹھی تھی مرر اتر کر دوکان مـیں داخل ہوا ،کار کا نمبر مجھے نظر نہیں آ رہا تھا مـیں نے تھوڑا آگے جا کر کار کا نمبر دیکھا تو وہ وہی نمبر تھا ایک دم مـیرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو گئیں اور اکسائٹمنٹ کی وجہ سے مـیرے جسم مـیں ہلکی سی لرزش آ گئی ،&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">امبر نے اپنی سائڈ والا شیشہ نیچے گرا لیـا تھا مـیں نے فون کان سے لگایـا اور کار کے پاس سے گزرتے ہوئے مـیں نے کہا کہ امبر کیسی ھو ؟ اور ایک طرف جا کر کھڑا ھو گیـا جہاں سے مجھے امبر کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">امبر بہت ہی حسین تھی اس کا رنگ دودھیـا سفید اور اس کے نین نقش تیکھے اور بہت دلکش تھے اس کے چہرے کا حسن اس کی نشیلی آنکھیں تھیں . اس کا چہرہ گول اور گال پھولے پھولے سے تھے وہ نہ ہی بہت سمارٹ اور نہ ہی بہت موٹی تھی وہ درمـیانے جسم کی ایک خوبصورت لڑکی تھی مـیں خود ٹھیک ہی ھوں لیکن مـیری یہ ہمـیشہ سے ہی خوش قسمتی رہی ہے کہ مـیرے ساتھ جن لڑکیوں کی بھی انڈر سٹینڈنگ ہوئی ہے وہ سب کی سب خوبصورتی مـیں اپنی مثال آپ تھیں امبر نے مـیری طرف دیکھا اور مسکرا دی - چار سے پانچ منٹ وہ وہاں رکی اس دوران ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے ، اس کے مـیاں کے آنے پر وہ وہاں سے چلی گئی ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ لیـا تھا امبر مجھے بہت پسند آئی تھی اس کو دیکھ کر اب اس سے ملنے اور اسے چھونے کی تڑپ بہت شدت سے دل مـیں گھر کر آئی تھی اگلے دن اتوار تھا اس سے بات نہ ھو سکی -سوموار کو دن کے گیـارہ بجے کے قریب اس کی کال آئی - مجھ سے کہنے لگی کہ عرفان تم بہت پیـارے ھو بالکل اپنی آواز کی طرح - آپ کو دیکھنا اچھا لگا - مـیں نے کہا امبر تم تو خوبصورتی مـیں اپنی مثال آپ ھو آپ جیسا حسن مـیں نے زندگی مـیں بہت کم دیکھا ہےآپ کا چہرہ کھلتے گلاب جیسا ہے اور اس پر موٹی موٹی نشیلی آنکھیں - قیـامت سے کم نہیں ھو تم ، "آئی لو یو مـیری جان " اس نے بھی آگے سے کہا "آئی لو یو ٹو جان جی "&nbsp;</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">آپ کو دیکھ کر دل مـیں آپ سے ملنے کی تڑپ جاگ اٹھی ہے مـیں نے کہا - امبر نے کہا مـیں نے آپ سے وعدہ کیـا ہے مـیں آپ سے ضرور ملوںلیکن بس اب تھوڑا سا مزید انتظار ہے مـیرے مـیاں کو جا لینے دو پھر ہماری ملاقات ھو گئی -مـیں نے کہا کہ مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہے اس نے کہا کہ عرفان بس چند دن کی ہی تو بات ہے - دن گزرتے رہے ہم روٹین کی باتیں کرتے رہے اب kiss کرنا اور آئی لو یو کہنا نارمل سی بات بن گئی تھی پھر ایک دن اس نے کہا کہ عرفان سنڈے کو مـیرے مـیاں جا رہے ہیں آج سے وہ چھٹی پر ہیں اور گھر پر مـیاں سے ملنے رشتیداروں کا بھی آنا جانا لگا رہے گا ایسے مـیں آپ سے بات نہیں ھو سکے گئی لیکن آپ پریشان مت ہونا، اب مـیں اپنے مـیاں کے جانے کے بعد ہی آپ سے بات کروں- مـیں سنڈے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ جیسے ہی اس کا مـیاں جائے گا تو وہ اپنے جسم کی بھرپور لطافتوں کے ساتھ مـیری بانہوں مـیں ھو گئی اورمـیں اس کے خوبصورت جسم سے سیراب ھو سکوں گا - آخر ******* کر کے سنڈے کا دن آ پہنچا جس دن اس کے مـیاں نے دوسرے ملک روانہ ہونا تھا - مجھے امـید تھی کہ وہ آج رات مجھے کال کرے- اس نے مجھے منع کیـا تھا کہ اب جب تک مـیں تمہیں کال نہ کروں تم مجھے کال نہ کرنا - اس رات مـیں نے اس کی کال کا انتظار کیـا لیکن اس کی کال نہ آئی - مـیں بہت حیران اور پریشان تھا کہ اس نے کال کیوں نہیں کی ، دل مـیں عجیب عجیب خیـال آ رہے تھے کہ اس نے پتا نہیں وجہ سے کال نہیں کی - مـیں نے ایک دو مـیسج بھی کیے لیکن کوئی جواب نہیں آیـاسوموار کا دن آ پہنچا اور دوپہر ھو گئی لیکن اس کی کال نہ آئی مـیں نے کافی سارے مـیسج کیے لیکن کوئی رپلائی نہیں - مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ امبر کال کیوں نہیں کر رہی ہے ، اپنے مـیاں کے جانے سے پہلے وہ مجھ سے ملنے کے لیے بہت ہی زیـادہ پرجوش تھی لیکن اسکے جانے کے بعد مجھ سے رابطہ نہ کرنا سمجھ سے بالاتر تھامـیراذھن اس دن نیگٹیو خیـالات کی آماجگاہ بنا ھوا تھا- سب سے زیـادہ جو بات مـیرے لیے تکلیف کا باعث بن رہی تھی وہ اسکامجھ سے یوں لا تعلق رہنا تھا کیونکہ مـیں اس کا بہت زیـادہ عادی ھو چکا تھا اس کی یہ بے اعتنائی مجھ سے برداشت نہیں ھو رہی تھی-بالآخر مـیں نے اسے کال کرنے کا فیصلہ کیـا اور اس کا نمبر ڈائل کیـا،اورآگیکمپیوٹرائز آوازآئی"آپ کامطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے، اس کا نمبر بند تھا، بند نمبر جان کر مجھے ایسا لگا جیسے منزل مجھ سے قریب آ کر دور چلی گئی ھو، منزل کیـاتھی اس کے حسین جسم کا حصول، وہ جسم جس کے خواب مـیں پچھلے کچھ عرصے سے دیکھ رہا تھا،مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے اس کا حسین سراپا اب مـیری پہنچ سے دور ھو گیـا ہے اور اب مـیں اس کو اپنی بانہوں مـیں لینے کی حسرت پوری نہیں کر پاں گا اور مـیری کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ھو گئی ہے مبر ان سب سے زیـادہ حسین ہے اور یہ کہتے ہوئے مـیری نظر امبر پر ہی تھی اپنی تعریف سن کر امبر کے چہرے کا رنگ بدل گیـا تھا اور وہ اس کا چہرہ سرخ ھو گیـا تھا اور جب انیلہ نے مسکراتے ہوئے امبر کی طرف دیکھا تو امبر کا چہرہ شرم کے مارے مزید سرخ ھو گیـا اور امبر مزید خوبصورت لگنے لگی تھی . امبر کو شرماتے دیکھ کر مـیں نے بات کا رخ بدلا اور پوچھا کہ امبر کیـا بات تھی کہ تم نے اتنا انتظار کروایـا آج منگل ہے تمہیں تو اتوار کی شام کو ہی کال کرنی چاہئیے تھی تو امبر نے جواب دیـا کہ اتوار کی صبح مـیرا موبائل گر گیـا تھا اور اس کی ایل سی ڈی ٹوٹ گئی تھی کل تک گھر مـیں مہمان تھے اس لئیے بازار نہیں آئی اور آج سب سے پہلے موبائل ٹھیک کروا کے آپ کو ہی کال کی ہے ، مـیں نے کہا آپ کے ہاں تو پی ٹی سی ایل بھی ہے آپ وہاں سے بھی تو کال کر سکتی تھیں تو اس نے کہا کہ بل کے ساتھ کال ریکارڈ بھی آتا ہے مـیں اپنے مـیاں کو شک مـیں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اور ویسے بھی آپ کو جان بوجھ کر انتظار کروایـا ہے ، وہ کیـا کہتے ہیں نا کہ انتظار کے بعد ملنے کا اپنا ہی مزا ہے -مـیں نے کہا کہ "کسی کی جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری"اگر مجھے کچھ ھو جاتا تو ؟تو انیلہ بولی کہ عاشقوں کو انتظار کچھ نہیں کہتا- یہ عاشق لوگ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں اگر انہیں قیـامت تک بھی انتظار کرنا پڑے تو یہ کر سکتے ہیں ، مـیں نے امبر کی طرف دیکھا اور اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ امبر مجھ سے پہلے بول پڑی کہ اس کا مائنڈ مت کرنا اس کو مذاق کرنے کی عادت ہے، اس دوران لڑکا برگر اور کوک لے آیـا اور ہم برگر کھانے لگے- کھانے کے دوران جب امبر کا ہاتھ منہ کی طرف گیـا اور اس کا دوپٹہ سینے سے ہٹ گیـا تو مـیری نظر امبر کے سینے پر پڑی امبر کی چھاتیـاں نہ ہی بہت زیـادہ بڑی تھیں اور نہ ہی بہت زیـادہ چھوٹی ، مـیرے اندازے کے مطابق امبر کی چھاتی کا سائز 34 تھا اور اس کی چھاتیـاں ابھری ہوئی تھیں ، اس کی چھاتی دیکھ کر مـیرا اندر کا مرر جاگ گیـا اور مـیرے لن مـیں تھوڑی سی ہلچل ہوئی اور وہ کھڑا ھو گیـا ، راستے مـیں مـیں سوچ رہا تھا کہ آج مـیں امبر کے حسین اور رس بھرے ہونٹوں سے زندگی کشید کروں گا اور اس کے نرم و نازک جسم کو اپنی بانہوں مـیں لے کر اپنے من کی پیـاس بجھا سکوں گا لیکن مـیرا یہ سپنا آج پورا ہونے والا نہیں تھا امبر اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ مـیرے سامنے تھی لیکن مـیری دسترس مـیں نہ تھی اور مـیں سوچ رہا تھا کہ آج نہیں تو کل یہ حسین مورت مـیری بانہوں مـیں ھو، انیلہ کی چھاتیـاں امبر کی نسبت کافی بھاری تھیں اور انیلہ کی چھاتیـاںی ہوئی لگ رہی تھیں اور اس کی چھاتی کا سائز مـیرے اندازے کے مطابق 38 تھا انیلہ کو مموں کے حوالے سے امبر پر فوقیت حاصل تھی لیکن امبر انیلہ کے مقابلہ مـیں زیـادہ حسین تھی ، مـیرا ذھن صرف امبر کے جسم مـیں تھا اور اس کو ہی دیکھ رہا تھا اور انیلہ کے بارے مـیں مـیرے ذھن مـیں کوئی ایسا ویسا خیـال نہیں آیـا تھاہم کھانے کے بعد گپ شپ لگاتے رہے اس دوران مجھے مـیرے ایک دوست کی طرف سے کال آئی مـیں نے وہاں بیٹھے بیٹھے ہی کال رسیو کی اور کال سننے کے بعد اپنا موبائل وہاں ٹیبل پر رکھ دیـا جو وہاں سے انیلہ نے اٹھا لیـا اور پوچھنے لگی کہ یہسا ماڈل ہے تو مـیں نے کہا کہ نوکیـا 2690 تو انیلہ نے کہا سمارٹ سا اچھا ماڈل ہے اس نے موبائل کے کچھ فنکشن دیکھے اور پھر مجھے واپس کر دیـا ، اور انیلہ امبر سے کہنے لگی "چلیں " ؟امبر نے بھی کہا چلو - مـیں نے لڑکے کو آواز دی اور بل کا کہامـیں نے بل کی ادائیگی کی اور اٹھ کھڑے ہوئے - مـیں نے پوچھا اب کب ملاقات ھو؟ تو امبر نے کہا کہ شام کو فون پہ بات ھوپھر بتاں- ہم شاپ سے نکل آئے اور امبر اور انیلہ ایک طرف چل پڑیں ، مـیں نے پیچھے سے دیکھا تو امبر کی چال مـیں ایک تمکنت اور وقار تھا اور اس کا قد انیلہ سے نکلتا ہوا تھا ، اس کی گانڈ بھاری اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر مـیرے منہ سے ایک حسرت بھری آہ نکلی اور مـیں اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب یہ جیتا جاگتا حسین جسم اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ بنا کپڑوں کے مـیری بانہوں مـیں ھو گا --- مـیں واپس گھر آ گیـا ، شام مـیں امبر کا مـیسج آیـا کہ عرفان رات کو بات ھومـیں اس وقت تھوڑی مصروف ھوں ، رات کے گیـارہ بجے کے قریب اس کی کال آئی مـیں نے کہا "امبر تم بہت حسین ھو" تمہیں دیکھ کری زاہد کا بھی ایمان ڈول سکتا ہے مـیں اپنی خوش بختی پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے کہ مجھے تم جیسی خوبصورت دوست ملی ہے ، مجھے ایک بات بتا کہ مجھ مـیں ایسا کیـا ہے کہ تم نے مجھ سے بہت جلد دوستی کر لی تو امبر نے کہا کہ آپ سے دوستی اس لئے کی تھی کہ آپ پہلے لڑکے ھو جس نے پانچ سو کا لوڈ کروا دیـا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی آواز مـیں معصومـیت تھی اور آپ کی باتوں سے ہوس نہیں جھلکتی تھی مـیں نے پوچھا کہ تھی ؟ کیـا اب مـیری باتوں مـیں ہوس ہے ؟ تو اس نے کہا ہاں جب سے آپ سے مل کر آئی ھوں آپ کی نگاہیں مجھے اپنے جسم پر ہی رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لیکن اب مجھے آپ کے منہ سے اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے اور آپ کا ایسی والہانہ نظروں سے دیکھنا ایک دوسری ہی دنیـا مـیں لے جاتا ہے -اب کب ملومـیں نے پوچھا تو اس نے جواب دیـا کہ کل مـیں اپنے لاہور والے گھر مـیں شفٹ ھو رہی ھوں اب ہماری ملاقات وہیں ھو، مـیں نے پوچھا کہ آپ کے گھر مـیں ؟تو اس نے کہا جی ہمارے گھر مـیں ،وہاں آپ کو کوئی ٹینشن نہیں ھو- مـیں نے کہا سوچ لینا کہیں کوئی مسلئہ ہی نہ بن جائیتو اس نے کہا ڈونٹ وری ،تو مـیں نے پوچھا کہ کب ؟ تو اس نے کہا مـیں آپ کو بتا دوںبس ایک دو دن کے اندر اندر ہماری ملاقات ھو. مـیرے مشاہدے کے مطابق سب سے زیـادہ مزا گرل فرینڈ سے سیکا آتا ہے ، کیونکہ وہ گھر سے آتی ہی چدوانے کے لئے ہیں اور ذہنی طور پر تیـار ہوتی ہیں اس لئے وہ بہت زیـادہ رسپانس دیتی ہیں اس کے مقابلے مـیں بیوی سے بھی مزا آتا ہے لیکن گرل فرینڈ سے زیـادہ نہیں ،اگلے دن وہ لاہور چلی گئی اب مـیں اس انتظار مـیں تھا کہ وہ کب مجھے ملنے کے لئے بلاتی ہے . ہماری فون پر بات چیت جاری تھی مـیں اس سے ملنے کے لئے بے صبری سے انتظار کر رہا تھادو دن بعد رات کو اس نے مجھے بتایـا کہ کل ہم ملیں گے -یہ سنتے ہی مـیں نے فون پر اس کی بہت ساری kiss کیں اور بہت زیـادہ خوشی کا اظہار کیـا اور اس سے پوچھا کہ کہاں ملنا ہے تو اس نے کہا کہ لاہور مـیں مـیرے گھر مـیں ، تو مـیں نے پوچھا کہ آپ کے گھر مـیںکون ہوتا ہے تو اس نے بتایـا کہ مـیں اور مـیرا بے بی ، اس کے علاوہ مـیری ملازمہ اور گیٹ پر چوکیدار ، اس نے کہا کہ مـیں نے سب سوچ لیـا ہے آپ مـیرے کزن ھو لاہوری کام سے آئے ھو اور ایک دو دن ہمارے گھر مـیں رھو گے ، مـیں نے ملازمہ سے آپ کے آنے کا کہہ دیـا ہے آپ مـیرے مہمان کی حثیت سے ہمارے گھر رھو گے آپ کل صبح ٹھوکر اتر جانا مـیں آپ کو وہاں سے پک کر لوںہمارے ملنے کا ٹائم بن گیـا ، مـیں نے اگلی صبح اٹھ کر اچھی طرح شیو بنائی اور انڈر شیو بھی کی اور خاص طور پر اپنے ٹٹوں testicals کی صفائی کی ، اچھی طرح تیـار شیـار ھو کر بیگ مـیں ایک سوٹ رکھا اور گھر والوں کو بتایـا کہ دوست کے پاس لاہور جا رہا ھوں ھو سکتا ہے ایک دو دن وہاں رہنا پڑ جائے اور گھر سے نکل آیـا ، مـیں نے امبر کو فون کیـا کہ مـیں گھر سے نکل آیـا ھوں اور بارہ بجے کے قریب ٹھوکر پہنچ جاں گا تو امبر نے کہا کہ مـیں آپ کو وہاں سے پک کر لوںآپ پہنچنے سے آدھا گھنٹہ پہلے مجھے مـیسج کر دینا ، مـیں نے کہا ٹھیک ھے ، مـیں بس مـیں سوار ہوا اور لاہور کے لئے روانہ ھو گیـا ۔مـیں بس مـیں بیٹھا آنے والے حسین لمحات کے بارے مـیں سوچ رہا تھا ، آج بڑے افسر کی بیوی مـیرے ہاتھ سے چدنے والی تھی ، ان سنسنی خیز اور ی لمحات کے بارے مـیں سوچتے سوچتے مـیرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو گئیں تھیں اور مـیرا لن کھڑا ھو گیـا تھا ، مـیں اک انجانی سی لذت محسوس کر رہا تھا اور مـیں نے اپنا لن اپنے پٹوں thigh مـیں دبایـا ہوا تھا اور مزے کی حسین وادیوں کی سیر کر رہا تھا کہ ایک انجان نمبر سے مجھے کال آئی ، مـیں نے کال رسیو کی تو آگے سے خاموشی - کوئی بول نہیں رہا تھا مـیں نے دو تین دفعہ ھیلو ھیلو کہنے کے بعد کال کٹ کر دی اور مـیسج کیـا کہ " آپ؟ " جواب آیـا " آپ کی چاہنے والی " مـیں نے رپلائی کیـا،کیـا چاہتی ھو ؟ تو اس نے جواب دیـا آپ کو - مـیں نے پوچھا کیـا مـیں آپ کو جانتا ھوں تو اس نے لکھا شاید ہاں ، شاید نہیں -مـیرے ذھن پر اس وقت امبر سوار تھی اور مـیں نے وہاں ایک دو دن رکنا بھی تھا اس دوران کوئی ڈسٹربنس نہ ھو اس لئے اس سے جان چھڑانا ضروری سمجھتے ہوئے مـیں نے اسے لکھا کہ مـیں اگلے دو دن بہت مصروف ھوں اگر آپ مجھے چاہتی ہیں تو دو دن مجھے تنگ نہ کرنا - اس نے رپلائی کیـا او-کے ،اب مجھے کنفرم نہیں تھا کہ یہ لڑکا ہے یـا لڑکی ، مـیں اس کے بارے مـیں سوچنے لگا کہ یہھو سکتا ہے لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی تو مـیں اس کی سوچوں کو ذھن سے جھٹکتے ہوئے امبر کے بارے مـیں سوچنے لگا کہ کیسے کیسے اس کی چدائی کرنی ہے ، مـیں نے آج تک پھدی نہیں چاٹی اور اگر اس نے پھدی چاٹنے کا کہہ دیـا تو کیـا کروں گا ؟ یہ سوال ذھن مـیں آیـا تو اس کا جواب سوچنے لگا لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی پھر اس کا جواب صورت حال پر چھوڑ دیـا - مـیں نے سنگ مـیل پر ٹھوکر پچیس کلو مـیٹر دیکھا تو مـیں نے امبر کو کال کی کہ مـیں آدھے گھنٹہ تک پہنچ رہا ھوں تو اس نے کہا ok مـیں آ رہی ھوں بس ٹھوکر پہنچی تو مـیں اتر گیـا، مـیں نے اردگرد دیکھا لیکن مجھے وہاں امبر نظر نہیں آئی تو مـیں نے امبر کو کال کی اور کہا کہ مـیں اتر گیـا ھوں آپ کہاں ھو ؟ تو اس نے کہاتھوڑا ویٹ کرو ، مـیں آپ کے پاس پہنچنے ہی والی ھوں، پندرہ منٹ بعد ایک کار مـیرے نزدیک آ کر رکی مـیں نے کار کی طرف دیکھا تو اس مـیں امبر تھی اس نے مجھے اشارہ کیـا اور مـیں اگلا دروازہ کھول کر امبر کے ساتھ بیٹھ گیـا امبر نے ہاتھ ملایـا امبر کا نرم و نازک ہاتھ مـیرے ہاتھ مـیں آیـا تو جسم مـیں کرنٹ دوڑ گیـایہ پہلی دفعہ تھا کہ امبر کو مـیں نے چھوا تھا اس کا ہاتھ ملانا مجھے بہت اچھا لگا اور مـیرے سارے جسم مـیں سنسنی سی پھیل گئی - امبر کی تیـاری سے لگتا تھا امبری بیوٹی پارلر سے تیـار ھو کر آئی ہے ، اس کی ہر چیز مـیچنگ تھی اس نے پنک کلر کے کپڑے پہنے ہوئے تھے امبر اس وقت بہت پیـاری لگ رہی تھی ایک لفظ پڑھا تھا ملکوتی حسن ، اور آج اس لفظ کی تشریح حقیقت مـیں دیکھ رہا تھا - امبر نے دوپٹا نہیں اوڑھا ہوا تھا مـیری نظر اس کی چھاتیوں پر پڑی اس کے سینے کے ابھار سرکشی پر مائل لگ رہے تھے اور ایسے تنے ہوئے تھے جیسے یہی پہاڑ کی دو چوٹیـاں ھوں اور ان کو ابھی تکی نے سر نہ کیـا ھو ، اور خود کو سر کرنے کی دعوت دے رہے ھوں ، امبر نے مـیری نظروں کی تپش محسوس کی اور اس کے چہرے پر شرمـیلی سی مسکراہٹ آ گئی اور اس نے پوچھا کہ عرفان سفر کیسا گزرا ؟ مـیں نے کہا آپ کی سوچوں مـیں سفر کا احساس ہی نہیں ہوا اور آپ کو دیکھ کر تو ویسے بھی فریش ھو گیـا ھوں ، امبر تم بہت ہی پیـاری لگ رہی ھو کہیں مـیری نظر ہی نہ لگ جائے ؟ تو امبر نے کہا آپ مسکہ بہت اچھا لگا لیتے ھو ، مـیں نے کہا امبر یہ حقیقت ہے کہ تم بہت سندر ھو .تمہارے جیسا رنگ و روپ اور نین نقش بہت کم لڑکیوں کے ہوتے ہیں تم تو مـیرے خوابوں کی شہزادی ھو ورنہی عام لڑکی کے لئے کوئی اتنا سفر نہیں کرتا ، مـیں جب بھی اس کی تعریف کرتا تھا تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتی ھو ، مـیں نے پوچھا کہ امبر تم لاہور مـیں جگہ رہتی ھو تو اس نے کہا ماڈل ٹان ، ایسے ہی باتیں کرتے کرتے ہم ماڈل ٹان پہنچ گئے اس نے ایک شاندار گھر کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکی اور ہارن دیـا چند لمحوں بعد چوکیدار نے گیٹ کھول دیـا اور امبر کار اندر لے گئی اور مجھے کہنے لگی کی کہ تم مـیرے کزن ھو، مـیں نے پوچھا آپ کے بیٹے کا نام کیـا ہے تو اس نے بتایـا شہزاد مـیں نے کہا او-کے-ہم اتر کر اندر گئے تو سامنے ایک ادھیڑ عمر عورت ایک دو سالہ بچے کو پکڑے کھڑی تھی امبر نے اس سے بچہ لے لیـا اور اپنے سینے سے لگا لیـا مـیں نے امبر سے کہا کہ شہزادہ تو کافی بڑا ھو گیـا ہے تو امبر نے کہا کہ انکل سے سلام لو تو مـیں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایـا تو اس نے بھی ہاتھ بڑھا کر سلام لیـا مـیں اس وقت امبر کا رشتہ دار ہونے کی ایکٹینگ کر رہا تھاامبرر نے ملازمہ سے کہا کہ صاحب کے لئے جوس لے کر آ ، (یہ ساری تفصیل آپ کو بور کرےاسلئے اس کو حذف کرتا ھوں ) قصہ مختصر دوپہر کا کھانا کھایـا اور ملازمہ نے مجھے اوپر والے کمرے مـیں پہنچا دیـا ، ملازمہ گھر تھی اس لئیے احتیـاطا امبر مجھ سے زیـادہ فری نہ ہوئی ، شام کو امبر اپنے بچے کے لئیے مـیرے ساتھ ماڈل ٹان پارک گئی ، پارک بہت اچھا تھا وہاں جوڑے اور انٹیـاں واک کر رہی تھی وہ بہت سجی سنوری ہوئی تھیں بہت سارا ٹائم ہم نے پارک مـیں گزارا اور رات ھو گئی ، ہم گھر واپس آ گئے امبر نے کہا کہ کھانا باہر کھائیں گے آپ فریش ھو جا، مـیں نہا دھو کر تیـار ھو گیـا اور مـیں نے امبر کو مـیسج کیـا کہ مـیں ریڈی ھوں تو اس نے جواب دیـا او-کے-آدھا گھنٹہ بعد ملازمہ مجھے بلانے آئی مـیں نیچے گیـا تو امبر تیـار تھی اس نے ملازمہ سے کہا کہ شہزاد کا خیـال رکھنا اور ہم کار مـیں بیٹھ کر باہر نکل آئے تو امبر نے کہا کہ کہاں کھانا کھا گے تو مـیں نے کہا کہ جو سب سے نزدیک رسٹورنٹ ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا مـیں سمجھ رہی ھوں آپ کو چیز کی جلدی ہے ، مـیں نے کہا اگر آپ کو پتا ہے تو پھر دیر کیوں کر رہی ھو ؟اس نے عجیب سے لہجے مـیں کہا "انتظار کا اپنا ہی مزا ہے اور ساتھ ہی اس نے ایک رسٹورنٹ کے سامنے کار کھڑی کر دی ، یہاں تک مجھے یـاد ہے اس کا نام گورمے رسٹورنٹ تھا یہ ایک فیملی رسٹورنٹ تھا وہاں سے ہم نے کھانا کھایـا اور گھر واپس آ گئے امبر نے کہا آپ اپنے کمرے مـیں جا -مـیں اپنے کمرے مـیں آ گیـا مـیں کمرے مـیں آ گیـا آپ مجھے امبر کے کمرے مـیں آنے کا انتظار تھا آج دوپہر سے مـیں امبر کے ساتھ تھا لیکن ابھی تک اس کے حسین جسم سے محروم تھا لیکن اب مـیرا یہ انتظار ختم ہونے والا تھا اچانک مـیرے ذھن مـیں آیـا کہ عرفان تمہارے پاس تو کنڈوم ہی نہیں ہے کہیں کوئی مسلہ ہی نہ بن جائے یہ سوچ کر مـیں وہاں سے نکلا اور مـیڈیکل سٹور سے ٹائمنگ والے کنڈوم لے آیـا اور ساتھ مـیں ایک ویـاگرا کی گولی بھی - ابھی مجھے آئے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ ملازمہ اوپر آئی اور پوچھنے لگی صاحب جیی چیز کی ضرورت تو نہیں ، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز مـیں عجیب طرح کا لوچ اور دعوت گناہ واضح تھی اس نےی چیز پر بہت زور دیـا تھا مـیں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں مـیں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ تھی اس کی عمر چالیس کے اردگرد تھی اور وہ شکل و صورت کی ٹھیک ہی تھی مـیں نے کہا کہ مجھےی چیز کی ضرورت نہیں تو اس نے کہا کہ صاحب جی مـیرا کوارٹر گیٹ کے ساتھ والا ہے اگری چیز کی ضرورت ھو تو آ جانا یہ بالکل صاف اور واضح اشارہ تھا کہ وہ کیـا کہہ رہی ہے لیکن شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ آج اس کی مالکن کے جسم سے مـیں اپنی ہوس کی پیـاس بجھانے والا ھوں ورنہ وہ مجھے یہ پیشکش نہ کرتی ، مـیں نے کہا ٹھیک ہے اب تم جا مجھےی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی ، مـیں نے امبر کو مـیسج کیـا اچھی مـیزبان ھو ادھر مہمان بور ھو رہا ہے اوراس کو کوئی لفٹ ہی نہیں تو امبر کا مـیسج آیـا کہ شہزاد سو گیـا ہے لیکن ملازمہ ابھی جاگ رہی ہے مـیں تمہارے پاس بارہ بجے کے بعد آں گی- وہ مجھے تڑپا رہی تھی وہ وقت مجھے آج بھی یـاد ہے اس کے بدن کو پانے کے لئے انتظار کے وہ لمحات کتنی مشکل سے گزارے تھے وہ دو گھنٹے صدیوں پر محیط لگ رہے تھے آخر وہ لمحہ بھی آ گیـا جب امبر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی ، مـیں اس کو دیکھ کر مبہوت ھو کر رہ گیـا وہ اس وقت بہت ہی حسین لگ رہی تھی ملکوتی حسن کی مالک امبر مـیری دسترس مـیں آ چکی تھی لیکن سب سے مشکل کام ابھی باقی تھا وہ تھا ابتدا، شروعات ؟ پہلی دفعہ ملنے والوں کے لئے سب سے مشکل ہوتا ہے ، امبر بیڈ پر مـیرے قریب آ کر بیٹھ گئی مـیں نے ابتدا کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیـا اس نے کوئی نہیں کی اور خاموشی سے بیٹھی رہی مـیرا حوصلہ مزید بڑھ گیـا مـیں نے اس کی کمر مـیں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیـا ، اس کے جسم کے لمس سے مـیرا سویـا ہوا لن ایک جھٹکے سے انگڑائی لے کر کھڑا ھو گیـا ، مـیں نے اپنا ہاتھ اس کی کمر سے اوپر کرتے ہوئے اس کی چھاتی پر لے گیـا اور اس کی چھاتی کو ہلکا سا دبایـا تو امبر نے خمار آلودہ آنکھوں سے مـیری طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اس کے ہونٹ خشک تھے اور اس کی سانسیں تیز ہونا شروع ھو گئی تھیں مـیں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں مـیں پیوست کر دئیے اور ان کو چوسنا شروع کر دیـا اس کے ہونٹ ربڑ کی طرح سوفٹ تھے اور امبر نے بھی آگے سے رسپانس دینا شروع کر دیـا اس نے اپنی زبان مـیرے منہ مـیں کر کے اسے گول گول گھمانا شروع کر دیـا یہ دیکھ کر مـیں نے بھی اپنی زبان اس کے منہ مـیں کر دی جسے اس نے چوسنا شروع کر دیـا اب کبھی اس کی زبان مـیرے منہ مـیں ہوتی اور کبھی مـیری اس کے منہ مـیں ، اور ہم کبھی ایک دوسرے کی زبان چوستے اور کبھی ایک دوسرے کے ہونٹ ، اب مـیری ساری جھجک اتر چکی تھی اور اس وقت ہم بیڈ سے نیچے کھڑے تھے، مـیں نے اس کے ہونٹوں کو چھوڑ کر اس کے گالوں پر KISS کرنا شروع کر دی اور گالوں سے اس کی گردن پر آ گیـا جیسے ہی مـیں نے اس کی گردن کو اپنی زبان سے چھوا تو اس کے منہ سے ایک لمبی آہ. . . . . .ہ . . . . . ہ نکلی اور اس نے زور سے مجھے اپنے ساتھ چمٹا کیـا مطلب جھپی ڈال لی اس کی نرم و گرم چھاتیـاں مـیرے سینے سے لگ گئیں اور مـیں اس وقت خود کو ایک الگ ہی دنیـا مـیں محسوس کرنے لگا تھا مـیں نے اس کو زور سے اپنے سینے کی طرف دبایـا اور ساتھ ساتھ اس کی گردن پر KISS کرتا رہا مـیں اس کی بیک پر چلا گیـا اور اس کے بازں کے نیچے سے ہاتھ گزار کر اس کے دونوں ممے پکڑ لئے اس کے ممے پکڑے ہی تھے کہ اس کے منہ سے ایک تیز سسکاری بلند ہوئی اور اس کی سانسیں بھاری اور تیز ھو گئیں مـیں نے اس کے ممے مسلنا اور ساتھ مـیں اس کی بیک نیک(گردن) پرنگ شروع کر دی اس کی سسکاریـاں تیز اور اس کی سانسیں پھول گئیں تھیں ایسے لگ رہا تھا کہ وہ فارغ ھو رہی ہے اور اس نے ایک تیز سسکاری کے ساتھ مجھے پیچھے دھکیل دیـا اور خود بیڈ پر بیٹھ کرزور زور سے سانسیں لینے لگی وہ فارغ ھو چکی تھی مـیں اس کے ساتھ بیٹھ گیـا اور تھوڑی دیر بعد اپنا ایک ہاتھ اس کی تھائی THIGH پر رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگا اور اس کی پھدی کے اس پاس کا حصہ بھی سہلانے لگا اس کی شلوار کا وہ حصہ گیلا ھو چکا تھا مـیں نے اسکی شلوار کو نیچے کیـا اس نے مـیری طرف دیکھا لیکن کچھ بولی نہیں مـیں نے اس کی شلوار پہنچے سے پکڑ کر نیچے کھینچ لی اس کی صاف شفاف ٹانگیں بہت ی لگ تھیں اس کی پھدی پر اس کی قمـیض تھی اسلئے اس کی پھدی نظر نہیں آ رہی تھی مـیں نے ایک ہاتھ سے اس کی پھدی سے قمـیض اٹھائی تو اس کی شیوڈ پھدی مـیرے سامنے تھی جس کو دیکھ کر مـیرے منہ سے رالیں ٹپکنے لگیں کیونکہ اس کی پھدی کے لپسLIPS آپس مـیں جڑے ہوئے تھے اور اس کی پھدی کے لپس ڈبل روٹی کی طرح پھولے پھولے تھے ابھی اس کی پھدی، پھدی ہی تھی پھدا نہیں بنی تھی مـیں اس کی پھدی کو دیکھ کر فل گرم ھو چکا تھا مـیں نے اس کی قمـیض بھی اتاری دی اب وہ صرف برا BRA مـیں تھی اس نے سکن کلر کا برا پہنا ہوا تھا مـیں نے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کے برا کی ہک بھی کھول دی اب اس کے صاف شفاف ممے مـیرے سامنے تھے اس کے ممے گول اور ابھرے ہوئے تھے وہ ساری ننگی ھو چکی تھی مـیں نے اس کی چھاتیوں کو ہاتھوں مـیں لے کر دبانااور مسلنا شروع کر دیـا وہ پھر سے گرم ھو چکی تھیـاب اس نے مـیرے لن کو پکڑ لیـا تھا اور اس کو دبانا شروع کر دیـا تھا مـیں نے اس کی چھاتی منہ مـیں لے کر چوسنے لگا وہ بہت مدہوش ھو گئی تھی اس کی کوشش تھی کہ اس کی پوری چھاتی مـیرے منہ مـیں چلی جائے اب اس نے سسکنا بھی شروع کر دیـا تھا وہ دوبارہ سے فل گرم ھو چکی تھی یہ دیکھ کر مـیں نے اپنے سارے کپڑے اتار دئیے ، اب ہم دنوں بالکل ننگی حالت مـیں تھے مـیں نے اس کے سارے جسم پرنگ سٹارٹ کر دی جس سے اس کے منہ سے نا معلوم زبان کے الفاظ نکلنے لگے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا آں آوں سی . . . . . . . اس کو فل گرم دیکھ کر مـیں نے لن اس کی پھدی مـیں کرنے کا فیصلہ کیـا کیونکہ مـیں بھی بہت گرم ھو چکا تھا مـیں نے کنڈوم اٹھایـا اور اپنے لن پر چڑھا لیـا اور اس کو ٹانگوں سے کھینچ کر بیڈ کے درمـیان مـیں کر لیـا اس کی ٹانگیں اوپر کیں اور اپنے پیروں کی بیڈ کی نکڑ سے ٹیک لگا لی ، مـیں نے اپنے لن کو پھدی پر سیٹ کیـا اور ایک ہی جھٹکے مـیں سارا لن اس کی گیلی پھدی مـیں چلا گیـا اس کے منہ سے ایک درد بھری آہ نکلی اور کہنے لگی کہ عرفان آرام سے ، مـیں نے دو تین دفعہ لن کو آہستہ سے آگے پیچھے کیـا اور پھر اپنی سپیڈ تیز کر دی لیکن اب امبر کے منہ پر تکلیف کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے وہ ایڈجسٹ ھو چکی تھی مـیں نے زور زور سے دھکے مارنے شروع کر دئیے اور کمرے مـیں دھپ دھپ اور پچک پچک کی آوازیں مـیرے ہر دھکے کے ساتھ گونج رہی تھیں اور اس کے منہ سے آہ آہ آہ . . ..... آہ . . کی آواز نکل رہی تھی ایک دو منٹ کے بعد امبر کے جسم مـیں اینٹھن ہونے لگی اور تھوڑی دیر بعد اس کا جسم اکڑنے لگا مـیں نے اپنی سپیڈ اور تیز کر دی اس کے منہ سے عجیب طرح کی خرخراھٹ جیسی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں اور پھر ایک تیز اور لمبی سی . . . کے ساتھ ہی اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیـا وہ فارغ ھو چکی تھی مـیں نے بھی بس فارغ ہونے کے قریب تھا مـیں نے دھکے لگانا جاری رکھا اور جلد ہی فارغ ھو گیـا اور اس کے اوپر لیٹ گی۔</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://www.blogger.com/goog_1583053820"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">نوٹ:</b></span></a></div><div style="text-align: right;"><span style="color: red; font-size: large;"><b style="background-color: yellow;">اپنی کہانیـاں اور آب بیتیـاں ہمـیں adm_hoturdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔</b></span></div><div style="text-align: right;"><br /></div>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-27623357457671026062012-04-12T05:09:00.000-07:002012-04-12T05:09:23.728-07:00

A beautifull Day with Rabia

<span style="background-color: lime; color: #cc0000; font-size: x-large;"><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">&nbsp;ان دنوں کی بات ھے، جب مـیں لاھور مـیں قیـام پذیر تھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">ھم کل دو افراد ایک مکان مـیں رھتے تھے۔ مالک مکان ھمارے اوپر ھی رھتے تھے۔ مالک مکان سے ھمارے تعلّقات شروع شروع مـیں اتنے اچھّے نھیں تھے، مگر ایک دو واقعات ایسے ھوئے، جس مـیں اتّفاقیہ طور پر ھمارے ذریعے سے قدرت نے مالک مکان کی مدد کروا دی تھی۔ اس طرح سے آھستہ آھستہ مالک مکان بھی ھم سے نرم رویّہ رکھنے لگا، جو بعد مـیں اچھّی خاصی سلام دعا مـیں بدل گیـا۔ حتّیٰ کہ ھم ایک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں، جس مـیں سب سے زیـادہ اھم چیز استری تھی، لے لیتے تھے۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">تقریباْ پینتالیس سالہ مالک مکان کا نام امجد خان تھا، اور وہ ایک سرکاری نوکری کرتا تھا۔ اس کی اولاد مـیں ایک جوان بیٹی (رابعہ) اور دو چھوٹے چھوٹے بیٹے (سلیم اور کلیم ) شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی تھی، جو بیچاریی وجہ سے دونوں آنکھوں سے محروم ھو چکی تھی۔ اس کی بیٹی مـیٹرک پاس کر چکی تھی، اور دونوں بیٹے پرائمری مـیں زیر تعلیم تھے۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیرا کمرے کا ساتھی بھی مـیری طرح ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا۔ سارا دن کام کرنے کے بعد، ایک دن ھماری عید کا ھوتا تھا، اور وہ دن ھوتا تھا، اتوار کا۔ اتوار کے دن ھم دونوں لیٹ اٹھنے کے عادی تھے۔ بارہ ایک بجے تک ھم تیّار ھو کر باھر گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے ۔ مالک مکان بھی ھماری اس روٹین سے واقف ھو چکے تھے، کیونکہ اتوار کے دن ھمارے کمرے کو اکثر تالہ لگا رھتا تھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">ایک اتوار مـیرے کمرے کے ساتھی نے اپنے گاؤں جانا تھا، تو اس کے جانے کے بعد، مـیں کمرے پر ھی لیٹ رھا۔ اس دن گرمـی بھی بے حد پڑ رہی تھی۔ (لاھور مـیں رھنے والے زیـادہ بہتر جانتے ھوں گے، کہ لاھور مـیں گرمـی کتنے غضب کی پڑتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!) مـیں نے فل سپیڈ مـیں پنکھا لگایـا ھوا تھا، اور آنکھیں موندے لیٹا ھوا تھا، کہ اچانک کمرے پر دستک ھوئی۔ مـیں نے آکھیں کھول کر دروازے پر توجّہ دی۔ اسی اثناٴ مـیں دوبارہ دستک ھوئی، تو مجھے معلوم ھوا، کہ دستک باھر والے دروازے پر نہیں، بلکہ اس دروازے پر ھو رھی ھے، جو مالک مکان کے گھر کی طرف کھلتا تھا، اور ھر وقت دونوں طرف سے بند ھی رھتا تھا۔ یہ مـیرے لئے اچھّی خاصی حیرانی کی بات تھی۔ خیر، مـیں اٹھّا، اور دروازہ کھولنا چاھا، تو دروازہ کھل گیـا، کیونکہ دروازے کی دوسری جانب والی کنڈی بھی کھلی ھوئی تھی، اور وھاں مالک مکان کی بیٹی رابعہ کھڑی ھوئی تھی۔ ( رابعہ صرف اس وقت ھمارے دروازے پر دستک دیتی تھی، جب انتہائی مجبوری ھوتی تھی، ورنہ وہ گھر مـیں ھی بند رھنے والی لڑکی تھی۔) مـیں نے حیرانی سے اسے دیکھا، اور اس کے ابّو کا پوچھا۔ اس نے بتایـا، کہ اس کے ابّو ایک کام سے گئے ھیں، اور اس کے دونوں بھائی بھی اس کے باپ کے ساتھ ھی ھیں۔ اس کو استری چاھئے تھی۔ مـیں نے استری اٹھّا کر اس کو دے دی۔ اس نے خاموشی سے استری لی، اور واپس مڑی۔ مگر جاتے جاتے اس نے آنکھوں ھی آنکھوں مـیں مجھے ایک مخصوص انداز سے دیکھا۔ یہ وہ انداز تھا، جو کہ مـیں نے اکثر اس کی آنکھوں مـیں اپنے لئے محسوس کیـا تھا۔ مـیں کوئی دودھ پیتا بچّہ نہیں تھا، کہ اس طرح کے اشارے کا مطلب نہ سمجھتا، مگر مـیں اس محلّے مـیں ابھی رھنا چاھتا تھا، اور پردیس مـیں رھتے ھوئے،ی محلّے مـیں رھنے کے لئے آپ کو اپنا کردار انتہائی مضبوط رکھنا پڑتا ھے۔ خصوصاْ جب آپ بغیر فیملی کے، بطور " چھڑے " ( bechular) رہ رھے ھوں۔ یہی وجہ تھی، کہ مـیں نے ابھی تک محلّے مـیں اپنی طرف اٹھنے والی ھرلڑکی کی نظر کو اگنور کیـا تھا۔ مـیں صرف برے وقت سے بچنا چاھتا تھا، ورنہ تو مـیں بھی جوان مرد تھا، مـیرے اندر بھی مخصوص گرمـی حد درجہ موجود تھی۔ مـیں بھی گندم کا آٹا کھاتا تھا۔ مـیں بھی آج کے ماحول مـیں ھی جی رھا تھا، اور عورت کی شدید طلب مـیرے اندر بھی موجود رھتی تھی۔ مـیرے لن مـیں بھی کھجلی ھوتی رھتی تھی، اور یہ کھجلی اس وقت اور بھی دوچند ھو جایـا کرتی تھی، جب محلّے کی کوئی بھی جوان لڑکی مجھے لفٹ کرواتی تھی۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیری اتنے دن کی احتیـاط کے باوجود، اس دن مـیں نے رابعہ کو پہلی بار ایک جوان مرد کی نظر سے دیکھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">رابعہ ایک سلجھی ھوئی جوان لڑکی تھی، جس کی عمر اندازاْ اٹھارہ سے بیس سال کے درمـیان تک رھی ھو گی۔ اس کا قد مجھ سے دو تین انچ کم ھی ھو گا۔ وہ ایک انتہائی خوب صورت اور تیکھے نقوش والی لڑکی تھی۔اس دن اس نے گلابی رنگ کے پھولوں والا سوٹ پہن رکھّا تھا، جس مـیں وہ کافی پر کشش لگ رھی تھی۔ مـیں نے محلّے مـیں دو تین لڑکوں کو اس کے پیچھے چکّر لگاتے دیکھا تھا۔ لیکن ابھی تک رابعہ کای کے ساتھ کوئی چکّر مـیرے علم مـیں نہیں آ سکا تھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اور آج رابعہ بھی مـیرے اتنے نزدیک پہلی بار آ کر کھڑی ھوئی تھی۔ اس سے پہلے تو مـیں نے اس کو دور دور سے ھی دیکھا تھا۔ اس دیکھنے مـیں اور آج کے دیکھنے مـیں ایک فرق بھی موجود تھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس سے پہلے مـیں نے اس کو اس انداز مـیں دیکھا تھا، کہ اس کے ھونے یـا نہ ھونے سے مجھے کوئے فرق نہیں پڑتا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مگر، آج تو وہ اتنے پاس کھڑی تھی، اور آج تو مـیرے اندر کا تھوڑا بہت پرہیز بھی دم توڑ رھا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی، کہ ھم ایسی جگہ کھڑے تھے، جہاں سےی بھی محلّے والے کی نظر ھم پر نہیں پڑ سکتی تھی، لہٰذا کوئی ھم کو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ حسن آج اتنے خاص انداز سے سجا ھوا مـیرے سامنے موجود تھا، تو اگر مـیں اس پر خصوصی توجّہ نہ دیتا،تو مـیرے حسن پرست ھونے مـیں شک آ جاتا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اور مـیریی بھی قابلیّت پر شک کی گنجائش بھی موجود نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے اس دن پہلی دفعہ اس کی مسکراھٹ کا جواب مثبت انداز مـیں دیـا تھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے چہرے پر آنے والی مسکراھٹ ایک دم سے گہری ھو گئی۔ مـیں نے محسوس کیـا، کہ اس کی مسکراھٹ نے سیدھا مـیرے دل پر اثر کیـا ھے۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ مـیں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر، اسے اندر کھینچ لیـا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">وہ اس کے لئے تیّار نہ تھی۔ مـیرے اس طرح سے کھینچ لینے پر اس کے تو ھوش اڑ گئے۔ اب وہ گریز کا مظاھرہ کر رھی تھی، اور اپنے آپ کو مـیری گرفت سے چھڑانے کی مکمّل کوشش کر رھی تھی، مگر وہ مرد ھی کیـا، جو ایک بار گرفت مـیں آئی ھوئی جوان لڑکی کو ، اور کچھ نہیں تو، کم از کم، بنا ھلکا ساّ اور ٹچ کئے، چھوڑ دے۔ سو مـیں نے بھی اب موقع غنیمت جانا، اور اس کو اپنے ساتھ لٹا لیـا۔ لٹانے سے پہلے مـیں نے ایک ھاتھ پیچھے کو کر کے کمرے کی کنڈی لگا دی تھی۔ باھر والی کنڈی تو پہلے ھی لگی ھوئی تھی۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اب مـیں نے رابعہ کی ایک نہ چلنے دی، اور اس پر ٹوٹ پڑا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں، جو کہ مـیرے منہ مـیں ھی کہیں گم ھو رھی تھیں، وجہ صاف تھی، کہ اس کا منہ مـیرے منہ مـیں تھا۔ مـیں انتہائی شدید ترین انداز مـیں اس کیّنگ کر رھا تھا۔ وہ بیچاری ففٹی ففٹی ھو رھی تھی۔ ایک طرف تو اس کے اندر بھی مـیری طلب موجود تھی، جو کہی نہی طرح سے وہ ظاھر بھی کر رھی تھی، مگر دوسری طرف، وہ اس اچانک کارروائی کے لئے قطعی تیّار نہ تھی۔ اس کے وھم و گمان مـیں بھی نہ ھو گا، کہ صرف ایک ھی مسکراھٹ سے وہ اس طرح سے پھنس جائے گی۔ اس کے سامنے یقیناْ مـیرا ایک امـیج بنا ھوا تھا۔ وہ سمجھتی تھی، کہ آج تکی بھی مسکراھٹ کا جواب نہ دینے والا، اوّل تو ایک نگاہ التفات تک نہیں ڈالے گا، اور اگر ایسا ممکن ھو بھی گیـا، تو بھی وہ آج زیـادہ سے زیـادہ ھنس کر ھاتھ وغیرہ تھامنے تک ھی رھے گا۔ وہ بھی اگر اس کے اندر کوئی گرمـیٴ جذبات نے سر اٹھایـا، تب ، ، ، ، !</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اسے کیـا معلوم تھا، کہ اس کی آج کی ایک ھی مسکراھٹ، اس کو سیدھا مـیرے نیچے پہنچا دے گی۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیرے ھاتھ بہت تیزی سے اس کے جوانی سے بھر پور وجود کی پیمائش کر رھے تھے۔ جب مـیں نے اس کی چھاتی پر ھاتھ رکھّے، تو مـیرے اندر سرور کی ایک خاص قسم کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی چھاتی بے حد نرم و نازک محسوس ھو رھی تھی۔ مـیں نے اس کی قمـیض کو اوپر کرنا چاھا، تو اس نے مزاحمت تیز کر دی۔ مـیں نے محسوس کیـا، کہ مـیری گرفت اس پر ھلکی ھو رھی ھے۔ چنانچہ مـیں نے اس کو قابو کرنے کے لئے اپنا وجود اس پر ڈال دیـا۔ اب وہ مـیرے نیچے دب گئی۔ اس سے وہ بجائے مزاحمت کرنے کے، مـیری طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ مـیں نے ھلکی سرگوشی مـیں اس سے کہا، " اگر تو مـیرے ساتھ تعاون کرو گی، تو مـیرے ساتھ تم بھی مزہ اٹھا سکتی ھو، لیکن اگر مجھے روکو گی، تو بھی مـیں زبردستی سب کچھ کر گزروں گا، مگر اس صورت مـیں تمھیں بے حد اذیّت اٹھانا ھو گی۔ اور یہ تو تم بھی جانتی ھو، کہ اس کمرے مـیں ، مـیں نے تمھیں نہیں بلایـا، بلکہ تم خود چل کر مـیرے کمرے تک آئی ھو۔ مـیں جانتا ھوں، کہ تم ھمـیشہ سے مـیری قربت چاھتی ھو ۔ تمھاری آج کی مسکراھٹ بھی اسی لئے تھی، کہ مـیں تمھارے قریب آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوراب اگر مـیں راضی ھو ھی گیـا ھوں، تو تم کیوں اس طرح کر رھی ھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ "</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیری باتوں کے جواب مـیں اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ شائد اس نے تصوّر مـیں مجھے اپنے ساتھ زبر دستی کرتے ھوئے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیری باتوں نے اس پر اثر ڈالا، اور جواب مـیں اس کی مزاحمت ختم ھو گئی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اب وہ مـیرے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رتھی تھی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کو آمادہ دیکھ کر مـیرے اندر مستی کی تحریک تیز ھو گئی۔ اب مـیں اس کے جسم کی جوانی سے کھل کر کھیل سکتا تھا۔ مـیں نے اس کے کان مـیں سرگوشی کی،&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">" تھینرابی، (اس کے گھر والے اسے مختصراْ رابی کے نام سے ھی پکارتے تھے۔ ویسے اس کا اصل نام رابعہ تھا۔) اب دیکھنا، آج مـیں تم کو کتنا مزہ دیتا ھوں۔ مـیرے ساتھ گزارے گئے یہ لمحات تمہیں ساری عمر یـاد نہ رھیں، تو کہنا۔ "&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیری اس بات سے اس کا چہرہ سرخ ھو گیـا، اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے بعد مـیں اس کے وجود سے ھٹ گیـا، اور اس کے برابر مـیں لیٹ گیـا۔ مـیں جان چکا تھا، کہ ھمارے پاس وقت اتنا زیـادہ نہیں ھے۔ اس لئے مـیں نے سب سے پہلے اس کو دوبارہ سے گرم کرنا شروع کر دیـا۔ مجھے معلوم تھا، کہ اگر مـیں نے ابھی سے اس سے کپڑوں کا مطالبہ کر دیـا، تو وہ فطری شرم و حیـا کے باعث انکار کر سکتی ھے۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں پہلے اس کے جذبات کو مکمّل گرم کر دینا چاھتا تھا، که تا کہ جب کپڑوں کا مطالبہ کروں، تو وہ بلا چون و چرا مان جائے، یـا کم سے کم دیر لگائے۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">رابعہ کے تعاون کا یہ نتیجہ نکلا، کہ مـیرا کام آسان ھو گیـا۔ کیونکہ اب رابعہ بھی مـیرا ساتھ دے رھی تھی۔ مـیں نے اس کیّنگ سٹارٹ کی، تو اس نے بھی جواب دیـا، اور اپنا ھاتھ مـیرے بازو کے اوپر سے مـیری کمر پر ٹکا لیـا۔ اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو رھی تھیں۔ مـیں نے کم و بیش تین چار منٹ تک مسلسل اس کیّنگ کی۔ اس دوران مـیرا ایک ھاتھ اسکی کمر پر حرکت کرتا رھا، جبکہ دوسرا ھاتھ مـیں نے اس کے سر کے نیچے دے رکھّا تھا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">چند منٹ کیّنگ نے رابی کے جذبات کو اچھّی خاصی تحریک دے ڈالی تھی۔ اس کی سانسوں کی آوازیں بتا رھی تھیں، کہ اس وقت وہ اپنے کنٹرول سے آؤٹ ھو چکی ھے۔ اوپر سے مـیرا ھاتھ اس کی کمر سے ھوتا ھوا اب اس کے سینے پر مصروف عمل تھا۔ مـیری ٹانگیں بھی اس کے وجود سے رگڑ کھا رھی تھیں۔ اگر مجھے ٹانگوں کے رستے اس کے جسم کی گرمـی اپنے اندر منتقل ھوتی محسوس ھو رھی تھی، تو یقیناْ مـیرے بدن کی حرارت بھی اس کے اندر لازمـی طور پر اتررھی ھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مـیرا ھتھیـار تو لگاتار رابی کی ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ھو ھو کر، اس کی پھدّی کو دعوت مبارزت ( جنگ مـیں اپنے مدّ مقابل کو مقابلے کے لئے للکارنا۔ جنگ کے لئے دعوت دینا۔ ) دے رھا تھا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اب مـیں نے اس کے سینے کے اندر ھاتھ ڈالا، اور اندر سے اس کی چھاتیوں کو انتہائی نرمـی سے دبانا شروع کیـا ۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">جب مـیرا ھاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ ھوا تھا، تو اس کے منہ سے ایک خاص آواز بر آمد ھوئی تھی، جو اس کی اندرونی کیفیّت کو ظاھر کر رھی تھی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">یقیناْ وہ بھی مـیری حرکتوں سے سرور مـیں ڈوبی جا رھی تھی۔ ورنہ اس کا تنفّس اتنا تیز نہ ھوتا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے کچھ دیر مزید اس کے کپڑوں کو برداشت کرتے ھوئے اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھّی۔ رابی بار بار اپنے سر کو دائیں بائیں حرکت دے رھی تھی۔ مـیری محنت رنگ لا رھی تھی، اور رابی اب اس مرحلے پر آ رھی تھی، جب جلد ھی وہ مـیرے ایک اشارے پر کپڑے بھی اتار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مـیرے ھاتھ مسلسل اپنے کام مـیں مصروف تھے۔ رابی کے ھونٹ سرخ ھو چکے تھے۔ مـیں نے اپنے ھاتھ سے رابی کے ایک ممّے کو نپل سے پکڑ کر ھلکا سامسلا، تو رابی کے منہ سے سسکاری نکل گئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں بھی بس یہی دیکھنا چاھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">جس ھاتھ سے مـیں رابی کے ممّوں کو مسل رھا تھا، اسی ھاتھ کو مـیں اندر سے ھی رابی کی کمر تک لے گیـا۔ اس کام کے لئےمجھے رابی کیّنگ تیز کرنا پڑی تھی، مگر فائدہ یہ ھوا، کہ مـیں بنای اعتراض کا سامنا کیے، رابی کا برا کھولنے مـیں کامـیاب ھو گیـا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">برا کی ھک کھولنے کے بعد، مـیرا ھاتھ رابی کے ممّوں کے لمس سے صحیح معنوں مـیں آشنا ھوا۔ اس کے بدن کا لمس واقعی کمال کا مزہ رکھتا تھا۔ مـیرے اندر کرنٹ دوڑ گیـا۔ مـیں نے اس کے ممّوں کو دبایـا، تو رابی کی آنکھیں کھل گئیں، مگر مـیرے ساتھ بات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔، ، ، اس کے ھونٹوں پر ابھی تک مـیرے ھونٹوں کا قبضہ تھا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں کم و بیش، دو منٹ تک اس کے ممّوں کو دباتا رھا، کبھی مـیں اس کے ممّوں کو نرمـی سے مسلتا، تو کبھی مـیں اس کے نپلز کو پکڑ کر اوپر سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ حتّیٰ کہ مجھے محسوس ھو گیـا، کہ اب رابی کے کپڑے اتروائے جا سکتے ھیں۔ چنانچہ مـیں نے رابی کے کان مـیں سرگوشی کی۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">"رابی ، مـیری ایک بات مانو گی؟" جواب مـیں، رابی نے مجھے دیکھا، تو مجھے اندازہ ھوا، کہ اس کی آنکھیں از حد سرخ ھو چکی تھیں۔ ، ، ، ، تب مجھے معلوم ھوا، کہ رابی بھی اس قبیل سے تعلّق رکھتی تھی، کہ جو لوگ جب بھی سیکے لئے تیّار ھوتے ھیں، تو ان کی آنکھیں سرخ ھو جاتی ھیں۔ (مـیری زندگی مـیں مـیرا ایسی چند ایک ایسی لڑکیوں سے واسطہ پڑا ھے، جن کی آنکھیں سیکے دوران، یـا سیکے شروع مـیں ھی، مکمّل طور پر سرخ ھو جاتی تھیں۔ ، ،یہ سرخی ، آنکھوں کے عام سرخ ھونے سے سے کافی حد تک زیـادہ ھوتی تھی۔ شائد آپ مـیں سے بھیی دوست کے ساتھ ایسا اتّفاق ھوا ھو۔ ) مـیں جان چکا تھا، کہ اب رابی تیّار ھے۔ چنانچہ مـیرے کہنے پر اس نے ذرا سے تردّد کے بعد، اپنے کپڑے اتاردئے۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">ی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر چکا تھا۔ رابی نے اپنی شلوار تو اتار دی تھی، مگر اس نے ابھی تک اپنا انڈر ویئر نہیں اتارا تھا۔ مـیں نے اس کو اپنے ساتھ لٹایـا، اور اپنے ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھ دئے۔ اس نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ مـیں نے اس کیّنگ کرنی چاھی، تو اس نے آگے سے اپنے ھونٹ کھولنے مـیں بھی دیر لگائی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے محسوس کیـا، کہ کپڑے اتارنے کے بعد، ایک دم سے رابی کا موڈ تبدیل ھو گیـا ھے، اور وہ اب مـیرا ساتھ دینے کی بجائے، کافی گھبرائی گھبرائی سی لگ رھی ھے۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">،،،،،،،،،، یقیناْ رابی ٹینشن محسوس کر رھی تھی، مگر مـیں بھی کیـا کرتا، مجھے رابی نے ھی شروع مـیں اکسایـا تھا۔ اب جبکہ مـیں اس حالت تک آ گیـا تھا، تو مـیرے لئے ھر گز ھر گز ممکن نہیں تھا، کہ مـیں رابی کو ایسے ھی جانے دیتا۔ اب تو جب تک مـیرے فوجی کی گرمـی نہ نکل جاتی، وہ چین نہ پاتا، اور اس کا چین، رابی کی دونوں ٹانگوں کے درمـیان مـیں موجود تھا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">، ، ، ، اپنے لن کی گرمـی کا خیـال اس وقت سب خیـالات پر حاوی تھا۔ مـیں نے رابی کیّنگ شروع کر دی، چنانچہ کچھ ھی دیر مـیں رابی پھر سے گرم ھو کر مـیرا ساتھ دینے لگی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اب وہ چدنے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے اس کا انڈر ویئر کھینچ کر نیچے کیـا، اور اتار دیـا۔ اب وہ ٹوٹل برھنہ حالت مـیں مـیرے سامنے موجود تھی۔ اس کے سینے پر موجود ابھار دودھیہ رنگت کے حامل تھے جن پر گلابی رنگ کے نپل موجود تھے۔اس حسینہ کا بدن بالکل بے داغ تھا۔ (مطلب حسین جسم پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ورنہ تو وہ پہلے سے چدی ھوئی تھی ۔ ) اس کی گول مٹول رانوں کا نظّارہ بھی مجھے پاگل کئے دے رھا تھا۔ اس کے پیٹ مـیں بھی وہ کشش موجود تھی، جو ایک لڑکی کے پیٹ مـیں اس وقت تک موجود رھتی ھے، جب تک کہ وہ ماں نہیں بن جاتی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کا پیٹ بے حد کشش رکھتا تھا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے پیٹ کے نیچے وہ مقام موجود تھا، جس کی خاطر اتنی محنت ھوئی تھی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">، ، ، ، اس کی پھدّی ۔ ۔ !&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کی پھدّی بھی بالوں سے صاف تھی۔ شائد اس نے آج یـا کل ھی صفائی کی تھی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر، اس کے بدن پر ھاتھ پھیرتے ھوئے، اس کی ٹانگوں کی طرف آ گیـا۔ ( قارئین کی وضاحت کے لئے عرض کرتا چلوں، کہ یہ سب کارروائی تیس منٹ سے بھی کم وقت مـیں انجام پائی تھی۔ کہانی مـیں ایک ایک بات کی وضاحت کرنی ضروری ھے، که تا کہ آپ سب کو ایسے محسوس ھو، کہ یہ سب آپ کے سامنے ھی ھو رھا ھے، اور آپ سب یہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رھے ھیں۔)</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اب مـیں نے اس کی رانوں پر ایک دو بار ھاتھ پھیرا، یہ اس کے جذبات کو چھیڑنے کے لئے تھا، اور رابی اس پر اچھّی خاصی مچل گئی۔ مـیں مسکرایـا، اور اس کے دیکھنے پر گویـا ھوا۔ " پلیز، گیٹ ریڈی ٹو بی فکڈ، مائی ڈئر سویٹ ھارٹ، Please Get&nbsp;</span><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=" name="AdBriteInlineAd_Ready" style="background-attachment: initial; background-clip: initial; background-image: url(http://files.adbrite.com/mb/images/green-double-underline-006600.gif); background-origin: initial; background-position: 50% 100%; background-repeat: repeat no-repeat; cursor: pointer; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; margin-bottom: -2px; padding-bottom: 2px; text-align: right;" target="_top">Ready</a><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">&nbsp;To Be) Fucked, My Dear Sweet Heart.)&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیری اس بات کے جواب مـیں رابی شرم سے سرخ ھو گئی۔ مـیں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں، اور اپنے دائیں بائیں پھیلا دیں۔ اس کی پھدّی سے اس وقت ایک خاص قسم کادار مادّہ نکل رھا تھا۔ مـیرے لن کے پر بھی چند قطرے پانی جمع ھو کر نکل رھا تھا۔ رابی نے کہا، " پلیز، مـیرے پاس زیـادہ وقت نہیں ھے۔ مـیری ماں جاگ گئی ھو گی۔ ، ، ، مـیں مسکرا دیـا۔ یقیناْ وہ یہ چاھتی تھی، کہ مـیں جلد سے جلد اس کی پھدّی مـیں اپنا لن اتاردوں۔ ، ، ، مـیں نےپوچھا، "اگر تم کنواری ھو، تو تمھیں درد ھو گا۔ برداشت کر لو؟ " ، ، ، جواب مـیں اس نے کہا، کہ وہ برداشت کر لے گی۔ ۔ ۔ (بعد مـیں پتا چلا، کہ وہ تو اس درد کے مرحلے سے چھے ماہ پہلے ھی گزر چکی ھے۔ )</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں، اور اپنے لن کا ٹوپہ اس کی پھدّی پر سیٹ کیـا۔ ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور ایک دھکّا لگایـا۔ مـیرے لن کی ٹوپی اس کی پھدّی مـیں گھس گئی۔ اس کے چہرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ مـیں نے آگے کو ھوتے ھوئے، اس کے ھونٹ اپنے ھونٹوں مـیں لے لئے، نیچے سے مـیں نے اپنی پوزیشن کا خاص خیـال رکھّا تھا، کہ مـیرا لن اس انداز مـیں اس کی پھدّی پر سیٹ رھے، کہ مـیرے ایک ھی دھکّے سے اس کی پھدّی مـیں گھس جائے۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کیّنگ کے دوران ھی، مـیں نے اچانک ایک جاندار دھکّا لگایـا، اور اس کی پھدّی کی گہرایئوں مـیں اپنا لن اتار دیـا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ مـیرے منہ مـیں ھی کہیں دب گئی۔ ، ، ، !&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">(مـیں سوچ رھا تھا، کہ آج کنواری لڑکی کی سیل توڑنے کا موقع ملا ھے، مگر بعد مـیں پتہ چلا تھا، کہ وہ درد اسے اس وجہ سے ھو رھا تھا، کہ اس نے کافی دنوں کے بعد سیکیـا تھا، اور یہ اس کے لئے صرف تیسری بار ھی تھا۔ اس لئے ابھی اس کی پھدّی اتنی رواں نہیں تھی۔ )</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">چند سیکنڈ کے توقّف کے بعد، مـیں نے چپّو چلانا شروع کر دئے۔ (ایک بات کا تو مـیں اندازہ لگا چکا تھا، کہ رابی کنواری نہیں تھی۔ وہ اس سے پہلے بھیی نہی مرد سے چدوا چکی تھی، مگر یہ سوال بعد مـیں بھی ھو سکتے تھے۔ ابھی تو بہت کام باقی تھا۔)</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے اس کے منہ سے اپنا منہ ھٹا لیـا تھا، کیونکہ اب وہ مـیرا لن برداشت کر چکی تھی۔ لہٰذای قسم کی چیخ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ویسے بھی باہر بارش شروع ھو گئی تھی، اور اب اس کےباپ اور اس کے بھائیوں کے آنے کا موھوم سا امکان بھی نہیں رہ گیـا تھا۔( مـیں تو پچھلے آدھے گھنٹے سے بند کمرے مـیں رابی کے ساتھ مصروف تھا، اسی وجہ سے مجھے پتہ ھی نہیں چل سکا تھا، کہ باھر کب بادل آئے، اور بارش بھی برسنے لگ گئی۔ ) مـیں بے فکری سے اس کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس نے بھی اب انجوائے کرنا شروع کر دیـا تھا۔ مـیں چاھتا تھا، کہ وہ مـیرے ستاھ فارغ نہ ھو، بلکہ اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی، کم از کم، پانچ سات منٹ تک مـیں اس کی چدائی کرتا رھوں، که تا کہ بعد مـیں وہ اس چدائی کو ھمـیشہ ھمـیشہ کے لئے یـاد رکھّے۔ اس کی ی آوازیں بھی نکل رھی تھیں، مگر مـیں اس کے منہ پر کبھی کبھی ھاتھ بھی رکھ دیتا تھا، مبادا اس کی آواز باھر چلی جائے، اور کوئی سن لے۔ حالانکہ باھر بارش مـیںی کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">کچھ دیر مـیں نے آھستگی سے جھٹکے لگائے، پھر مـیں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ ساتھ ساتھ مـیں اس کو چھیڑ بھی رھا تھا۔ اس سے وہ جلد ھی فارغ ھو گئی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے اس پوزیشن مـیں پانچ منٹ تک اس کو چودا۔ پھر مـیں نے اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا۔ وہ مان نہیں رھی تھی، تب مـیں نے کہا، اگر وہ مجھ سے جلد جان چھڑانا چاھتی ھے، تو اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل مـیں آنا ھی ھو گا۔ وہ اٹھی، اور جھک گئی۔ اس سے اس کی پھدّی بالکل واضح ھو گئی۔ یہ مـیرے لئے بے حد دلفریب نظّارہ تھا۔ اس کی گیلی پھدّی، گول مٹول رانیں۔ (لمبی، گوری اور گول مٹول رانیں ھمـیشہ سے مـیری کمزوری رھی ھیں۔) مـیں نے اس کے پیچھے سے آ کر اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیـا، اور ایک ھی جھٹکے سے اپنا لن اس کی پھدّی مـیں ڈال دیـا۔ مـیں نے اس کی کمر سے اس کو پکڑ لیـا تھا، ورنہ وہ لازمـی طور پر آگے کو گر جاتی۔&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس انداز مـیں ، کم از کم پانچ منٹ مزید مـیں نے اس کی جم کر چدائی کی۔ اب مـیں نے سوچا، کہ بس کر دینی چھاھئے۔ ، ، چنانچہ مـیں نے اس کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر شروع ھو گیـا۔ دو منٹ کے جاندار سٹروسے مـیں اس کی پھدّی مـیں ھی فارغ ھو گیـا۔ اس نے کوشش کی تھی، کہ مـیں اپنا پانی باھر نکالوں، مگر مـیں نے اس کو ھلنے بھی نہیں دیـا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">( وہ کیـا ھے ناں، کہ جب تک مـیں اپنا پانی عورت کی پھدّی مـیں نہ نکالوں، مجھے سیکا مزہ ھی نہیں آتا۔) ا</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے بعد مـیں نے واش روم کا رخ کیـا۔ کپڑے وغیرہ پہن کر مـیں فارغ ھوا، تو وہ بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ مجھ سے نظریں ھی نہیں ملا سکی تھی۔ آخر اس نے مجھ سے گلہ کیـا، کہ مـیں نے پانی نکالتے وقت کوئی بھی احتیـاط نہیں کی۔ اس پر مـیں نے اس کو ایک خاص قسم کی ورزش کروائی۔ تکلیف کے باوجود اس نے وہ ورزش کی، کیونکہ وہ ماں بننے کی بدنامـی سے بچنا چاھتی تھی۔اس کے بعد مـیں نے اس کو مزید تسلّی دیتے ھوئے کہا، کہ آج شام کو مـیں اس کو ایک خاص چیز لا دوں گا۔ اس کے استعمال سے وہ حاملہ ھونے سے محفوظ رھے گی۔ اس کے بعد مـیں نے اس سے سوال کیـا، کہ کیـا اس نے مزہ محسوس کیـا، یـا کہ وہ ناراض ھے؟ ، جواب مـیں وہ مسکرائی، اور مـیرے سینے پر ایک مکّا مارتے ھوئے مـیرے ساتھ لگ گئی۔ مـیں بھی خوشی سے جھوم اٹھّا۔ یقیناْ مـیری مردانہ کارکردگی حوصلہ افزاء تھی۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">اس کے بعد, مـیرے گال پر ایک کرتے ھوئے وہ جانے لگی، تو مـیں نے اس کو پکڑ کر پوچھا۔ " ایک بات تو بتاؤ، تم کنواری نہیں ھو۔ سچّ سچّ بتانا۔ کے ساتھ کیـا ھے؟ "&nbsp;</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیری اس بات پر اس نے شرماتے ھوئے بتایـا، کہ پہلی اور دوسری دفعہ اس نے اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ اسی کمرے مـیں کیـا تھا، جب اسی طرح اس کا باپی کام سے باھر گیـا ھوا تھا، اور اس کی والدہ سوئی ھوئی تھی۔ یہ آج سے چھے ماہ پہلے کی بات ھے۔ اس کے بعد اس کا کزن دوبئی چلا گیـا۔</span><br style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;" /><span style="font-family: 'jameel noori nastaleeq'; text-align: right;">مـیں نے اس سے کہا، کہ آج کے کام مـیں جلد بازی موجود تھی۔ آئندہ اگر وہ موقع دے، تو مـیں اس کو اس سے بھی زیـادہ مزہ دے سکتا ھوں۔ مـیری بات کے جواب مـیں اس نے مصنوعی ناراضگی سے مجھے دیکھا، اور مکّا لہراتی ھوئی چلی گئی۔</span></span>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-3269202478052248162012-04-12T04:58:00.002-07:002012-06-23T05:03:05.572-07:00

Contect Us

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-WEQGleWO94Q/T4bDZKIOWyI/AAAAAAAAAKY/Af_0C0dR7As/s1600/aaa.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="130" src="http://1.bp.blogspot.com/-WEQGleWO94Q/T4bDZKIOWyI/AAAAAAAAAKY/Af_0C0dR7As/s320/aaa.gif" width="320" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-27379346540748861902012-03-29T01:42:00.000-07:002012-04-03T05:29:14.186-07:00

Ghazala

<b><span style="background-color: #cccccc; font-size: x-large;"><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">یں شمـیم بہار کا رہنے والا ہوں ۔ مـیری عمر 35 سال ہے اور مـیں شادی شدہ ہوں مـیری بیوی سروت اک خوب صورت چوت کی مالک ہے اپنے مستانی چوت پر اسے بہت ناز ہے ۔</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">سہاگ کی وہ نا دان اور خوب صورت حسینہ آج اک مست رنڈی ہے جوانی کی اس پہلی یـادگار رات کو جب مـیں اپنی اس مست جوانی کی شلوار اتاری تو جانھٹوں سے صاف چوت</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیں سے مستا نی مہک آری تھی۔</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">ہم دونوںاکثردن مـیں مست چودای کا حسین کھیل کھلتے ہیں ٹی وی پربیلوفلم چل رہی ہوتی ہے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اور دیکتھے ہی دیکتھے ہم دونوں اک دوسرے کی چوت اور مـیں کھوجاتے وہ اکثرمدہوشی مـیں اتراتی ہے سالے حرامـی مادر چوت 70 سال کا بڈھا بھی مـیری چوت درشن کر لے تو اس کا بھی لنڈ رال ٹپکا دے ہم دونوں تو نہیں پیتے لیکن جوان مہکتے جسم سے نکلتے ضرورپیتے ہیں&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیری بیوی اور مـیں اپنے اپنے پیشاب کو گلاس مـیں نکال کر اس کی چسکی کے سات&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مست چودای کا مزا لتے اس مست جوانی کا انداز بھی اتنا مست ہوتا ہے کہ وہ چو ت کےس ات سات وہ گانڈ بھی مرو اتی تھی اصل مـیں یہ کہانی مـیری بہن کی ہے</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیری اک پیـاری سی چھوٹی بہن غزالہ ہے غزالہ مجھہ سے دو سال چھوٹی ہے ہم دونوں اک دوسرے کو بہت پیـار کرتے ہے وہ کافی چنچل ہے اور حسین بھی مـیڑک تک آتے آتے ہم دونوں بھایی بہن نے جوانی کی دیلیز پر قدم رکھہ غزالہ کی نھنی نھنی چچیـاں نکل آیی تھی اور مـیرے لنڈ کے اس پاس ہلکے ہلکے بال نکلنے تھے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اکثررات مـیں اماں کو ابا سے اپنی چوت مرواتے دیکھا تھا پتا نہی تھا کہ یہسا کھیل ہے دونوں ننگے ہوتے اماں ابا کا لنڈ چوستی اور ابا اماں کی چوت اور پھر اماں کے حسین ننگے جسم کو پکڑ کر ابا اپنا موصل جیسا لنڈ اماں کی چوت مـیں پیل دیتے اک دبی سی چیخ سنایی دیتی ہاے بیٹی چوت مار ڈالا مـیری نازک چوت پھٹ جاےگی لیکن ابا اک بھوکے جانور کی طرح اماں کی مست چوت کا مزا لتے اماں کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑ ہوتی اور ابا مستی مـیں اماں کی مست چوت مـیں اور دکھے مارتے مارتے ٹنھڈے ہوجاتے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیڑک پاس کرکے مجھے آگے پڑھنے کےلیے شھر جانا پڑا اس بیچ مـیں چھٹیـاں مـیں گھرآتا غزالہ کی جوانی مـیں دن بہ دن نھیکر که تا جارہا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ کی جوانی مدمست ہوگیی گورے جسم رسیلے ہونٹ سڈول چھاتیـاں جیسا کہ حیس گڑیـا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیں بھی پورا جوان ہو چکا تھا گھر مـیں چنچل مدہوش حسن کو دیھک کر مـیرے لنڈ مـیںمسھاٹ ہونے لگتی کثر کام کے دوران اس کی چھاتیـاں پر نظر پڑتی دل مـیں خیـال آتا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">کیوںنا اس جوانی کا مزا لوٹو اور اپنی گڑیـا کو بھی لنڈ کا مزا چھکاوں آخر مـیرے ساے مـیں&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اس کی مدہوش جوانی پروان چڑی ہے اس طرح اسکی حسین چوت پر مـیرا بھی حق بنتا اخر کوی نہ کوی مرد اس کی چوتکو چودے گا پھر کیوںنا مـیں ہی اس کی مستانی جوانی کا مزا لو</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">گرمـیوں کے دن تھے مـیں اپنے کمرے مـیں ‎غزالہ کے مدہموش حسن کے خیـال مـیں ڈوبا اپنے لنڈ کو آ ھستہ آ ھستہ سہلارہا تھا کہ یکا یک کمرے کا دروازہ کھلا جلدی سے مـیں نے اپنا کھڑا لنڈ لنگی کے اندر ڈال لیـا سامنے ‎‌غزالہ چاے لےکر کھڑی تھی ۔تھوڑا جھجکی&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اور چاے ٹیبل پر رکھہ کر چلیشاید لنگ کے اندر کھڑے لنڈ پر اس کی نظر نہیں پڑی&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">تھی خیـال آیـا کیوں نہ دوسرے دن بھی ایسا کیـا جاے اگر اس مست جوانی نے تھوڑا بھی ریسپانس دیـا تو بات بن جاےگی دوسرے دن ذیـادہ ہمت کی اور مـیں نے اپنی لنگی اتار کر الگ کردی اور لنڈ کو اپنے ہاتھوںلیکر سہلانے لگا اور جب وہ چاے لیکر کمرے مـیں آیی تو مـیں نے جلدی ناھی کی بگل مـیں پڑیی لنگی سے اپنے ننگے بدن کو ڈھک لیـا لیکنلنڈ کھلا ہی رہا اک بار غزالہ ٹھٹکی اک نطر مـیری طرف دیکھاپھرترچھی نطر سے کھڑے لنڈ کو دیکھا اور چپ چاپ ٹیبل پر چاے رھکہ کر واپس چلی گی&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مجھے لگا کی اس کی مست جوانی مـیں ہلکی سی ہلچل تو ضرور ہویے نہی تو وہ شرماکے الٹے پیروں کمرے سے نکل جاتی اور پھراسے چودنے کی چاہت مـیںمـیرا بدن مـیں آگ لگا دی اواواواواواو مـیری پیـاری گڑیـا غزالہ اور مـیں جھڑ گیـا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اتوار کا دن تھا اماں اورابا شادی مـیں گيے ہوے تھے اور دوسرے دن لوٹنے کا پروگرام&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">تھا بھیـا مـیںنے کھانا لگاری ہو آپ ڈاینیگ روم مـیں آجاو حنا ( نوکرانی) کہا ں ہے مـیں نے پوچھا وہ پڑوس مـیں گیی ہے غزالہ نے کہا مـیں نے موقع غنیمت سمجا ۔ اپنی پیـاری بہن کے کورے بدن کا مزا لوٹنے کا اس سے اچھا موقع اور کہا ں ہوسکتا ۔</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ تم نے کہانا کھا لیـا ۔ ہا ں بھایی جان&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیری کھانے کی بھوک ختم ہوچکی تھی اور غزالہ کی جوانی کی بھوک سے لوڑے مـیں تناو آنے لگا تھا مـیں چپکے سے کیچن گیـا اور پیچھے سے غزالہ کو دبوچ لیـا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بھایی جان یہ کیـا کررہں مـیںری غزالہ بس تھوڑا سا مـیںنے اسے دبوچتے ہوے کہا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بھایی جان مـیں آپکی اپنی چھوٹی بہن ہوں&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بہن ہو تو کیـا ہوا اک مست جوانی بھی تو ہو یہ رسیلے ہونٹییی چھاتیـاں۔اوریہ مستانی چوت اور مـیںنے شلوار کے اوپر سے چوت پر ہاتھہ رکھہ دیـا ۔</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ مـیں تیرے پیـارے بھایی سے پہلے اک جوان مرد ہوں اور تیری اس حیسن جوان جسم پر مـیرا بھی حق ہے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">حرام ذادے مجھے چھوڑدے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ چلایی تو بڑا کمـینہ</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اور بھایی تو اپنی بہنوں کی عزت بچاتے ہیں۔اورتو ہی اپنی ہی بہن کی عزت پر ہا تھہ ڈال رہا ہے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">سالی رنڈی چپ تیرے جیسی مصوم کچی کلی پرہر رشتہ قربان ہے اور جوان لنڈ تو صرف چوت پہچانتا ہے ۔</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">ماں بھابی بہن کے رشتےکے کیـا مطلب اسکےلیے معنہ نہں رکھتے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">کتے اچانک غصے مـیں اسنے مـیرے منہ پر تھوک دیـا اورمجھے تھپڑمارنے لگی غزالہ مـیری بانہوںمـیں بری طرح جھٹپٹا ری تھی لیکن مـیری گرفت سے نکلنا آساں نہں تھا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیںحالت کو قابومـیں کرنے کے لیے اسکے دونوں ہاتھہ کو جکڑکر گود مـیں اٹھا کر اماں کے کمرے مـیں بیڈ پر پٹک دیـا یہ وہی بیڈ تھا جس پر مـیں نے اپنی اماں کو کیی بار چود واتے&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">دیھکا تھا اور آج مـیں اپنی بہن کی عزت اسی پر لوٹنے جارہا تھا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ کا جھٹپٹانا جاری تھا اک ہاتھہ سے مـیں اسکے رونوں ہاتھہ پکڑہوے تھا اور دوسرے ہاتھہ سے اسکی قمـیص پھاڑنے لگا جسےجسے اس کے کپڑے پھٹتے گیے اسکا حسین گورا بدن دیھکہ کر مـیری چودایی کی پیـاس اور بھی تیزہوگی اور اب شلوار کی باری تھی شلوار پھٹتے ہی غزالہ کی ننگی مست</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">چوت مـیرے سامنے تھی اک ہاتھہ اسکے چوت پرلگایـا اور تیزی سے رگڑنے لگا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بھیـامجھے چھوڑدے مـیری عزت مت برباد کرو غزالہ پھر چلای۔</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">لیکن مـیں کہاں مانے والا اس کو جکڑے ہوے مـیںنے پاجامہ کھولا اور موصل سا لنڈ باہرتھا مجھہ پر رحم کر بھیـا مـیں تھمارے ہاتھہ جوڑتی ہوں غزالہ سیسکنے لگی</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">چپ بھوسڑی والی آج مـیں تیری چوت کامزالےکر رہیوں گا کویی مادر چوت تیری مدہوش جوانی کا مزالوٹ نہی سکا وہ نامرد ہے اور مـیںنے اسے دوچار تھپڑ لگا دیں تھپڑکچھہ زور سے لگ گے جسکی وجہ سے اس کے منھہ سے خون نکلنے لگا مجھے اسکی پروا نہی تھی غزالہ نے مـیرےتیوردیھکہ کرجھٹپٹانا کم کر دیـا اور سسکنے لگی حرمزادی روتی کیوں ہے چپ چاپ چودنے دے تجھے بھی مزا آے گا مـیںنے کہا مـیں نے ہوشیـار یی سے اپنےہونٹ اسکی چوت پر رکھہ دیے اور اسکی چوت چا نٹے تھوڑی دیر بعد غزالہ نے رونا بند کردیـاشاید چوت چانٹے مـیں مزا آنے لگا مـیں سھمج گیـا کے غزالہ پر بھی جوانی کا نشہ چڑھ رہا ہےمـیںاپنےہونٹ اس کی چھاتیـاں پر گاڑدیـا اوراپنے لنڈ کا سپراچوت کے ہونٹ پرٹکا دیـا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بھیـامـیری عزت مت لوٹوں مـیں برباد ہو جاوغزالہ چلای یمـیں نے دیکھا کے غزالہ آسانی سے چوت ناہی دےزبردستی چودناہوگا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">اسے دبوچے ہوے مـیں تیزی سے لنڈ گھیسڑ دیـا پہلے تو نرڈ چوت کے ہونٹوں کو چیرتا ہوا گھستا گیـا پھر چوت کی سیل نے اس کا راستہ روک لیـا غزالہ درد سے چیحنح لگی لکین مـیں کہاں صبر کرنے والاتھا اپنے ہاتھہ اس کے منہ پہ رکھہ کر پورے جسم کا زورلنڈ پر دیےدیـا لنڈ اک جھٹکے سے چوت کی جھلی پھاڑتا ہوا اندر چلا گیـا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">ہ ہ ہ ہ ہ ہاہاہا ای ای ای ایآآآآآآآآآ غزالہ چیخ آٹھی کوری چوت پھٹ چکی تھی</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">نکال کمـینہ بہت درد ہورہے نہیں تو مـیری جان نکل جاے گی000000 ااااااااماںمجھے اس حرامـی سے بچالے غزالہ سسکنے لگی اوی</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">پہلی بارچوادیی مـیں تو درد ہوتا ہے اور پھر کویی تو تیری چوت پھاڑتا ہی غزالہ خاموش رہی شاید سمجھہ تھی کہ وہ لوٹ چکی ہے تھوڑی دیر پہلے کی کلی پھول بن آگی ہے</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بھیـاتھوڑی دیر روک جاوں درد ہو رہا</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ سسکنے لگی اوہی اویی ااااا آآآآآآ اب مزا آرا ہے توڑا زور سے کرو&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ کی چوت زورزور سے جھٹکے مارنا شروع کردیے غزالہ بھی چوت اٹھا کر مـیرا ساتھہ دینے لگی بھاییـاور زور سے چود بڑا مزا ارا ہے آ ا ا ا اآواواواوا اویـاویـاوایـاومـیں جنت مـیں پہچہوں اااااااا بھیییییـاااااااااااااااااااااچودمجھے چود اور زور سے خود غزالہ دیوانی ہوری تھی&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">غزالہ مـیری رانی اب مـیں جھڑرہا ہوں ہاہاہاہ مـیرالنڈ اندر ہی جھڑ گیـا مـیری جان&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">بھیـا مـیں بھی اب جھڑی ہاے مـیری چوت اور ہم دونوںجڑ گیےتھوڑی دیر تک یونہی مـیں غزالہ کی چھا تیـاں منہ مـیں دباے پڑا رہا اب چھوڑ بھی اپنی بہن کو سالے سب رس پی جاے گا یـا بعد کلیےبھی کچھہ چوڑے گا مـیری گڑیـا اک چودای مـیں بہن چود نبا دیـا&nbsp;</span><br style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;" /><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;">مـیں نے جسے ہی دروازہ کی طرف نظر اٹھی حنا کھڑی مسکرای رہی تھی وہ مسکراتے ہوے ہمارے پاس آیی اور غزالہ کو پیـار کرکے بولی آج تم بہن بھایی نے یہ ثابت کردیـا کے دو جوان جسم کا اک ہی رشتہ ہوتا ہے چوت اور لنڈ کا&nbsp;</span></span></b>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-62990982624142396122012-03-29T01:35:00.002-07:002012-03-29T01:38:56.321-07:00

My Teacher Shahida

<span style="font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: 13px;"><span style="font-size: large;"><span style="color: #666666;"><span style="background-color: orange;"><b>&nbsp;دوستو مـیری ایک اور کوشش آپ سب سے درخوست ہے کہ غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں، یہ کہانی اسی دن شرو ع ہو گئی تھی جب مـیں نے اپنے کالج کی کیمسٹری لیب مـیں پہلا قدم رکھا تھا ، مـیرا سامنا شاہدہ سے ہوا جو لیب اسسٹنٹ تھی اور اس نے مـیری لیب مـیں داخلے کا پرچہ تیـار کیـا تھا، شاہدہ مجھے پہلی نظر مـیں اس لیے بھا گئی کیونکے وہ ایک چھوٹے قد کی مگر بھر پور جسم کی مالک تھی بڑے اور بھاری ممے اور اس کے ساتھ پتلی کمر اور خوبصورت ترشے ہوے چو تڑجب وہ چلتی تو دونوں کی حرکت سے پورے جسم مـیں ایک بجلی سی دوڑ جاتی تھی، بہرحال مـیرا اسے پسند کرنے کا ایک مقصد اس کا کم وژن ہونا بھی تھا یہ آپ کو آگے چل کر سمجھ مـیں آ جایے گا شروع کے دنوں مـیں شاہدہ نے مـیری نظروں کو نظر انداز کیـا مگر مـیری مسلسل نظروں کی گستاخیوں کو زیـادہ دیر نظر انداز نہیں کر سکی شاید اس سے پہلےی لڑکے نے اس کو اتنا که تا ڑا بھی نہیں ہوگا، آہستہ آہستہ کچھ دنوں مـیں اس نے بھی پگھلنا شرو ع کر دیـا اور مـیرا لیب مـیں استقبال بڑی مـیٹھی مسکراہٹ سے کرنا شرو ع کر دیـا اور اس کا رویہ مـیرے ساتھ بے تکلفانہ ہو گیـا تھا، ہماری اس دوستی کی وجہ سے شاہدہ نے مجھ کو کافی مدد بھی کی پڑھائی مـیں اور مـیری کیمسٹری بھی اچھی ہو گئی، پڑھائی کے دوران جب وہ پرکٹیکل کرواتی تھی مـیں اس کے چو تڈوں کو دباتا رہتا تھا یر پھر سہلاتا رہتا تھا ، مـیری اس حرکت کا اس نے کبھی بھی برا نہیں منایـا ، ایک دن مـیں نے اسے کہا کے کہ مـیرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ اس کے ہونٹوں اور مموں کو خوب زور سے چوسوں مـیری بات سن کر شاہدہ نے کہا کے دو بجے کے بعد مـیں لیب مـیں آ جاؤ کیونکے دو بجے کے بعد لیب بند ہو جاتی ہے اوری کو پتا بھی نہیں چلے گا کیونکے پھر وہ لیب اندر سے بند کر کے اپنا کام مکمل کرتی ہے، جب مـیں لیب سے باھر جا رہا تھا تو پیچھے سے شاہدہ نے کہا کہ بجا ے دو کے بعد ، دو سے تھوڑا پہلے آجانا ، مـیں نے پوچھا اس کی وجہ ، تو وہ کہنے لگی کہ اس وقت تین چار لڑکے ہوں گے ان کے سامننے تم آ کر درخواست کرنا کہ تمہارا پرکٹیکل خراب ہو گیـا ہے اور تمھیں دوبارہ کرنے کی اجازت دی جایے مـیں مـیں سب کے سامنے منا کر دوں گی، تم سب کے سامنے خوب گڑگڑا کر پھر درخواست کرنا ظاہر ہے پھر دوسرے بھی تمہاری خاطر مجھ سے درخوست کریں گے تو مـیں تمھیں اجزت دے دوںاور پھر کام آسان ہو جایے گا ، یہ سن کر مـیں کلاسس سے باھر نکل گیـا مگر مجھے شاہدہ کی شہوت بھاری مسکراہٹ سکوں نہیں لینے دے رہی تھی بار بار مـیرا لنڈ کھڑا ہو جاتا تھا پینٹ مـیری بہت ٹائٹ تھی اس وجہ سے لنڈ کا ابھار بڑا وضا ے طور پر نظر آ رہا تھا ، مـیں نے اس وجہ سے اپنی قمـیض باھر نکال لی تھی، کلاسس مـیں بلکل دل نہیں لگ رہا تھا بار بار شاہدہ کا خیـال تنگ کر رہا تھا اس کے شہد سے بھرے ممے اور رسیلے ہونٹ بری طر ح سے تڈ پا رہے تھے مـیرا وقت بلکل بھی نہیں گزر رہا تھا خیر جیسے تیسے دو بجنے مـیں پانچ منٹ پر مـیں لیب مـیں تھا شاہدہ اس وقت چار لڑکوں کو پرکٹیکل مکمل کروا رہی تھی مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ آپ تو اپنی کلاسس ختم کر چکے ہیں، مـیں نے اس سے کہا کہ مـیرا پرکٹیکل غلط ہو گیـا ہے اور مـیں آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے ایک موقع اور دے دیں کیونکے آج آخری دن تھا اور اب امتحان ہوگا یہ سب کر شاہدہ بولی کے اب تو وقت ختم ہو گیـا ہے اور لیب بند ہو چکی ہے اور مجھے اپنا کام مکمل کرنا ہے اگر مـیں آپ کو وقت دوںتو مجھے بہت دیر ہو جایےمـیں آپ سے معافی مانگتی ہوں یہ سن کر مـیں نے بڑی رقت کے ساتھ گڑگڑا کے دوبارہ درخواست دوہرائی مـیری یہ حالت دیکھ کر دوسرے لڑکے بھی مـیرے حق مـیں بولنے لگے یہ سن کر شاہدہ نے ان لڑکوں سے کہا کے مـیں آپ لوگوں کی وجہ سے انہیں یہ موقع دے رہی ہوں، اور مجھے کہا کے آپ بیٹھ جایئں مـیں ان لوگوں کو فارغ کر کے پھر آپ کو دیکھتی ہوں مگر ان لوگوں کے جانے کے بعد مجھے دروازہ اندر سے بند کرنا ہوگا کیونکے اگر پھر مزید کوئی آ گیـا تو مـیرے لیے مشکل ہو جایے گی، مـیں شاہدہ کا ان سن کے سامنے بہت بہت شکریہ ادا کیـا اور سامنے کرسی پر بیٹھ کر اسے کام مکمل کرتے ہوے دیکھنے لگا شاہدہ نے دس منٹ لگایے ان سب کوفارغ کرنے مـیں اس دوران مـیں اس کے جسم کے حسین نشیب و فراز مـیں کھویـا رہا اس دن اس نے گلابی قمـیض اور سفید شلوار پنہی ہوئی تھی ریشمـی شلوار قمـیض مـیں اس کا جسم اور بھی خوبصورت لگ رہا تھا، یہ کہنا بلکل بیکار ہے کہ مـیرا لنڈ اس وقت کتنی بری طر ح سے اکڑا ہوا تھا بلاخر شاہدہ نے سب کے جانے کے بعد اندر سے دروازے کو کنڈی لگا دی اور دروازے پر ہی کھڑے ہو کر مـیری طرف اپنے بازو کھول دیے مجھ سے انتظار بلکل نہیں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر مـیں دوڑ کر شاہدہ کے پاس پوھنچا ائر اس سے سختی سے چمٹ گیـا مـیں نے جھک کر اپنے سینے سے شاہدہ کی چھاتیوں کو دبوچ لیـا اور اپنے ہونٹوں سے شاہدہ کے ہونٹوں کی بڑی سختی کے ساتھ چسپاں کر دیـا شاہدہ نے اپنی زبان مـیرے منہ مـیں دل دی جسے مـیں نے مزے لے لے کر چوسنا اور چاٹنا شرو کر دیـا اب کبھی مـیں شاہدہ کی زبان چوستا تھا اور کبھی وہ مـیری اسی طر ح ہم دونوں ایک دوسرے کو چومتے اور چاٹتے جا رہے تھے جتنا مزہ مجھے آ رہا تھا اتنا ہی مزہ شاہدہ کو بھی آ رہا تھا مـیں نے اس کی نرم ملایم چھاتیوں کو سختی سے اپنے سینے مـیں جکڑا ہوا تھا مگر شاہدہ اس سے زیـادہ زور لگا کر مـیرے سینے کو اپنی چھاتیوں مـیں دبا رہی تھی شاہدہ کو کو مـیں اس اپنے بازوں مـیں جکڑ کر اٹھایـا ہوا تھا اور وہ اتنی ہکلی پھلکی تھی کے مجھے ذرا بھی محسوس نہیں ہوا اس دوران مجھے اچانک ایسا لگا کہ مـیرا لنڈ کہیں جکڑا لیـا گیـا ہے جس کی وجہ سے مجھے اور بھی لزت ملنی شرو ہو گیی ہم دونوں ایک دوسرے مـیں گم ایک دوسرے کے مزے لوٹ رہے تھے جتنا مـیں پیـاسا تھا اس سے کہیں زیـادہ وہ تڑپی ہوئی تھی ، مـیں نے شاہدہ کی قمـیض اتارنی چاہی تو اس نے اپنے دونوں بازو اپر کر دیے مـیں شاہدہ کو نیچے اتر کر اس کی قمـیض اتاری اور ساتھ مـیں برازئیر بھی اتر دی جی کی وجہ سے اس کی گول سرخ و سفید ممے کھل کر مـیرے سامنے آ گیے مـیں شاہدہ کے نیپل پر منہ لگانا ہی چاہتا تھا کہ اس نے مجھہے اپنی قمـیض اور پینٹ اتارنے کو کہا یہ سن کر مـیں نے فورن اپنی پینٹ اور قمـیض اتار دی ساتھ ہی مـیں نے نے اس کی سفید شلوار بھی نیچے کھینچ کر اتار دی اب ہم دونوں ایک دوسرے کے سامنے بلکل ننگے کھڑے ہوے تھے اور ایک دوسرے کو پیـاسی اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے شاہدہ کی نظریں مـیرے لنڈ پے ٹکی ہویں تھیں مـیں شاہدہ سے کہا کے مـیں پہلے تمہارے ممے چوس لوں تھوڑی دیر تو وہ مسکرانے لگی اس کے ساتھ ہی مـیں نے اپنےہونٹ اور زبان سے دونوں ممے چاٹنے اور چوسنے شرو کر دیے جیسے جیسے مـیں شاہدہ کے ممے چوستا اور چاٹتا جا رہا تھا ویسے ہی ویسے وہ مستی مـیں بخود ہوتی جا رہی تھی اسے مـیرا اس کے ممے چوسنا اور چاٹنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا، مجھے بھی بہت مزہ آ رہا تھا ساتھ ساتھ مـیں شاہدہ کے چوتروں کو اپنی مٹھیوں مـیں لے کر مسلتا جا رہا تھا شاہدہ پوری طر ح سے مست ہو چکی تھی اور مـیرا جو بھی دل چاہ رہا تھا وہ مـیں کرنے کے لیـا آزاد تھا ممے چوسنے کے بعد مـیں اپنے منہ کو اس کے پیٹ پر لیـا اور اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا مـیرے ایسا کرنے سے اس کے جسم کو ایک جھٹکا سا لگا مگر مـیں نے سختی سے اسے اس کے چوتروں سے پکڑا ہوا تھا، شاہدہ کی مستی سے بھاری ہی آوازیں لیب مـیں گونج رہیں تھیں پھر مـیں نے شاہدہ کی ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی ایسا کرنے سے اس کی بالوں سے بھاری ہوئی چھوٹ مـیرے سامنے آ گیی مـیں نے اس کی چو ت پر جیسے ہی اپنی زبان لگی تو شاہدہ باختیـار سسک اٹھی اور اس کے منہ سے نکلا ہاے مـیں مر گئی ظالم کیـا کر رہے ہو مـیں نے اس پوچھا کیسا لگ رہا ہے تو وہ اور تڑپ گئی اور کہنے لگی تم بہت ظالم ہو مجھے اتنا ستا اور تڑپا رہے ہو مـیں پوچھا وہ کیسے تو وہ کہنے لگی تم تو مـیری چو ت چوسنے مـیں لگ جاؤ گے اور مـیری پیـاس اور بڑھ جایےمـیں کہا تم پریشن نہ ہو مـیرے پاس اس کا بھی علاج ہے بس تم دیکھتی جاؤ پھر مـیں نے شاہدہ کو اپنے بازوں مـیں اٹھا لیـا اور اس کے ہونٹوں پر دوبارہ اپنے ہونٹ جما دیے شاہدہ نے اپنے دونوں بازو مـیری گردن مـیں حمائل کر دیے اور اپنے آپ کو تھودا اور اوپر اٹھا لیـا اور اپنی دونوں ٹانگیں مـیری کمر کے گرد لیں شاہدہ کے ایسا کرنے کے بعد مجھے ایسا لگا کے مـیرا لنڈی بہت ہی نرم گرم اور چکنی جگہ پر رگڑ تھا رہا ہے مـیں نے اپنے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اندازے سے پھر اسی چکنی جگہ پر رگڑا جس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیـا کے یہ شاہدہ کی چو ت ہے جو بری طر ح سے چکنی ہو رہی تھی نیرہ فولادی لوڑا جو بلکل سیدھا اکڑ کر شاہدہ کی چو ت پر اٹکا ہوا تھا اور صرف ایک دھکے کا انتظار کر رہا چو ے مـیں گھسنے کے لیے مـیں نے شاہدہ کی آنکھوں مـیں دیکھتے ہوے اپنے لوڑے کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیـا مـیرا یہ جھٹکا لگنا ہی تھا کے شاہدہ کی ٹانگوں کی گریپ مـیری کمر پر اور سخت ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی اس نے مـیرے ہونٹوں کو اور زور سے دبوچ لیـا شاہدہ کے ایسا کرنے سے مجھے صاف اشارہ مل گیـا اس کی رضامندی کا اب مـیں نے اپنے لنڈ کی پھولی ہوئی ٹوپی کو زور سے اندر گھسانا شرو کر دیـا مـیرے اس زور دے دھکے نے مـیرے لوڑے کو کافی اندر داخل کر دیـا مـیں شاہدہ کو دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر ایک سکوں سا آتا جا رہا تھا اس نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئیں تھیں اور سختی سے مجھ سے چمٹی ہوئی تھی، مـیں بھی مزے لیتے ہوے شاہدہ کے دونوں چوتروں کو اپنی مٹھیوں مـیں دبوچے ہوے آھستہ آھستہ اپنے لنڈ کو اس کی چو ت مـیں گھسیڑ رہا تھا شاہدہ کی چو ت بہت ٹائٹ تھی مگر مـیرے لنڈ کی سختی کے اگے اس نے بھی ہار ماننی شرو کر دی اور پھر چند لمحوں مـیں مـیرے ایک زور دار جھٹکے نے مـیرے لنڈ کو شاہدہ کی چو ت کی گہرایوں مـیں پوھنچا دیـا، مـیرے پورے لنڈ کے گھستے ہی شاہدہ کی چیخ نکل گئی جس کے لیے مـیں پہلے ہی سے تیـار تھا جیسے ہی اس کی چیخ نکلی ہاے مـیری ما ں مـیں مر گئی مـیں نے پھر اس ہونٹوں کواپنے ہونٹوں مـیں دبوچ لیـا اور آہستہ آہستہ نیچے سے اپنے لنڈ کو اندر باھر کرنے لگا مـیری اتنے پیـار سے جھٹکے لگانے سے شاہدہ کو بھی لطف آنے لگا اور اس نے بھی اپر سے نیچے ہلنا شرو کر دیـا مـیں پہلے اپنے لنڈ کو نیچے لاتا تو شاہدہ اپنی چو ت کو اپر لے جاتی اور جیسے ہی مـیرے لنڈ کی ٹوپی شاہدہ کی چو ت کے کے پاس پوھنچتی تو ہم دونو ایک جھٹکے کے ساتھ دوبارہ لنڈ اور چو ت کو ٹکرا دیتے ہمارے ایسا کرنے سے دونوں کو بہت مزہ آ رہا تھا مجھے شاہدہ پر بہت پیـار آ رہا تھا، اور شاہدہ مجھ پر بری طر ح سے فدا ہوئی وی تھی ہمارے جہتوں کی آوازیں لیں مـیں گونج رہیں تھیں شاہدہ کی چو ت اور مـیرے لنڈ کے پانی نے شاہدہ کی چو ت کو بہت ہی گیلا اور چکنا بنا دیـا تھا اور اس کی وجہ سے پچ پچ کی آوازیں نکل رہیں تھیں شاہدہ کی گریپ مجھ پر بہت سخت تھی اور مـیں نے بھی شاہدہ کو اپنے سے سے چمٹایـا ہوا تھا، شاہدہ مجھ سے زیـادہ تیزی سے اپنی چو ت کو مـیرے لنڈ پر اپر نیھے دھکے لگا رہی تھی جس کو وجہ سے ہم دوں کا لطف دوبالا ہوے جا رہا تھا، ہم دوں ایک دوسرے کو بے تحاشا چوم چاٹ رہے تھے مجھے لگ رہا تھا شاہدہ اور مـیں ایک دوسرے کے لیے بہترین چود ای پارٹنر تھے ، شاہدہ سے مـیں پوچھا اب اسی ہی طر ح چودنا ہے یہ کچھ اور کریں ، شاہدہ کہنے لگی کہ یہ مـیری پہلی یـادگار چود ای ہے اس لیے جب تک وہ چھوٹ نہیں جایےاسی ہی طر ح سے دھکے لگاتی رہےساتھ ہی اس نے مجھے کہا کے ایسے بہت مزہ آ رہا ہے مـیں اسے دھکے مارتا رہوں جب وہ چھوٹ جایےپھری اور طریقے کے بارے مـیں سوچےکیونکے مجھے بھی اتنا ہی مزہ آ رہا تھا جتنا شاہدہ کو تو مـیں نے بھی کوئی جلدی نہیں کی اور اطمـینان سے شاہدہ کو اس کے چوتروں سے پکڑ کر دھکے مارتا رہا کبھی ہمارے دھکوں مـیں تیزی آ جاتی تھی تو کبھی تھک کر آہستہ ہو جاتے تھے یہ پر لطف کھل ہم دوں کے بیچ مـیں بڑی مہارت کے ساتھ چل رہا تھا شاہدہ مجھ سے بہت خوش تھی اور اس اظہر اپنے گرمجوش اور گیلے بوسوں سے تھوڑی تھوڑی دیر مـیں دے رہی تھی اپنی زبان سے اس نے مـیرے چہرے کو چاٹ چاٹ کر گیلا کر دیـا تھا اس کے دیکھا دیکھی مـیں بھی اس کے چہرے کو چاٹ رہا تھا جس سے وہ بھی بہت مہزوس ہو رہی تھی، پھر اچانک شاہدہ کے دھکوں مـیں بہت تیزی آ گئی اس کی مجھ پر گرفتسخت سے سخت ہوتی جا رہی تھی اور وہ مھجے بھی کہ رہی تھی کے مـیں اسے برق رفتاری سے کے دھکے ماروں ہم دوں کی اس تیز رفتاری کا نتیجہ آنا شورو ہو گیـا شاہدہ ایک زور دار سانس اور جھٹکا لینے کے بعد ایک دم سے بری طر ح سے اکڑ گئی اور پھر اس کے جسم نے ایک زور دار جھٹکا خانے کے بعد بلکل مجھ پر ڈھیلی ہو کر بکھر گئی اب صرف مـیرے دھکے نیچے سے شاہدہ کی چھوٹ مـیں لگ رہے تھے شاہدہ کا چہرہ ایک دم سے مطمئن ہو گیـا تھا اور مـیرے زور دار جھٹکوں سے اس کے کھڑے پر ایک مسکان سی پہیل گئی تھی اس نے مجھ سے کہا کے اسے اب اس کی چو ت مـیں مـیرے پانی کا پوارا پھوٹ [اڑنے کا انتظار ہے وہ مـیری منی کا مزہ اپنی چو ت مـیں محسوس کر کے اس کا مزہ لوٹنا چاہتی ہے، بہرحال تھوڑی دیر مـیں مـیرے لوڑے سے پانی چھوٹ گیـا اور ایک پر لطف چود ای کا رنگین خاتمہ ہو گیـا مـیرا پانی چھوٹنے کے بعد شاہدہ مـیری گود مـیں سے عطر آئی مـیں بھی تھک کر کرسی پر بیٹھ گیـا، شاہدہ پھر دوبارہ مـیری گود مـیں آ کر بیٹھ گئی اور مجھے چومنے لگی مجھے بھی اس کے چومنے سے مزہ آ رہا تھا خاص طور پر جب وہ زبان سے زبان رگڑتی تھی تو بہت مزہ آتا تھا .</b></span></span></span></span><br /><b><span style="font-family: Georgia; font-size: large;"><span style="background-color: red;">شاہدہ مـیری گود مـیں بیٹھ کر بیخودی کے ساتھ مـیرے چہرے پر اپنی زبان پھیر رہی تھی اس کی زبان کا لمس اور گیلا ہٹ نے مـیرے جسم مـیں دوبارہ بجلی کو دوڑا دیـا اور مـیرا مرجھایـا ہوا لند جو مـیرے اور شاہدہ کے پیٹ کے بیچ مـیں دبا ہوا تھا دوبارہ کھڑا ہونا شرو ع ہو گیـا مـیرے لند کی سختی اپنے پیٹ پر دوبارہ محسوس کر کے شاہدہ کے چہرے پر دوبارہ شہوانی مسکراہٹ دوڑگئی اور اس نے مـیرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں مـیں دبوچ کر چوسنا شرو ع کر دیـا اس کی اس بیتابی اور جوش نے مجھے بھی بہت زیـادہ کھولا دیـا اور مـیں بھی اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا، ٹھوڈی دیر کے بعد شاہدہ نے کہا سہیل تمھیں معلوم ہے مجھے تم سے چدوانا نہیں تھا صرف چوما چا ٹی اور ممے چوسوانے تھے مگر تمہارا لوڑا دیکھنے کے بعد مجھے بلکل بھی ہوش نہیں رہا مـیری چھوٹ مـیں اتنی جلن اور تکلیف ہو رہی ہے جس کی کوئی حد نہیں تم خود بھی دیکھ سکتے ہو تمہارا لوڑا بری طر ح سے مـیری چو ت کے خون مـیں لتھڑا ہوا ہے مـیں نے بھی جواب مـیں شاہدہ کو چومتے ہوے کہا کہ تم بلکل صحیح بول رہی ہو مجھے بھی نہیں لگتا تھا کے مـیں تمھیں اس لیب مـیں کھڈے کھڈے چود سکوں گا مگر دیکھ لو تم ایسے ہی چود گئیں یہ سن کر شاہدہ نے پوچھا تمہاری مہارت بتا رہی ہے کے تم نے کافی لڑکیوں کو چودہ ہوا ہے یہ سن کر مجھے ہنسی آ گئی اور مـیں نے شاہدہ سے کہا تم یقین کرو تم مـیری زندگی کی پہلی لڑکی ہو جسے مـیں نے ہاتھ لگایـا ہے باقی رہی بات مہارت کی تو انٹرنیٹ زندہ باد جو بھی مہارت حاصل کرنی ہو وہ انٹرنیٹ پر موجود ہے یہ سن کر شاہدہ نے کہا کہ ہاں یہ بات تو بلکل صحیح ہے مجھے بھی جب اپنی پیـاس بجھانی ہوتی ہے تو مـیں انٹرنیٹ کا ہی استمال کرتی ہوںی قسم کا خوف نہیں اور آرام سے مٹہ بھی لگ جاتی ہے یہ سن کر مـیں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ اب ہم دونوں کو انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں پڑےیہ سن کر شاہدہ نے مـیرا لند سہلاتے ہوے کہا کے یہ تو ہے مگر اب ہم دوبارہ لیب لیب مـیں چو دائی نہیں کریں گے یہ تمہاری ذمےداری ہے کہ تم گھر کا انتظام کرو اور مجھے سکوں سے پلنگ پر لیٹا کر چودو یہ سن کر مـیں سوچ مـیں پڑ گیـا کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا اس دوران شاہدہ نے تھودا سا اٹھ کر اپنی ٹانگیں کھولیں اور مـیرے لند کو اپنی چو ت کی موری پر جما دیـا اور پھر آہستہ آہستہ اوپر نیچے اٹھنا بیٹھنا شرو ع کر دیـا شاہدہ کے ایسا کرنے سے اور مـیرے لند کے پانی کی وجہ سے شاہدہ کی چو ت چکنی ہونی شرو ع ہواور مـیرا لوڑا آسانی سے شاہدہ کی ٹائٹ مگر چکنی چو ت مـیں گھسنا شرو ع ہو گیـا شاہدہ اب بڑی مہارت کے ساتھ مـیرے لند کو اپنی چو ت مـیں اندر باہر کر رہی تھی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مـیرے کندھے جکڑے ہوے تھے اور وقفے وقفے سے مجھے چومتی جا رہی تھی شاہدہ کی دیوانگی اپنے عروج پر تھی اور مـیں اسے اتنی بیخودی کے ساتھ چو واتے ہوے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہا تھا کے شاہدہ کا کہنا بلکل صحیح تھا مجھے شاہدہ کو چود نے کے لیے اب کوئی باقاعدہ انتظام کرنا ہو گا، کیونکے جتنا مزہ مجھے آ رہا تھا اتنا ہی مزہ شاہدہ کو بھی آ رہا تھا اور مـیں چاہتا تھا کے ہم دوں اس وقت کو مل کر خوب انجویے کریں اس دوران شاہدہ کے جھٹکے مـیرے لند پر متواتر لگ رہے تھے اور ساتھ ساتھ شاہدہ کی سسکیـاں بھی نکل رہیں تھیں جو مجھے اور بھی زیـادہ مست کر رہیں تھیں پھر شاہدہ اچانک مجھ سے بڑی سختی سے لپٹاور اس کے جسم مـیں بڑی زور کے جھٹکے لگنے لگے اور ساتھ ساتھ اس جسم بھی کاپنے لگا اور پھر وہ ایک دم سے بیجان ہو کر مجھ پر گر پڑی مـیرا لند ابھی نہیں چھوٹا تھا مگر مـیں نے شاہدہ کو ایسے ہی اپنے اوپر پڑا رہنے دیـا اور اپنے لند کو شاہدہ کی ٹائٹ چو ت کی گہرایوں مـیں ہی پڑا رہنے دیـا اور اس کی کمر سہلا نا شرو ع کر دیـا شاہدہ کے ماتھے پر پسینا پھیل رہا تھا اور اس کا جسم ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا شاہدہ اب تھوڑی شرمندہ سی لگ رہی تھی مـیں اس سے پوچھا کے ایسا کیوں ہوا تو وہ کہنے لگی کے بس اس بار مـیں جلدی چھوٹہوں اور اب تمہارا لند مـیری چو ت کو تکلیف پوہچا رہا ہے مـیں نے پوچھا کے اب مـیرا کیـا ہو گا تو وہ کہنے لگی کے پریشان کیوں ہوتے ہو چو ت نہیں تو کیـا ہوا مـیں تمہاری مٹہ مر دوںاور تم یقین کرو تمھیں چو ت سے زیـادہ مزہ آئے گے یہ شاہدہ کا تم سے وعدہ ہے یہ سن کر مـیں نے شاہدہ کی چو ت مـیں سے اپنا اکڑا ہوا فولادی لند باہر نکال لیتا مـیرے لند کے باہر نکالے سے شاہدہ ایک دم پر سکوں ہواور اس کی سانسیں دوبارہ اعتدال پر آ نا شرو ع ہو گئیں ساتھ ہی ساتھ شاہدہ مـیری گود مـیں ہی آنکھیں بند کر کے سستانے لگی ایک ہاتھ اس ننے مـیرے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سیٹ مـیرے لند کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر نیچے دبتی اور سہلاتی جا رہی تھی تھوڑی دیر اس طر ح آرام کرنے کے بعد شاہدہ مـیری گود سے اتر کر زمـین پر مـیری ٹانگوں کے بیچ مـیں بیٹھ گئی ایک ہاتھ سے اس نے مـیرے لند کی ٹوپی کو دبوچا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ مـیرے ٹٹو</span></span><span style="background-color: red; font-family: Georgia; font-size: large;">&nbsp;</span><span style="font-family: Georgia; font-size: large;"><span style="background-color: red;">ںکو سہلا رہی تھی شاہدہ کی اس حرکت نے مجھے بلکل ہی پاگل کر دیـا مـیں اس کے گالوں اور سر پر اپنے ہاتھ پھیررہا تھا اور وہ مـیرے لند کو خوب زور زور سے مسل رہی تھی اور پھر اس نے دونوں ہاتھوں سے مٹہ مارنی شرو ع کر دی شاہدہ جیسے جیسے مٹہ مـیں تیزی لا رہی تھی مـیرے اندر ایک لاوا سا بہکتا جا رہا تھا کافی دیر تک شاہدہ مـیری مٹہ مارتی رہی مگر مـیرا پانی تھا کے چھوٹ کے نہیں دے رہا تھا شاہدہ اب بڑی سفاکی کے ساتھ مـیرے لند کی ٹوپی کو رگڑ رہی تھی مگر جہاں مـیری لذتوں مـیں اضافہ ہو رہا وہاں شاہدہ کی تھکاوٹ بھی بڑھتی جا رہی تھی شاہدہ نے مٹہ مرتے ہوے مجھ سے پوچھا کے آخر تم اپنا پانی چھوڑ کر مجھے فارغ کیوں نہیں کر دیتے ہو مـیں بہت تھک گئیں ہوں مـیں نے کہا کے شاہدہ مـیں تو چاہتا ہوں مگر پتا نہیں کیوں مـیرا پانی نہیں چھوٹ رہا اب یہ تمہاری مرضی ہے جو بھی تمہارا دل چاہے وہ کرو اس بات چیت کے درمـیان شاہدہ کا چہرہ مـیرے لند کے بہت ہی قریب آ گیـا اور شاہدہ اب مٹہ مارتے ہوے مـیرے لند کی ٹوپی کو بڑے غور سے گھور رہی تھی مـیرے لند کی ٹوپی رطوبت کی وجہ سے چکنی ہو رہی تھی اور شاہدہ کی مٹہ مرنے کی وجہ سے پھولی ہوئی وی تھی اچانک شاہدہ نے اپنے ہاتھ کو مـیرے لند کی جڑ مـیں روک کر اسے وہیں سے سختی سے پکڑ لیـا اور مـیرے لند کو اپنے چہرے پر مارنے لگی کبھی اپنے ماتھے پر مارتی کبھی اپنے گالوں پر رگڑتی شاہدہ کے ایسا کرنے سے مجھے اور بھی مزہ آ نے لگا اور وہ مجھے اور بھی پیـاری لگنے لگی پھر بلاخر وہ ہوا جس کا مجھے انتظار تھا مگر مـیں خود سے شاہدہ سے کہنا نہیں چاہ رہا تھا، شاہدہ نے مـیرے لند کی ٹوپی اپنے ہونٹوں مـیں دبوچ لی اور اپنی زبان مـیرے لند کی ٹوپی پر پھیرنے لگی واہ کیـا لمحے تھے مـیں بلکل مدہوش ہو چکا تھا اور شاہدہ کا مکمل رحم و کرم پر تھا مگر اب شاہدہ مـیرا پورا خیـال کر رہی تھی اور مـیرے لند کی ٹوپی کے نیچے کا حصہ جو اس کے منہ سے باہر تھا وہ اس نے اپنے ماموں کے بیچ مـیں دبا لیے تھے اس وقت مجھے لگا کے شاہدہ مـیرے لیے لازم و ملزوم بن چکی تھی مـیں اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہنے کا نہیں سوچ سکتا تھا بہرحال شاہدہ اب مـیرے لند کی ٹوپی کو بڑی رغبت اور شہوت کے ساتھ چاٹ چاٹ کر چوستی جا رہی تھی کبھی وہ اپنے دانتوں سے مـیرے لند کی ٹوپی کو کچوکے بھی لگا دیتی تھی جس مـیرے جسم مـیں مزید بجلیـاں سی دوڑ جاتی تھیں اب شاہدہ کو اس بات کی فکر نہیں تھی کے مـیں کب چھوٹوں گا بجاے اس کے اب وہ خود دوبارہ کھولنا شرو ع ہو گئی تھی اور مـیرے لند کو چوسا اسے چدنے سے بھی زیـادہ اچھا لگ رہا رہا تھا شاہدہ مـیرے لند سے کھیل رہی تھی اور مجھے بےتحاشا مزہ آ رہا تھا اچانک مجھے خیـال آیـا کے کیوں نا مـیں بھی شاہدہ کی چو ت چوسنا اور چاٹنا شرو ع کر دوں اس طر ح ہم دوں کا کام بھی ہو جایےگا شاہدہ مـیرے لند کو بڑی شاد و مد سے چوس رہی تھی جب مـیں نے شاہدہ سے کہا کے وہ ذرا اپنے چوتر مـیرے منہ کے سامنے کر دے تکے مـیں اس کی چو ت کو چوسنا شرو ع کر دوں اور وہ ساتھ مـیرے لند کو چوستی رہے یہ سن کر شاہدہ بہت خوش ہوئی اور مـیرے ہونٹوں کو چومتی ہوئی مـیرے اوپر چڑھ کر الٹی لیٹ گئی اب مـیرے سامنے شاہدہ کی بھیگی ہوئی بالوں سے بھری ہوئی چو ت تھی اور شاہدہ دوبارہ سے مـیرے لند کو اپنے مموں کر بیچ مـیں دبوچ کر مـیرے لند کی تپوئی چوسنا شرو ع کر چکی تھی مـیں نے بھی شاہدہ کی چھوٹ مـیں اپنا منہ دے کر اس کی چو ت کو زور زور سے بھنبھوڑنا شرو ع کر دیـا مـیری اس حرکت کی وجہ سے شاہدہ کو بھی جھٹکا لگا اور اس نے بھی جوابن مـیرے لند کو اپنے دانتوں سے کچوکے مارنے لگی اب جیسے مـیں شاہدہ کی چو ت کے ساتھ زیـادتی کرتا تھا وہ اس کے جواب مـیں مـیرے لند کی ٹوپی کے ساتھ زیـادتی کرتی تھی ہمارے اس کھیل کی وجہ سے دونوں ہی مست ہووے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلے جا رہے تھے مـیں نے شاہدہ سے کہا کے اب مـیں زیـادہ دیر تمہارا مقابلہ نہیں کر سکوں گا بس اتنا بتا دو کے جب مـیرا پانی چھوٹنے والا ہو گا تو مـیں کیـا کروں تمہارے منہ مـیں چھوڑ دوں یـا یـا پھر تم پانی کا فوارہ دیکھنا پسند کرویہ سن کر شاہدہ نے کہا کے کے مـیں فوارہ دیکھوںاگلی مرتبہ مـیں پی جاؤںمگر مـیں اس بار تمہاری بےپناہ طاقت کا مظاہرہ دیکھنا پسند کروںاور ساتھ ہی دوبارہ مـیرے لند کو اپنے ہونٹوں مـیں چبانے لگی مـیں تو چھوٹنے ہی والا تھا مگر شاہدہ کی اس حرکت نے ایک دم ہی مـیرے لند کو جھٹکا دیـا اور مـیں نے چیخ کر شاہدہ سے کہا کے لند کو منہ سے نکال لو یہ سنتے ہی شاہدہ نے مـیرے لند کو اپنی مٹھی مـیں لے زور زور سے مسلنا شرو ع کر دیـا اور پھر ایک زور دار پچکاری کے ساتھ مـیرے لند نے پانی اگلنا شرو ع کر دیـا ساتھ ہی ساتھ مـیں نے بھی زور زور سے شاہدہ کی چو ت کے چوسنے کے عمل کو تیز کر دیـا اور اگلے ہی لمحے شاہدہ کے جسم نے بھی جھٹکے لینا شرو ع کر دیے اور پھر وہ ٹھنڈی پڑ گئی مـیں نے شاہدہ کو اپنے اوپر سے اتار کر صوفے پر لیٹا دیـا وہ بلکل بے سدھ ہو کر صوفے پڑ لیٹ گئی پھر مـیں نے اپنے لند کو واش روم مـیں جا کر دھویـا اتنی دیر مـیں شاہدہ بھی واش روم مـیں آ گئی گو کہ شاہدہ کو چلنے مـیں تھوڑی تکلیف ہو رہی تھی مگر پھر بھی وہ بہت خوش تھی اس نے بھی اپنی چو ت کو دھویـا اور پھر ہم دوں نے کپڑے پہنے اور لیب کو بند کر کے کولج سے باہر نکال آے مـیں شاہدہ کو اس کے ہوسٹل اتارا اور پھر اپنے ہوسٹل آ کر شاہدہ کی باتوں کے بارے مـیں سوچنے لگا کیونکے شاہدہ نے بائیک سے اترتے ہووے مجھے دوبارہ یـاد دلایـا کہ اگلی چو دای کا مجے کہیں بہتر انتظام کرنا ہے شاہدہ نے بائیک پر مجھے پیچھے سے جکڑ کر پکڑا ہوا تھا اور مـیرے دل پر اپنی انگلیـاں پھیرتی رہی سارے وقت اس کی اس مہبت نے مجھے اور بھی بچیں کر دیـا تھا اور اب مجھے شاہدہ کو مستقل اپنے ساتھ رکھنے کا انتظام کرنا تھا،&nbsp;</span><br /><span style="background-color: orange; color: #666666;">دوستوں مـیرا خیـال تھا کے مـیں اس کہانی کو یہاں پر ہی ختم کر دوں گا مگر یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا اپنی قیمتی آرا سے کھل کر نوازئے کیونکے اس سے مجھے اپنی لکھائی مـیں مہارت حاصل کرنے مـیں مدد ملے گ</span></span></b>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-63170125833273564252012-03-29T01:32:00.003-07:002012-03-29T01:32:36.113-07:00

My Litle Ciusin

<b style="background-color: #93c47d;"><span style="color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: large;">&nbsp;ان دنوں کی بات ہے جب مـیں ٹیوشن پڑھایـا کرتا تھا۔مـیں ٹیوشن اپنے گھر پر ہی پڑھایـا کرتا تھا مـیری اس وقت تک شادی ہوچکی تھی۔ مگر شام مـیں مجھے گھر کے خرچے پورے کرنے کے لیے ٹیوشن پڑھانا پڑتی تھیں۔ سو مـیرے شاگردوں مـیں کافی لڑکے اور لڑکیـاں تھیں۔ ان مـیں ہی ایک لڑکی تھی جسکا نام سونیـا تھا اسکی عمر تقریباً بائیس سال تھی اور وہ گریجویشن کی اسٹوڈنٹ تھی کافی ڈل اسٹوڈنٹ تھی مجھے اس پر کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔ وہ مـیری بیوی سے کافی فری تھی۔ مگر اسکی حرکتیں مجھے کچھ مشکوک لگتی تھیں۔ وہ تھی بھی بڑی خوبصورت بڑا دل کرتا تھا اسکے ساتھ سیکرنے کا اور ایسے ویسے نہیں جانوروں کی طرح جنگلی جانوروں کی طرح ۔ خیر ایسا ہوا کہ مـیرے سالے کی شادی ہو رہی تھی مـیری بیوی نے مجھے پہلے ہی کہہ دیـا تھا کہ وہ پورے ایک ہفتہ کے لیے اپنے مـیکے جائے گی۔ تو مـیں نے حامـی بھر لی تھی مگر مـیں نہیں جاسکتا تھا کیونکہ اسٹوڈنٹس کے پیپرز کا وقت قریب تھا اور سونیـا کی فکر زیـادہ تھی مجھے۔ اس لیے مـیں ان لوگوں کو چھٹیـاں نہیں دےسکتا تھا۔ سونیـا کا گھر ہمارے گھر سے زیـادہ دور نہیں تھا، اور وہ آجکل کافی دیر دیر تک مـیرے پاس رہ کر اپنے پیپرز کی تیـاری کر رہی تھی۔ مـیری بیوی اب مـیکے جاچکی تھی۔ گھر پر مـیں اکیلا تھا۔ یـا پھر آفس سے واپس آنے کے بعد مـیرے اسٹوڈنٹس۔ جو کہ رات کو دیر تک مـیرے ساتھ ہوتے تھے۔ ایکدن مـیں نے سونیـا سے کہا تم بہت آہستہ چل رہی ہو پیپرز بہت نزدیک ہیں تم کو زیـادہ وقت دینا ہوگا۔ اس نے کہا مـیں کیـا کروں مـیں نے کہا رات کو مزید دیر تک رکو۔ اس نے حامـی بھرلی۔ پھر اسی دن مـیں نے اپنے اسٹوڈنٹس کو کہا کہ آپ لوگ اب جلدی چلے جایـا کریں کیونکہ مـیری نیند پوری نہیں ہورہی ہے۔ اور آپ لوگوں کی تیـاری تو تقریباً ہو ہی چکی ہے اس لیے اب زیـادہ دیر تک اگر پڑھنا ہے تو اپنے گھروں پر پڑھیں۔ سب اس بات کے لیے تیـار ہوگئے مـیرا اصل مقصد سونیـا کے ساتھ وقت گذارنا تھا۔ مـیں دل مـیں ٹھان چکا تھا کہ اسی دوران جب تک مـیری بیوی اپنے مـیکے ہے اسکو چود ڈالوں پھر پتہ نہیں ایسا موقع ملے کہ نہیں۔&nbsp;</span><br style="color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: x-large;" /><span style="color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: large;">خیر اگلے دن سے مـیرے اسٹوڈنٹس جلدی جانے لگے اور مجھے کافی وقت سونیـا کے ساتھ ملنے لگا۔ اگلے دن سونیـا نے کہا آج وہ رات کو دیر تک مـیرے پاس رکےاور پڑھےکیونکہ سارے گھر والے ایک شادی مـیں جارہے ہیں اور رات کو بہت دیر مـیں واپسی ہوگی۔ جب مـیرے بھیـا آئیں گے مجھے لینے تو مـیں جاؤں گی۔ چونکہ مـیری بیوی سے سونیـا کی کافی دوستی تھی لہذا اسکے گھر والے سونیـا کو مـیرے پاس چھوڑنے پر فکرمند نہیں تھے اور ویسےبھی انکے علم مـیں نہیں تھا کہ مـیری بیوی آجکل اپنے مـیکے مـیں ہے۔خیر مـیں نے سوچا آج ہی موقع ہے سونیـا کو دل بھر کے چود لوں پتہ نہیں دوبارہ یہ موقع ملتا ہے کہ نہیں۔ خیر مـیں آفس سے واپس آیـا تو سونیـا ذرا دیر بعد ہی آگئی اور مـیری باقی اسٹوڈنٹس بھی۔ آج سونیـا نے ایکدم ٹائٹ شلوار قمـیض پہنا ہوا تھا جس مـیں وہی سیبم سے زیـادہ نہیں لگ رہی تھی۔ سارے اسٹوڈنٹس سمجتھے تھے کہ سونیـا مـیری رشتہ دار ہے اور اس بے فکری سے مـیرے گھر مـیں گھومتی تھی جسکی کی اجازتی اور اسٹوڈنٹس کونہیں تھی۔ خیر مـیں سونیـا کی آنکھوں مـیں دیکھ کر مسکرایـا تو اس بھی جواب مـیں مسکراہٹ پیش کی ۔ اور یہ بڑی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ جو کہ مـیں اسوقت سمجھ نہ سکا۔ خیر دو گھنٹے بعد مـیرے اسٹوڈنٹس چلے گئے پھر مـیں نے سونیـا سے کہا چلو کھانا کھا لیتے ہیں پہلے پھر پڑھیں گے ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیـا اور مـیرے ساتھ کچن مـیں آکر کھانا گرم کرنے مـیں مـیری مدد کرنے لگی۔ اس دوران کچن مـیں مختلف چیزیں اٹھانے کے چکر مـیں گھومتے چلتے پھرتے مـیں دو تین بار سونیـا سے ٹکرایـا ایک بار اسکی گانڈ سے ٹکرایـا مگر وہ کچھ نہ بولی۔ بلکہ مسکرا کر چپ رہی۔ خیر پھر ہم دونوں ٹیبل پر پہنچے کھانا لے کر اور ساتھ ہی کھانے لگے ۔ کھانے سے فارغ ہوکر مـیں تو باتھ روم چلا گیـا اور باتھ لے کر نکلا مگر سونیـا برتن وغیرہ سمـیٹ کر دھو کر فارغ ہو کر اسٹڈی روم مـیں تھی اور کتابیں کھولے پڑھ رہی تھی مـیں اپنے نائٹ ڈریس مـیں تھا کیونکہ سونیـا کے جانے کے بعد مجھے سونا ہی تھا۔ سونیـا نے مجھے دیکھا نہیں دیکھا تھا مـیں نے اس سے پوچھا کیـا پڑھ رہی ہو تو وہ ایکدم چونک کر مجھے دیکھنے لگی اورپھر خود کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگی کچھ نہیں بس یونہی مـیں نے کہا چلو اب پڑھائی شروع کرتے ہیں۔ اس نے کتاب بند کر کے ایک طرف مجھ سے دور رکھ دی اور اپنی دوسری ایک کتاب اٹھا کر وہ کھول لی مـیں نے اس سے کہا سونیـا وہ کتاب دینا جو تم پڑھ رہی تھی ابھی۔ وہ یہ سنتے ہی ایکدم گھبرا گئی اور کہا سر وہ کورس مـیں شامل نہیں ہے غلطی سے مـیں ساتھ کے آئی تھی۔ مـیں نے کہا ہے تو کتاب ہی نا مجھے دو تو سہی پھر اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی کتاب مـیرے ہاتھ مـیں دے دی کتاب کا کوئی ٹائٹل نہیں تھا مـیں نے کتاب کھولی تو دیکھ کر حیران رہ گیـا کہ وہ ایک ی کہانیوں کی کتاب تھی جس مـیں تصویریں بھی تھیں۔ مـیں نے سونیـا کی جانب دیکھا تو وہ نظریں نیچے کیئے ہوئے تھی اور اسکا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ مـیں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اسکے نزدیک پہنچا تو مجھے پتہ چلا اسکی سانس بھی کافی تیز چل رہی تھی۔ مـیں نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ اسکے برابر بیٹھ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ مـیں لیـا اور فوراً ہی اسکو اپنے لنڈ پر رکھ دیـا وہ جیسے ہوش مـیں آگئی۔ ایکدم ہڑبڑا کر مجھے دیکھنے لگی۔ مـیں نے مسکراتے ہوئے اسکی آنکھوں مـیں دیکھا اور کہا آج تم شام سے کافی بدلی بدلی اور اپنی اپنی سی لگ رہی تھی اب سمجھ آیـا کہ وجہ کیـا تھی۔ وہ کچھ نہیں بولی اور نظریں نیچے کر لیں ۔ مـیں نے ہمت کر کے اسکے چہرے کی طرف ہاتھ بڑھایـا اور اسکے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی کی اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ پھر مـیں نے اسکے ممے پر ہاتھ رکھ دیـا وہ ایکدممسا اٹھی۔ اب مجھ سے برادشت نہ ہوا اور مـیں نے اسکو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیـا۔ مـیں حیران رہ گیـا جب مـیں نے محسوس کیـا کہ سونیـا نے بھی مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیـا ہے اور مجھے اپنے سینے مـیں بھینچ رہی ہے۔ مـیری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ مـیرا آدھے سے زیـادہ کام تو ہوچکا تھا۔ مـیں نے مزید وقت ضائع کیئے بغیر اسکی قمـیض مـیں ہاتھ ڈالا اور اسکے ممے کو پکڑ لیـا اور دبانے لگا اسکی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔ اور اسکے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ وہ مـیری جانب دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھی اور آنکھیں آدھی کھلی اور آدھی بند تھیں۔ مـیں نے ایک بار پھر اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے مگر اس بار مـیں نے ایک لمبی کی اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے دونوں مموں کو دباتا رہا جس سے وہ کافی گرم ہو گئی تھی تقریباً چدنے کے لیے تیـار۔ اب مـیں نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیـا اور اسے کہا چلو مـیرے ساتھ وہ چپ چاپ مـیرے ساتھ کھڑی ہوئی مـیں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسکو لے کر اپنے بیڈ روم مـیں آگیـا ۔ بیڈ کے پاس پہنچ کر مـیں نے اسکو کھڑا کیـا اور اسکو اپنے ساتھ لپٹا لیـا اور اسکی کمر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اسکے کولہوں تک لے گیـا اور انکا مساج کرنے لگا اس نے اپنے کولہے سکیڑ کر سخت کر لیے۔ پھر مـیں نے اسکے گالوں پرنگ کی اس نے جو قمـیض پہنی تھی اسکی زپ پیچھے کی طرف تھی مـیں نے واپس کمر تک ہاتھ لے جاکر اسکی زپ کھولی اور اسکی قمـیض کو ڈھیلا کردیـا۔ اسکی قمـیض اسکے شانوں سے ڈھلک کر نیچے آگئی تھی۔ اور اسکا بریزر صاف نظر آرہا تھا جس مـیں سے اسکے بڑے بڑے دودھیـا رنگ کے ممے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ مـیں نے اسکی قمـیض کو اسی پوزیشن مـیں چھوڑ کر اسکی شلوار پر حملہ کیـا اور مـیری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ وہ شلوار مـیں الاسٹک استعمال کرتی ہے۔ مـیرے لیے تو اور آسانی ہوگئی تھی۔ مـیں نے ایک ہی جھٹکے سے اسکی پوری شلوار زمـین پر گرا دی وہ خاموش کھڑی صرف تیز تیز سانسیں لے رہی تھی مگر کچھ نہ کہہ رہی تھی اور نہ ہی مجھے روک رہی تھی۔ اب مـیں نے اسکی قمـیض کو بھی اسکے بدن سے الگ کیـا وہ صرف برا مـیں رہ گئی تو اسکو اس تکلف سے بھی آزاد کردیـا اب وہ پوری ننگی مـیرے سامنے ایک دعوت بنی کھڑی تھی مـیں نے اسکے پورے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیـا۔اسکا بدن ایکدم چکنا اور بھرا بھرا تھا اسکا جسم کافی گرم ہو چکا تھا۔ مـیں نے آہستہ آہستہ ہاتھ اسکی چوت کی جانب بڑھایـا اور اپنی انگلی جیسے ہی اسکی چوت مـیں ڈالی وہ گیلی ہوگئی اسکا مطلب وہ کافی آگے جاچکی تھی اب مجھے اپنا کام کرنا تھا مـیں نے اسکو بیڈ پر چلنے کو کہا۔وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے دیکھنے لگی ۔ مـیں نے انتظار نہیں کیـا اور مـیں بھی بیڈ پر چڑھ گیـا اور اسکے اوپر لیٹ کر اپنا لنڈ اسکی ٹانگوں کے بیچ اسکی چوت کے منہ پر پھنسا دیـا۔ اور اسکو چوت پر رگڑنے لگا۔ وہ بے حال ہو رہی تھی۔ مـیں نے اس سے پوچھا کہ پہلے کبھی اس نے سیکیـا ہے اس نے کہا ہاں ایک بار مـیں خوش ہوگیـا کیونکہ اب زیـادہ پریشانی نہیں تھی۔ مـیں نے بیٹھ کر اسکی ٹانگیں کھولیں اور اسکی چوت کے منہ پر لنڈ کو سیٹ کیـا مـیرا لنڈ اسکی چوت کے پانی سے گیلا ہو کر چکنا ہوچکا تھا اور اندر جانے کو بے تاب تھا۔ مـیں نے تنے ہوئے لنڈ کو ایک زور دار جھٹکا لگایـا اور مـیرا لنڈ اسکی چوت مـیں داخل ہوگیـا اور اسی لمحے سونیـا کا سانس ایک لمحے کو رکا پھر تیز تیز چلنا شروع ہوگیـا۔ مـیں نے تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا کیونکہ پورااندر جانے کے لیے اسے تھوڑا سا پیچھے ہٹنا ضروری تھا۔ بس مـیں نے تھوڑا سا پیچھے کیـا لنڈ کو اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مـیرا پورا لنڈ اسکی چوت کے اندر داخل ہوگیـا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اسکے منہ سے آہیں نکل رہی تھیں۔ اسکو اپنے جسم مـیں مـیرا سخت تنا ہوا لنڈ محسوس ہوا تو وہ نشے مـیں بے حال ہونے لگی اور بے تحاشہ مجھے چومنے لگی اور آہستہ سے مـیرے کان مـیں کہا مجھے چودو جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ سننا تھا مـیری اندر بجلی دوڑ گئی اور مـیں نے لنڈ کو اندر باہر کرنا شروع کردیـا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ مـیری رفتار مـیں اضافہ ہوتا رہا وہ جلدی جلدی چھوٹ رہی تھی۔ مـیں نے اس سے کہا رکو مـیں ابھی آیـا اس نے کہا کہاں جا رہے ہیں مـیں نے کہا کہیں نہیں ابھی آتاہوں مـیں کچن مـیں گیـا اور وہاں ایک ٹیبلیٹ اسی وقت کے لیے رکھی تھی وہ مـیں نے نگلی جلدی سے اور واپس آیـا اور پھر سے اس کی چوت مـیں اپنا لنڈ داخل کیـا اسکو نہیں معلوم تھا اب اسکے ساتھ کیـا ہونے والا ہے۔ اب مـیں نے آہستہ آہستہ سے چودنا شروع کیـا۔ مگر وہ چاہتی تھی کہ مـیں اپنی رفتار تیز کروں مگر مـیں انتظار مـیں تھا کہ ٹیبلیٹ کا اثر شروع ہو جائے وہ بہت تیز اثر کرنے والی ٹیبلیٹ تھی جو مـیں اکثر اپنی بیوی پر بھی استعمال کرتا تھا۔ تقریباً پانچ منٹ اسی طرح گذرے اور وہ تڑپتی رہی کہ مـیں اسکو پہلے والی رفتار سے چودوں ۔ اب مـیں نے محسوس کیـا کہ ٹیبلیٹ اثر کر رہی ہے اور مـیرا لنڈ مکمل سخت ہے اور لاوا اگلنے کے موڈ مـیں نہیں ہے مـیں نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بے تحاشہ جھٹکوں سے اسے چودنے لگا۔ وہ بے حال ہو رہی تھی اسکی آہوں سے زیـادہ چیخیں نکل رہی تھیں اور وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر مـیں اب رکنے والا تھا بھی نہیں۔بہرحال وہ اس دوران تین بار فارغ ہوئی اس کی ہمت جواب دے رہی تھی مـیں نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور کہا ابھی مـیں فارغ نہیں ہوا ہوں تم گھوڑی بنو اسکو اسکا تجربہ نہیں تھا اس نے مـیری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو مـیں نے اسے بتایـا کیسے گھوڑا بننا ہے وہ سمجھی تھی مـیں شاید پیچھے کی طرف سے اسکی چوت مـیں لنڈ داخل کرونگا جیسے ہی وہ گھوڑی بنی مـیں نے اپنا لنڈ اسکی گانڈ پر رکھا اور پوری طاقت سے اسکو اندر داخل کردیـا مـیرا لنڈی پسٹن کی طرح چکنا اور گیلا تھا اور اسکی گانڈ بھی اسکی چوت سے بہہ کر آنے والے پانی سے گیلی تھی مـیراپورا لوڑا اسکی گانڈ مـیں ایک ہی بار مـیں گھس گیـا اور وہ درد سے بلبلا اٹھی مگر مـیں باز آنے والا کب تھا۔ مـیں نے اسکو جکڑ لیـا اور وہ کوشش کرتی رہی مـیری گرفت سے نکلنے کی مگر مـیں نے اسکو نہیں چھوڑا ذرا دیر بعد مـیں نے اس سے پوچھا کہ تکلیف کم ہوئی اس نے کہا ہاں مگر آپ اس کو نکال کر وہیں ڈالیں جہاں پہلے تھا۔ مگر مـیں نے انکار کردیـا اور کہا ابھی نہیں تھوڑی دیر مـیں وہ خاموش ہوگئی اس نے خود کو پورا مـیرے حوالے کیـا ہوا تھا۔ بس مـیں نے اسکی رضامندی دیکھ کر اپنا کام شروع کردیـا اور جھٹکے دینا شروع کیے اور پھر پوری رفتار مـیں ایکبار پھر سے اآگیـا اسکے ممے بری طرح سے ہل ہل کر اسکے چہرے سے ٹکرا رہے تھےاور وہ بھی پوری ہل رہی تھی اس نے کہا ایسے مزہ نہیں آرہا ہے بہت ہل رہی ہوں مـیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مـیں نے اس سے کہا چلو نیچے زمـین پر اسکو زمـین پر لاکر مـیں نے پیٹ کے بل اسکو بیڈ پر اسطرح لٹایـا کہ اسکے گھٹنے زمـین پر تھے اب مـیں بھی اسی پوزیشن مـیں آگیـا اور پھر سے لنڈ اسکی گانڈ مـیں داخل کیـا اب مـیں نے پورا لنڈ اندر ڈال کر مزید اسکی گانڈ کو گہرا کرنے کی کوشش کی اور اندر لنڈ کو رکھ کر ہی دباؤ ڈالا ۔ جس سے ایک بار پھر اسکی چیخیں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ بالاخر مـیرا وقت پورا ہونے لگامـیں نے اس سے کہا مـیں تمہاری گانڈ مـیں ہی منی نکال رہا ہوں نہیں تو تم ماں بن سکتی ہو۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیـا مـیں نے جیسے ہی وقت آیـا پورا لنڈ اسکی گانڈ مـیں گھسیڑا اور مـیرے لنڈ نے منی اگلنا شروع کردی۔ وہ شاید دو تین بار کی منی تھی جو ایک ہی دفعہ مـیں نکل رہی تھی کیونکہ ٹیبلیٹ سے مـیں نے اسے روکا ہوا تھا۔ وہ مـیری منی کے ہر ہر شاٹ پر کپکپا رہی تھی۔ اور اس نے کہا یہ تو بہت گرم ہے مجھے بخار لگ رہا ہے۔ مـیں نے کہا ایسا نہیں ہے یہ گرمـی ہے اسکو انجوائے کرو۔ یہ گرمـی پیدا بھی تو تم نے ہی کی تھی۔ پھر آخر مـیں نے لنڈ باہر نکالا اور وہ سیدھی ہو کر مجھے حیرت سے دیکھنے لگی ۔ اس نے کہا آپ انسان تو نہیں لگتے پہلے جب مـیں نے سیکیـا تھا تو اتنا وقت تو نہیں لگا تھا جتنا آپ نے لگایـا ہے یہ کہہ کر وہ اٹھی اور مجھ سے لپٹ کر مجھے چومنے لگی ۔ اسکے بعد وہ مـیرے لنڈ کی دیوانی ہوگئی مگر اسکو کیـا پتہ تھا کہ مـیں نے کیـا کیـا ہے اسکے ساتھ ۔ بعد مـیں بھی کئی بار اسکو چودا۔ اور وہ ہمـیشہ خوش رہی کہ سکو اتنا موٹا اور اتنا زیـادہ مزے دینے والا لنڈ ملا ہ</span></b>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-25896867134200483652012-03-29T01:29:00.002-07:002012-03-29T01:29:44.927-07:00

Home Sex

<b style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;">&nbsp;مـیرے گھر مـیں مـیرے والد اور والدہ رہتے تھے ایک بڑی بہن تھی جسکی شادی ہوچکی تھی۔ اور وہ امریکہ سیٹل ہوچکی تھی۔مـیری امـی نے ایک ماسی رکھی جو اچھی خاصی عمر کی تھی مگر وہ اپنے ساتھ ایک اپنی نواسی کو لاتی تھی جسکی عمر تو پندرہ سال تھی مگر اسکا جسمـی اٹھارہ سال کی سیکی لڑکی کی طرح تھا ۔ اس ماسی کی بیٹی فوت ہوچکی تھی جسکے بعد اس نواسی کی پرورش کی ذمہ داری اس پر آپڑی تھی۔ خیر کچھ ہی مہینوں مـیں وہ ماسی اور اسکی نواسی ہمارے گھر مـیں ایڈجسٹ ہوگئے، اور ہم نے ان دونوں پر اور ان دونوں نے ہم پر بھروسہ کرنا شروع کردیـا۔ مـیں ویسے تو خاصہ شریف لڑکا تھا مگر سیکا ایسا بھوکا کہ جو بھی مل جائے چھوڑتا نہیں تھا۔ مـیرے گھر اور دوستوں مـیںی کو مـیری ان حرکتوں کا علم نہ تھا۔مـیرے والد ایک بزنس مـین تھے اور انکا بزنس پورے پاکستان مـیں پھیلا ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ اکثری نہی شہر مـیں جاتے رہتے تھے۔ مـیری امـی کا گھر بھی دوسرے شہر مـیں تھا۔<br />ایک بار ایسا ہوا کہ ابا کو اپنے بزنس کے لیے دوسرے شہر جانا تھا اسی شہر مـیں امـی کا مـیکہ بھی تھا ابا امـی کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے ملاقات کر لیں۔ امـی ابو کا یہ دورہ تقریباً ایک ہفتہ کا تھا مجھ سے بھی پوچھا گیـا مگر اگلے دن مـیرا یونیورسٹی مـیں ٹیسٹ تھا تو مـیں نے کہا آپ لوگ جائیں مـیں آپ لوگوں کے پیچھے آجاتا ہوں۔مـیری بات سن کر امـی اور ابا راضی ہوگئے۔امـی ابا تو اسی دن روانہ ہوگئے اور مـیں گھر مـیں اکیلا رہ گیـا۔ ابھی صبح کا وقت تھا مـیں ناشتہ کر کے اپنے ٹیسٹ کی تیـاری ہی کر رہا تھا کہ ماسی اور اسکی نواسی کام کرنے آگئے۔ مـیں نے ماسی سے کہا امـی اور ابا گئے ہیں دوسرے شہر تم کو پتہ ہے جو جو کام کرنا ہے وہ سب کرلو کوئی بتائے گا نہیں تمہیں اس نے کہا آپ بے فکر رہو عامر بیٹا مـیں سب کر لونگی۔ یہ کہہ کر وہ دونوں سب سے پہلے کچن مـیں برتن دھونے مـیں مصروف ہوگئیں۔ذرا دیر بعد ماسی کی نواسی جسکا نام زرینہ تھا وہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی، مـیں تھوڑی دیر دیکھتا رہا پھر ماسی سے پوچھا "زرینہ کو کیـا ہوا ماسی؟"<br />"اسکو بخار ہے صبح سے۔" ماسی نے جواب دیـا۔<br />"تو تم اسکو کام پر نہ لاتی نا یہ اور بیمار ہوجائے گی" مـیں نے ہمدردی سے جواب دیـا۔ جسکو سن کر زرینہ نے تشکر آمـیز نظروں سے مـیری جانب دیکھا۔<br />"مـیں اکیلے کیسے اتنا سارا کام کرتی، ابھی اور بھی تو گھروں مـیں جا کر کام کرنا ہے" ماسی نے جواب دیـا۔<br />"تم نے اسکو دوا دلائی؟" مـیں نے ماسی سے سوال کیـا<br />"نہیں ابھی گھر جا کر دے دونگی دوا" ماسی نے جواب دیـا۔<br />" گھر تو تم شام تک جاونا؟" مـیں نے ماسی سے پھر سوال پوچھا۔<br />"جی شام تک ہی جانا ہوگا" ماسی نے جواب دیـا<br />"ایسا کرو تم اپنا کام کرو مـیں زرینہ کو دوا دلا کر لاتا ہوں۔" مـیں نے ماسی سے کہا<br />"رہنے دیں عامر صاحب آپ تکلیف نہ کریں۔" ماسی نے منع کرنے کے انداز مـیں کہا<br />"تکلیف کیسی تم لوگ اتنی خدمت کرتی ہو ہماری سارے گھر کا کام کرتی ہو یہ تو تمہارا حق بنتا ہے، بس تم اپنا کام کرو مـیں ابھی اسکو دوا دلا کر لاتا ہوں۔" یہ کہہ کر مـیں نے زرینہ کو کہا" چلو ایسا نہ ہو کلینک بند ہو جائے۔"<br />زرینہ نے ماسی کی جانب دیکھا ماسی نے اسے ہاں مـیں سر ہلایـا اور زرینہ مـیرے ساتھ چلی گئی کار مـیں بیٹھ کر مـیں نے زرینہ کی گردن پر اپنا ہاتھ لگایـا اور کہا " تم کو تو کافی تیز بخار ہے تم کو آرام کرنا چاہئے تھا۔" زرینہ نے کوئی جواب نہ دیـا۔اور خاموشی سے سر جھکا لیـاخیر ذرا دیر بعد ہم دوا لے کر واپس آچکے تھے۔ مـیں نے ماسی سے کہا " ڈاکٹر نے اسکو مکمل آرام کرنے کو بولا ہے تم اسکو گھر چھوڑ کر پھر جانا اپنے دوسرے کام پر"<br />"صاحب گھر کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ تو کافی دور ہےاسکو ہمت کر کے جانا ہوگا مـیرے ساتھ " ماسی نے جواب دیـا۔<br />"ڈاکٹر نے کہا ہے اگر آرام نہ کیـا تو دوا اثر نہیں کرےطبیعت اور خراب ہوگی۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اسے آرام کرنے دو۔" مـیں نے جواب دیـا<br />ماسی سوچ مـیں پڑ گئی پھر بولی "صاحب مـیں اسکو گھر تو نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کام پر دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو مـیں اسکو شام تک آپکے گھر چھوڑ دوں؟ مـیں باجی سے بات کر لونگی۔" ماسی نے درخواست کی۔<br />ایک دم مـیرے دماغ مـیں منصوبہ بننے لگا۔ مـیں نے تھوڑا سوچا پھر کہا" باجی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ویسے بھی وہ ایک ہفتے بعد آئینگی۔ تم اسکو چھوڑ دو مگر شام مـیں ضرور واپس لے جانا ہوسکتا ہے مـیں گھر سے باہر جائوں تو یہ اکیلی کیسے رہےگھر مـیں۔" مـیں نے خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔<br />"صاحب آپ فکر نہ کریں مـیں شام مـیں آکر اسکو لے جائوں گی۔" ماسی نے بھی خوش ہو کر کہا۔<br />ذرا دیر بعد ماسی اپنا کام ختم کر کے چلی گئی۔ مـیں اور مـیرے گھر والے زرینہ کو ایک چھوٹی بچی کی طرح ہی ٹریٹ کرتے تھے وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ تھی بھی نہیں۔خیر ماسی کے جانے کے بعد مـیں ذہن مـیں منصوبہ بنانے لگا کہ طرح جلدی اپنی خواہش پوری کروں مگر مجھے ڈر بھی تھا یہ شور مچا دے گی۔ یـا بعد مـیںی کو بتا دے گی۔<br />"تم نے صبح سے کچھ کھایـا ہے؟" مـیں نے زرینہ سے سوال کیـا۔<br />"جی تھوڑا سا کھایـا تھا۔" زرینہ نے جواب دیـا۔<br />"تم یہاں نہ بیٹھو یـا تو صوفہ پر لیٹ جائو یـا پھر اندر جا کر بیڈ پر لیٹو ایسے بیٹھی رہوگی تو آرام نہیں ملے گا۔" مـیں نے زرینہ کو کہا۔<br />" جی اچھا" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے مـیں لڑکھڑانے لگی تو مـیں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا دیـا ، سہارا دیتے وقت مـیں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ رگڑا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا تھا اسکے ممے زیـادہ نہیں تو 32 سائز کے تو ہونگے۔<br />"تم تو کافی کمزور لگ رہی ہو، چلو مـیں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا ہوں۔" یہ کہہ کر مـیں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم مـیں لے گیـا اور اسکو بیڈ پر لٹا دیـا۔ پھر کچن مـیں جا کر اسکے لیے ایک سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے مـیں لے گیـا۔<br />"چلو یہ کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا ہے" یہ کہتے ہوئے مـیں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایـا۔ جواب مـیں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور مـیں نے ٹی وی آن کر لیـا ۔ مـیں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی وقتنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔ مـیں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ٹی وی اور مـیرے بیچ مـیں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسکو ہوش نہیں تھا کہ مـیں اسے دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔ خیر وہ سین ختم ہوا تو مـیں نے چینل تبدیل کیـا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حالات خراب ہو گئے ہنگامے شروع ہو گئے۔ مـیں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی جگہ گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ خیر مـیں سوچنے لگا کہ ماسی کیسے آئےاور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی مـیں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی مـیں نے بھاگ کر فون اٹھایـا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ مـیں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے جو ایریـا بتایـا وہ مـیرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں کے حالات خراب تھے۔مـیں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا کہ وہ طرح آئےمـیرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے جواب دیـا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو خطرے مـیں ڈالنا ہے۔مـیں نے ماسی سے کہا اگر مـیرے گھر تک آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات مـیرے گھر پر ہی رکو۔ ماسی نے مـیرا بہت شکریہ ادا کیـا۔ اور کہا وہ پوری کوشش کرےکہ زرینہ کو لینے آجائے۔ مـیں نے کہا تم زرینہ کی فکر نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر مـیں نے اسکی زرینہ سے بھی بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔ زرینہ بھی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد مـیں نے زرینہ کو دوا دے دی۔ اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئےتو مـیں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر مـیں روم سے باہر نکل گیـا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی مـیں اپنے دماغ مـیں پلان کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیـا اور اس نے بتایـا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب حالات کی وجہ سے۔ مـیں دل ہی دل مـیں بہت خوش ہوا اور دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو مـیں زرینہ کے ساتھ اپنی رات رنگین کر لوں۔مـیں نے ٹی وی لائونج والا ٹی وی آن کیـا تو پتہ لگا شہر کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر مـیں کرفیو لگ گیـا ہے۔مـیں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر مـیں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا گھر مـیں پھر بھوک لگنے لگی تو مـیں نے کچن مـیں جاکر کھانا گرم کیـا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔ مـیں اسکے قریب گیـا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا اس طرح کے مـیری انگلیـاں اسکی قمـیض کے گلے کے اندر تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔ اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔مـیں نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب مـیں وہ بھی مسکرائی۔ مـیں نے اس سے کہا چلو مـیں نے کھانا گرم کر لیـا ہے چل کر کھا لو۔اس نے کہا مـیں پوری پسینے مـیں بھیگی ہوئی ہوں مـیں شاور لینا چاہتی ہوں مـیں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ مـیں گرم پانی سے شاور لینا۔اس نے اثبات مـیں سر ہلایـا اور باتھ مـیں چلی گئی۔ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں ہے اندر مـیں نے جلدی سے تولیہ لیـا اور اس سے کہا لے لو تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیـا۔اس نے ذرا سا دروازہ کھولا جب مـیں نظر نہ آیـا تو مزید کھولا بس مـیں اسی لمحے کے انتظار مـیں تھا مـیں ایک دم اسکے سامنے تولیہ ہاتھ مـیں لیے آگیـا۔وہ پوری ننگی مـیرے سامنے تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا ی لگ رہا تھا۔وہ ایک دم ہڑبڑا گئی اور مـیں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایـا اور ایک سائیڈ پر ہوگیـا اور پھر روم سے باہر نکل گیـا۔ذرا دیر بعد وہ شرماتی ہوئی کھانے کی مـیز تک آئی۔ اور خاموشی سے چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔ مـیں نے پوچھا اب کچھ بہتر لگ رہی ہو تم ۔ وہ کہنے لگی جی اب کافی بہتر ہوں۔ مـیں نے اسے بتایـا کہ شہر کے حالات خراب ہیں اور کرفیو لگ گیـا ہے نجانے تمہاری نانی طرح آئےتم کو لینے جس جگہ پر وہ ہے ابھی وہاں تو بہت ہی حالات خراب ہیں ورنہ مـیں تم کو خود چھوڑ آتا نانی کے پاس اگر وہ نہ آسکی تو تم کو رات یہیں رکنا ہوگا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔ ابھی ہم کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماسی کا دوبارہ فون آیـا۔ مـیں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتایـا کہ وہ اسی گھر مـیں ہے اور اب نکل نہیں سکتی اور نہ وہ گھر والے اسے جانے دے رہے ہیں کیونکہ شہر مـیں کرفیو لگا ہے۔ مـیں نے پوچھا تو مـیں تمہارے پاس لے آئوں زرینہ کو وہ اب کافی بہتر ہے۔ تو اس نے پھر درخواست کی کہ مـیں اسے کہیں نہ جانے دوں اور رات رکنے کی اجازت دے دوں مـیں نے کہا مجھے اعتراض نہیں مگر تمہاری نواسی پریشان ہے اسکو تسلی دو یہ کہہ کر مـیں نے زرینہ کو فون دیـا ماسی نے فون پر زرینہ سے نجانے کیـا کہا ۔ کہ وہ کافی مطمئن ہوگئی۔ مـیں دل ہی دل مـیں بہت خوش تھا اور یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ خیر زرینہ نے ہمت کر کے سارے برتن دھوئے۔کچن کی صفائی مـیں زرینہ کی مدد کرتا رہا۔ اور بار بار اسکے جسم کو بہانے بہانے سے چھوتا رہا۔ اور اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتا رہا وہ کبھی خوش ہوتی کبھی شرماتی کیونکہ اسکو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیـا بلا ہے۔خیر وہ کام سے فارغ ہوئی تو مـیں نے اسکو کہا اب تم کو رات تو یہیں گذارنی ہے تو اسکو اپنا ہی گھر سمجھو۔ی بات مـیں شرمانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے تو کھائو کوئی منع نہیں کرے گا۔زرینہ کے چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔مـیں نے زرینہ سے کہا تمہاری دوا کا بھی وقت ہو گیـا ہے تم دوا کھائو پھر ہم دونوں بیٹھ کر فلم دیکھتے ہیں۔مـیں نے اسے بتایـا کہ کونسی دوا کھانی ہے اس نے دوا کھائی پھر ہم دونوں مـیرے روم مـیں آگئے۔مـیں اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اسکو سیکے بارے مـیں زیـادہ معلومات نہیں تھیں۔ پھر مـیں نے پوچھا کہ فلم دیکھتی ہو تو اس نے جواب دیـا کبھی کبھی دیکھتی ہے۔ تو مـیں نے پوچھا کیـا اچھا لگتا ہے فلم مـیں تو اس نے جواب دیـا گانے اور ڈانس۔ بس اب مـیں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیـا اور ایک ویب سائٹ پر جا کر ایک ی مجرا لگا دیـا۔ پھر اس سے پوچھا ایسے ڈانس اچھے لگتے ہیں کیـا۔ اس نے کہا ایسا تو کبھی نہیں دیکھا۔ مـیں نے کہا چلوآج دیکھو۔اس مجرے مـیں وہ ڈانسر اپنے ممے ہلا ہلا کر دکھا رہی تھی اور کافی دفعہ اس نے اپنی شرٹ اوپر کر کے اپنے ممے بھی دیکھا دیے مـیں بغور زرینہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ کیـا محسوس کر رہی ہے۔بالآخر وہ وقت آیـا جب اسکی سانس تیز ہوئی اور وہ بار بار اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرنے لگی۔ تو مـیں نے پوچھا کیـا ہوا اچھا نہیں لگا کیـا ڈانس؟اس نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا نہیں اچھا نہیں لگا۔ مـیں نے پھر پوچھا کیوں؟ اس نے کہا گندا ہے۔ مـیں ہنسنے لگا اور کہا کیوں گندا ہے وہ یہ دکھا رہی تھی اس لیے گندا ہے یہ کہتے ہوئے مـیں نے اسکے مموں کو چھوا اسکو ایک دم جیسے کرنٹ لگا۔ وہ ہراساں ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔مـیں نے کہا پریشان نہ ہو مـیں تو مذاق کر رہا تھا۔ پھر کہا چلو فلم دیکھتے ہیں مـیں نے ڈھونڈ کر ایک سوفٹ کور مووی نیٹ پر لگا دی۔ ذرا دیر مـیں اس پر ی سین اسٹارٹ ہوگئے جونگ سے اسٹارٹ ہوئے اور پھر گھوڑی اسٹائل پر ختم اور ایک کے بعد ایک سین ذرا دیر مـیں شروع ہو جاتا تھا۔مـیں اسکا سرخ ہوتا چہرے بغور دیکھ رہا تھا اسکی سانسیں بھی بے ترتیب ہورہی تھیں۔ مـیں نے چپکے سے منہ اسکے کان کے پاس کیـا اور پوچھا کیسی ہے فلم؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور اپنے چہرے کے اتنے قریب دیکھ کر بدحواس ہو گئی۔مـیں نے ہمت کر کے اسکا ہاتھ پکڑا جسکو اس نے چھڑایـا نہیں اسکو کیـا معلوم تھا کہ مـیں نے اسکا ہاتھ کیوں پکڑا ہے۔دوسرے ہاتھ سے مـیں نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے مزید نزدیک کیـا اور ایک کی اسکے گال پر۔ اور آہستہ سے اسکے کان مـیں کہا تم بہت خوبصورت ہو زرینہ۔ مـیری بات سن کر اسکا چہرہ مزید سرخ ہوگیـا مجھے اسکا جسم گرم لگنے لگا۔ مگر یہ گرمـیی اور بخار کی تھی جو دوا سے اترنے والا نہیں تھا۔مجھے خوشی یہ تھی کہ وہی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہی تھی۔مـیں نے مزید ہمت کی اور اپنا ایک ہاتھ اسکے ایک ممے پر رکھ دیـااور اسکو ہلکا سا دبایـا مجھے اسکے جسم مـیں کپکپاہٹ صاف محسوس ہو رہی تھی۔اسکی سانس اب اتنی تیز تھی جیسے کافی دور سے دوڑ کر آرہی ہو۔اسکا جسم کافی کم سن عمر کی لڑکی کا جسم تھا۔ مگر اسکے ممے اور اسکی گانڈ اتنی زبردست تھی کہ دیکھنے والا چودنے کی خواہش ضرور کرےگا۔ اب مـیں نے اسکے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں مـیں دبا لیـا اور چوسنے لگا مـیں نے دیکھا کہ زرینہ نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور وہ مزہ لے رہی تھی۔مـیری اور ہمت بڑھی اور مـیں نے اسکو اپنی بانہوں مـیں جکڑ لیـا اور اپنے سینے سے چمٹالیـا۔ مـیری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے بھی مجھےی فلمـی ہیروئین کی طرح جکڑ لیـا۔بس اب کیـا تھا اب تو مـیں نے بے تحاشہ اسکو کرنا شروع کردیـا۔وہ مـیرینگ سے ہی مدہوش ہونے لگی تھی۔ ابھی تو بڑی منزلیں باقی تھیں ابھی تو مـیری اس رانی کو انکا بھی مزہ چکھنا تھا۔اسکے ممے مـیرے سینے سے بری طرح مسلے جا رہے تھے مگر اسکو پرواہ نہیں تھی۔ وہ بھرپور مزہ لے رہی تھی۔اب مـیں نےنگ بند کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھا ۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے مدہوش ہو کر کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی اپنے ہاتھ کو جو مـیرے لنڈ پر تھا مـیرا لنڈ مـیری جینز سے باہر آنے کو مچل رہا تھا۔مـیں نے اسکی آنکھوں مـیں آنکھیں ڈال کر پوچھا کبھی دیکھا ہےی کو ننگا ؟ اس نے جواب نفی مـیں صرف سر ہلا کر دیـا۔ مـیں نے پوچھا یہ جس چیز پر تمہارا ہاتھ ہے اسکو دیکھو۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیـا اور نظر مـیری لنڈ پر گاڑ دی۔ مـیں نے اس حرکت کو مثبت جواب سمجھا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی جینز کی زپ کو کھولا اور اس سے کہا اپنا ہاتھ ڈالو اندر۔ اس نے ذرا بھی نہیں کی مـیں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جینز کی کھلی ہوئی زپ پر رکھا تو اس نے خود کوشش کی ہاتھ کو اندر ڈالنے کی وہ تھوڑا جھجھک رہی تھی ورنہ مـیرا یقین یہ تھا کہ وہ بھی سب کچھ چاہ رہی ہے مگر اسکو کیـا اندازہ کہ سب کچھ کیـا ہے۔خیری طرح اس کا ہاتھ مـیری زپ کے اندر چلا گیـا اب مـیرے لنڈ اوراسکے نازک ہاتھ کے درمـیان صرف انڈر وئیر تھی۔ مـیں نے پوچھا کیسا لگا تم کو یہ۔ تو اس نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیـا۔بس اسی دم مـیں نے اپنی جینز کا بٹن کھول دیـا اور اسکا ہاتھ باہر نکالا۔ اور فرش پر کھڑے ہو کر اپنی جینز اتار دی اب مـیں صرف انڈروئیر اور شرٹ مـیں تھا۔لنڈ بری طرح سخت ہو رہا تھاانڈروئیر مـیں جسکی وجہ سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔اس نے جیسے ہی مجھے ننگا دیکھا دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیـا۔مجھے اسکی اس ادا پر بہت پیـار آیـا۔مـیں اسکے قریب آیـا اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر پھر سے رکھا اور کہا انکھیں کھولو۔ اس نے آنکھیں کھولی اور مـیری چھپے ہوئے لنڈ کو دیکھا۔ مـیں نے کہا چلو مـیری انڈر وئیر اتارو اس کے منہ سے بے اختیـار نہیں نکلا۔ مـیں نے کہا یـار کیـا شرما رہی ہو تم ابھی مـیں نے بھی تو تم کو ننگا دیکھا تھا جب تم باتھ روم مـیں تھی ۔ وہ سین یـاد آتے ہی اسکا چہرہ پھر سے سرخ ہونے لگا۔خیر مـیں نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈر وئیر ان مـیں دی اور اس سے کہا چلو زرینہ اتارو اسے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے مـیری انڈروئیر کو نیچے کیـا جیسے ہی انڈروئیر نیچے ہوئی مـیرا لمبا موٹا پھنپھناتا ہوا لنڈ ایک جھٹکے سے باہر نکلا اور اوپر نیچے ہو کر زرینہ کو سلامـی دینے لگا۔ مگر زرینہ ایک دم اچھل کر ایسے پیچھے ہوئی جیسے سانپ دیکھ لیـا ہو۔باقی انڈروئیر مـیں نے خود اتاری پھر ساتھ ہی شرٹ بھی اتار کر مـیں کپڑوں سے آزاد ہو گیـا۔ اب زرینہ کے اور قریب ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ مـیں نے کہا اسکو ہاتھ مـیں لو۔ تو وہ نہ مانی تو مـیں نے زبردستی اسکے ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیئے پہلے تو وہ ڈری مگر پھر کچھ سیکنڈ مـیں اس نے مـیرا لنڈ اپنے ہاتھ مـیں لے لیـا۔اسکے نازک ہاتھ کا لمس ملتے ہی مـیرا لنڈ مزید لمبا اور سخت ہونے لگا۔مـیرا لمبالنڈ اسکے ہاتھ مـیں پورا بھی نہیں آرہا تھا۔مـیں نے اس سے کہا چلو اس پر پیـار کرو۔ وہ نہ مانی مگر بار بار کہتا رہا آخر اس نے ہمت کی اور مـیرے لنڈ کے ٹوپے پر ایک ہلکی سی کی۔ پھر مـیں نے اس سے کہا اسکو منہ مـیں لو اور لولی پوپ کی طرح چوسو۔ اس نے صاف منع کردیـا تو مـیں نے کہا ابھی جو فلم مـیں سب دیکھا تھا نا ویسا کرنا ہے تم کو۔ خیر بڑی دیر تک منایـا تو اس نے مـیرا لنڈ اپنے منہ مـیں لیـا۔ اتنی دیر بحث کرنے مـیں لنڈ تھوڑا ڈھیلا ہوگیـا تھا مگر جیسے ہی زرینہ کہ منہ کا گیلا پن اور گرمـی اسکو ملی اس مـیں واپس سے کرنٹ دوڑ گیـا اور وہ زرینہ کے منہ مـیں رہتے رہتے ہیں پورا تن کر کھڑ اہوگیـا۔اب مـیرا لنڈ پورا تیـار تھا اب زرینہ کی چوت کو تیـار کرنا تھا جو ذرا مشکل کام تھا، مـیں نے زرینہ کا تعارف اپنے لنڈ سے سرسری طور پر تو کروا دیـا تھا مگر اب اصل تعارف کی باری تھی۔مـیں نے زرینہ سے کہا اپنی شرٹ اتارو مجھے تمہارے سینے پر پپی کرنی ہے وہ بہت شرمائی اور منع کرتی رہی مگر مـیں نے اسکو بہت سمجھایـا کہ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا مـیرے سوا اور نہی کو پتہ لگے گا۔ تو آخر کار وہ مان گئی اور جیسے ہی اسکی شرٹ اتری اسکے 32 سائز کے ممے اچھل کر سامنے آئے۔ ایک دم ٹینس بال کی طرح گول اسکے نپلز گلابی اور نوکیلے تھے۔سو فیصد سیل آئٹم تھی وہ مـیری رانی۔اسکا بدن اتنا گورا تو نہیں مگر اسکی جلد مـیں بہت کشش تھی۔ایک دم نمکین۔ مـیں نے جلدی سے پہلا حملہ کیـا اور اسکا ایک مما اپنے منہ مـیں لے کر بے تحاشہ چوسنا شروع کیـا اسکے منہ سے آہیں نکلنے لگیں۔ جیسے ہی مـیں اسکے نپلز کو چوستا اسکا پورا بدن اکڑ جاتا تھا۔ مـیں کافی دیر اسکو اسی طرح مست کرتا رہا۔وہ بے حال ہو رہی تھی۔پھر اسکو ہوش نہ رہا اور مـیں نے خاموشی سے اپنا ایک ہاتھ اسکی شلوار مـیں داخل کردیـا اسکی شلوار مـیں الاسٹک تھی۔مـیں سیدھا اپنا ہاتھ اسکی شلوار مـیں گھسیڑتا ہوا اسکی چوت تک لے گیـا اور اسپر اپنی ایک انگلی رکھ کر ہلکا سا دبایـا تو ایک دم زرینہ کو جیسے ہوش آگیـا۔مگر مجھ پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ اسکی چوت پوری طرح گیلی تھی۔اسنے خود کو کنٹرول کرنے کے لئے اور کچھ سمجھ نہ آیـا تو مـیرا ہاتھ اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ دبا لیـا۔مگر اس سے کیـا ہوتا مـیری انگلی تو اسکی چوت پر دستک دے رہی تھی۔ مـیں نے صرف انگلی سے ہی اسکی چوت کو سہلانا شروع کردیـا۔ وہمساتی رہی مگر مـیں باز نہ آیـا ، آج مـیں اسے جنگلیوں کی طرح چودنا چاہتا تھا سو مـیں اس پر ذرا بھی رحم کرنے کو تیـار نہ تھا۔کافی دن کے بعد تو ایک کنواری لڑکی ہاتھ آئی تھی ورنہ تو آنٹیـاں ہی کثرت سے ملا کرتی تھیں۔ خیر ذرا دیر بعد اس نے یہ معمولی سی مزاحمت بھی چھوڑ دی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں اور مموں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی چوت کو سہلائے جانے کا بھی مزہ لے رہی تھی۔بخار کی وجہ سے اسکو تھوڑی کمزوری تو پہلے ہی تھی اسی لیے وہ جلدی مدہوش بھی ہوئی اور نشے سے چور۔اب مـیں نے ذرا دیر مزید اسکی چوت کو سہلایـا اور پھر اس سے پوچھے بنا اسکی شلوار بھی اتار دی۔ اب ہم دونوں کپڑوں سے بالکل آزاد تھے۔مـیں نے چاٹ چاٹ کر اسکا جسم گیلا کردیـا تھا اسکا بدن بہت چکنا تھا بس ملائی تھی وہ پوری۔مـیرا لنڈ جو ڈھیلا ہوچکا تھا وہ واپس سے پورا تن چکا تھا، اور زرینہ کی چوت مـیں انٹری مانگ رہا تھا۔مـیں زرینہ کو چومتے چومتے اس پوزیشن مـیں آگیـا کہ مـیں زرینہ کے اوپر پورا لیٹ چکا تھا اور مـیرا لنڈ اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ تھا زرینہ کو نہیں معلوم تھا کہ مـیرا لنڈ اسکی چوت مـیں جائے گا اور وہ اس طرح حاملہ ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ سب اسے علم ہوتا تو وہ کب کی مـیرے گھر سے بھاگ چکی ہوتی۔وہ تو بس اپنے جسم کو سہلائے جانے سے جو مزہ مل رہا تھا اسکو انجوائے کر رہی تھی۔زرینہ کی چوت سے کافی پانی نکل چکا تھا اور وہ پوری گیلی تھی مـیں نے اپنا لنڈ اسکی چوت پر ذرا دیر رگڑا اور اسکا ٹوپا پوری طرح زرینہ کی چوت کے پانی سے گیلا کیـا۔پھر زرینہ سے کہا تھوڑی سی ٹانگیں کھولو۔اس نے فوراً مـیری بات مان لی بس اب مجھے جلدی اپنا لنڈ اسکی چوت مـیں ڈالنا تھا اگر اسکو ذرا بھی سنبھلنے کا موقع ملتا تو تکلیف کی وجہ سے وہ مجھے کبھی اپنی چوت مـیں داخل نہ ہونے دیتی۔مـیں نے بھی وقت ضائع نہ کیـا اور لنڈ کو سیدھا کر کے اسکی چوت کے منہ پر سیٹ کیـا اور ایک ہی جھٹکے مـیں پورا ٹوپا اسکی چوت مـیں گھسیڑ دیـا۔ زرینہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو وہ مـیری منتیں کرنے لگی کے مـیں اپنا لنڈ واپس نکال لوں مـیں اسکو تسلیـاں دینے لگا اور اسی بحث مـیں ذرا دیر گذری تو زرینہ کا درد ختم ہو گیـا مـیں نے اس سے پوچھا اب بھی درد ہے کیـا اس نے کہا نہیں مگر اسکو باہر نکالو۔مـیں نے اسے پھر بہلایـا بس ذرا دیر اندر رہنے دو پھر نکال لونگا۔ یہ کہہ کر مـیں اسکے ہونٹ چوسنے لگا۔ وہ بھی چوت کو بھول کر ہونٹ چوسنے مـیں ساتھ دینے لگی۔بس یہ موقع کافی تھا ویسے ہی لیٹے لیٹے مـیں نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور آدھے سے زیـادہ لنڈ اسکی چوت مـیں گھسیڑ دیـا۔ایک بار پھر وہ درد سے بلبلانے لگی مگر اس بار اسکا منہ مـیں نے اپنے منہ سے بند کیـا ہوا تھا۔وہ مـیری کمر پر اپنے ناخنوں سے بری طرح نوچنے لگی۔مگر مـیں اب کہاں اسکو چھوڑنے والا تھا۔کونسا ایسا لنڈ ہوگا جسکے سامنے گیلی چوت ہو اور وہ اس مـیں نہ جانا چاہے خاص طور پر وہ چوت جس مـیں کوئی لنڈ کبھی گیـا ہی نہ ہو۔خیر تھوڑی دیر مـیری کمر نوچنے کے بعد وہ ٹھنڈی ہونے لگی اور نڈھال بھی۔اب اس نے خود کو مـیرے حوالے کردیـا تھا۔مـیں نے اسکے ہونٹوں سے ہٹ کر اسکا چہرہ دیکھا وہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا مجھے ایک لمحے کو اس پر ترس تو آیـا مگر اگلے لمحے اسکی نرم گرم گیلی چوت کا لمس اپنے لنڈ پر محسوس کرتے ہی مـیں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔اب مـیں سیدھا ہو کر اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تو دیکھا مـیرا لنڈ اسکی چوت سے نکلنے والے خون سے سرخ ہو رہا تھا مـیں نے سوچا اگر ابھی صفائی کا سوچا تو اس رانی کا دماغ بدل جائے گا۔ سو بس تھوڑا سا لنڈ باہر نکالا اور پھر آہستہ سے اندر کیـا ایک بار پھر اسکی منہ سے سسکاری نکلی۔ مگر شاید اسکو تکلیف نہ تھی۔ تو اب فیصلہ کیـا فوراً ہی پورا لنڈ اندر ڈالو اور بس شروع کرو چدائی۔ بس دو چار بار اسی طرح مـیں نے لنڈ اندر باہر کیـا اور ایک بار بھرپور جھٹکا مارا تو مـیرا پورا لنڈ اسکی چوت مـیں گھس گیـا۔ وہ ایک بار پھر سے پھڑپھڑائی۔ مگر جلد ہی خود ہی سنبھل گئی۔اب مـیں نے لنڈ کو اندر ہی رکھ کر ذرا اور دبایـا تو اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نہ دیکھ کر مـیں سمجھ گیـا چوت تیـار ہے زبردست چدائی کے لئے۔بس اب مـیں نے لنڈ کو پہلے آہستہ آہستہ اندر باہر کیـا اور ذرا دیر بعد اپنی رفتار بڑھا دی۔اب مـیرے ہر جھٹکے پر اسکے منہ سے آہ تو نکلتی تھی مگر چہرے پر تکلیف کے آثار نہیں بلکہ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ذرا دیر بعد وہ مزے کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ اور اپنا سر کبھی دائیں کبھی بائیں کرتی کبھی ہاتھ سے اپنے ممے دباتی کبھی ہونٹ دانتوں سے دباتی۔اچانک اسکے منہ سے تیز تیز آہیں نکلیں اور ایک دم اسکا جسم اکڑا اور جھٹکے لے کر کپکپانے لگا۔مـیں سمجھ گیـا اسکی چوت اپنا پانی اگل رہی ہے۔ مجھے ابھی فارغ ہونے مـیں وقت تھا۔جیسے ہی اسکی چوت نے پانی اگلا مـیں نے جلدی سے لنڈ باہر نکالا وہ نڈھال ہو کر چاروں شانے بیڈ پر پڑی دعوت دے رہی تھی کے آئو اور چود ڈالو۔ مـیں جلدی سے اپنی الماری کی طرف بڑھااور وہاں سے ایک کونڈم نکال کر اپنے لنڈ پر چڑھایـا اور دوبارہ سے پورا لنڈ اسکی چوت مـیں ڈال دیـا۔ ایک بار پھر وہ ہی جھٹکوں کے سلسلے۔ ذرا دیر مـیں وہ دوبارہ چارج ہوئی اور پھر اسکی منہ سے آہیں نکلنے لگیں مگر اس بار وہ اپنی چوت کو اچھال کر مـیرا پورا پورا لنڈ وصول کر رہی تھی۔تھوڑی دیر اسی طرح چدائی کے بعد مـیرے لنڈ نے بھی لاوا اگلنا شروع کیـا اور اسی وقت اسکی چوت نے بھی دوبارہ پانی چھوڑا۔ مـیں نے اپنی منی کا آخری قطرہ بھی کونڈم مـیں اسکی چوت کے اندر ہی نکال دیـا۔<br />تھوڑی دیر اسی طرح نڈھال پڑے رہے ہم دونوں پھر پہلے مـیں اسکو لے کر باتھ گیـا وہاں اسکو اچھی طرح دھویـا اس سے اب ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔پھر مـیں نے باتھ لیـا اور کپڑے تبدیل کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی رات ایک بار پھر مـیں نے اور زرینہ نے بھرپور چدائی کی مگر اس بار زرینہ ایک پوری پوری رنڈی کی طرح مجھے ملی اس رات کیـا ہوا یہ جاننے کے لئے مجھے ای مـیل کیجے تاکہ اسکے آگے کی کہانی بیـان کر سکوں</b>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-71759362880213992342012-03-28T05:18:00.000-07:002012-03-28T05:18:02.690-07:00

my story

<span style="color: blue;"><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">م!</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیرا نام کومل ہے. مـیری عمر 27 سال ہے اور مـیں شادی شدہ ہوں. مـیرے شوہر آرمـی مـیں ہیں. مـیں اپنے ساس - سسر کے ساتھ اپنے سسرال مـیں رہتی ہوں. شوہر آرمـی مـیں ہیں تو اس وجہ سے مـیں کئی کئی ماہ لنڈ کو ترستي رہتی ہوں. ویسے تو مـیرے ارد گرد گلی محلے مـیں بہت سارے لنڈ رہتے ہیں پر ساس - سسر کے ہوتے یہ مـیرےی کام کے نہیں.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیری گلی کے سارے لڑکے مجھے پٹانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. مـیرے ممے لڑکوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں. مـیری بڑی سی گانڈ دیکھ کر لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے اور وہ کھڑے کھڑے لنڈ کو ہاتھ مـیں پکڑ لیتے ہیں. مـیرے ریشمـی لمبے بالوں مـیں پتہ نہیں کتنے لڈو کے دل اٹكے پڑے ہیں. مـیری پتلی کمر، مـیرے گلابی گلابی ہونٹ، لڑکوں کو مـیرے گھر کے سامنے کھڑے رہنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں. سب مجھے پٹانے کے ہتھکنڈے اجماتے رہتے تھے پر مـیںی سے نہیں پٹ رہی تھی. کمپیوٹر پر ضرور چیٹنگ کرکے اپنی پیـاس ہاتھ سے بجھا لیتی. چیٹنگ پر مجھے لڑکے اکثر اپنا موبائل نمبر دینے اور ملنے کو کہتے مگر مـیں سب کو منع کر دیتی. پھر بھی ایک - دو نے اپنا نمبر دے دیـا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">ان سب دوستوں مـیں ایک اےنار آئی بڈھا بھی تھا. وہ کچھ دن بعد پاکستان آنے والا تھا. اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے، مگر مـیں نے انکار کر دیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">کچھ دن کے بعد اس نے پاکستان آنے کے بعد مجھے اپنا فون نمبر دیـا اور اپنی تصویر بھی بھیجی اور کہا - مـیں اکیلا ہی آیـا ہوں، باقی ساری فیملی امریکہ مـیں ہیں.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف مجھے دیکھنا چاہتا ہے بے شک دور سے ہی سہی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اب تو مجھے بھی اس پر ترس سا آنے لگا تھا. وہ جہلم کا رہنے والا تھا اور مـیرا گاؤں بھی جہلم کے پاس ہی ہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اگلے مہینے مـیری ساس کی بہن کے لڑکے کی شادی آ رہی تھی جس کے لئے مجھے اور مـیری ساس نے شاپنگ کے لئے جہلم جانا تھا. مگر کچھ دنوں سے مـیری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو اس نے مجھے اکیلے ہی جہلم چلی جانے کو کہا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">جب مـیں نے اکیلے جہلم جانے کی بات سنی تو ایک دم سے مجھے اس بوڑھے کا خیـال آ گیـا. مـیں نے سوچا کہ اسی بہانے اپنے بوڑھے عاشق کو بھی مل آتی ہوں.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے نہاتے وقت اپنی جھاٹے صاف کر لی اور پوری سج - سںور کر بس مـیں بیٹھ گئی اور راستے مـیں ہی اس بوڑھے کو فون کر دیـا. اسے مـیں نے ایک جوس - بار مـیں بیٹھنے کے لئے کہا اور کہا - مـیں ہی وہاں آ کر فون کروں گی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں آپ کو بوڑھے کے بارے مـیں بتا دوں. وہ 55-60 سال کا لگتا تھا. اس کے سر کے بال سفید ہو چکے تھے پر اس کی جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی اسمے اس کی باڈی اور اس کا چہرہ مجھے اس سے ملنے کو مجبور کر رہا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">بس سے اترتے ہی مـیں رکشہ لے کر وہاں پہنچ گئی جہاں پر وہ مـیرا انتظار کر رہا تھا. اس نے مـیری تصویر نہیں دیکھی تھی اس لئے مـیں تو اسے پہچان گئی پر وہ مجھے نہیں پہچان پایـا. مـیں اس سے تھوڑی دور بیٹھ گئی.وہ ہر عورت کو آتے ہوئے غور سے دیکھ رہا تھا مگر اس کا دھیـان بار بار مـیرے بڑے بڑے مممو اور اٹھی ہوئی گانڈ کی طرف آ رہا تھا. وہی کیـا وہاں پر بیٹھے تمام مرد مـیری گانڈ اور مممو کو ہی دیکھ رہے تھے. مـیں آئی بھی تو سج - دھج کر تھی اپنے بوڑھے یـار سے ملنے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">تھوڑی دیر کے بعد مـیں باہر آ گئی اور اسے فون کیـا کہ باہر آ جائے. مـیں تھوڑی چھپ کر کھڑی ہو گئی اور وہ باہر آ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے اسے کہا - تم اپنی گاڑی مـیں بیٹھ جاؤ، مـیں آتی ہوں.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ اپنی گاڑی مـیں جاکر بیٹھ گیـا، مـیں نے بھی ادھر ادھر دیکھا اور اس کی طرف چل پڑی اور جھٹ سے جا کر اس کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مجھے دیکھ کر وہ حیران رہ گیـا اور کہا - تم ہی تو اندر گئی تھی، پھر مجھے بلایـا کیوں نہیں؟</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے کہا - اندر بہت سارے لوگ تھے، اس لیے!</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے دھیرے دھیرے گاڑی چلانی شروع کر دی، اس نے مجھے پوچھا - اب تم کہاں جانا چاهوگي؟</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے کہا - کہیں نہیں، بس تم نے مجھے دیکھ لیـا، اتنا ہی کافی ہے، اب مجھے شاپنگ کرکے واپس جانا ہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے کہا - اگر تم برا نا مانو تو مـیں تمہیں کچھ تحفہ دینا چاہتا ہوں. کیـا تم مـیرے ساتھ مـیرے گھر چل سکتا ہو؟</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس کا جہلم مـیں ہی ایک شاندار بنگلہ تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پہلے تو مـیں نے انکار کر دیـا پر اس کے مزید زور ڈالنے پر مـیں مان گئی. پھر ہم اس کے گھر پہنچے. مجھے احساس ہو چکا تھا کہ اگر مـیں اس کے گھر پہنچ گئی ہوں تو آج مـیں ضرور چدنے والی ہوں.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں گاڑی سے اتر کر اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اندر جا کر اس نے مجھے پوچھا - کیـا پیوگی تم کومل؟</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">"کچھ نہیں! بس مجھے تھوڑا جلدی جانا ہے!"</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ بولا - نہیں ایسے نہیں! اتنی جلدی نہیں .. ابھی تو ہم نے اچھے سے باتیں بھی نہیں کی!</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">"اب تو مـیں نے تمہیں اپنا فون نمبر دے دیـا ہے، رات کو جب جی چاہے فون کر لینا .. مـیں اکیلی ہی سوتی ہوں."</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">"پلیز! تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی!"</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے کچھ نہیں کہا اؤر صوفے پر بیٹھ گئی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ جلدی سے کولڈنگ لے آیـا اور مجھے دیتے ہوئے بولا - یہ کولڈرنگ ہی پی لو پھر چلی جانا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے وہ لے لیـا. وہ مـیرے پاس بیٹھ گیـا اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">باتوں ہی باتوں مـیں وہ مـیری تعریف کرنے لگا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ بولا - کومل .. جب جوس بار مـیں تمہیں دیکھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کاش کومل ایسی ہو، مگر مجھے کیـا پتہ تھا کہ نرم یہی ہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">رہنے دو! جھوٹی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے جی! مـیں نے کہا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے بھی موقع کے حساب سے مـیرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا - سچ مـیں نرم، تم بہت خوبصورت ہو.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیرا ہاتھ مـیری ران پر تھا اور اس پر اس کا ہاتھ!</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ دھیرے دھیرے مـیرا ہاتھ رگڑ رہا تھا. کبھی کبھی اس کی انگلیـاں مـیری ران کو بھی چھو جاتی جس سے مـیری پیـاسی جوانی مـیں ایک بجلی سی دوڑ جاتی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اب مـیں مدہوش ہو رہی تھی. مگر پھر بھی اپنے اوپر قابو رکھنے کا ڈرامہ کر رہی تھی جسے وہ سمجھ چکا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پھر اس نے ہاتھ اوپر اٹھانا شروع کیـا اور اس کا ہاتھ مـیرے بازو سے ہوتا ہوا مـیرے بالوں مـیں گھس گیـا، مـیں چپ چاپ بیٹھی مدہوش ہو رہی تھی اور مـیری سانسیں گرم ہو رہی تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس کا ایک ہاتھ مـیری پیٹھ پر مـیرے بالوں مـیں چل رہا تھا اور وہ مـیری تعریف کئے جا رہا تھا. پھر دوسرے ہاتھ سے اس نے مـیری گال کو پکڑا اور چہرہ اپنی طرف کر لیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے بھی اپنا ہاتھ اپنی گال پر اس کے ہاتھ پر رکھ دیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے اپنے ہونٹوں کو مـیرے ہونٹوں پر رکھ دیـا اور مـیرے ہونٹوں کا رس چوسنا شروع کر دیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب مـیں اس کا ساتھ دینے لگی. پھر اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیـا اور مجھے اپنی گود مـیں بٹھا لیـا. اب مـیرے دونوں چوچے اس کی چھاتی سے دب رہے تھے. اس کا ہاتھ اب کبھی مـیری گانڈ پر، کبھی بالوں مـیں، کبھی گالوں مـیں، اور کبھی مـیرے مممو پر چل رہا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں بھی اس کے ساتھ کر چپک چکی تھی اور اپنے ہاتھ اس کی پیٹھ اور بالوں مـیں گھما رہی تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">15-20 منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے کو چومتے - چاٹتے رہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پھر اس نے مجھے اپنی باہوں مـیں اٹھا لیـا اور بیڈروم کی طرف چل پڑا. اس نے مجھے زور سے بیڈ پر پھینک دیـا اور پھر مـیری ٹانگیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیـا. وہ مـیری دونوں ٹانگوں کے درمـیان کھڑا تھا. پھر وہ مـیرے اوپر لیٹ گیـا اور پھر سے مجھے چومنے لگا. اسی دوران اس نے مـیرے بالوں مـیں سے ہیئر رنگ نکال دیـا جس سے بال مـیرے چہرے پر بکھر گئے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مجھے یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا، اب تو مـیں بھی شہوت کی آگ مـیں ڈوبے جا رہی تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پھر اس نے مجھے پکڑ کر کھڑا کر دیـا اور مـیری قمـیض کو اوپر اٹھایـا اور اتار دیـا. مـیری برا مـیں سے مـیرے ستن جیسے پہلے ہی آزاد ہونے کو پھر رہے تھے. وہ برا کے اوپر سے ہی مـیرے ستن مسل رہا تھا اور چوم رہا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پھر اس کا ہاتھ مـیری پجامي تک پہنچ گیـا. جس کا ناڑا کھینچ کر اس نے کھول دیـا. مـیری پجامي بہت ٹائیٹ تھی جسے اتارنے مـیں اسے بہت مشکل ہوئی. مگر پجامي اتارتے ہی وہ مـیرے گول گول چوتٹ دیکھ کر خوش ہو گیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اب مـیں اس کے سامنے برا اور پینٹی مـیں تھی. اس نے مـیری ٹانگوں کو چوما اور پھر مـیری گانڈ تک پہنچ گیـا.مـیں الٹی ہو کر لیٹی تھی اور وہ مـیرے چوتڑوں کو زور زور سے چاٹ اور مسل رہا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اب تک مـیری شرم اور خوف دونوں غائب ہو چکے تھے اور پھر جب غیر مرد کے سامنے ننگی ہو ہی گئی تھی تو پھر چدائی کے پورے مزے کیوں نہیں لیتی بھلا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں پیچھے مڑی اور گھوڑی بن کر اس کی پینٹ، جہاں پر لنڈ تھا، پر اپنا چہرہ اور گالے رگڑنے لگی. مـیں نے اس کی شرٹ کھولنی شروع کر دی تھی. جیسے جیسے مـیں اس کی شرٹ کھول رہی تھی اس کی چوڑی اور بالوں سے بھری چھاتی سامنے آئی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں اس پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے لگی اور چومنے لگی. دھیرے دھیرے مـیں نے اس کی شرٹ کھول کر اتار دی. وہ مـیرے ایسا کرنے سے بہت خوش ہو رہا تھا. مجھے تو اچھا لگ ہی رہا تھا. مـیں مست ہوتی جا رہی تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیرے ہاتھ اب اس کی پینٹ تک پہنچ گئے تھے. مـیں نے اس کی پینٹ کھولی اور نیچے سرکا دی. اس کا لنڈ انڈروئیر مـیںا ہوا تھا. ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انڈرویئر پھاڑ کر باہر آ جائے گا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے اس کی پینٹ اتار دی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے اپنی ایک اوںگلی اوپر سے اس کے انڈرویئر مـیں گھسا دی اور نیچے کو کھیںچا. اس سے اس کی جھانٹوں والی جگہ، جو اس نے بالکل صاف کی ہوئی تھی دکھائی دینے لگی. مـیں نے اپنا پورا ہاتھ اندر ڈال کر انڈرویئر کو نیچے کھیںچا. اس کا 7 انچ کا لنڈ مـیری انگلیوں کو چھوتے ہوئے اچھل کر باہر آ گیـا اور سیدھا مـیرے منہ کے سامنے ہلنے لگا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اتنا بڑا لنڈ اچانک مـیرے منہ کے سامنے ایسے آیـا کہ مـیں ایک بار تو ڈر گئی. اس کا بڑا سا اور لمبا سا لنڈ مجھے بہت پیـارا لگ رہا تھا اور وہ مـیری پیـاس بھی تو بجھانے والا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیرے ہونٹ اس کی طرف بڑھنے لگے اور مـیں نے اس کے ٹوپے کو چوم لیـا. مـیرے ہوںٹھو پر گرم - گرم احساس ہوا جسے مـیں مزید محسوس کرنا چاہتی تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">تبھی اس بوڑھے نے بھی مـیرے بالوں کو پکڑ لیـا اور مـیرا سر اپنے لنڈ کی طرف دبانے لگا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے منہ کھولا اور اس کا لنڈ مـیرے منہ مـیں سمانے لگا. اس کا لنڈ مـیں مکمل اپنے منہ مـیں نہیں گھسا سکی مگر جو باہر تھا اس کو مـیں نے ایک ہاتھ سے پکڑ لیـا اور مسلنے لگی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">بڈھا بھی مـیرے سر کو اپنے لنڈ پر دبا رہا تھا اور اپنی گانڈ ہلا ہلا کر مـیرے منہ مـیں اپنا لنڈ گھسےڑنے کی کوشش کر رہا تھا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے دھکوں نے زور پکڑ لیـا اور اس کا لنڈ مـیرے گلے تک اترنے لگا. مـیری تو حالت بہت بری ہو رہی تھی کہ اچانک مـیرے منہ مـیں جیسے سیلاب آ گیـا ہو. مـیرے منہ مـیں ایک مزیدار چیز گھل گیـا، تب مجھے سمجھ مـیں آیـا کہ بڈھا جھڑ گیـا ہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">تبھی اس کے دھکے بھی رک گئے اور لنڈ بھی ڈھیلا ہونے لگا اور منہ سے باہر آ گیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس کا مال اتنا زیـادہ تھا کہ مـیرے منہ سے نکل کر گردن تک بہہ رہا تھا. کچھ تو مـیرے گلے سے اندر چلا گیـا تھا اور بہت سارا مـیرے چھاتی تک بہہ کر آ گیـا. مـیں بےسدھ ہوکر پیچھے کی طرف لیٹ گئی. اور وہ بھی ایک طرف لیٹ گیـا. اس درمـیان ہم تھوڑی رومانی باتیں کرتے رہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">تھوڑی دیر کے باڑ وہ پھر اٹھا اور مـیرے دونوں طرف ہاتھ رکھ کر مـیرے اوپر جھک گیـا. پھر اسن مجھے اپنے اوپر کر لیـا اور مـیری برا کی ہک کھول دی. مـیرے دونوں کبوتر آزاد ہوتے ہی اس کی چھاتی پر جا گرے. اس نے بھی بغیر دیر کئے دونوں کبوتر اپنے ہاتھوں مـیں تھام لئے اور باری باری دونوں کو منہ مـیں ڈال کر چوسنے لگا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ مـیرے مممو کو بڑی بری طرح سے چوس رہا تھا. مـیری تو جان نکلی جا رہی تھی. مـیرے مممو کا رسپان کرنے کے بعد وہ اٹھا اور مـیری ٹانگوں کی طرف بیٹھ گیـا. اس نے مـیری پیںٹی کو پکڑ کر نیچے کھینچ دیـا اور دونوں ہاتھوں سے مـیری ٹاںگے فیلا کر کھول دی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ مـیری رانوں کو چومنے لگا اور پھر اپنی زبان مـیری چوت پر رکھ دی. مـیرے بدن مـیں جیسے بجلی دوڑنے لگی. مـیں نے اس کا سر اپنی دونوں رانوں کے بیچ مـیں دبا لیـا اور اس کے سر کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیـا. اس کا لنڈ مـیرے پیروں کے ساتھ چھو رہا تھا. مجھے پتہ چل گیـا کہ اسکا لنڈ پھر سے تیـار ہیں اور سخت ہو چکا ہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے بوڑھے کی بانہہ پکڑی اور اوپر کی اور کھینچتے ہوئے کہا - مـیرے اوپر آ جاؤ راجہ ..</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ بھی سمجھ گیـا کہ اب مـیری پھددي لنڈ لینا چاہتی ہے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ مـیرے اوپر آ گیـا اور اپنا لنڈ مـیری چوت پر رکھ دیـا. مـیں نے ہاتھ مـیں پکڑ کر اس کا لنڈ اپنی چوت کے منہ پر ٹكايا اور اندر کو کھیںچا. اس نے بھی ایک دھکا مارا اور اس کا لنڈ مـیری چوت مـیں گھس گیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیرے منہ سے آہ نکل گئی. مـیری چوت مـیں مـیٹھا سا درد ہونے لگا. اپنے شوہر کے انتظار مـیں اس درد کے لئے مـیں بہت تڑپي تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے مـیرے ہوںٹھ اپنے ہوںٹھو مـیں لئے اور ایک اور دھکا مارا. اس کا سارا لنڈ مـیری چوت مـیں اتر چکا تھا.مـیرا درد بڑھ گیـا تھا. مـیں نے اس کی گانڈ کو زور سے دبا لیـا تھا کہ وہ ابھی اور دھکے نہ مارے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">جب مـیرا درد کم ہو گیـا تو مـیں اپنی گانڈ ہلانے لگی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ بھی لنڈ کو دھیرے دھیرے سے اندر - باہر کرنے لگا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">کمرے مـیں مـیری اور اس کی سيتكارے اور اهو کی آواز گونج رہی تھی. وہ مجھے بےدردي سے پیل رہا تھا اور مـیں بھی اس کے دھکوں کا جواب اپنی گانڈ اٹھا - اٹھا کر دے رہی تھی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پھر اس نے مجھے گھوڑی بننے کے لئے کہا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے گھوڑی بن کر اپنا سر نیچے جھکا لیـا. اس نے مـیری چوت مـیں اپنا لنڈ ڈالا. مجھے درد ہو رہا تھا مگر مـیں سہ گئی. درد کم ہوتے ہی پھر سے دھکے زور زور سے چالو ہو گئے. مـیں تو پہلے ہی جھڑ چکی تھی، اب وہ بھی جھڑنے والا تھا. اس نے دھکے تیز کر دئے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اب تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ بڈھا آج مـیری چوت پھاڑ دے گا. پھر ایک سیلاب آیـا اور اسکا سارا مال مـیری چوت مـیں بہہ گیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ ویسے ہی مـیرے اوپر گر گیـا. مـیں بھی نیچے الٹی ہی لیٹ گئی اور وہ مـیرے اوپر لیٹ گیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیری چوت مـیں سے اس کا مال نکل رہا تھا. پھر اس نے مجھے سیدھا کیـا اور مـیری چوت چاٹ چاٹ کر صاف کر دی.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">ہم دونوں تھک چکے تھے اور بھوک بھی لگ چکی تھی. اس نےی ہوٹل مـیں فون کیـا اور کھانا گھر پر ہی مگوا لیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے اپنے چھاتی اور چوت کو کپڑے سے صاف کئے اور اپنی برا اور پینٹی پہننے لگی. اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیـا اور ایک گفٹ مـیرے ہاتھ مـیں تھما دیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">مـیں نے کھول کر دیکھا تو اس مـیں بہت ہی پیـارا، دلکش برا اور پینٹی تھی جو وہ مـیرے لئے امریکہ سے لایـا تھا.پھر مـیں نے وہی برا اور پیںٹی پہنی اور اپنے کپڑے پہن لیے.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">تبھی بیل بجی، وہ باہر گیـا اور کھانا لے کر اندر آ گیـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">ہم نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایـا.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">اس نے مجھے کہا - چلو اب تمہیں شاپنگ کرواتا ہوں.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">وہ مجھے مارکیٹ لے گیـا. پہلے تو مـیں نے شادی کے لئے شاپنگ کی، جس کا بل بھی اسی بوڑھے نے دیـا. اس نے مجھے بھی ایک بے حد خوبصورت اور قیمتی ساڑھی لے کر دی اور بولا - جب اگلی بار ملنے آؤگی تو یہی ساڑھی پہن کر آنا کیونکہ اس کو تیری تنگ پجامي اتارنے مـیں بہت مشکل ہوئی آج.</span><br style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: xx-large;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: 'jameel noori nastaleeq'; font-size: x-large;">پھر وہ مجھے بس اسٹینڈ تک چھوڑ گیـا اور مـیں بس مـیں بیٹھ کر واپس اپنے گاؤں اپنے گھر آ گئی.</span></span>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-70433873163494471312012-03-28T03:15:00.003-07:002012-03-28T03:15:34.773-07:00

My Loving Husband

<span style="font-size: large;"><b style="background-color: red;"><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">یہ کہانی ہندی مـیں تھی مـیں نے اس کا اردو مـیں ترجمعہ کیـا ہے</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مصنفہ: نجمہ ورما</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیری شادی ہوئے تقریبا دس سال ہو گئے تھے. ان دس سالوں مـیں مـیں اپنے شوہر سے ہی تن کا سکھ حاصل کرتی تھی. انہیں اب ڈايبٹيج ہو گئی تھی اور کافی بڑھ بھی گئی تھی. اسی وجہ سے انہیں ایک بار هرديگھات بھی ہو چکا تھا. اب تو ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ ان کے لنڈ کی كساوٹ بھی ڈھیلی ہونے لگی تھی. لنڈ کا كڑكپن بھی نہیں رہا تھا. ان کا ششن مـیں بہت شتھلتا آ گئی تھی. ویسے بھی جب وہ مجھے چودنے کی کوشش کرتے تھے تو ان کی سانس فول جاتی تھی، اور دھڑکن بڑھ جاتی تھی. اب دھیرے دھیرے رنویر سے مـیرا جسمانی تعلق بھی ختم ہونے لگا تھا. پر ابھی مـیں تو اپنی بھرپور جوانی پر تھی، 35 سال کی ہو رہی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">جب سے مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ مـیرے شوہر مجھے چودنے کے قابل نہیں رہے تو مجھ پر ایک نفسیـاتی اثرات ہونے لگا. مـیری چدائی کی خواہش بڑھنے لگی تھی. راتوں کو مـیں واسنا سے تڑپنے لگی تھی. رنویر کو یہ پتہ تھا پر مجبور تھا. مـیں ان کا لنڈ پکڑ کر خوب ہلتے تھی اور ڈھیلے لنڈ پر مٹھ بھی مارتی تھی، پر اس سے تو ان کا ویرے سکھلت ہو جایـا کرتا تھا پر مـیں تو پیـاسی رہ جاتی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں من ہی من مـیں بہت اداس ہو جاتی تھی. مجھے تو ایک مضبوط، سخت لؤڑا چاہئے تھا! جو مـیری چوت کو جم کے چود سکے. اب مـیرا من مـیرے بس مـیں نہیں تھا اور مـیری نگاہیں رنویر کے دوستوں پر اٹھنے لگی تھی. ایک دوست تو رنویر کا خاص تھا، وہ اکثر شام کو آ جایـا کرتا تھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیرا پہلا نشانہ وہی بنا. اس کے ساتھ اب مـیں چدائی کا تصور کرنے لگی تھی. مـیرا دل اس سے چدانے کے لئے تڑپ جاتا تھا. مـیں اس کے سامنے وہی سب گھسي - پٹي تركيبے آزمانے لگی. مـیں اس کے سامنے جاتی تو اپنے چھاتیوں کو جھکا کر اسے عکاسی کرتی تھی. اسے بار بار دیکھ کر متلبي نگاہوں سے اسے اكساتي تھی. یہی تركيبے اب بھی كرگار ثابت ہو رہی تھی. مجھے معلوم ہو چکا تھا تھا کہ وہ مـیری گرفت مـیں آ چکا ہے، بس اس کی شرم توڑنے کی ضرورت تھی. مـیری یہ حرکتیں رنویر سے نہیں چھپ سکی. اس نے بھانپ لیـا تھا کہ مجھے لنڈ کی ضرورت ہے.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اپنی مجبوری پر وہ اداس سا ہو جاتا تھا. پر اس نے مـیرے بارے مـیں سوچ کر شاید کچھ فیصلہ کیـا تھا. وہ سوچ مـیں پڑ گیـا ...</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کومل، تمہیں بھوپال جانا تھا نا ... کیسے جاؤ گی؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ارے، وہ ہے نا تمہارا دوست، راجہ، اس کے ساتھ چلی جاؤنگی!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تمہیں پسند ہے نا وہ ..." اس نے مـیری طرف سوني آنکھوں سے دیکھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیری آنکھیں ڈر کے مارے پھٹی رہ گئی. پر رنویر کے آنکھوں مـیں پیـار تھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ... بس مجھے اس پر یقین ہے."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"مجھے معاف کر دینا، کومل ... مـیں تمہیں مطمئن نہیں کر پاتا ہوں، برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"جی ... ایسی کوئی بات نہیں ہے ... یہ تو مـیری قسمت کی بات ہے ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"مـیں جانتا ہوں، راجہ تمہیں اچھا لگتا ہے، اس کی آنکھیں بھی مـیں نے پہچان لی ہے ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تو کیـا؟ ..." مـیرا دل دھڑک اٹھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تم بھوپال مـیں دو تین دن اس کے ساتھی ہوٹل مـیں رک جانا ... تمہیں مـیں اور نہیں بادھنا چاہتا ہوں، مـیں اپنی کمزوری جانتا ہوں."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"جانو ... یہ کیـا کہہ رہے ہو؟ مـیں زندگی بھر ایسے ہی رہ لوں گی." مـیں نے رنویر کو اپنے گلے لگا لیـا، اسے بہت چوما ... اس نے مـیری حالت پہچان لی تھی. اس کا کہنا تھا کہ مـیری معلومات مـیں تم سب کچھ کرو تاکہ وقت آنے پر وہ مجھےی بھی پریشانی سے نکال سکے. راجا کو بھوپال جانے کے لیے مـیں نے راضی کر لیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">پر رنویر کی حالت پر مـیرا دل رونے لگا تھا. شام کی ڈیلبس مـیں ہم دونوں کو رنویر چھوڑنے آیـا تھا. بادشاہ کو دیکھتے ہی مـیں سب کچھ بھول گئی تھی. بس آنے والے لمحات کا انتظار کر رہی تھی. مـیں بہت خوش تھی کہ اس نے مجھے چدانے کی چھوٹ دے دی تھی. بس اب بادشاہ کو راستے مـیں پٹانا تھا. پانچ بجے بس روانہ ہو گئی. رنویر سوني آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا. ایک بار تو مجھے پھر سے رولاي آ گئی ... اس کا دل کتنا بڑا تھا ... اسے مـیرا کتنا خیـال تھا ... پر مـیں نے اپنے جذبات پر جلدی ہی قابو پا لیـا تھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">ہمارا ہنسی مذاق سفر مـیں جلدی ہی شروع ہو گیـا تھا. راستے مـیں مـیں نے کئی بار اس کا ہاتھ دبایـا تھا، پر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی. پر کب تک وہ اپنے آپ کو روک پاتا ... آخر اس نے مـیرا ہاتھ بھی دبا ہی دیـا. مـیں خوش ہو گئی ...</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">راستہ کھل رہا تھا. مـیں نے ایک دم تن سلوار کرتا پہن رکھا تھا. اندر پیںٹی نہیں پہنی تھی، برا بھی نہیں پہنی تھی. یہ مـیرا پہلے سے ہی سوچا ہوا پروگرام تھا. وہ مـیرے ہاتھوں کو دبانے لگا. اس کا لنڈ بھی پینٹ مـیں ابھر کر اپنی موجودگی درشا رہا تھا. اس کے لنڈ کے كڑكپن کو دیکھ کر مـیں بہت خوش ہو رہی تھی کہ اب اسے لنڈ سے مستی سے چدائی کروں گی. مـیںی بھی حالت مـیں بادشاہ کو نہیں چھوڑنے والی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کومل ... کیـا مـیں تمہیں اچھا لگتا ہوں ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ہوں ... اچھے لوگ اچھے ہی لگتے ہیں ..." مـیں نے جان کر اپنا چهرا اس کے چہرے کے پاس کر لیـا. راجا کی تیز نگاہیں دوسرے لوگوں کو پرکھ رہی تھی، کہ کوئی انہیں دیکھ تو نہیں رہا ہے. اس نے دھیرے سے مـیرے گال کو چوم لیـا. مـیں مسکرا اٹھی ... مـیں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی جاگھو پر رکھ دیـا اور ہولے ہولے سے دبانے لگی. مجھے جلدی شروعات کرنی تھی، تاکہ اسے مـیں بھوپال سے پہلے اپنی اداوں سے زخمـی کر سکوں.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">یہی ہوا بھی ...... سيٹے اونچی تھی لہذا وہ بھی مـیرے گلے مـیں ہاتھ ڈال کر اپنا ہاتھ مـیری چوچیوں تک پہنچانے کی کوشش کرنے لگا. پر ہاے رام! بس ایک بار اس نے سخت چوچیوں کو دبایـا اور جلدی سے ہاتھ ہٹا لیـا. مـیں تڑپ کر رہ گئی. بدلے مـیں مـیں نے بھی اس کا ابھرا لنڈ دبا دیـا اور براہ راست ہو کر بیٹھ گئی. پر مـیرا دل خوشی سے بلليو اچھل رہا تھا. بادشاہ مـیرے قبضے مـیں آ چکا تھا. اندھیرا بڑھ چکا تھا ... تبھی بس ایک مڈ - وہ پر رکی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">بادشاہ دونوں کے لئے سرد ات لے آیـا. کچھ ہی دیر مـیں بس چل پڑی. دو گھنٹے بعد ہی بھوپال آنے والا تھا. مـیرا دل سرد ات مـیں نہیں تھا بس بادشاہ کی طرف ہی تھا. مـیں ایک ہاتھ سے ات پی رہی تھی، پر مـیرا دوسرا ہاتھ ... جی ہاں اس کی پینٹ مـیں کچھ تلاش کرنے لگا تھا ... گڑبڑ کرنے مـیں مگشول تھا. اس کا بھی ایک ہاتھ مـیری چکنی جاںگھوں پر فسل رہا تھا. مـیرے جسم مـیں تراوٹ آنے لگی تھی. ایک طویل عرصے کے بعدی مرد کے ساتھ رابطہ ہونے جا رہا تھا. ایک سولڈ تنا ہوا لنڈ چوت مـیں داخل ہونے والا تھا. یہ سوچ کر ہی مـیں تو نشے مـیں کھو گئی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">تبھی اس کی انگلی کا لمس مـیرے دانے پر ہوا. مـیں سنگھ اٹھی. مـیں نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھا اوری کو نہ دیکھتا پا کر مـیں نے چین کی سانس لی. مـیں نے اپنی چنی اس کے ہاتھ پر ڈال دی. اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اس نے مـیری چوچیـاں بھی سہلا دی تھی. مـیں اب آزاد ہو کر اس کے لنڈ کو سہلا کر اس کی موٹائی اور لمبائی کا جائزہ لے رہی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں بار بار اپنا منہ اس کے ہونٹوں کے قریب لانے کی کوشش کر رہی تھی. اس نے بھی مـیری طرف دیکھا اور مـیرے پر جھک گیـا. اس کےی گیلے ہونٹ مـیرے ہونٹوں کے قبضے مـیں آ گئے تھے. موقع دیکھ کر مـیں نے پینٹ کی زپ کھول لی اور ہاتھ اندر گھسا دیـا. اس کا لنڈ انڈرویر کے اندر تھا، پر ٹھیک سے پکڑ مـیں آ گیـا تھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">وہ تھوڑا سا وچلت ہوا پر ذرا بھی مخالفت نہیں کیـا. مـیں نے اس کی انڈرویر کو ہٹا کر ننگا لنڈ پکڑ لیـا. مـیں نے جوش مـیں اس کے ہونٹوں کو زور سے چوس لیـا اور مـیرے منہ سے چوسنے کی زور سے آواز آئی. بادشاہ ایک دم سے دور ہو گیـا. پر بس کی آواز مـیں وہی کو سنائی نہیں دی. مـیں واسنا مـیں نڈھال ہو چکی تھی. من کر رہا تھا کہ وہ مـیرے اعضاء کو مسل ڈالے. اپنا لنڈ مـیری چوت مـیں گھسا ڈالے ... پر بس مـیں تو یہ سب ممکن نہیں تھا. مـیں دھیرے دھیرے جھک کر اس کی رانوں پر اپنا سر رکھ لیـا. اسکی جپ کھلی ہوئی تھی، لنڈ مـیں سے ایک بھینی بھینی سے ویرے جیسی آروما آ رہی تھی. مـیرے منہ سے لنڈ بہت قریب تھا، مـیرا دل اسے اپنے چہرے مـیں لینے کو مچل اٹھا. مـیں نے اس کا لنڈ پینٹ مـیں سے کھینچ کر باہر نکال لیـا اور اپنے منہ سے حوالے کر لیـا. بادشاہ نے مـیری چنی مـیرے اوپر ڈال دی. اس کے لنڈ کے بس دو چار سٹكے ہی لیے تھے کہ بس کی لايٹے جل اٹھی تھی. بھوپال آ چکا تھا. مـیں نے جیسے سونے سے اٹھنے کا بہانہ بنایـا اور اںگڑائی لینے لگی. مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ سفر تو بس پل بھر کا ہی تھا! اتنی جلدی کیسے آ گیـا بھوپال؟ رات کے نو بج چکے تھے.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">راستے مـیں بس سٹےڈ آنے کے پہلے ہی ہم دونوں اتر گئے. راجہ مجھے کہہ رہا تھا کہ گھر یہاں سے پاس ہی ہے، ٹیکسی لے لیتے ہیں. مـیں یہ سن کر تڑپ گئی - سالا چدائی کی بات تو کرتا نہیں ہے، گھر بھیجنے کی بات کرتا ہے.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں نے بادشاہ کو مشورہ دیـا کہ گھر تو سویرے چلیں گے، ابھی توی ہوٹل مـیں کھانا کر لیتے ہیں، اور کہیں رک جائیں گے. اس وقت گھر مـیں سبھی کو تکلیف ہوگی. انہیں کھانا بنانا پڑے گا، ٹھہرانے کی سیـاست شروع ہو جائے گی، وغیرہ.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اسے بات سمجھ مـیں آ گئی. بادشاہ کو مـیں نے ہوٹل کا پتہ بتایـا اور وہاں چلے آئے.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تمہارے گھر والے کیـا سوچیں گے بھلا ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تمہیں کیـا ... مـیں کوئی بھی بہانہ بنا دوں گی."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">کمرے مـیں آتے ہی رنویر کا فون آ گیـا اور پوچھنے لگا. مـیں نے اسے بتا دیـا کہ راستے مـیں تو مـیری ہمت ہی نہیں ہوئی، اور ہم دونوں ہوٹل مـیں رک گئے ہیں.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کا فون تھا ... رنویر کا ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ہاں، مـیں نے بتا دیـا ہے کہ ہم ایک ہوٹل مـیں الگ الگ کمرے مـیں رک گئے ہیں."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تو ٹھیک ہے ..." بادشاہ نے اپنے کپڑے اتار کر تولیہ لپیٹ لیـا تھا، مـیں نے بھی اپنے کپڑے اتارے اور اوپر تولیہ ڈال لیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"مـیں نہانے جا رہی ہوں ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ٹھیک ہے مـیں بعد مـیں نہا لوں گا."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مجھے بہت غصہ آیـا ... یوں تو ہوا نہیں کہ مـیرا تولیہ کھینچ کر مجھے ننگی کر دے اور باتھ روم مـیں گھس کر مجھے خوب دبایے ... چھي ... یہ تو لللو ہے. مـیں من مار کر باتھ روم مـیں گھس گئی اور تولیہ ایک طرف لٹکا دیـا. اب مـیں ننگی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں نے جھرنا کھول دیـا اور ٹھنڈی ٹھنڈی فهارو کا لطف لینے لگی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کومل جی، کیـا مـیں بھی آ جاؤں نہانے ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں پھر سے كھيج اٹھی ... کیسا ہے یہ آدمـی ... سالا ایک ننگی عورت کو دیکھ کر بھی هچكچا رہا ہے. مـیں نے اسے ہنس کر ترچھی نگاہوں سے دیکھا. وہ ننگا تھا ...</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اس کا لنڈ تننايا ہوا تھا. مـیری ہنسی فوٹ پڑی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تو کیـا ایسے ہی کھڑے رہو گے ... وہ بھی ایسی حالت مـیں ... دیکھو تو ذرا ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھام لیـا اور اپنی طرف کھینچ لیـا. اس نے ایک گہری سانس لی اور اس نے مـیری پیٹھ پر اپنا جسم چپکا لیـا. اس کا کھڑا لنڈ مـیرے چوتڑوں پر فسلنے لگا. مـیری ساسے تیز ہو گئی. مـیرےی گیلے بدن پر اس کے ہاتھ فسلنے لگے. مـیری بھیگی ہوئی چوچیـاں اس نے دبا ڈالی. مـیرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا. ہم دونوں جھرنے کی بوچھار مـیں بھیگنے لگے. اسکا لنڈ مـیری چوتڑوں کی درار کو چیر کر چھید تک پہنچ گیـا تھا. مـیں اپنے آپ جھک کر اس کے لنڈ کو راستہ دینے لگی. لنڈ کا دباؤ چھید پر بڑھتا گیـا اور ہاے رے! ایک فك کی آواز کے ساتھ اندر داخل ہو گیـا. اس کا لنڈ جیسے مـیری گانڈ مـیں نہیں بلکہ جیسے مـیرے دل مـیں اتر گیـا تھا. مـیں آند کے مارے تڑپ اٹھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">آخر مـیری دل کی خواہش پوری ہوئی. ایک لطف بھری چیخ منہ سے نکل گئی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اس نے لنڈ کو پھر سے باہر نکالا اور زور سے پھر ٹھوس دیـا. مـیرے بھیگے ہوئے بدن مـیں آگ بھر گئی. اس کے ہاتھوں نے مـیرے ابھاروں کو جور جور سے ہلانا اور مسلنا شروع کر دیـا تھا. اس کا ہاتھ آگے سے بڑھ کر چوت تک آ گیـا تھا اور اس کی دو اگليا مـیری چوت مـیں اتر گئی تھی. مـیں نے اپنی دونوں ٹاںگیں فیلا لی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اس شاٹ تیز ہونے لگے تھے. اتواسنا سے بھری مـیں بیچاری جلد ہی جھڑ گئی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اسکا ویرے بھی مـیری ٹائیٹ گانڈ مـیں داخل ہونے کی وجہ سے جلدی نکل گیـا تھا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">ہم غسل کر کے باہر آ گئے تھے. شوہر بیوی کی طرح ہم نے ایک دوسرے کو پیـار کیـا اور رات کھانے کے لئے نیچے روانگی کر گئے.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">تبھی رنویر کا فون آیـا، "کیسی ہو. بات بنی یـا نہیں ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"نہیں جانو، وہ تو سو گیـا ہے، مـیں بھی کھانا کھا کر سونے جا رہی ہوں!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تم تو بددھو ہو، پٹے پٹايے کو نہیں پٹا سکتی ہو ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ارے وہ تو مجھے بھابھی ہی کہتا رہا ... لفٹ ہی نہیں مار رہا ہے، آخر تمہارا سچا دوست جو ٹھہرا!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"دھتت، ایک بار اور کوشش کرنا ابھی ... دیکھو چد کر ہی آنا ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ارے ہاں مـیرے جانو، کوشش تو کر رہی ہوں نا ... گڈنايٹ"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں مردوں کی فطرت پہچانتے تھی، سو مـیں نے چدائی کی بات کو خفیہ رکھنا ہی بہتر سمجھا. راجہ مـیری باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا. ہم دونوں کھانا کھا کر سونے کے لئے کمرے مـیں آ گئے تھے. مـیری تو یہ سفر ہنیمون جیسی تھی، ماہ بعد، مـیں چدنے والی تھی. گانڈ تو چدا ہی چکی تھی. مـیں نے فوری طور پر ہلکے کپڑے پہنے اور بستر پر کود گئی اور ٹاںگیں پسار کر لیٹ گئی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"آؤ نا ... لیٹ جاؤ ..." اس کا ہاتھ کھینچ کر مـیں نے اسے بھی اپنے پاس لیٹا دیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"راجا، گھر پر تم نے خوب تڑپايا ہے ... بڑے شریف بن کر آتے تھے!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"آپ نے تو بھی بہت شرافت دکھائی ... بھیـا بھیـا کہہ کر مـیرے لنڈ کو ہی جھکا دیتی تھی!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تو اور کیـا کہتی، سےيا ... سےيا کہتی ... باہر تو بھیـا ہی ٹھیک رہتا ہے."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں اس کے اوپر چڑھ گئی اور اس کی رانوں پر آ گئی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"یہ دیکھ، سالا اب کیسا کڑک رہا ہے ... نكالو مـیں بھی کیـا اپنی فددي ..." مـیں نے آنکھ ماری.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"اے ہٹ بیشرم ... ایسا مت دھن ..." راجہ مـیری باتوں سے جھینپ گیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ارے جا رے ... مـیری پیـاری سی چوت دیکھ کر تیرا لنڈ دیکھ تو کیسا جور مار رہا ہے."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تیری زبان سن کر مـیرا لنڈ تو اور فول گیـا ہے ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"تو یہ لے ڈال دے تیرا لنڈ مـیری گیلی مياني مـیں ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیں نے اپنی چوت کھول کر اس کا لال سپاڑا اپنی چوت مـیں سما دیـا. ایک سسکاری کے ساتھ مـیں اس سے لپٹ پڑی. مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہی غیر مرد کا لنڈ مـیری پیـاسی چوت مـیں اتر رہا ہے. مـیں نے اپنی چوت کا اور زور لگایـا اور اسے مکمل سما لیـا. اس کا فولا ہوا بے حد کڑک لؤڑا مـیری چوت کے اندر - باہر ہونے لگا تھا. مـیں آہیں بھر بھر کر اپنی چوت کو دبا دبا کر لنڈ لے رہی تھی. مجھ مـیں بے پناہ واسنا چڑھی جا رہی تھی. اتنی کہ مـیں بےسدھ سی ہو گئی. جانے کتنی دیر تک مـیں اس سے چدتي رہی. جیسے ہی مـیرا رس نکلا، مـیری تندرا ٹوٹی. مـیں جھڑ رہی تھی، بادشاہ بھی کچھ ہی دیر مـیں جھڑ گیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیرا دل ہلکا ہو گیـا تھا. مـیں چدنے سے بہت ہی پرفللت تھی. کچھ ہی دیر مـیں مـیری پلکیں بھاری ہونے لگی اور مـیں گہری ندرا مـیں سو گئی. اچانک رات کو جیسے ہی مـیری گانڈ مـیں لنڈ اترا، مـیری نیند کھل گئی. بادشاہ پھر سے مـیری گانڈ سے چپکا ہوا تھا. مـیں پاؤں فیلا کر الٹی لیٹ گئی. وو مـیری پیٹھ چڑھ کر مـیری گانڈ مارنے لگا. مـیں لیٹی لیٹی سسکاریـاں بھرتی رہی. اسکا ویرے نکل کر مـیری گانڈ مـیں بھر گیـا. ہم پھر سے لیٹ گئے. گانڈ چدنے سے مـیری چوت مـیں پھر سے جاگ ہو گئی تھی. مـیں نے دیکھا تو بادشاہ جاگ رہا تھا. مـیں نے اسے اپنے اوپر کھینچ لیـا اور مـیں ایک بار پھر سے بادشاہ کے نیچے دب گئی. اسکا لنڈ مـیری چوت کو مارتا رہا. مـیری چوت کی پیـاس بجھاتا رہا. پھر ہم دونوں سکھلت ہو گئے. ایک بار پھر سے نیند کا سلطنت تھا. جیسے ہی مـیری آنکھ کھلی صبح کے نو بج رہے تھے.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"مـیں چائے مگاتا ہوں، جتنے تم فریش ہو لو!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">ناشتہ کرنے کے بعد بادشاہ بولا، "اب چلو تمہیں گھر پہنچا دوں ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">پر گھرے جانا تھا ... یہ تو سب ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کیـا چلو چلو کر رہے ہو؟ ... ایک دور اور ہو جائے!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">راجہ کی آنکھیں چمک اٹھی ... تاخیر بات کی تھی ... وہ لپک کر مـیرے اوپر چڑھ گیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیرے چوت کے كپاٹ پھر سے کھل گئے تھے. بھچابھچ چدائی ہونے لگی تھی. درمـیان مـیں دو بار رنویر کا فون بھی آیـا تھا. چدنے کے بعد مـیں نے رنویر کو فون لگایـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کیـا رہا جانو، چدی یـا نہیں ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"ارے ابھی تو وہ اٹھا ہے ... اب دیکھو پھر سے کوشش کروں..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">تین دنوں تک مـیں اس سے جی بھر کر چدی، چوت کی ساری پیـاس بجھا لی. پھر جانے کا وقت بھی آیـا. راجہ کو ابھی تک سمجھ نہیں آیـا تھا کہ یہاں تین تک ہم دونوں صرف چدائی ہی کرتے رہے ... مـیں اپنے گھر تو گئی ہی نہیں.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"پر رنویر کو پتہ چلے گا تو ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"مجھے رنویر کو سمجھانا آتا ہے!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">گھر آتے ہی رنویر مجھ پر بہت ناراض ہوا. تین دنوں مـیں تم بادشاہ کو نہیں پٹا سکی.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"کیـا کروں جانو، وہ تو تمہارا سچا دوست ہے نا ... ہاتھ تک نہیں لگایـا!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"اچھا تو وہ چکنا اكت کیسا رہے گا ...؟"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"یـار اسے تو مـیں نہیں چھوڑنے والی، چکنا بھی ہے ... اس کے اوپر ہی چڑھ جاوںگی ..."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">روير نے مجھے پھر پیـار سے دیکھا اور مـیرے سینے کو سہلا دیـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"سی السلام السلام سييييي ... ایسے مت کرو نا ... پھر چدنے کی خواہش ہو جاتی ہے."</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">"اوہ ساری ... جانو ... لو وہ اكت آ گیـا!"</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">اكت کو فسانا کوئی مشکل کام نہیں تھا، پر رنویر کے سامنے یہ سب کیسے ہوگا .... اسے بھی دھیرے سے ڈورے ڈال کر مـیں نے اپنے جال مـیں فسا لیـا. پھر دوسرا پےترا آزماےا. سیکورٹی کے لحاظ سے مـیں نے دیکھا کہ اكت کا کمرہ ہی اچھا تھا. اس کے کمرے مـیں جا کر چد آئی اور رنویر کو پتہ بھی نہیں چل پایـا.</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مجھے لگا کہ جیسے مـیں دھیرے دھیرے رڈي بنتی جا رہی ہوں ... مـیرے شوہر دیو اپنے دوستوں کو لے کر آ جاتے تھے اور ایک کے بعد ایک نئے لنڈ ملتے ہی جا رہے تھے ... اور مـیں کوئی نا کوئی پےترا بدل کر چد آتی تھی ... ہے نا یہ غلط بات!</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">پتورتا ہونا بیوی کا پہلا فرض ہے. پر آپ جانتے ہیں نا چور تو وہ ہی ہوتا ہے جو چوری کرتا ہوا پکڑا جائے ... مـیں ابھی تک تو پتورتا ہی ہوں ... پر چدنے سے پتورتا ہونے کا کیـا تعلق ہے؟ یہ موضوع تو بالکل الگ ہے. مـیں اپنے شوہر کو سچے دل سے چاہتی ہوں. انہیں چاهنا چھوڑ دوںتو مـیرے لیے مردوں کا انتظامکرے گا بھلا؟</span><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><br style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';" /><span style="color: darkgreen; font-family: 'Arial Black';">مـیرے جانو ... مـیرے دلور، تمہارے لائے ہوئے مرد سے ہی تو مـیں چدتي ہوں ...</span></b></span>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-62818537036002850242012-03-28T03:00:00.001-07:002012-03-28T03:00:59.365-07:00

Kanwari Nokarani

<b style="color: green; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: 13px;"><span style="background-color: orange; font-family: 'times new roman';"><span style="font-size: large;">مـیرا نام نیلم عمر 23 سال ہے اور مـیں اپنا گھر چلانے کے لیئے لوگوں کے گھروں مـیں صفائی کرتی ہوں- مـیں نے 2 سال پہلے ایک گھر مـیں کام کرنا شروع کیـا تو انہوں نے مجھے گھر کے پیچھے والے کوارٹر مـیں رہائش دے دی- اور مـیں اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ وہاں رہنے لگی- پورا دن کام کرنے کے بعد رات 8 بجے چھٹی ملتی تھی اور مـیں اپنے کوارٹر چلی جاتی تھی- جن کے گھر مـیں نوکری کرتی تھی وہ2 افراد کی فیملی تھی مـیاں بیوی کی اور انکی بیوی اکثر بیمار رہتی تھی جسکی وجہ سے مجھے انکی دیکھ بھال بھی کرنی پڑھتی تھی-<br /><br />مـیں ڈوپٹہ پہن کر اور اپنا منہ ڈھک کر مردوں کے سامنے آتی تھی اور کبھی جیسی چیز کو محسوس نہیں کیـا تھا- خیر ایک دن مـیں بیگم صحابہ کا باتھ روم صاف کر رہی تھی تو اچانک باتھ روم مـیں انکے شوہر آگئے اور انہوں نے مجھے دیکھا تو مـیری کمـیز اوپر تھی کمر سے ڈوپٹہ نہیں تھا اور چھینٹوں سے مـیری شلوار گھیلی ہورہی تھی- مجھے باتھ روم مـیں دیکھ کر وہ فورن باہر چلے گئے- اسکے بعد تو کچھ دنوں تک وہ مجھے گھورنے لگے مجھے کبھیی مرد نے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا اور مـیں انکو سمجھ نہیں رہی تھی- پھر وہ جب بھی مـیرے پاس سے گزرتے مـیرے بدن پر کہیں نہ کہیں ہاتھ مارتے ہوئے چلے جاتے اور مـیں انکو کچھ نہ کہتی اور بنہکچھ سمجھے کام کرنے لگ جاتی-<br /><br />ایک دن مـیں اپنے کوارٹر مـیں رات کو اپنی بہن کو سلا کر انکی ہرکتیں سوچ رہی تھی کہ اچانک صاحب کمرے مـیں آگئے اور مـیرے قریب بیٹھ کر باتیں کرنے لگے مـیں حیران بھی تھی مگر انکی باتوں جواب دیتی رہی- باتیں کرتے کرتے وہ مـیرے ہاتھ کو چھونے لگے اور مجھے اجیب لگنے لگا پھر وہ ایک دم مـیرے قریب آئے اور کہا لیٹ جاو تو انہوں نے مجھ لٹاکر مـیرے اوپر لیٹ گئے اور مـیں آنکھیں بڑی کرکے انکو دیکھ رہی تھی اور روک نہیں پارہی تھی- انہوں نے مجھے اپنی باہوں مـیں دبایـا اور مـیرے ہونٹوں کو چوسنے لگے اور نیچے سے انکا لنڈ مـیری چوت کو کپڑے کے اوپر سے رگڑ رہا تھا- مـیرے تو پورے بدن مـیں گرمـی جیسی بجلی ڈوڑنے لگی اور وہ مـیرے ممے مسلنے لگے-<br /><br />مـیرے منہ سے سسکیـاں نکل رہی تھی اور مـیں انکے نیچے لیٹی تھی- انہوں نے مجھے گود مـیں اٹھا کر مـیری کمـیز اتار دی مـیں نے اندر کچھ نہیں پہنا تھا اور وہ مـیرے ممے دیکھ کر انکو بے اختیـار چوسنے لگے مـیں پاگل ہورہی تھی اور منہ سے آہ ہ ہ ہ س س س س نکل رہا تھا مجھے یہ مزہ کبھہی نہیں ملا تھا- اور مجھے نشہ چڑھنے لگا- انہوں نے ایک جھٹکے سے مـیرے شلوار اتار دی اور اپنی شلوار اتار کر لنڈ دکھایـا مـیں نے پہلی مرتبہی کا لنڈ دیکھا تھا انکا لمبا لنڈ دیکھ کر مـیں تو مست ہونے لگی اور وہ مـیری چوت پر ہاتھ رگڑنے لگے مجھے بہت اجیب لگ رہا تھا اور جب وہ مـیری چوت کو چھوتے مـیرے منہ سے س سس نکلنے لگتا اور سناٹا چھا جاتا- اور جیسے ہی انگلی اندر جاتی تو مـیں اچھل پڑتی کمر کی طرف سے- مـیری چوت سے پانی نکلنے لگا اور ساتھ ہی تھوڑا خون بھی-<br /><br />انہوں نے اسے صاف کیـا اور پھر مـیرے اوپر لیٹ کر اپنی کمـیز اتار دی اور ہم فل ننگھے تھے پھر انہوں نے مـیری ٹانگیں اٹھائی اور اپنا لنڈ چوت پر رگڑنے لگے مـیرے تو ہوش اڑ گئے اور مـیں اپنے ممے مسلنے لگی آنکھیں بند تھیں - اور پھر اپنے لنڈ پر تھوک لگا کر مـیرے اوپر لیٹ کر مجھ سے لپٹ گئے اور کرنے لگے اور اچانک نیچے سے لنڈ مـیری ورجن کنواری چوت مـیں جانے لگا اور مـیرا درد بڑھنے لگا اور مـیرے منہ سے م م م م نکل رہا تھا مگر انہیوں نے مـیرا منہ نہیں چھوڑا اور جھٹکا مارا اور لنڈ چوت مـیں چلا گیـا مـیرے تو ہوا ضشک ہوگئی اور پھر وہ تیز تیز اندر باہر کرنے لگے- اور زور زور سے چھکے لگنے سے مـیرے آنسوں نکل رہے تھے مگر وہ نہ رکے اور 2 منٹ بعد مـیرا درد کم ہوا اور مجھے ایک عجیب مزہ آنے لگا اور مـیں بھی اپنی گانڈ ہلانے لگی-<br /><br />مـیرے منہ سے آہ ہ ہ ہ اور اور اور نہ رکنا نکلنے لگا – 10 منٹ بعد مـیری چوت سے دھار مارتا ہوا پانی نکلا اور مـیری آہ زور سے نکلی لیکن وہ مجھے چودتے رہے نان اسٹاپ کوئی 15 منٹ بعد انکی مٹھ مجھے اپنی چوت کے اندر نکلتی محسوس ہونے لگی اور مـیں نڈھال ہوگئی تھی اور وہ مـیرے اوپر لیٹ گئے اور مجھے چومنے لگے اور مـیں انکے بدن کو زبان سے چاٹنے لگی- اور انکا لنڈ مـیری چوت مـیں چھوٹا ہوا انہوں نے کہا تجھے مزہ آیـا مـیں شرماتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں اور انہوں نے مـیرا منہ چوما اور اپنے کپڑے پہن کر چلے گئے- اس دن کے بعد مـیں جب انسے ملتی تو وہ مجھے بہت پیـار کرتے اور ہر روز رات کو مـیرے پاس آکر یـا مجھے ساتھ کہیں لے جاکر مـیری چدائی مارتے اور ابمـیرے نپلز اور ممے کافی بڑے ہوگئے ہیں- انہیں مـیری جوان چوت سے کھیلتے ہوئے بہت مزہ آتا ہ</span></span></b>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-67428464762904052982012-03-25T01:26:00.002-07:002012-03-25T01:26:48.443-07:00

Contect Me

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-u6JxQN7Deg0/T27WrEIPvPI/AAAAAAAAAIQ/DSm675Urdj4/s1600/aaa.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="130" src="http://2.bp.blogspot.com/-u6JxQN7Deg0/T27WrEIPvPI/AAAAAAAAAIQ/DSm675Urdj4/s320/aaa.gif" width="320" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-83051016361512166392012-03-24T03:46:00.003-07:002012-03-24T03:46:48.669-07:00

My First Sex Experience

<span style="background-color: red;"><b style="color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: 13px; text-align: right;"><span style="font-size: small;">مـیں نے سوچا کے کیوں نا اپنی سٹوری آپ سے شیعرکروں۔سو اس لیے مـیں اپنی سٹوری لکھنے جا رہاہوں۔یوں تو مـیں کافی لڑکیوں کو چود چکا ہوں مگر ایک عورت جس کے ساتھ مـیں نے پہلا سیکیـا تھااس کی کہانی آپ کو سناوٓں گا۔مـیں راولپنڈی کا رہنے والاہوں یہ ان دنوں کی بات جب مـیں مـیٹرک کے پیپرز دے کر فری تھا۔ابو نے مجھے اپنے ساتھ دکان پر بٹھا لیـا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اکیلے بیٹھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ مـیں کبھیی نمبر پر فون ملاتا تو کبھیی نمبر پرکہ شاید کوئی لڑکی فون اٹھا لے۔ ایک دن یوں ہوا کہ ایک آنٹی نے فون اٹھایـا، سلام دعا کے بادمـیں نے بات چیت شروع کی تو انہوں نے فون کاٹ دیـا۔ کافی دن فون کرنے کے بات آنٹی نے خود ہی مجھ سے بات کرنا شروع کر دی۔پھر انہوں نے اپنے بارے مـیں بتایـا کہ وہ صدر مـیں رہتی ہیں۔ان کے تین بچے ہیں۔دوبیٹیـاں ہیں۔ایک۱۳سال کیـااور ایک۱۰سال کی۔ایک بیٹا ۳ سال کا تھا۔ ان کا شوہر ڈرایؤر تھااور چار دن کے باد گھر آتا تھا۔آنٹی گھر پر اکیلی ہوتی تھیں۔پھر آنٹی سے بات چیت ہوتی رہی، آنٹی نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے دیکھنا چاہتی ہیں۔ مـیں نے انہیں دوپہر کا وقت دیـا اور ان کی گلی مـیں جا کے کھڑا ہو گیـا۔ کچھ دیر کے باد آنٹی نے مجھے اپنی چھت سے دیکھا۔مـیں دیکھ کے حیران رہ گیـا، آنٹی ایک دم گورا رنگ رکھتی تھیں۔ انہوں نے لال رنگ کے کپڑے پہنے تھے جس مـیں وہ پری کی طرح دکھ رہی تھیں۔مـیں نے اپنی زندگی مـیں اتنی خوبصورت آنٹی نہیں دیکھی تھی۔ پھر اس نے مجھے اشارہ کیـا کہ تم جاؤ۔اور اس طرح مـیں تین چار دفعہ گیـا۔مـیں آنٹی سے کہا کہ مـیں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔آنٹی نے انکار کردیـا کہ محلے والوں نے دیکھ لیـا تو ان کی بدنامـی ہو جائے کیونکہ آنٹی ایک پردہ دار عورت تھیں۔ وہ برقع کر کے گھر سے نکلتی تھیں۔ ایک دن مـیں نے ضد کی توآنٹی مان گئیں۔ انہوں نے مجھے شام کا ٹائم دیـااور کہا کہ جب تک مـیں نہ کہوں اندر مت آنا۔پھر دوستوں مـیں آنٹی کے گھر گیـا۔آنٹی سیڑھیـاں اتر کر نیچے آئیں۔انہوں نے گلی مـیں جھانک کر دیکھا۔ی کو نہ پاکرانہوں نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیـا تو مـیں اندر چلا گیـا۔دوستوں ایک بات بتانا بھول گیـا۔آنٹی اپنے شوہر کے تین،چار دن باد آنے کی وجہ سے پیـاسی رہ جاتی تھیں۔ یہ بات مجھے بعد مـیں پتا چلی۔ آنٹی مجھے اپنے کمرے مـیں لے گئیں۔ان کا بیٹا سو رہا تھااور بیٹیـاں دوسرے کمرے مـیں ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔آنٹی مـیرے پاس بیٹھ کرباتیں کرنے لگیں۔دوستوں مـیں آنٹی کا جسم دیکھ کر پاگل ہو گیـا۔بھری بھری گانڈ تھی۔ مموں کی تو کیـا ہی بات تھی۔ ۳۶ سائزہو گا ان کا۔آنٹی کا بھرا جسم اور گورا رنگ دیکھ کر مـیرا لن کھڑا ہونے لگا۔دوستوں مـیں بھی دیکھنے مـیں کچھ کم نہیں ہوں۔۶ فٹ ہائٹ، گورا رنگ اورسب سے بڑھ کر پنک ہونٹ جنہیں آنٹی دیکھ کر بار باردیکھ رہیں تھیں اور اپنے ہونٹ منہ مـیں لے رہی تھیں۔ آنٹی کافی خوفزدہ تھیں کیونکہ انہونے پہلی بار غیر مرد کو اپنے گھربلایـا تھااور وہ بھی ۱۹ سال کے جوان لڑکے کو۔ تو دوستوں بات چیت کے دوران مـیں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑا تو آنٹی نے فورن اپنا ہاتھ چھڑوا لیـاپھر کچھ دیر کے بعد مـیں نے دوبارہ آنٹی کا ہاتھ پکڑا تو انہوں نے چھڑوایـا نہیں۔مـیں ان کا ہاتھ پکڑ کر دبانے لگا۔اف اتنا نرم ہاتھ تھا آنٹی کابالکل روئی کی طرح ۔آنٹی کا ملائم اور نرم نرم ہاتھ پکڑ کر مـیرا لن کھڑا ہو گیـااور مـیں بے چین ہونے لگامگر آنٹی نے کہا کہ اب تم جاؤ مـیں تمہیں پھر بلاؤں گی۔مـیں واپس آنے لگا تو آنٹی مـیرے آگے تھیں انہوں نے گیٹ پر پہنچ کر باہر کا جائزہ لیـا۔اتنے مـیں مـیں ان کے پیچھے سے آنٹی کے ساتھ تھوڑا سا چپک گیـاتو آنٹی چونک گئیں۔ واہ کیـا نرم نرم گانڈ تھی مـیں نے تھوڑا سا اپنا لن ٹچ کیـاآنٹی کی گانڈ کے ساتھ اور پھر پیچھے ہٹ گیـاتو آنٹی نے مجھے باہر جانے کو کہااور مـیں گھر آگیـا۔اس کے بعد مـیں آنٹی سے تین چار بار ملا۔اب آنٹی کا ڈر ختم ہوتا جا ر ہا تھا۔وہ مجھ سے ہمـیشہ کہتی تھیں کہ مـیں ایک شریف عورت ہوں تم مجھے بدنام تو نہیں کرو گئے ناویسے بھی تم مجھ سے کافی چھوٹے ہو۔اب آنٹی کو یقین ہو گیـا تھا کہ مـیں ان کوی قسم کانقصان نہیں پہنچاؤں گا۔آنٹی کا گھر ہمارے گھر کے قریب ہی تھا۔اس دوران رمضان شریف آگیـااور سردیوں کاسٹارٹ شروع ہو گیـا۔ سردیوں مـیں شام کو ہی گلی مـیں ویرانی شروع ہوجاتی ہے۔آنٹی کی گلی بھی ایک چھوٹیٰ سی گلی تھی اور وہاں پر کوئی بھی نہیں ہوتا تھاپھرایک دن مجھے آنٹی نے اپنے گھر بلایـا اوربتایـاکہ ان کا شوہر کل شام کو گھر آئے گاتم روزہ کے بعد مـیرے گھر آجانا۔مـیں چلا گیـا۔ آنٹی کی دونوں بچیـاں تراویح پڑھنے ساتھ والے گھر گئیں تھیں اور بیٹا سو رہا تھا۔ مـیں جب گھر مـیں داخل ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ آنٹی مچھ سے آج ضرور اپنی چوت مروائے گی۔ہم بیڈ روم مـیں آ کر بیٹھ گئے۔ آنٹی بیڈ کے اوپر ٹانگیں کر کے بیٹھ گئیں اور مـیں آنٹی کے قریب بیٹھ گیـا۔ مـیں نے آنٹی کاہاتھ پکڑ لیـا جو گرم تھا۔ات</span>&nbsp;<span style="font-size: small;">نے مـیں مـیرا لن کھڑا ہو گیـا۔ مـیں نے آنٹی سے کہا ایک بات کہوں اگر برا نہ منائیں تو آنٹی نے کہا ہاں کہوتو مـیں نے کا آئی لو یو۔ یہ سن کر آنٹی کھلکھلا کرہنس پڑی اور کہنے لگی کہ تم مجھ سے بہت چھوٹے ہو اور مـیں شادی شدہ عورت ہوں۔تو مـیں نے کہا کہا کیـاہوا؟ کیـا شادی شدہ عورتوں کو پیـار نہیں کر سکتے۔ یہ سن کر آنٹی خاموش ہوگئیں۔مـیں نے موقع دیکھ کر اپناایک بازو آنٹی کی گردن کے پیچھے ڈال دیـااور ان کو اپنے قریب کر کے ان کے ہونٹوں پر ایک کی۔ کیـا نرم رسدار ہونٹ تھے۔ انٹی کو ایک دم شاک لگا۔وہ مـیری طرف حیرانی سے دیکھنے لگی اور کہنے لگی کیـا سچ مچ تم مجھ سے بہت پیـار کرتے ہو۔ مـیں نے کہاہاں مـیری جان آئی لویو۔ یہ کہہ کر مـیں نے آنٹی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں مـیں لے کر چوسنے شروع کردیے۔اف کیـا رسیلے ہونٹ تھے۔شہد سے زیـادہ مـیٹھے تھے آنٹی کے ہونٹ۔مجھے تو جیسے نشہ ہونے لگا۔ ۱۵ منٹ تک مـیں آنٹی کے ہونٹ چوستا رہا۔یہ مـیرا پہلا موقع تھای کے ساتھ سیکرنے کا۔ مـیں نے آنٹی کو باہوں مـیں بھر کر دیوانہ وار چومنا شروع کردیـا۔ایک ہاتھ سے مـیں ان کی کمر سہلا رہا تھا اور ایک ہاتھ ان کی گانڈپہ رکھ رہا۔نرم نرم گوشت سے بھری ہوئی گانڈ تھی آنٹی کی۔اس دوران ہم دونوں بیڈ پر آگئے اور مـیں آنٹی کے اوپر چڑھ گیـا۔ کبھی گردن پر کرتا۔ کبھی ہونٹوں پر۔ مـیں ایک ہاتھ سے آنٹی کے مموں سے کھیلنے لگا۔ آنٹی آہیں بھر رہی تھیں۔مـیں نے ایک ہاتھ آنٹی کی قمـیض مـیں ڈال کر ان کی ننگی کمر کو سہلانے لگااور پھر مـیں نے اپنا ہاتھ آنٹی کے مموں پر رکھا اور ان کو برا کے اوپر سے ہی مسلنے لگا۔ آنٹی نشے مـیں پاگل ہو رہی تھیں اور مـیں ان کو بھرگ کر رہا تھا۔ پھر مـیں نے آنٹی کی قمـیض اتارنی چاہی تو آنٹی نے مجھے روک دیـالیکن مـیرے اصرار پر انہوں نے قمـیض اوپرکر دی۔ واؤبلیک برامـیں گورے گورے ممے کیـا غضب ڈھا رہے تھے۔ مـیں نے برا اوپر کر دی تو مـیں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔کیـا ممے تھے آنٹی کے،گورے گورے اوپر سے گلابی نپل۔ مـیں نے نپل منہ مـیں لے کر چوسنا شروع کر دیے۔ اف کیـا مزے دار ذائقہ تھا آنٹی کے مموں کابالکل سٹابری کی طرح کا ذائقہ تھا۔ مـیں نے اپنی ذندگی مـیں جتنی بھی چیزیں چکھی تھیں ان مـیں سب سے مزے دار اور منفرد ذائقہ تھا آنٹی کے مموں کا۔مـیں تو ساتویں آسمان پر تھا۔مـیں ۳۵ منٹ تک ممے چوستا رہا۔ آنٹی کا بھی مزے سے برا حال تھا۔پھر مـیں نے آنٹی کے منع کرنے کے باوجود ان کی پوری قمـیض اتار دی اور اپنی شرٹ بھی اتار دی اب مـیں صرف پینٹ مـیں تھا۔اب مـیں آنٹی کو وحشیوں کی طرح چوس اور چاٹ رہا تھا۔پھر مـیں نے آنٹی کی برا بھی اتار دی۔ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف کروٹ کر کے لیٹے ہوئے تھے۔مـیں نے اپنا ایک ہاتھ آنٹی کی الاسٹک والی شلوار مـیں ڈال کر ان کی گانڈ کو سہلانہ شروع کر دیـااور دھیرے دھیرے شلوار گھٹنوں تک اتار دی۔ آنٹی بھی پاگل ہو رہی تھیں۔مـیں ان کی ٹانگوں کر درمـیان آکر بیٹھ گیـا اور ان کی ٹانگوں کو پیٹ سے لگا کر باقی کی شلوار اتارنے لگاتو آنٹی نے مجھ منع کر دیـاتو مـیں آنٹی سے کہنے لگا پلیز ایک بارکچھ نہیں ہوگا۔تو آنٹی مجھے کہنے لگیں پلیز ایسا مت کرو مـیں شریف اور پردہ دار عورت ہوں اس طرح مـیں بدنام ہوجاؤں گی۔مـیں نے کہا آنٹی مـیںی سے کچھ نہیں کہوں گا یہ مـیرا وعدہ ہے آپ سے، آپ مجھ پر اعتبار کریں تو آنٹی کہنے لگیں پکا وعدہ۔ مـیں نے کہا ہاں آنٹی پکا وعدہ مـیںی کو کچھ نہیں بتاؤں گاتو آنٹی خاموش ہوں گئیں۔ مـیں سمجھ گیـا خاموشی مـیں ہی نیم رضامندی ہے اور پھر مـیں نے اپنی پینٹ اور انڈر وئیر بھی اتار دی۔آنٹی مـیرا لن جوسات انچ لمبا اور موٹا بھی کافی ہے کو دیکھ کر حیران رہ گئیں اور کہنے لگیں یہ تو بہت بڑا ہے۔مـیں مر جاؤں۔مـیں نے کہا آنٹی کچھ نہیں ہوگا خاموش رہو۔ یہ مـیرے ذندگی کا پہلا تجربہ تھا۔مـیں نے لن آنٹی کی شیوڈ پنک پھدی پر ڑگڑنا شروع کر دیـاکیـا ملائم پھدی تھی۔ مـیرا لن تو فل لوہے کی طرح اکڑ گیـا تھا۔پھر مـیں نے لن آنٹی کی پھدی مـیں ڈالا لیکن نہیں گیـا۔آنٹی ہنس پڑی کہنے لگی یہاں نہیں اور اپنے ہاتھ سے مـیرا لن پکڑ کر اپنی پھدی کے پر رکھ دیـا اورمجھے دھکا مارنے کوبولا۔مـیں نے دھکا مارا تو ٹوپی پھدی مـیں چلی گئی اور آنٹی کے منہ سے آہ نکل گئی۔کیونکہ آنٹی کافی دنوں سے چدی نہیں تھیں۔مـیں نے آہستہ آہستہ اپنا سارا لن آنٹی کی پھدی مـیں ڈال دیـاتو آنٹی کو درد ہونے لگا تو انہوں نے مجھے روک دیـاتو مـیں نے جھک کر آنٹی کو اپنی باہوں مـیں بھر کرنگ شروع کر دی۔تھوڑی دیر بعد آنٹی نے نیچے سے اپنی گانڈ اچھالنا شروع کردے تو مـیں سمجھ گیـا کہ آنٹی کو بھی اب مزہ آرہا ہے تومـیں نے بھی تیزی سے جھٹکے مارنا شروع کر دیے۔کچھ دیر بعد آنٹی فارغ ہو گئیں تو انہوں نے مجھے باہوں مـیں بھر کےنگ شروع کردی اور ساتھ مـیں مـیری زبان اپنے منہ مـیں ڈال کر چوسنے لگئیں۔مـیں نے بھی اپنی سپیڈ تیز کردی۔آنٹی کو اب بھی کافی درد ہو رہا تھا۔وہ مجھ سے کہہ رہی تھی آرام سے کرو تمہارا لن مـیرے شوہر کے لن سے کافی بڑا ہے۔اس دوران آنٹی دوبارہ فارغ ہو گئیں اور اس بار بھی آنٹی نے مجھے بہتنگ کی۔پھر دوستوں مـیں آنٹی کو تیزی سے چودنے لگا۔ مجھے ذندگی مـیں پہلی بار چوت ملی تھی اور وہ بھی اتنی ٹائٹ۔آنٹی کی چوت ۳ بچے پیدا کرنے کے باوجود اتنی ٹائٹ تھی۔پھر مـیرے دھکوں مـیں اور تیزی آگئی اور مـیں آنٹی کی چوت کے اندر ہی فارغ ہو گیـاجس پر آنٹی بہت ناراض ہوئیں کہ تمہیں مـیرے اندر منی نہیں چھوڑنی چاہئیے تھی تو مـیں نے کہا آنٹی کوئی بات نہیں مـیں اگلی بار باہر چھوڑ دوں گا۔ اس پر آنٹی مسکر؂انے لگی اور کہنے لگی کہ اب کیـادوبارہ بھی کرنا ہے۔ مـیں نے کہا آپ کو اچھا لگے تو کرنے دینا۔انہوں نے مجھے کہا ایک بات کہوں آئی لویو۔ یہ کہہ کر انہوں نے دوبارہ مجھےنگ شروع کر دی۔دوستوں اس کے بعدبھی مـیں نے آنٹی کو کافی بار چودا۔ آپ کو مـیری یہ سچی آپ بیتی کیسی لگی۔ آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔اب مـیں اجازت چاہوں گا</span></b>&nbsp;</span>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-52427812939867925042012-03-24T03:18:00.000-07:002012-03-24T03:18:22.493-07:00

Sex with Cozen

<br /><div style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; margin-bottom: 0px; margin-left: 40px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px;"><div style="margin-bottom: 0px; margin-left: 40px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px;"><div style="margin-bottom: 0px; margin-left: 40px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px;"><div style="margin-bottom: 0px; margin-left: 40px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px;"><div style="margin-bottom: 0px; margin-left: 0px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px; text-align: right;"><span style="font-size: large;"><b>&nbsp;دوستو مـیں پھر حاضر خدمت ہوں آپ کے حضور یہ سٹوری امـید ہے آپ کو پسند آے گی</b></span></div></div></div></div></div><div style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; margin-bottom: 0px; margin-left: 0px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px; text-align: right;"><b><span style="font-size: large;">مـیں ایک چالو ٹائپ کی عورت ہوں چالو اس لئے کہ مـیرے شوہر انگلنڈمـیں رہتے ہیں مجھے بے شمار لوگوں نے چودا جن مـیں مـیرے کزنز، بواۓ فرینڈز،اور انجان لوگ بھی شامل ہیں. اکثر لوگوں نے مجھے صرف ایک رنڈی سمجھ کر چودا آج کی کہانی مـیرے ایک کزن سے ہوئی چدائی کی کہانی ہے جو سچ پر مبنی ہے<br />اس کا نام جہانگیر ہے ہم دونوں مـیں بچپن سے ہی بہت اچھی دوستی ہے ہم بچپن ایک ساتھ کھیلتے ہم 10 سال کی عمر تک ایک ساتھ نہاتے ایک طرح سے اس نے بچپن مـیں مـیری چوت اور مـیں نے اس کا لنڈ جو کہ اس وقت للی تھی کو دیکھا لیکن کبھی چدائی نہیں ہوئی تھی شادی کے بعد شوہر جب uk گۓ تو مـیں کچھ دنوں کے لئے مـیکے گئی جہانگیر جو لاہور مـیں پڑھتا تھا وہ بھی آیـا ہوا تھا اس سے ملکر بہت خوش ہوئی وہ اب پہلے جیسا کمزور نہیں بلکہ ایک سمارٹ مرد لگ رہا تھا اور نہایت ہی ہنسانے والا بھی اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا فضیلہ بوہوت خوبصورت ھوگئی ہو مجھے اس کا اس طرح سے تعریف کرنا اچھا لگا پھر ہم اکھٹے گھومتے کھاتے اور موج مستی مـیں رہتے ہم اکثر کرککٹ کھیلتے اور جب مـیری بیٹنگ ہوتی تو وہ اکثر مـیرے قریب کھڑے ہو کر فیلڈنگ کرتا اور اس کی نظر بال کی بجانےمـیری چھاتیوں پر ہوتی چوں کہ مـیں لوز گلے کی قمـیض thee پہنتی تو اس کو بوہوت کچھ نظر آجاتا تھا وہ اکثر مذاق مذاق مـیں مـیری چھاتیوں کو چھو لیتا تھا. پھر مـیرے بھیـا کو بزنس کے سلسلے مـیں ھونگ کانگ جانا پڑا تو مـیں اور جہانگیر اس کو ائرپورٹ چھوڑنے گۓ واپسی پر رات کے ٢ بج رہے تھے ہم نے ایک آئس کریم کی دوکان پر رکھ کر آئس کریم کھائی باتوں باتوں مـیں مـیں نے اس سے پوچھا جنگی کوئی گرل فرینڈ ہے جس سے تم شادی کرو تو وہ ہنسنے لگا بولا ہاں تھی لیکن اس کی شادی ہو گئی ہے مـیں نے پوچھاتھی اس نے بولا تم تھی مـیں تم سے محبت کرتا تھا کرتا ہوں کرتا رہوں گا مـیں بولی تو کہہ دینا تھا مـیں تمہارا انتظار کرلیتی جب مـیں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں مـیں آنسو تھے.مـیں نے اس کے آنسووں کو اپنے ہاتھ سے پونچھا مجھے اس پر ترس بھی آرہا تھا اور پیـار بھی.</span></b></div><span style="font-size: large;"><span style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;"><b>پھر ہم گھر چلے گئے دیں گزر نے لگے پھر ایک دیں گھر والوں کو ایک فوتگی مـیں سیـالکوٹ جانا پڑا مـیں نے اور جہانگیر نے جانے سے انکار کیـا مـیرا جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا اور جہانگیر کو اپنے ایگزام کی تیـاری کرنی تھی تو امـی ابو اور انکل کی فیملی والے چلے گئے گھر مـیں صرف مـیں اور جہانگیر تھے چونکہ گھر والے ہم کو بہن بھائی سمجتھے تھے اس لئے ان کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا ہم دونوں نے ان کو سٹیشن پر رخصت کیـا پھر ہم گھر آگۓ گھر مـیں مـیں نے دونو کے لئے کھانا پکایـا دوپہر کو مل کر کھایـا پھر کچھ دیر آرام کے لئے اپنے کمروں مـیں گئے پھر عصرکے وقت اٹھی تو وہ بھی جاگا ہوا تھا مـیں نے اس کو چاۓبنا کر دی چاۓ کے بعد اس نے بولا فضی کرکٹ کھیلنےکا موڈ ہے کیـا؟ مـیں بولی ہاں کیوں نہیں مـیں جاکر بیٹ اور بال لے ائی اس نے مجھے پھلے بیٹنگ دی مـیری لوز گلے والی قمـیض تھی جس مـیری چھاتیـاں کچھ کچھ نظر آتی تھیں اس نے مجے تین بالوں مـیں ہی آوٹ کردیـا پھر اس کی بیٹنگ مـیں اس نے مجھے بہت تھکا دیـا مـیں نے اس کو بولا آوٹ ہوجاؤ ورنہ مـیں نہیں کھیلتی اس نے بولا کیوں؟ مـیرے منہ سے نکل گیـا یـار مـیری پھٹ گئی اس نے بولا کیـا مـیں شرما گئی پھر اس نے بولا یـار مـیں تمہاری کیـا پھاڑوں گا وہ تو پھلے سے ہی پھٹی ہوئی ہے. مـیں بولی کیـا مطلب وہ بولا کچھ نہیں خیر بات آئی گئی ہو گئی.</b></span><span style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;"></span></span><div style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; margin-bottom: 0px; margin-left: 0px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px; text-align: right;"><b><span style="font-size: large;">پھر ہم نے چینج کیـا اور باہر چلے گۓگومننے پھرنے کے لئے رات کو ہم دیر سے آۓ کھانا بھی باہر کھایـا کافی بار مـیرا ہاتھ اس کے ہاتھ مـیں رہا مجھے ایک انجانی خوشی رہی گھر پونچھتے ہی مـیں صوفے پر لیٹ گئی اس نے tv لگایـا ہم کچھ دیر tv دیکھتے رہے پھر اس نے مجھے بولا فضی تم مـیرے لئے کافی بندو پلیز مـیں بولی یـار تم جو بولو مـیں حاضر ہوں اس نے بولا سوچ لو ایسا نہ ہو پھر پچھتاؤ مـیں بولی کبھی نہیں پچھتاؤںمـیرے آقا. اس نے بولا دیکھیں گے پھر مـیں اس کے لئے کافی بنانے کے لئے مـیرا دوپٹہ وہیں tv لاؤنج مـیں رہ گیـا تھا وہ مـیرے پیچھے پیچھے کچن آیـا اور سنک پر بیٹھ گیـا اور مـیری چھٹیوں کو دیکھنے لگا مـیں بولی جنگی کیـا دیکھ رہے ہو اس نے بولا فضی تم کو یـاد ہے جب ہم اکھٹے نہاتے تھے مـیں بولی ہاں پھر اس نے بولا اس وقت تمہارے یہ تو نہیں تھے نامـیں بولی کیـا اس نے مـیری چھاتیوں کی طرف اشارہ کیـا مـیں بولی ہاں اس وقت ہم بچے تھے اس نے بولا ہاں پھر اس نے پوچھا فضی کیـا مـیں ان کو چھوسکتا ہوں مـیں بولی پاگل ہو کیـا اس نے بولا پلیز اور کچھ نہیں کروں گا مجھے تمہارے بوبز بوہوت اچھے لگتے ہیں پلیز مجھے چھونے دو مـیں نے بولا صرف ان کو نا بولا ہاں مـیں بولی ٹھیک ہے اس نے مجھے اپنے قریب کر لیـا اور اپنے دونوں ہاتھ مـیری چھاتیوں پر رکھ دیے اور انکو دبانے لگا مـیری چھاتیـاں بھی ہارڈ ہونے لگیں اور مـیری چوچیـاں تن گئیں مـیری چوت گیلی ہونے لگی پھر اس نے مـیرے ہونٹوں کو چوم لیـا اور کافی لے کر لاؤنج چلا گیـا مـیرے بدن کو بہت دنوں کے بعدی مرد نے چھوا تھا اور ایک آگ سے مـیرے بدن مـیں لگ گئی تھی لیکن مـیں نے خود کو سنبھالا اور اپنے کمرے مـیں چلی گئی رات بھر مـیں جلتی رہی مجے سیکا بخار چڑھ گیـا بوہوت بار سوچا کہ جنگی کے پاس جاؤں اور اپنی چوت کی پیـاس بجھاؤں لیکن پھر انگلیـاں ڈال کر چوت کو تسلی دی اور بہت دیر بعد ننگی ہی سوگئی صبح اٹھی اور کپڑے پہنے پھر اس کے کمرے گئی اس کو اٹھایـا اس کو اٹھاتے وقت مـیری نظر اس کے لنڈ پر پڑی جو کہ فل کھڑا تھا پھر مـیں باھر آگئی ناشتہ بنانے لگی ناشتہ جب تیـار ہوا تو وہ بھی ڈائننگ ٹیبل پر تھا مـیں رات کے کپڑوں مـیں تھی اور برا بھی نہیں پہنی ہوئی تھی مـیری قمـیض ٹرانسپیرنٹ تھی جج مـیں مـیرا اوپر کا جسم کافی حد تک نظر آرہا تھا اور اس کی نظر مـیرے جسم کا طواف کررہی تھی.<br />مـیں اس کی نظروں کو سمجھ رہی تھی لیکن انجان بنی رہی پھر ناشتے کے بعد اس نے بولا فضی تم مـیرے کمرے مـیں آؤ مـیں بولی ٹھیک ہے برتن کچن مـیں رکھنے کے بعد مـیں اس کے کمرے مـیں گئی تو اس نے مجھے بولا بیٹھو مـیں بیٹھ گئی تو اس نے بولا فضی مـیں تم سے بوہوت محبت کرتا ہوں پھر اس کی آنکھوں مـیں آنسو آگۓ مـیں نی اس کو اپنی بانہوں مـیں بھر لیـا مـیں اس کے دکھہ کو سمجھتی تھی کچھ درون رونے کے بعد اس نے مجھے اپنے سے لپٹا تے ہوتے بیڈ پر لیٹ گیـا مـیں اب اس کی بانہوں مـیں تھی اس نے مجھے زور سے پکڑا ہوا تھا کہ جیسے مـیں اس سے دور جارہی ہوں پھر اس نی بولا فضی مـیں تمہارے ساتھہ نہانا چاہتا ہوں مـیں بولی اب مـیںی کی بیوی ہوں مـیں ایک شادی شدہ عورت ہوں اس نی بولا فضی مجھے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے شادی سے پھلے ہی سیکیـا ہوا ہے مـیں بولی جھوٹ مت بولو اس نے بولا فضی مجھے معلوم ہے یـار مـیں بولی سے کیـا مـیں نے اس نے بولا اگر بتا دیـا پھر تم نہاؤگی مـیں بولی ہاں تو اس نے بولا تم نے پہلی بار افروز سے نہیں چدوایـا سوات مـیں مـیں حیران ہوگئی اس نے بولا یہ سچ نہیں ہے کیـا؟ مـیں بولی اور اس نے بولا اپنے ٹیچر سے بھی چدوایـا مـیں نے پوچھا تم کو نے بتایـا اس نے بولا چھوڑو اس بات کو مـیں بولی بتاؤ نا اب جو تم بولو گے وہ ہی ہوگا اس نے بولا افروز نے خود بتایـا تمہاری شادی کے دن کہ وہ تم کو بوہوت بار چود چکا ہے.</span></b></div><span style="font-size: large;"><span style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;"><b>پھر اس نے مجھے اٹھایـا اور باتھ روم مـیں لے گیـا وہاں اس نے مـیری قمـیض اتاری پھر اس نے شلوار کو نیچے کھینچی مـیں نے لاسٹک پہنی تھے شلوار آسانی سے اتر گئی مـیں جنگی کے سامنے ننگی تھے پھر اس نے مجھے بولا مـیرے کپڑے اتارو مـیں نے پھلے اس کی قمـیض کو اتارا پھر اس کے پاجامے کا ناڑا کھینچا اور اس کے پاجامے کو اترنے لگی اتارتے ہوۓ اس کا لنڈ مـیرے چہرے سے ٹکرایـا مـیں ایک بار پھر 14 سال پھلے کی طرح اس کے سامنے ننگی تھی اس نے شاور کھول دیـا مجھ کو اپنے سے لپٹا لیـا اور بولا فضی کاش تم ہمـیشہ یوں ہی مـیرے ساتھ نہاتی مگر تمہاری چوت مـیں تو آگ لگی تھی جو شادی کرلی لیکن کیـا فائدہ آج بھی تم پیـاسی ہو مـیں اس کی بانہوں مـیں تھی اور اس کا لنڈ مـیری چوت کو ٹچ ہورہا تھا پھر اس نے شمپو لیـا اور مـیرے جسم کو دھونے لگا مـیرے جسم پر اپنا حق جتارہا تھا مـیری چھاتیوں کو خوب دبا رہا تھا پھر نیچھے ہاتھ لی جانے لگا پھر اس نے مجھے بیٹھا دیـا اور مـیری ٹانگیں کھول دیں اور چوت کو دیکھ کر بولا فضی جب ہم بچپن مـیں نہاتے تھے تو تمہاری چوت کتنی معصوم تھی ایک کلی کی طرح اور آج دیکھو چدنے کے بعد ایک دم گلاب کا پھول ہوگئی ہے بولو کیـا مـیں بھی اس چوت کا مالک بن سکتا ہوں مـیں بولی جان آج مـیں تمہاری ہوں پھلے تمہارا لنڈ بھی تو بہت چھوٹا سا تھا آج دیکھو مـیری چوت کے لئے کتنا بیتاب ہے وہ بولا یہ ہمـیشہ سے ہی تیری چوت کا طلبگار رہا ہے پھر اس نے خوب رگڑھ کر مـیری چوت کو گرم کیـا مـیری چوت گیلی تھی پھر ہم نہاے پھر اس نے مجھے تولیےسے خشک کیـا اور مـیں نے اس کو اس نے مجھے اپنی گود مـیں اٹھایـا اور بیڈروم لی آیـا مجھے اس نے بیڈ پر لٹایـا اور مـیری ٹانگیں کھول کر اپنی انگلی مـیری چوت مـیں ڈال دی اور دوسرے ہاتھ سے مـیری چھاتیوںکو دبانے لگا مـیں مست ہورہی تھی پھر اس نے مجھے بولا لنڈ منہ مـیں لیتی ہو مـیں نے بولا نہیں اس نے بولا افروز کا تو لیتی تھی نا تو مـیرے لنڈ پر کانٹے لگے ہیں کیـا مـیں بولی جب سب معلوم ہے تو پھر کیوں پوچتھے ہو اس نے مـیری چوت کو چھوڑا اور اپنا ٧.٤ کا لنڈ مـیرے منہ مـیں دیـا مـیں نے بھی بھوکی رنڈی کی طرح اس کو چوپے لگانے لگی پھر اس نے بولا اب مـیں تجھے چودوں گا مـیں بولی افروز تو مـیری چوت بھی چاٹتا تھا اس نے بولا پھر کبھی یـار آج تو مجھے تمہاری چوت کو چودنے دو پھر وہ مـیری چوت کے پاس آیـا اور اس نے مـیری دہکتی چوت پر اپنا لنڈ رکھا اور اندر کردیـا اوہ اوہ اوہ مـیری چوتکو اسکی منزل مل گئی اور جہانگیر کو اس کا پیـار اس نے مـیری چوت کو تیز تیز جھٹکے دئےمـیری آوازوں سے پورا کمرہ گونج رہا تھا آہ آہ اف ف ف ف ف ھوی وہ مـیری چھاتیوں کو اپنے گرم ہاتوں سے زور زور سے دبا رہا تھا وہ بول رہا تھا فضی مـیں کب سے تم کو چودنا چاہتا تھا لیکن تم اب ای مـیرے لنڈ کے نیچے مـیں سمجھو ہواؤں مـیں تھی اس نے پھر مجھے گھوڑھی بنایـا اور مـیری چوت مـیں پھر سے اپنا لنڈ زور سےڈال دیـا مـیں چیخ اٹھی اوہ آہستہ تو اسنےبولا چپ رنڈی مـیں آج تجھے چود چود کر مار ڈالوں گا مادر چود لوگوں سے تو ایسے آرام سے چدواتی ہے پھر اس نے زور زور سے جھٹکے دئے اسکا ہر جھٹکا سمجھو مجھے ایک نئی لذت سے دوچار کر رہا تھا مـیں چھوٹنے والی تھی اس کو بولا جنگی زور سے اور زور سے چود اپنی بہن کو وووووووووو آ ہ ہ ہ ف ف ف ف ماں مـیں چھوٹنے والی ہوں وہ بولا بس صبردونوں ساتھ چھوٹ تے ہیں مـیں بولی جلدی نکالو مـیرے من مـیں مـیں فارغ ہو جاؤ لیکن جب تک دیر ہوچکی تھی اس نے مـیری چوت مـیں ہی اپنا پانی چھوڑ دیـا پھر وہ مـیرے اوپر ہی لیٹ گیـا اس کا لنڈ آھستہ آھستہ مـیری گانڈ پر چھوٹا ہوا پھر وہ بولا فضی تم نے گانڈ بھی مروائی ہے ہے نا مـیں بولی ہاں وہ بولا نے پھلے گانڈ مـیں چودا مـیں نے بولا ٹیچر نے پھر شوہر نے پھر اس مجھ سے الگ ہوتے ہوۓ پوچھا اور چودا کتنوں نے مـیں نے سب کا بتادیـا.</b></span><span style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;"></span></span><div style="background-color: #fafafa; color: #333333; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; margin-bottom: 0px; margin-left: 0px; margin-right: 0px; margin-top: 0px; padding-bottom: 0px; padding-left: 0px; padding-right: 0px; padding-top: 0px; text-align: right;"><span style="font-size: large;"><b>پھر مـیں نے پوچھا کتنیوں کو اب تک چودا ہے اس نے بولا 5 کو مـیں نے پوچھا سب سے پہلےکو چودا وہ بولا تمہاری بھابھی کو مـیں بولی کب اس نے بولا اس کی شادی سے 2 ماہ پھلے پھر جب تک گھر والی نہیں آۓ ہم مـیاںبیوی کی طرح رہے گھر مـیں تو وہ مجھے ننگا ہی رکھتا اور بہت بار اس نے مـیری گانڈ بھی چودی پھر جب گھر والی آۓ تو اس نے مجھے اور بھابھی کو اکھٹے بھی چودا وہ کہانی پھر کبھی لکھوں گ</b></span></div>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-36400173297173378512012-03-24T03:13:00.001-07:002012-03-24T03:13:37.593-07:00

Dard e Chudai

<span style="color: red;"><br style="background-color: #fafafa; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: 13px;" /><span style="background-color: #fafafa; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: x-large;">مـیری زندگی مـیں آنے والا پہلا مرد مـیرا کلاس فیلو، پڑوسی اور بچپن کا دوست شکیل تھا۔ ہم دسویں جماعت مـیں ساتھ پڑھتے تھے۔ مـیں مـیتھ اور فزمـیں بہت ویک تھی۔ شکیل ہماری کلاس مـیں مـیتھ کا ایکسپرٹ تھا۔ امتحان مـیں چند دن باقی تھے اور مـیری مـیتھ کی کچھ تیـاری نہیں تھی۔ ایک دن امـی نے کہا کہ مجھے شکیل سے ایک دو گھنٹے پڑھ لینا چاہئیے۔ مـیں نے شکیل سے بات کی اور وہ راضی ہوگیـا۔ اگلے دن سے مـیں اس کے گھر ٹیوشن پڑھنے جانے لگی۔<br /><br />وہ ہفتے کی شام تھی جب مـیں شکیل کے گھر پہنچی۔ مـیں نے کافی دیر تک بیل بچائی تب شکیل نے دروازہ کھولا اسکے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے۔ مـیں اندر ڈرائنگ روم مـیں جاکر بیٹھ گئی اور شکیل مـیرے سامنے بیٹھ گیـا۔ اس نے کہا سبین ایسا کرو آج چھٹی کرو کل پڑھیں گے تم گھر جاؤ۔ مـیں نے کہا نہیں شکیل اب امتحان اتنے قریب ہیں اور تم کیوں خواہ مخواہ مجھے بھگارہے ہو۔ شکیل بولا دراصل مـیرا ایک دوست آیـا ہوا ہے اوپر مـیرے کمرے مـیں ہے اور تم جانتی ہو دنیـا کو اگری نے تمہیں دو جوان لڑکوں کے ساتھ گھر مـیں اکیلے دیکھ لیـا تو باتیں بنیں گی۔<br /><br />کوئی باتیں واتیں نہیں بنتیں کہاں ہے تمہارا دوست مـیں بھی ملوںاس سے۔ شکیل کہنے لگا وہ اوپر ہے ٹی وی دیکھ رہا ہے۔ تم جاؤ پلیز مـیں تمہیں بعد مـیں ملوادوں گا۔ مـیں ضد کرنے لگی کہ نہیں مـیں ابھی ملوں گی۔ اور پھر ایسے ہی شکیل کو تنگ کرنے کے لئیے مـیں اوپر کی طرف بھاگ پڑی شکیل مـیرے پیچھے دوڑا۔ اس کے کمرے کا بند دروازہ کھولا تو مـیں دھک سے رہ گئی۔<br /><br />اس کے ٹی وی پر ایک ٹرپل ایفلم پوز ہوئی تھی۔ ایک لڑکا اپنا بڑا سا لنڈ ایک چوت مـیں ڈال رہا تھا۔ مـیں پہلے بھی ایک دو ٹرپل ایفلمز اہنی ایک سہیلی کے ساتھ دیکھ چکی تھی۔ شکیل بھی پیچھے سے آگیـا۔ اس کے چہرے پر ہوائیـاں اڑ رہی تھیں۔ اور مـیرے ذہن مـیں ایک منصوبہ طے پارہا تھا۔<br /><br />آئی ایم سوری سبین۔ اس نے کہا۔ کوئی بات نہیں شکیل مـیں نے کہا۔ اگر تم یہ فلم دیکھ رہے تھے تو مجھے پہلے بتادیتے۔ تم کیـا مجھے اتنا بیک وارڈ سمجھتے ہو؟ وہ بولا نہیں یـار مگر تم ایک لڑکی ہو اور۔ لڑکی لڑکا کچھ نہیں ہوتا پہلے مـیں تمہاری دوست ہوں۔ اب مـیں بھی تمہارے ساتھ بیٹھ کر یہ مووی دیکھوں گی۔ شکیل کے ذہن مـیں بھی فورا وہ شیطانی خیـال آگیـا جو مـیرے ذہن مـیں تھا۔<br /><br />فلم دیکھتے ہوئے مـیں شکیل کی پینٹ مـیں تنے ہوئے ٹینٹ کو دیکھ کر اسے مشورہ دیـا کہ وہ اپنی پینٹ اتار دے۔ وہ بولا مـیں اتار دوں گا مگر تم بھی اپنی شلوار اتارو۔ مـیں مان گئی۔ پھر مـیں نے آہستہ سے اسکے لنڈ کو اپنے ہاتھ مـیں لیـا۔ اس کا لنڈ چھ انچ کے قریب تھا اور جیسا مـیں نے فلموں مـیں دیکھا تھا ویسا ہی موٹا تھا۔ شکیل نے مجھے اپنی بانہوں مـیں دبوچ لیـا۔ مـیرے ممے مسلتے ہوئے وہ مجھے ہونٹوں پر کرتا رہا۔ پھر اس نے مـیری قمـیض اتاری مـیری بریزر کھولی اور مـیرے مموں کو اپنے منہ سے چوسنے اور کانٹنے لگا۔ مـیرے جسم مـیں بجلی کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور مـیری چوت مـیں آگ لگی ہوئی تھی۔ پھر اس نے مـیری چوت کو اپنی زبان سے چودا۔ اب بس مـیری برداشت سے باہر ہوگیـا تھا۔ "پلیز شکیل مجھے چودو مـیری کنواری چوت کو پھاڑ دو مجھے عورت بنادو۔<br /><br />مـیں تھوڑا ڈری ہوئی تھی کہ کہیں مـیں پریگنینٹ نہ ہوجاؤں مگر مـیرا ڈر تب دور ہوگیـا جب شکیل نے اپنی الماری سے کنڈم نکالا۔ اس نے اپنے لنڈ پر کنڈم چڑھا کر مجھے بیڈ پر لٹایـا اور اپنا لنڈ مـیری چوت پر رکھ دیـا۔ پھر ہلکے ہلکے اندر ڈالنے لگا اور ایکدم جھٹکا مار کر اندر ڈال دیـا جس سے مـیری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ مجھے چودنا شروع کیـا۔ جیسے جیسے اس کے لنڈ آگے پیچھے ہوتا ویسے ویسے مـیری چوت اور لنڈ کے لئیے آگے بڑھتی اور آہستہ آہستہ اس نے اپنی اسپیڈ بڑھانا شروع کردی۔ ساتھ ہی وہ مـیری ممے بھی دبارہا تھا اور مجھے بھی کر رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ سلو ہوگیـا اور رک گیـا مـیں سمجھ گئی کہ وہ فارغ ہوگیـا ہے۔ پھر اسے نے اپنا لنڈ مـیری چوت مـیں سے نکالا اور کنڈم اتارا اس مـیں موجود منی اسنے مـیرے مموں پر ڈال کر مسلنا شروع کردیـا اور اپنی انکلی سے مـیری چوت بھی چودتا رہا۔ اس سے مـیں بھی جلد ہی فارغ ہوگئی۔<br /><br />اس کے بعد کئی مرتبہ شکیل نے مجھے چودا گروپ <br />شکیل کے ساتھ ایک بار سیکرنے سے تو جیسے آگ بھڑک گئی اب شکیل روز ہی پڑھائی کے دوران مـیرے ممے دباتا چوت سہلاتا۔ مـیں بھی اس کے لنڈ پر ہاتھ پھیرتی۔ کبھی اس کے گھر والے کہیں گئے ہوئے ہوتے تو پھر ہم اور سیکرتے۔ اسی نے مجھے لنڈ چوسنا سکھایـا۔ پہلے تو مجھے بہت گندا لگا مگر بعد مـیں اچھا لگنے لگا۔ ایک لڑکے کا لنڈ مـیرے منہ مـیں۔<br /><br />ایک دن شکیل کہنے لگا کہ مـیرے دو دوست ہیں وہ بھی تمہیں چودنا چاہتے ہیں پہلے تو مـیں غصہ ہوئی مگر بعد مـیں مـیں نے سوچا کہ کیوں نہیں؟<br /><br />پھر ایک دن شکیل مجھے ٹیوشن سینٹر مـیں داخلہ دلانے کے بہانے گھر سے لے آیـا اور ہم اس کے دوست کے گھر پہنچے۔ شکیل کا ایک دوست اسی کی عمر کا تھا سترہ سال کا دوسرا لڑکا تھوڑی بڑی عمر کا تھا کوئی چوبیس سال کا۔ کم عمر لڑکے کا نام کاشف تھا اور بڑے لڑکے نام عمران۔ عمران مجھے بہت اچھا لگا۔ لمبا قد اور چوڑا چکلا باڈی بلڈر ٹائپ کا جسم تھا اس کا اور اس کی شرٹ مـین سے سینے کے بال بھی جھانک رہے تھے ۔<br /><br />بیڈ روم مـیں پہنچ کر ان تینوں نے مجھے ادھر ادھر سے چومنا چاٹنا شروع کردیـا۔ پھر کاشف نے مـیری قمـیض اتاری اور عمران نے مـیرا بریزر کھول کر مـیری چوچی منہ مـیں لے لی۔ اس کی شیو مـیرے مموں پر چبھ رہی تھی۔ اتنے مـیں عمران نے مـیری شلوار اتاری اور مـیری چوت چاٹنے لگا اب مـیں بہت گرم ہوچکی تھی۔ عمران بیڈ پر کھڑا ہوگیـا اب اس کا لنڈ مـیرے منہ کے سامنے تھا اور وہ سارے کپڑے اتار چکا تھا۔ اس کا لنڈ بہت بڑا تھا آٹھ انچ لمبا اور بہت موٹا۔ اس نے اپنا لنڈ مـیرے ہونٹوں پر رکھا اور مـیں نے خوشی خوشی اس کا لنڈ چوسنا شروع کردیـا۔ اس کا لنڈ چونکہ بہت بڑا تھا اسلئیے مجھے چوسنے مـیں دشواری ہورہی تھی۔ مـیں آہستہ آہستہ عمران کا لنڈ چوس رہی تھی اور کاشف مـیری چوچیـاں اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا اور شکیل مـیری چوت اپنی زبان سے چود رہا تھا۔ زبان سے چودتے چودتے وہ اپنی انگلی مـیری گانڈ کے پر سہلانے لگا اور پھر اس نے اپنی انگلی پر تھوک کر مـیری گانڈ کے پر لگایـا۔ اور آہستہ آہستہ مسلنے لگا۔ جیسے ہی اس نے اپنی انگلی مـیری گانڈ مـیں ڈالی مجھے درد کا احساس ہوا۔ شکیل رک گیـا اور مـین اسی طرح عمران کا لنڈ چوستی رہی۔<br /><br />اتنے مـیں کاشف نے اپنے کپڑے اتارے اس کا لنڈ شکیل جیسا تھا ساڑھے چھ انچ کا پر بہت موٹا تھا۔ کاشف نے کنڈم چڑھا کر مجھے بیڈ پر لٹا دیـا اب عمران مـیرے منہ پر بیٹھ کر اپنا لنڈ مـیرے منہ مـیں دے رہا تھا اور اور مـیری ٹانگیں کاشف کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھیں اور شکیل مـیری چوچیـاں کے بیچ مـیں اپنا لنڈ رگڑ رہا تھا۔ پھر کاشف نے دھیرے سے اپنا لنڈ مـیری چوت مـیں ڈالا اور آہستہ آہستہ جھٹکے مارنے لگا۔ کاشف کے دھکوں سے مـیری چوچیـاں آگے پیچھے ہوتیں تو شکیل کے منہ سے نکل جاتیں۔ مـیری چوچیوں پر اب شکیل عمران اور کاشف تینوں کے دانتوں کے نشان موجود تھے۔ عمران کا بڑا لنڈ چونکہ مـیرے منہ مـیں صحیح فٹ نہیں آراہا تھا اسلئے اس نے شکیل کو موقع دیـا اور شکیل نے اپنا لوڑا مـیرے منہ مـیں دے دیـا۔ مـیں شکیل کا لوڑا لالی پوپ کی طرح چوس رہی تھی عمران مـیری گانڈ مـیں اپنی انگلی ڈال کر آگے پیچھے کرنے لگا اور کاشف مجھے دھواں دار چود رہا تھا۔ اس کے بعد عمران بولا کہ کیـا کبھی تم نے تین لنڈ ایک ساتھ لئیے ہیں؟ مـیں بولی نہیں اس نے کہا لوگی؟ مـیں نے کہا ہاں۔ وہ جلدی سے ایک بوتل لایـا جس مـیں جیل جیسا کوئی لوشن تھا۔ کاشف نے اپنا لنڈ مـیری چوت سے نکال لیـا۔ عمران نے ڈھیر سارا لوشن مـیری گانڈ اور چوت پر ڈالا اور مـیری گانڈ مـیں آہستہ آہستہ انگلی کرنے لگا۔ پہلے تو تھوڑا درد ہوا بعد مـیں مزہ آنا لگا۔ پھر اس نے دونوں انگلیـاں مـیری گانڈ مـیں ڈال دیں۔ جب مـیرا دو انگلیـاں برداشت کرنے کا قابل ہوگیـا تو اس نے شکیل کو کہا کہ وہ مـیری گانڈ مارے۔ کیونکہ اس کا لنڈ سب سے چھوٹا ہے۔ شکیل نے ڈوگی پوزیشن مـیں آہستہ سے اپنا لنڈ مـیری گانڈ مـیں ڈالنا شروع کیـا۔ جب اس کا ٹوپا اندر پہنچا تو اس نے ایک جھٹکے سے پورا اندر گھسیڑ دیـا۔ مـیں زور سے چیخی اور کاشف نے مـیرے منہ پر ہاتھ رکھ دیـا اور عمران نے مـیرے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لئیے اور شکیل جلدی جلدی جھٹکے مارنے لگا۔ درد ہوا اور مـیری آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد مزہ آنے لگا۔ مـیرے ممے شکیل کے جھٹکوں سے آگے پیچے ہورہے تھے کہ عمران نے شکیل کو اشارہ کیـا اور شکیل سلو ہوگیـا اور پھر اپنا لنڈ مـیری گانڈ مـیں ڈالے کھڑا رہا عمران مـیرے نیچے آکر لیٹ گیـا اور اس نے اپنے لنڈ سے مـیری چوت کا نشانہ لیـا۔ اس نے مـیرے کولہوں پر ہاتھ رکھا جن کے بیچ مـیں پہلے ہی شکیل کا لنڈ تھا اور آہستہ سے مجھے اپنے لنڈ کی طرف گھسیٹا مـیری چوت سے پہلے ہو جوس بہہ رہے تھے اور لوشن لگا تھا جس کی وجہ سے اس کا آٹھ انچ لمبا لنڈ آرام سے مـیری چوت مـیں چلا گیـا۔ اس کا لنڈ اتنا بڑا اور موٹا تھا کہ مجھے لگا مـیری چوت فل پھٹ جائے گی۔ اس اوپر نیچے ہونا شروع کیـا اور پھر شکیل نے مـیری گانڈ مارنا شروع کردی اب شکیل مجھے گانڈ مـیں جھٹکا مارتا تو مـیری چوت مـیں عمران کا لنڈ فل گھس جاتا پھر وہ لنڈ نکالتا تو عمران کا لنڈ بھی پیچھے ہوتا۔ اتنے مـیں کاشف نے اپنا لنڈ مـیرے منہ مـیں دے دیـا۔ تین لڑکے ایک ساتھ مجھے چود رہے تھے اور مـیرے جسم کا فائدہ اٹھا رہے تھے اور مـیرے جسم مـیں آگ لگی ہوئی تھی۔ اتنے مـیں شکیل نے زور پکڑا اور جلدی جلدی مـیری گانڈ مارنے لگا مـیں سمجھ گئی کہ وہ فارغ ہونے والا ہے۔ اس کے فارغ ہوتے ہی کاشف نے مـیری گانڈ ماری اور فارغ ہوگیـا جبکہ عمران ابھی تک مجھے چود رہا تھا اور فارغ نہیں ہوا تھا۔ پھر اس نے اپنا لنڈ مـیری چوت سے نکالا اور ڈوگی پوزیشن مـیں مـیری گانڈ ماری۔ آدھے گھنٹے تک گانڈ مارتا رہا یہاں تک کہ کاشف اور شکیل کے لنڈ دوبارہ کھڑے ہوگئے۔ پھر اس نے اپنا لنڈ مـیری گانڈ سے نکالا اور مجھے بیڈ پر لٹایـا اور اپنا ہاتھ چلاتے ہوئے اپنی منی مـیرے مموں پر ڈال دی۔ اس کے فارغ ہونے کے بعد کاشف نے ایک بار پھر مجھے چودا اور شکیل نے مـیری گانڈ ماری۔<br />جس کے بعد ہم سب نے ایک ساتھ شاور لیـا جہاں اکیلے عمران نے مجھے بیس منٹ تک لگاتار چودا۔ اتنی چدائی کے بعد مجھے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا اور مـیں بڑی مشکل سے گھر پہنچی</span>&nbsp;</span><span style="color: red; font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif; font-size: x-small;"><br /></span>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-58961021526733753152012-03-24T03:10:00.005-07:002012-03-24T03:10:52.128-07:00

Haseena

<b><span style="background-color: black; color: orange; font-size: large;"><span style="font-family: Verdana, Arial, Tahoma, Calibri, Geneva, sans-serif;"><br />مـیرا نام حسنہ ہے مـیں کراچی کی رہنے والی ہوں مـیں ایک شادی شدہ خوبصورت عورت ہوں مـیرے 2 بچے ہیں مـیرے شوہر انگلینڈ مـیں جاب کرتے ہیں اور ہر 2 سال کے بعد آتے ہیں جس کی وجہ سے مـیں ہمـیشہ پیـاسی رہتی ہوں یہ واقعہ 2 سال پہلے کا ہے مـیں اپنی سیکی پیـاس کی وجہ سے بہت پریشان تھی شوہر کو ڈیڑھ سال ہوا تھا مجھ سے گۓ ہوتے مـیں فل گرم تھی ایک دیں مـیں اپنی چھوٹی بہن کے گھر گیئ جو کہ مـیرے گھر کے قریب ہی تھا وہاں مـیں نی اس کے دیور کو دیکھا تو مجھے اچھا لگا مـیں نے اسی وقت سوچا کہ اس سے دوستی کرنی چاہیے وہ بھی مجھ مـیں دلچسپی لے رہا تھا اس کا نام فیروز ہے شام کو مـیں اپنے گھر آگئی مـیں نے رات کو اس کے نام کی انگلیـاں اپنی گرم چھوت مـیں ڈالیں. پھر کچھ دن بعد مـیری بہن اور اس کی ساس کو ایک شادی مـیں لاہور جانا پڑااور اس کے گھر مـیں دن کو صرف فیروز رہتا اور شام کو مـیرے بہنوئی بھی آجاتے بھن کے جاتے ہی ایک دن بعد مـیں ان کے گھر چلی گئی گھر مـیں صرف فیروز تھا. مـیں نے جب ڈور بیل دی تو اس نے دروازہ کھولا مـیں اس کے گھر چلی گئی تو اس نے پیچھے سے آواز دی بھابھی تو نہیں ہیں وہ اور امـی کل لاہور چلی گئی ہیں مـیں بولی ہاں مجھے معلوم ہے مـیں تو صرف یہ دیکھنے آئی ہوں کہ تم کوی چیز کی ضرورت تو نہیں تو اس نے کچھ نہیں بولا شاید وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ کوئی اس کے ساتھ رہے مـیں اس کے کمرے مـیں گئی وہاں مـیں نے بولا تم کوی چیز کی کمـی تو نہیں اس نے بولا کوئی خاص نہیں پھر ہم باتیں کرتے رہے پھر مـیں نے اس کو بولا کہ مـیں تمہارے باتھ روم استعمال کرسکتی ہوں اس نے بولا ہاں حسنہ باجی کیوں نہیں مـیں باتھ روم گئی اپنے سارے کپڑے اتارے اور نہانے لگی پھر کچھ دیر بعد مـیں نے صرف قمـیض اور شلوار پہنی برا نہیں پہنی اس کو گرم کرنے کے لئے جب مـیں بھر ای تو وہ کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا تھا مـیں اس کے سانے بیٹھ گئی اور بال سکھانے لگی تولئے سے اس کی نظر مـیری گیلے مموں پر پڑی تو ایک دم اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیـا لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں بولا اور کن انکھیوں سے مجھے دیکھتا مجھے معلوم تھا کہ مـیرے d/34 کے ممے اس کو پاگل کرہے ہیں پھر مـیں نے اپنے بالوں کو باندھا اور اس کو بولا دوپہر کے لئے کچھ ہے تو اس نے بولا بازار سے کچھ لے آؤنگا مـیں بولی او کچن مـیں. مـیں کچھ پکا دوں تو اس نے بولا ٹھیک ہے پھر ہم کچن چلے گئے مـیں نے دوپٹہ بھی نہیں لیـا اس کی حالت کو دیکھ کر مجھے بھی مزہ آرہا تھا ہم چکن کڑاہی کے موڈ مـیں تھے جب ہم کچن مـیں تھے تو اس نے مـیری گانڈ کو ٹچ کیـا لیکن مـیں کچھ نہیں بولی مـیں برتن صاف کرتی رہی وہی نہی بہانے سے آکر مجھے ٹچ کرتا کچن مـیں گرمـی بھی بہت تھی جس کی وجہ سے مجھے پسینہ آرہا تھا جس کی وجہ سے مـیں بھیگ گئی تھی اور مـیرے ممے اس کو ایک بار پھر سے صاف نظر آرہے تھے پھر مـیں نے کڑاہی پکانی شروع کی تو اتنے مـیں لائٹ بھی چلی گئی اور ایگزاسٹ بھی بند ہو گیـا تو گرمـی سے برا حال ہوگیـا مـیں پسینے مـیں ور ہوگئی فیروز بولا باجی بوہوت گرمـی ہوگئی ہے مـیں بولی ہاں اس نے بولا مـیرا تو جی چاہتا ہے کہ اپنی ٹی شرٹ اتاردوں مـیں بولی اتاردو اب مجھ سے کیـا شرمانا تو اس نے اپنی شرٹ اتاردے مـیں اس کے بنے ہوتے خوبصورت بدن کو دیکھ کر حیران ہوگئی پھر اس نے بولا باجی آپ بھی اپنی قمـیض اتارلو گرمـی ہے مـیں بولی پاگل ہو کیـا اس نے بولا کیوں مـیں بولی تم کو مـیرا بدن نظر آجانے گا اس نے بولا ابھی کونسا نظر نہیں آرہا مـیں نے پوچھا کیـا نظر آرہا ہے اس نے کہا آپ کے بریسٹ آپکا پورا بدن پلیز اتار دیں نا مـیں بولی تم اتار دو وہ مـیرے قریب آیـا اور مجھ سے ٹچ ہوکر مـیری قمـیض کو اٹھا دیـا اور مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوتے مـیری قمـیض کو اتاردیـا مـیرے ممے اس کے سامنے ننگے تھے پھر کھانا تیـار ہوا تو مـیں بولی اب کھانا کہاں ہے تو اس نے بولا کہ مـیرے روم مـیں چلو ہم وہاں گئے کھانا کھانےکے بعد ہم نے برتن واپس کچن مـیں پوھونچاۓ مـیں جب برتن دھونے مـیں مصروف تھی تو فیروز نے قریب آکر اپنے لنڈ کو مـیری گانڈ سے ٹچ کیـا اور بولا حسنہ باجی آپ بہت خوبصورت ہیں مـیں بولی یہ کیـا کرہے ہو اس نے بولا آپ سے پیـار پھر اس نے ایک دم مـیری شلوار کو کھنچ کر اتار دیـا مـیں ایک دم ننگی تھی اس کے سامنے پھر اس نے مجھے گود مـیں اٹھا لیـا اور مجھے اپنے کمرے مـیں لے گیـا اور مجھے اپنے بد پر پھینک دیـا مـیری چوت بھی گیلی تھی مـیں نے اس کو بولا تم بھی ننگے ہوجاؤ اس نے بولا مـیرے شارٹ کو تم ہی اتارو مـیں نے اٹھ کر اس کے شارٹ کو نیچے کردیـا اور اس کے لنڈ کو دیکھ کر پریشان ہوگئی 8 انچ کا لمبا اور موٹا لنڈ اور اس کے لنڈ کا ٹوپہ بہت موٹا تھا جس کو دیکھ کر مـیرے منہ اور چوت مـیں پانی بھر آیـا مـیں نے اس کو ہاتھ مـیں لے کر مسلا تو اس نے مجھے بولا تم لیٹ جاؤ مـیں لیٹ گئی تو اس نے مـیرے مموں کو چوسنا شروع کیـا چوستے چوستے وہ مـیری چوت کی طرف گیـا اور اپنی زبان کو مـیری چھوٹ پر رکھ دیـا اور خوب چوسنے لگا 5 منٹ تک اپنی زبان سے مـیری چوت کو چودتا رہا پھر اس نے اپنا لنڈ مـیرے منہ پر رکھا اور بولا کھوسو مـیں بولی مـیں لنڈ نہیں چوستی تو اس نے بولا نخرے نہیں کر رنڈی اور زبردستی مـیرے منہ مـیں ڈال دیـا مـیں بہت مشکل سے سانس لے رہی تھی پھر اس نے مجھے پھر سے لٹایـا اور اپنے لنڈ کو مـیری چوت پر رکھ دیـا اور اندر ڈالنے لگا ڈیڑھ سال سے ان چدی چوت تھی تو اس نے ایک زور دار جھٹکا دیـا تو اسکا آدھا لنڈ مـیری چوت مـیں چلا گیـا اور مـیں چلا اٹھی اوئی ماں مر گئی اس نے ایک اور جٹکا دیـا تو سمجو مـیری چوت پھٹ گئی مـیری آنکھوں مـیں آنسو آگئے لیکن وہ رکا نہیں اور مـیری چوت کو اپنے لنڈ کے خوب سٹروک لگاتا رہا مـیرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھی چودو مجھے زور سے چودو مجھے اپنے بچے کی ماں بناؤ مـیری چوت کو پھاڑ دو اس نے بولا تو مـیری رنڈی ہے کتیـا تیری بھن بھی مـیری رنڈی بن گئی ہے تم تو اپنی بہن سے زیـادہ ی ہو تمہاری چوت بہت نرم اور گرم ہے وہ مجھے 20 منٹ تک چودتا رہا مـیں اس دوران 2 بار فارغ ہوئی پھر اس نے بولا مـیں فارغ ہونے والا ہوں کہاں ڈالوں اپنا پانی مـیں بولی اندر ہی ڈال دو پھر مـیں اور وہ ایک ساتھ ہی فارغ ہوتے اس نے مـیری چوت کو اپنی منی سے بھر دیـا<br />پھر دونوں ہی تھک کر بیڈ پر گر گئے ہم دونو کا پسینے سے برا حال تھا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے ساتھ باتھ لیـا وہاں بھی اس نے مـیری چوت کو پھر سے چود ا پھر مـیں نہانے کے بعد اپنے گھر چلی گئی اور مـیں بہت خوش تھی کہ مـیری چوت کی پیـاس بجھ گئی تھی.<br />اس دن کے بعد مـیں اپنی چوت کو بہت بار فیروز سے کے لنڈ سے چدوایـا</span>&nbsp;</span></b>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-34247812171986364292012-03-24T03:03:00.002-07:002012-03-24T03:03:48.775-07:00

Sara Ke Story

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-VuZAEd7uxbU/T22b6b6I1vI/AAAAAAAAAII/3ao6UgRVX8c/s1600/11.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-VuZAEd7uxbU/T22b6b6I1vI/AAAAAAAAAII/3ao6UgRVX8c/s320/11.gif" width="244" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-78246483754359860892012-03-24T03:00:00.001-07:002012-03-24T03:00:50.702-07:00

My Home

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-nvsEupVHWJE/T22a3_q6oZI/AAAAAAAAAG4/rpoW84Ghq70/s1600/1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-nvsEupVHWJE/T22a3_q6oZI/AAAAAAAAAG4/rpoW84Ghq70/s320/1.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-yOR4_pBNnnY/T22a5l3Y39I/AAAAAAAAAHA/unzt66VdkXs/s1600/2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-yOR4_pBNnnY/T22a5l3Y39I/AAAAAAAAAHA/unzt66VdkXs/s320/2.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-vjceNIF3QbQ/T22a9eAjarI/AAAAAAAAAHI/-HQh7zTsC3E/s1600/3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-vjceNIF3QbQ/T22a9eAjarI/AAAAAAAAAHI/-HQh7zTsC3E/s320/3.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-mwmDvr2cTb4/T22bAW65XEI/AAAAAAAAAHQ/z_XmBKycTcE/s1600/4.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-mwmDvr2cTb4/T22bAW65XEI/AAAAAAAAAHQ/z_XmBKycTcE/s320/4.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-mxFWb6dnV1Y/T22bCPNHriI/AAAAAAAAAHY/tfmPwyEoe_Y/s1600/5.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-mxFWb6dnV1Y/T22bCPNHriI/AAAAAAAAAHY/tfmPwyEoe_Y/s320/5.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-iZhdAat2LTY/T22bEahyR9I/AAAAAAAAAHg/csbkvn-x9Z0/s1600/6.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-iZhdAat2LTY/T22bEahyR9I/AAAAAAAAAHg/csbkvn-x9Z0/s320/6.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-tCDgaQl9bIE/T22bGtRXECI/AAAAAAAAAHo/9wJVUgURwxo/s1600/7.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-tCDgaQl9bIE/T22bGtRXECI/AAAAAAAAAHo/9wJVUgURwxo/s320/7.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-tMr5qJoMAbo/T22bIzEKoCI/AAAAAAAAAHw/24k2Dj29Y50/s1600/8.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-tMr5qJoMAbo/T22bIzEKoCI/AAAAAAAAAHw/24k2Dj29Y50/s320/8.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-nuq-1VuWodE/T22bK6jGEcI/AAAAAAAAAH4/XVxn1xX5m88/s1600/9.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-nuq-1VuWodE/T22bK6jGEcI/AAAAAAAAAH4/XVxn1xX5m88/s320/9.jpg" width="203" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-i6fbXwKzyZ8/T22bMuA1wSI/AAAAAAAAAIA/SKUcpzT11zY/s1600/10.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-i6fbXwKzyZ8/T22bMuA1wSI/AAAAAAAAAIA/SKUcpzT11zY/s320/10.jpg" width="203" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-53531761132134153982012-03-23T06:49:00.002-07:002012-03-23T06:49:13.647-07:00

My World

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-3iyclKSR2cA/T2x_AnUbn_I/AAAAAAAAAFo/oB9nZrpitzQ/s1600/11.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-3iyclKSR2cA/T2x_AnUbn_I/AAAAAAAAAFo/oB9nZrpitzQ/s320/11.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-3XiwpRXsX1Q/T2x_CLaMbEI/AAAAAAAAAFw/yZsTFcOp22I/s1600/100.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-3XiwpRXsX1Q/T2x_CLaMbEI/AAAAAAAAAFw/yZsTFcOp22I/s320/100.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-AsiXhlUcngE/T2x_Edap7sI/AAAAAAAAAF4/203YNZeKklE/s1600/22.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-AsiXhlUcngE/T2x_Edap7sI/AAAAAAAAAF4/203YNZeKklE/s320/22.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-1Alv3PI2l1w/T2x_F1v79VI/AAAAAAAAAGA/rZ3tcku5GQE/s1600/33.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-1Alv3PI2l1w/T2x_F1v79VI/AAAAAAAAAGA/rZ3tcku5GQE/s320/33.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/--l3FR031Olc/T2x_HBIxIoI/AAAAAAAAAGI/5ZGviLNkd6c/s1600/44.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/--l3FR031Olc/T2x_HBIxIoI/AAAAAAAAAGI/5ZGviLNkd6c/s320/44.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-wPZFNQWyvQs/T2x_Ij3ITuI/AAAAAAAAAGQ/xx3i18g8pCk/s1600/55.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-wPZFNQWyvQs/T2x_Ij3ITuI/AAAAAAAAAGQ/xx3i18g8pCk/s320/55.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-OP2UfOjPYgk/T2x_J3gM4vI/AAAAAAAAAGY/-TsuJncLbeY/s1600/66.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-OP2UfOjPYgk/T2x_J3gM4vI/AAAAAAAAAGY/-TsuJncLbeY/s320/66.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-iGgtH5fZgQ4/T2x_LpDV9HI/AAAAAAAAAGg/2nl4A99AT4M/s1600/77.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-iGgtH5fZgQ4/T2x_LpDV9HI/AAAAAAAAAGg/2nl4A99AT4M/s320/77.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-ZjkWwu-roZU/T2x_M5oZp6I/AAAAAAAAAGo/zjkr0FYQsvE/s1600/88.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-ZjkWwu-roZU/T2x_M5oZp6I/AAAAAAAAAGo/zjkr0FYQsvE/s320/88.gif" width="213" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-qKVzShBmjk0/T2x_N8w4P7I/AAAAAAAAAGw/nboAaZ3wfRs/s1600/99.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-qKVzShBmjk0/T2x_N8w4P7I/AAAAAAAAAGw/nboAaZ3wfRs/s320/99.gif" width="213" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-25119902946856354762012-03-23T05:11:00.000-07:002012-03-23T05:11:06.652-07:00

Sexy Office wali

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-ODZnyuPKJRQ/T2xoIQ_u2RI/AAAAAAAAAC4/SWZXcZm6OOo/s1600/11.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-ODZnyuPKJRQ/T2xoIQ_u2RI/AAAAAAAAAC4/SWZXcZm6OOo/s320/11.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-iuXRRvBqlOU/T2xoLFo_iQI/AAAAAAAAADA/BsNKMoMfSdU/s1600/22.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-iuXRRvBqlOU/T2xoLFo_iQI/AAAAAAAAADA/BsNKMoMfSdU/s320/22.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-FjeKt8owMsw/T2xoMUJtUdI/AAAAAAAAADI/TEOU47Os7s0/s1600/33.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-FjeKt8owMsw/T2xoMUJtUdI/AAAAAAAAADI/TEOU47Os7s0/s320/33.gif" width="226" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-34219898777323438052012-03-23T04:27:00.003-07:002012-03-23T06:49:40.250-07:00

who was that

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-yBt0NTgyP20/T2xdXbJxHuI/AAAAAAAAAB4/E2NwlKitTEw/s1600/1.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-yBt0NTgyP20/T2xdXbJxHuI/AAAAAAAAAB4/E2NwlKitTEw/s320/1.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-fP5dG1O72vc/T2xdcOEN8II/AAAAAAAAACA/t-cRKj1bvNw/s1600/2.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-fP5dG1O72vc/T2xdcOEN8II/AAAAAAAAACA/t-cRKj1bvNw/s320/2.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-IAVvwg7Wm6g/T2xdfWFtleI/AAAAAAAAACI/Ur8PxsQ-vSE/s1600/3.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-IAVvwg7Wm6g/T2xdfWFtleI/AAAAAAAAACI/Ur8PxsQ-vSE/s320/3.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-0TSo7PpTrak/T2xdj3GpuII/AAAAAAAAACQ/V7R_mgMWPYs/s1600/4.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-0TSo7PpTrak/T2xdj3GpuII/AAAAAAAAACQ/V7R_mgMWPYs/s320/4.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-Eq7A9svBdBo/T2xdo_MY-AI/AAAAAAAAACY/4NXdlwwEEp0/s1600/5.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-Eq7A9svBdBo/T2xdo_MY-AI/AAAAAAAAACY/4NXdlwwEEp0/s320/5.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-4oGR9jnMlF4/T2xdtwMBhSI/AAAAAAAAACg/JIr-yS-7Ujc/s1600/6.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-4oGR9jnMlF4/T2xdtwMBhSI/AAAAAAAAACg/JIr-yS-7Ujc/s320/6.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/-V1Ig-4A-HFs/T2xdzzIbzHI/AAAAAAAAACo/6PABsYTwAas/s1600/7.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/-V1Ig-4A-HFs/T2xdzzIbzHI/AAAAAAAAACo/6PABsYTwAas/s320/7.gif" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-zz7ulOLOMWo/T2xd3xA43hI/AAAAAAAAACw/_0J3aNTYvIs/s1600/8.gif" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-zz7ulOLOMWo/T2xd3xA43hI/AAAAAAAAACw/_0J3aNTYvIs/s320/8.gif" width="226" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-9453152507558363072012-03-23T04:14:00.002-07:002012-03-23T06:50:13.116-07:00

My friend my brother"s wife

<div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-4MPvj78BFis/T2xaoa06OPI/AAAAAAAAABA/dN5A8L9bZrI/s1600/1.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-4MPvj78BFis/T2xaoa06OPI/AAAAAAAAABA/dN5A8L9bZrI/s320/1.jpg" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/--3PsB7p6gjE/T2xashytHtI/AAAAAAAAABI/xHXKMFpUerk/s1600/2.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/--3PsB7p6gjE/T2xashytHtI/AAAAAAAAABI/xHXKMFpUerk/s320/2.jpg" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-CEgD1eFjxdk/T2xavK_BnTI/AAAAAAAAABQ/Yv4xvS1qufA/s1600/3.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-CEgD1eFjxdk/T2xavK_BnTI/AAAAAAAAABQ/Yv4xvS1qufA/s320/3.jpg" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://2.bp.blogspot.com/-p05gw4yXQsE/T2xaxsLlvwI/AAAAAAAAABY/5KJMUwjweMw/s1600/4.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://2.bp.blogspot.com/-p05gw4yXQsE/T2xaxsLlvwI/AAAAAAAAABY/5KJMUwjweMw/s320/4.jpg" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://4.bp.blogspot.com/--Osr2PuAsYg/T2xa0Nme1oI/AAAAAAAAABg/Sp46phtI07w/s1600/5.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://4.bp.blogspot.com/--Osr2PuAsYg/T2xa0Nme1oI/AAAAAAAAABg/Sp46phtI07w/s320/5.jpg" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://1.bp.blogspot.com/-803JaJVpFYU/T2xa4Xs8x6I/AAAAAAAAABo/cXHnotBGXPU/s1600/6.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://1.bp.blogspot.com/-803JaJVpFYU/T2xa4Xs8x6I/AAAAAAAAABo/cXHnotBGXPU/s320/6.jpg" width="226" /></a></div><br /><div style="clear: both; text-align: center;"><a rel="external nofollow" href="https://mimplus.ir/external.php?url=http://3.bp.blogspot.com/-W8ehvX_ttvY/T2xa6ftyBVI/AAAAAAAAABw/CkCjwiBwcP8/s1600/7.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="http://3.bp.blogspot.com/-W8ehvX_ttvY/T2xa6ftyBVI/AAAAAAAAABw/CkCjwiBwcP8/s320/7.jpg" width="226" /></a></div><br />

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3860396160820480251.post-52757739002457680702012-03-23T03:45:00.000-07:002012-03-23T03:45:11.796-07:00

Chudai k Mazy

<div style="text-align: justify;"><b><u><span style="background-color: black; color: orange; font-size: large;"><span style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;">Hello all me Alii 25 from Islamabad this is a real experience happened in my life</span><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><span style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;">My brother got married with her in 1998.At that time, she was not too y but I was still attracted towards her. I had not the knowledge of at that time. In 2000,she was the mother. That time, she became very y woman, such big boob’s n hips!! At that time, I had some knowledge about I then try to touch her tight breasts n hips. I really enjoy to b with her. I touch her thighs at the dinner table (as I sat close to her); she didn’t say anything to me! I enjoy n enjoy!! So back to the main story, my brother is an Engineer in a put company In March 2000; he was sent for training to some other country. We had a double story house,2 rooms in downstairs one of father n mother n other one is guest room while upstairs r also 2, one of her n brother n one of mine. First night, one my brother was gone, she asked me whether I’ll sleep with her as she was not aware of sleeping alone. That was a golden chance for me!! I’ll immediately accept her offer n I was in her room. The sleeping arrangement was that I was on one corner of the bed n she was on the other corner(her one child was in the middle while other one was with her grand mother downstairs).I was very happy n feeling myself lucky to b with her. Due to such excitement, I was unable to sleep n when she was slept, I watch her tight breasts n touches them.</span><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><span style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;">After a week, I decided to make a plan so that she’ll also b attracted towards me. According to my plan, I started wearing half form that mine cock was in full view it was in full errection. So at the night, I slept before the time I slept. At that time, she was not sleeping; she was trying to sleep her child. I after half an hour, (when my cock was in full erudition) got up (as I wasn’t sleeping but acting to b) and I went to the bathroom. She was staring my cock but I showed that I don’t know she was looking. So, slowly she was also attracting towards me. One night had a long chat on some topic. I placed her child on the corner n on the other corner of bed, v were .I was very close to her. After some time, my cock got errected. She started staring it n then asked me “Yai kya hoa?” I said to her “Pata nahin,yai kaabhe kaabhar hojata hai aur is main ajeebsee feelings see hojatee hain”. She said “Mujhai phlai kuen nahin baataya, phlia main iska ilaaj kar daitee!”.Then she said,”Apna cock to dikhao!, kitna baara hai” I immediately put off my half pant n it was in full freedom.My 7″ cock was in full view. First time when she saw that, she shocked n asked “yaar yai to boohat hee baara hai,itna baara to tumharia bhai ka bhe nahin hai! Yai kaisai!?”</span><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><span style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;">I replied”Yai aik secret hai!”After insisting of her i said”Aasal main main aap sai ually attracted tha,aap kai baarai main jaab bhe soochta tha, yai khaara hojata tha aur phir main iskoo haath sai reegarta tha,koob maaza aata tha aur after 2-3 mins, money nikaltee thee. Is tarha yai baara hogaya!”she said”To kya main bhe yai kuch tumharai cock kai saath kar saktee hon!?”,I said”Y not! Yai bhe koi poochnai kee baat hai!”She immediately took my cock in her hands n start rubbing tht n after 2-3 mins, it blow out lot of money in her hands. She really enjoyed tht.After it,i start kissing her.She said “Itnee bhe jaalde na karoo! Calm down!” But i daam cared she said n continued kissing her.Then i put-off her kameez.She was wearing a black bra.Wow! Wht a tight bra on tight breasts.I then put-off her bra n strat kissing her breasts.Wo!Wht breasts were they!! I then put-off her salwar n knickers too.Now she was fully nude infront of me!! Wow! Wht a beautiful women is she!!</span><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><br style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;" /><span style="font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif; line-height: 20px; text-align: left;">She then put a condom on my cock so tht v’ll b safe b/w .It was my 1st experience,so i asked her” Aab kya karoon!?” She start laughing n said”Daal boodhoo mairee pussy main aur jitna jaa sakta hai daal! Daal!Aur phir aandar baahar nikaloo aur maazai loo!!”So, i put my pussy slowly slowly in her pussy then when half of my cock entered there,she said”Aur daal,aur daaal!”I then put my full force n aprox.2-3″ more entered n then i put it n out. She said”Aur taiz karoo, aur taiz”I increased my speed.V both were realy enjoying tht!! Then after some time, my money blow out in the condom. I then put off it n slpet on her arms.I had really a nice 1st tht i can’t forget.She said to me”Itna maaza to mujhai tumharai bhai kai saath bhe nahin aaya jitna tumharai saatha aaya!”I said”You are always welcome!”She start laughing n me2.We had 2-3 times at that night I hope every body enjoy my true love story. Any Lady fromislamabad or rawalpindi want contacts me my email address m4female35@yahoo.com</span></span></u></b><span style="color: #444444; font-family: Tahoma, Arial, Verdana, sans-serif;"><span style="font-size: 12px; line-height: 20px;"><br /></span></span></div>

HOTURDUSTORIEShttp://www.blogger.com/profile/01784472266327939565noreply@blogger.com0




[انٹی کی چودایی]

نویسنده و منبع | تاریخ انتشار: Fri, 17 Aug 2018 02:42:00 +0000



تمامی مطالب این سایت به صورت اتوماتیک توسط موتورهای جستجو و یا جستجو مستقیم بازدیدکنندگان جمع آوری شده است
هیچ مطلبی توسط این سایت مورد تایید نیست.
در صورت وجود مطلب غیرمجاز، جهت حذف به ایمیل زیر پیام ارسال نمایید
i.video.ir@gmail.com